Powered By Blogger

ہفتہ, ستمبر 10, 2022

زمیں بوس ٹوئن ٹاور ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

زمیں بوس ٹوئن ٹاور ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 ۲۸؍ اگست ۲۰۲۲ء کو سارے ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز ٹوئن ٹاور کا انہدام تھا، مختلف خبر رساں ادارے جن میں بی بی سی کے نمائندے بھی شامل تھے، ڈھائی بجے سے قبل پل پل تیاریوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے اور ڈھائی بجے دن کے بعد تاش کے پتوں کی طرح بکھرے ان دو عمارتوں کی ، جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ قطب مینارسے بھی سومیٹر بلند عمارتیں تھیں، اسے ٹوئن ٹاور کا نام اس لیے دیا گیا تھا کہ یہ دو فلک بوس عمارتوں پر مشتمل تھا، ایک میں بتیس اور دوسرے میں انتیس منزلیں تھیں، ان کی تعمیر جدید طرز کے مطابق دہلی سے منسلک نوئیڈا کے سیکٹر ۹۳اے میں سوپر ٹیک نامی کمپنی نے کروایا تھا، اس کو منہدم کرانے کے لیے لمبی قانونی لڑائی چلی، سپریم کورٹ تک بات پہونچی، فیصلہ ہوا، نظر ثانی ہوئی اور قانون وقواعد کی ان دیکھی کرکے تعمیراس عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ بر قرار رہا۔
 منہدم کرنا بھی اتنا آسان نہیں تھا، قریب میں بہت ساری عمارتیں تھیں، جن کو نقصان پہونچنے کا خطرہ تھا، چنانچہ محفوظ انہدام کی کاروائی کے لیے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں، اس نے اس عمارت کو گرانے کے لیے سینتیس سو کلو گرام دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا،نوہزار آٹھ سو سوراخ دونوں عمارت سیان اور اپیکس ٹاور میں کئے گئے تھے، یہ سوراخ انگریزی کے حروف وی(V) کی طرح تھے، ہر سوراخ میں ایک سو سیتیس سے تین سو پینسٹھ گرام تک آتشی مادہ ڈالا گیا اور صرف نو سکنڈ میں دو نوں عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ ٹوئن ٹاور کو بنانے میں تقریبا آٹھ سو کڑوڑ روپے خرچ ہوئے تھے اور اس کے گرانے میں پچپن کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے، یہ خرچ بھی سوپر ٹیک کو ہی دینا ہوگا، آس پاس کی عمارتوں کو نقصان اور ٹوئن ٹاور کے مکینوں کے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری مع سود بھی اسی کمپنی پر ہے۔ عمارت کو منہدم کرنے کی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، اس میں یہ عمارت سیدھے بیٹھتی جا رہی ہے، انجینئر نگ کی اصطلاح میں اسے واٹر فال امیجنگ تکنیک کہتے ہیں۔اس تکنیک میں عمارت گرتے وقت پانی کی طرح نیچے کو آجاتی ہے، اس کا ملبہ ارد گرد میں نہیں پھیلتا ہے۔
مجھے یہ منظر دیکھ کر قیامت کا منظر یاد آگیا، جب آسمان روئی کے گالے کی طرح ہوجائے گا اور ساری عمارتیں ڈھہہ جائیں گی اور زمین اندر کی چیزیں باہر پھینک دے گی او سب کچھ سکنڈوںمیں ختم ہوجائے گا، جس کے بنانے میں زمانے لگے ، سب نیست ونابود ہوجائیں گے، دوسرا سبق اس میں مکافات عمل کا بھی ہے ، ضابطہ اور قانون کی پابندی نہ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے، یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ، ہر وقت آپ دنیاوی سی سی کیمرے کے ساتھ اللہ کی نگرانی میں ہیں ، سی سی کیمرے کے حدود مقرر ہیں، اس سے آگے وہ منظر کو محفوظ نہیں کر سکتا، مگر اللہ غیر محدود ہے، اس کی نگرانی ہر جگہ خلوت وجلوت میں ہے۔غلطیوں کی سزا ملنے میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔
 اس انہدام سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوئیڈا ڈولپمنٹ اتھارٹی نے اس پر روک پہلے ہی کیوں نہیں لگائی، اگر قانون کے خلاف ہو رہی تعمیرات کو نوئیڈا اتھارٹی پہلے دن روک دیتی تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی، تو کیا اس سے یہ سمجھاجائے کہ اتھارٹی کے لوگ سوپر ٹیک والوں کے ہاتھ بکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔
 اتر پردیش کی یوگی حکومت کو بھی اس کا احساس ہے ، اس لیے اس نے چھبیس افسران کی فہرست جاری کی ہے، جن پر کارروائی ہونے کا امکان ہے، سوپر ٹیک  لیمیٹڈ کمپنی کے ڈائرکٹر اور ڈرافٹ مین پر بھی سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔
 وجہ جو بھی ہو ٹوئن ٹاور کا انہدام ایک تاریخی واقعہ ہے ، ہندوستان میں اس قدر اونچی عمارت پہلے نہیں گرائی گئی تھی ، اس سے قبل کیرالہ میں ایک عمارت منہدم کی گئی تھی، جس کی اونچائی ٹوئن ٹاور سے نصف تھی۔

جمعہ, ستمبر 09, 2022

مولانا سید جلال الدین انصر عمریؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا سید جلال الدین انصر عمریؒ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
مرکزی جماعت اسلامی کے سابق امیر، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج اعظم گڑھ کے سابق سربراہ، ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے بانی مہتمم، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر، الہیئۃ الخیریۃ العالمیۃ کے سابق رکن، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے مینیجنگ ڈائرکٹر، اشاعت اسلام ٹرسٹ دہلی، دعوت ٹرسٹ دہلی کے صدر اور رکن پبلی کیشن درجنوں کتابوں کے مصنف مولانا سید جلال الدین انصر عمری کا انتقال طویل علالت کے بعد جماعت اسلامی کے ہوسپٹل الشفا ابو الفضل انکلیو میں ہوگیا، یہ حادثہ ۲۶؍محرم ۱۴۴۴؁ھ مطابق ۲۶؍اگست ۲۰۲۲؁ء بروز جمعہ بعد نماز مغرب پیش آیا۔ جنازہ کی نماز اگلے دن دس بجے مرکزی جماعت اسلامی کے دفتر واقع مسجد اشاعت الاسلام کے صحن میں امیر جماعت اسلامی  سید سعادت اللہ حسینی نے پڑھائی اور مقامی شاہین باغ قبرستان (ٹھوکرنمبر۶)میں تدفین عمل میں آئی ہزاروں سوگوار اس آخری سفر میں ساتھ رہے، پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا، اہلیہ گذشتہ سال کورونا میں وفات گئی تھیں۔
مولانا سید جلال الدین عمری بن سید حسن کی ولادت تامل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کے گاؤں پت گرام میں ہوئی، ۱۹۳۵؁ء کا سال تھا جب اس عظیم اور عبقری شخصیت کے وجود مسعود سے پت گرم گاؤں کی رونق میں اضافہ ہوا۔
ابتدائی تعلیم گاؤں مکتب میں پائی، وہاں سے جامعہ دار السلام عمر آباد منتقل ہوگئے اور یہاں کے اس وقت کے نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ اور صرف بیس سال کی عمر تھی جب۱۹۵۴؁ء میں سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے مدراس یونیورسٹی کے امتحانات دے کر فارسی زبان و ادب میں منشی فاضل کی ڈگری پائی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگلش کا امتحان دے کر بی اے میں کامیابی حاصل کی۔
مولانا عمری جماعت اسلامی کی تحریک سے دور طالب علمی سے ہی وابستہ رہے، ابتدا میں انہوں نے رسمی طالب علمی کے اختتام کے بعد جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تحقیق کو نہ صرف سنبھالا؛ بلکہ اس کام کے لئے خود کو وقف کردیا، ان کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے ۱۹۵۶؁ء میں انہیں جماعت اسلامی کا رکن بنایا گیا، کم و بیش دس سال انہوں نے جماعت کے شعبۂ تحقیق علی گڑھ کو سنبھالا ، جون ۱۹۸۶؁ء میں ماہنامہ زندگی نو کے ایڈیٹر بنے اور ۱۹۹۰؁ء تک ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، ۱۹۸۲؁ء سے جماعت اسلامی کے تحقیقی رسالہ تحقیقات اسلامی کو نکالنا شروع کیا۔ ۱۹۹۰ئ؁ سے ۲۰۰۷ئ؁ تک مسلسل چار میقات نائب امیر مرکزی جماعت اسلامی کے طور پر کام کیا، ۲۰۰۷ئ؁ میں پہلی بار وہ امیر جماعت اسلامی ہند مقرر ہوئے اور تین میقات ۲۰۱۷؁ تک امیر کی حیثیت سے خدمت کرتے رہے، وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدربھی رہے، ۲۰۱۹ئ؁ سے وہ شرعیہ کونسل کے صدر کی حیثیت سے آخری دم تک کام کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف و تالیف اور تحقیق کی مضبوط صلاحیت عطا فرمائی تھی، پچاس سے زیادہ ان کی علمی اور تحقیقی کتابیں ان کی اس صلاحیت کی گواہ ہیں، جن کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ایک داعی، خطیب اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی ملک میں ان کی اپنی ایک شناخت تھی، تحمل، بردباری، سنجیدگی، متانت ہرحال میں خود پر قابو رکھنا ان کا طرۂ امتیاز تھا۔
ان کی طویل علمی دعوتی خدمات کی وجہ سے انسٹی چیوٹ آف ابجیکٹیواسٹڈیز نے انہیں چودہواں شاہ ولی اللہ ایوارڈ دیاتھا، یہ ایوارڈ ایک مومنٹو اور ایک لاکھ روپے پر مشتمل ہوا کرتا ہے۔ مولانا نے اس موقع سے دعوت دین کی اہمیت اور مدعو کی زبان سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مولانا مرحوم سلجھے ذہن کے آدمی تھے، انہوں نے اپنی حکمت عملی سے دوسرے ملی اداروں کو جماعت سے قریب کیا،جماعت کی قدیم پالیسی کو تبدیل کرکے جماعت کی کارکردگی کو حالات حاضرہ سے ہم آہنگ کرنے میں بھی، ان کے مشورے کو بڑا دخل رہا وہ بڑے داعی اچھے خطیب تھے، ان کے اندر جرأت کردار بھی تھی اورجرأت اظہار بھی۔
میری پہلی ملاقات ان سے ادارہ تحقیقات اسلامی پان والی کوٹھی علی گڑھ میں ہوئی تھی، جہاں ان کا قیام ادارہ کے ذمہ دار کی حیثیت سے تھا، تحریک اس وقت کے بھائی سعود عالم اور اب کے ڈاکٹر سعود عالم قاسمی کی تھی کہ میں بھی اس ادارہ میں رہ کر تحقیق و تصنیف کی صلاحیت پیدا کروں، میری ایک تحقیقی کتاب ’’فضلائے دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات‘‘ عربی ششم کے سال ہی آچکی تھی، اور اس وقت تک میری کل پوجی یہی تھی، اسے لے کر انٹرویو دینے ان کے پاس پہونچ گیا۔ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی معاون بنے، انتخاب بھی ہوگیا؛ لیکن جماعت اسلامی سے جو دوری اس زمانہ میں علماء دیوبند سے تھی، اس کی وجہ سے میں وہاں داخل تونہیں ہوسکا، البتہ مولانا کی اس موقع سے کی گئی ایک نصیحت آج تک تصنیف و تالیف میں کام آتی ہے فرمایا: اگر اس کام کو کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے اندر کتابوں سے مواد اخذ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اس کے بعد اگلا مرحلہ اس کو تحریری شکل میں پیش کرنے کا ہے، ان کے کہنے کا خلاصہ یہ تھا کہ تمہارے اندر قوت اخذ بھی ہواور طاقت عطا بھی۔
پھر جب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کا ممبر بنا تو بورڈ کے پروگراموں میں ملاقات ہوتی رہی، اسلامک فقہ اکیڈمی کے بعض سمینار میں ان کی شرکت اور اپنی ملاقات بھی یاد آتی ہے۔ امارت شرعیہ کے اکابر سے وہ محبت کرتے تھے، ان کے کاموں کو سراہتے تھے، وہ امارت شرعیہ ۸؍مارچ ۲۰۰۴ئ؁ کو تشریف لائے تھے، انہوں نے اس موقع سے معائنہ رجسٹر پر لکھا:
’’امارت شرعیہ کے مختلف شعبوں، قضا و افتا کے شعبوں ، ٹکنیکل و اسپتال کو تفصیل سے دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، یہاں کے نظم اور سلیقہ سے طبیعت متاثر ہوئی، اس کے کارکنان خدا کا شکر ہے کہ بڑی یک سوئی اور تن دہی کے ساتھ امت کی ایک بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو قبول فرمائے‘‘۔
مولانا اس دنیا کو چھوڑ چلے، لیکن ان کی نیکیاں سلامت ، ان کی خوبیاں ہیں باقی۔ اللہ مغفرت کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے

جمعرات, ستمبر 08, 2022

صفرالمظفر ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

صفرالمظفر  ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 ماہ صفر اسلامی توقیت (کلنڈر) کا دوسرا مہینہ ہے ، اس مہینہ کے بارے میں اسلامی علوم سے دور مسلمانوں کے درمیان بہت سی غلط باتیں رائج ہیں، جن میں سے بعض کا تعلق بد گمانی اور بعض کا بد شگونی سے ہے ، اسلام سے قبل اس مہینہ کو منحوس سمجھا جاتا تھا ، کیوں کہ اشہر حرم (رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم) کے بعد یہ پہلا مہینہ تھا ، جس میں عرب اپنے کو جنگ وقتال کے لیے آزاد سمجھتے تھے، اس مہینہ سے لوٹ مار، شب خون اور قتل وغارت گری کی گرم بازاری شروع ہوجاتی تھی ، اسلام نے اس مہینہ کے بارے میں بد فالی ، توہمات اور بد شگونی کو ختم کیا اور اس مہینے کے نام میں ہی ’’المظفر‘‘ کا لفظ جوڑ کر اسے صفر المظفر قرار دیا ، اسے صفر الخیر بھی کہتے ہیں یعنی بھلائی اور کامیابی کا مہینہ ، صاحب لسان العرب نے اس مہینہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ چونکہ اشہر حرم کے گذرنے کے بعد عرب کثرت سے اس ماہ میں سفر کرتے تھے اور گھر کا گھر خالی ہوجاتا تھا اس لیے اسے صفر (خالی) کہا کرتے تھے، عربی میں ایک محاورۃ ’’صفر المکان‘‘ یعنی گھر کے خالی ہونے کا بھی ہے ، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ بالکل الٹا ہے ، عرب والے سفر کرتے تھے اور یہاں کے لوگ اس مہینہ میں سفر سے گریز کرتے ہیں، اسی طرح دوکان ومکان وغیرہ کا افتتاح نہیں کرتے، ان کے نزدیک یہ مہینہ صِفر ہے یعنی اس میں نفع کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا ، اس مہینہ کا عوامی اور دیہاتی نام ترتیزی بھی ہے ، یہ نام تیرہ تاریخ کی مناسبت سے ہے ، جس دن توہمات اور رسومات کے شکار لوگ اس مہینہ کی فرضی نحوست سے بچنے کے لیے صدقہ وخیرات کی کثرت کرتے ہیں۔
 اسی مہینہ کے آخری چہار شنبہ کو بعض لوگوں نے تہوار کا درجہ دے دیا ہے ، اس دن خوشیاں مناتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور سیر وتفریح کے لیے نکلتے ہیں، اس سلسلے میں ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن بیماری کے بعد غسل صحت کیا تھا۔
ظاہر ہے اسلام میں توہمات بدشگونی اور بد فالی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ، یقینا بعض ماہ کی فضیلت قرآن واحادیث سے ثابت ہے ، بعض ایام واوقات کی اہمیت بھی قرآن واحادیث میں بیان کی گئی ہے ، لیکن کسی دن، ماہ اور اوقات کے بارے میں منحوس ہونے کا ذکر کہیں نہیں ملتا، اس لیے جو لوگ بھی اس قسم کی رائے رکھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، اور رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن غسل صحت کیا تھا ، سراسر غلط ہے ، تاریخ وسیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن بیمار پڑے تھے ، اس سال آخری چہار شنبہ ۲۸؍ صفر کو پڑا تھا ، اس دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بیمار پڑے تو چودہ روز بیمار رہ کر دنیا سے پردہ فر ماگیے، امت نے رحمۃللعالمین کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا، اس لیے آخری چہار شنبہ کو مسلمانوں کے لیے خوشی کا کوئی موقع نہیں ہے ، یہ تو کفار ومشرکین ، یہود ونصاریٰ کے لیے خوشی کا باعث تھا ، پتہ نہیں یہ بات مسلمانوں کے درمیان کس طرح رواج پا گئی ۔
 اس لیے اس ماہ میں رائج توہمات سے مسلمانوں کو محفوظ رہنا چاہیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے ، بخاری شریف کی روایت ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی ، اُلو کی نحوست اور روح کی پکار کوئی چیز نہیں ہے ، اور صفر میں نحوست نہیں ہے ، اس قسم کی روایتیں ابو داؤد شریف اور مسند احمدمیں بھی ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بد فالی سے پر ہیز کرنا چاہیے اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنے سے باز آنا چاہیے ، لوگوں کا کیا ہے؟ بعضے تو جمعہ کے دن تک کومنحوس لکھ ڈالتے ہیں، بعض جنتریوں میں ایسا دیکھنے کو ملتا ہے ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سارے کام اللہ کی مرضی کے تابع ہیں، ہم نے ایک کام شروع کیا اس میں فائدہ نہیں ہوا تو اپنی کمی وکوتاہی کے تجزیہ کے بجائے یہ کہہ کر اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ یہ دن یا مہینہ ہمیں راس نہیں آیا اور اگر یہ ناکامی صفر کے مہینے میں ملی تو اس ناکامی کا سہرا صفر کے سر منڈھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ مہینہ تو منحوس ہے ہی ، اس کی وجہ سے تقدیر پر بھی ہمارا ایمان کمزور ہوتا ہے، اللہ کی رضا سے ہماری توجہ ہٹ جاتی ہے، ایسا عقیدہ رکھ کر ہم اپنے کو گناہ میں بھی مبتلا کر لیتے ہیں، اس لیے یقین رکھیے کہ سارے مہینے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور کوئی مہینہ منحوس نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور غیر اسلامی فکر اور رسومات سے بچالے۔ آمین

نسیم شاہ کے چھکے ، پاکستان ایشیا کپ کے فائنل میں

نسیم شاہ کے چھکے ، پاکستان ایشیا کپ کے فائنل میں
اردو دنیا نیوز٧٢
دبئی: ایشیا کپ ٹی20 کے سپر فور مرحلے کے میچ میں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد افغانستان کو ایک وکٹ سے شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ بدھ کو شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے 130 رنز کا ہدف نو وکٹوں کے نقصان پر 20 ویں اوور کی دوسری گیند پر حاصل کیا۔

نسیم شاہ 14 اور محمد حسنین صفر پر ناٹ آؤٹ رہے۔ پاکستان کی جیت کے ساتھ نہ صرف افغانستان بلکہ انڈیا بھی ایشیا کپ سے باہر ہوگیا ہے۔ گرین شرٹس کی جانب سے شاداب خان 36 اور افتخار احمد 30 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ افغانستان کی جانب سے فضل الحق فاروقی اور فرید احمد نے تین تین وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا تھا جو ٹھیک ثابت ہوا اور افغانستان 20 اوورز میں چھ وکٹوں کے نقصان پر 129رنز ہی بنا سکا۔

پاکستان کی اننگز کا احوال

دراصل 130 رنز کے تعاقب میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے اننگز کا آغاز کیا لیکن ٹورنامنٹ میں پاکستانی کپتان کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ پہلے اوور کی دوسری ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ فخر زمان بھی کوئی خاص کارکردگی نہ سکھا سکے اور پانچ رنز بنا کر رن آؤٹ ہو گئے۔ ٹورنامنٹ میں مسلسل دو نصف سینچریاں بنانے والے محمد رضوان کو راشد خان کی گوگلی نے گھما کر رکھ دیا اور وہ 20 رنز بنا کر ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔

ابتدائی وکٹیں گرنے کے بعد افتخار احمد اور شاداب خان کے درمیان 42 رنز کی شراکت داری بنی جس کے بعد افتخار 33 گیندوں پر 30 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ بابر اعظم کا شاداب خان کو پہلے بیٹنگ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ ٹھیک ثابت ہوا اور انہوں نے تین چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 36 رنز بنائے۔ انہیں راشد خان نے آؤٹ کیا۔

انڈیا کے خلاف جیت میں اہم کردار ادا کرنے والے محمد نواز آج جلد ہی پویلین لوٹ گئے۔ انہیں فضل الحق فاروقی نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ اسی اوور میں فضل الحق فاروقی نے خوشدل شاہ کو بھی ایک رن پر بولڈ کر دیا۔ حارث رؤف 19 ویں اوور کی دوسری گیند پر فرید احمد کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے۔

اسی اوور میں فرید احمد نے آصف علی کو بھی پویلین بھیج دیا۔ 20 ویں اوور میں پاکستان کو جیت کے لیے 11 رنز درکار تھے اور صرف ایک وکٹ ہی بچی ہوئی تھی لیکن نسیم شاہ نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور فضل الحق فاروقی کو لگا تار دو چھکے لگا کر اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچا دیا۔

افغانستان کی اننگز کا احوال افغانستان کی جانب سے رحیم اللہ گرباز اور حضرت اللہ زازئی نے اننگز کا جارحانہ آغاز کیا۔ گرباز نے محمد حسنین کو مسلسل دو چھکے لگائے لیکن اس سے اگلے ہی اوور میں حارث رؤف نے انہیں بولڈ کر دیا۔ حضرت اللہ زازئی کا نسیم شاہ نے کیچ ڈراپ کر دیا پر وہ موقع ملنے کے باوجود زیادہ دیر وکٹ پر نہ رک سکیں اور 21 رنز بنا کر محمد حسنین کی گیند پر بولڈ ہو گئے

اوپنرز کے آؤٹ ہونے کے بعد افغان مڈل آرڈر نے محتاط بیٹنگ شروع کر دی لیکن کریم جنت 12 ویں اوور میں محمد نواز کی گیند پر ہٹ لگانے کی کوشش میں کیچ تھما بیٹھے۔ نجیب اللہ زدران، شاداب خان کو چھکا لگانے کی کوشش میں باؤنڈری پر کیچ پکڑا بیٹھے، انہوں نے 10 رنز بنائے۔ اس سے اگلے اوور کی پہلی ہی گیند پر نسیم شاہ نے محمد نبی کو صفر پر بولڈ کر دیا۔ چھٹے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ابراہیم زدران تھے۔ وہ 35 رنز بنا کر حارث رؤف کا شکار بنے۔

ہدف کا تعاقب کرنا بہتر ہے' ٹاس جیت کر بابر اعظم کا کہنا تھا کہ 'ہمارے خیال میں بعد میں نمی ہو جائے گی تو اسی لیے ہدف کا تعاقب کرنا بہتر ہے۔' انہوں نے کہا کہ '(پاکستانی) کیمپ میں موڈ اچھا ہے اور ہم (جیت کا) مونیٹم برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔' افغانستان کے کپتان محمد نبی نے کہا کہ 'ہم بھی پہلے بولنگ ہی کرتے کیونکہ بعد میں شاید نمی ہو جائے۔ لیکن امید ہے کہ ہم اچھی بولنگ کریں گے اور ٹف ٹائم دیں گے۔'

آج کے میچ کے لیے گرین شرٹس نے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی جبکہ افغانستان نے ٹیم میں دو تبدیلیاں کی گئیں تھیں۔

بدھ, ستمبر 07, 2022

عدالت کے دروازے بند __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عدالت کے دروازے بند  __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 چیف جسٹس یو للت کی سر براہی میں جسٹس رویندر بھٹ اور جسٹس جے پی پار ڈی والا کی ایک بینچ نے بابری مسجد اور گجرات فسادات سے متعلق تمام گیارہ(۱۱) مقدمات کی فائلیں بند کر دینے کا حکم دیا ہے، ان مقدمات پر اب کوئی سماعت نہیں ہوگی، بابری مسجد انہدام کے موقع سے تو ہین عدالت کے مقدمات ہوئے تھے، اسے بھی بند کر دیا گیا ہے ، احسان جعفری قتل کیس میں ذکیہ جعفری حکومت سے مقدمات ہارتی اور اپیل کرتی رہی تھیں، اب اس کی بھی سماعت نہیں ہو سکے گی عدالت کے جج حضرات کی رائے تھی کہ ان مقدمات کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے، مرور ایام کے ساتھ یہ مقدمات لائق سماعت نہیں رہے۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ جو ہو گیا وہ ہو گیا، عربی میں اسے مضی ما مضی کہتے ہیں ، یعنی کل پر خاک ڈالیے اور بھول جائیے جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا، ماضی کی پریشان کن یادوں کو بھول جانا آسان نہیں ہوتا، اگر ہو بھی جائے تو انصاف کے تقاضے شاید پورے نہ ہوں۔
 اسی طرح کر ناٹک ہائی کورٹ نے ہبلی کی عیدگاہ میں گنیش چتھرتھی کی پوجا کرنے کی اجازت دیدی ہے، عدالت کی نظر میں یہ معاملہ اس قدر اہم تھا کہ رات کے ساڑھے بارہ بجے خصوصی عدالت بلا کر یہ فیصلہ سنایا گیا، کوشش تو بنگلور عیدگاہ میں بھی پوجا کے لیے کی جا رہی تھی، لیکن سپریم کورٹ نے اس کی منظوری نہیں دی ، عدالت کی نظر میں یہ غیر مناسب عمل ہے، لیکن کرناٹک ہائی کورٹ کو کس طرح یہ مناسب لگا کہ اس نے اس کی اجازت دے دی ۔
 اس قسم کے فیصلے یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہاں دوسرے درجے کا شہری مانا جاتا ہے اور دستور میں دیے گیے حقوق تک کی ان دیکھی کرکے فیصلے سامنے آ رہے ہیں، اس سے مسلمانوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے، یہ غم وغصہ جب احتجاج کے طور پر سامنے آتا ہے تو پولیس ایکشن کے لیے تیار ہوتی ہے اور کئی لوگ موت کی نیند سلا دیے جاتے ہیں ، یہ ہے ہمارا آزاد بھارت، جس کی آزادی کا امرت مہوتسو ہم پورے جوش وخروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ کی بکواس ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ٹی راجہ سنگھ کی بکواس ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 تلنگانہ اسمبلی میں بھاجپا کے رکن ٹی راجہ سنگھ کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بکواس نے حیدر آباد ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے قلب وجگر کو چھلنی کر دیا ہے ، ٹی راجہ سنگھ مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے ، اس کے اوپر ایک سو ایک(۱۰۱) مقدمات پہلے سے درج ہیں، جس میں اٹھارہ(۱۸) مقدمات کا تعلق فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے ہے ، حیدر آباد میں اسے گرفتار کیا گیا، لیکن یہ گرفتاری ان دفعات کے تحت ہوئی تھی ، جس میں دفعہ ۴۱، اے کے تحت پولیس کو پہلے نوٹس دینا ہوتا ہے، پولیس نے چوں کہ یہ نہیں کیا تھا؛ اس لیے عدالت نے تکنیکی بنیاد پر اسے رہا کر دیا، اس رہائی کے نتیجے میں مسلمانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور شاہ علی بند سے احتجاج ومظاہرہ شروع ہوا،قدیم حیدر آباد کے چار مینار تک پہونچا،اس درمیان تین اجنبی لوگوں نے پولیس پر پتھر پھینک دیا، اور پولیس نے اپنا غصہ اتارنے کے لیے ہر وہ کام کیا، جو اس کی روایت رہی ہے، نوے (۹۰)مسلمان گرفتار ہوئے اور پولیس نے گھروں میں گھس کر ان کے مکینوں کو زد وکوب کیا، ایم آئی ایم کے صدر و رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کسی طرح ان کو پولیس کی گرفت سے آزاد کرایا اور اپنے کارکنوں کے ذریعہ ان کے گھروں تک پہونچانے کا قابل تعریف کام کیا۔
 نوجوانوں نے اس موقعہ سے جو نعرہ لگایا ، اس میں ایک یہ بھی تھا کہ گستاخ رسول کی یہی ہے سزا ، سر تن سے جدا ، سر تن سے جدا، اس نعرے کی وجہ سے آ ر ایس ایس اور بھاجپا کے لوگ بھی سڑکوں پر آئے اور ٹی راجا سنگھ جس کی پارٹی میں کوئی پکڑ نہیں تھی، راتوں رات ہیرو بن گیا، اس بکواس سے وہ یہی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، جو اسے مل گیا۔
 اس موقع سے حیدر آباد کے مساجد کے ائمہ نے انتہائی تحمل اور بر داشت سے کام لیا،انہوں نے اپنی میٹنگ میں یہ طے کیا کہ اس مسئلے پر جمعہ میں کوئی خطاب نہیں ہوگا، اس پر پورے حیدر آباد میں عمل ہوا، ٹی راجہ سنگھ قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد دو بارہ گرفتار ہو گیا، اس سے بھی مسلمانوں نے کچھ راحت محسوس کی، ٹی راجہ سنگھ کی گرفتاری کے دوسرے دن جمعہ تھا اگر مسجد کے منبر سے کوئی تقریر اس موضوع پر ہوجاتی تو مسلمانوں کو قابو میں رکھنا دشوار ہو جاتا اور نتیجہ قتل وغارت گری، خوں ریزی ، عصمت دری، دو کان ومکان کی بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلتا، ائمہ ٔ مساجد حیدر آباد کے اس دانشمندانہ فیصلے نے ایک بڑے فساد کو واقع ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔
 یقینا تو ہین رسالت بڑا جرم ہے اور شریعت میں اس کے لیے سزا بھی مقرر ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے جو شرائط ضروری ہیں وہ ہندوستان میں نہیں پائے جاتے ، یہاں حدود وقصاص کا اجراء نہیں ہو سکتا، یہاں ایسے کسی عمل کا مطلب قانون اپنے ہاتھ میں لینا ہے، جس کی اجازت کوئی بھی نہیں دے سکتا، اس کا حل قانونی چارہ جوئی ہے ، پر امن احتجاج بھی اس ہوشیاری کے ساتھ کرنا چاہیے کہ مخالفین اس کے اندر گھس کر نئے مسائل پیدا نہ کریں۔
 اس سلسلے میں ملک کے علمائ، فقہاء اور مذہبی جماعتوں کو مل کر مضبوط لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اسی کی روشنی میں اقدام کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی نا خوش گوار واقعہ سے بچا جا سکے ۔

مدارس کی حفاظت کاواحد راستہ

مدارس کی حفاظت کاواحد راستہ 
اردو دنیا نیوز٧٢
میرے عزیزو! 
 آج ہمارے دینی مدارس کے لیے ایک ہی راستہ ہے،اور وہ یہ کہ وہ زندگی کا استحقاق ثابت کریں، وہ یہ ثابت کریں کہ اگر وہ نہ رہے تو زندگی بے معنی ہوجائے گی، اور کم سے کم اس میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگا،جس کو اور کوئی پر نہیں کرسکتا، باقی رحم کی درخواست نہ کبھی دنیا میں سنی گئی ہے، نہ کبھی سنی جاسکتی ہے، اور یہ زمانہ تو جمہوریت کا ہے،اس میں تو اب بالکل اس کی گنجائش نہیں رہی کہ ہم یہ کہیں کہ بھائی ہمیں فلاں حکومت نے باقی رکھا،فلاں حکومت نے باقی رکھا، ہم فلاں دور میں باقی رہے،فلاں دور میں باقی رہے،آپ بھی ہمیں باقی رکھئیے، یا آپ یہ کہیں کہ ہم نے آزادی میں اتنا حصہ لیا تھا،ہمارا استحقاق ہے،اس کو اب دنیا ماننے کے لیے تیار نہیں ہے" (پاجاسراغ زندگی)
آج سے پچاس سال قبل حضرت علی میاں رحمۃ نے یہ باتیں دارالحدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیرکی اپنی تقریر میں پیش کی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہی حضرت اہل مدارس سے مخاطب ہیں اورموجودہ حالات کی روشنی میں نصیحت فر مارہے ہیں، 
اس تقریر کے ایک ایک جملہ میں کتنی صداقت اورسچائی ہے؟آج ہمارے سامنے کھل کر آگئی ہے۔اس وقت خاص نظریہ کی ملک میں بالا دستی ہوگئی ہے،ہم نے اتنے مدرسے بند کرادئے یہ بات بڑے فخر کے ساتھ کہی جارہی ہے، مدارس پر بلڈوزر چلے یہ خبر اخبارات کی زینت بن رہی ہے، ہر چہار جانب سے مدارس کو بند کرنے اور کرانے کی بات ہورہی ہے، ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مدارس کو بند کرنے کے لیے باضابطہ روٹ پلان طےکرلیا گیا ہے،اوراس سمت میں کام بھی شروع ہوگیا ہے،
یوپی حکومت نےان تمام مدارس کےسروےکا فیصلہ صادر کیا ہےجو سرکار سے مالی تعاون نہیں لیتے ہیں،آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ ایسےسوالات پوچھے جارہے ہیں جس سے صرف حکومت کی نیت پر سوال کھڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ صاف طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو بند کرنے کی منظم کوشش ہے۔ملک کی ریاست آسام میں تین مدارس بلڈوزرسے منہدم کر دیے گئے ہیں،یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے،ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم اہل مدارس خاموش بیٹھے ہیں،ہم آئین کا حوالہ دیتے ہیں کہ اپنی پسند کے ادارے قائم کرنا مدارس قائم کرنا یہ ہمارا آئینی حق ہے، اس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا ہے، مگر ہماری آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، 
 ابھی گزشتہ کل کی بات ہے، دہلی میں" اجلاس تحفظ مدارس"  کے عنوان پر باضابطہ پروگرام منعقد کیا گیا،اسمیں پوری ریاست سے مدارس کےمہتمم صاحبان شریک ہوئے ہیں، حکومت سے گفت وشنید کی تجویز لی گئی ہے، مدارس کے ڈیڑھ سو سالہ کارناموں کا حوالہ دیکر اپنا مستقل وجود ثابت کیا گیا ہے، جنگ آزادی میں اہل مدارس کی قربانیاں گناکر اپنااستحقاق پیش کیاگیاہےاور رحم کی درخواست بھی کی گئی ہے، مگربقول حضرت علی میاں رحمۃ اللہ یہ حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، ساری گزارشات بے کاراور ساری کوششیں بے سود ہورہی ہیں،سابقہ مشاہدہ یہی کہتا ہے، کوئی گزارش قبول ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔  بقول شاعر۰۰ کوئی امید بر نہیں آتی 
                      کوئی صورت نظر نہیں آتی 
اور۰۰۰ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کا مصداق بن گیا ہے ۔ایک سوال پھر آج یہ قائم ہوتا ہے کہ آخر اس مسئلہ کاحل کیا ہے؟
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے ملک ہند کے گہرے مطالعہ کے بعد یہاں مدارس کے وجود اور اس کی بقا کاواحد حل بتلایا ہے،یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی اگر مولانا کی کہی ہوئی بات پر اہل مدارس متحد ہوجاتے ہیں ،اور عمل میں اسے لے آتے ہیں، تو یہی اس مسئلہ کا دائمی حل نظر آتا ہے، اوربعید نہیں کہ پورے ملک کی ہدایت کا راز بھی اسی میں چھپا ہوا ہے،۔
قرآن کریم کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مولانا نے یہ کہا ہے کہ دریاؤں میں جوجھاگ اور پانی کا پھین ہوتا ہے وہ اڑجایا کرتا ہے، اورپانی جسمیں لوگوں کو نفع پہونچانے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔یہ قرآنی نظام ہے جو فائدہ پہونچانے والی چیزیں ہوتی ہیں انہیں باقی رہنے کا حق ہوتا ہے اور وہ باقی رہتی ہیں، دنیا بھی اسی اصول کوتسلیم کرتی ہے۔آج اہل مدارس کو ماہرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔مولانا کہتے ہیں:" آپ کسی علم میں کسی فن میں اختصاص پیدا کرلیں،امتیاز پیدا کرلیں،دنیا آپ کا لوہا مانے گی،اور معاشی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، اور مدارس کا جو مسئلہ اس وقت ہمارے یہاں درپیش ہے، یہ سب ختم ہوجائے گا"(حوالہ سابق)
 مولانا اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج زمانہ انگریزی کا ہے،عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے سے یہاں کیا ہوجائے گا، ملاحظہ کیجئے؛ آپ کہتے ہیں کہ طب یونانی کو زوال اس لیے ہے کہ ڈاکٹری آگئی ہے، ہومیو پیتھک آگئی ہے،اور جدید میڈیسن آگئی ہے، میں بالکل نہیں مانتا،طب یونانی کو اس لیے زوال ہوا کہ اب اس طرح کے طبیب نہیں پیدا ہوتے،۰۰۰۰اگر آج وہ پیدا ہوجائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے پاس ڈاکٹر جائیں، اس میں ذرا مبالغہ نہیں، آپ کے شہر کا سول سرجن جھک مار کر ان کے پاس جائے،(پاجاسراغ، ص:166)
دوسرا کام جس کی طرف حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اہل مدارس کو متوجہ کیا ہے وہ دینی مکاتب کا قیام ہے،دراصل حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی نظر میں مکتب ہی مضبوط مدرسہ ہے جسے کوئی طاقت اکھیڑ نہیں سکتی ہے،
 حضرت کی زبان میں سنئے:
تیزی کے ساتھ ہندوستان بدل رہا ہے، ہر چیز کو نیشنلائز کیا جارہا ہے،۔۔۔مسلم یونیورسٹی کی باری آگئی، کل مدارس کی باری آسکتی ہے، تو اس کے لیے مکاتب کا جال بچھا دیجئے، اور مساجدکومسلمانوں کی زندگی کا مرکز بنایئے، سب سے آخر میں انقلاب کے قدم جہاں پہونچیں گے، وہ مسجدیں ہیں، اس لیے آپ ایسی جگہ اپنے مرکز بنایئے، جہاں دیر میں انقلاب پہونچے یاوہاں تک انقلاب پہونچتے پہونچتے قیامت آجائے، (حوالہ سابق )
مذکورہ دونوں باتیں اہل مدارس کے وجوداور بقا کےضامن ہیں، اس وقت اس پر منظم کوشش کی ضرورت ہے، ایک تیسری چیز جوحضرت علی میاں رحمۃ اللہ نے پچاس سال قبل مذکورہ بالا خطاب کے بعد شروع کیا ہے، وہ تحریک پیام انسانیت ہے،
آپ کی یہ تقریر ۱۹۷۳ء میں ہوئی ہے، اور سال کے اختتام پر ۱۹۷۴ء میں آپ نے الہ آباد کے پہلے اجلاس سے تحریک پیام انسانیت کا آغاز فرمایا ہے، اور اس تحریک کو ملک کی تمام دینی وملی تحریکوں کے لئے ضروری قرار دیا ہے،مولانا نے صاف صاف یہ کہا ہے کہ پیام انسانیت تحریک کے ذریعہ ہی اس ملک کی دھرتی کو ہموار کرسکتے ہیں، اور پھر اس پر ہمارا کوئی دینی وملی اور ادبی پروگرام منعقد ہوسکتا ہے،آج اہل مدارس کو اس کام کو اپنے وجود کی بقا کے لیے بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۷/ستمبر ۲۰۲۲ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...