Powered By Blogger

ہفتہ, ستمبر 03, 2022

دھرم شالہ : بادل پھٹنے سے سیلاب ، بچاؤ راحت رسانی کام جاری

دھرم شالہ : بادل پھٹنے سے سیلاب ، بچاؤ راحت رسانی کام جاری
اردو دنیا نیوز ٧٢
دھرم شالا، 3 ستمبر: سینئر عہدیداروں نے سنیچر کو یہاں خان پارہ علاقے کا دورہ کیا، جہاں ایک دن قبل بادل پھٹنے سے علاقے میں سیلاب آیا ہے۔امدادی کارکنوں کو ہدایت دی کہ وہ متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کریں۔ اس علاقے میں جمعہ کو ہونے والی شدید بارشوں میں کئی مکانات اور دکانیں تباہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 15 مکانات اور تین دکانوں کو جزوی نقصان پہنچا اور 45 بھیڑیں اور بکریاں لاپتہ ہو گئیں۔ کانگڑا کے ڈپٹی کمشنر نپن جندال نے آج صبح پولیس سپرنٹنڈنٹ کشال شرما کے ساتھ خان پارہ کا دورہ کیا۔انہوں نے امدادی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ شدید بارشوں سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کریں تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جمعہ کو خان پارہ میں بادل پھٹنے کی اطلاع ملنے کے بعد، ایس ڈی آر ایف (اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس) کی ریسکیو ٹیم پانچ منٹ کے اندر جائے وقوعہ کے لیے روانہ ہوگئی تھی۔ تحصیلدار اپوروا شرما کی سربراہی میں ایک ٹیم کو بھی امدادی کاموں کے لیے جائے وقوع پر بھیجا گیا۔بجائزہ لیا جا رہا ہے اور ضلع انتظامیہ کی طرف سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ متاثرہ خاندانوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اور ذیلی اضلاع کی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کنٹرول روم قائم کیے گئے ہیں تاکہ کسی آفت کی اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر راحت اور بحالی کا کام کیا جا سکے۔ جمعہ کے روز ہونے والی موسلادھار بارش کے باعث خانیارہ گاؤں میں ایک نالہ بہہ گیا جس سے مرکزی بازار میں نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ ناگ مندر روڈ پر کیچڑ گھروں اور دکانوں میں گھس گیا اور ایک چھوٹا پل بہہ گیا جس سے دھرم شالہ-سدھواڑی سڑک پر ٹریفک متاثر ہوا۔ سیلاب سے چند گاڑیوں کو بھی ارشوں سے ہونے والے نقصانات کا نقصان پہنچا۔

جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد کے زیراہتمام

جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد کے زیراہتمام
اروددنیانیوز٧٢
جلسہ اصلاح معاشرہ
موضوع کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں بہن۔بیٹیوں کےلئے عظیم الشان
بتاریح ٤سیتمبر ٢٠٢٢بروز اتوار بوقت صبح ٩بجے  بمقام مدرسہ فیض القرآن موضوع کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور
اسمائے گرامی حضرات علمائے کرام
حضرت مولانا کلیم الزاماں صاحب مدظلہ مہتمم مدرسہ رشیدیہ میمن سادات 
حضرتمولانا محمد ابرار صاحب مدظلہ امام جامع مسجد سمیع پور
شہنشاہ خطابت حضرت مولانا مفتی محمد افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم کلر والی مسجد کیرت پور
حضرت قاری محمد شعیب نفیس صاحب  ناظم جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد
حضرت مولانا جاوید صاحب 
حضرت حافظ منکشف عالم صاحب کمراج پور
الداعی حضرت مولانا محمد اقرار بیگ صاحب امام خطیب جامع مسجد کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور

چیف جسٹس کی فکر مندی ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

چیف جسٹس کی فکر مندی ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن جلد ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں، اپنے طویل پیشہ دارانہ تجربات کی وجہ سے ہندوستان میں عدلیہ سے جس طرح اعتماد اٹھتا جا  رہا ہے ، اس سے وہ کافی فکر مند ہیں، انہوں نے عدلیہ سے اعتماد کھونے کو جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پرزور دیا کہ عوام کا بھروسہ عدلیہ سے نہ اٹھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ جج اور وکلاء مل کر زیر التوا مقدمات میں جلد انصاف فراہم کرائیں، ان کی رائے ہے کہ وکلاء کو عدالت کے علاوہ معاشرہ میں تبدیلی کے لیے بھی کام کرنا چاہیے، اس لیے کہ معاشرہ کے پُر امن اور متحد ہونے کی صورت میں ترقی کا عمل آسان ہوتا ہے، جسٹس رمن وجے واڑہ میں نو تعمیر شدہ کورٹ کمپلکس کے افتتاحی تقریب میں وکلائ، جج اور دانشوروں کے ایک مجمع سے خطاب کر رہے تھے۔
 جسٹس رمن کی پوری تقریر کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے جو کہا سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا ہے، اس لیے کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے،پچاس (۵۰) مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے، تو سو (۱۰۰) نئے درج ہوجاتے ہیں، پارلیامنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے بتایا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں چار کروڑ تراسی لاکھ سے زائد مقدمات سماعت کے منتظر ہیں۔ چار کروڑ سے زائد نچلی عدالتوں میں اور سپریم کورٹ میں بہتر ہزار مقدمات پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔
 عدالتوں کے بعض فیصلے ضابطے اور قانون کے اعتبار سے جس قدر بھی اہم ہوں اور عدالتی وقار کے پیش نظر جس قدر اس کا احترام کیا جائے، عوام کے حلق سے نیچے نہیں اترپاتے، ایسے میں عوام یہ سمجھنے لگی ہے کہ عدلیہ پر حکمراں طبقہ کا سخت دباؤ ہے، اور فیصلے قانون کی پاسداری کے بجائے دباؤ کے نتیجے میں آ رہے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ معاملات ومسائل پر فیصلے حکمراں کرتے ہیں، اور عدالت اسے قانونی زبان فراہم کرتی ہے ، اس دباؤ کا اظہار کئی مرتبہ جج صاحبان کی زبانی بھی سامنے آچکا ہے، اس لیے عوام کی اس سوچ کو یکسر بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔
 عدالت میں مقدمات کے التواء اور فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جمہوریت کو بڑا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ سے قانو ن شکنی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، ریاستیں عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے میں آنا کانی کرتی ہیں اور اس کی منشا کے خلاف کبھی کبھی اس کے فیصلے رد بھی کر دیے جاتے ہیں، جیسا بلقیس بانو کے معاملہ میں ہوا، سپریم کورٹ نے مکان اور سرکاری ملازمت دینے کا ریاست کو حکم دیا تھا، جس پر عمل نہیں ہو سکا، اور اس کے بر عکس اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کے سزا یافتہ مجرمین کو گجرات حکومت نے چھوڑ دیا، اور چھ ہزار سے زائد دستخطوں سے جاری اس عرضی پر کوئی غور نہیں کیا گیا، جس میں مجرمین کو پھر سے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی تجویز رکھی گئی ہے مجرمین بے خوف ہوکر گھوم رہے ہیں۔
 ان حالات میں عدلیہ کو اپنا کردار غیر جانب دار ہو کر ادا کرنے کی ضرورت ہے، عدالت جمہوریت کا اہم ستون ہے، اگر اس پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو جمہوریت کے ساتھ، ملک کا بھی بڑا نقصان ہوجائے گا۔

جمعرات, ستمبر 01, 2022

یوپی:سرکاری مدارس کے لئے ضابطے، غیرسرکاری مدارس کا سروے

یوپی:سرکاری مدارس کے لئے ضابطے، غیرسرکاری مدارس کا سروے

اردو دنیا نیوز ٧٢

لکھنو: اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے بدھ کو ایک حکم نامہ پاس کیا جس میں سرکاری امدادیافتہ مدارس کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی منتقلی کی اجازت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے ریاستی مدرسہ بورڈ کی خواتین عملہ کو زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال کی چھٹی بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس معاملے کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے ریاستی وزیر (اقلیتی بہبود) دانش انصاری نے میڈیا کو بتایا کہ یہ فیصلہ مدارس کے عملے کے ارکان اور اساتذہ سے مشاورت کے بعد لیا گیا ہے۔

اقلیتی بہبود کے وزیر مملکت دانش نے کہا، "مدرسوں کے منتظمین کی منظوری اور یوپی مدرسہ تعلیم کے رجسٹرار کی منظوری سے امداد یافتہ مدارس کے اساتذہ/غیر تدریسی عملے کے تبادلے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا گیا ہے۔ اب تک، بورڈ میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے ارکان کے ٹرانسفر کی اجازت نہیں تھی جسے نئے حکم نامے کے بعد لاگو کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، اتر پردیش حکومت کے نئے حکم کے مطابق، اب کسی بھی ملازم کے زیر کفالت افراد کو میت کے زیر کفالت کے طور پر نوکری دی جائے گی۔ یہ سہولت ان لوگوں کو بھی فراہم کی جائے گی جو مدت ملازمت میں انتقال کر جائیں گے۔ یہ ضلع اقلیتی بہبود افسر یا مدرسہ کے پرنسپل سے رضامندی حاصل کرنے کے بعد کیا جائے گا۔

نئے قوانین کے تحت مدارس میں کام کرنے والی خواتین ملازمین کو اب میٹرنٹی لیو اور چائلڈ کیئر چھٹیاں محکمہ ثانوی تعلیم اور بنیادی تعلیم میں لاگو قوانین کے مطابق ملیں گی۔ حکومت نے ریاست میں غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرنے کا بھی اعلان کیا ہے تاکہ وہاں موجود اساتذہ کی تعداد، نصاب اور انفراسٹرکچر کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔

انصاری نے بتایا کہ حکومت قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی ضرورت کے مطابق مدارس میں طلباء کو بنیادی سہولیات کی دستیابی کے حوالے سے ایک سروے کرے گی۔ ایک خبر رساں ایجنسی نے وزیر کے حوالے سے بتایا کہ "سروے بہت جلد شروع ہو جائے گا۔"

بدھ, اگست 31, 2022

پاکستان: سیلاب میں قبرستان بہہ گیا، میتوں کی دوبارہ تدفین

پاکستان: سیلاب میں قبرستان بہہ گیا، میتوں کی دوبارہ تدفین

اردو دنیا نیوز٧٢

پشاور؛:پاکستان میں سیلابی صورتحال بد سے بد تر ہوگئی ہے۔ ملک کا نصف سے زیادہ حصہ زیر آب ہے۔ ہاہا کار کا عالم ہے۔ حالات یہ ہیں کہ زندہ تو زندہ اب مردے بھی سیلاب کی زد میں ہیں۔ سیلاب نے کئی قبرستانوں کو نگل لیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جہاں دیگر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے وہیں کچھ علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے قبرستان بھی شدید متاثر ہوہے ہیں۔چارسدہ کی تحصیل شب قدر کا دلزاک قبرستان بھی انہی قبرستانوں میں سے ایک ہے جہاں سیلابی پانی داخل ہو کر کئی قبروں کا بہا لے گیا اور اب وہاں مدفون میتوں کے عزیز و اقارب دوبارہ ان میتوں کی تدفین کر رہے ہیں۔

دریائے کابل کے کنارے دلزاک قبرستان سیلابی پانی کی وجہ سے متاثرہ ہوا تھا اور اب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے میتوں کو دوبارہ دفن کرنے کے لیے تابوت فراہم کیے گئے ہیں۔ ضلعی ڈپٹی کمشنر عبدالرحمان کے مطابق زمینی کٹاؤ کی وجہ سے سیلابی پانی دریا کے قریب موجود قبروں کو بہا کر لے گیا تھا۔

مقامی لوگوں نے جب نشان دہی کی تو انہیں تابوت فراہم کیے گئے تاکہ ان میتوں کے عزیزواقارب ان کی دوبارہ تدفین کر سکیں اور اب میتوں کو دوبارہ دفن کر دیا گیا ہے۔

چارسدہ کے علاوہ نوشہرہ کے علاقے امان گڑھ میں واقع قبرستان بھی دریائے کابل میں سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوا ہے اور سیلابی پانی اب بھی قبرستان میں موجود ہے۔ دلزاک علاقے کے رہائشی آصف خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ 'یہ اس علاقے کا تاریخی اور پرانا قبرستان ہے جہاں پر ہمارے بزرگ اور عزیزو اقارب دفن ہیں لیکن 20 سے 25 قبریں سیلابی پانی میں بہہ گئی ہیں۔'

اس علاقے میں دریائے کابل کے کنارے آبادی بھی واقع ہے اور سیلاب نے پہلے گھروں کو متاثر کیا اور بعد میں قبرستان کی زمین کی کٹائی شروع کی۔ سیلاب کے دوران بعض لوگوں نے اپنے عزیزو اقارب کے میتوں کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر بھی دفن کیا۔

مطابق چارسدہ میں سیلاب متاثرین کے لیے قائم کیمپ میں دو بچے پانی میں ڈوب گئے۔ ریسکیو 1122 کے مطابق پانی میں ڈوبنے والے دونوں بچے بہن بھائی تھے جن کی عمریں آٹھ اور گیارہ سال تھیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے بچوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دیں ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں مجموعی طور پر ہونے والی 1186 اموات میں 386 بچے شامل ہیں۔

ڈاکٹر سرور عالم ندوی کی کتاب سیرت نبویؐ کے نایاب گوشے:ایک مطالعہ

ڈاکٹر سرور عالم ندوی کی کتاب سیرت نبویؐ کے نایاب گوشے:ایک مطالعہ 
ڈاکٹر نور السلام ندوی،پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ دنیا ئے انسانیت کے لئے کامل نمونہ اور اسوہ ہے، آپﷺ کی ذات بابرکت قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے۔رسول خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہدایت کا چراغ اور نجات کی راہ ہے، سیرت مصطفی اسلام کا عالمگیر آئینہ ہے، جس میں اسلام کی پوری تصویر صاف وشفاف نظر آتی ہے۔ اس لیے سیرت نبوی کے مختلف گوشوں پر سب سے زیادہ اہل علم و قلم نے ضو فشانیاں کی ہیں، اور سب سے زیادہ اوراق سیاہ کیے ہیں۔ دنیا کی متعدد زبانوں میں بے شمار کتابیں تحریر کی گئی ہیں، لیکن سیرت طیبہ کا یہ بھی اعجاز ہے کہ جس قدر کتابیں سیرت کے موضوع پر لکھی جارہی ہیں اسی قدر نئے نئے گوشے ہمارے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نایاب گوشے‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے مصنف فاضل گرامی قدر حضرت مولانا ڈاکٹر سرور عالم ندوی صاحب ہیں ،جو شعبہ عربی، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ کے موقر استاذ ہیں، موصوف خود اپنا تعارف آپ ہیں،فاضل ندوہ ہونے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل ہیں، علوم اسلامی اور علوم عصری کے حسین امتزاج نے ان کی شخصیت کو جامع اور ہمہ گیر بنا دیاہے۔ اس کتاب میں پانچ مقالے ہیں ،جن میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نایاب پہلووں کا اچھوتے اور دلکش انداز و اسلوب میں جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلے مقالے کا عنوان ہے’’ ربائب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیرت نبوی کا ایک گمشدہ باب‘‘ اس مقالے میں فاضل مصنف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت حضرات امہات المومنین کی سابقہ اولادیں جنہیں ربیب یا ربیبہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، کی سیر ت و شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز ان کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک کیسا رہا، ان کی کفالت اور تربیت میں آپ کا کیا کردار رہا، آپ ان سے کس قدر محبت اور الفت کا معاملہ فرماتے تھے، اوران بچوں کو آپ سے کس درجہ محبت والفت تھی؟ان تمام پہلوؤں پر قرآن و حدیث اور سیرت و تواریخ کی مختلف کتابوں کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔مصنف نے ان تمام ازواج مطہرات جوپہلے سے صاحب اولاد تھیں اور جن کی کفالت اور تربیت کا ذمہ آپ نے قبول فرمایا تھا، اور وہ سب آپ کے زیر نگرانی پروان چڑھے، ان کے اسماء  مندرجہ ذیل بیان کیے ہیں۔(۱) حضرت ہند بن نباش بن زرارہ تمیمی(۲) حضرت ہالہ بن نباش(۳)حضرت طاہر بن نباش (٤)حضرت ہند بن عتیق بن عائد مخزومی(۵)حضرت سلمہ بن عبداللہ بن عبدالاسود(٦)حضرت عمر بن ابی سلمہ (۷) حضرت درہ بنت ابی سلمہ(۸)حضرت زینب بنت ابی سلمہ(۹)حضرت عبدالرحمن بن سکران بن عمرو(۱۰)حضرت حبیبہ بنت عبداللہ بن جحش ان سب کا الگ الگ ذیلی عنوان قائم کرکے ان کی زندگی اور شخصیت کا تجزیہ کیا گیا ہے، اور یہ پہلو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے زیر سایہ تربیت پانے کا اثر ان حضرات کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہند بن ابی ہالہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں داخل ہوئیں تو ہند بھی اپنی ماں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں داخل ہوگئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پانے لگے، جس کا اثر ان کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔زبان وبیان سے لے کر کردارا ورعمل تک ہر چیز تربیت نبوی کا پرتو نظر آتی ہے۔ ہند کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجہ محبت تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شفقت پدری کا بھرپور اظہار فرماتے رہے، یہاں تک کہ جب اسلام کا ظہور ہوا تو حضرت ہند نے حلقہ بگوش اسلام ہونے میں سبقت فرمائی، اس طرح پدرانہ شفقتوں کے ساتھ ساتھ فرائض نبوت سے بھی اکتساب فیض کرنے کا قریب سے موقع ملا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ محبت کا معاملہ فرماتے اور اکثر و بیشتر ساتھ رکھتے تھے۔‘‘
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ آ نے والی اولاد کی کفالت فرمائی، پدرانہ شفقت و محبت نچھاور کی، تعلیم و تربیت کا ذمہ لیا، احساس یتیمی کو دور کیا،ان سے حد درجہ تعلق اور لطف گم گستری کا معاملہ فرمایا، اس سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس طرح شفقت اور دلجوئی کا برتاؤ کرنا چاہیے، بچوں کی تعلیم و تربیت اس کی عمر اورذہنی سطح کو سامنے رکھ کر کرنی چاہیے۔سیرت رسول کے اس پہلو کا مطالعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز تعلیم و تربیت اور اصلاح کا دلچسپ اور منفرد انداز سامنے لاتا ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:
’’جس ذات عالی نے فرزندان ملت کی اصلاح وتربیت کیلئے ایسے ایسے ارشادات و احکامات صادر فرمائے ہوں، اس نے خودان نونہالوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت میں کیا کردار ادا کیا ہوگا، جن کی پرورش کی ذمہ داری خود انہیں کے دوش مبارک پر رہی ہو، اس فکر و احساس کے ساتھ کتب احادیث کا مطالعہ ایسی روایتوں کو ظاہر کرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امہات المومنین کے سابقہ اولاد کے ساتھ معاملہ ان کی نگرانی و ذمہ داری اور تعلیم و تربیت کے نازک فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے اور فکرسلیم،علم عمیق، اور حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنے پر دلالت کرتی ہے، جس سے آراستہ وپیراستہ ہو کر ان نفوس قدسیہ کو ربائب النبی کے معزز لقب سے سرفراز ہونے کا شرف عظیم حاصل ہوا۔‘‘
دوسرے مقالہ کا عنوان ہے’’ ادب الاطفال کا نبوی اسلوب اور اصول ومبادی‘‘ اس مقالے میں سیرت النبی کے آئینے میں ادب اطفال کے نبوی اصول تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات، ارشادات، اعمال ا ور افعال کی روشنی میں بچوں کی نگہداشت و پر داخت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے نہایت مؤثر اور کارآمد بحث کی گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم و تربیت کی خاص ہدایت فرمائی، اور اصلاح وتربیت کا ایسا پیارا انداز واسلوب اختیار فرمایا جو واقعتا ادب اطفال کا زریں باب ہے، آپ نے نونہالان قوم و ملت کی پرورش و پرداخت اور اصلاح وتربیت میں کن کن امور کا لحاظ رکھا ہے، اور کن کن باتوں کی رعایت کی ہے، بچوں کی ذہنی و فکری سطح کو کس طرح ملحوظ خاطر رکھا ہے، ان باتوں کو قرآن و حدیث اور آپ کے اقوال و اعمال کی روشنی میں اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ادب اطفال کے تعلق سے آپ کی تعلیمات تھیوری اور اصول و قواعد کا درجہ رکھتی ہیں،یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نو عمرصحابہ کرام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کااب تک جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات اور تقاضے کے مطابق مختلف موقع اور مناسبت سیَ ذہنی اور فکری، طبعی اور فطری رعایت کے ساتھ پیش فرمایا، جہاں نسل انسانی کی صحیح تعلیم و تربیت اور نیک و پاکیزہ معاشرہ اور سماج کو وجود میں لانے کی کوشش کی طرف رہنمائی کرتا ہے، وہیں اصناف ادب کے نازک ترین اور اہم ترین پہلو’’ ادب الاطفال‘‘ کی تدوین و ترتیب اور اس کے لیے ایسے رہنما اصول و ضوابط بھی مترشح ہوتے ہیں، جن کو بروئے کار لا کر اس صنف ادب کو امتیازی مقام بخشا جا سکتا ہے۔‘‘
تیسرا مقالہ’’ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریہ تعلیم ‘‘کے عنوان سے ہے، اس مقالے میں احادیث رسول کی روشنی میں علم کی اہمیت و افادیت بتلاتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر زبانوں کے سیکھنے کی ترغیب، حضور کے اقوال، اعمال اور افعال کی روشنی میں نصاب تعلیم کی ترتیب و تدوین، طریقہ تعلیم، دوران تدریس بورڈ کا استعمال، طلبہ کے تعداد کی حدبندی، اساتذہ کے لیے ضروری شرائط پر مفید اور کارآمد گفتگو کی گئی ہے۔فرمان رسول کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ اصول تعلیم میں مسلم و غیر مسلم استاذ کی شرط تعلیمات نبوی کے خلاف ہے۔چوتھے مقالہ میں’’فن کتابت عہد رسالت میں‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے اور کتابت کی اہمیت، افادیت اور ترویج کے سلسلے میں آپ کی متعدد اقوال و اعمال کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فن تحریر و کتابت کے فروغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کاوشیں سیرت رسول کا ایک انمول باب ہے۔ مصنف تحریر کرتے ہیں:
’’فن تحریر وکتابت کے فروغ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کا یہ ایک مختصر سا تذکرہ ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کار دعوت کا عظیم فریضہ تصور کرتے ہوئے انجام دیا، اس کے ذریعے علم و فن اور تہذیب و تمدن کا شمعیں روشن ہوئیں، یہ مبارک علم وفن کی اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جو عہد رسالت میں ہی درجہ عموم تک پہنچ چکا تھا، یہاں تک کہ اس مبارک عمل (فن خطابت) کا تذکرہ تشبیہ و تمثیل کے طور پر ہونے لگا تھا۔‘‘
پانچواں اور آخری مقالہ’’ فن تنقید میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنما اصول‘‘ پر مشتمل ہے ، اس میں شعر کی اہمیت، معنویت اور مقصدیت کو واضح کیا ہے گیا، نثر نگاری میں ہمارے نبی نے کیا اصول و ہدایت ارشاد فرمائے ہیں، ایجاز کی اہمیت، حضرات صحابہ کی اصلاحی کاوشیں اور تبصرے، نثر کی اصلاح اور رہنمائی جیسے موضوعات پر تشفی بخش گفتگو کی گئی ہے۔ ادبی تنقید ایک مستقل عنوان ہے، اہل علم و ادب نے اس کے اصول و قواعد وضع کیے ہیں، لیکن اسلام تنقید و تبصرے کے سلسلے میں ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے، شعر اور نثر کی تنقید کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے، اصلاح زبان وادب کے باب میں محسن انسانیت کے کیا احسانات ہے۔ آپ کے دامن سے وابستہ اصحاب کی نگارشات و تنقیدات سے ادب و تنقید کو پاکیزگی و تابندگی نصیب ہوئی، حضرات صحابہ نے جاہلی عہد کے شعر و نثر کی تمام خامیوں کو جو اس دور کے نثری ادب کا لازمی حصہ تھیں ان کو اجاگر کیا، اور اس کی بیخ کنی کی، انہوں نے زبان و ادب کی اصلاح اور درستگی کے ساتھ حقیقت کا اظہار، تکلفات سے بیزاری، زبان کی روانی، الفاظ کی شیرینی، فکر کی بلندی اور اعجاز کلام پر زور دیا، جو ادبی تنقید میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے مطالعہ سے سیرت نبوی کا یہ اعجاز بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ عہد جاہلیت میں شعر و شاعری نقطہ عروج پر تھی، باوجود اس کے ادب و تنقید کا کوئی اصول اور پیمانہ نہیں تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دامن سے فیض یافتہ صحابہ کرام نے اس صنف کو توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی اصلاح فرمائی اور تنقید و تبصرہ کا ایک معیار و میزان عطا فرمایا، جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنما اصول ہے۔
فاضل مصنف مولانا ڈاکٹر پروفیسر سرور عالم ندوی علم و تحقیق کا ایک معتبر اور مستند حوالہ ہیں۔ انہوں نے نہایت محنت اور تحقیق سے یہ مقالے سپرد قلم کئے ہیں، کتب احادیث اور سیر کی نہ معلوم کتنے اوراق پلٹے ہونگے اور تاریخ و سوانح کی کتنی کتابوں کی خاک چھانی ہوگی، تب جا کر انہوں نے اتنی معیاری کتاب پیش کی ہے۔زیر نظر کتاب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس میں سیرت النبی کے ان پہلووں پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے جن پر سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے بھرپور انداز سے روشنی نہیں ڈالی ہے اور سیرت کے دیگر پہلوؤں کے تناسب اس پر کم توجہ دی گئی ہے، اس لیے ضرورت متقاضی تھی کہ سیرت کے نایاب اور گمشدہ پہلوؤں کو جو کتب احادیث و سیر میں بکھرے پڑے ہیں مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور مقصد کے لحاظ سے بہت مفید اور بیش قیمت ہے، مصنف کا طریقہ استدلال اور تحلیل و تجزیہ کا انداز بھی بہت خوب ہے، اس پر مستزاد یہ کہ اسلوب تحریر نہایت دلکش، شیریں اور رواں ہے ۔ اس میں مصنف کا خلوص، عشق نبوی،فکر و خیال کی پاکیزگی، اور جذبہ و لگن نمایاں ہے۔یہ کتاب ایسی ہے کہ ہر شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے،اور اس  پر عمل کرکے اپنی زندگی کو تابندگی اور درخشندگی بخشنا چاہیے، اس کے مطالعہ سے ذہن و فکر پر سیرت نبوی کے ایسے ایسے نقوش مرتسم ہوتے ہیں جن کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں، اور جن کی حلاوت و شیرینی دلوں کو سرور بخشتی وطمانیت ہے۔ کتاب ہر لحاظ سے دامن دل کشید کرنے والی ہے، ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے یہ ایک بہترین سوغات اور قیمتی تحفہ ہے۔

Dr Noorus Salam Nadvi
Vill+Post Jamalpur, via Biraul
Dist Darbhanga
Pin Code 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com

عید گاہ میدان پر گنیش چترتھی کی اجازت سے سپریم کورٹ کا انکار

عید گاہ میدان پر گنیش چترتھی کی اجازت سے سپریم کورٹ کا انکار
اردو دنیا نیوز ٧٢
نئی دہلی۔ سپریم کورٹ نے منگل کو کرناٹک حکومت سے کہا کہ وہ کچھ دنوں تک جوں کا توں موقف برقرار رکھے اور کہا کہ گنیش چترتھی کی پوجا بنگلورو کے چامراج پٹک کے عیدگاہ میدان کے بجائے کہیں اور منعقد کی جاسکتی ہے۔ اندرا بنرجی کی بنچ نے کرناٹک حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ وہ کچھ دنوں تک موجودہ موقف کو برقرار رکھیں۔ آپ کے پاس پوجا کیلئے متبادل موجود ہے اور ہائی کورٹ واپس جائیں۔ بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ اس دوران دونوں فریقوں کو موجودہ موقف برقرار رکھنے میں تعاون کرنا چاہئے۔ اس طرح عدالت نے کرناٹک حکومت کے خلاف سنٹرل مسلم اسوسی ایشن آف کرناٹک اور دیگر کی طرف سے دائر درخواستوں کو نمٹا دیا ہے۔ عرضی گزاروں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رُخ کیا تھا، جس نے بنگلورو کے چامراج پٹک کے عیدگاہ میدان پر گنیش چترتھی کی تقریبات کی اجازت دی تھی۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولان پر مشتمل دو ججوں کے درمیان اختلاف رائے کے بعد معاملہ 3 ججوں کے پاس بھیج دیا گیا۔ عرضی گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل دشنتی ڈیو نے کہاکہ ریاستی حکومت 200 سال کی حالت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے بھی عرضی گزار کی طرف سے کہا کہ یہ عیدگاہ کی زمین ہے اور اسے دوسرے مذہب کے تہواروں کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ سماعت کے دوران بنچ نے نوٹ کیاکہ 200 سال سے اِس زمین پر کوئی اور مذہبی سرگرمی نہیں کی گئی تو موجودہ موقف کو فی الحال برقرار رکھنا ہی بہتر ہے۔ بنچ نے کہاکہ 200 سال سے جو کچھ منعقد نہیں ہوا اسے رہنے دو۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کرناٹک حکومت نے کل اور پرسوں کے لئے بنگلورو کے عیدگاہ میدان میں گنیش چترتھی کی تقریبات کی اجازت دی ہے۔گزشتہ ہفتے ہائی کورٹ نے بنگلورو کے چامراج پٹک کے عیدگاہ میدان میں گنیش چترتھی کی تقریبات منعقد کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حکومت زمین پر تہوار کی اجازت دینے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔اس طرح یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہونچ گیا جس نے عیدگاہ میدان پر گنیش تقریبات کے انعقاد سے روک دیا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...