Powered By Blogger

بدھ, ستمبر 21, 2022

بہار میں مال گاڑی کے 20 ڈبے پٹری سے اترے، کئی ٹرینوں کا روٹ تبدیل

بہار میں مال گاڑی کے 20 ڈبے پٹری سے اترے، کئی ٹرینوں کا روٹ تبدیل

حاجی پور،21 ستمبر(اردو دنیا نیوز ٧٢)۔ بہارمیں روہتاس ضلع کے پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ گیا گرینڈ کورڈ ریلوے سیکشن کے کمہاؤ اسٹیشن پر بدھ کے روز صبح ساڑھے چھ بجے مال گاڑی کے 20 ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ اس وجہ سے اپ ۔ ڈاؤن اور ریورسل لائن متاثر ہیں۔

حاجی پورزونل دفتر کے چیف پبلک ریلیشن افسر وریندر کمار نے بتایا کہ اس کی وجہ سے اپ کی سمت سے آنے والی 12311 ہاوڑہ-کالکا ایکسپریس کاروٹ تبدیل کر کے ڈہری آن سون ۔ گڑھوا روڈ۔ چینار، ہاوڑہ سے 20.09.222 کو جانےو الی 13009 ہاوڑہ ۔ یوگ نگری رشی کیش ایکسپریس کا روٹ تبدیل کر کے ڈہری آن سون ۔ گڑھوا ۔ چینار ، سیالدہ سے 20.09.2022 کو چلنے والی 12987 سیالدہ ۔ اجمیر ایکسپریس کا روٹ ڈہری آن سون ۔ گڑھوا روڈ ۔ چینار ، ہاوڑہ سے 20.09.2022 کو جانے والی 12321 ہاوڑہ ۔ ممبئی ایکسپریس کا روٹ گیا ۔ پٹنہ ۔ پنڈت دندیال اپادھیائے جنکشن اور ہاوڑہ سے 20.09.2021 کو جانے والی 12307 ہاوڑہ۔ جودھ پور ایکسپریس کا روٹ گیا ۔ پٹنہ ۔ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن کے راستے کیا گیا ہے۔

کمار کے مطابق ڈاؤن کی سمت جانے والی ٹرینوں کا روٹ بھی تبدیل کر دیا گیا ہے ۔بیکانیر سے 20.09.202 کو جانے والی 12260 بیکانیر ۔ سیالدہ ایکسپریس کا روٹ پنڈٹ دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ جھا جھا، نئی دہلی سے 20.09.2022 کو جانے والی 12802 نئی دہلی ۔ پوری ایکسپریس کا روٹ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ بختیار پور ۔ راجگیر ۔ تلویا ۔ گیا ، نئی دہلی سے 20.09.2022 کو جانے والی 12350 نئی دہلی ۔ گڈا ایکسپریس کا روٹ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ کیول ۔ آنند وہار سے 20.09.2022 کو جانے والی 12444 آنند وہار ۔ ہلدیا ایکسپریس کا روٹ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ جھا جھا کے راستے کیا گیا ہے۔ جموں توی سے 19.09.2022 کو جانے والی 12152 جموں توی ۔ کولکاتہ ایکسپریس واپس پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن جائے گی اور یہاں سے یہ ٹرین روٹ تبدیل کر کے پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ جھا جھا کےراستے چلے گی۔ 


نئی دہلی سے 20.09.2022 کو جانےوالی 12382 نئی دہلی ۔ ہاوڑہ ایکسپریس واپس پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن جائے گی اور یہاں سے تبدیل روٹ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ پٹنہ ۔ جھا جھا کے راستےچلے گی۔ وارانسی سے 21.09.2022 کو جانے والی 13554 وارانسی ۔ آسنسول ایکسپریس کو جزوی طور پر سید رضا اسٹیشن پر کیا جائے گا اور یہاں سے یہ ٹرین واپس پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن جائے گی۔ پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن سے 21.09.2022 کو جانے والی 03384 پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن ۔ گیا پسنجر اسپیشل کا جزوی طور پر پسولی اسٹیشن پر کیا جائے گااور یہاں سے یہ ٹرین واپس پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن جائے گی۔ پٹنہ سے 21.09.2022 کو جانے الی 13249/13250پٹنہ ۔ بھبھوا روڈ کا جزوی طور پر آمد/رفت سہسرام اسٹیشن سے کیا گیا ہے

منگل, ستمبر 20, 2022

مسجد حضرت بلال میں درس قرآن کےدورثانی کی تکمیل اوردعائیہ پروگرام کااہتمام ۔

مسجد حضرت بلال  میں درس قرآن کےدورثانی  کی تکمیل اوردعائیہ پروگرام کااہتمام ۔
اردو دنیا نیوز ٧٢
پٹنہ (پریس ریلیز)مسجد حضرت بلال سمن پورہ راجاباراز میں دورثانی کی تکمیل کےموقع سےایک دعائیہ پروگرام کاانعقاد کیاگیا، اولا آخری،، سورۃ الناس،، کی جامع اورعلمی نکات سےمعموراور مؤثرتفسیر ہندوستان کے مائہ نازعالم دین اور کثیرالتصانیف حضرت مولانا مفتی ثناءالہدی قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نےفرمائی۔
اس کے بعدصدر مسجد کی جانب سے امام مسجد ہذا مولانا اعجازکریم قاسمی صاحب نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے پچیس سالوں سے جاری درس قرآن پرتفصیلی رپورٹ پیش کی اور اس کے محرکات واسباب پرروشنی ڈالتے ہوئے آنے والے علمائے کرام کااظہارتشکر فرمایا۔
حضرت مولانا نورالحق رحمانی صاحب استاذ المعہد العالی امارت شرعیہ نے اپنی دل نشیں تقریرمیں فرمایا درس قرآن قرآن فہمی کا ایک اچھا سلسلہ ہے اس کےذریعہ زندگی میں تبدیلی آتی ہے اورداعی کے حق میں ہدایت نازل ہوتی ہے ہرمسجد میں اس کااہتمام کرناچاہئے،اس کےمفیداثرات مرتب ہوں گے۔
مفتی جنیدعالم قاسمی صاحب ناظم مدرسہ دارالعلوم الاسلامیہ مجہولیہ چمپارن نےاپنے خطاب میں فرمایا اس مجلس میں ہم سب لوگوں کی حاضری قرآن کی نسبت پرہوئی ہے ان شاءاللہ ہم لوگوں کی مغفرت کاذریعہ ثابت ہوگی ان ہوں نے فرمایا جس چیز کی نسبت قرآن سے جڑ جاتی ہے اس کارتبہ اورمقام بلندہو جاتاہے  نماز کے ساتھ قرآن کی نسبت قائم ہوئی تو نماز ام العبادات ہنی جس رات قرآن کانزول ہواوہ رات شب قدر بنی، امت  مسلمہ حامل قرآن بنی خیرامت کےلقب سے سرفرازہوئی ۔
مولانا غلام اکبر قاسمی امام جامع  مسجد مرادپورپٹنہ وسکریٹری تحریک تنظیم ائمہ مساجد بہار نے مجمع سے خطاب کرتےہوئے فرمایا ہزارتحریروں اورتقریروں سےوہ  فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا جوقرآن کریم کی ایک آیت کو سمجھ لینے سے حاصل ہوسکتاہے،قرآن کریم  اللہ پاک کی وہ عظیم ترین نعمت ہے، جس سے بڑھکر دوسری  کوئی نعمت نہیں،عام لوگوں میں قرآن کریم کےساتھ جیسالگن ہوناچاہیے تھا وہ نہیں ہے،قران  کریم زینت طاق بن کر رہ گیاہے یاصرف گھروں میں برکت کےلئے ہے یابوقت ضرورت اس پر ہاتھ رکھ کرقسم کھلوانے کےلئے استعمال ہوتاہے، اس کے نزول کاجومقصدتھا وہ فوت ہوتاجارہاہے،اس امت کی نجات کاآخری سہارا آپ صلی اللہ علیہ کی شفاعت ہے ، لیکن ایک موقع سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کےحضوراپنی قوم کی شکایت کریں گےکہ  اس نے قرآن کوچھوڑدیاتھااور اسے  پس پشت ڈال دیاتھا جب شفاعت کےبجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شکایت فرمائیں گے توتصورکیجئے اس وقت ہماراانجام کیاہوگا، آج ساڑھے چودہ سو سال سے یہ صحیفۂ ہدایت ہمارے پاس موجود ہے لیکن ہم نے اس کوسمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اس میں کیاہدایت اورپیغام ہے
 اللہ کرےکہ درس قرآن  کایہ مبارک سلسلہ ہمیشہ جاری ساری رہے اورزیادہ سے زیادہ ہدایت کاذریعہ بنے اس کے لئے یہاں کی انتظامیہ کمیٹی قابل مبارک باد ہے۔
مفتی اجل حضرت مولانامفتی عاصم صاحب پھلواری شریف نے فرمایا صحابہ کرام اسی قرآنی تعلیمات اور عمل کی راہ سے معراج ترقی پایاتھا اور ہم  اس کوچھوڑ کر ذلیل و خوار ہورہےہیں تعلیم کےبغیر  کوئی قوم عروج نہیں پاسکتی اللہ تعالٰی بھی تعلیم یافتہ قوم کوعروج سےنوازتے ہیں جس مذہب کی بنیاد  تعلیمی شمع  روشن کرکے رکھی گئی تھی آج وہی قوم تعلیمی میدان کی آخری صف میں کھڑی ہے۔
دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ  کے شیخ ثانی مفتی شکیل قاسمی نے فرمایا شیخ العالم اسیرمالٹاحضرت مولانا محمودالحسن صاحب دیوبندی رح نے جیل  سےرہائی کےبعد دیوبند لوٹنے پر فرمایاتھاکہ مالٹاکےجیل سے میں دوسبق لے کرآیاہوں پوری امت کو قرآن سے وابستہ کیاجائے اوران میں باہمی اتحاد پیداکی جائے دنیااورآخرت میں سرخروئی پانے کےلئےآج بھی ان ہی دونسخوں کی امت مسلمہ کو شدید ضرورت ہے کہ اپنے تمام جزوی اورفروعی اختلافات کوفراموش کرکے اپنی صفوں میں اتحادپیداکرے اسی میں کامیابی  مضمر ہےمفتی صاحب نے فرمایا معوذتین  میں ہرشرسے حفاظت ہے بعدنمازفجر اوربعدنمازمغرب اگے پیچھے درود شریف کےساتھ معوذتیں پڑھنے کااہتمام کیجئے ان شاءاللہ ہرشر سے محفوظ رہیے گا دھونگی جھاڑ پھونک والے سے آپ کاجیب بھی محفوظ رہے گا۔
مولامعین الدین قاسمی صاحب امام جامع مسجد کربگہیہ ونائب صدرتحریک تنظیم ائمہ مساجد بہار نے فرمایا کہ امت کےلئے ضروری ہےکہ وہ تجویدکےساتھ  تلاوت قرآن اورتعلیم قرآن کےساتھ اپنی زندگی کو سنت رسول اللہ کے آئینے میں ڈھالے اورمعصیت کوترک کرے اس کےلئےاکسیر اہل اللہ کی صحبت ہےان کی صحبت کی برکت سےتزکیہ قلب کے ساتھ ایمانی حلاوت اورعبادت میں دل جمعی لطف  آتاہے۔
مفتی عبدالرحمن صاحب ناظم مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ نے فرمایا جب نبی دنیاسے چلاجاتاہے تو اس کامعجزہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اوررسالت تا قیامت رہے گی آپ کامعجزۂ قران کریم بھی قیامت تک کےلئے ہے اب کوئی نبی آئےگااور نہ کوئی دوسری کتاب ائے گی اس لئے قرآن سے تمسک میراقیمتی سرمایہ ہے اورہماری نجات کی ضمانت ہے۔
مولاناایوب نظامی صاحب ناظم مدرسہ صوت القران داناپورنے فرمایا قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خالق کائنات نےخودلی ہے لیکن میں مجمع سےپوچھتاہوں کہ  حفاطت کی ذمہ داری صرف مدارس اورمنبرومحراب  سے ہی ہوگی 
  آپ حضرات اس ذمہ داری کوکب اٹھائیں گے،آج آپ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگی میں  اوراپنی اولاد کی زندگی میں بھی دین وقرآن کوداخل کریں گے انشاءاللہ۔
مولانامرغوب الرحمن صاحب صدرالمدرسین مدرسہ مدنیہ سبل پورنے فرمایا ختم قرآن کےموقع سے دعاء کااہتمام کرناچاہئے اس وقت کی جانےوالی دعاء قبول ہوتی ہے اورعام مسلمانوں کوکم ازکم ایک ماہ میں قرآن کادورمکلمل کرناچاہئے اورعلمائے کی لکھی ہوئی تفاسیرقرآن  سے خوب استفادہ کرنا چاہئے معلومات میں اضافہ کے ساتھ عمل کی رغبت بھی پیداہوگی۔
مولاناناظم صاحب ناظم مدرسہ قاسم العلوم ترپولیہ نے فرمایاچونکہ دین کامدار قرآن پرہے، اس لئے شریعت کی    نظر میں قرآن پرھنے پڑھانےوالابہترین انسان ہے،قرآن کے پانچ حقوق ہیں پھر ہرایک پر روشنی ڈالی۔
مولانانیاز صاحب قاسمی امام بی بی کلثوم راجابازار مولانا عظیم الدین رحمانی صاحب امام مسجد خواجہ پورہ مولاناابرار قاسمی امام بکسریہ ٹولہ سلطان گنج مولانا عبدالستار قاسمی صاحب امام مسجد تبارک علی باقر گنج مولاناسفیان صاحب امام مسجد کاغذی محلہ داناپورمولاناعبدالماجد قاسمی صاحب پھلواری شریف مولاناقمرنسیم صاحب سابق استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ راجاباراز مفتی آفتاب صاحب اور
 دگر بہت سے علمائے کرام اور ائمہ مساجد شریک مجلس تھے ان کےعلاوہ مجمع کثیرتھا۔
آخر میں صدر مجلس مفتی ثناءالہدی قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ کے ہاتھوں دورثانی میں آنے والے تمام مفسرین جن کی تعداد بائس علمائے کرام کی تھی  سب کواکرامیہ اورانعام سےنوازہ گیا۔ 
اس کے بعد صدر مجلس نےاپنی دعائیہ  کلمات میں فرمایا  قرآن میں ہے والدین کےساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اس پرکتناعمل کیا آپ کا دل ہی جانتاہوگا قرآن میں ہے اپنی نگاہیں نیچی رکھوبازار میں  نگاہیں کتنی خطائیں کی ہیں اس کا صحیح حساب توکراماکاتبین ہی پاس ہے قرآن میں ہے زنا کے قریب بھی نہ جاؤاس سلسے میں کیسی   اورکس قدر لغزشیں ہوئی ہیں وہ اعمال نامہ کے رجسٹر ہی سے پتہ چلے گا  قرآن میں ہے جھوٹے پراللہ کی لعنت ہو ہم اس سے نہیں بچتے ہیں  قرآن میں غیبت کواپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے عوام تو عوام خواص کی مجلسیں بھی اس سے محفوظ نہیں رہتیں  پھرصدر محترم کی رقت امیزدعاء کےساتھ مجلس اختتام پزیر ہوئی۔
نظامت کے فرائض درس قرآن کےکنوینر اورمسجد بلال کےامام مولانا اعجازکریم قاسمی نے بحسن وخوبی انجام دی۔
یہ تمام  جان کاری مسجدبلال کے متحرک اورفعال سکریٹری جناب محمد فروزصاحب نے اخبار کےلئے جاری بیان میں دی

بھاگ کھڑے ہوئےپیشہ ور بھکاری ہمایوں اقبال ندوی ارریہ ۱۹/ستمبر ۲۰۲۲ء

بھاگ کھڑے ہوئےپیشہ ور بھکاری 
اردو دنیا نیوز ٧٢
"بچہ چور گاؤں میں گھوم رہے ہیں" یہ خبر آج کل ہمارے یہاں خوب گشت کررہی ہے۔عموما برسات کے موسم میں  جھاڑیاں سڑک کے دونوں کنارے نکل آتی ہیں، اس طرح کی مختلف افواہیں ہر سال سننے میں آتی رہی ہیں، مگر اس بار ایک واقعہ نےاسے حقیقی روپ دے دیا ہے، ارریہ  ضلع ہیڈ کوارٹر سے قریب ہی "ڈوریہ" نامی ایک گاؤں ہے،وہاں سے ایک بچہ اچانک لاپتہ ہوگیا ہے، بہت جستجو اور کھوج بین کے بعد بھی اب تک اس معصوم کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے،ڈوریہ گاؤں کی یہ خبر پچھلے دو مہینے سے ہر عام وخاص کی زبان پر ہے، 
سوشل میڈیامیں بھی اس طرح کی خبریں گردش کررہی ہیں کہ کچھ لوگ فقیر کے بھیس میں گھوم رہے ہیں اور بچوں کو چرالے جاتے ہیں، مذکورہ واقعہ سے گویا اس کی تصدیق ہوگئی ہے، مزید تشویش بڑھ گئی ہے، بچوں کے والدین بے چین نظر آرہے ہیں،اور بچہ چوروں سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں، جہاں کوئی مشتبہ آدمی نظر آیا، وہیں وہ دھڑا گیا ،پہلے اس پر اپنا "ڈوریہ" گاؤں والا غصہ نکال لیا، پھر سوال وجواب کا دور شروع ہوتا ہے، تحقیق یہ ہوتی ہے کہ موصوف کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔یہ تو خود ہی مررہا ہے،اسے مارنا تو فضول ہے،
 ع۰۰     کسی بےکس کو اے بیداد مارا تو کیا مارا 
     جو آپ ہی مررہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا 

آج سب سے زیادہ شامت تو پیشہ ور بھکاریوں کی  آگئی ہے، یہ لوگ ہردن کہیں نہ کہیں پکڑے جارہے ہیں اور کوٹے بھی جارہے ہیں، یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے،ہر آدمی اس سے جڑا ہوا ہے، موبائل پر وہ بچہ چور دیکھ چکا ہے،تندرست آدمی ہے،ہاتھ پاؤں سے معذور نہیں ہے، ہاتھ میں تھیلی ہے،کندھے پر جھولی ہے ،ساتھ میں بچہ ہے،اچھا تو یہی بچہ چور ہے،دے دنادن۰۰۰۰۰
 یہ معاملہ اب  دوسراہی  رخ اختیار کرگیا ہے، اب بچے تو نہیں چرائے جارہے ہیں بلکہ بچہ چورسمجھ کر ہرروز کہیں نہ کہیں سے ایسے گداگر پکڑے جارہے ہیں، اورخوب دھلے جارہے ہیں۔
آج بوچی گاؤں میں بچہ چور پکڑا گیا ہے،جھولی اس کے پاس سے ملی ہے، کل مدھیل میں بچہ چور کی پٹائی ہوئی ہے، اور اسے باندھ کر رکھا گیا ہے ، پرسوں گیاری گاؤں کی نہر پر بچوں کو بلارہا تھا،لوگوں نے دورسےدیکھ لیا تو بھاگتا بنا ،وغیرہ خبریں آرہی ہیں۔کوئی بھی مشتبہ اور مشکوک نظر آتا ہے،پکڑ لیا جاتا ہے، پہلے اس کی خوب دھنائی ہوتی ہے، پھر اس کی کوئی بات سنی جاتی ہے،سب سے زیادہ پیشہ ور بھکاری نشانہ پرہیں۔
پہلے ایسے لوگ جو بھیک مانگنے کے لیے عجیب وغریب حلیہ بنالیا کرتے تھے، ان کے دشمن صرف کتے ہوا کرتے تھے، وہ بھی صرف ان پر بھوکتے، بقول شاعر 
    ع۰۰  جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا 
          کتوں نے روک رکھا ہے رستہ فقیر کا 
آج ان پیشہ ور گداگروں کو انسان سے پالا پڑا ہے جو بھوکتے نہیں ہے اور صرف کاٹتے ہیں، 
یہی وجہ ہےکہ آج ہاتھ پاؤں والے یہ تمام بھکاری بھاگ کھڑے ہوئےہیں۔  گاؤں میں اس وقت کوئی سالم وتوانا اور صحت مند گداگر نظر نہیں آتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں ضلع ارریہ واطراف میں روایت یہ رہی ہے کہ صبح ہوتے ہی پیشہ وربھکاریوں کی ہر جگہ ایک تعداد نظر آتی رہی ہے، گاڑیوں میں بیٹھ کر یہ لوگ  گاؤں بھیک مانگنے جاتے، اس انداز شاہانہ کو دیکھ لگتا ہے بارات میں نکلے ہیں، یہ لوگ خود کو شاہ برادری سے منسوب بھی کرتے ہیں،شاہ یہ فارسی کا لفظ ہےاور اس کا معنی بادشاہ ہے،باوجود اس کے یہ فقیری کرتے ہیں، اوراسے اپنا آبائی پیشہ بتلاکر مانگنا اور لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا اپنا واجبی حق سمجھتے ہیں، 
شمالی بہار کے سیمانچل علاقہ میں یہ برادری پائی جاتی ہے،ان کے پکے مکانات بھی ہیں، اور بہت سے مستغنی بھی ہیں، پھر کاسہ گدائی لیےپھرتے ہیں، خود کو مسلمان کہتے ہیں، حدیث شریف میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ اگر ایک آدمی جو مستغنی ہے اس کے باوجود وہ لوگوں سے دست سوال درازکرتا ہےتو وہ جہنم کی چنگاڑیاں اکٹھا کرتا ہے،
اسلام کی یہ باتیں ایسے سیاہ قلب والوں کے سمجھ میں نہیں آرہی ہیں،آج وقت اور حالات نے انہیں اچھی طرح سمجھادیا ہے کہ صحت مند ہوکر مانگنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے،
پیشہ ور گداگر یہ ملک کے لیے بھی تنزلی کا عنوان ہےاور ملت اسلامیہ کے لیے سب سے زیادہ شرم کی بات ہے، اس موضوع پر لوگوں نے فکر مندی ضرور دکھائی ہے،اورانہیں اس ذلیل حرکت سے روکنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، مگر آئے دن پیشہ وربھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا رہا ہے، وعظ ونصیحت اور تقریر وتحریر سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، 
ع۰۰       پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہیرے کا جگر 
             مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر
مگر آج یہ روپوش ہیں، شاید اسی زبان کو سمجھتے ہیں، اس موقع پر ان پیشہ ور فقیروں کو کاروبار سے جوڑنے کا بہت ہی مناسب موقع ہے،جہاں بھی اپنی معلومات کے مطابق ان کی آبادی ہے، وہاں جاکر اس بات کی تحریک ضروری ہے،  ملک میں ان پیشہ ور گداگروں کے ذریعہ اسلام کی غلط تصویر گئی ہے، آج کوئی غیر مسلم بھی بھیک چاہتا ہے تو وہ مسلمانوں کا حلیہ بنا لیتا ہے،گو یا بھکاری ہونے کے لیے مسلمان ہوناضروری ہے، ابوداؤد شریف کی حدیث میں وہ واقعہ موجود ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحت مند مانگنے والے انسان کو بھیک نہیں دی ہے بلکہ ان کے گھر کی چٹائی اور پیالے کی نیلامی کی ہے، اور اسی سے کلہاڑی خرید کر اس شخص کو محنت ومشقت سے روزی حاصل کرنے کی تعلیم فرمائی ہے، وہ شخص چند ہی دنوں میں خود کفیل ہوجاتا ہے،اسلام تو یہ کہتاہے۔
ہمایوں اقبال ندوی  ارریہ 
۱۹/ستمبر ۲۰۲۲ء

پیر, ستمبر 19, 2022

مدارسِ اسلامیہ پر سرکار کی نظر __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارسِ اسلامیہ پر سرکار کی نظر __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
آسام اور اترپردیش سے یہ خبر مسلسل آرہی ہے کہ مدارس اسلامیہ کی عمارت پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔ آسام میں چارمدارس کی عمارت منہدم کی جاچکی ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔اترپردیش سرکار نے تمام مدارس کے سروے کا حکم جاری کردیا ہے اور بہار میں بھی بھاجپا کے مرکزی وزیرگری راج سنگھ نے سروے کا مطالبہ شروع کردیاہے، ٹی وی والے بہار کے مدارس اسلامیہ میں جاکر اساتذہ و طلبہ سے سوالات کرکے وہاں کے معیار تعلیم کو نشانہ بنانے رہے ہیں،ٹی وی اینکر عربی، فارسی اور اردو سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں، انہیں انگلش اور ہندی کی شدبُد ہوتی ہے، اس لئے وہ طلبہ سے انگریزی کے سوالات پوچھتے ہیں اور بچے غلطیاں کرتے ہیں، پھر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس عمل سے مدارس اسلامیہ کی تعلیم سے عوام کا اعتمادبھی اٹھ رہا ہے اور سرکار کو مدارس اسلامیہ پر شکنجہ کسنے کا جواز فراہم ہورہا ہے۔
04ستمبر2022 کو آسام کی مختلف ملی تنظیموں کے سربراہ جن میں جمعیت علماء آسام، جمعیت اہل حدیث،جماعت اسلامی، ندوۃ التعمیر وغیرہ شامل ہیں، نے آسام کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے مدارس کے سلسلے میں اپنی بات رکھی اور غور و فکر بحث و تمحیص کے بعدملت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ طے پایاکہ کوئی بھی مدرسہ آزاد نہیں رہے گا، ان چھ تنظیموں میں سے کسی کے بینر تلے اسے آنا پڑے گا اور اگر دہشت گردی کاکوئی واقعہ کسی مدرسہ میں سامنے آتا ہے تو وہ تنظیم اس کی ذمہ دار ہوگی اور دار و گیر کے مرحلہ سے اس تنظیم کو گزرنا ہوگا، یہ بات بھی طے پائی کہ ان تمام مدرسوں کا جوان تنظیموں کے ذریعہ چلائے جائیں گے ان کا ایک پورٹل ہوگا جس میں اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد کی تفصیلات وغیرہ فراہم کرنی ضروری ہوگی، تنظیموں کے ذمہ داران مدرسوں کا جائزہ لے کر چھ مہینوں میں اس کام کو مکمل کرلیں گے، ان تنظیموں نے سرکار کی طرف سے پیش کردہ ان شرائط کو مان لیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جن مدارس کی عمارت منہدم کرائی گئی ہے، سرکار اپنے صرفہ سے اسے تعمیر کرائے گی، آسام میں جو سرکاری مدرسے چل رہے تھے اسے پہلے ہی اسکول میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو سرکار اس معاہدہ سے مکر گئی ہے، اس لیے کہ ایک مدرسہ کاانہدام اس معاہد ہ کے بعد ہوا ہے۔
اترپردیش حکومت نے جو سروے فارم جاری کیا ہے اس میں بھی اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد و خرچ کا گوشوارہ وغیرہ طلب کیا گیا ہے، اور تمام ضلع مجسٹریٹوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر سرکاری مدرسوں کا سروے کرکے حکومت کو رپورٹ پیش کریں،جن پرائیوٹ مدرسوں کی بات کی جارہی ہے ان میں دار العلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر علوم سہارن پور، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، جیسے بڑے مدارس بھی شامل ہیں، جن کی علوم و فنون کی ترویج اور رجال کار کی تیاری کی اپنی تاریخ رہی ہے، انہوں نے غریب بچوں کو علم کی دولت سے آراستہ کرکے باخلاق،باکردار اور دین و دنیا کے کام کا بنایا، اب یہی مدارس بھاجپا حکومت کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں اور انہیں بند کرنے یا سرکاری شکنجے میں لینے کی تیاری ہورہی ہے، اس وقت اترپردیش میں ایک سروے کے مطابق سولہ ہزار چار سو اکسٹھ (16461)مدارس ہیں ان میں سے صرف پانچ سو ساٹھ کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے، گذشتہ چھ برسوں کی بات کریں تو کسی نئے مدرسہ کو کسی قسم کی کوئی سرکاری گرانٹ نہیں ملی ہے، سرکار نے امروہہ میں ایک مدرسہ کو بلڈوزر سے منہدم کرادیا تھا، اور دعویٰ یہ تھا کہ یہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ اس غیرقانونی تعمیر کے وقت متعلقہ افسران کہاں تھے؟
ان معاملات  کو دیکھتے ہوئے جمعیت علماء ہند نے مدارس کے ذمہ داروں کی ایک میٹنگ میں اسٹرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے ہیلپ لائن جاری کرنے کی تجویز پاس کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں کوئی سرکاری زور زبردستی کبھی قبول نہیں ہے، دار العلوم دیوبند نے بھی اس صورت حال سے نمٹنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے ایک میٹنگ بلائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔
بہار میں اس قسم کا ماحول نہیں ہے اور نتیش سرکار سے مسلمانوں کو یہ توقع ہے کہ وہ مدارس کے سلسلے میں اپنے قدیم موقف کو جاری رکھے گی، کمی کوتاہیاں مدرسوں میں بھی ہیں اور عصری درسگاہوں میں بھی؛لیکن ہمارا کوئی مدرسہ دہشت گردی کے کاموں میں نہ پہلے کبھی ملوث رہا ہے اور نہ اب ہے،یہ سرکاری ایجنسیاں اور بھاجپا کے نفرت پھیلانے والے کارکنان ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں،ارجن سنگھ کے دور وزارت میں جب بھاجپا والوں نے مدارس کو دہشت گردی کے اڈے کہا تو امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس کنونشن مونگیر میں بلا کر ان جھوٹے لوگوں کے پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی تھی اور ارجن سنگھ نے تسلیم کیا تھا کہ مدارس میں ایسا کچھ نہیں ہے پھر یہ پروپیگنڈہ ٹھنڈا پڑا تھا۔
آج ایک بار پھر مدارس سرکار کے نرغے میں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ملی تنظیموں کے ذمہ دار سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ مدارس اسلامیہ علم و فن کی ترویج و اشاعت، تعلیم و تربیت کی تاریخی و مثالی خدمات کو باقی رکھ سکیں، یہ ملک و ملت دونوں کے لیے ضروری ہے،اس سلسلہ میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم فکر مند ہیں اور ارباب مدارس کے رابطہ میں ہیں، جلد ہی اس سلسلہ میں کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کیا جائے گا،اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ صرف دستور میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کا ذکر کرکے مسائل کو حل کرلیا جائے،دستور، ضوابط اور قانون کی روشنی میں ان مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے کوئی خاکہ، کوئی منصوبہ، کوئی ہدف ہونا چاہیے یہ کام کسی ایک تنظیم کے کرنے کا نہیں، مل جل کر کرنے کا ہے، جو آواز متحد ہوتی ہے اس کا وزن ہوتا ہے اور اس گونگی بہری سرکار کو سنانے کے لیے ایسے ہی متحدہ آواز کی ضرورت ہے،الگ الگ میٹنگ کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، ییَالَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْن اے کا ش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔

الحمداللہ کل بروز اتوار شب ٩بجےتحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ دوسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا

الحمداللہ کل بروز اتوار شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ دوسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ 18/09/2022
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ
اردو دنیا نیوز٧٢
اس پروگرام آغاز قرآن کریم کے ساتھ ہوی 
قاری شہزاد صاحب رحمانی
نعمت پاک مولانا انوار صاحب نے پرھی 
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا نعمت اللہ رحمانی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء صاحب فیاض احمد راہی صاحب حضرت قاری انور غفاری صاحب
 مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری کوثر آفاق صاحب نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢

اتوار, ستمبر 18, 2022

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت 
اردو دنیا نیوز٧٢
پھلواری شریف پٹنہ پریس ریلیز 18/ستمبر مدھوبنی سے تشریف لائے ملک کے معروف ومشہور شاعر ممیم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں ڈاکٹر نصر عالم نصر کے دولت کدہ پر نذر فاطمی کی صدارت میں شعری نششت کا انعقاد ہوا، جس میں شعراء کرام نے بہترین اشعار سناکر سامعین سے داد وصول کیے ، اس نششت میں شامل شعراء کرام کے نام اور اشعار مندرجہ ذیل ہیں، 
اشکوں کی روانی ہے
سب جھوٹی کہانی ہے، 
میں اس کا نہ ہو پایا
جو میری دوانی ہے، 
محمد ضیاء العظیم

سر جھکاتے نہیں ہم لوگ جو درباروں میں
اس لیے نام نہیں آتا ہے اخباروں میں
سلیم شوق پورنوی

بارش میں بھیگنے کا مزہ ہم سے پوچھئے
پھر کتنی کھائی ہم نے دوا ہم سے پوچھئے
نصر عالم نصر

چپکے چپکے مرے کانوں میں صدا دیتا ہے
کون بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
میر سجاد

مری قلندری کو گوارا کہاں ہے یہ
مری مدد کو کچھ شہ دربار بولتا ہے
میم سرور پنڈولوی

قصہء عہد وفا یاد نہیں
بھول بیٹھے ہو خدا یاد نہیں
شمیم شعلہ

بہت وزنی ہے ارمانوں کی گٹھری
حیات مختصر ہے اور میں
نذر فاطمی،
نششت کی نظامت  میزبان شاعر نصر عالم نصر نے کی جبکہ آخر میں سلیم شوق پورنوی نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مہمان جس معیار کے ہوتے ہیں مہمان نوازی بھی اسی معیار کی ہونی چاہیے، جیسا کہ ڈاکٹر نصر عالم نصر صاحب نے اس شعری نششت کا انعقاد کرکے  بہترین مہمان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس لیے ہم انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی صدر محترم کی اجازت سے اس نششت کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں 
 پروگرام کو خوبصورت بنانے میں جن ناموں کی فہرست ہے وہ شبیر عالم، فاطمہ خان، ثناء العظیم، عفان ضیاء شامل رہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں : ایک جائزہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں :  ایک جائزہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
              9167679924
اردو دنیا نیوز٧٢
زیر مطالعہ کتاب  " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں "  کے مرتب نوجوان اسکالر اور قلمکار میرے مخلص دوست عبدالرحیم برہولیاوی ہیں ۔  وقتا فوقتاً آپ کے شخصی  مضامین و تبصرے ہندوستان کے مشہور ومعروف اردو روزنامہ اور ویب سائٹ پر شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ صحافت میں بھی آپ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ آپ العزیز میڈیا سروس کے بانی و ایڈمن ہیں ۔ العزیز میڈیا سروس فیس بک پر چلایا جانے والا ایک فعال اور معیاری اردو ویب پورٹل ہے ۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ عبدالرحیم صاحب معہد العلوم اسلامیہ چک چمیلی میں استاد ہیں ساتھ ہی سراۓ بازار کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام  دے رہے ہیں ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے آپ کی بے پناہ عقیدت و محبت کی یہ زندہ دلیل ہے کہ آپ نے بہت ہی محنت و مشقت کے ساتھ تمام وہ منظوم کلام جو شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شان میں لکھا تھا اسے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ آپ کی یہ کاوش قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی ۔ ان کے اس عمدہ کاوش پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ادبی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور مقبولیت کی منزل تک پہنچے گی ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ جس کا اعتراف قبل میں بھی کیا گیا ہے ۔ موجودہ وقت میں بھی لوگ آپ کی علمیت اور صلاحیت کے قائل ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے کارناموں پر فخر کرے گی  اور فیضیاب ہوگی ۔ مفتی صاحب کی گراں قدر علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں پانچ ستمبر 2001 ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ 
آپ کو صدارتی اعزاز سے نوازے جانے کے بعد سرزمین ویشالی کی اس وقت کی فعال اور متحرک تنظیم انجمن ترقی اردو ویشالی نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کے  موضوع پر مورخہ 21 اکتوبر 2001 ء کو وکالت خانہ حاجی پور کے  ہال میں ایک شاندار سمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت مولانا ابوالکلام قاسمی شمشی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ نے فرمائ تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے بہار اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد ( مرحوم ) ، معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی  پٹنہ ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی ، کہنہ مشق شاعر ذکی احمد دربھنگہ ،  اور جواں سال شاعر و محقق واحد نظیر پٹنہ شریک ہوۓ تھے ۔ جس کی نظامت انجمن ترقی اردو ویشالی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے فرمائ تھی ۔ اس موقع پر  ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ، انوار الحسن وسطوی ، نذر الاسلام نظمی ، مصباح الدین احمد اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق(مرحوم) نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے ۔ جناب ذکی احمد مرحوم اور جناب واحد نظیر نے مفتی صاحب کے تعلق سے اپنے منظوم تاثرات پیش کیے ۔  ( بحوالہ : انجمن ترقی اردو ویشالی کی خدمات مرتبہ انوار الحسن وسطوی صفحہ 96 ) 
آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر تقریباً بیس سال قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات " یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ  اس کے دو اڈیشن شائع ہوۓ ۔ آپ کی خدمات کے اعتراف کا دائرہ یہیں تک نہیں روکا بلکہ آپ کی شخصیات پر ڈاکٹر راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس مقالے کو کتابی شکل دی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ادبی خدمات " جو شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔ 
کتاب کے حوالے سے جناب عبدالرحیم " اپنی بات " میں لکھتے ہیں کہ : 
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعرائے کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا اپنا کلام پیش کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر ہر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئ ہے "
  ( صفحہ 5 ) 
پیش لفظ میں کامران غنی صبا مفتی ثناء الہدی قاسمی کے تعلق سے لکھتے ہیں : 
" آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین ، مبلغ ، داعی ، خطیب اور ملی رہنما کےطور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں ۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشوران ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں ۔ ( صفحہ 9 )
دو باتیں کے عنوان سے عطا عابدی اپنے تحریر میں لکھتے ہیں کہ :  شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و
ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل  بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعری تولیف کے باب میں مبالغہ آرائی کوفن کا درجہ حاصل ہے ،تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے، یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔  ( صفحہ 11 )
مفتی صاحب کے تنظیمی ذمہ داریوں کے تعلق سے محمد انوار الحق داؤد قاسمی کا شعر ملاحظہ فرمائیں : 
کتنی تنظیم کے ہیں حسیں سربراہ
 ان سے آباد ہیں کئی عدد درسگاہ
 سب پہ یکساں نظر ہے گدا ہو کہ شاہ
 دور بیں ان کی فطرت، عقابی نگاہ
رابطہ سب سے رکھتے ہیں وہ من وعن
 ہیں" ثناء الہدی" خود میں اک انجمن
(صفحہ 22)
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے مفتی صاحب کی ادبی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے کہا ہے : 
سلسلہ ان کی تصنیف وتالیف کا 
گیسوئے یار سے رکھتا ہے رابطہ
 عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ 
شاذ و نادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
 ہاں مگر ہیں جو مفتی ثناء الہدی
 ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ 
ان کو دلچسپی ہے اردو تحقیق سے
 ان کے اس میں بھی میں کارنامے بڑے
(صفحہ 30)
مفتی صاحب کی شخصیت کو کامران غنی صبا نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے : 

ہیں علم شریعت کے وہ راز داں
 خموشی میں جن کی نہاں داستاں

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
 عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
 وہ ہیں عالم باعمل 
بالیقیں 
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں

مفکر ، مدبر کہ دانشوراں

 سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
( صفحہ 39 )
امان ذخیروی نے مفتی صاحب کی صفات کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچا ہے : 

اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
 ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات

ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں

 اس غم سے سرگراں ہے ثناء الہدی کی ذات

سینے میں ان کے علم کا دریا ہے موجزن 
ساکت نہیں ، رواں ہے ثناء الہدی کی ذات

تحریر لازوال ہے تقریر
 بےمثال 
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
(صفحہ 62)
اس طرح کے سینکڑوں اشعار مفتی صاحب کی خصوصیات کے تعلق سے کتاب میں بھرے پرے ہیں ۔ لیکن  بخوف طوالت سبھوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البت ان تمام شعرا کے نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے کلام اس کتاب میں شامل ہیں وہ ہیں محمد انوارالحق داؤد
قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، حسن نواب حسن ، عبدالمنان طرزی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، ذکی احمد ذکی ، محب الرحمن کوثر ، مظہر وسطوی ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، ڈاکٹر امام اعظم ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض ، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ، امان ذخیروی ، ولی اللہ ولی ، آفتاب عالم آفتاب ، یاسین ثاقب ، مولانا سید مظاہرہ عالم قمر ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مظطر عزیزی ، عبدالصمد ویشالوی اور تحسین روزی 
قابل مبارکباد ہیں یہ تمام شعرائے کرام جنہوں نے مفتی صاحب کے لیے اپنے بہترین پیغام تہنیت پیش کیے ہیں ۔ 
72 صفحات کی یہ کتاب بہت ہی دلکش اور معیاری ہے ۔ عمدہ قسم کے کاغز کا استعمال کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کا کام مفتی صاحب موصوف کے لائق فرزند مولانا محمد نظر الہدی قاسمی اور راشد العزیزی ندوی نے مل کر انجام دیا ہے ۔ جبکہ اس کی طباعت عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس ، دریا پور پٹنہ سے ہوئ ہے جسکی قیمت صرف 60 روپیہ ہے جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما اور ادارہ سبیل الشرعیہ ، آواپور ، سیتا مڑھی سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ آخری صفحہ پر مرتب کتاب عبدالرحیم برہولیاوی کا مختصر تعارف درج ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان کے تعلق سے قاری واقف ہوتا ہے ۔ بیک کور پر مفتی صاحب موصوف کی کتابوں یا ان پر لکھی گئ کتابوں کی تصویر درج ہے۔ کتاب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے، مرتب کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...