Powered By Blogger

بدھ, اگست 17, 2022

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کی رسم اجراء

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب "جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کی  رسم اجراء
(اردو دنیا نیوز٧٢)

پریاگ راج( پریس ریلیز) پریا گ راج اُتر پردیش کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی پروفیسر صالحہ رشید (صدر شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی )کی کتاب جد جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کا  ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شعبہ عربی وفارسی الہ آباد یونیورسٹی میں عمل میں آئی۔اس تقریب کا اہتمام  ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ) اور ان کی ٹیم نے کی، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو سماجی، فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، اس کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے چل رہا ہے، جہاں بچے بچیاں اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،اس کے علاوہ اس ادارے نے اب پبلیکیشن کا کام بھی شروع کیا ہے جس کے تحت دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں پہلی۔پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب اس میں شامل ہیں۔
پروفیسر صالحہ رشید بہترین معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی  اور فارسی زبانوں پر  عبور رکھتی ہیں،لیکن وہ اُردو میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ اس سے قبل ان کی کئ تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں،  جسے ادبی حلقوں نے سراہا ہے اور علمی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔اسکالر بھی  اس سے استفادہ کر رہے ہیں،
تازہ تصنیف جد جہد آزادی یہ کتاب جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک پر مبنی ایک نایاب اور شاہکار تصنیف ہے، جو ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کئی اہم مضامین ہیں، جو اردو ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہو چکے ہیں ، لیکن اب منظم انداز میں ایک کتابی شکل میں مصنفہ نے شائع کیا ہے ۔ جس کی قیمت دو سو روپے ہے، آپ اس کتاب کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلکیش پریاگ راج اور پٹنہ بہار سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، رسمِ اجراء کے موقع پر اس خوبصورت پروگرام کی نظامت اور کتاب کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) نے پیش کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن  کے اغراض و مقاصد  پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ  ضیائے حق فاؤنڈیشن کے خدمات 2011 سے سر گرم ہے، یہ تنظیم سماجی، اصلاحی، اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ علمی، ادبی، لٹریری پروگرام میں بھی ہمیشہ سرگرم رہا ہے، ادباء وشعرا کی حوصلہ افزائی کے واسطے گاہے بگاہے آن لائن، آف لائن پروگرام کا انعقاد کرتا رہتا ہے، اس تنظیم کے تحت بہار کی دارالحکومت شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے قیام میں آیا ہے، جہاں طلباء وطالبات کی جماعت علمی پیاس بجھا رہی ہے، اس کے علاوہ یہ ادارہ اُن قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اُن کو پلیٹ فارم مہیا کرانے میں پیش پیش رہتی ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا جن کو موقع نہیں مل پاتا۔اس کے بعد کتاب کا تعارف و کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد و جہد میں نمایاں ناموں کے ساتھ ایسے مجاہدین بھی شامل تھے جن کو تاریخ میں کبھی جگہ نہیں مل سکی، جن کی قربانیوں ،کوششوں اور لافانی خدمات نے آزادی کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن افسوس ان کی خدمات کا اعتراف کبھی نہیں ہو سکا یا ہوا بھی تو رسما۔۔ان تمام باتوں کی کمی پروفیسر صالحہ رشید نے اپنی اس تازہ تصنیف میں دورِ کر دی ہے انہوں نے اُن لافانی شخصیات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جن کے مطالعہ سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں ، اور یہ معلومات کہیں اور نہیں ملتی ، یقینا ان کا یہ تحقیقی کارنامہ لافانی ہے ، جسے پڑھنے ، سمجھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر نیلوفر حفیظ صاحبہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ صالحہ رشید صاحبہ کی تصنیف کردہ جد جہد آزادی یہ جنگ آزادی کی تاریخ وتحریک کو اجاگر کرتی ہے ، اور صحیح تاریخ سے آگاہ کراتی ہے ، میں اُن کو اس کاوش کے لئے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
تاثرات پیش کرنے والوں میں محمد امجد، اسامہ جلال، رضوان بھی شامل رہے، محد اسامہ نے اس کتاب کو آزادی کی تاریخ میں اہم اضافہ بتایا۔
اس پروگرام میں عتیق احمد نے بہت خوبصورت انداز میں نظمیں پڑھیں چند اشعار  پیش کئے جاتے ہیں:

مشکل دیکھ کر مسکرایا کرو
حوصلے آپ بھی آزمایا کرو
شوق اور خواہشیں تُم بھلے کم کرو
دو نوالے بھلے کم ہی کھایا کرو
علم کی شمع بھیتر جلائے رکھو
پروگرام کے آخر میں پروفیسر صالحہ رشید نے تفصیل سے اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے کی کہانی، مقصد، اور اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ انھونے کہا کہ ہماری گورنمنٹ آف انڈیا نے آزادی کے امرت مہو تسو کے ذریعہ یہ موقع دیا کہ ہم اپنی آزادی میں قربان اسلاف کو یاد کریں، انکی مٹ چکی تاریخ کو دہرائیں، انکو نئے سرے سے جاننے سمجھنے کی کوشش کریں ، اسی لیے میں نے اس کتاب میں شامل تیرہ مضامین میں آزادی کے تیرہ متوالوں کو اپنے طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ہی اُنہوں نے فاؤنڈیشن کا بھی شکریہ ادا کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ شعبہ فارسی و عربی کے لئے یہ فخریہ لمحہ ہے کہ جشن آزادی کے موقع پر ہمارے شعبے کی نمائندگی یہ کتاب کر رہی ہے۔
اس پروگرام میں بڑی تعداد میں سامعین، اسکالر، طلباء و طالبات شامل رہے۔اس پروگرام کے منتظمین میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محمد ضیاء العظیم پٹنہ، اسماء، سہراب، نشی موہنی، ہریش چندر یادو، ابھیشیک راہی، کا نام قابل ذکر ہے
آخر میں اظہار  تشکر کے ساتھ ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے  پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا،

’’سر نیم‘‘ تبدیل کرنے کا حق ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

’’سر نیم‘‘ تبدیل کرنے کا حق ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز٧٢
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’’سر نیم‘‘ (خاندانی وقبائلی سابقہ ولاحقہ) تبدیل کرنے کا حق باپ کی وفات کے بعد ماں کو دے دیا ہے، ماں اپنے بچے کو دوسرے شوہر کو گود لینے کا حق بھی دے سکتی ہے، اس طرح بچے کا سر نیم نہیں نسب بھی گود لینے والے مرد سے جڑ جائے گا، عدالت کی نظر میں ’’سرنیم‘‘ صرف نسب کا اشاریہ نہیں ہے، بلکہ وہ پوری خاندانی روایت، ثقافت اور تہذیب کا اعلانیہ ہے، ’’سر نیم‘‘ سے بچہ کی شناخت بنتی ہے۔ اب اگرماں کے مطابق ’’سرنیم‘‘ رکھنے کا اختیار نہ دیاجائے تو بچہ کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہے گی کہ وہ اس خاندان کا نہیں دوسرے خاندان کا فرد ہے۔ اس طرح بچہ دوسرے خاندان سے مربوط نہیں ہو سکے گا، عدالت کا کہنا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے ہمیں کچھ غلط نہیں لگتا۔
 سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا ہے، سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ اکیلا للتا نے دائر کیا تھا، للتا کی شادی ۲۰۰۳ء میں کونڈا بالا جی سے ہوئی تھی، لیکن صرف تین سال بعد ۲۰۰۶ء میں وہ چل بسا، اور ایک لرکا لہا د کو چھوڑ گیا، اس وقت لڑکے کی عمر ڈھائی ماہ تھی، ایک سال بعد اکیلا للتا نے دوسری شادی اکیلا روی نرسمہا سے کر لیا اور اپنے بچہ کا’’ سر نیم‘‘ اکیلا کر دیا، یہ بات پہلے شوہر کے والدین کو پسند نہیں آئی، انہوں نے ۲۰۰۸ء میں پوتے کا سر پرست بنانے کی عرضی گذاری،یہ مقدمہ گارجین اینڈ وارڈس ایکٹ ۱۸۹۰ء کے دفعہ ۱۰؍ کے تحت دائر ہوا اور ہائی کورٹ نے اہلاد کے دادا، دادی کی اس درخواست کو مان لیا، سرپرست للتا کو باقی رکھتے ہوئے للتا کو حکم دیا گیا کہ وہ بچے کا ’’سر نیم‘‘ کونڈا کر دے، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، اس نے ہائی کورٹ کی ہدایت کو ظالمانہ اور غیر معقول  قرار دے کر للتا کو سر نیم بدلنے ، بلکہ شوہر کو گود لینے اور اس کے باپ کے طور پر دوسرے شوہر کے نام درج کرنے تک کی اجازت دیدی، تاکہ بچہ اس دوسرے خاندان سے اپنے کو الگ نہ سمجھے۔
سماجی طور پر یہ فیصلہ جس قدر بھی قابل قبول ہو ، لیکن بچے کے نسب بدل دینے کی بات تو ہم جیسوں کی سمجھ میں نہیں آتی، ہمارے یہاں کسی بچے کو باپ کے علاوہ دوسرے کسی مرد کو باپ کہا جاتا ہے تو اسے بڑی گالی سمجھی جاتی ہے، اس لیے اسلام نے منہہ بولے بیٹے کو اپنا نام دینے سے منع کیا ہے اور شفقت ومحبت کے با وجود اس گود لیے ہوئے بچے کو ترکہ میں بطور وراثت حصہ دینے کا کوئی تصور نہیں رکھا، البتہ وارثوں کے علاوہ دوسرے کسی کے بارے میں بھی تہائی مال کے بقدر وصیت نافذ العمل ہے، اسی طرحہ وہ اس منہہ بولے بیٹے کے لیے بھی وصیت کر سکتا ہے، پردہ وغیرہ کے احکام اس منہہ بولے بیٹے سے اجنبی مرد کی طرح ہی باقی رہے گا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا پر عمل کے بنیادی حق تسلیم کیے جانے کی وجہ سے مسلمانوں پر نافذ العمل نہیں ہے ، لیکن کب کوئی سرپھرا اس کو نظیر بنا کرواویلا شروع کردے، کہنا مشکل ہے، اس مسئلے پر پہلے بھی کافی بحث ہو چکی ہے، اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام متنبی بل کی وجہ سے ہی عمل میں آیا تھا، جب حمید دلوائی نے متبنی بل کو یکساں سول کوڈ کی طرف بڑھتا قدم قرار دیا تھا۔

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کی طرف سے بہار سرکار کے نومنتخب

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کی طرف سے بہار سرکار کے نومنتخب
(اردو دنیا نیوز٧٢)
تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کی طرف سے بہار سرکار کے نومنتخب ہردالعزیز وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ جناب تیجسوی یادو کے ساتھ جملہ نو منتخب منتریوں بالخصوص پانچوں مسلم منتری اور ان میں ہمارے اسمبلی حلقہ جوکی ہاٹ ارریہ سے ودھایک جناب شاہنواز عالم اور قصبہ پورنیہ سے ودھایک جناب آفاق عالم صاحبان کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتاہوں۔
عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت عبدالقدوس راہی آفسیٹ پریس قاری محمد منظور اور تنظیم کے سبھی ممبران

منگل, اگست 16, 2022

عالمی غذائی بحران____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عالمی غذائی بحران____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
===================================
اردو دنیا نیوز٧٢
غذا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے،اس کی وجہ سے جسم وجان کا رشتہ بر قرار رہتا ہے، غذا نہ ملے تو انسان موت کی نیند سوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے سات سال قبل اپنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ۲۰۳۰ء تک دنیا سے غذائی بحران کو دور کرکے انسانی آبادی کو بھوکے رہنے سے بچالیا جائے گا، لیکن دیگر ممالک کے تعاون کے باوجود یہ عزم یوں ہی رہا، زمینی سطح پر غذائی بحران دور کرنے کی کوئی شکل نکل نہیں پائی، آج صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ ہی کی ذیلی تنظیم ورلڈ فورڈ کے اعداد وشمار کے مطابق غذائی قلت کی وجہ سے براسی (۸۲) کروڑ، اسی (۸۰) لاکھ لوگ بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد صرف تیرہ (۱۳) کروڑ پچاس لاکھ تھی، ورلڈ فورڈ رپورٹ کے مطابق پینتالیس (۴۵) ملکوں کے پانچ کروڑ لوگ غذائی قلت کی وجہ سے بھوک مری کے دہانے تک پہونچ گیے ہیں اور بھوکے رہنے اور سونے والے افراد کی تعداد میں پچپن (۵۵) فی صد کا اضافہ ہوا ہے، اس صورت حال کے پیدا کرنے میں روس اور یوکرین کی طویل ہو رہی جنگ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، کیوںکہ روس اور یوکرین پوری دنیا میں گیہوں کی فراہمی کا بڑا مرکز رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں استعمال ہونے والے گیہوں کی مقدار کا ایک تہائی یہی دونوں ملک فراہم کراتے تھے، ترکی کی ثالثی میں گیہوں کی بر آمدگی کو دورجاری کرنے کے ایک معاہدہ کے باوجود عملا یہ ممکن نہیں ہو رہا ہے، اس لیے غذائی بحران دور ہونے کی فی الحال کوئی شکل نہیں بن رہی ہے، ایتھوپیا، صومالیہ، یمن ، جنوبی سوڈان، افغانستان اور سری لنکا غذائی قلت کا زیادہ سامنا کر رہے ہیں، ان ملکوں کی عوام میں بے چینی ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے، امیر ممالک مثلا امریکہ اور چین اس معاملہ میں سرد مہری برت رہے ہیں، جی ۔۷ سے متعلق ممالک نے صرف ۵-۴؍ ارب ڈالر دینے کی بات کہی تھی، اس سے اتنی بڑی دنیا کا کیا بھلا ہو سکتا ہے۔
 بچوں کی فلاح وبہبود سے متعلق ایک ادارہ یونیسیف ہے، ۲۳؍ جون ۲۰۲۲ء کو جو رپورٹ اس نے جاری کی ہے اس کے مطابق اسی (۸۰) لاکھ بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کی سرحد پر دستک دے رہے ہیں۔ جو مر گیے ان میں پینتالیں (۴۵) فی صد غذائیت کی کمی سے گیے۔
ہندوستان کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں ہے، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں ۳۰۷ ؍ کروڑ کی آبادی بھر پور غذائیت سے محروم ہے، ان میں تقریبا ایک تہائی سنتانوے کروڑ سے زیادہ لوگ ہمارے ملک ہندوستان میں بستے ہیں، نیپال اور پاکستان کی حالت اور بھی خراب ہے، کیوں کہ پاکستان میں ۵ء ۱۳ ؍ فی صد اور نیپال میں چوراسی (۸۴) فی صد لوگ ایسی غذا کے حصول سے محروم ہیں جو انہیں بھر پور غذائیت فراہم کر سکے۔
 مکمل غذائیت کے حصول کے لیے آمدنی ضروری ہے، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آگنائزیشن جو اقوام متحدہ کی ہی ذیلی تنظیم ہے اس کے مطابق ہندوستان میں ۷ئ۲؍ ڈالر، ایشیا کے لیے ۷۱۵ئ۳؍ ڈالر اور عالمی سطح پر ۵۳۷ئ۳؍ ڈالر میں غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی ممکن ہے، ہندوستان میں اوسط آمدنی مقررہ اعداد وشمارسے کم ہے، اس لیے ہندوستانی شہریوں کے لئے خوراک کا حصول ہی دشوار ہوتا ہے ، چہ جائے کہ بھر پور غذائیت کا خواب دیکھا جائے، غذائی قلت کی وجہ سے انسانی جسم کمزور ہوتا ہے اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، جو مضبوط اعصاب کے نہیں ہوتے وہ غلط راہوں پر چلے جاتے ہیں، لوٹ مار، تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے سماج کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 ہندوستان زراعت پر منحصر آبادی والا ملک ہے، ہمارے کسان ہی کھیتوں میں محنت کرکے ہمارے لیے غذائی اجناس اگاتے ہیں، اگر ہم ہم کسانوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں انہیں آبپاشی، بیج اور کھاد کی فراہمی میں سہولت دے سکیں ، ان کی فصلوں کی معقول قیمت مار کیٹ میں ملے ، اونے پونے فصل خرید کر ان کا استحصال نہ کیا جائے تو یہ ملک غذائی اجناس کی قلت سے بچ جائے گا اور فاقہ کشی کے اعداد وشمار میں کمی آئے گی، ظاہر ہے یہ کام حکومت کا ہے ملک کو غذا کے اعتبار سے خود کفیل بنانے کے  سمت میں حکومت اپنی کوششیں تیز کرنی چاہیے، تاکہ یہاں کے حالات دگر گوں نہ ہوں۔

پیر, اگست 15, 2022

نعتیہ مشاعرہبمقام وزیر صاحب کے دروازے پر مچھڑگاواں بازار ضلع بتیا

نعتیہ مشاعرہ
بمقام وزیر صاحب کے دروازے پر مچھڑگاواں بازار ضلع بتیا 

(اردو دنیا نیوز٧٢)
جس زیر نظامت حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
زیر صدارت حضرت مولانا مفتی حفظ الرحمن صاحب قاسمی دربھنگہ
زیر سرپرستی حضرت مولانا شفیع اللہ صاحب مصری 
زیر عنایت حضرت مولانا خوش محمد صاحب حکیم داراشفأ مچھڑگاواں بازار
تلاوت قرآن حضرت مولانا وحافظ وقاری جرار صاحب پورنیہ
شاعر اسلام اعجاز ضیاء صاحب سیتامڑھی
بلبل ترنم جناب محمد جرار صاحب 
گلشن طیبہ عزیزم شاہد سلمہ
مہمان خصوصی حضرت مولانا حافظ وقاری ثناءاللہ صاحب جامعی تڑھا پٹی ضلع بتیا سے تشریف لائے
آخر میں آپ بھائی ایم رحمانی صاحب نے بھی شرکت کی
جس بہت سارے علماء تشریف فرماۓ

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک میں

تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک ارریہ
اردو دنیا نیوز٧٢
تحفظ شریعت و ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے دفتر راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک میں جشن یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کرتے ہوئے تنظیم کے کارکنان سکریٹری تحفظ شریعت مولانا عبدالوارث مظاہری، عبدالقدوس راہی آفسیٹ پریس بھیبھرا چوک، مولانا عبداللہ سالم قمر صاحب قاسمی چترویدی، مولانا عبدالسلام عادل ندوی صاحب، شاعر اسلام مولانا محمد فیاض راہی صاحب، شاعر نبگال قاری شمش الزماں کشنگنج، محمد شوکت علی کاشی باڑی، مفتی محمد اطہر حسین قاسمی، حافظ عبدالقدوس ، وغیرہ موجود رہے،
تمام اہل وطن کو یوم آزادی کی پرخلوص مبارکباد

مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے

مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 
اردو دنیا نیوز٧٢
 مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم مچھڑگاواں ضلع بتیا جشن یوم آزادی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 
طلبہ وطالبات نے اپنا اپنا پروگرام پش کیا ہے جس کی صدارت حضرت مولانا محمد مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی صاحب نے کی نظامت حضرت مولانا خوش محمد صاحب مظاھری وحضرت قاری صلاح الدین صاحب ایوبی و حضرت مولانا شفیع اللہ صاحب مصری جس میں بچوں کو انعامات سے بھی نوازا ہے جس میں باہر علمائے کرام تشریف لائے  اور گاؤں کے پردھان بھی بچوں کو انعامات سے نوازا گیا تھا مدرسہ کے صدر صاحب نے بھی بچوں کے پروگرام سے بہت خوش ہوئے ہیں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...