Powered By Blogger

منگل, ستمبر 13, 2022

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، مرد کی قوامیت اپنی جگہ ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا ،اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو ، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم مین کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، یہ تعداد اس سے کہیں زائد ہو سکتی ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی ، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اوروہ مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
 برطانیہ میں مین ریچنگ آؤٹ(Men  reaching out)کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جو مردوں پر کیے جا رہے تشدد پر روک لگانے کے لیے قائم کی گئی ہے ، شروع میں ہر ماہ اس تنظیم سے شکایت کرنے والوں کی تعداد بیس(۲۰) ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ تعداد ماہانہ ساٹھ (۶۰) تک پہونچ گئی ہے ، اس تنظیم میں لوگ ہیلپ لائن کی مدد سے شکایتیں درج کراتے ہیں، تنظیم دونوں کو بلا کر کونسلنگ کرتی ہے، سمجھانے بجھانے کے بعد ممکن ہوتا ہے تو صلح کرادیتی ہے اور کلیۃًدروازہ بند محسوس ہوتا ہے تو مرد کی عورت سے گلو خلاصی کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 ہندوستان میں عورتوں کے ذریعہ مردوں پر ہو رہے تشدد کی تعداد برطانیہ سے کم نہیں ہے ، لیکن معاملات کا اندراج اس لیے نہیں ہوتا کہ ہندوستان میں عورتوں پر تشدد روکنے کے لیے تو قوانین موجود ہیں، لیکن مردوں پر تشدد ہونے کی صورت میں اس کو انصاف دلانے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ، ہندوستان میں گھریلو تشدد (Domostic violence)کے لیے جو قانون ہے ، ان کے سارے دفعات خواتین کے تحفظ پر مرکوز ہیں، ہندوستان میں انڈین ویمن کورٹ ۳۲۳ متاثر مرد کو کچھ حقوق ضرور دیتی ہے، لیکن اس کا نفاذ اس لیے نہیں ہوتا کہ مرد تھانوں کا رخ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو ان کے حصہ میں صرف مذاق آتا ہے، یا پھر تھانے والے الٹا عورت کے ذریعہ مرد پر ایک مقدمہ درج کرادیتے ہیں، اور عدالت کا رخ یہ ہوتا ہے کہ عورت ہی ہر حال میں مظلوم ہے۔
 عورتوں کے ذریعہ تشدد کے واقعات کی ایک وجہ شوہر کی مفلسی ہوتی ہے، بقول اکبر الٰہ آبادی ،’’ مفلسی اعتبار کھوتی ہے‘‘‘ اس کی وجہ سے عورت کو محرومیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کی طرف سے لعن طعن ، لڑنا جھگڑنا شروع ہوجاتا ہے، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ضروری نہیں کہ بیوی بیلن ہر روز لے کر دوڑائے، یہاں تشددذہنی، جسمانی، دماغی ایذا رسانی کے معنی میں ہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض موقعوں سے بیلن کی نوبت آجائے۔جو کچن میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود عموما ہر گھر میں آج بھی پایا جاتا ہے۔
  مرد کی ’’قوامیت ‘‘کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عورتوں پر ان کے ذریعہ ’’انفاق مال‘‘ کو قرار دیاہے ، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں ، اسلام میں عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت ’’زر خرید‘‘ غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے تو اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، بیوی سوچتی ہے کہ میرے والدین نے اتنے لاکھ میں مجھے ایک عدد شوہر خریدکر دیا ہے،ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی ، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبتیں کھڑی کرتی رہتی ہے اور شوہر کو ’’جو کچھ بیگم صاحبہ نے کہا بر حق ہے‘‘ کہہ کر زندگی گذارنی پڑتی ہے۔
 اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھرانوں کی خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پربھی پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے، جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میں ہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں بھی رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے۔

ٹی 20 ورلڈ کپ : ٹیم انڈیا کا اعلان ، بمراہ کی واپسی

ٹی 20 ورلڈ کپ : ٹیم انڈیا کا اعلان ، بمراہ کی واپسی
اردو دنیا نیوز٧٢
ممبئی :ٹیم انڈیا نے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے اپنے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔ 16 اکتوبر سے آسٹریلیا میں شروع ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کی کپتانی روہت شرما کریں گے۔ انڈین ٹیم کا اعلان پیر کو انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا گیا ہے۔ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے ایشیا کپ کھیلنے والی انڈین ٹیم میں دو تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اویش خان اور روی بشنوئی کی جگہ جسپریت بمراہ اور ہرشل پٹیل کی واپسی ہوئی ہے۔ کپتان روہت شرما پہلی مرتبہ کسی بھی آئی سی سی ایونٹ میں انڈین ٹیم کی کپتانی کریں گے جبکہ کے ایل راہُل ٹیم نے نائب کپتان ہوں گے

روہت شرما (کپتان)، کے ایل راہُل، وراٹ کوہلی، سوریا کمار یادو، دیپک ہودا، رشبھ پنت، دنیش کارتک، ہاردک پانڈیا، روی چندرن اشون، یزویندرا چہل، اکشر پٹیل، جسپریت بمراہ، بھونیشور کمار، ہرشل پٹیل، ارشدیپ سنگھ۔ محمد شامی، شریاس ایئر، روی بشنوئی اور دیپک چیہر کو ٹیم میں سٹینڈ بائی پر رکھا گیا گیا ہے۔

انڈین ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ 23 اکتوبر کو پاکستان کے خلاف کھیلے گی جبکہ 27 اکتوبر کو کوالیفائی کرنے والی ٹیم سے، 30 اکتوبر کو جنوبی افریقہ، 2 نومبر کو بنگلہ دیش اور 6 نومبر کو کوالیفائی کرنے والی ٹیم سے میچ کھیلے گی۔ انڈیا اس سے قبل 2021 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تھا۔

پیر, ستمبر 12, 2022

ذہنی سکون ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ذہنی سکون ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 آج زندگی اس قدر مشکل اور دشوار ہو گئی ہے کہ ہر آدمی نت نئے مسائل کی وجہ سے مایوسی ، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے ، اس ذہنی تناؤ کی وجہ سے اس کی کار کردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ ہمارے وہ خیالات اور توہمات ہوتے ہیں، جن سے ہمارے دل ودماغ کو پراگندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے خیالات کا جائزہ لیتے رہیں، اگر ہم دماغ میں خواہی نہ خواہی گھس آنے والے خیالات کو ڈسٹ بین (کچرے کے ذبے) میں نہیں ڈالیں گے تو دماغ خود ہی ڈست بین بن جائے گا، اس لیے ہمیں ان غیر ضروری خیالات کو ذہن ودماغ سے نکالتے رہنا ضروری ہے تاکہ ہمارا ذہنی سکون درہم برہم نہ ہو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ ذہنی سکون سے ہمارے کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے ، اس کے بر عکس خیالات کی پر اگندگی کے اثرات ہمارے جسمانی صحت پر بھی پڑتے ہیں، ذہنی نظام تہہ وبالا ہوتا ہے تو جسمانی نظام بھی اس کی زد میں آجاتا ہے۔
 ذہنی پراگندگی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان دوسروں سے مرعوب اور اس کی رائے کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ، اس کی وجہ سے قوت فیصلہ میں کمی آتی ہے اور دوسروں کے مشورے اور رایوں پر زندگی گذار نے کا مزاج بن جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بسا اوقات صحیح وغلط کے بارے میں حتمی رائے لینا دشوار ہوجاتا ہے اور مذبذبین بین ذالک کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور زندگی مانگے کے اجالے پر بسر ہونے لگتی ہے ۔
 ذہنی سکون کے حصول اور خیالات کو فلٹر کرنے کے لیے مثبت سر گرمیاں اور ورزش کرنا مفید بتایا گیا ہے، اس سے ذہنی روالگ رخ اختیار کر لیتی ہے اور انسان پریشان کن خیالات اور توہمات سے اپنے کو پاک کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ، عام صحت مند انسان کوبھی ہفتے میں کم از کم ایک سو پچاس منٹ اوسط قسم کی ورزش کرنی چاہیے،اس سے انسان فٹ بھی رہتا ہے اورپُر سکون بھی۔
 خیالات کو فلٹر اورذہنی وجسمانی تناؤ سے آزاد کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے نیند ہمیں عطا کی ہے ، تاکہ آپ جب صبح نیند سے اٹھیں تو اپنے روز مرہ کے کاموں کے لیے پوری طرح چارج رہیں، لیکن موبائل کے اس دور میں یہ ممکن نہیں ہو رہا ہے ، ہمارا نوجوان طبقہ سونے کے وقت میں رات رات بھر سوشل میڈیا پر لگا ہوتا ہے، رات بھر اس میں مشغول رہنے کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوتی اور صبح میں انہیں سردرد اورآنکھوں کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ سے خیالات کا ایک انبار ذہن میں منتقل ہوجاتا ہے، جو ہمارے ذہنی سکون کے لیے زہر قاتل ہے،ا س لیے اس سے آخری حد تک پر ہیز کرنے کی ضرورت ہے ، رات میں معمول کے مطابق سوجائیے ، صبح تازہ دم اٹھیے، آپ محسوس کریں گے کہ ایک نئی توانائی آپ کے اندر پیدا ہو گئی ہے، اور دماغی اعتبار سے آپ پُر سکون ہیں۔
 صبح دیر تک سونا ذہنی سکون اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہے، حکیم عبد الحمید بانیٔ ہمدرد پوری زندگی بیمار نہ پڑے، ان کی اول اور آخری بیماری مرض الموت تھی، ہمدرد یونیورسٹی میں ان کے مزار کے کتبہ پر ان کا یہ قول کندہ ہے کہ میں نے جب سے عقل سنبھالا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سورج نکل گیا ہوا ور میں سوتا رہا ہوں، صبح سویرے جاگنے کی اس عادت نے ان کو پوری زندگی تروتازہ ،توانا اور صحت مند رکھا، آدمی کی صحت مندی اس کے دل ودماغ کے صحت مند ہونے کا مظہر ہے اور صحت مند ذہن ودماغ عام طور سے پُر سکون ہوا کرتے ہیں۔
کسی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، اسی لیے مشہور ہے کہ کم بولیے، کم کھائیے اور کم سوئیے، اسی طرح ورزش کا عمل بھی عمر کے تناسب سے کرنا چاہیے، پنج وقتہ نمازوں کی پابندی سے عبادت کے ساتھ جسم کی ورزش بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے ، نماز اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہے اور سب سے زیادہ اطمینان قلب ذکر اللہ ہی سے پیدا ہوتا ہے ، ارشاد خدا وندی ہے۔ ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ آگاہ ہو جاؤ اللہ کے ذکر سے قلب مطمئن ہوتا ہے۔ ذہنی سکون کے لیے ان باتوں پر دھیان دیجئے، آپ محسوس کریں گے کہ آپ ذہنی طور پر ٹنشن سے محفوظ ہو گیے ہیں، اور یہ آپ کی بہت بڑٰ کامیابی ہے۔

اتوار, ستمبر 11, 2022

ممتاز قلم کار اور دارالعلوم وقف دیوبند کے سینئر استاذ حدیث مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا اچانک انتقال، مولانا کے سانحہ ٔ ارتحال سے علمی وادبی حلقے سوگوار

ممتاز قلم کار اور دارالعلوم وقف دیوبند کے سینئر استاذ حدیث مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا اچانک انتقال، مولانا کے سانحہ ٔ ارتحال سے علمی وادبی حلقے سوگوار۔

اردو دنیا نیوز٧٢
دیوبند: رضوان سلمانی۔
امام العصرحضرت مولانا علامہ انو ر شاہ کشمیریؒ کے پوتے اور معروف قلمکار مولانا سید اظہر شاہ قیصر کے صاحبزادے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ وادیب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا حرکت قلب بند ہوجانے سے اچانک انتقال ہوگیا ۔جیسے ہی ان کی انتقال کی خبر عام ہوئی علمی ،دینی وادبی اور صحافتی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی اور لوگ ایک دوسرے سے بذریعہ فون اس کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آئے۔
مولانا نسیم اختر شاہ کے انتقال کو ادبی دنیا کا بڑا خسارہ قرار دیا جارہا ہے ۔ انتقال کی اطلاع ملتے ہی دارالعلوم دیوبند ،دارالعلوم وقف سمیت جامعہ امام محمد انور شاہ اور دیگر دینی اداروں کے اساتذہ وذمہ داران کا تانتا ان کی رہائش گاہ پر لگ گیا ۔

اطلاع ملتے ہی دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانامحمد سفیان قاسمی ،نائب مہتمم مولانا شکیب قاسمی ،شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سلمان بجنوری، معروف عالم دین مولانا ندیم الواجدی، آل انڈیا ملی کونسل کے قومی صدر مولانا عبداللہ مغیثی، کونسل کے ضلع صدر مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی، دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی اور مسلم فنڈ کے مینجر سہیل صدیقی، نامور عالم دین مفتی عفان قاسمی، اسپرنگ ڈیل اسکول کے چیئرمین سعد صدیقی سمیت شہر کی سیاسی وسماجی شخصیات ،عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی رہائش گاہ محلہ خانقاہ پہنچ کر مولانا کی وفات پر اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کیا ۔
مرحوم مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے ،ان کا دنیا سے رخصت ہوجانے علمی دینی وادبی حلقوں کا بڑا نقصان تصور کیا جارہا ہے ۔مرحوم کی نماز جنازہ رات 11بجے جامعہ امام محمد انور شاہ میں اداکی جائے گی اور تدفین انوریہ قبرستان میں عمل میں آئے گی ۔اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین۔

آپریشن لوٹس___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آپریشن لوٹس___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 بھاجپا جب کسی ریاست میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی تو وہ آپریشن لوٹس شروع کر دیتی ہے ، لوٹس یعنی کنول اس کا انتخابی نشان ہے، اس مناسبت سے اسے آپریشن لوٹس کہتے ہیں، اس آپریشن میں سب سے پہلے دیگر سیاسی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو خریدا جاتا ہے، ایک ایک ممبر کی قیمت لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہے ، کئی تو روپے لینے کے بعد وزارت کی شرط بھی لگاتے ہیں، چنانچہ انہیں اقتدار کی تبدیلی میں روپے کے ساتھ وزارت کی کرسی بھی مل جاتی ہے ، دوسری پارٹیاں بھی موقع کی تاک میں رہتی ہیں، لیکن جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے روپے دے کر بھاجپا والے ارکان کو خریدتے ہیں اور حکومتیں گرائی جاتی ہیں، اس کی مثال دوسری پارٹیوں میں کم دیکھا جاتا ہے۔ گو دوسری پارٹیوں میں بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
 مہاراشٹر میں ’’مہااگاری‘‘ کی سرکار کو گرانے کے لیے جو داؤ بھاجپا نے چلا وہ کامیاب ہو گیا او روہاں شیو سینا کے ایک گُٹ نے بھاجپا کی مدد سے شنڈے حکومت قائم کرادی ، سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، جو یقینا ذلت آمیز تھا، لیکن اب عزت وذلت کی بات قصۂ پارینہ ہے، اب صرف کرسی چاہیے، اس کرسی کے چکر میں سابق مرکزی وزیر کو ریاستی وزیر بننے، راجیہ سبھا کے ممبر کو ودھان پریشد کے ممبر بننے اور سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہوتی، اب اس ملک کو صرف یہ دن دیکھنا باقی ہے جب صدر جمہوریہ بھی سبکدوشی کے بعد پارلیمانی یا ریاستی سیاست میں سر گرم حصہ داری ادا کرنے لگیں گے ۔
بھاجپا چاہتی ہے کہ ساری سیکولر حکومتوں کو آپریشن لوٹس کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کردے اور اپنی حکومت قائم کرے، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا ہے کہ بھاجپا ان کی حکومت گرانے کے لیے آٹھ سو کروڑ روپے خرچ کرنے کو تیار ہے اور اس نے عاپ کے چالیس اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے بیس (۲۰)، بیس (۲۰) کروڑ روپے کی بولی لگا دی ہے۔
 آپریشن لوٹس ان دنوں جھارکھنڈ میں چل رہا ہے ، پہلے کانگریس کے تین ارکان اسمبلی کو موٹی رقم دے کر آسام بھیجا جا رہا تھا تاکہ آپریشن کا تمام خاکہ آسام کے وزیر اعلیٰ ان دونوں کو سمجھائیں اور وہ واپس آکر ہیمنت سورین کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیں، آسام جانے کے لیے انہیں کولکاتہ سے گذرنا تھا اور وہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے، اقتدار خاتون آہن ممتا بنرجی کے ہاتھ ہے، چنانچہ یہ دونوں ہوڑہ میں گرفتار ہو کرمنی لانڈرنگ کیس میں ماخوذ ہو گیے، یہ اسکیم ناکام ہوتی تو بھاجپا نے ہیمنت سورین کو ہٹانے کے لیے انہیں نا اہل قرار دلوادیا، ساری تیاری مکمل ہے، لیکن ہیمنت سورین بھی اس باپ کے بیٹا ہیں، جس نے جھارکھنڈ کو وجود میں لانے کے لیے لمبی لڑائی لڑی تھی، انہوں نے کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ارکان کو کھونٹی گیسٹ ہاؤس میں لے جا کر رکھا اور اقتدار کی بقا کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا، اور پھر سارے ارکان رانچی لوٹ آئے ،اب دوبارہ انہیں رائے پور منتقل کیا گیا ہے تاکہ وہ بکری منڈی سے دور رہیں، اسمبلی میں دونوں پارٹیوں کے جوارکان ہیں، اگر وہ متحد رہتے ہیں، تو ہیمنت سورین کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنا کر اتھاڈ کی حکومت کو بچایا جا سکتا ہے ، لیکن سیاست اور کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

ہفتہ, ستمبر 10, 2022

اندازِ سخن ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اندازِ سخن ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
سلطان احمد شمسی بن محمد یوسف مرحوم (ولادت ۳؍ مئی ۱۹۴۵) برداہا کمتول، موجودہ ضلع مدھوبنی کے رہنے والے ہیں، امارت شرعیہ کے پرانے نقیب ہیں، محکمہ ڈاک دربھنگہ سے سبکدوش ، پبلک ریلیشن انسپکٹر ہیں، شاعری ، مضمون نگاری اور سماجی خدمات سے شغف پہلے بھی تھا،سبکدوشی کے بعد اب یہ کُل وقتی مشغلہ ہے، کئی توصیفی اسناد وایوارڈ حاصل کر چکے ہیں، ہندوستان کے مختلف رسائل میں آپ کا کلام شائع ہوتا رہا ہے، ٹی وی پر برسوں آکاش وانی دربھنگہ سے ہفتہ وار جائزہ پیش کرتے رہے ہیں، اس کی وجہ سے تجزیاتی صلاحیت مضبوط ہے، مدحت رسول، ریت کا سفر کے بعد اب کے’’ انداز سخن‘‘ لے کر قارئین کی خدمت میں آئے ہیں، تیسرا ، چوتھا شعری مجموعہ آنا ہی چاہتا ہے۔
 انداز سخن دو سو صفحات پر مشتمل ہے، جن میں اکیس صفحات نثری تحریروں کے ہیں، انہیں صفحات میں انتساب مخلص کرم فرماؤں کے نام، مختصر تعارف اور پیش لفظ بقلم خود (شکیل شمسی) اور تقریظ ڈاکٹر ایم صلاح الدین کے قلم سے ہے ، اس میں ایک مضمون پروفیسر آفتاب اشرف کے قلم سے ’’مصمم عزم سے منزل کو پانے کی‘‘ -عنوان سے ہے، عنوان ناقص اور کچھ اٹ پٹا سا ہے، البتہ  مضمون کے مندرجات اچھے ہیں۔ اس کے بعد حمد ، نعت اور ایک منقبت کو شامل کتاب کیا گیا ہے ، اس کے بعد کتاب تین حصہ ، غزل، نظم او رقطعات پر منقسم ہے، غزلوں کی تعداد چھیاسٹھ، نظموں کی تعداد پانچ، قطعات چھ اور ایک سہرا کو بھی جگہ دی گئی ہے ، جسے ڈاکٹر امام اعظم ریجنل ڈائرکٹر مانو کولکاتہ کے صاحب زادہ ڈاکٹر نوا امام کی شادی میں پڑھا گیا تھا۔
 مجموعہ کے مشتملات کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان شمسی نے شاعری کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ ان اصناف کے تقاضوں کو اپنی شاعری میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے، ان اشعار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب میں رائج گروپ بندی سے وہ الگ ہیں، ان کی فکر، ان کی سوچ، ان کا تخیل اور ان کا انداز سخن’’ مانگے کا اجالا‘‘ نہیں ہے ۔ ان کی شاعری خالص بندگی کے گرد تو نہیں گھومتی ، لیکن بندگی کا عنصراس میں ضرور پایا جاتا ہے، شاعری میں دور جحان تو پہلے سے رائج ہے ، ایک ادب برائے ادب اور ایک ادب برائے زندگی کا، ادب برائے ادب کا تصور اب ختم سا ہو گیا ہے اور ادب برائے زندگی کا مطلب مادیت پر مشتمل تخیلات ہیں، جو جدیدیت کے فیشن سے ٹکرا کر شاعری میں معمہ اور چیستاں اور افسانے میں بنیے کا روزنامچہ بن کر رہ گیا ہے اور الحاد ودین بیزاری کے جراثیم نئی نسلوں میں تیزی سے منتقل کر رہا ہے، ایسے میں ’’ ادب برائے بندگی‘‘ کو رواج دینا چاہیے اور اس میں بڑی گنجائش اس لیے ہے کہ عشق مجازی سے متعلق لفظیات وتعبیرات سے عشق حقیقی تک پہونچنے اور پہونچانے کا کام ماضی میں بھی کثرت سے لیا جاتا رہا ہے اور اب بھی اس کی مثالیں ناپید نہیں ہیں، شاعر اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے، وہ ان واقعات وحالات ، حوادث ، ومصائب سے متاثر ہوتا ہے، جو اس پر گذری یا اس کے ارد گرد سے گذر گئی ، تخیلات ایسے ہی واقعات اور تاثرات کے سایے میں پیدا ہوتے، بڑھتے اور جواں ہوتے ہیں، شاعر کے کہنے کا انداز اس میں ندرت پیدا کرتا ہے اور سیدھے سادھے واقعات جب اشعار کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو وہ دلوں کو گرماتے اور عقل وشعور کو مہمیز کرتے ہیں، گرد وپیش کے حالات جب اشعار کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو شعراء وادباء اسے عصری حسیت سے تعبیر کرتے ہیں، سلطان شمسی کی شاعری میں عصری حسیت سے بھر پور اشعار کی تعداد بھی کم نہیں ہے ، چند اشعار دیکھے۔
 خون جگر سے سینچا تھا جس نے چمن کو بھی 
نسبت کہاں کسی کو ہے اس باغباں کے ساتھ 
 آئے ہیں ملنے ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے
ان کو ہے مجھ سے کتنی عداوت سمجھ گیے 
 بڑھاہے ظلم وستم اب تمہاری بستی میں
 بہت ہی جلد خدا کا عذاب آئے گا
 سلطان شمسی کے بعض اشعار سے گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے شعراء سے خیال مستعار لیا ہے، ادب کی دنیا میں اسے توارد بھی کہتے ہیں، جیسے شاعر کا یہ شعر دیکھیے:
 جانے کیسی بادلوں کے درمیاں سازش ہوئی
میرا گھر مٹی کا تھا میرے ہی گھر بارش ہوئی
 سلطان شمسی اسی بات کو چند الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ کہتے ہیں:
 دشمنوں کی جانے کیسی بادل سے کچھ بات ہوئی
 بے چھپر کا گھر تھا میرا میرے گھر برسات ہوئی
دونوں کو آپ نے پڑھ لیا، تجزیہ کریں تو جو شاعری پہلے شعر میں ہے وہ سلطان شمسی کے یہاں نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مٹی کے گھر میں سر چھپانے کی گنجائش برسات میں بھی رہتی ہے، سلطان شمسی کے گھر پر تو چھپر ہی نہیں ہے ، اس لیے بارش کا سارا قہر ان کے تن وبدن سے ہو کر گذر رہا ہے۔
سلطان شمسی کے یہاں چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کی بھی مثالیں ملتی ہیں،ان میں ایسی روانی ہے جو سُبک بھی ہے اور زبان پر آسان بھی، آپ بھی دیکھیے:
رات اکیلی بھاری تھی

عشق نے بازی ہاری تھی
 اس نے مکاں کو جلتے دیکھا 

آندھی کی بھی باری تھی
میں نے اندھیروں میں ہی رہ کر

ہجر کی رات گذاری تھی
کتاب خوبصورت دیدہ زیب چھپی ہے ، ٹائٹل دلکش ہے، البتہ دو سو صفحات کی قیمت تین سو روپے اردو کے قاری کی قوت خرید کے اعتبار سے زائد ہے، کہیں کہیں پروف کی غلطی رہ جانے کی وجہ سے بھی پریشانی ہوتی ہے، کتاب پڑھنے کے بعد آپ پروفیسر محمد آفتاب اشرف صدر شعبہ اردو متھلا یونیورسٹی سے کس قدر متفق ہوں گے یہ آپ پر چھوڑتا ہوں، البتہ ان کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں: ’’سلطان شمسی نے اپنی فکر فنی جوہر سے اردو کی غزلیہ شاعری کو اعتبار اور وقار بخشا ہے۔‘‘ پروفیسر مشتاق احمد رجسٹرار متھلا یونیورسٹی سے بھی صرفِ نظر کرنے کو جی نہیں چاہتا، لکھتے ہیں۔
’’سلطان شمسی نے اپنی شاعری کو صرف قافیہ پیمائی تک محدود نہیں رکھا ہے، بلکہ انہوں نے معنیاتی (کذا) اعتبار سے بھی اپنی ایک منفرد شعری دنیا تخلیق کی، جو انہیں ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔‘‘

زمیں بوس ٹوئن ٹاور ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

زمیں بوس ٹوئن ٹاور ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 ۲۸؍ اگست ۲۰۲۲ء کو سارے ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز ٹوئن ٹاور کا انہدام تھا، مختلف خبر رساں ادارے جن میں بی بی سی کے نمائندے بھی شامل تھے، ڈھائی بجے سے قبل پل پل تیاریوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے اور ڈھائی بجے دن کے بعد تاش کے پتوں کی طرح بکھرے ان دو عمارتوں کی ، جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ قطب مینارسے بھی سومیٹر بلند عمارتیں تھیں، اسے ٹوئن ٹاور کا نام اس لیے دیا گیا تھا کہ یہ دو فلک بوس عمارتوں پر مشتمل تھا، ایک میں بتیس اور دوسرے میں انتیس منزلیں تھیں، ان کی تعمیر جدید طرز کے مطابق دہلی سے منسلک نوئیڈا کے سیکٹر ۹۳اے میں سوپر ٹیک نامی کمپنی نے کروایا تھا، اس کو منہدم کرانے کے لیے لمبی قانونی لڑائی چلی، سپریم کورٹ تک بات پہونچی، فیصلہ ہوا، نظر ثانی ہوئی اور قانون وقواعد کی ان دیکھی کرکے تعمیراس عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ بر قرار رہا۔
 منہدم کرنا بھی اتنا آسان نہیں تھا، قریب میں بہت ساری عمارتیں تھیں، جن کو نقصان پہونچنے کا خطرہ تھا، چنانچہ محفوظ انہدام کی کاروائی کے لیے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں، اس نے اس عمارت کو گرانے کے لیے سینتیس سو کلو گرام دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا،نوہزار آٹھ سو سوراخ دونوں عمارت سیان اور اپیکس ٹاور میں کئے گئے تھے، یہ سوراخ انگریزی کے حروف وی(V) کی طرح تھے، ہر سوراخ میں ایک سو سیتیس سے تین سو پینسٹھ گرام تک آتشی مادہ ڈالا گیا اور صرف نو سکنڈ میں دو نوں عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ ٹوئن ٹاور کو بنانے میں تقریبا آٹھ سو کڑوڑ روپے خرچ ہوئے تھے اور اس کے گرانے میں پچپن کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے، یہ خرچ بھی سوپر ٹیک کو ہی دینا ہوگا، آس پاس کی عمارتوں کو نقصان اور ٹوئن ٹاور کے مکینوں کے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری مع سود بھی اسی کمپنی پر ہے۔ عمارت کو منہدم کرنے کی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، اس میں یہ عمارت سیدھے بیٹھتی جا رہی ہے، انجینئر نگ کی اصطلاح میں اسے واٹر فال امیجنگ تکنیک کہتے ہیں۔اس تکنیک میں عمارت گرتے وقت پانی کی طرح نیچے کو آجاتی ہے، اس کا ملبہ ارد گرد میں نہیں پھیلتا ہے۔
مجھے یہ منظر دیکھ کر قیامت کا منظر یاد آگیا، جب آسمان روئی کے گالے کی طرح ہوجائے گا اور ساری عمارتیں ڈھہہ جائیں گی اور زمین اندر کی چیزیں باہر پھینک دے گی او سب کچھ سکنڈوںمیں ختم ہوجائے گا، جس کے بنانے میں زمانے لگے ، سب نیست ونابود ہوجائیں گے، دوسرا سبق اس میں مکافات عمل کا بھی ہے ، ضابطہ اور قانون کی پابندی نہ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے، یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ، ہر وقت آپ دنیاوی سی سی کیمرے کے ساتھ اللہ کی نگرانی میں ہیں ، سی سی کیمرے کے حدود مقرر ہیں، اس سے آگے وہ منظر کو محفوظ نہیں کر سکتا، مگر اللہ غیر محدود ہے، اس کی نگرانی ہر جگہ خلوت وجلوت میں ہے۔غلطیوں کی سزا ملنے میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔
 اس انہدام سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوئیڈا ڈولپمنٹ اتھارٹی نے اس پر روک پہلے ہی کیوں نہیں لگائی، اگر قانون کے خلاف ہو رہی تعمیرات کو نوئیڈا اتھارٹی پہلے دن روک دیتی تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی، تو کیا اس سے یہ سمجھاجائے کہ اتھارٹی کے لوگ سوپر ٹیک والوں کے ہاتھ بکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔
 اتر پردیش کی یوگی حکومت کو بھی اس کا احساس ہے ، اس لیے اس نے چھبیس افسران کی فہرست جاری کی ہے، جن پر کارروائی ہونے کا امکان ہے، سوپر ٹیک  لیمیٹڈ کمپنی کے ڈائرکٹر اور ڈرافٹ مین پر بھی سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔
 وجہ جو بھی ہو ٹوئن ٹاور کا انہدام ایک تاریخی واقعہ ہے ، ہندوستان میں اس قدر اونچی عمارت پہلے نہیں گرائی گئی تھی ، اس سے قبل کیرالہ میں ایک عمارت منہدم کی گئی تھی، جس کی اونچائی ٹوئن ٹاور سے نصف تھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...