Powered By Blogger

پیر, ستمبر 05, 2022

گداگری ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

گداگری ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا ، بھیک مانگنا اور گداگری کرنا ، انسانی غیرت وحمیت اور خود داری کے خلاف ہے ، اب بھی سماج میں بڑی تعدادمیں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بھوکے رہنا ، فاقہ پر فاقہ کرنا اور اپنی ضروریات کو مفلسی کی باعزت چادر تلے دبا کر سوجانا پسند کرتے ہیں ، وہ بے چین ضرور ہوتے ہیں ؛لیکن اس بے چینی میں بھی انہیں اتنا اطمینان ہوتا ہے کہ سر کے نیچے تکیہ نہیں ہوتا تو اپنی ہتھیلی کو تکیہ بنا لیتے ہیں، دن بھر کی سخت محنت ومشقت کے بعد بھی ان کے سروں پر چھت نہیں ہے ، اوروہ برسہا برس؛ بلکہ کبھی پوری زندگی فٹ پاتھ پر سو کر گذار دیتے ہیں، کیو نکہ اس حالت میں ان کی خودداری اور غیرت کو ٹھیس نہیں لگتی ہے ، اور وہ مانگنے کی ذلت سے بچ جاتے ہیں ، لیکن سماج کا ایک طبقہ وہ ہے جن کے نزدیک گداگری بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہے ، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گدا گر بنانے کے لئے پورا ریکٹ کام کرتا ہے ، چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے انہیں اپاہج بنا دینا ، اور انہیں گداگری کے پیشے سے لگا دینا عام سی بات ہے ، سڑک کے کنارے اورعام گزر گاہوں پرایسے گداگروں کی بڑی تعداد آپ روزانہ دیکھتے ہیں جن کے اعضاء وجوارح اس طرح ناکارہ ہیں کہ وہ جانوروں کی طرح رینگ بھی نہیں سکتے ، یہ پیدائشی اپاہج نہیں ہیں ، انہیں پڑھے لکھے گداگروں نے اس حالت تک پہونچا دیا ہے، انہیں صبح سویرے کوئی متعینہ مقام پر چھوڑ جاتا ہے اور دیررات گئے  اٹھا کر لے جاتا ہے ،غذا کے لئے چند لقمے کے بدلے دن بھر کی حصولیابی پر قبضہ جما لیتا ہے ، ہم انہیں معذو ر سمجھ کر مدد کرتے ہیں ، لیکن ہماری امدا د ان کے کام نہیں آ کران طاقتور گداگروں کے کام آتی ہے ، جو اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں ، اوربغیر کسی پونجی کے آمدنی کا ذریعہ بھی، یہ ذریعہ اتنا کارگر ہے کہ ایک سروے کے مطابق ممبئی کے بھکاریوں کی کل سالانہ آمدنی ایک سو ا سی کروڑ روپے ہے ، اور پیشہ وارانہ چپقلش کی وجہ سے قتل وغارت گری تک کی نوبت آگئی ہے ، پولس کو ایک قتل معاملہ کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ یہ فقراء سو د پر روپے کا لین دین کرتے ہیں اور قتل اسی لین دین میں گڑبڑی کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہمیں اس صور ت حال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی ہے، جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد کو گدا گری کے پیشے سے منسلک ہونے پر مجبور ہوناپڑ رہا ہے ، غور طلب یہ بھی ہے کہ روز گار کے حصول کی غیر یقینی صورت حال ، استحصال اور سخت جدوجہد کا خوف تو اس کا محرک نہیں ہے، ہم نے جن مقاصد کے حصول کے لئے تعلیم کے سارے شعبوں کی ڈور معاش کے حصول اور روزی روٹی سے جو ڑ دیا ہے ، کہیں ہم اس میں ناکام تو نہیں ہوگیے ہیں ، سوا ل یہ بھی ہے کہ ہم نے جن پیشہ وارانہ تعلیم میں بچوں کو لگایا تھا، کیا اس میں معیار کی کوئی کمی رہ گئی ، یا ہم ان کی تربیت اس انداز میں نہیں کرسکے، جو ان کے اندر غیرت وخوداری جیسے اوصاف حمیدہ پیدا کر پاتی ، جس کے نتیجے میں ان کے اندر مفت خوری کا مزاج پروان چڑھ گیا ، سوالات اور بھی کئی ہیں جو ہر آدمی اپنی سطح سے سوچ سکتا ہے ۔
اسلام نے گداگری کو ہمیشہ ناپسند کیا ہے ، اس کی تعلیم یہ ہے کہ مانگنا ذلیل کام ہے ، اس لئے اس سے ہر ممکن اجتناب کرنا چاہئے اگر کسی کے پاس وقتی گذارے کے لئے کچھ ہے اور مفلسی و محتاجی اتنی نہیں ہیکہ وہ بھوکے مرجائے گا تو اسے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہئے ، اسے صرف اور صرف اس رب العالمین سے مانگنا چاہئے جو ہمار ی ساری ضرورتیں پوری کرتا ہے ، اور جس کے سامنے عاجزی ، انکساری ، اورگرگرانا ذلت نہیں، عبادت ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تے کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اللہ سے مانگو ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علہیم اجمعین نے اس فرمان پراس قدر سختی سے عمل کیا کہ سواری پر جاتے ہوئے جانوروں کو تیز رفتار کرنے والا کوڑا گرجاتا توسوار ی سے اتر کر خود اٹھاتے اور کسی سے یہ نہیں کہتے کہ ذرا کوڑا بڑھا دو ، یہ ان کی غیرت کی انتہا تھی ، اسی غیرت وخوداری کی وجہ سے وہ پیوند پر پیوند لگے کپڑے پہن لیا کرتے تھے ، پیٹ پر پتھر باندھ کر گذارہ کر لیتے تھے ، ایک کپڑے میں زندگی گذار دیتے تھے لیکن کسی انسان سے مانگنے کوباعث شرم وعار اور انسانی نفس کی عظمت کے خلاف تصور کرتے تھے ۔
دوسری طرف ایسے گدا گروں کے لئے جن کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ سامان موجود ہے ، پھر بھی وہ گدا گری پر اتر آتے ہیں ، وعیدیں بھی آئیں کہ وہ قیامت کے دن اپنے چہروں کو نوچتے ہوئے آئیں گے ان کے چہرے پر گوشت کا نام و نشان نہیں ہوگا ، ہڈیاں ہی ہڈیاں ہوگی۔ الامان والحفیظ ۔
مانگنے والوں سے متعلق اس فرمان کا تقاضہ ہے کہ گدا گری سے حد درجہ اجتناب کیا جائے اور نفس کی عزت کو ذلت میں نہ بدلا جائے یہ ہدایات مانگنے والوں کے لئے ہیں ،اب اگر کوئی اپنے کو ذلیل کرنے پرہی آمادہ ہوتو جودوبخشش ودادودہش کرنے والوں کو دوسرے احکام دیئے گئے ، اللہ ر ب العزت نے حکم دیا کہ جو مانگنے والا آئے اس کو جھڑکومت اور اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کیا کرو ، بیان کبھی تو زبان سے ہوتا ہے ، اور کبھی حال سے ،نعمتوں کے بیان کی یہ بھی ایک شکل ہے کہ فقرا کو کچھ دیدیا جائے اور اگر کچھ دینا ممکن نہ ہو تو انتہائی نرمی سے معذرت کرلی جائے، اس سلسلے میں مانگنے والوں کی ظاہری ہیئت کو معیار نہ بنایا جائے ، حدیث میں آیا ہے کہ اگر مانگنے والا ایسے گھوڑے پر سوار ہوجس کی لگام سونے کی ہوتو بھی اس کو برا بھلا نہ کہا جائے ، نہ معلوم وہ کن حالات کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے وہ تمہارے دروازہ پر آگیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک متوازن نظام دیا گیا ہے ، جس میں کچھ ہدایات گداگروں کے لئے ہیں ، اور کچھ دادوہش کرنے والوں کے لئے ، دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے، روز گار کے مواقع پیدا کرنے چاہئے ، استْحصال سے باز آنا چاہئے اور تعلیمی اداروں میں عزت نفس غیرت وخود داری کے فروغ کے لئے تربیتی نظام کو قائم کرنا چاہئے تاکہ گداگر کوگدا گری کومعیوب سمجھنے لگیں ۔

اتوار, ستمبر 04, 2022

عورتوں سے متعلق بعض مسائل میں اسلام کا موقف

عورتوں سے متعلق بعض مسائل میں اسلام کا موقف ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
اردو دنیا نیوز٧٢
اس وقت ذرائع ابلاغ اسلام پر جو اعتراضات کر رہا ہے ،اس میں اسلام کے حوالہ سے عورت کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، ہمارے نام نہاد دانشور بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں، ہمارے وکلاء بھی ان اعتراضات کو حق بجانب قرار دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنی ذہنی ساخت کی وجہ سے اسلام سے دور جاپڑے ہیں، ہو سکتا ہے بعض خاص شخص کے بارے میں معاملہ یہی ہو ، لیکن عمومی احوال ایسے نہیں ہیں ، بڑی تعداد ان دانشوروں اور وکلاء کی ہے ،جس کی ذہنی ساخت تو ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن مسلم پرسنل لا کے بارے میں ان کی معلومات سطحی اور نا قص ہیں، اس لیے کہ جن کتابوں کو اس کام کے لیے انہوں نے مطالعہ میں رکھا اور جن کے مندرجات سے وہ استفادہ کرتے رہتے ہیں وہ اسلامی اسکالر کی نہیں ہیں، وہ ان لوگوں کی تیار کردہ ہیں، جنہیں اسلام اور اس کی تعلیمات میں کیڑے نکال کر نفسیاتی تسکین ملتی ہے، عجیب وغریب بات یہ ہے کہ سارے علوم میں تحقیق کے لیے جن حوالوں کو دیکھاجاتا ہے وہ فرسٹ ریفرنس بک FIRST REFRENCE BOOKہوا کرتا ہے،لیکن اسلام کا مطالعہ کرتے وقت وہ لوگ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں اور سکنڈ ریفرنس بک سے کام چلاتے ہیں جو ایتھنٹک(Authentic) نہیں ہیں، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی زبان سے وہ واقف نہیں ہیں، اور انگریزی زبان کے واسطے سے ترجمہ پڑھنا اور ڈائرکٹ اسی کو دیکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے ساری توجہ ان کتابوں پر رہتی ہے جومسلم پرسنل لا کے نام سے مرتب کی گئی ہیں اور بہت ساری غلط چیزیں اس میں بھر دی گئیں ہیں، اس معاملہ میں تو بعض لوگوں نے مستشرقین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، ان حالات میں مسلم اسکالروں اور علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کی حقیقت کوسامنے لائیں اور بتائیں کہ عورت کے مسئلے اور ان سے متعلقہ احکامات میں صحیح اور درست وہی ہے جو اسلام نے کہا ہے، دقت یہ ہے کہ قرآن واحادیث سے حوالہ دے کر انہیں سمجھائیے تو اسے قدیم کہہ کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی بحث کا سارا رخ منطقی ہوتا ہے، اور قرآن واحادیث کو بالائے طاق رکھ کر ہوتا ہے ، حالانکہ مسلمانوں کے لیے یہ بات کافی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، اللہ رسول کے حکم کے آگے سرجھکا دیاجائے،کیونکہ ہماری سمجھ کمزور ہو سکتی ہے،لیکن قرآن واحادیث کی تعلیم کی معقولیت میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ 
 مثال کے طور پر لڑکے لڑکیوں کی نابالغی میں شادی کا مسئلہ ہے ، مسلم پرسنل لا کے علاوہ نا بالغی کی شادی قانوناً جرم ہے،لیکن یہی قانون داں حضرات اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اگر نا بالغ لڑکے اور لڑکی نے آپسی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کر لیا تو اس میں داروگیرکی گنجائش نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ تعلق رضا مندی سے ہوا ہے ، اس لیے اسے ریپ (Rape)زنا بالجبر قرار نہیں دیا جاسکتا،جائز طریقے سے نا بالغی میں کی جانے والی شادی دنیاوی قانون میں درست نہیں ، البتہ نا جائز طریقے سے نا بالغی کی عمر میں رضا مندی سے زنا کرنا ان کے نزدیک جائز ہے، شریعت کہتی ہے کہ جائز طریقہ سے نکاح نابالغنی میں بھی جائز ہے، کیونکہ نابالغ کا نکاح بھی رضا مندی سے ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ اس میں دونوں کے ولی کی رضا مندی معتبر ہے ، کبھی مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کم عمری میں شادی کرنی ہوتی ہے ، اس لیے کسی بھی طرح اس عمل کو غیر منطقی اور غیر عقلی نہیں کہاجا سکتا ۔
 اسی طرح چار شادیوں کا مسئلہ ہے، یہاں یہ بات رکھنے کی ہے کہ شریعت نے چار شادی کرنے کا نہ تو حکم دیا ہے اور نہ ہی اسے لازم قرار دیا ہے، یہ تو صرف ایک اجازت ہے جو عدل جیسی سخت شرط کے ساتھ دی گئی ہے، اسی لیے چار شادیوں کا رواج کم ہے ، اور اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اقل قلیل ہے، ہر آدمی اپنے گاؤں اور محلوں میں ایک سے زائد شادی کرنے والوں کا سروے کرکے اس حقیقت کی تصدیق کر سکتا ہے، لیکن میڈیا نے اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کر رکھا ہے گویا سارے مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں، دوسری طرف دنیاوی قانون میں ساتھ رہنے کا تصور پایا جاتا ہے، بیوی نہیں ہے، لیکن بیوی کی طرح ہی مرد کے ساتھ رہ رہی ہے ، رکھیل بن کر ، قانون نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ وہ جائیداد جو مرد نے ذاتی جد وجہد سے حاصل کیا ہے وہ اس کے ترکہ میں حصہ پالے گی ، ناجائز تعلق زندگی بھر رکھا ، وہ اس کی کمائی میں حصہ پارہی ہے،پھر ان رکھیلوں کی تعداد بھی مقرر نہیں ، جتنی کو زندگی کا پارٹنر بنا لو، اسلام جائز طریقے سے چار کی اجازت دیتا ہے تو اس پر سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں، اور دانشور طبقہ ناک بھئوں چڑھانے لگتا ہے ،دونوں کی صورت حال پر غور کرکے فیصلہ خود ہی کر سکتے ہیں کہ نکاح والی عزت کی زندگی بہتر ہے یا رکھیل والی ذلت کی، زندگی یہ لا تعداد رکھیل کے مطابق چار نکاحی عورت میں ہی آپ کو عزت نظر آئے گی ۔
 ایک سوال طلاق کے حوالہ سے اٹھایا جاتا ہے،یہ چاہتے ہیں کہ طلاق کا حق عورتوں کو بھی دے دیاجائے ،جس طرح نکاح اس کی مرضی سے ہوتا ہے طلاق میں بھی اس کی مرضی شامل رہے،مردوں کو طلاق کا حق دینے میں خود عورتوں کا تحفظ ہے، خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے شریعت نے یہ حق مردوں کو دیا ہے ، اگر یہ حق عورتوں کومل جائے تو جذباتیت کی وجہ سے خاندان زیادہ ٹوٹیں گے ، پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے بالکل یہ اسے اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے، اسے اس کا پابند کیا گیا کہ اگر رشتے کو پسند نہیں کرتی تو اس کے وجوہات بتا کر بعض حالتوں میں قاضی سے اپنا نکاح فسخ کر اسکتی ہے اور بعض حالتوں میں خلع لے کر جان خلاصی کر واسکتی ہے، اس طرح رشتے ٹوٹیں گے بھی تو ان کی وجوہات معقول ہوں گی ، اور بہت نا گزیر حالت میں ایسا ہوا کرے گا۔
اسی طرح تین طلاق پر کثرت سے سوالات اٹھائے جا تے ہیں اور اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو کہتے سنا کہ اگر تین کو ایک طلاق ما ن لیں تو کیا حرج ہے، خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے گا ،یہ عجیب وغریب منطق ہے کہ تین کو ایک مانا جائے ، یہ تو نہ عقلی ہے نہ منطقی، تین تو تین ہے اور ایک ، ایک ہے، اس تین کو ایک کہنے کا جواز کسی طور سمجھ میں نہیں آتا، لیکن اسلام نے تین کو تین کہہ دیا تو اب اس کے خلاف کرنا ہے، اس لیے ساری طاقت تین کو ایک ثابت کرنے میں لگائی جا رہی ہے،کسی نے تین روپے دیا تو آپ کس طرح ایک روپے کہہ کر دو کو القط کر دیں گے ،کسی نے تیس ہزار روپے دیا تو آپ ایک لاکھ اسے کس طرح تسلیم کریں گے معلوم ہوا کہ نہ تین ایک ہو سکتا ہے اور نہ ایک تین، اتنی واضح سی بات کو تسلیم کرنے میں اسلام دشمنوں کو تردد ہوتا ہے ۔
 ایک سوال تین طلاق کے نفاذ پر بھی اٹھایاجاتا ہے ، کہ تین طلاق ایک مجلس میں دینا شریعت کے مقررکردہ طریقے کے خلاف ہے ، اس لیے اس کو نافذ نہیں ہونا چاہیے، یہاں اعتراض کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک ہے کسی چیز کا غلط استعمال اور ایک ہے غلط استعمال کے نتائج واثرات ، دو نوں الگ الگ چیز ہے کسی کو گولی مارنا غلط ہے ، بندوق کا استعمال غلط کیا گیا، کسی کو چاقو مار دی گئی ، چاقو کاغلط استعمال ہوا، لیکن کون عقلمند یہ کہے گا کہ بندوق اور چاقوکے غلط استعمال کی وجہ سے آدمی بھی محفوظ رہ جائے گا ، اس کی جان نہیں جائے گی ، کیونکہ آلہ کا غلط استعمال ہوا ہے ، جس طرح گولی اور چاقو لگنے کے بعد آدمی کی جان جا سکتی ہے آدمی زخمی ہو جاتاہے، اسی طرح تین طلاق کا یک بارگی استعما ل واقعۃً غلط ہے، لیکن استعمال کے غلط ہونے کی وجہ سے اثرات کے طور پر نکاح ٹوت جائے گا اور عدد کے اعتبارسے حکم لگایا جائیگا۔طلاق کا نفقۂ عدت شوہر کے ذمہ ہے ، اسے اچھے طریقہ پر اپنے گھر سے الوداع کہنا بھی اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے یا تا حیات، سابق شوہر سے کھانا خرچہ دلانا کون سی عقلمندی ہے، جب شوہر نے عورت کو چھوڑ دیا ، اور اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تو اب وہ دوسری عورتوں کی طرح غیر ہے، سابق شوہر سے اس کاکوئی رشتہ کسی درجہ میں باقی نہیں ہے، اس لیے عدت گذرنے کے بعد وہ اپنے نفس کی مجاز ہے ،کسی بھی مؤمن مرد سے رشتہ کر سکتی ہے ، پھر بھلا مرد کیوں اس نفقہ کا ذمہ دار ہوگا، اور کیوں اسے Maintenance دلایا جائے گا، یہ عورت کی غیرت کے بھی خلاف ہے کہ جس نے اپنے نکاح میں باقی نہیں رکھا اس کے کھانا خرچہ پر وہ زندگی گذارے، کھانا خرچہ لازم کرنے کی وجہ سے عورت کے گناہ میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہے، طلاق کے بعد کھانے خرچہ کا تعلق اسے کبھی بھی معصیت میں مبتلا کر سکتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی کھڑا کیاجاتا ہے کہ عورت بوڑھی ہو گئی اور اس کے شوہر نے طلاق دیدی ، عمر کی اس منزل میں اس کی شادی بھی نہیں ہو سکتی پھر وہ کہاں رہے گی ، کس طرح زندگی بسر کرے گی ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے کسی کو لاوارث نہیں چھوڑا ہے، اس حالت میں اس کا کھانا خرچہ ان لوگوں پر لازم ہے جو عورت کے پاس مال ہونے کی صورت میں اس کے وارث ہوتے، وہ والد بھی ہوسکتے ہیں اور بھائی وغیرہ بھی ، میکے میں بھی کوئی نہیں ہو تو حکومت اور امارت شرعیہ کے امیر اس کے ولی ہوں گے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  أنا ولی من لا ولی لہ۔ جس کا کوئی ولی نہیں ، میں اس کا ولی ہوں، یعنی حکومت اور امیر اس کی کفالت کے لیے فکر مند ہوں گے ، اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ اسلام میں کوئی لا وارث نہیں ہے ، جس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری کسی پر نہ ہو ۔
طلاق کے حوالہ سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ غصہ اور نشہ کی طلاق کونافذ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان دونوں حالت میں آدمی اپنے آپ میں نہیں رہتا ، یہ اعتراض بھی لایعنی اور فضول ہے ،کبھی آپ نے سنا کہ کسی نے اپنی بیگم کو محبت میں طلاق دیا ہو، طلاق تو غصہ ہی میں دی جاتی ہے ، غصہ کی طلاق کو نافذ نہ ماننے کا مطلب ہوگا کہ طلاق تماشہ بن کر رہ جائے اور اس کے اثرات واقع نہ ہوں ، اسی طرح نشہ کی طلاق کا معاملہ ہے ، نشہ میں جو شخص طلاق دے رہا ہے، وہ اس قدر ہوش وحواس میں ضرور ہے کہ وہ طلاق بیوی کو دیجاتی ہے ،ماں بہن کو نہیں ، اگر نشہ میں اس کی عقل نے جواب دے دیا تو اس نے ماں بہن کے لیے طلاق کے الفاظ کیوں نہیں استعمال کئے ،بیوی کو طلاق دینے کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ نشہ کے با وجود اس کے اندر تمیز کی صلاحیت ہے اور تمیز کی صلاحیت کی وجہ سے ہی نشہ کے حالت کی طلاق نا فذ ہوجاتی ہے۔ 
طلاق کبھی جبر واکراہ کے ساتھ بھی دی جاتی ہے ، اگر جبر واکراہ میں تحریر کے ساتھ زبان کا استعمال بھی کرلیا تو طلاق نافذ ہوجائے گی۔ حالانکہ جبر واکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر قابل اعتبار نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کا محل قلب ہے اور طلاق کا محل زبان ، جب چیز اپنے محل سے نکل جائے گی تو اس کا اثر پڑے گا ، جبر واکراہ اگر کلمہ ٔ کفر کے کہنے پر ہوا اور قلب مطمئن ہے تو صرف کلمہ کفرکے کہنے سے ایمان نہیں جائے گا ، اس کے بر عکس طلاق کا محل زبان ہے اور جبر واکراہ میں طلاق اس نے زبان سے کہہ دیا تو اب یہ طلاق محل سے ادا ہو جانے کی وجہ سے نافذ ہوگی۔
 اس کا ایک دوسری طرح جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حالت جبر طلاق میں پایا ہی نہیں جاتا  اس لیے کہ اگر کسی نے گردن پر بندوق رکھ کر طلاق دینے کوکہا تو اس نے اسے اختیار دیا کہ تم اپنی جان دے دو یا بیوی سے دست بردار ہوجاؤ ۔ میں نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاکر اپنی جان بچالی اور بیوی کو چھوڑ دیا یہ دو چیزوں کے درمیان اختیار اور پسند کا معاملہ ہے  وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ جان دیدے اور بیوی کو باقی رکھے تاکہ اس کے ترکہ سے اس کو قاعدے سے حصہ مل جائے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
 سوالات عورت کی آزادی اورمساوات کے حوالہ سے بھی اٹھائے جاتے ہیں، عورتوں کو آزادی دے کر مغرب نے اس سے لطف اندوزی کاسامان کر لیا ،اسے قحبہ خانوں اور کوٹھوں کی زینت بنا دیا ، ماچس کی ایک ڈبیہ بھی بغیر اس کی تصویرکے نہیں بیچنے کا تصور دیا ، اس آزادی نے عورت کو ایک مظلوم بنا کر رکھ دیا ،اسلام نے اسکا ساراکھانا خرچہ مرد پر ڈالا تھا، مرد نے اپنی جان بچانے کے لیے اس سے کموانا شروع کر دیا ، اب وہ دفتری اوقات میں ڈیوٹی بھی کرتی ہے بچے بھی پیدا کرتی ہے ، گھر آنے کے بعد با ورچی خانہ بھی اسی کا منتظر رہتا ہے ،بال بچوں کی پرورش وپرداخت اور شوہرکی خدمت گذاری بھی اسے کرنی پڑتی ہے ، یہ آزادی کے نام پر عورتوں پر ظلم ہے،جسے اسلام کسی طرح برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ 
 یہی حال مساوات کا ہے ،مساوات کا مطلب صرف یہ ہے صلاحیت وقوت کے مطابق اس کو ترقی کے یکساں مواقع ہوں، اب مساوات کا مطلب یہ لیا جائے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی چار شادی کی اجازت ہو ،تومساوات کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ ایک بچہ ایک سال عورت پیدا کرے اور دوسرا بچہ دوسرے سال مرد پیدا کرے، چیر مین کی کرسی پر ایک دن چیر مین صاحب بیٹھیں اور دوسرے دن چپراسی اس کرسی پربراجمان ہو جائے کیونکہ مساوات کا تقاضہ یہی ہے،ظاہر ہے اس قسم کے مساوات کاکوئی قائل نہیں ہے،لیکن ہمارا دانشور طبقہ بار بار اس بات کو اٹھاتا رہتا ہے،بلکہ ماضی قریب میں تو ایک جج صاحب نے عورتوں کو چار شادی کی اجازت دینے کی تجویز رکھی تھی،اس پر ایک صاحب نے ان سے گذارش کی تھی کہ یہ نیک کام آپ اپنے گھر سے ہی شروع کریں۔
اعتراضات اور بھی ہیں، سب الٹی سوچ کا نتیجہ ہے،جولوگ اسلامی قانون کو نہیں ماننا چاہتے وہ اسلامی قانون میں ترمیم کے بجائے دوسرا متبادل تلاش لیں انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ لازمامسلم پرسنل لا ہی سے چمٹے رہو ،مسلم پرسنل لا اسلامی قوانین کا حصہ ہے اور یہ خدائی قانون ہے اس لیے اس میں کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ نہیں ہو سکتی، خواہ عورت کی آزادی کے تعلق سے ہو یامساوات کے تعلق سے، اسے سماجی اصلاح کا نعرہ دیا جائے یا یکساں سول کوڈ کا ، معاملہ نکاح وطلاق کاہویا دیگر عائلی اور خاندانی مسائل کااسلام کا قانون نا قابل تبدیل ہے،جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ، ان کے لیے اسلام سے باہر تبدیلی کے بڑے مواقع ہیں، اگر انہیں کفر کا راستہ ہی پسند ہے تو ان کو نہ کوئی دلیل کام آسکتی ہے اور نہ کوئی منطق۔

کانگریس اپنا محاسبہ کرے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کانگریس اپنا محاسبہ کرے __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس ملک کی سب سے بڑی پرانی سیاسی پارٹی ہے ، اس نے اپنے وجود کے ایک سو چوتیس پینتیس سال پورے کر لئے ، ان سوسوا سو برسوں میں اس نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے، لیکن بحیثیت سیاسی پارٹی کے اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، ماضی میں اسے تین چار بار تقسیم کے عمل سے بھی گذرنا پڑا، آزادی کے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی ، لیکن ان میں سے بیشتر پھر اس کے سایہ کے نیچے آگیے۔
 آج اسے ایک بار پھر شناخت کا مسئلہ در پیش ہے اور اسی مسئلہ کی وجہ سے اس کا استحکام متزلزل ہو رہا ہے ، اور اس صورت حال کے لئے وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو کانگریس کے طے شدہ نظریات پر مکمل یقین اور اعتماد نہیں رکھتے، اپنے بے تکے بیانات سے پارٹی کی ساکھ کو کمزور کرتے رہے ہیں، ششی دھرور اس معاملہ میں دو چار قدم آگے ہی ہیں یعنی کانگریسیوں کے اندر باہمی تال میل کے فقدان سے پارٹی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ مرکز سمیت متعدد ریاستوں میں وہ اقتدر سے محروم ہوئی ، وہ مضبوط قلعے بھی منہدم ہو گئے ، جہاں عرصہ تک ان کی حکومت تھی ، اس کی بنیادی وجہ پارٹی کا اندرونی خلفشار اور انتشار ہے جو فکری بھی ہے اور عملی بھی، اس کے لئے سب سے پہلے پارٹی اپنے قول وعمل کا محاسبہ کرے ۔ اپنی بنی ہوئی عوامی حمایت اور کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرے ، مسلمانوں کو اعتمادمیں لے کر اپنا سیکولر چہرہ سامنے لائے ، دیکھا یہ جا رہا ہے  کہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے بعد وہ شکست خوردگی کی چادر اوڑھ کر سوتی جا رہی ہے ، الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ، راہل گاندھی کا کانگریس کی صدارت سے راہ فرار اختیار کرلینا گویا میدان چھوڑ کر بھا گنا اور پارٹی کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑنا ہے، شکست سے زیادہ شکست خوردگی کا احساس جان لیوا ہوتا ہے، اور ملک جن نظریاتی جنگ سے گذر رہا ہے ، ان حالات میں اگر اس نے اپنی موثر قیادت اور اپوزیشن کا رول نہیں نبھایا تو آنے والے دنوں میں ملک کے جمہوری ڈھانچوں کے تانے باتے بکھرنے شروع جا ئیں گے  پھر پارٹی کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

باشندگان موضع شاہ علی پور کوٹره عرف گانوڑی کے زیرِ اہتمام ایک روزہ دینی بیداری اجلاس عام

باشندگان موضع شاہ علی پور کوٹره عرف گانوڑی  کے زیرِ اہتمام ایک روزہ  دینی بیداری اجلاس عام
اردو دنیا نیوز ٧٢
بتاریخ 10 صفر المظفر 1444 ہجری بمطابق 8 ستمبر 2022 بروز جمعرات بعد نمازِ عشاء
جِس میں
 ولی کامل     رہبر شریعت حضرت  اقدس مفتی عبد الرحمٰن صاحب مدظلہ نقشبندی 
اُستاد مدرسہ شاہی مراد آباد و خلیفہ حضرت  پیر ذو الفقار صاحب دامت برکاتہم
حضرت قاری الطاف حسین صاحب دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ  اختر العلوم جلال آباد بجنور و خلیفہ حضرت مفتی عبد الرحمٰن صاحب نو گاواں سادات 
استاذ القراء حضرت قاری محمد حماد صاحب اُستاد تجوید و قرآت مدرسہ شاہی مراد آباد
مقرر نوجواں حضرت مولانا مفتی محمد معاذ صاحب  قاسمی دامت برکاتہم  امام و خطیب جامع مسجد شہر نورپور
ناظمِ ذیشان حضرت  مولانا   ابنِ حسن صاحب دامت برکاتہم  امام و خطیب مسجد قا ضیان  جلال آباد 
تمام حضرات سے شرکت کی پُر زور اپیل کی جاتی ہے
المعلن انس حسامی بجنوری 

ہفتہ, ستمبر 03, 2022

دھرم شالہ : بادل پھٹنے سے سیلاب ، بچاؤ راحت رسانی کام جاری

دھرم شالہ : بادل پھٹنے سے سیلاب ، بچاؤ راحت رسانی کام جاری
اردو دنیا نیوز ٧٢
دھرم شالا، 3 ستمبر: سینئر عہدیداروں نے سنیچر کو یہاں خان پارہ علاقے کا دورہ کیا، جہاں ایک دن قبل بادل پھٹنے سے علاقے میں سیلاب آیا ہے۔امدادی کارکنوں کو ہدایت دی کہ وہ متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کریں۔ اس علاقے میں جمعہ کو ہونے والی شدید بارشوں میں کئی مکانات اور دکانیں تباہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 15 مکانات اور تین دکانوں کو جزوی نقصان پہنچا اور 45 بھیڑیں اور بکریاں لاپتہ ہو گئیں۔ کانگڑا کے ڈپٹی کمشنر نپن جندال نے آج صبح پولیس سپرنٹنڈنٹ کشال شرما کے ساتھ خان پارہ کا دورہ کیا۔انہوں نے امدادی کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ شدید بارشوں سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کریں تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جمعہ کو خان پارہ میں بادل پھٹنے کی اطلاع ملنے کے بعد، ایس ڈی آر ایف (اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس) کی ریسکیو ٹیم پانچ منٹ کے اندر جائے وقوعہ کے لیے روانہ ہوگئی تھی۔ تحصیلدار اپوروا شرما کی سربراہی میں ایک ٹیم کو بھی امدادی کاموں کے لیے جائے وقوع پر بھیجا گیا۔بجائزہ لیا جا رہا ہے اور ضلع انتظامیہ کی طرف سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ متاثرہ خاندانوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اور ذیلی اضلاع کی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کنٹرول روم قائم کیے گئے ہیں تاکہ کسی آفت کی اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر راحت اور بحالی کا کام کیا جا سکے۔ جمعہ کے روز ہونے والی موسلادھار بارش کے باعث خانیارہ گاؤں میں ایک نالہ بہہ گیا جس سے مرکزی بازار میں نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ ناگ مندر روڈ پر کیچڑ گھروں اور دکانوں میں گھس گیا اور ایک چھوٹا پل بہہ گیا جس سے دھرم شالہ-سدھواڑی سڑک پر ٹریفک متاثر ہوا۔ سیلاب سے چند گاڑیوں کو بھی ارشوں سے ہونے والے نقصانات کا نقصان پہنچا۔

جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد کے زیراہتمام

جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد کے زیراہتمام
اروددنیانیوز٧٢
جلسہ اصلاح معاشرہ
موضوع کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں بہن۔بیٹیوں کےلئے عظیم الشان
بتاریح ٤سیتمبر ٢٠٢٢بروز اتوار بوقت صبح ٩بجے  بمقام مدرسہ فیض القرآن موضوع کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور
اسمائے گرامی حضرات علمائے کرام
حضرت مولانا کلیم الزاماں صاحب مدظلہ مہتمم مدرسہ رشیدیہ میمن سادات 
حضرتمولانا محمد ابرار صاحب مدظلہ امام جامع مسجد سمیع پور
شہنشاہ خطابت حضرت مولانا مفتی محمد افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم کلر والی مسجد کیرت پور
حضرت قاری محمد شعیب نفیس صاحب  ناظم جمعیتہ علماء تحصیل نجیب آباد
حضرت مولانا جاوید صاحب 
حضرت حافظ منکشف عالم صاحب کمراج پور
الداعی حضرت مولانا محمد اقرار بیگ صاحب امام خطیب جامع مسجد کٹھورہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور

چیف جسٹس کی فکر مندی ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

چیف جسٹس کی فکر مندی ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن جلد ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں، اپنے طویل پیشہ دارانہ تجربات کی وجہ سے ہندوستان میں عدلیہ سے جس طرح اعتماد اٹھتا جا  رہا ہے ، اس سے وہ کافی فکر مند ہیں، انہوں نے عدلیہ سے اعتماد کھونے کو جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پرزور دیا کہ عوام کا بھروسہ عدلیہ سے نہ اٹھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ جج اور وکلاء مل کر زیر التوا مقدمات میں جلد انصاف فراہم کرائیں، ان کی رائے ہے کہ وکلاء کو عدالت کے علاوہ معاشرہ میں تبدیلی کے لیے بھی کام کرنا چاہیے، اس لیے کہ معاشرہ کے پُر امن اور متحد ہونے کی صورت میں ترقی کا عمل آسان ہوتا ہے، جسٹس رمن وجے واڑہ میں نو تعمیر شدہ کورٹ کمپلکس کے افتتاحی تقریب میں وکلائ، جج اور دانشوروں کے ایک مجمع سے خطاب کر رہے تھے۔
 جسٹس رمن کی پوری تقریر کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے جو کہا سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا ہے، اس لیے کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے،پچاس (۵۰) مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے، تو سو (۱۰۰) نئے درج ہوجاتے ہیں، پارلیامنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے بتایا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں چار کروڑ تراسی لاکھ سے زائد مقدمات سماعت کے منتظر ہیں۔ چار کروڑ سے زائد نچلی عدالتوں میں اور سپریم کورٹ میں بہتر ہزار مقدمات پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔
 عدالتوں کے بعض فیصلے ضابطے اور قانون کے اعتبار سے جس قدر بھی اہم ہوں اور عدالتی وقار کے پیش نظر جس قدر اس کا احترام کیا جائے، عوام کے حلق سے نیچے نہیں اترپاتے، ایسے میں عوام یہ سمجھنے لگی ہے کہ عدلیہ پر حکمراں طبقہ کا سخت دباؤ ہے، اور فیصلے قانون کی پاسداری کے بجائے دباؤ کے نتیجے میں آ رہے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ معاملات ومسائل پر فیصلے حکمراں کرتے ہیں، اور عدالت اسے قانونی زبان فراہم کرتی ہے ، اس دباؤ کا اظہار کئی مرتبہ جج صاحبان کی زبانی بھی سامنے آچکا ہے، اس لیے عوام کی اس سوچ کو یکسر بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔
 عدالت میں مقدمات کے التواء اور فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جمہوریت کو بڑا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ سے قانو ن شکنی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، ریاستیں عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے میں آنا کانی کرتی ہیں اور اس کی منشا کے خلاف کبھی کبھی اس کے فیصلے رد بھی کر دیے جاتے ہیں، جیسا بلقیس بانو کے معاملہ میں ہوا، سپریم کورٹ نے مکان اور سرکاری ملازمت دینے کا ریاست کو حکم دیا تھا، جس پر عمل نہیں ہو سکا، اور اس کے بر عکس اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کے سزا یافتہ مجرمین کو گجرات حکومت نے چھوڑ دیا، اور چھ ہزار سے زائد دستخطوں سے جاری اس عرضی پر کوئی غور نہیں کیا گیا، جس میں مجرمین کو پھر سے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی تجویز رکھی گئی ہے مجرمین بے خوف ہوکر گھوم رہے ہیں۔
 ان حالات میں عدلیہ کو اپنا کردار غیر جانب دار ہو کر ادا کرنے کی ضرورت ہے، عدالت جمہوریت کا اہم ستون ہے، اگر اس پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو جمہوریت کے ساتھ، ملک کا بھی بڑا نقصان ہوجائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...