Powered By Blogger

اتوار, اگست 21, 2022

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی
اردو دنیا نیوز٧٢
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے قومی سے می نار میں اصحابِ علم کی گزارشات
بنیادی درس گاہوں اور اسکولوں میں اردو زبان کے لیے تحریکی کاوشیں ضروری: ڈاکٹر شکیل احمد خاں

پٹنہ:۱۲؍ اگست: وبائی دور میں اردو کے مشہور افسانہ نگار شوکت حیات کے گزرنے کے بعد عظیم آباد میں پہلی بار اُن کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار منعقد ہوا جس کا افتتاح کرتے ہوئے کانگریس کے رُکنِ اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے کہا کہ شوکت حیات آنے والے دور کی تشویشات اور خطروں کو نہ صرف یہ کہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے افسانوں کے ذریعہ ہمیں باخبر کرتے تھے۔ بڑا لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کے مسئلوں پر بھی نظر رکھے۔انھوں نے سے می نار کے شرکا سے خاص طَور سے یہ بات کہی کہ ادبی اور علمی کاوشوں کے ساتھ عوامی سطح پر اردو زبان کی تدریس اور خواندگی پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے۔
جناب امتیاز احمد کریمی ، رکن بہار پبلک سروس کمیشن نے شوکت حیات کے تعلق سے اپنے تاثّرات میں بتایا کہ وہ کیسے اندر سے نرم اور ملائم تھے اور باہر سے سخت اور زورآور معلوم ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہر سچّے فن کار کا دِل اسی طرح نرم اور انسانی ہم دردی سے بھر ہوتا ہے۔ممتاز ناول نگار جناب عبدالصمد نے اپنی پانچ دہائیوں کی رفاقت کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کی نسل میں ویسا ہُنر وَر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ممتاز افسانہ نگار مشتاق احمد نوری نے اپنے دیرینہ تعلّقات کی تفصیل واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ شوکت حیات چند لمحوں میں پتّھر سے موم بن جاتے تھے۔ یہ تخلیقی فن کار کا ایسا انفراد ہے جس کے بغیر وہ شہہ کار نہیں لکھ سکتا۔ خورشید اکبر نے مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ سعادت حسن منٹو کے بعد انھیں شوکت حیات کا اسلوب ہی اردو افسانے کا سب سے موزوں اسلوب معلوم ہوتا ہے۔
اس قومی سے می نار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر صفدرامام قادری نے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شدّت کے ساتھ احساس تھا اور اِس کے سبب وہ ہمیشہ مبتلاے غم رہے۔ان کے ہم عصروں نے اور ان کے دوسرے چاہنے والوں نے کبھی اُن کے حق کے مطابق ادبی مقام کے تئیں ماحول نہیں بنایا۔کسی ادارے نے سنجیدگی سے اُن پر کوئی مذاکرہ نہیں رکھا۔ اُن کی کتابیں وقت پر شایع نہ ہو سکیں۔ بہار کے سرکاری اداروں نے بھی اُن پر اِلتفات کی نگاہ نہیں ڈالی۔اِنھی وجوہات سے بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ اس سے می نار میں مُلک بھر سے نمایندے تشریف فرما ہیں اور وہ شوکت حیات کی خدمات کے حوالے سے اپنے مقالوں میں گفتگو کریں گے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اقبال حسن آزاد کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالہ ’ثالث‘ کے شوکت حیات نمبر کا خاص طَور سے اِس اجلاس میں اجرا بھی کیا جائے گا۔پروفیسر آزاد اور نائب مدیرہ محترمہ نشاط پروین بہ نفسِ نفیس اس تقریب میں موجود تھے۔
پہلے جلسے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شوکت حیات نمبر کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر اقبال حسن آزاد نے بتایا کہ شوکت حیات کے تعلق سے برسوں سے کچھ خاص کرنے کا اُن کے ذہن میں ارادہ تھا۔ شوکت حیات کی وفات کے بعد وہ اِس مُہم میں جُڑ گئے اور انھوں نے تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل رسالہ ’ثالث‘ کا شوکت حیات نمبر شایع کردیا۔ سے می نار میں شوکت حیات کی اہلیہ محترمہ ارشاد پروین نے شوکت حیات کی زندگی کے کئی ان جانے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔انھوں نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شکوہ تھاجس کی تلافی اِس سے می نار میں ہو رہی ہے۔ شوکت حیات کی صاحب زادی محترمہ اَنا حیات نے اپنی یادوں کی رہ گزر میں اپنے والد کی شبیہہ دیکھتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے لیے واقعتا قابلِ فخر بات ہے کہ میرے والد شوکت حیات تھے۔انھوں نے دوسرے مقرّرین کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس دکھ کی گھڑی میں اس بات سے سرشار ہیں کہ اُن کے والد کی غیر موجودگی میں بھی اُن نے چاہنے والے شہرِ عظیم آباد میں بھرے پڑے ہیں۔ 
سے می نار کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کی ۔ پہلے جلسے میں جناب محمد مرشد، محترمہ شبنم پروین نے رسالہ ’ثالث‘ کی ادبی اہمیت کے حوالے سے خصوصی مقالے پیش کیے۔دوسرے جلسے میں شوکت حیات پر مشتمل یادداشتوں کے حوالے سے محترمہ نشاط پروین، ڈاکٹر تسلیم عارف اور محترمہ شگفتہ ناز نے اپنے مقالے پیش کیے۔سے می نار کی تیسری نشست میں ڈاکٹر الفیہ نوری نے شوکت حیات کے کُل افسانوں کی تعداد کے حوالے سے اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔دیگر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اظہار خضر، ڈاکٹر طیب نعمانی ، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محترمہ نازیہ تبسم، محترم سعدیہ آفرین ، جناب محمد مرجان علی اور جناب محمد شوکت علی نے اپنے مقالات پیش کیے جن سے شوکت حیات کی تحریروں کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی پڑتی تھی۔ان مقالوں سے یہ بات بھی روشن ہوئی کہ شوکت حیات کی افسانہ نگاری میں گہرائی ہے اور ان کی تفہیم کے لیے نقّادوں کو مشقّت اُٹھانی پڑے گی۔
سے می نار کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انھوں نے شوکت حیات کے سلسلے سے اپنی یادداشتوںکے حوالے سے گفتگو کی ۔دوسرے اجلاس کی صدارت ممتاز ہندی ادیب جناب رشی کیش سُلبھ نے فرمائی۔ انھوں نے اپنے دیرینہ تعلّقات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت حیات کس طرح ایک شعلۂ مستعجل تھے۔ وہی آگ ان کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ معاشرے اور زمانے کے حالات سے وہ غیر مطمئن تھے اور اِسی کے حوالے سے وہ اپنی تحریروں میں اور ذاتی طَور پر اپنی گفتگو میں اختلاف کرتے تھے۔شوکت حیات سے دوستی میں انھوں نے ادب اور زندگی کے نہ جانے کتنے ابواب سیکھے۔سے می نار کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی ۔ تیسرے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک پروفیسر شہزاد انجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی نے کہا کہ اب شوکت شناسی کا نیا دور شروع ہونا چاہیے۔ پروفیسر جمشید قمر نے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شمارے کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے کئی طرح کے کاموں کاجو خاکا بنا رکھا ہے ، اسے جلد از جلد انجام تک پہنچایا جائے۔ سے می نار میں پروفیسر صفدر امام قادری نے بزمِ صدف کی جانب سے مہمانوں اور دیگر شرکا کا خاص طَور سے شکریہ ادا کیا۔ سے می نار کے تینوں اجلاس میںہال خاص طَو رپر ادیبوں ، شاعروں ،نقّادوں اور ری سرچ اسکالرس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شوکت حیات سے عقیدت رکھنے والے قارئین کی بھی اچھّی خاصی تعداد محفل میں موجود تھی۔

ضلع ارریہ کے بلاک رانی گنج کے تحت جکتا کھرسائی میں منعقد ہونے والا کل شب کا اجلاس انتہائی تاریخ ساز رہا۔

ضلع ارریہ کے بلاک رانی گنج کے تحت جکتا کھرسائی میں منعقد ہونے والا کل شب کا اجلاس انتہائی تاریخ ساز رہا۔
_______________
اردو دنیا نیوز٧٢
عین مغرب کے وقت تیز بارش اور آندھی کے نتیجے میں ایک طرف پنڈال سے ٹپاٹپ پانی،دوسری طرف زمین کیچڑ سے لت پت اور تیسری طرف مسلمانوں کے ہجوم کا جذباتی انداز ۔۔۔۔
عاجز نے ظالمانہ رسم جہیز پر غالباً ایک گھنٹے کی اپنی گفتگو میں جو کچھ اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ دل کے نہاخانے سے کہ سکتا تھا تنکا بھر کسر نہیں چھوڑا۔۔۔
الحمد للّٰہ ہزاروں مسلمانوں نے جس جذباتی انداز میں ہمارے ساتھ اس رسم بد کے خاتمے کے لئے معاہدے کئے اس سے دل وقتی طور پر جھوم جھوم اٹھا،بس شیطان اپنے دام فریب میں نہ پھنسادے،اس کے لئے دعائیں بھی کی۔
جمعیت علماء رانی گنج کے صدر محترم مفتی نعیم الدین ندوی صاحب کی باوقار نظامت اور بلاک سکریٹری مفتی دلشاد احمد نعمانی کی معیت نے اجلاس میں روح پھونکنے کا کام کیا۔
خوشی تب دوبالا ہوگئی جب عاجز کی گفتگو کے بعد مفتی دلشاد احمد صاحب کے واسطے سے ایک بااثر غیرمسلم بھائی نے عاجز اور مفتی نعیم الدین صاحب سے یہ کہتے ہوئے مصافحہ کیا کہ بھگوان نے زندہ رکھا تو موسم کے سازگار ہونے پر ہم اپنی زمین پر رسم جہیز کے خلاف اور مانوتا کے لئے ایک بڑا اجلاس کروائیں گے اور سارے شرکاء کو ہم اپنی طرف سے کھانا کھلائیں گے،خواہ اس میں میرا پانچ دس لاکھ روپے خرچ ہوجائے تو ہوجائے۔۔۔
رب العالمین قبولیت سے سرفراز فرمادے!
مسلسل کئی راتوں کے جگنے کی وجہ سے طبیعت میں بشاشت نہیں ہے۔ ہوئی تو مختصر روداد پیش ضرور کروں گا انشاء اللہ ۔
محمد اطہر القاسمی
                                                             21/08/2022

کی آبادی کا مفہوم، ایک وسیع تر زاویہفیروز عالم ندوی

مسجد کی آبادی کا مفہوم، ایک وسیع تر زاویہ
فیروز عالم ندوی
 معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی  
اردو دنیا نیوز٧٢
دنیا کے تمام مذاہب میں عبادت گاہیں صرف خاص 
مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہیں، وہاں ان کے علاوہ دوسرے امور کی انجام دہی کا یا تو تصور نہیں ہے یا پھر اسے گناہ کے درجے میں شمار کیا جائے گا۔ اسلام کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف وہاں روزانہ پانچ وقت پہونچنے کا حکم دیا ہے بلکہ اجتماعی حاضری کو لازمی قرار دیا ہے۔ اسی لیے اسلام میں مسجد صرف ایک عبادت گاہ بھر نہیں بلکہ معاشرہ میں درستگی، اصلاح، راست بازی، پاکیزگی اور خیر کے قیام کا مرکز بھی ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی نہیں ہے کہ وہاں کچھ رسوم ادا کر لئے جائیں اور بس، بلکہ وہاں سے ایک بلند اخلاق و کردار والے معاشرہ کی تعمیر کا انتظام کیا جائے ۔
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے جیسے ہی مدینہ پہونچے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد رکھی جسے آج ہم مسجد قباء کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر مستقل قیام کی نیت سے قبیلہ بنو نجار میں وارد ہوئے اور ایک مسجد کی تعمیر کا انتظام کیا۔ یہ وہی مسجد نبوی ہے جو اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اسلام تو یثرب میں پہلے ہی سے پھل پھول رہا تھا،  جیسے ہی آپ وہاں پہونچے یہ ہر گھر میں داخل ہو گیا۔ مسجد باضابطہ تعمیر ہو ہی چکی تھی اب معاشرتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک چبوترے (صفہ) کی تعمیر کی گئی جہاں تشنگان علوم چشمہ رسالت سے سیراب ہونے لگے۔
ہجرت کے بعد جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھ تا گیا ویسے ہی مسجد نبوی کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک تعلیم گاہ،  ایک تربیت گاہ، ایک دعوتی مرکز، ایک کاؤنسلنگ سینٹر،  ایک فوجی ہیڈ کوارٹر اور ایک دارالقضا جیسی مختلف کاموں اور سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ وہاں عبادتیں بھی کی جاتی اور زندگی کی دوسری سرگرمیاں بھی انجام پاتیں۔
اسلام کی تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ مختلف ادوار کے مختلف علاقوں میں جب تک مسلم معاشرہ مسجدوں سے اچھی طرح وابستہ رہا ان کا معاشرہ پھلتا پھولتا رہا اور وہ جیسے ہی اس سے کٹے معاشرتی بیماریوں کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ رفتہ رفتہ اپنا وجود کھو بیٹھے۔
معاشرہ مستقل راست بازی پر قائم رہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا رہے، اس کے لیے لازمی ہے کہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ہم اپنی مسجدوں میں بچوں کو پچھلی صفوں میں کھڑا کر دیتے ہیں، اگر زیادہ شرارت کریں تو مسجدوں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ناعاقبت اندیشی پر مبنی رویہ ہے۔ ہم جیسے ہی کسی بچے کو مسجد سے دور کریں گے اسی لمحے ہم اسے کھو دیں گے۔ مساجد سے نونہالوں کی وابستگی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جائے، ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت اور تفریح ہر طرح کا سامان کیا جائے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک صالح معاشرہ نشو نما پائے تو ہمیں مساجد کو مختلف سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو گا۔ مثلا: اگر کسی مسجد میں تعلیمی سرگرمی کے لیے مکتب چل رہا ہے تو ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کریں تاکہ بچوں اور ان کے والدین کی مسجد سے وابستگی کو مضبوط سے مضبوط تر کی طرف لے جایا جا سکے۔
صالح معاشرہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ مناسب کاؤنسلنگ کا انتظام ہو۔ انفرادی زندگی کے مختلف دشوار مراحل میں اور اجتماعی امور کے پیچیدہ مواقع پر اس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہم اس کا انتظام مسجد کے اندر کر دیں تو یہ لوگوں کو ایک مرکز سے جوڑنے اور ان کی وابستگی میں اضافہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔
ایک صالح معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مائیں تربیت یافتہ، فرض شناس اور بہترین مربی ہوں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم انھیں نہ صرف مسجدوں میں آنے دیں بلکہ ان کی تربیت کے لیے بہترین پروگرام ترتیب دیں۔
مساجد کی آبادی میں ہماری ملی آبادی کا راز پنہاں ہے۔ اس کی حقیقی شادابی ہماری کامرانیوں کی ضامن ہے ۔ مگر اس کے لیے ہمیں بیدار مغز، حقیقت شناس، متحرک اور فعال بننا پڑے گا۔ جامد تقلیدی روش سے ہٹ کر معاملہ فہمی کو راہ دینا ہوگا۔

مدارس اسلامیہ کا تعلیمی مزاج___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارس اسلامیہ کا تعلیمی مزاج___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 مدرسہ کی تعلیم کا ایک مزاج ہے، اس تعلیم کے کچھ مقاصد ہیں، ان مقاصد اور مزاج کو ترک کرکے مدرسہ اپنی حیثیت کھو دے گا ، اور دوسرے علوم کے میدان میں لگ جا نے کی وجہ سے کم از کم ان مقاصد سے دورہو جائے گا ، جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا، اس مسئلہ کو اس نقطہ ٔ نظر سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جتنے مسلم لڑکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں صرف چار فی صد وہ ہیں جومدارس میں پڑھ رہے ہیں، چھیانوے فی صد لڑکے کالج ، اسکول اور یونیورسیٹیوں میں پڑھتے ہیں، ان کو پڑھانے والے وہ ہیں جو دانشوروں کی اصطلاح میں ٹرینڈ ہیں، انہیں سرکار اس کام کے لئے موٹی تنخواہیں دیا کرتی ہے، یہ چھیانوے فی صد مسلم طلبہ جنہیں روزی روٹی کے لیے پڑھایا جاتا ہے، یہ فارغ ہو کر پیشہ وارانہ کاموں کے لیے موٹی موٹی رقم لیا کرتے ہیں،پھر بھی وہ مسلمانوں کی معاشی بد حالی دور کرنے میں ناکام ہیں ، مسلمان آج بھی مفلسی اور پس ماندگی کی زندگی گذار رہا ہے، پھر بھلا ان چار فی صد کو بھی انہیں کاموں میں لگا دیا گیا تو کون سا انقلاب آجائے گا ،ا ور پھر جب سارے علوم میں اسپسلائزیشن اور تخصص کو ضروری سمجھا جا رہا ہے تو پھر دینی علوم میں ان چار فی صد کو تخصص کے لیے کیوں نہیں چھوڑا جاتا ، یہ ہماری مذہبی ضرورت ہے، ان سے مسجدکے منبر ومحراب آباد ہیں، گاؤں کے گاؤں اور محلوں کے محلوں کا سروے کر لیجئے، ایک آدمی ایسا نہیں ملے گا، جو کسی دوسرے کام سے لگا ہوا ہو اور پابندی سے مسجد کی امامت اور بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کے لیے وقت نکال رہا ہو ، اپنی نماز پڑھ لینا اور بات ہے یہ تو اپنی ذمہ داری ہے، اس سے ملت کا کیا فائدہ ہو رہا ہے، ہاں نماز پڑھا نے کی ذمہ داری قبول کرنا ضرور ملی کام ہے، اگر ان چار فی صد کو بھی دوسرے کام میں لگا دیا گیا تو مسجدکے منبر ومحراب کے لیے مستقل اماموں کا مسئلہ کھڑا ہوگا اور یہ بڑا ملی نقصان ہوگا ، ہمارا دانشور طبقہ ان کی معاشی حالت کو لے کر بھی سوال اٹھاتا رہتا ہے، ان دانشوروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کمیٹیوں میں تو آپ ہی لوگ غالب ہیں، پھر ان کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے ان کو تنخواہیں کیوں نہیں دیتے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے ۔

موبائل کلچر _____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موبائل کلچر _____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
موبائل نے انسان کی ایک بڑی ضرورت پوری کر دی ہے، پہلے حالات کی ترسیل اور ضرورت کی تحریر دوسروں تک پہونچانے کا ذریعہ خط تھا ، ٹیلی گرام نے تھوڑی تیز رفتاری دکھائی ، پھر لینڈ ٹیلی فون سے کام چلنے لگا ، لیکن پول پر لگے تار کبھی ٹوٹ جاتے ، کبھی مشین خراب ہو جاتی اور کبھی آپریٹرغائب ہوتا ، اب آپ پریشان ہوتے کہ کس طرح جلد سے جلد خبر پہونچائی جائے، پھر موبائل آگیا ، جیب میں لے کرگھومتے رہیے، شروع میںIncomingاور Outgoingدونوں میں  پیسے کٹتے تھے ، پھر سہولت ہوئی تو آنے والے کال فری ہوئے، زمانہ تک آنے والے کال پر رومنگ چلتا رہا اور سفر میں دشواری پیش آتی رہی، اس کے بعد پاور سسٹم شروع ہوا ہے، کمپنی کو اتنی رقم پاور کے نام پر پہلے مل گئی اور آپ خوش کہ اب رومنگ فری ہو گیا، ہے، ریلائنس نے ’’جیو‘‘ دیا اور کئی مہینے تک فری کے آفر نے ایسا لبھایا کہ نوٹ بندی کے بعد بینکوں میں لگی لائن کی طرح وہاں بھی جوانوں کی لمبی لمبی لائن دیکھی گئی ۔
 موبائل سٹ میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں، پہلے نوکیا  (NOKIA)کا سیٹ میدان میں تھا، پھر دوسری کمپنیاں سم سنگ ، الکاٹیل وغیرہ کے جدیر ترین سٹ آنے لگے، قیمتیں آسمان کو چھورہی تھیں، لیکن جب مارکیٹ میں کمپٹیشن شروع ہوا تو اس میں بھی خاصی کمی آئی اور اب حال یہ ہے کہ ہزار بارہ سو میں کام چلا ؤ اور سات آٹھ ہزار میں معیاری قسم کا اسمارٹ فون آپ حاصل کر سکتے ہیں، اس طرح موبائل ہر ایک کی ضرورت بن گئی ، رکشہ پولر اور مزدوروں میں سے بھی کوئی ایسا نہیں ملتا ، جس کے پاس موبائل نہیں ہے۔اس طرح اب موبائل رکھنا ضرورت بھی ہے اور کلچر بھی، پہلے لوگ کھیت کھلیان، جانور اور مویشیوں سے آپ کی اوقات ناپتے تھے، اب آپ کے ہاتھ میں مہنگا موبائل دیکھ کر آپ کی معاشی حالت کا اندازہ لگا تے ہیں، اور یہ بھی کہ موبائل کلچر کے اس دور میں کس قدر آپ آگے بڑھے  ہوئے ہیں۔
موبائل کے استعمال کی اس کثرت نے کئی ایسی کمپنیوں کو وجود بخشا جو آپ کی چیزوں، تصویروں ، خیالات اور خبروں کو بلا روک ٹوک تیزی سے مفت میں یابہت کم لاگت پر دوسروں کو پہنچانے کا کام کر رہی ہیں، فیس بک ، ٹوئٹر، وھاٹس اپ، لائن وغیرہ اس کام کے لیے موجود ہیں،جنہیں شوشل میڈیا کہا جاتا ہے، موبائل میں انٹرنیٹ کی سہولت اور وائی فائی کی عمومیت کی وجہ سے ان ساروں کی خدمات کا حصول آسان اور سب کی دستر س میں آگیا ہے، اپنے خیالات کی ترسیل کے لئے مختلف عنوانات سے گروپ بھی بنے ہوئے ہیں، جن میں آپ جو چاہیں بھیج سکتے ہیں، جھگڑا بھی کرسکتے ہیں گالیاں بھی بک سکتے ہیں، علمی مواد فراہم کراسکتے ہیں، اور ان کاموں میں آپ کو اخبارات ورسائل کے مدیر محترم کی تراش خراش ، کانٹ چھانٹ کا ڈر نہیں ہوتا، اور ان کی مرضی بھی اشاعت میں رکاوٹ نہیں ہوتی ، گروپ کا ایڈمن بے اختیار مہرہ ہوتا ہے جو کسی کی پوسٹ کو روک تو سکتا نہیں، البتہ بہت خفا ہو گا تو نکال سکتا ہے، اس سے گروپ کے ارکان کو فرق نہیں پڑتا ، اس لیے کہ اتنے گروپ ہیں کہ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی، نکالا ہوا شخص خود بھی ایک گروپ بنا سکتا ہے، بلکہ بنا لیتا ہے، آپ منہ دیکھتے رہے۔
 اس پوری صورت حال کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ دنیا کو پہلے گلوبل ایج کہتے تھے اور دسترخوان سے تعبیر کرتے تھے، اب دسترخوان کے بجائے یہ ہماری انگلیوں کی جنبش پر ہے ، آپ جب چاہیں پوری دنیا کے احوال واخبار پر سکنڈوں میں واقفیت حاصل کر سکتے ہیں، خوشی وغمی سے متعلق خبریں انتہائی تیز رفتاری سے متعلقین تک پہونچا سکتے ہیں، علمی خیالات ، ایجادات ،ا نکشافات اور تحقیقات کو فورا ًاس کے ذریعہ سے بیش تر لوگوں تک پہونچا نا ممکن ہو گیا ہے ، آپ اپنی صلاحیت سے دوسروں کو فائدہ پہونچا سکتے اور دوسروں کی صلاحیت موبائل کے ایک بٹن کو دبا کر اور سائٹ کو کلک کرکے فوری طور پر آپ تک پہونچ سکتی ہے ، اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے اور صحیح استعمال سے انقلاب بر پا کیا جا سکتا ہے،اور انقلاب کو ناکام بھی کیا جا سکتا ہے، جیسا تُرکی میں ہوا۔  
دوسری طرف اس کا خراب پہلو یہ ہے کہ یہ فحاشی اور منکرات کو پھیلا نے کے بڑے ذریعہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، غیر محقق خبریں، گندی فلمیں ، فحش تصویریں، نا مناسب گفتگو (چاٹنگ) کے لیے بھی اسی کا استعمال ہوتا ہے، طالب علم، بچے بچیاں سب کے ہاتھ میں موبائل ہے، درسی کتابوں پر توجہ کم ہو گئی ہے اور رات رات بھر نیٹ کے غیر ضروری استعمال نے راتوں کی نیند حرام کر دی ہے اور اس کے منفی اثرات صحت پر پڑ رہے ہیں،سیلفی اپنی تصویر خود لینے کے چکر میں جانیں جا رہی ہیں، اخلاق بگڑ رہے ہیں اور گھرکا ماحول بری طرح متاثر ہوا ہے ، اب گفتگو کرنے ، خاندانی حالات پر تبادلہ خیال کرنے ، ملی مسائل پرغور وخوض کرنے کے لیے وقت نہیں ہے ، بیوی ادھر موبائل پر لگی ہے اور بیٹے بیٹی الگ ، باپ دادا ، چچا کا بھی یہی حال ہے، سب اپنی دنیا میں مگن ہیں اور کسی کو حال دل سننے سنانے کی فرصت نہیں ہے ، ان وجوہات سے بھی خاندان ٹوٹ رہا ہے۔
مجھے اس وقت بے اختیار کالی داس گپتا رضا یاد آگیے، ممبئی میں رہتے تھے، غالبیات کے ماہر تھے، مر گیے تو اخبار والے نے ان کی بیوی سے انٹر ویو لیا ، ایک سوال تھا کہ آپ کو کبھی کالی داس پر غصہ بھی آتا تھا ، ان کی بیوی نے کہا کہ ہاں جب میں پاؤں دابتی تھی اور وہ کتاب پڑھتے ہوتے تھے، میں سوتن کی طرح کتاب سے لڑ بھی نہیں سکتی تھی، آج موبائل نے یہی مقام حاصل کر لیا ہے، ضرورت اس غلط استعمال پر روک کی ہے۔

ہفتہ, اگست 20, 2022

فرضی پاسپورٹ اور ویزہ کے سب سے بڑے گروہ کا پرده فاش ، 4 گرفتار

فرضی پاسپورٹ اور ویزہ کے سب سے بڑے گروہ کا پرده فاش ، 4 گرفتار
اردو دنیا نیوز٧٢
نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی میں آئی جی آئی ائیرپورٹ پولیس نے سب سے بڑے بین الاقوامی فرضی پاسپورٹ اور ویزہ تیار کرنے والے گروہ کا پردہ فاش کیا ہے۔ آئی جی آئی ایئرپورٹ کی ڈی سی پی تنو شرما نے بتایا کہ ملزمان کے قبضہ سے 325 فرضی پاسپورٹ، 175 فرضی ویزے اور دیگر متعلقہ چیزیں برآمد کی گئی ہیں۔ پولیس عہدیدار نے بتایا کہ گروہ کا سرغنہ ذاکر یوسف شیخ ہے۔ آئی جی آئی یونٹ کو گروہ کے بارے میں اطلاع موصول ہوئی تھی، جس کے بعد اس کا پردہ فاش کیا گیا۔قبل ازیں، آئی جی آئی ائیرپورٹ میں پی پی ایکٹ کے تحٹ معاملہ درج کیا گیا تھا، جس میں گجرات کے گاندھی نگر کے رہائشی مسافر روی رمیش بھائی چودھری کو فرضی پاسپورٹ رکھنے کے الزام میں کویت سے گرفتار کیا گیا تھا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ فرضی پاسپورٹ کا انتظام ممبئی کے رہنے والے ذاکر یوسف شیخ اور مشتاق عرف جمیل پکچروالا نامی ایجنٹوں نے کیا تھا، جن کا تعارف گجرات کے نارائن بھائی چودھری نامی مقامی ایجنٹ نے روی رمیش بھائی چودھری سے کرایا تھا۔
تحقیقات کے دوران، پولیس نے شیخ اور پکچروالا سمیت دونوں ایجنٹ اور ان کے ساتھی امتیاز علی شیخ عرف راجو بھائی اور سنجے دتارام چوہان کو ممبئی سے گرفتار کیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 325 ہندوستانی پاسپورٹ، 175 ویزے، 1200 سے زائد ڈاک ٹکٹ، 11 بین الاقوامی ڈرائیونگ پرمٹ، 75 پاسپورٹ جیکٹس، 17 آدھار کارڈ، 12 کلر پرنٹرز، فرضی ہندوستانی پاسپورٹ بنانے کے لیے ڈائی، دو لیمی نیشن مشینیں، ایک پیپر کٹر مشین، دو فوٹو پولیمر اسٹیمپ بنانے والی مشینیں اور دیگر مجرمانہ ثبوت برآمد کئے۔

شیریں زبان ، مفسر قرآن: مولانا ابو سلمہ شفیع احمد ؒ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شیریں زبان ، مفسر قرآن: مولانا ابو سلمہ شفیع احمد ؒ ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
  ’’تمیثل نو‘‘ کے شمارہ ۲۷؍ پر اپنے تاثرات کا اظہا ر کرتے ہوئے میں نے ایک خط میں ڈاکٹر امام اعظم کو لکھا تھا: ’’کولکاتہ کے حوالہ سے مضامین ومقالات اچھے ہیں۔ کمی صرف مذہبی سر گرمیوں کی رہ گئی ہے اور ان شخصیات کا تذکرہ بھی آنے سے رہ گیا ہے، جنہوں نے کولکاتہ میں مذہبی شناخت کی بقا کے لیے کام کیا اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر واحکام سے دور نہیں ہونے دیا؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ طویل کمیونسٹ عہد حکومت میں مسلمانوں کو دہریہ، مذہب بیزار اور دین سے دور ہونے سے بچا کر رکھا، یہ بہت بڑا کام ہے جو  وہاں کے علماء اور مذہبی شخصیات نے انجام دیا ہے۔
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں اس خدمت کے لیے مولانا ابو سلمہ شفیعؒ جو بہار شریف کے رہنے والے تھے کا نام وکام محتاج تعارف نہیں، ان کی کئی کتابیں مقبول خاص وعام ہیں، پوری زندگی خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام ریڈ روڈ پر نماز عیدین کی امامت کرتے رہے، اور مختلف مسلک او رمکتب فکرکے لوگوں کو جوڑ کر رکھا ، وہ سہل الحصول بھی تھے اور ہر سطح کے لوگوں تک خود پہونچا کرتے تھے‘‘ (آدھی ملاقات صفحہ۶۴)
پھر اس کے بعد میں نے مولانا کی حیات وخدمات پر مشتمل ایک مختصر مضمون نقیب کے لیے بھی لکھا تھا، بد قسمتی سے وہ مضمون مولانا ابو طلحہ بن ابو سلمہ ندوی تک نہیں پہونچ سکا اور اس کتاب میں شامل ہونے سے رہ گیا۔
 مولانا ابو سلمہ شفیع احمد (ولادت ۱۹۱۲ء وفات ۲۲؍ دسمبر ۱۹۸۵ئ) بن مولانا حکیم امیر حسن مرحوم پر وفات کے چھتیس سال بعد مولانا کے صاحب زادہ مولانا طلحہ بن ابو سلمہ ندوی کے ذریعہ ’’حیات وخدمات ومشاہدات پر مشتمل گراں قدر مضامین‘‘ کا مجموعہ شیریں زبان مفسر قرآن حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع احمد ؒ کے نام سے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی، یہ ایک قرض تھا، جسے مولانا طلحہ ندوی نے اتار ا ہے، حق تو یہ ہے کہ مولانا کی حیات وخدمات پر مفصل کتاب لکھی جائے اور اسے چھپوا کر عام کیا جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ مذہبی تعصب اور دین کی ترویج واشاعت کے لیے ہمارے علماء کس قدر جد وجہد کیا کرتے تھے، بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ عالیہ یونیورسیٹی کے کسی اسکالر کو یہ موضوع دے کر پی اچ ڈی کا مقالہ لکھوانا چاہیے، مولانا مدرسہ عالیہ کے زمانہ دراز یعنی اپریل ۱۹۴۹ء سے ۱۹۷۳ء تک استاذ رہے ہیں، اس تحقیق سے مدرسہ عالیہ کے اس دور کی تعلیمی خدمات بھی لوگوں کے سامنے آسکے گی۔
 فی الوقت ہمارے سامنے مولانا کی حیات وخدمات پر مضامین کا جو مجموعہ ہے وہ انتہائی وقیع ہے، آٹھ ابواب کے تحت ان مضامین کو یک جا کر کے مولانا کی متنوع خدمات اور تاثرات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پہلا باب حیات وخدمات پر مشتمل ہے، جس میں کل بیالیس (۴۲) مضامین اہل علم ودانش کے ہیں، اس باب میں مولانا قاضی اطہر مبارک پوری، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا عمیر الصدیق ندوی، پروفیسر احمد سجاد اور مولانا رضوان احمد ندوی معاون مدیر نقیب کے مضامین شامل اشاعت ہیں، دوسرے باب میں مولانا مرحوم کے نو مضامین ومقالات کو جمع کیا گیا ہے، جس میں مولانا کی تحریری خدمات اور ان کے اسلوب کا پتہ چلتا ہے، مضامین ومقالات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، لیکن چند مضامین کومحض مشتے نمونہ از خردارے کے تحت اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تیسرا باب مولانا کے مکاتب پر مشتمل ہے، یہ بھی بہت نہیں ہے، صرف تین چار خطوط ہیں، یہ ذخیرہ اس قدر تو ضرور ہے کہ محنت کی جائے تو مولانا کے مکاتیب کا الگ سے ایک مجموعہ تیار ہوجائے۔ چوتھے باب میں مولانا کے قائم کردہ ادارہ ترجمہ وتالیف کا اجمالی تعارف کرایا گیا ہے، اس میں کل چھ مضامین ہیں، جن میں ایک مضمون کلکتہ کا ایک علمی سفر کے عنوان سے مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ؒ کابھی ہے۔ پانچواں باب منظوم خراج عقیدت اور قطعات پر مشتمل ہے، جس میں نو شعراء نے مولانا کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ چھٹا باب اکابرین ومعاصرین کے تاثرات کے لیے مختص ہے، جس میں تینتالیس(۴۳) اکابر اور چار اداروں کے بیانات کو شامل کیا گیا ہے، ساتویں باب میں تعزیتی مضامین ، روزنامہ، ہفتہ وار اور ماہناموں میں شائع تعزیتی بیانات وتجاویز کو جگہ دی گئی ہے۔ آٹھواں باب تعزیتی جلسوں کی رپورٹ کے لیے ہے۔ کتاب کا انتساب مولانا طلحہ ندوی نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، جن کی تعلیم وتربیت نے ان کو اس لائق بنایا ، تین سو باسٹھ (۳۶۲) صفحات کی یہ کتاب ادارہ ترجمہ وتالیف کولکاتہ سے شائع ہوئی ہے۔قیمت درج نہیں ہے۔ ملنے کے لیے تین پتے دیے گیے ہیں، اگر آپ کولکاتہ میں ہیں تو ادارہ ترجمہ وتالیف 28/H/15سر سید احمد روڈ کولکاتہ، لکھنؤ میں ہیں تو شاداب بلڈنگ، ٹیگور مارگ، ندوہ روڈ لکھنو اور نالندہ میں ہوں تو مکتبہ علم وحکمت محلہ سکونت کلاں، بہار شریف نالندہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
کتاب اچھی چھپی ہے، ٹائٹل پر مولانا مرحوم کی تصویر بھی دی گئی ہے اور  آخر کے صفحات بھی اس سے مزین ہیں، ٹائٹل کے آخری صفحہ پر زیور محل جیولرس کا اشتہار ہے، طباعت کے لیے رقم نہ ہو تو یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے۔
پروف ریڈر کی نگاہوں کے چوکنے کا شکوہ قاری کوبہت ہوگا، ٹائٹل پیچ کے تیسرے صفحہ کی سیٹنگ درست نہیں ہے، اس کا مواد اندر کے صفحات میں تین سو تینتالیس (۳۴۳) اور اندر کے صفحات میں علامہ ابو سلمہ شفیع احمد کے احباب ورفقاء والے مضمون کا تین سو بیالیس (۳۴۲) سے اٹھ کر تیں سو چالیس پر چلا گیا ، کتابوں میں اس طرح کے بقیات کا سلسلہ روایتا نہیں ہوتا، اس سے قاری کو خلجان ہوتا ہے۔
 مولانا ابو طلحہ ندوی صاحب کی یہ محنت قابل قدر اور لائق ستائش ہے۔ دعوت وتبلیغ اور دینی کاموں سے جُڑے لوگوں کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...