Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 14, 2022

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری
اردو دنیا نیوز٧٢
دیو بند : دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے آج اپنا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے ، شوری کی میٹنگ کا آج دوسرا دن تھا، جس میں بجٹ سمیت کئی اہم امور پر گفت و شنید ہوئی ۔ اس کی اطلاع دیوبند سے مجلس شوری کے رکن مفتی اسماعیل قاسمی نے دی ۔ انہوں نے بتایا کہ آج بجٹ میٹنگ رئیس الجامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے صدر مولانا غلام محمد وستانوی کی صدارت میں میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ بجٹ 43کروڑ 53 لاکھ 80 ہزار روپے کا ہے۔ گزشت تین، چار سال کے تناظر میں اس مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے بجٹ میں انصاف کیا گیا ہے۔
مفتی اسماعیل قاسمی نے بتایا کہ شوری کے اس بجٹ اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کے نام مولانا مفتی ابوالقاسم بنارسی ، مولانا بدرالدین اجمل، مولانا ابراہیم ملک، مولانا رحمت الله مولانا محمود راجستھان ،مولانا انوار الرحمان بجنوری، حکیم کلیم الله ،مولانا حبیب الله باندہ اور مولانا غلام محمد وستانوی موجود تھے ۔ اس کے دوران دارالعلوم دیوبند سے جڑے اندرونی کئی معاملات و مسائل پر گفتگو کی گئی تعلیمی ، قانونی کمیٹیوں کے معاملات طے کئے گئےگئے۔

حال ہی میں اتر پردیش حکومت کی جانب سے مدارس کا جو سروے شروع کیا گیا ہے ا س پر بھی گفت و شنید ہوئی اور یہ طے پایا کہ 18 ستمبر کو دارالعلوم دیوبند میں اتر پردیش کے 400 سے زائد دینی مدارس کا جو اجلاس کلب کیا گیا ہے اس میں مستقبل کا لائی عمل طے کیا جائے گا۔ اس کے بعد نومبر میں کل ہند رابطه مدارک دین کا اجلاس بھی دیوبند میں طلب کیا گیا ہے جس میں ملک بھر کے مندوبین اور مدارس کے ذمہ داران شرکت کریں گے اور پیداشدہ صورتحال پر غور وخوض کیا جائے گا۔

دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے دینی مدارس کے ذمہ داران کو اپنے مدارس کا حساب کتاب اور آڈٹ سمیت ، سالانہ کام کاج شفافیت کے ساتھ ریکارڈ میں محفوظ رکھنے کی بھی صلاح دی ۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
دار العلوم (وقف) دیو بند کے استاذ، نامور ادیب ، بہترین صحافی ، مشہور خاکہ نگار، مایہ ناز مضمون نگار، اچھے مقرر، خلیق وملنسار، خاندانی وراثت کے امین، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بن مولانا سید ازہر شاہ بن علامہ انور شاہ کشمیری رحہم اللہ کا ۱۱؍ ستمبر ۲۰۲۲ء بروز سوموار شام کے ساڑھے پانچ بجے ان کے آبائی مکان واقع خانقاہ محلہ دیو بند میں انتقال ہو گیا، کمر درد اور دوسرے اعذار تو پہلے ہی سے تھے، جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف تھی، لیکن یہ ایسی بیماری نہیں تھی کہ فوری بلاوے کے بارے میں سوچا جاتا، معمول کے مطابق عصر بعد ناشتہ وغیرہ کیا، بات چیت بھی کر رہے تھے، اچانک دل کے درد کی شکایت کی اور پانچ سے سات منٹ کے اندر بیماریِ دل نے ان کا کام تمام کر دیا، زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، شریعت کا حکم تدفین میں عجلت کا ہے؛ اس لیے وارثوں نے اس کا پورا پورا خیال رکھا اور گیارہ بجے رات میں جنازہ کی نماز معہد انور میں ان کے صاحب زادہ مفتی عبید انور استاذ معہد انور نے پڑھائی اور مزارانوری کے احاطہ میں جو دیو بند عیدگاہ کے پاس ہے ، تدفین عمل میں آئی ، اسی احاطہ میں حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کے ساتھ ان کے دونوں نامور صاحب زادے ، مولانا ازہر شاہ قیصرؒ اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ، ان کی اہلیہ اور خاندان کے دوسرے لوگ دفن ہیں، پس ماندگان میں اہلیہ ، پانچ لڑکیاں اور تین لڑکوں کو چھوڑا ، ایک عالم ، مفتی ، دوسرا انجینئر اور تیسرا ابھی زیر تعلیم ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش ۲۱؍ ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۵؍ اگست ۱۹۶۲ء کو دیو بند میں ہوئی، بنیادی دینی تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کرنے کے بعد دیو بند ہی میں واقع اسلامیہ اسکول کارخ کیا، لیکن دسویں کلاس تک پہونچتے پہونچتے عصری تعلیم سے طبیعت اوب گئی،چنانچہ انہوں نے دسویں کا امتحان نہیں دیا اور ۱۹۷۶ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہو کر درس نظامی کی کتابیں پڑھنی شروع کیں ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء میں حضرت مولانا نصیر احمد خان ؒ اور دیگر نامور اساتذہ سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر سند فراغ حاصل کیا، جامعہ اردو علی گڈھ کا امتحان دے کر ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کی سند پائی، اس کا دورانیہ ۱۹۷۳سے ۱۹۷۵ تک رہا، اس زمانہ میں مولانا اعجاز صاحب اسلامیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جامعہ اردو علی گڈھ کے امتحانات کا مرکز یہیں ہوا کرتا تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کا ایک ادارہ دیو بند میں جامعہ دینیات تھا،اس کی اسناد بھی بعض یونیورسیٹیوں میں منظور تھیں، چنانچہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے ۱۹۷۶ء میں ادھر کا رخ کیا، اور ۱۹۷۸ء تک تین سال میں عالم دینیات، ماہر دینیات اورفاضل دینیات کیا، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کر لیا، ۱۹۸۷ء میں دار العلوم وقف دیو بند کے استاذ مقرر ہوئے اور دم واپسیں تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے، تدریس سے انہیں فطری مناسبت نہیں تھی، اس لیے عربی درجات کی ابتدائی کتابیں اور ترجمہ قرآن وغیرہ ان کی زیر درس رہا کرتی تھیں۔
 ان کا اصلی مزاج صحافت کا تھا ، جو انہیں اپنے نامور صحافی والد مولانا ازہر شاہ قیصر سے ورثہ میں ملا تھا، مولانا بتیس ، تینتیس سال دارالعلوم دیو بند کے مدیر رہ چکے تھے، چنانچہ صحافت کے اسرار ورموز ، موثر رپوررٹنگ اور ہر قسم کے مضامین لکھنے کے طور طریقے انہوں نے اپنے والد سے سیکھااور صرف تیرہ سال کی عمر میں پہلا مضمون لکھا ، ۱۹۷۹ء میں وہ پندرہ روزہ اشاعت حق کے نائب مدیر بنائے گیے، ۱۹۸۵ء تک اس حیثیت سے کام کرنے کے بعد مدیر کی ذمہ د اری سنبھالی اور ۱۹۹۶ء تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے، ۱۹۸۳ء میں انہوں نے ماہنامہ ’’طیب‘‘ جاری کیا، جس کی سر پرستی ان کے نامور والد فرما تے تھے، ماہنامہ ’’طیب‘‘ کے بند ہونے کے بعد دوبارہ پندرہ روزہ اشاعت حق کو اپنی خدمات دیں، لیکن ۱۹۹۳ء میں و ہ بھی بند ہو گیا، زمانہ دراز تک وہ ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلس ادارت کے رکن رہے، ان کے مضامین ہندو پاک کے تمام مشہور وغیر مشہور رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھے جاتے تھے، انہوں نے روزنامہ ہندوستان اکسپریس دہلی میں تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج دہلی میں دو سال کالم نگاری کا بھی کام کیا ، لیکن ان کو جو شہرت ملی وہ ان کی خاکہ نگاری تھی، ان کے خاکوں کے مجموعے میرے عہدکے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ ، کیا ہوتے یہ لوگ خاصے مقبول ہوئے اور ہندوستان بھر کے ادباء نے ان کی خاکہ نگاری کو پسند کیا، ہندوستان کے خاکہ نگاروں کی مختصر سے مختصر فہرست تیار کی جائے گی تو ان کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔
 ان کی دوسری تصنیفات میں حرف تابندہ ، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کا دار العلوم، دو گوہر آبدار، شیخ انظر : تاثرات ومشاہدات، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال ، اعمال صالحہ، اسلامی زندگی، اور اق شناشی کل بائیس کتابیں بشمول خاکوں کے مجموعے مشہور اور معروف ہیں، ان کے علاوہ ان کے ریڈیائی نشریات ہیں، انہوں نے مرکز نوائے قلم قائم کیا، جس میں طلبہ کو مضمون نویسی سکھائی جاتی تھی ،د ار العلوم وقف میں جب شعبہ صحافت قائم کیا گیا تو وہ اس کے ذمہ دار قرارپائے ۔
مولانا مرحوم’’ فقیری‘‘ میں ’’شاہی‘‘ کے قائل تھے، ان کے گھر میں آرائشی زیب وزینت کے سامان کم تھے، چٹائی پر سادگی کے ساتھ بیٹھ جانے میں ان کوتکلف نہیں تھا، سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے، ان کے یہاں لباس کا وہ رکھ رکھاؤ بھی نہیں تھا، جو ان کے چچا محترم اور چچازاد بھائیوں کا امتیاز تھا، ان کا مزاج شاہانہ اس وقت سامنے آتا، جب کوئی مہمان آجاتا، عمدہ قسم کی ضیافت کرتے، خواہش ہوتی کہ ان کے سامنے بہت کچھ پیش کریں، مزاج کا یہ شاہانہ پن ان کے مضامین اور کالموں میں بھی جھلکتا، نثر میں پر شکوہ الفاظ اور ادبی صنعتوں کا استعمال خوب کرتے، لیکن آمد ہی آمد ہوتی، پر تکلف آورد کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا، واقعہ یہ ہے کہ ان کی خوبصورت نثر قاری کو اس طرح گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ ان کا مداح اور کتاب ختم کیے بغیر آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔
 مولانا دور طالب علمی میں ہمارے ہم عصر تھے،درسی اعتبار سے ایک سال سینئر تھے اور سندی عمر کے اعتبار سے کم از کم مجھ سے چار سال بڑے، لیکن بے تکلفی کبھی نہیں رہی، مجھے ان کی قہقہہ زار مجلسوں میں باریابی کے مواقع بھی کم ہی ملے، البتہ ۱۹۸۰ء میں بعد نماز عصر سے مولانا ازہر شاہ قیصر ؒ کے دربار میں مغرب تک میری حاضری ہوتی تو مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی اس مجلس میں شریک رہتے، موقع عربی ششم کے سال میری پہلی تصنیف ’’فضلاء دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات‘‘ پر تصحیح کا ہوتا، اس کتاب پر مقدمہ حضرت مولانا سید انظر شاہ ؒ نے لکھاتھا، اور پیش لفظ مولانا ریاست علی بجنوری ؒ نے، لیکن طالب علمانہ تحریر کو حرفا حرفا پڑھ کر اصلاح کاکام مولانا مرحوم کے والد گرامی قدر نے کیا تھا، اور اس کے لیے کئی ہفتے تک عصر تا مغرب میری حاضری ہوتی رہی تھی، ظاہر ہے اس مجلس میں گھلنے ملنے اور مولانا کی بذلہ سنجی سے مستفیض ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا، افتاء کے بعد بہار آگیا تو دیو بند آنا جانا ہی کم ہو گیا اور بہت ملاقات کا موقع نہیں مل سکا۔
مولانا اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، انہوں نے بڑی اچھی زندگی گذاری اور اچھی موت پائی، طاب حیا وطاب میتا، اسی کو کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

منگل, ستمبر 13, 2022

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، مرد کی قوامیت اپنی جگہ ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا ،اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو ، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم مین کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، یہ تعداد اس سے کہیں زائد ہو سکتی ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی ، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اوروہ مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
 برطانیہ میں مین ریچنگ آؤٹ(Men  reaching out)کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جو مردوں پر کیے جا رہے تشدد پر روک لگانے کے لیے قائم کی گئی ہے ، شروع میں ہر ماہ اس تنظیم سے شکایت کرنے والوں کی تعداد بیس(۲۰) ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ تعداد ماہانہ ساٹھ (۶۰) تک پہونچ گئی ہے ، اس تنظیم میں لوگ ہیلپ لائن کی مدد سے شکایتیں درج کراتے ہیں، تنظیم دونوں کو بلا کر کونسلنگ کرتی ہے، سمجھانے بجھانے کے بعد ممکن ہوتا ہے تو صلح کرادیتی ہے اور کلیۃًدروازہ بند محسوس ہوتا ہے تو مرد کی عورت سے گلو خلاصی کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 ہندوستان میں عورتوں کے ذریعہ مردوں پر ہو رہے تشدد کی تعداد برطانیہ سے کم نہیں ہے ، لیکن معاملات کا اندراج اس لیے نہیں ہوتا کہ ہندوستان میں عورتوں پر تشدد روکنے کے لیے تو قوانین موجود ہیں، لیکن مردوں پر تشدد ہونے کی صورت میں اس کو انصاف دلانے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ، ہندوستان میں گھریلو تشدد (Domostic violence)کے لیے جو قانون ہے ، ان کے سارے دفعات خواتین کے تحفظ پر مرکوز ہیں، ہندوستان میں انڈین ویمن کورٹ ۳۲۳ متاثر مرد کو کچھ حقوق ضرور دیتی ہے، لیکن اس کا نفاذ اس لیے نہیں ہوتا کہ مرد تھانوں کا رخ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو ان کے حصہ میں صرف مذاق آتا ہے، یا پھر تھانے والے الٹا عورت کے ذریعہ مرد پر ایک مقدمہ درج کرادیتے ہیں، اور عدالت کا رخ یہ ہوتا ہے کہ عورت ہی ہر حال میں مظلوم ہے۔
 عورتوں کے ذریعہ تشدد کے واقعات کی ایک وجہ شوہر کی مفلسی ہوتی ہے، بقول اکبر الٰہ آبادی ،’’ مفلسی اعتبار کھوتی ہے‘‘‘ اس کی وجہ سے عورت کو محرومیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کی طرف سے لعن طعن ، لڑنا جھگڑنا شروع ہوجاتا ہے، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ضروری نہیں کہ بیوی بیلن ہر روز لے کر دوڑائے، یہاں تشددذہنی، جسمانی، دماغی ایذا رسانی کے معنی میں ہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض موقعوں سے بیلن کی نوبت آجائے۔جو کچن میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود عموما ہر گھر میں آج بھی پایا جاتا ہے۔
  مرد کی ’’قوامیت ‘‘کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عورتوں پر ان کے ذریعہ ’’انفاق مال‘‘ کو قرار دیاہے ، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں ، اسلام میں عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت ’’زر خرید‘‘ غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے تو اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، بیوی سوچتی ہے کہ میرے والدین نے اتنے لاکھ میں مجھے ایک عدد شوہر خریدکر دیا ہے،ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی ، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبتیں کھڑی کرتی رہتی ہے اور شوہر کو ’’جو کچھ بیگم صاحبہ نے کہا بر حق ہے‘‘ کہہ کر زندگی گذارنی پڑتی ہے۔
 اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھرانوں کی خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پربھی پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے، جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میں ہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں بھی رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے۔

ٹی 20 ورلڈ کپ : ٹیم انڈیا کا اعلان ، بمراہ کی واپسی

ٹی 20 ورلڈ کپ : ٹیم انڈیا کا اعلان ، بمراہ کی واپسی
اردو دنیا نیوز٧٢
ممبئی :ٹیم انڈیا نے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے اپنے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔ 16 اکتوبر سے آسٹریلیا میں شروع ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ میں انڈین ٹیم کی کپتانی روہت شرما کریں گے۔ انڈین ٹیم کا اعلان پیر کو انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا گیا ہے۔ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے ایشیا کپ کھیلنے والی انڈین ٹیم میں دو تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اویش خان اور روی بشنوئی کی جگہ جسپریت بمراہ اور ہرشل پٹیل کی واپسی ہوئی ہے۔ کپتان روہت شرما پہلی مرتبہ کسی بھی آئی سی سی ایونٹ میں انڈین ٹیم کی کپتانی کریں گے جبکہ کے ایل راہُل ٹیم نے نائب کپتان ہوں گے

روہت شرما (کپتان)، کے ایل راہُل، وراٹ کوہلی، سوریا کمار یادو، دیپک ہودا، رشبھ پنت، دنیش کارتک، ہاردک پانڈیا، روی چندرن اشون، یزویندرا چہل، اکشر پٹیل، جسپریت بمراہ، بھونیشور کمار، ہرشل پٹیل، ارشدیپ سنگھ۔ محمد شامی، شریاس ایئر، روی بشنوئی اور دیپک چیہر کو ٹیم میں سٹینڈ بائی پر رکھا گیا گیا ہے۔

انڈین ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ 23 اکتوبر کو پاکستان کے خلاف کھیلے گی جبکہ 27 اکتوبر کو کوالیفائی کرنے والی ٹیم سے، 30 اکتوبر کو جنوبی افریقہ، 2 نومبر کو بنگلہ دیش اور 6 نومبر کو کوالیفائی کرنے والی ٹیم سے میچ کھیلے گی۔ انڈیا اس سے قبل 2021 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تھا۔

پیر, ستمبر 12, 2022

ذہنی سکون ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ذہنی سکون ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 آج زندگی اس قدر مشکل اور دشوار ہو گئی ہے کہ ہر آدمی نت نئے مسائل کی وجہ سے مایوسی ، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے ، اس ذہنی تناؤ کی وجہ سے اس کی کار کردگی بھی متاثر ہوتی ہے اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ ہمارے وہ خیالات اور توہمات ہوتے ہیں، جن سے ہمارے دل ودماغ کو پراگندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے خیالات کا جائزہ لیتے رہیں، اگر ہم دماغ میں خواہی نہ خواہی گھس آنے والے خیالات کو ڈسٹ بین (کچرے کے ذبے) میں نہیں ڈالیں گے تو دماغ خود ہی ڈست بین بن جائے گا، اس لیے ہمیں ان غیر ضروری خیالات کو ذہن ودماغ سے نکالتے رہنا ضروری ہے تاکہ ہمارا ذہنی سکون درہم برہم نہ ہو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ ذہنی سکون سے ہمارے کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے ، اس کے بر عکس خیالات کی پر اگندگی کے اثرات ہمارے جسمانی صحت پر بھی پڑتے ہیں، ذہنی نظام تہہ وبالا ہوتا ہے تو جسمانی نظام بھی اس کی زد میں آجاتا ہے۔
 ذہنی پراگندگی کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان دوسروں سے مرعوب اور اس کی رائے کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ، اس کی وجہ سے قوت فیصلہ میں کمی آتی ہے اور دوسروں کے مشورے اور رایوں پر زندگی گذار نے کا مزاج بن جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بسا اوقات صحیح وغلط کے بارے میں حتمی رائے لینا دشوار ہوجاتا ہے اور مذبذبین بین ذالک کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور زندگی مانگے کے اجالے پر بسر ہونے لگتی ہے ۔
 ذہنی سکون کے حصول اور خیالات کو فلٹر کرنے کے لیے مثبت سر گرمیاں اور ورزش کرنا مفید بتایا گیا ہے، اس سے ذہنی روالگ رخ اختیار کر لیتی ہے اور انسان پریشان کن خیالات اور توہمات سے اپنے کو پاک کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے ، عام صحت مند انسان کوبھی ہفتے میں کم از کم ایک سو پچاس منٹ اوسط قسم کی ورزش کرنی چاہیے،اس سے انسان فٹ بھی رہتا ہے اورپُر سکون بھی۔
 خیالات کو فلٹر اورذہنی وجسمانی تناؤ سے آزاد کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے نیند ہمیں عطا کی ہے ، تاکہ آپ جب صبح نیند سے اٹھیں تو اپنے روز مرہ کے کاموں کے لیے پوری طرح چارج رہیں، لیکن موبائل کے اس دور میں یہ ممکن نہیں ہو رہا ہے ، ہمارا نوجوان طبقہ سونے کے وقت میں رات رات بھر سوشل میڈیا پر لگا ہوتا ہے، رات بھر اس میں مشغول رہنے کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوتی اور صبح میں انہیں سردرد اورآنکھوں کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ سے خیالات کا ایک انبار ذہن میں منتقل ہوجاتا ہے، جو ہمارے ذہنی سکون کے لیے زہر قاتل ہے،ا س لیے اس سے آخری حد تک پر ہیز کرنے کی ضرورت ہے ، رات میں معمول کے مطابق سوجائیے ، صبح تازہ دم اٹھیے، آپ محسوس کریں گے کہ ایک نئی توانائی آپ کے اندر پیدا ہو گئی ہے، اور دماغی اعتبار سے آپ پُر سکون ہیں۔
 صبح دیر تک سونا ذہنی سکون اور جسمانی صحت کے لیے مضر ہے، حکیم عبد الحمید بانیٔ ہمدرد پوری زندگی بیمار نہ پڑے، ان کی اول اور آخری بیماری مرض الموت تھی، ہمدرد یونیورسٹی میں ان کے مزار کے کتبہ پر ان کا یہ قول کندہ ہے کہ میں نے جب سے عقل سنبھالا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سورج نکل گیا ہوا ور میں سوتا رہا ہوں، صبح سویرے جاگنے کی اس عادت نے ان کو پوری زندگی تروتازہ ،توانا اور صحت مند رکھا، آدمی کی صحت مندی اس کے دل ودماغ کے صحت مند ہونے کا مظہر ہے اور صحت مند ذہن ودماغ عام طور سے پُر سکون ہوا کرتے ہیں۔
کسی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، اسی لیے مشہور ہے کہ کم بولیے، کم کھائیے اور کم سوئیے، اسی طرح ورزش کا عمل بھی عمر کے تناسب سے کرنا چاہیے، پنج وقتہ نمازوں کی پابندی سے عبادت کے ساتھ جسم کی ورزش بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے ، نماز اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہے اور سب سے زیادہ اطمینان قلب ذکر اللہ ہی سے پیدا ہوتا ہے ، ارشاد خدا وندی ہے۔ ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘ آگاہ ہو جاؤ اللہ کے ذکر سے قلب مطمئن ہوتا ہے۔ ذہنی سکون کے لیے ان باتوں پر دھیان دیجئے، آپ محسوس کریں گے کہ آپ ذہنی طور پر ٹنشن سے محفوظ ہو گیے ہیں، اور یہ آپ کی بہت بڑٰ کامیابی ہے۔

اتوار, ستمبر 11, 2022

ممتاز قلم کار اور دارالعلوم وقف دیوبند کے سینئر استاذ حدیث مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا اچانک انتقال، مولانا کے سانحہ ٔ ارتحال سے علمی وادبی حلقے سوگوار

ممتاز قلم کار اور دارالعلوم وقف دیوبند کے سینئر استاذ حدیث مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا اچانک انتقال، مولانا کے سانحہ ٔ ارتحال سے علمی وادبی حلقے سوگوار۔

اردو دنیا نیوز٧٢
دیوبند: رضوان سلمانی۔
امام العصرحضرت مولانا علامہ انو ر شاہ کشمیریؒ کے پوتے اور معروف قلمکار مولانا سید اظہر شاہ قیصر کے صاحبزادے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ وادیب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کا حرکت قلب بند ہوجانے سے اچانک انتقال ہوگیا ۔جیسے ہی ان کی انتقال کی خبر عام ہوئی علمی ،دینی وادبی اور صحافتی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی اور لوگ ایک دوسرے سے بذریعہ فون اس کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آئے۔
مولانا نسیم اختر شاہ کے انتقال کو ادبی دنیا کا بڑا خسارہ قرار دیا جارہا ہے ۔ انتقال کی اطلاع ملتے ہی دارالعلوم دیوبند ،دارالعلوم وقف سمیت جامعہ امام محمد انور شاہ اور دیگر دینی اداروں کے اساتذہ وذمہ داران کا تانتا ان کی رہائش گاہ پر لگ گیا ۔

اطلاع ملتے ہی دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانامحمد سفیان قاسمی ،نائب مہتمم مولانا شکیب قاسمی ،شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی، دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سلمان بجنوری، معروف عالم دین مولانا ندیم الواجدی، آل انڈیا ملی کونسل کے قومی صدر مولانا عبداللہ مغیثی، کونسل کے ضلع صدر مولانا ڈاکٹر عبدالمالک مغیثی، دارالعلوم زکریا دیوبند کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی اور مسلم فنڈ کے مینجر سہیل صدیقی، نامور عالم دین مفتی عفان قاسمی، اسپرنگ ڈیل اسکول کے چیئرمین سعد صدیقی سمیت شہر کی سیاسی وسماجی شخصیات ،عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی رہائش گاہ محلہ خانقاہ پہنچ کر مولانا کی وفات پر اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کیا ۔
مرحوم مولانا نسیم اختر شاہ قیصر ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے ،ان کا دنیا سے رخصت ہوجانے علمی دینی وادبی حلقوں کا بڑا نقصان تصور کیا جارہا ہے ۔مرحوم کی نماز جنازہ رات 11بجے جامعہ امام محمد انور شاہ میں اداکی جائے گی اور تدفین انوریہ قبرستان میں عمل میں آئے گی ۔اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین۔

آپریشن لوٹس___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آپریشن لوٹس___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 بھاجپا جب کسی ریاست میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی تو وہ آپریشن لوٹس شروع کر دیتی ہے ، لوٹس یعنی کنول اس کا انتخابی نشان ہے، اس مناسبت سے اسے آپریشن لوٹس کہتے ہیں، اس آپریشن میں سب سے پہلے دیگر سیاسی پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو خریدا جاتا ہے، ایک ایک ممبر کی قیمت لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہوتی ہے ، کئی تو روپے لینے کے بعد وزارت کی شرط بھی لگاتے ہیں، چنانچہ انہیں اقتدار کی تبدیلی میں روپے کے ساتھ وزارت کی کرسی بھی مل جاتی ہے ، دوسری پارٹیاں بھی موقع کی تاک میں رہتی ہیں، لیکن جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے روپے دے کر بھاجپا والے ارکان کو خریدتے ہیں اور حکومتیں گرائی جاتی ہیں، اس کی مثال دوسری پارٹیوں میں کم دیکھا جاتا ہے۔ گو دوسری پارٹیوں میں بھی اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
 مہاراشٹر میں ’’مہااگاری‘‘ کی سرکار کو گرانے کے لیے جو داؤ بھاجپا نے چلا وہ کامیاب ہو گیا او روہاں شیو سینا کے ایک گُٹ نے بھاجپا کی مدد سے شنڈے حکومت قائم کرادی ، سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا، جو یقینا ذلت آمیز تھا، لیکن اب عزت وذلت کی بات قصۂ پارینہ ہے، اب صرف کرسی چاہیے، اس کرسی کے چکر میں سابق مرکزی وزیر کو ریاستی وزیر بننے، راجیہ سبھا کے ممبر کو ودھان پریشد کے ممبر بننے اور سابق وزیر اعلیٰ کو نائب وزیر اعلیٰ بننے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہوتی، اب اس ملک کو صرف یہ دن دیکھنا باقی ہے جب صدر جمہوریہ بھی سبکدوشی کے بعد پارلیمانی یا ریاستی سیاست میں سر گرم حصہ داری ادا کرنے لگیں گے ۔
بھاجپا چاہتی ہے کہ ساری سیکولر حکومتوں کو آپریشن لوٹس کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کردے اور اپنی حکومت قائم کرے، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا ہے کہ بھاجپا ان کی حکومت گرانے کے لیے آٹھ سو کروڑ روپے خرچ کرنے کو تیار ہے اور اس نے عاپ کے چالیس اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے بیس (۲۰)، بیس (۲۰) کروڑ روپے کی بولی لگا دی ہے۔
 آپریشن لوٹس ان دنوں جھارکھنڈ میں چل رہا ہے ، پہلے کانگریس کے تین ارکان اسمبلی کو موٹی رقم دے کر آسام بھیجا جا رہا تھا تاکہ آپریشن کا تمام خاکہ آسام کے وزیر اعلیٰ ان دونوں کو سمجھائیں اور وہ واپس آکر ہیمنت سورین کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیں، آسام جانے کے لیے انہیں کولکاتہ سے گذرنا تھا اور وہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے، اقتدار خاتون آہن ممتا بنرجی کے ہاتھ ہے، چنانچہ یہ دونوں ہوڑہ میں گرفتار ہو کرمنی لانڈرنگ کیس میں ماخوذ ہو گیے، یہ اسکیم ناکام ہوتی تو بھاجپا نے ہیمنت سورین کو ہٹانے کے لیے انہیں نا اہل قرار دلوادیا، ساری تیاری مکمل ہے، لیکن ہیمنت سورین بھی اس باپ کے بیٹا ہیں، جس نے جھارکھنڈ کو وجود میں لانے کے لیے لمبی لڑائی لڑی تھی، انہوں نے کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ارکان کو کھونٹی گیسٹ ہاؤس میں لے جا کر رکھا اور اقتدار کی بقا کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا، اور پھر سارے ارکان رانچی لوٹ آئے ،اب دوبارہ انہیں رائے پور منتقل کیا گیا ہے تاکہ وہ بکری منڈی سے دور رہیں، اسمبلی میں دونوں پارٹیوں کے جوارکان ہیں، اگر وہ متحد رہتے ہیں، تو ہیمنت سورین کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ بنا کر اتھاڈ کی حکومت کو بچایا جا سکتا ہے ، لیکن سیاست اور کھیل میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...