Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 27, 2022

اسلام میں یتیم بے سہارا نہیں ہے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

اسلام میں یتیم بے سہارا نہیں ہے 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710
اردو دنیا نیوز٧٢
میرےجواں سال پڑوسی جناب حافظ رہبر صاحب مظاہری اس دنیا میں نہیں رہے،موصوف نہایت شریف اور سادہ انسان تھے،بنگلہ مسجد گیاری میں امامت اوربچوں کو قرآن پڑھانا مشغولیت رہی،زندگی بڑی عسرت بھری ملی، میرے بچوں کے بھی مرحوم استاد رہے،عمر بہت ہی مختصر ملی،تقریبا سال بھر بیماررہےاورجوانی میں ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، انتقال کے دوسرے دن ہی مرحوم کےگھر دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے,یہ واقعی اس بچہ کے لئے بھی تکلیف دہ گھڑی ہے کہ وہ یتیم پیدا ہوا ہے،لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ حافظ جی کے دونوں بچے بے سہارا ہوگئے ہیں۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی آپ کے والد وفات پاچکے تھے، قرآن کریم کی سورت "الضحى" میں آپ صلی علیہ وسلم کی  یتیمی کو موضوع سخن بنایا گیا ہے، اور رب کریم نےبطور احسان یہ بتلایا ہے کہ ہم نے آپ کو اس یتیمی سےنکالا ہے،سیرت کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ کا انتقال ہوجاتا ہےتودادا کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل جاتی ہے،پھر آٹھ سال کی عمر میں دادا کی وفات ہوتی ہے تو شفیق چچا خواجہ ابوطالب کی بے پناہ شفقت نصیب ہوجاتی ہے، یہ سلسلہ وار سرپرستی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی ہے قرآن کی زبان میں خاص فضل الہی اور انعام خداوندی ہے ،بظاہر ایک انسان بے یار ومددگار نظر آتا ہے، مگر خدا کا فضل جب اس کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ دنیا وآخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاتا ہے،چنانچہ سورة الضحى میں کہا گیا ہے، اے محمد! لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ تیرے رب نے تجھے چھوڑ دیا ہے اور تو بے سہارا ہوگیا ہے، یہ بات درست نہیں ہے، یتیمی کی حالت میں بھی تیرے رب نے سہارا دیا ہے اور مضبوط ٹھکانہ نصیب کیا ہے، آپ یتیمی کے درد کو خوب محسوس کرتے ہیں ،یہ خاص مشن آپ کا ہوناچاہئے،یتیم کےساتھ دلداری اور دلجوئی کا معاملہ کیجئے،سختی نہ کیجئے، جیسا ہم نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہی آپ یتیموں کے ساتھ کیجئے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت فرمائی ہے، اور یہ ارشاد فرمایا ہے: یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہوگا، (بخاری )
آپ صلی علیہ وسلم نےیتیم کےسرپرپراپناپیارا ہاتھ رکھا ہے،یہ حکم بھی فرمایا ہے کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو، اس عمل سے تمہارے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے،( رواہ احمد)
حدیث شریف میں بہترین گھروہ ہےجسمیں یتیم کے ساتھ حسن سلوک ہوتا ہے،جہاں یتیم کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہےاسے بدترین گھر قرار دیا ہے(ابن ماجہ )
قرآن وحدیث کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ مذہب اسلام میں ایک یتیم بے سہارا نہیں ہے،آج ہر آدمی یتیم کے تعلق سے یہی کہتا ہے کہ وہ بے سہارا ہے،بے سہارا کو سہارا چاہئے ،اس کی فکر دامنگیر نہیں ہوتی ہے۔گزشتہ دو تین سالوں سے جوانوں کی بکثرت اموات دیکھنے میں آئی ہیں، شکم مادر میں بچہ چھوڑ کر جوان فوت ہورہا ہے، مال واسباب اکٹھا کرنے کا اسے موقع نہیں مل سکا ہے ،ہر گاؤں اور ہرعلاقے میں یتیم ہیں جو نادار ہیں، انہیں مسلم سماج کی نصرت واعانت کی سخت ضرورت ہے مگر دانشوروں کی نظرکبھی ادھر نہیں جاتی ہے۔ڈھیر ساری مسلم  تنظیمیں ہیں اور تحریکیں ہیں ،مگر انکے پاس  یتیموں کو سہارا دینے کے لئے خاکہ ہے اور نہ کوئی پروگرام ہے، آج اس عنوان پر بیداری پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

شہادتِ راہ خدا سے بھی قرض معاف نہیں ہوتاشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

شہادتِ راہ خدا سے بھی قرض معاف نہیں ہوتا
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
اردو دنیا نیوز٧٢
 رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک طرف تو اصحابِ وسعت کو ترغیب دی کہ وہ ضرورت مند بھائیوں کو قرض دیں اور اس کی ادائیگی کے لئے مقروض کو مہلت دیں کہ جب سہولت ہو ادا کرے اور نادار مفلس ہو تو قرضہ کاکل یا جز معاف کر دیں اور اس کا بڑا اجر وثواب بیان فرمایا اور دوسری طرف قرض لینے والوں کو آگاہی دی کہ وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے اور اس کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کی فکر اور کوشش کریں اگر خدانخواستہ قرض ادا کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے تو آخرت میں اس کا انجام ان کے حق میں بہت برا ہوگا کبھی کبھی آپ ﷺ نے اس کو سنگین ترین اور نا قابلِ معافی گناہ بتلایا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی میت کے متعلق آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس پر کسی کا قرضہ ہے جس کو اس نے ادا نہیں کیا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے انکار فرمادیا ظاہر ہے کہ یہ آپ ﷺ کی طرف سے آخری درجہ کی تنبیہ تھی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس جب نمازِ جنازہ کے لئے ایسا میت لایا جاتا جو مقروض تھا تو آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ کیا اس نے اپنا قرض ادا کرنے کے لئے مال چھوڑا ہے اگر بتایا جاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھتے ورنہ آپ صحابہ کرام سے فرما دیتے کہ اس پر تم نماز پڑھ دو (صحیح مسلم)
حالانکہ ان لوگوں کا قرض بھی کچھ حد سے زیادہ نہ ہوتا تھا اور وہ ضرورت ہی میں قرض لیتے تھے پھر بھی آپ ﷺ اس قدر سختی فرماتے۔ آج فضول رسموں اور بے جا خرچوں کے واسطے لوگ بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور وارث بھی کچھ فکر نہیں کرتے
صحیح حدیث میں ارشاد ہے کہ مومن کا جب تک قرض ادا نہ کر دیا جائے اس کی روح کو (ثواب یا جنت میں داخلہ سے)روکا جاتا ہے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ﷺ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا اور چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے کیا میں ان پر مال خرچ کروں؟ اور قرض ادا نہ کروں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا بھائی قرض کی وجہ سے مقید ہے قرض ادا کرو (مفید الوارثین بحوالہ مشکوۃ شریف)
 حضرت سلمۃ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک میت کا جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضرت اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیجئیے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہے تو آپ ﷺ نے اس جنازہ کی نماز پڑھا دی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہوجائے لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں تو آپ ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے جس سے قرض ادا ہو سکے لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں چھوڑا ہے تو آپ ﷺ نے حاضرین صحابہ سے فرمایا کہ اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ تم لوگ پڑھ لو تو ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ حضور اس کی نماز پڑھا دیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمّہ لے لیا میں ادا کروں گا تو اس کے بعد آپ ﷺ نے اس جنازے کی بھی نماز پڑھا دی (صحیح بخاری)
  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں اللہ کے رسول ﷺ  نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ پڑھا جس میں فرمایا کہ راہ خدا کا جہاد اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں خدا کے لئے جہاد میں قتل کردیاجاؤں تو کیا میرے تمام گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں بیشک اگر تو راہ خدا کے جہاد میں مار ڈالا گیا اور تھا تو صبر کرنے والا ثوابِ آخرت کی جستجو کرنے والا آگے بڑھنے والا نہ کہ پیچھے ہٹنے والا تو بلا شک و شبہ تیرے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے پھر آپ نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ تم نے کیا سوال کیا تھا؟ تو اس نے اپنا سوال پھر دہرایا تو آپ نے پھر اپنا جواب بھی دہرایا لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ قرض معاف نہیں ہوگا ( ابھی ابھی)  جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ پر یہ وحی خداوندی نازل کرگئے (مسلم)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ  نے ہمیں ایک مرتبہ خطبہ سنایا جس میں فرمانے لگے یہاں فلاں قبیلے کا کوئی شخص ہے؟ کسی نے جواب نہ دیا پھر دریافت فرمایا پھر سب خاموش رہے تیسری مرتبہ سوال کیا یہاں فلاں قبیلے میں سے کوئی شخص ہے؟  ایک صاحب بولے کہ یارسول اللہ میں موجود ہوں آپ نے فرمایا پھر دو بار تم نے کیوں جواب نہیں دیا؟  میں کوئی بری بات تمہیں پہنچانے والا نہ تھا سنو! تم میں سے فلاں  صاحب جن کے ذمّے کچھ قرض تھا اور وہ انتقال کر گئے تھے میں نے انہیں دیکھا کہ جنت کے دروازے پر روک دیئے گئے ہیں اب اگر تم چاہو تو وہ رقم ادا کرکے  اپنے والے کو چھڑالو اور اگر چاہو تو یونہی قیدی رہنے دو یہ سن کر ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ اس کا قرض میرے ذمّے اور اسی وقت ادا کر دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمام طالب حق اس کے پاس سے ہٹ گئے سب کو ان کا حق مل گیا اب کوئی باقی نہیں رہا جو اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہو
آج ہم اپنا جائزہ لیں اور ایمان سے بتلائیں ہم سے کوئی ہے جو کسی ادنیٰ درجے کے صحابی کی نیکیوں کا مقابلہ کر سکیں لیکن تاہم کچھ قرضہ جو باقی رہ گیا تھا اس کی وجہ سے وہ پکڑ لئے گئے آج ہم جو ہزاروں کے حقوق مارے بیٹھے ہیں بے فکر کیوں ہیں کیا ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے یہ روزے نماز کافی ہیں ہماری توحید وسنت کا دعویٰ سب کچھ ہے اللہ سے ڈریں اور خیال کریں کہ ان پاکباز صحابہ پر بھی جنت کے دروازے بند ہوگئے یہ قیدکر لئے گئے اس بنا پر کہ کسی کے دو چار درہم کا قرضہ انکے ذمے رہ گیا تھا پھر ہمارا کیا حال ہوگا کہ کسی کا ورثہ دبا بیٹھے ہیں کسی تیم کا مال کھا گئے ہیں کسی کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے کسی کا مال لے کر مکر گئے ہیں  امانت لے کر انکار کر دیا ہے قرض لے کر ادا نہیں کیا اٹھیں حق داروں کا حق اس سے پہلے ادا کردیں کہ آنکھیں بند ہوں اور یہ دنیا چھوٹ جائے

اسلام ایک فطری اور عقلی دین

اسلام ایک فطری اور عقلی دین ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 جناب احمد علی اختر صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی جماعت اسلامی کے ہدف، مقصد اور منصوبوں کو بہار کی زمین پر اتارنے میں لگا دیا، وہ سابق امیر جماعت اسلامی بہاربھی رہے اور اپنی تحریکی جد وجہد اور مسلمانوں میں دینی غیرت وحمیت ، ایمانی حرارت پیدا کرنے کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے، بہار میں جماعت اسلامی کی خدمات کا جب ذکر آئے گا تو جناب احمد علی اختر صاحب کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ مزاجا بھی نرم دل واقع ہوئے ہیں اور دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا جذبہ رکھتے رہے ہیں، خود امارت شرعیہ نے جب کسی موضوع پر انہیں آواز دیا تو وہ امارت شرعیہ تشریف لاتے رہے ہیں۔ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ سے وہ بہت قریب تھے، تنظیمی معاملات ومسائل میں دونوں میں خاصی ہم آہنگی تھی، جس کا مشاہدہ احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے بار بار کیا ہے ، اب یہ کام الحمد للہ مولانا رضوان احمد اصلاحی صاحب کر رہے ہیں اور ان کی سادگی ، گفتگو کا سلیقہ تواضع اور انکساری بھی اس دور میں خوش گوار حیرت میں ڈالا کرتی ہے۔
 ’’اسلام ایک فطری اور عقلی دین‘‘ جناب احمد علی اختر صاحب کی چھیانوے صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جو بقامت کثیر اور بقیمت بہتر کی صحیح مصداق ہے ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے اس رسالہ کی اشاعت ہوئی، طباعت ، کاغذ، سیٹنگ، ٹائٹل کی خوبصورتی اور دیدہ زیبی، مرکزی مکتبہ اسلامی کی طباعت کا طرۂ امتیاز رہا ہے جو اس کتاب میں بھی پورے طور پر جلوہ فگن ہے، قاری کو مطالعہ پر آمادہ کرنے میں ان چیزوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے ، جو کتاب طباعت کے اعتبار سے دیدہ زیب نہیں ہوتی انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے قاری گھبراتا ہے ۔
 کتاب کا موضوع اسلام ہے، جو فطری بھی ہے اور عقلی بھی، اس کتاب میں اسی چیز کو سادہ، آسان زبان اور شستہ لب ولہجہ میں دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، انداز بیان اور دلائل کے پیش کرنے کے سلیقے کی وجہ سے یہ کتاب ’’ازدل خیزد بر دل ریز‘‘ کی صحیح مصداق بن گئی ہے ۔
 جناب احمد علی اختر صاحب نے اس کتاب کو جن لوگوں کے لیے لکھا ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہ مضمون میں نے ان لوگوں کے لیے لکھا ہے جو اسلام کے نظریۂ زندگی اور فلسفۂ حیات کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے، مبہم مبہم اور دھندھلا دھندلا ایک تصور ان کے ذہن میں ہے کہ اسلام میرا مذہب ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ آباؤ واجداد سے ملی ہوئی یہ قیمتی وراثت میرے پاس اجداد کی امانت ہے، اسے سنبھال کر رکھنا ہے ۔‘‘
 مولانا کے سامنے ایک دوسرا طبقہ بھی ہے اور وہ ہے مغربی تہذیب سے متاثر اور مرعوب طبقہ، جن کی آنکھیں سائنسی ترقیات سے اس قدر چکا چوند ہو گئی ہیں کہ انہیں اس سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے، وہ اسلام کو قدامت پسند سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات اور تغیر پذیر زمانہ میں اسلام کی اہمیت کم ہو گئی ہے ، اس احساس وخیالات کی وجہ سے وہ ایک قسم کی احساس کمتری میں مبتلا ہو گیے ہیں اور اسلام کو عقلیت سے دور ایک مذہب تصور کرتے ہیں، حالاں کہ اسلام میں عقل ونقل دونوں کی اہمیت ہے ، اسی لیے ہم روایت کے ساتھ درایت کا بھی خیال رکھتے ہیں، علماء اسلام نے اسلام عقل ونقل کی روشنی میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں اور احکام خدا وندی کے اسرار ورموز کی طرف عقلی طور پر ہماری رہنمائی کی ہے ، امام غزالی کی احیاء العلوم ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی حجۃ اللہ البالغہ، حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ کی المصالح العقلیہ جس کا جدید ایڈیشن اسلام عقل کی روشنی میں آیا ہے مشہور ومعروف ہیں۔
 جناب احمد علی اختر صاحب کی یہ کتاب اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہے، جس میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، جس کی وجہ سے اس پر عمل آسان ہے اور پھر جو احکام بھی دیے گیے ہیں ان کی عقلی توجیہہ بھی ہے جو قرآن وحدیث میں غور وفکر کرنے سے اہل علم پر واضح ہوجاتی ہے ، البتہ انسانی عقل کے مختلف مدارج ہیں اور ان احکامات کو سمجھنے کے لیے ایک خاص قسم کی استعداد وصلاحیت کی ضرورت ہے، ہر آدمی سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ احکام اسلام کی عقلی توجیہہ تک پہونچ جائے، اسی لیے قرآن کریم میں بار بار تدبر اور تفکر پر زور دیا گیا ہے ، تاکہ اس کی تہہ تک انسانوں کی رسائی ہو سکے ، اس کتاب کے بارے میں مولانا سید جلال الدین عمری صدر شریعۃ کونسل جماعت اسلامی ہند نے بجا لکھا ہے کہ ’’ اس (کتاب) میں اسلام کا وسیع اور جامع تعارف ہے ، اس کی تعلیمات کے احاطہ کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے ہیں ، اس سے اسلام کی حقانیت اور صداقت واضح ہوتی ہے ، انداز دعوتی اور تاثراتی ہے ۔
مولانا جلال الدین عمری صاحب نے جناب احمد علی اختر صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ان کے اندر عمدہ تحریری صلاحیت بھی ہے ، لیکن ان کی اس طرف توجہ کم رہی ہے ، انہوں نے جو کچھ لکھا ہے ، اس سے ان کا دینی وادبی ذوق نمایاں ہے ، ان کی تحریروں میں بڑی شگفتگی اور ادبی چاشنی پائی جاتی ہے ‘‘۔
 پیش لفظ اور تعارف کوچھوڑ کر بیالیس (۴۲)عنوانات کے تحت اسلام کے فطری اور عقلی ہونے پر روشنی ڈالی ہے ، جس کے ذیل میں اسلام کے بنیادی عقائد ، قرآن ہدایت کی آخری کتاب ، زندگی پر عقیدۂ توحید کے اثرات، ڈارون کا نظریۂ ارتقائ، انسان کی تخلیق کے سلسلے میں قرآن کا نظریۂ اسلام کے تعزیراتی قوانین جسے اہم مضامین کتاب میں ایک خاص ترتیب سے زیر بحث آئے ہیں، اسلام کی فطری اور عقلی بنیادوں کو عصر حاضر میں جدید معروضی اور منطقی اسلوب میں سمجھنے کے لیے یہ کتاب انتہائی مفید ہے اور اس لائق ہے کہ ہر گھر میں اس کو پڑھا جائے، رکھا جائے، تاکہ نئی نسل دین بیزار نہ بنے۔

جمعہ, اگست 26, 2022

مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال علمی اور ملی خسارہ ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال علمی اور ملی خسارہ ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
اردو دنیا نیوز٧٢
جماعت اسلامی کے سابق امیر درجنوں علمی دینی اور تحقیقی کتا بوں کے مصنف مولانا جلال الدین انصر عمری کا انتقال بڑا علمی ملی و دینی خسارہ ہے ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا ہے۔مفتی صاحب نے فر مایا کہ مولانا جلال الدین انصر عمری نے اپنی پوری زندگی اقامت دین اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں لگا دیا اور آخری دم تک اللہ کی رضا کے لیے کام کرتے رہے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے  پس ماندگان کو صبر جمیل اور جماعت اسلامی کو انکا نعم البدل عطا فرمائے ۔آمین

ابتلاء وآزمائش کا الٰہی نظام ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی

ابتلاء وآزمائش کا الٰہی نظام ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 انسان کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، وہ خوشی وغمی ، راحت وسکون ، اطمینان وپریشانی  کے حال سے گذرتا ہے ،خوشی ، اطمینان ، راحت سکون سے اس کی زندگی پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں، یہ اثرات کبھی کبھی ذہن ودماغ پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ غم ، بے اطمینانی اور پریشانی کے احوال اس کے ذہن سے محو ہوجاتے ہے، وہ سب کچھ اپنی محنت کا ثمرہ سمجھتا ہے اور اللّٰہ رب العزت کی ذات اقدس جو ساری نعمتوں کو عطا اور سارے احوال کو طاری کرنے والی ہے ، اس کا خیال جاتا رہتا ہے، ایسے میں اسے آزمایا جاتا ہے تاکہ وہ لوٹ کر اللّٰہ رب العزت کی بار گاہ تک آجائے ، اللّٰہ کو اپنی بار گاہ میں بلانے سے کوئی فائدہ نہیں ، لیکن بندہ بار گاہ خدا وندی تک پہونچ کر ہی کامیابی وکامرانی کے منازل طے کر سکتا ہے، اس لیے اللّٰہ رب العزت بندے کو ابتلاء وآزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ بندہ آزمائش کے دور سے گذر کر اللّٰہ سے اور قریب ہوجائے، اس آزمائش سے انبیاء کرام کو بھی گذارا جاتا ہے ، حالاں کہ انبیاء کے دل ودماغ سے اللّٰہ رب العزت کبھی بھی غائب نہیں ہوتے، ہر وقت اللہ کا وجود ان کے سامنے ہوتا ہے اور وہ مرضیات خدا وندی کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتے، لیکن ان کو دوسرے انسانوں کے لیے ماڈل بنایا جاتا ہے، اس لیے انہیں بھی اس دور سے گذرنا پڑتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آزمائش کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دہ پریشانی اور امراض کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں ملتا ہے، دیگر انبیاء کرام کے احوال بھی جو قرآن کریم کے ذریعہ اللہ رب العزت نے ہم تک پہونچائے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی نبی ہو جسے ابتلاء آزمائش میں ڈالانہ گیا ہو، ظاہر ہے جو اللہ کے ان پاک  بندوں پر گذری اس سے کسی نہ کسی حد تک امتوں کو بھی گذرنا پڑتا ہے۔ خود اللہ رب العزت نے آزمائش کی چند صورتوں کا قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، ان میں خوف ، بھوک، مال وجان اور پیدا وار میں کمی شامل ہے ۔ ایک دوسری آیت میں آزمائش کے بعض دوسرے طریقوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ہے کہ تم ضرور بالضرور آزمائے جاؤگے۔ مال وجان کے مسئلے میں اور ہمتیں ضرور بالضرور نیما پڑیں گی، وہ باتیں جن سے تمہیں سخت تکلیف پہونچے گی ، یہ تکلیف دہ باتیں اہل کتاب او ر مشرکین کی طرف سے آئیں گی ۔(سورۃ آل عمران : ۱۸۶)
قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے موت وحیات کو بھی بندوں کی آزمائش کے لیے پید اکیا کہ عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے ،۔ (الملک : ۲) ایک دوسری آیت میں عمومی ابتلاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : روئے زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے زمین کی زینت بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے بہتر کون ہے ۔ (الکہف)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو ابتلاء وآزمائش سے گذرنا ہی ہوگا، قرآن کریم میں لفظ ابتلاء اور اس کے ملحقات کا سینتیس (۳۷) دفعہ استعمال کیا گیاہے ، اس مقصد کے لیے فتنہ اور امتحان کے الفاظ بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔
 احادیث میں اس کا ذکر بار بار آیا ہے ، مصعب بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے، پھر درجہ بدرجہ انسانوں کی ہوتی ہے۔ بخاری شریف باب الفتن حدیث نمبر ۴۰۲۳ میں ہے کہ بندے کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے، دین میں پختگی ہوگی تو آزمائش سخت ہوگی اور دینی اعتبار سے سستی ہوگی تو اسی کے مطابق آزمایا جائے گا، یہ آزمائشیں گناہوں کی تلافی کے بھی کام آتی ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندے کی مسلسل آزمائش ہوتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔
 ان آیات واحادیث کا ماحصل یہی ہے کہ انسانوں کو ہر حال میں آزمائش سے گذرنا ہے، یہ آزمائشیں کبھی خوف طاری کرکے ہوگی ، کبھی جان ومال کے ضیاع کا معاملہ سامنے آئے گا اور کبھی فاقہ کشی کی نوبت آئے گی، مختصر یہ کہ اگر وہ مسلمان ہے اور دین پر سختی سے عامل ہے تو اس کو سخت ابتلاء وآزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا، اس ابتلاء وآزمائش کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین ایسی گفتگو پر اتر آئیں جن کا سننا مؤمن کے لیے سخت تکلیف دہ ہو۔ قرآن کریم میں مال کے ساتھ اولاد کو بھی فتنہ کہا گیا ہے ، ارشاد باری ہے ۔ انما اموالکم واولادکم فتنۃ ،  مال کی کثرت کے بعد انسان جس بد اخلاقی ، بد دینی اسراف اور فضول خرچی میں پڑتا ہے، یہ ابتلا کی مختلف شکلیں ہیں، اسی طرح اولاد اگر تعلیم وتربیت کی کمی کی وجہ سے دین وشریعت سے دور جا پڑے تو وہ والدین کے لیے آزمائش بن جاتا ہے اور اس کے بڑے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔
 قرآن کریم میں ابتلاء وآزمائش کے لیے مصیبۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے وہ مکافات عمل کے طور پر آنے والی آزمائش کے لیے ہے، اللہ رب العزت نے اس کی تفصیل بیان کی کہ جو مصیبتیں تم پر آتی ہیں، وہ تمہارے اعمال ہیں اور وہ بھی سارے اعمال کے بدلے نہیں؛ بلکہ بہت ساری بد عملی اور بے عملی کو اللہ معاف کر دیتا ہے ، تھوڑی بہت پکڑ ہوتی ہے تو بندہ کراہ اٹھتا ہے، اگر سب پر گرفت ہونے لگے تو زندگی اجیرن اور جینا دو بھر ہوجائے ۔ اسی مفہوم کو ایک دوسری آیت میں اس طرح ذکر کیا کہ خشکی وتری میں جو کچھ فساد وبگاڑ ہے وہ انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائیاں ہیں۔تاکہ وہ اپنے بعض اعمال کا مزہ چکھ لیں،شاید انہیں لوٹنا نصیب ہوجائے۔
 ابتلاء میں مکافات عمل اور آزمائش دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے، بندہ جب اپنے اعمال کو درست کر لیتا ہے ، انابت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے تو پھر اللہ کی نصرت اور مد د متوجہ ہوجاتی ہے اور بندہ اس آزمائش سے نجات پاجاتا ہے، ابنیاء جب اس مرحلے سے گذرتے ہیں تو انہیں مقام امامت پر فائز کیا جاتا ہے وہ خلیل اللہ بن جاتے ہیں، عام بندہ جب آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ مقرب الی اللہ ہوجاتا ہے۔
 ابتلاء وآزمائش سے پار گھاٹ لگنے کا جو نسخہ اللہ رب العزت نے ہمیں دیا ہے وہ صبر، تقویٰ اور استعانت بالصلوٰۃ ہے، نماز کا اہتمام کیا جائے، اللہ کے خوف وخشیت سے دل کو آباد کیا جائے او رمصائب پر صبر اختیار کیا جائے، صبر کے معنی بہت وسیع ہیں، ان میں قوت برداشت ، تحمل ، جفاکشی ، ہمت ودلیری ، تکلیف سہنے کا جذبہ یا طاقت سبھی کچھ شامل ہے۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر قسم کی مصیبت ، غم اور پریشانی کے وقت میں اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا بھی صبر ہے، پھر اگر دفاع کرنا ہو ہوتو بھی ان امور کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، جس کا شریعت نے ہمیں پابند کیا ہے۔
جب صبر کی بات آتی ہے تو بہت سارے لوگ اسے بزدلی قرار دیتے ہیں، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نا خوش گوار واقعات پر صبر بزدلی نہیں کام کی حکمت عملی ہے، اور یہ حکمت عملی اللہ رب العزت نے ہمیں بتائی ہے اور اللہ کی تدبیر سے بہتر تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ۔ ’’واللہ خیر الماکرین‘‘ اللہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
ہندوستان کے جو حالات اس وقت ہیں اور مسلمانوں پر جس طرح زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو رہی ہے، روز نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، یہ بھی ابتلاء وآزمائش کی ہی ایک شکل ہے، اور ہم لوگ عام انسانوں کی طرح ہی انسان ہیں، اس لیے عمومی احوال کے اعتبار سے یہ وہ مصیبت ہے جو ہماری بد اعمالیوں کے طفیل ہم پر مسلط کی گئی ہے، ایسے میں ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اسباب کے درجہ میں اپنے اعمال کی اصلاح کریں، ان تمام کاموں سے بچیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوا کرتے ہیں، احکام خدا وندی کی پاسداری اور نبوی طریقہ کی پابندی سے ہم اس ابتلاء وآزمائش سے نکل سکتے ہیں، ہم ساری خرابیوں کی جڑ بھاجپا حکومت ، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اوردوسرے اہل کاروں کو دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اعمالکم عمالکم‘‘ تمہارے اعمال ہی تم پر حکمراں بن کر مسلط ہو گیے ہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ احوال حکمرانوں کے بدلنے سے نہیں بدلتے اعمال کے بدلنے سے بدلتے ہیں، اس ملک میں اس سے قبل بھی مسلمانوں کے خلاف طوفان بلا خیز نے اکھاڑ، پچھاڑ مچایا، ان کے جان ومال کا ضیاع ہوا، خوف کی نفسیات نے ان کا جینا دو بھر کر دیا، اس کے باوجود مسلمان اس مصیبت کے دور سے نکلے اور اللہ کی نصرت ومدد ان پر سایہ فگن ہوئی، اور کاروبار حیات میں پھر سے انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور سرخرو ہو کر باہر نکلے، ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے، اللہ کی مرضیات پر چلنے کی ہے، بندہ ایک قدم اس کی طرف بڑھتا ہے تو اللہ اس سے قریب ہو جاتے ہیں۔ بندہ اللہ کو مجلس میں یاد کرتا ہے تو اللہ ا س سے اچھی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہے، بندہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اسے یاد رکھتے ہیں، ابتلاء وآزمائش میں شدت کے با وجود مسلمانوں کا شیوہ نا امیدی کا نہیں رہا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اللہ وہ تو غفور الرحیم بھی ہے ستار العیوب بھی۔

جمعرات, اگست 25, 2022

بلقیس بانو کے مجرمین ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بلقیس بانو کے مجرمین ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 جس دن ہمارے وزیر اعظم خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کی ضرورت پر یوم آزادی کے موقع سے لال قلعہ کی فصیل سے قوم کو خطاب فرما رہے تھے، اسی دن گجرات سرکار نے ان گیارہ مجرمین کو جیل سے رہا کر دیاجسے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کی سزا سنائی تھی،ان مجرمین کی رہائی سے بلقیس بانو کو سخت صدمہ پہونچا اور ان کے شوہر یعقوب رسول حیرت زدہ رہ گیے، برسوں بعد انہیں مجرمین کو سزا ملنے سے اطمینان ہوا تھا، لیکن اب انہیں پھر سے اپنے تحفظ کی فکر ستا رہی ہے کہ کہیں یہ غنڈے پھر سے ان کو ستانے کے لیے نہ آدھمکیں۔
 بات ۳؍ مارچ ۲۰۰۲ء کی ہے جب گجرات فساد کے موقع سے بلقیس بانو پر آفت ٹوٹ پڑی تھی اس کے خاندان کے سات افراد بشمول اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا، بلقیس بانو اس وقت پانچ ماہ کی ھاملہ تھیں اور ان کی عمر اکیس سال تھی، غنڈوں نے ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی، زمانے تک بلقیس بانو ایف آئی آر درج کرانے کے لیے تھانے کے چکر لگاتی رہی ، لیکن معاملہ درج نہیں ہوا، بالآخر حقوق خواتین سے متعلق بعض تنظیموں کے ذریعہ معاملہ سپریم کورٹ پہونچا، نامزد ملزم اٹھارہ تھے، لیکن ۲۰۰۸ء میں سی بی آئی عدالت نے چودہ افراد کو مجرم قرار دیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی، تین دنیا سے چل بسے، باقی گیارہ افراد کی سزا کو ممبئی ہائی کورٹ نے بھی بر قرار رکھا، اور مجرمین جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے ۔
آزادی کے پچھہتر سال مکمل ہونے پر مرکزی حکومت نے ایک گائیڈ لائن جاری کیا ، جس کے مطابق طویل مدت سے جیل میں رہ رہے قیدیوں کو آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع سے آزاد کر نے کی تجویز تھی، البتہ مرکزی حکومت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اس سہولت سے عصمت دری کرنے والے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے، اس ہدایت کے خلاف ریاستی حکومت نے ان مجرمین کو رہا کرکے اس ملک کی خواتین کو ذلیل کرنے کا کام کیا ہے، گجرات حکومت کا یہ فیصلہ وزیر اعظم کے اس اعلان کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں انہوں نے خواتین کے تحفظ اور ان کو با اختیار بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا، مجرمین رہا کر دیے گیے، لیکن بلقیس بانو کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے با وجود نہ مکان دیا گیا، اور نہ سرکاری ملازمت، اب یہ مجرمین آزاد ہو گیے ہیں ، یہ سب بلقیس بانو کے گاؤں کے ہی ہیں، یہ بات سب کو معلوم کہ گھنونے کام کو کرنے والے بلقیس بانو کے پڑوسی ہی تھے، ایسے میں پھر ایک با ربلقیس بانو کے لیے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے ، طویل قانونی جنگ لڑنے کے بعد بلقیس بانو پھر سے اپنے کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے، اس لیے گجرات حکومت کو ان کے خاندان کے تحفظ کا معقول انتظام کرنا چاہیے کیوں کہ ان مجرمین کے حوصلے بہت بڑھ گیے ہیں اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اوپر حکومت کا ہاتھ ہے، وہ قتل اور عصمت دری جیسے جرائم کے ارتکاب کے با وجود آزادانہ گھوم سکتے ہیں، اور ان کے حامیوں نے جس طرح ان مجرمین کی رہائی کے بعد خوشیاں منائیں، جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں، یہ ایک خطرناک رجحان ہے، لیکن گجرات میں انتخاب ہونے ہیں، اس لیے حکومت ہندتوا ووٹ کو متحد کرنے کے لیے اس خطرناک رجحان پر پابندی لگانے کے موڈ میں نظر آرہی ۔

ملعون راجہ سنگھ کیخلاف مزید 7 مقدمات درج ، احتجاج جاری ، پتلے نذر آتش

ملعون راجہ سنگھ کیخلاف مزید 7 مقدمات درج ، احتجاج جاری ، پتلے نذر آتش

رات 8 بجے بازار بند، پولیس کی بربریت، رات دیر گئے گھروں کے دروازے توڑکر نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا

حیدرآباد : /24 اگست (اردو دنیا نیوز٧٢) شان رسالتؐ میں گستاخی پر معطل شدہ بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ کی گرفتاری کے بعد فوری رہائی کے خلاف عوام میں ہنوز برہمی کا ماحول ہے اور چہارشنبہ کو بھی احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور راجہ سنگھ کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔ راجہ سنگھ کے خلاف آج مزید 7 مقدمات پولیس اسٹیشن عنبرپیٹ ، ملک پیٹ ، چادر گھاٹ ، راجندر نگر اور نامپلی میں درج کئے گئے ہیں ۔ پولیس نے ساؤتھ زون میں فلیگ مارچ کیا۔ احتجاج کے دوران سنگباری کے واقعات بھی پیش آئے۔ شاہ علی بنڈہ آشا ٹاکیز کے قریب آج رات اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب احتجاجی نوجوانوں نے پولیس پر سنگباری شروع کردی۔ رات 8 بجے بازار بند کرادیئے گئے اور پرانا شہر عملاً کرفیو کا منظر پیش کررہا تھا۔ رات دیر گئے پولیس نے نشاندہی کے بعد گھروں کے دروازے توڑ کر ان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جو سنگباری میں ملوث بتائے گئے ہیں۔پولیس کی اس بربریت سے گھروں میں خواتین اور بچے انتہائی خوفزدہ ہوگئے اور چیخ و پکار کرنے لگے۔ بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدگان میں 3 غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ پولیس نے تقریباً 100 نوجوانوں کو احتیاطی اقدام کے طور پر حراست میں لے لیا جو شاہ علی بنڈہ اور چندرائن گٹہ علاقہ میں احتجاج کررہے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ نوجوان جہد کار سعید عبداؤ کشف کو بھی پولیس نے اشتعال انگیز نعرہ بازی کے کیس میں حراست میں لے لیا ہے۔ رات دیر گئے ٹاسک فورس کی اس کارروائی کے بعد احتیاطی اقدامات کے تحت پرانے شہر میں بھاری پولیس فورس کو متعین کردیا ہے ۔ تمام تجارتی دوکانوں کو بالخصوص پرانے شہر میں 8 بجے سے قبل ہی بند کرادیا گیا اور یہ احکامات جمعہ تک جاری رہنے کا امکان ہے ۔ پولیس پرانے شہر پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ کو بروقت روکا جاسکے ۔ سوشل میڈیا پر بھی کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ آج صبح سے ہی ایک واٹس ایپ میسیج پولیس کیلئے تشویش کا باعث رہا جس میں شام 5 بجے شاہ علی بنڈہ چوراہے پر کثیر تعداد میں احتجاج کیلئے جمع ہونے کی اپیل کی گئی تھی حالانکہ پولیس نے اس میسیج کو گشت کرانے کے پس پردہ افراد کا پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن یہ معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاپڈ ایکشن فورس کے علاوہ کمشنر ٹاسک فورس اور سنٹرل کرائم اسٹیشن و آرمڈ ریزرو پولیس کے پلاٹونس کو بھی پرانے شہر کے حساس علاقوں میں تعینات کردیا گیا ہے اور پولیس کی گشت میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ کل رات دیر گئے بعض احتجاجی نوجوانوں میں ڈیٹکٹیو انسپکٹر مغل پورہ کی پٹرولنگ گاڑی پر سنگباری کرتے ہوئے اسے نقصان پہنچایا ۔ اسی طرح رات دیر گئے احتجاج کرنے والے بعض نوجوانوں نے بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ کے مکان کو جانے کی کوشش کررہے تھے کہ پولیس نے انہیں علاقہ بیگم بازار کے قریب انہیں حراست میں لے لیا جبکہ بعض نوجوانوں کو اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے زدوکوب کیا جس میں ایک نوجوان زخمی ہوگیا ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جمعہ تک پرانے شہر میں چوکسی برقرار رہے گی اور احتجاج و مظاہروں پر کڑی نظر رکھی جائے گی ۔ حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے انٹلیجنس عملہ اور اسپیشل برانچ کے ملازمین کو بھی علاقوں میں پھیلادیا گیا ہے تاکہ ناگہانی واقعہ کے بارے میں فوری طور پر اعلیٰ عہدیداروں کو اطلاع دی جاسکے ۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے ملعون راجہ سنگھ کے پوسٹر پر چپل کا نقش بناکر اسے سڑکوں پر چسپاں کیا تاکہ عوام ان پوسٹرس پر سے گزرے ۔ ایڈیشنل کمشنر پولیس لا اینڈ آرڈر ڈی ایس چوہان کی نگرانی میں پولیس بندوبست کیا جارہا ہے اور پرانے شہر کے اہم راستوں پر خاردار تار کے علاوہ بیریکیٹس بھی نصب کرتے ہوئے چیک پوسٹ کی طرح پولیس پکٹس قائم کئے گئے ہیں تاکہ اُن راستوں سے گزرنے والے افراد کو روک کر ان کی تلاشی لی جاسکے ۔ بتایا جاتا ہے کہ گنیش تہوار کے لئے صرف ایک ہفتہ باقی ہے اور اس سے قبل شہر میں کشیدہ حالات سے پولیس ہنوز تشویش کا شکار ہوگئی ہے اور ممکنہ تشدد کے واقعات سے نمٹنے کیلئے خصوصی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے ۔ ب

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...