Powered By Blogger

جمعہ, ستمبر 30, 2022

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

اردو دنیا نیوز٧٢

نئی‌دہلی : مدھیہ پردیش کے شاہڈول ضلع میں 26 ستمبر کو جنگلاتی‌علاقہ سے مولانا عطاء اللہ قاسمی کی‌ نعش جھلسی ہوئی حالت میں دستیاب ہوئی۔ اس دوران جامعہ ٹائمز نے ٹویٹ کیا اور لکھا،جھارکھنڈ کے رہنے والے مولانا عطاء اللہ قاسمی کو بجرنگ دل کے کارکن نے جلا کر جنگل میں پھینک دیا۔عطاء اللہ قاسمی جھارکھنڈ کے پلامو ضلع کے رہنے والے تھے، قاسمی 21 ستمبر سے لاپتہ تھے اور انہیں آخری بار اپنے جاننے والے کی موٹرسائیکل پر شہڈول ضلع کے گاؤں پدمنیا کی طرف جاتے دیکھا گیا تھا۔ اگلے دن (22 ستمبر 2022) کو تھانہ گوہپارو میں عطاء اللہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ 26 ستمبر 2022 کو شہڈول ضلع کے سنگھ پور تھانے کے تحت گائوں پدمنیا کے جنگل میں عطا اللہ خان کی آدھی جلی ہوئی لاش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے اس معاملے میں شیوشنکر یادو نامی شخص کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ شیوشنکر یادو (28 سال) نے پوچھ گچھ کے دوران اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ مجرم نے بدلہ لینے کے لیے عطاء اللہ خان کو قتل کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں مقتول پر الزام‌ لگاتے ہوئے ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔


مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کر کے پوچھا کہ کیا مودی حکومت اس گروپ پر پابندی لگائے گی؟


Will the Modi government Ban this Group ? https://t.co/fBpp1WAMpx


- Asaduddin Owaisi (@asadowaisi)

Will the Modi government Ban this Group ?

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میںشمشیر عالم مظاہری دربھنگویجامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہارتکبر کیا ہے

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میں
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
تکبر کیا ہے ؟
اردو دنیا نیوز٧٢
کسی دینی یا دنیاوی کمال میں اپنے کو دوسروں سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ دوسروں کو حقیر سمجھے گویا تکبر کے دو جز ہیں :
(1) اپنے آپ کو بڑا سمجھنا (2)  دوسروں کو حقیر سمجھنا ۔ تکبر بہت ہی بری بیماری ہے قرآن و حدیث میں اس کی اتنی برائی آئی ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آج ہم سے اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے ۔
کائنات میں جو سب سے پہلا گناہ کیا گیا وہ تکبر اور حسد تھا ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن ابی امیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت بیان کی ہے کہ اس کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد تھا جو ابلیس نے آدم علیہ السلام پر کیا ،  اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ تکبر اور حسد کا مرض اچھے اچھے لوگوں کو لاحق ہو سکتا ہے اور انہیں ایمان تک سے محروم کرسکتا ہے شیطان بڑا عبادت گذار تھا حضرت یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ اور بڑے پاۓ کے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ابلیس نے سات لاکھ سال اللہ تعالی کی عبادت کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور آدم علیہ السلام کے مقام اور مرتبہ کو دیکھ کر جل بھن گیا اس چیز نے اسے بارگاہ الہی میں مردود اور مغضوب بنا دیا ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
مفہوم  :۔   اور جب  ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجود ہو جاؤ وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا  (سورۃ البقرہ)
اللہ تعالی اگرچہ عالم الغیب اور دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں اور ماضی حال استقبال سب ان کے لئے یکساں ہیں مگر اس نے امتحان و آزمائش کے لئے ابلیس (شیطان) سے یہ سوال کیا
 مفہوم :۔   کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا ؟ 
ابلیس کا جواب :۔   اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے  ( سورۃ الأعراف)
شیطان کا مقصد یہ تھا کہ میں آدم سے افضل ہوں اس لیے کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور آگ  بلندی اور رفعت چاہتی ہے اور آدم مخلوق خاکی۔  بھلا خاک کو آگ سے کیا نسبت ،  اے خدا پھر تیرا یہ حکم کہ ناری خاکی کو سجدہ کرے  کیا انصاف پر مبنی ہے،  میں ہر حالت میں آدم سے بہتر ہوں لہذا وہ مجھے سجدہ کرے نہ کہ میں اس کے سامنے سربسجود ہوں مگر شیطان اپنے غرور و تکبر میں یہ بھی بھول گیا کہ جب تو اور آدم دونوں خدا کی مخلوق ہو تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر خود وہ مخلوق بھی نہیں جان سکتی وہ اپنی تمکنت اور گھمنڈ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی و پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں ۔
تکبر عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات متکبر انسان اللہ تعالی کے مقابل میں بھی آجاتا ہے۔  فرعون،  قارون،  ہامان،  اور شداد جیسوں کو تکبر ہی نے اپنے خالق و مالک کے مقابلے میں لا کھڑا کیا تھا اور یہ ایسا خبیث اور دقیق مرض ہے کہ بسا اوقات انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں اس مرض میں مبتلا ہوں بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خاکسار، عاجز، لاشئ، حقیر اور فقیر کہتے ہیں حالانکہ ان کے باطن میں تکبر کے جراثیم ہوتے ہیں ۔ 
قرآن و سنت میں متکبروں اور تکبر کی شدید مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مفہوم:۔   میں ان لوگوں کو اپنی آیات سے پھیر دوں گا جو زمین پر ناحق تکبر کرتے ہیں ( سورۃ الأعراف)
آج (قیامت کے دن) تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم زمین پر ناحق تکبر کرتے تھے ( سورۃ الاحقاف)
بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل ہونگے (سورہ غافر)
کیا جہنم میں متکبرین کا ٹھکانہ نہیں ہے (سورۃ الزمر)
بیشک وہ ( اللہ تعالیٰ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا  ( سورۃ النحل)
اور لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا (اکڑ) کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا (سورۂ لقمان)
تکبر کی مذمت احادیث میں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ( یاد رکھو) ہر وہ شخص جو جھوٹی بات پر سخت جھگڑا کرے، مال جمع کرے، اور بخل کرے،  اور متکبر ہو (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی ایک حدیث یوں بیان فرمائی ہے رسول ﷺ  نے فرمایا ہے جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ کے لئے  دوزخ میں داخل نہ ہو گا، اور جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جاۓ گا (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تکبر کے بارے میں آپ ﷺ  کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ رسول ﷺ نے  فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے تکبر ( ذاتی بزرگی) میری چادر ہے اور عظمت ( صفاتی بزرگی) میرا تہبند ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینے (ذات اور صفات کے اعتبار سے تکبر کرے) اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ( مسلم)
تکبر کرنے والے کو اللہ تبارک تعالیٰ نیچے گرا دیتا ہے پھر اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا  دنیا کے لوگوں کی نگاہوں میں حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے پھر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہو جاتا ہے ہر شخص اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہاں تک کہ تمام انسانوں کے سامنے اس کی حیثیت کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتی ہے (شعب الایمان للبیہقی)
حق تبارک و تعالیٰ ہم مردوں اور عورتوں کو تکبر سے بچائے اور تواضع نصیب فرمائے ۔ تکبر صرف شایانِ شان خدا ہے ہم مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کو تکبر سے کیا کام تکبر کرنا یہ حیوانوں کا شیوہ ہے عقلمند انسان کبھی تکبر نہیں کرتا کیونکہ اس کی نظر اپنی کمزوریوں پر رہتی ہے وہ اپنی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتا

جمعرات, ستمبر 29, 2022

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نشست اختتام پذیر

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نشست اختتام پذیر
اردو دنیا نیوز٧٢
الحمدللہ مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا پروگرام بہت کامیاب رہا
حضرت مولانا شاہنواز صاحب مد ظلہ ناظمِ تعلیمات مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی تلاوت اور مولوی محمد سمیرمتعلم سلمہ مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا، مفتی احمد شجاع صاحب مد ظلہ اُستاد مدرسہ اختر العلوم جلال آباد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے
حضرت مفتی محمد ذاکر  صاحب مد ظلہ شیخ الحدیث جامعہ عائشہ القدس جلال آباد نے "نکاح کی اہمیت اور طلاق کی قباحت "کے عنوان سے مختصراً خطاب کیا 
درمیان میں ایک طالب علم نے نعت خوانی کرکے محفل کی چاشنی میں اضافہ کیا 
اِس نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا آصف محمود صاحب دامت برکاتہم العالیہ امام و خطیب انشاء اللہ مسجد چوہان بانگر دہلی نے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندانی پس منظر، ولادت با سعادت اور آپ کا شاندار بچپن" کے عنوان پر پُر مغزاور مفصل خطاب کیا ۔
حضرت والا  ہی کی مستجاب دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا ۔۔۔

 اعلان: آج بہ تاریخ 29 ستمبر 2022بروز جمعرات کی نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مفتی محمد عفان صاحب ناظمِ تعلیمات جامع مسجد امروہہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی" پر روشنی ڈالیں گے ان شاءاللہ
 اپیل :آپ سے شرکت کی پُر خلوص درخواست ہے

انس حسامی بجنوری
خادم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور 

منگل, ستمبر 27, 2022

عارف اقبال-چھوٹی عمر کا بڑا صحافی



عارف اقبال-چھوٹی عمر کا بڑا صحافی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
             نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ جھارکھنڈ
اردو دنیا نیوز٧٢
عارف اقبال کو میں عرصہئ دراز سے جانتا ہوں، وہ مجھ سے پہلی بار ”باتیں میر کارواں“ کی تالیف کے وقت ملے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے اس کتاب کے سوانحی حصہ پر مجھے نظر ثانی کاحکم دیا تھا۔ نظرثانی کے مختلف مراحل میں طرح وہ میرے قریب آتے گئے، پھر ان کی دوسری کتاب نقوش و تاثرات آئی، اس میں بھی کچھ نہ کچھ مشورے اور معاونت کا موقع ملا۔ اس وقت ان کا عنفوان شباب تھا، مونچھ کی لکیریں چہرے پر آنے لگی تھیں۔لیکن ہم جیسے عمر دراز لوگوں کے لئے ان کی حیثیت عزیز کی طرح تھی، کہتے ہیں کہ ”پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں“ میں نے اس پوت کے پاؤں کو چھوٹی عمر میں ہی محسوس کیا، میرے دل میں ارتعاش ہوا اور شعور کی تیزرو نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا کچھ کر دکھائے گا، اس لیے کہ اس کے وجدان میں چھپی صلاحیتیں باہر آنے کو مضطرب تھیں اور میں انہیں ابھی سے دیکھ رہاتھا، کسی کے اندر تاک جھانک کر اس کے مستقبل کی تعیین خواہشات نیک کے زمرے میں آتی ہیں، میری نیک خواہشات اور دعائیں آگے کے مہہ و سال میں عارف اقبال کا پیچھا کرتی رہیں اور وہ اپنی منزل تک پہونچنے کے لئے بے تاب رہے، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا بہت مشہور شعر ہے:
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
پھرہوایہ کہ عارف ہر قسم کی پریشانی، تھکن اور مسائل و مصائب کو عین منزل مان کر آگے بڑھتے رہے اور آج وہ چھوٹی عمر کے بڑے اور مشہور صحافی ہیں۔
عارف اقبال نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور میں مذہبی تعلیم پائی، اعلیٰ اخلاقی اقدار ان بوریہ نشینوں سے سیکھے جو ان دونوں جگہوں پر معلمی کے فرائض انجام دے رہے تھے، عارف اقبال میں تواضع، انکساری، بڑوں کے ادب واحترام کا جو سلیقہ پایاجاتا ہے وہ انہوں نے مدرسہ کی اس چٹائی پر سیکھا جس کا سلسلہئ نسب صفہ اور اصحاب صفہ سے ملتا ہے۔ اس عمر میں انسان تربیت کو قبول کرتا ہے اور اس کے اثرات پوری زندگی میں محسوس اور غیر محسوس طور پر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
مدرسہ کی چٹائی سے اٹھ کر عارف اقبال عصری علوم کی درسگاہ پہونچے، بی اے، بی ایڈکیا، پٹنہ یونیورسٹی سے صحافت کا کورس مکمل کیا، الکٹرونک میڈیا پر کام کرنے کا سلیقہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے سیکھا، ان دونوں جگہوں میں اساتذہ کے وہ نور نظر رہے، اور جب اساتذہ کی توجہ کسی شاگرد کو مل جائے تو اس میں دُھن بھی پیدا ہوجاتی ہے اور گُن بھی۔ عارف اقبال اساتذہ کی توجہ پانے میں کامیاب تھے، چنانچہ صحافت کی خارزار وادیوں میں داخل ہونے کا انہوں نے سخت فیصلہ لیا، وہ عزم کے دھنی تھے، اس لیے صحافت کی سنگلاخ وادی کو عبور کرنے کے لئے راستے کے  سنگریزوں سے تکلیف پہونچنے کی پرواہ نہیں کی، پرواہ تو انہوں نے ان کنکر پتھروں کی بھی نہیں کی جو سڑک پر نہیں، ان کے موزے کے اندر جا پڑے تھے اور اندر سے ان کے پاؤں کو لہولہان کیے دے رہے تھے، میں نے شروع میں ہی انہیں ایک بار دوران گفتگوبتایا تھا کہ جو ہمالہ کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں، وہ جوتوں کے گھِسنے کا حساب نہیں لگاتے، اس بات کو انہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لیا اور کبھی بھی راستے کی پریشانیوں کا حساب نہیں لگایا۔
عارف اقبال اخباروں کے لیے لکھتے رہے، زندہ لوگوں پر کتابیں مرتب کرتے رہے، ملک کے نامور اہل قلم سے زندہ شخصیات پر مضامین حاصل کرتے رہے۔ یہ ایک دشوار کام تھا، لیکن جب عزم جواں ہوتو راستے میں پہاڑ بھی آجائے تووہ رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتا۔ عارف اقبال نے پوری اولو العزمی سے ان مراحل کو طے کیا اور مولانا سید نظام الدین ؒ اور مولانا سید ابواختر مدظلہ پر ملک کے نامور اہل قلم سے مضامین لکھوائے، ان کو سلیقے سے مرتب کیا، کتاب تیار ہوگئی تو اجرا کی تقریب کی اور پھر اہل علم تک پہونچایا، کتابوں کی طباعت کے اخراجات کہاں سے آئیں گے اور کس طرح خسارہ کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ یہ فن ان کو پوری طرح معلوم ہے اور وہ اسے کتاب کے مرتب کرنے سے پہلے اور بعد پوری طرح برتتے ہیں۔ اور اس قدر برتتے ہیں کہ وہ نفع کا سودا ہوجاتا ہے۔ کس طرح؟ یہ ایک راز ہے جسے وہ یا ان کا خدا جانتا ہے۔وہ اسے دوسروں پر فاش نہیں کرتے۔
واقعہ یہ ہے کہ زندہ لوگوں پر کام کرنا آسان نہیں ہوتا، معاصرانہ چشمک اور برتری کی سرد جنگ کی وجہ سے اس کام میں بڑی رکاوٹیں آتی ہیں، پھر ہروقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں کس مضمون میں کوئی کیالکھ دے اور لوگ عقیدت و محبت میں مؤلف و مرتب پر ہی ٹوٹ پڑیں، غالی عقیدت مندوں کی ایک بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ ان کادماغ گروی ہوتا ہے، غلط سے غلط کاموں کی بھی وہ ایسی تاویل کرتے ہیں کہ بات عقل و خرد سے دور جا پڑتی ہے۔ اس ملک میں مودی بھگت ہی نہیں، کچھ اور بھگت بھی ہیں جو مودی بھگتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
اس کے برعکس مُردوں پر لکھنا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ بھگتوں کا مرحوم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اس طرح حملہ آور نہیں ہوتے، جیسا ان کی زندگی میں ہوا کرتے ہیں، رہ گئے وہ مرحومین جن پر لکھا گیا تو ان کی ہڈی اس دنیا میں جھگڑا کرنے کے لئے آنے سے رہی۔
عارف اقبال نے کتابوں کے مرتب کرنے اور ان کی شخصیات کے انتخاب میں ان خطرات کی پرواہ نہیں کی اور مردانہ وار میدان میں کود پڑے اور کم ازکم تین کتابیں علمی دنیاکو دیں، وہ خطرات کے کھلاڑی ہیں اور انہیں خطرات سے کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ ایڈونچر کے شائقین کے لیے عارف اقبال کی زندگی میں عبرت و موعظت کے خاصے سامان ہیں۔
کتابوں کے ساتھ عارف اقبال نے کالم نگاری کا کام بھی کیا اور کم و بیش دوسال تک قومی تنظیم پٹنہ میں اپنی خدمات پیش کیں، وہ فری لانسر کی حیثیت سے دوسرے اخبارات کے لیے بھی لکھتے رہے، ان کے تعلقات ملک کے نامور صحافیوں سے رہے اور ان سے انہوں نے پرنٹ میڈیا کے رموز ونکات سیکھے اور فنی حیثیت سے اخباروں اور کالموں میں اسے برتا، اس طرح وہ پرنٹ میڈیا کے مقبول کالم نگار بن گیے۔
لیکن اخبارات کی دنیا محدود ہوتی ہے، اس کے قارئین کا حلقہ بھی محدود ہوتا ہے،بلکہ اردو اخبارات کا حلقہ اور سمٹتا جارہا ہے، اردو اخبارات کے مالکان کو قارئین کے گم ہونے کا شکوہ ہے۔ ایسے میں عارف اقبال کو پرواز کے لیے ایک نیا آسمان چاہیے تھا۔ نواز دیوبندی کا مشہور شعر ہے:
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ
اس نئے آسمان میں پرواز کے لیے انہوں نے الکٹرونک میڈیا سے اپنا رشتہ جوڑا، یہاں کام کا بڑا میدان ہے۔ یہاں صحافی خود کو چھپاکر نہیں رکھتا،بلکہ کیمرے کے سامنے آتا ہے اور برقی لہروں سے گذر کر اس کی تصویریں اور پروگرام ملک و بیرون ملک تک پہونچ جاتی ہیں۔ اس سے صحافی کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے اور خود کو شناخت کرانے کی مہم بھی کامیابی سے ہم کنار ہوجاتی ہے۔
عارف اقبال نے”ای ٹی وی بھارت اردو“ جوائن کیا، پہلی تقرری سیمانچل کے ضلع ارریہ میں ہوئی، پٹنہ اور دہلی میں زندگی گذارنے والے عارف اقبال کے لیے یہ ایک آزمائش تھی، چیلنج تھا، انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور رپورٹر کے ساتھ کنٹنٹ ایڈیٹر بن کر ارریہ چلے گئے، وہاں انہوں نے ارریہ کے کھیت کھلیان میں کام کرنے والے مزدوروں، بیل گاڑی اور کشتی کے ذریعہ نقل و حمل کے مسائل پر فیچر اور کہانیاں بنائیں اور اقلیتوں کے مسائل پر فوکس کیا، وہاں کے خوابیدہ سیاسی رہنماؤں کو بیدار کیا، یہ کچھ انہیں کا حصہ تھا، کورونا کے دور میں بھی وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے، چنانچہ کورونا نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، رپورٹ پوزٹیو آئی، کیمپوں میں رہنا پڑا، لیکن کورونا کے جراثیم نے بھی سوچا کہ یہاں دال گلنے والی نہیں ہے، اکابر کی دعائیں بھی انہیں ملیں، چنانچہ انہوں نے کورونا کو مات دے دیا اور صحت یاب ہوکر واپس ہوئے۔
ارریہ کی ثقافتی جھلکیاں بھی عارف اقبال کی توجہ کا مرکز رہیں، انہوں نے وہاں کے مخصوص پکوان، طارق بن ثاقب کی خطاطی کو بھی ناظرین کے سامنے پیش کیا، تین سال میں ”ای ٹی وی بھارت اردو“کے ذریعہ عارف اقبال نے ارریہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کا کام کیا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے، تین سال بعد واپسی ہوئی تو عارف اقبال وہاں کے صحافیوں میں سب سے محبوب و مقبول صحافی بن چکے تھے، الوداعیہ کی تقریب باوقار بھی تھی اور پررونق بھی، وہاں جو محبت انہیں ملی وہ مثالی تھی، آج بھی عارف اقبال وہاں کا تذکرہ کرتے ہوئے دور خلاؤں میں گم ہوجاتے ہیں، جیسے وہ کچھ تلاش رہے ہوں۔ماضی کی خوش گوار یادیں کب پیچھا چھوڑتی ہیں۔
ان کی محنت، لگن، کام کی طرف توجہ اور مسائل و معاملات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کا تبادلہ ای ٹی وی بھارت کے ذمہ داروں نے پٹنہ کردیا، حیثیت وہی کنٹنٹ ایڈیٹر کی ہی رہی، پٹنہ بڑا شہر ہے یہاں صحافیوں کی بھرمار ہے، ان قدیم اور با اثر صحافیوں کے بیچ میں جہاں ان کے اساتذہ بھی موجود ہوں جگہ بنانا آسان نہیں تھا، پٹنہ میں مختلف چینلوں کے اینکر سے ان کا مقابلہ تھا، ایسے میں پٹنہ یونیورسیٹی میں صحافت کا کورس اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے الکٹرونک میڈیا کا کورس کام آیا، عارف اقبال نے پوری فنی مہارت اور کامل اعتماد کے ساتھ پٹنہ میں کام شروع کیا، مذہبی ادارے، اسلامی شخصیات، سیاسی قائدین، ملی تنظیموں، تاریخی عمارتوں کے بارے میں وہ لوگوں کو بتاتے رہے اور جلد ہی یہاں بھی وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے رپورٹنگ، منظر کشی،  فیچر، کہانی ملکی اور ریاستی احوال و واقعات کو پورے اعتماد کے ساتھ لوگوں تک پہونچایا، عارف اقبال نے رپورٹنگ کیلئے  ان میدانوں کا انتخاب کیا، جہاں تک دوسرے صحافیوں کی نظر نہیں گئی تھی۔ فنی اور صحافیانہ صلاحیت کے ساتھ ان کی خوش اخلاقی، مرنجا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے ہنر نے بھی اپنا اثر دکھایا، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی جو غیر مرئی اور کبھی کبھی مرئی لکیریں ہوتی ہیں وہ بھی گرویدہ بنانے میں بڑے کام آتی ہیں، عارف اقبال خوش دل اور خوش گوارموڈ کے آدمی ہیں، مسکرانا ہی نہیں، ہنسنا بھی خوب جانتے ہیں، ہنسنا ان کی ضرورت بھی ہے۔ جب فوٹو گرافر مردے کی تصویر کشی کے وقت بھی ”پلیز اسمائیل“ کہنا نہیں بھولتا تو اپنے چہرے پر ہنسی سجانے کو وہ کس طرح بھول سکتے ہیں۔
عارف اقبال نے نور اردو لائبریری حسن پورگنگھٹی، بکساما، ویشالی کی بھی عکس بندی کی، کہانی بنائی اور دور دیہات میں واقع ویشالی ضلع کی سب سے بڑی غیر سرکاری لائبریری کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کیا، یہ فکرمندی اور محنت، پیشہ وارانہ صحافت سے اوپر کی چیز ہے۔ عارف اقبال صحافت کو پیشہ نہیں، خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون گودی میڈیا کے دست برد سے کسی طرح باہر نکلے اور اپنا فرض منصبی ادا کرے۔
عارف اقبال کی انہیں خصوصیات اور جد و جہد بھری زندگی کو دیکھ کر میں انہیں چھوٹی عمر کا بڑا انسان اور بڑا صحافی سمجھتا ہوں، صحافت زندگی کا ایک گوشہ حصہ اور ہے۔ اس میں انسان جیسی جامعیت نہیں ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹ لے۔ عارف اقبال اپنی تمام خوبیوں کے باوجود انسان ہی ہیں فرشتہ نہیں ان کے بارے میں جنید و شبلی کی طرح سوچنا ان کے اوپر زیادتی ہوگی البتہ وہ چھوٹی عمر کے بڑے انسان اور بڑے صحافی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

علاج بالتدبیر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

علاج بالتدبیر 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
ڈاکٹر مظفرالاسلام عرف ڈاکٹر عارف (ولادت ۱۰؍جنوری ۱۹۶۶ء؁) بن مولانا زین العابدین ،صدر شعبۂ علاج بالتدبیر گورمنٹ طبی کالج پٹنہ بہارساکن قاضی محلہ جالے ضلع دربھنگہ، حال مقیم نیو ملت کالونی سیکٹر ۲، پھلواری شریف، پٹنہ اس خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں، جس نے علوم و فنون ، خصوصاً فقہ و قضا کے حوالہ سے ہندوستان میںبڑا کام کیاہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒڈاکٹرصاحب کے حقیقی چچا اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم ان کے حقیقی بھائی ہیں، جو ہندوستان کے مایۂ ناز فقیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں، اسی خانوادہ میں پلے بڑھے ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کو علم و تحقیق وراثت میں ملی ہے، البتہ انہوں نے اپنا میدان الگ منتخب کیا ،اپنی دنیا الگ بنائی اور اپنے فن میں ممتاز ہونے کی وجہ سے ۲۰۱۲ءمیں حکیم اجمل خاں ایوارڈ سے نوازے گئے ،طبابت اور حکیمی کا میدان بڑا وسیع ہے، ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کو علاج بالتدبیر کے معاملات و مسائل سے خصوصی دلچسپی ہے، وہ اس موضوع کو پڑھاتے بھی ہیں اور اس پر تحقیق بھی کرتے رہتے ہیں۔
’’علاج بالتدبیر‘‘ زیر مطالعہ کتاب کا نام بھی ہے اور موضوع بھی، اس کتاب کے مندرجات کے بارے میں مصنف کتاب نے لکھاہے: ’’اس کتاب میں طب کا تاریخی پس منظر، طب یونانی کی ابتدا، اصول علاج، یونانی نظریات، اسباب ستہ ضروریہ، علاج بالتدبیر میں استعمال ہونے والے قدیم طریقۂ کار، نیز عصر حاضر کے تقاضوں کے مدنظر ماڈرن آلات تدابیر اور ان کی تصاویر نیز سوالات و جوابات کو پیش کیاگیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۔۹)
کتاب ایک سو چھہتر(۱۷۶) صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اٹھارہ(۱۸) صفحات مقدمہ، پیش لفظ،تقریظات اور حرف اولین پر صرف ہوئے ہیں، مقدمہ خود مصنف کتاب ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کا ہے، پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر تبریز اختر لاری،تقریظات پروفیسر ڈاکٹر غیاث الدین، ڈاکٹر جمال اختر، پروفیسر انیس الرحمن اور حرف اولین ڈاکٹر شاہد جمال کا ہے، ان میں دو گورمنٹ کالج پٹنہ کے پرنسپل، نائب پرنسپل اور چند لکھنؤ، الٰہ آباد(پریاگ راج) اور کولکاتہ یونانی میڈیکل کالج کے پرنسپل اور صدر شعبہ ہیں، ان حضرات نے اپنی تحریروں میں ہمیں بتایا ہے کہ اس کتاب کی اہمیت علم طب میں کیا ہے اور اس کتاب سے کس قدر طلبہ مستفید ہوسکیںگے، پروفیسر ڈاکٹر تبریز اختر لاری پرنسپل گورمنٹ طبی کالج و اسپتال پٹنہ کی رائے ہے کہ’’یوں تو اس عنوان کے تحت بہت سے ماہر فن نے اپنی تخلیق پیش کی ہے ؛مگر ڈاکٹر مظفر الاسلام کی یہ کاوش طبی اداروں میں شاہکار کی حامل ہوگی‘‘ (ص ۱۲)
ہم اپنے بچپن میںعلاج بالغذا، علاج بالادویہ اور علاج بالجراحت سے واقف تھے، دادا جان نے یاد کرایا تھا کہ جب تک کام چلتا ہو غذا سے / چاہیے بچنا دوا سے، جگر کے بل پر ہے انسان جیتا/ہو ضعف جگرتو کھا پپیتا اور جب غذا سے کام نہیں چلتا توتدبیریں شروع ہوتیں،اس زمانہ میں تدبیروں کے نام پر صرف یہ کیاجاتا تھاکہ بخار آجائے تو کھانا بند کردیا جاتا اور شام سے پہلے بخار اترنے پر بھی کھانا نہیں دیا جاتا، کھالیا تو سونے نہیںدیاجاتا کہ کہیں مریض کو سوتا دیکھ کر بخار پھر سے حملہ آور نہ ہوجائے،تیز بخار میں سر پر پانی کی پٹی ڈالی جاتی اور صاف کپڑے سے تلوے کو ہَولے ہَولے سہلایاجاتا ،زخم نکل آئے تو تُک ملنگا کی پٹی کا ستعمال ہوتا ،نزلہ زُکام میں جوشاندہ کا بھاپ کمبل اوڑھ کر لیا جاتا،مختلف امراض سے بچاؤ کے لئے پچھنا لگایا جاتاجس کا داغ زندگی بھر ساتھ رہتا،سر میں جوئیں پڑ جائیں یا سر بہت گندا ہو تاتو علاج بالتدبیر کے طور پر کالی مٹی سے سر دھویا جاتا، قبض ہوگیا تو صابن کا حقنہ دے دیاجاتا، اس سے زیادہ کی عموماً ضرورت ہی نہیںپڑتی تھی اور آدمی انہیں تدابیر سے روبصحت ہوتا اور پھر اللہ کا مقرر کردہ وقت نہ آیا ہو تو مکمل صحت یاب ہوجاتا، ڈیڑھ دہائی پہلے تک اس دور کے حکماء بھی اس طریقۂ علاج کی طرف توجہ کم دیتے تھے، ۲۰۱۱ء؁ سے طبیہ کالجوں میںعلاج بالتدبیر کے متعلق شعبے قائم ہوئے، تب لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز ہوئی اور اس کی اہمیت تسلیم کی گئی۔
  ڈاکٹر مظفرالاسلام صاحب کی کتاب سے معلوم ہواکہ علاج بالتدبیر قدیم طریقۂ علاج ہے، جو طب یونانی میں اہم طریقۂ علاج سمجھاجاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مرض کو دور کرنے کے لیے دوائیاں کم استعمال کی جائیں اور تدابیر زیادہ کی جائیں جو بغیر تکلیف کے مریض کو صحت یاب کردے۔
ڈاکٹر مظفر الاسلام صاحب نے اس کتاب میں تنتیس(۳۳) عنوانات کے تحت علاج بالتدبیر کے مختلف مراحل، ان کے اقسام وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ہر اصطلاحی لفظ کا متبادل انگریزی لفظ بھی لکھا ہے، جس سے اصطلاحات کے سمجھنے میں مدد ملے گی،تعریف کی زبان بھی سہل ہے اس کے باوجود عام قاری کا سمجھنا اسے مشکل ہوگا، اس کتاب سے وہی لوگ استفادہ کرسکتے ہیں جو طب یونانی کے یا تو استاذ ہوں یا طالب علم؛کیوں کہ کسی نہ کسی درجہ میںمبادیات سے ان کی واقفیت ہوتی ہے اور میرا ماننا ہے کہ کتاب کو سمجھنے کے لیے پہلے سے بنیادی واقفیت ضروری ہے،نہ ہو تو مندرجات دماغ کے اوپر سے گزرجاتے ہیں، یہ کتاب کا نقص نہیں، علمی معیار ہے، خود مصنف نے مقدمہ میںواضح کردیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل فائدہ طلبۂ طب کو ہوگا، مگر علاج و معالجہ سے وابستہ افراد کے لیے بھی بیماریوں کو طب جدید کے نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔‘‘
چلئے اپنا تو معاملہ صاف ہے، یہ کتاب ہم جیسوں کے لئے ہے ہی نہیں، جن کی قسمت میں معالج بننا لکھا ہی نہیں ہے، صرف مریض بننا مقدر ہے اور معالجین کا تختۂ مشق بننا۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر صاحب نے والدین مرحومین کے نام کیا ہے، جن کی دعاؤں اور محنتوں کے نتیجے میں علم کا سلسلہ جاری رہا، انتساب کے نیچے جو شعر درج ہے کہ’’اے کاش پڑھ سکیں وہ ورق اس کتاب کے، خواہش نیک کے طور پر تو صحیح ہے؛ لیکن مرحومین کے پاس کتاب کے اوراق پڑھنے کے لیے وقت اور صلاحیت ہی کہاں ہوتی ہے؟
کتاب کی اشاعت قاضی مجاہد الاسلام لائبریری اینڈ ریسرچ سنٹر نیوملت کالونی پٹنہ سے ہوئی ہے۔ کاغذ، کمپوزنگ، پرنٹنگ اچھی اور ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ اگر آپ پٹنہ میںرہتے ہوں یا ڈاک سے منگوانا چاہتے ہوں تو مصنف کے پتہ سے منگوا سکتے ہیں جو اوپر درج ہے۔ بشرطیکہ آپ ضرورت مند ہوں اور ایک سو چھہتر صفحات کی قیمت تین سو روپے آپ کو زائد نہ معلوم ہو۔

صفدر امام قادری: آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

صفدر امام قادری: آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
✒️قاسم خورشید
اردو دنیا نیوز٧٢

نیک صالح خوب سیرت تازہ دم ذہین ذی شعور صفدر امام قادری سے میری ملاقات آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں اس وقت ہوئی تھی جب طالب علمی کے زمانے میں عارضی اناؤنسر کے طور پر میں آکاش وانی پٹنہ کے اُردو پروگرام سے وابستہ تھا اس وقت صفدر اپنے والد اشرف قادری  صاحب کے  ساتھ ریڈیو اسٹیشن آئے تھے تب بیتیا سے ٹاکر کے طور پر اُن کے والد مدعو کیے جاتے تھے صفدر ایک صالح بیٹے کی طرح اُن کے ساتھ ہوا کرتے تھے ریکارڈنگ کے بعد اکثر چائے کے دوران گفتگو میں ہم کچھ کچھ کھلتے تھے حالانکہ صفدر بنیادی طور پر کم گو ہی تھے مگر صلاحیتیں اپنی خوشبو لے کر آیا کرتی ہیں میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ رواداری کے ساتھ علمی طور پر بھی شروع سے صفدر کا اختصاص رہا اور یہ بڑی وجہ تھی کہ جلد ہی اپنی ایک شناخت قائم ہو گئی وہ خود ریڈیو میں بحیثیت مقالہ نگار آنے لگے اردو کے معیاری رسائل اور اخبارات میں روشن ہوئے اور بڑی خوبی یہ تھی کہ تحقیق سے جنون کی حد تک رشتہ استوار ہوا جس کی جھلک اُن کے مضامین میں دیکھی جانے لگی
بیتیا  کو میں نے صفدر کے حوالے سے جانا میں اپنے ڈرامے مضامین کہانیاں اور شاعری کے ساتھ بےحد فعال تھا بہار اور بیرون بہار کے سفر پر بھی اکثر ہوا کرتا کئی بار بیتیا کا سفر بھی رہا صفدر سے فطری نزدیکیاں بڑھیں پٹنہ میں جہاں کہیں میں ہوتا صفدر پٹنہ آتے تو میرے ساتھ ہی رہتے ہم اپنی استطاعت بھر نشست بھی کرتے اور خوشی تب زیادہ ہوتی کہ بڑی معتبر یت کے ساتھ رپورٹ شائع ہوتی اور مرکزیت کی وجہ سے سیریس حلقہ ہم سے قریب تر ہوتا گیا صفدر  کے علمی و ادبی سفر میں تجسّس اور جنون کا شائبہ بدرجئہ اتم موجود تھا میری سمجھ سے قاضی عبدالودود کے بعد بہار کے پاس کوئی ایسا محقق نہیں تھا جس کی معتبر یت تحقیق کے لیے سند یافتہ ہو شروع سفر میں صفدر کو دیکھ کر یہ اُمید ضرور اُبھری تھی مگر صفدر کے سامنے زندگی کو اپنے طور پر جینے اور پھر جدوجہد کے لامتناہی سلسلے سے سینہ سپر ہونے کا معاملہ بھی درپیش تھا مرکزیت بےاماں ہو رہی تھی مگر بنیادی وصف زندہ و تابندہ تھا
پٹنہ کے درگاہ روڈ میں میرے اموں نے طالب علمی اور جدوجہد کے زمانے میں ایک چھوٹا سا کمرہ دے رکھا تھا جس میں سنگل بیڈ کی ایک چوکی اور پرانے طرز کا مختصر سا فرنیچربھی تھا دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کمرے میں کوئی دروازہ نہیں تھا صفدر بھی طالب علمی کے دور میں تھے پٹنہ قیام کے دوران ہم دونوں آرام سے چت ہوکر اسی چوکی پر دیر رات تک گفتگو کرتے رہتے کب نیند آجاتی پتہ نہیں چلتا اس دوران میں نے محسوس کیا کہ صفدر کے اندر ایک  سنجیدہ تخلیق کار بھی چھپا ہے مجھے کئی نظمیں اور غزلیں سننے کا موقع ملا صفدر کی شاعری میں جدید عہد کی تصویر کشی کا اپنا الگ رنگ تھا رسائل اور نشستوں میں صفدر کے رنگ کو خوب خوب پسند کیا جانے لگا مگر  ترجیحات میں تحقیق و تنقید کو  ہی آگے رکھا  صفدر کی قربت بےحد تقویت پہچانے لگی اور ہم ایک فیملی ہو گئے اب ہماری گفتگو میں سازینہ بھی اپنی نظموں کے ساتھ صفدر کی زبان سے ادا ہونے لگی اس کی کئی نظمیں صفدر نے سنائیں مزے کی بات یہ تھی کہ صفدر میں ایک خوبصورت تبدیلی آنے لگی تھی اور بلا شبہ یہ شدّت تعمیری اور تخلیقی سطح پر صفدر کو مضبوط کر رہی تھی    مہذب اور خوش رنگ طور نے اسے اور متحرک کر دیا اب سنجیدہ محفلوں رسائل اور کتابوں میں شمولیت ناگزیر ہو گئی اُردو کے ساتھ ہندی میں بھی عمدہ معیار و اقدار کا تعین ہونے لگا ہندی حلقے میں صفدر کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ اُس عہد میں ہندی کی سبھی معتبر شخصیتیں طرفدار ہوگئیں کئی پروجیکٹ کئے اور تاریخ رقم کر ڈالی  
سلسلہ وقت کے ساتھ طویل ہوتا گیا تجربے مشاہدے صلاحیتوں کے قالب میں ڈھلتے رہے صفدر نے تعلیم مکمل کی اور میری کاوش نے مجھے سرکاری عہدے پر فائز کر دیا امی کے ساتھ میں اپنے سرکاری کوارٹر میں رہنے لگا ذمےداری بہت بڑھ گئی دن رات کام اور وہ بھی بہار کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک دم نیا یعنی  ٹیلی ویژن  کے لیے ایجوکیشنل پروگرام بنانا بہرکیف میں نے یہ کام کامیابی سے شروع کیا بہار بھر میں شوٹنگ کرتا رہتا صفدر کی سفارش پر بیتیا سے بھی ٹیلنٹ کا انتخاب کرتا رہا صفدر اب پٹنہ قیام کے دوران میرے کوارٹر میں ٹھہرتے اور یہاں ہندی اردو دوستوں کی محفلین سجتیں صفدر نے اپنی عرق ریزی اور ریاضت سے ہندوستان بھر میں  شناخت قائم کر لی تھی پڑھا لکھا طبقہ انکی صلاحیتوں کا معتقد ہو چکا تھا ہم بھی صفدر کے علمی اعتقادات سے استفادہ کرتے ہوئے بےحد مسرور رہتے اسی دور میں یہاں کئی بڑے مشاعرے ہوئے جس میں ملک کی عظیم شخصیتیں شامل ہوا کرتیں مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں فلم اُمراؤ جان کا بہت کریز تھا خصوصی طور پر شہر یار کی ایک جھلک کے لیے لوگوں میں عجب جنون دیکھا گیا شہر یار مجھے اور صفدر کو لگاتار رسائل میں شائع ہونے کی وجہ سے جانتے تھے جب مشاعرے میں پٹنہ آئے تو شمیم فاروقی نے انکی ذمّے داری مجھے دی تب صفدر بھی پٹنہ میں موجود تھے شہر یار سے ہماری تفصیلی ملاقات ہوئی اور یہ سلسلہ تا دم حیات رہا صفدر امام قادری نے شہر یار کے حوالے سے کئی خوبصورت کام کیے جو شہر یار کو سمجھنے کے لیے بےحد ضروری ہے اسی طرح جب ندا فاضلی اور افتخار امام صدیقی پٹنہ تشریف لاتے تو میرے غریب خانے پر ہی ٹھہرتے ہم صفدر کو ضرور تلاش کر لیتے ندا فا ضلی اور افتخار صدیقی سے ہم نے صفدر کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حوالہ دے کر باضابطہ طور پر ملوایا دونوں اس قدر متاثر ہوئے کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ندا صاحبِ یا افتخار صدیقی کا فون میرے پاس آیا ہو اور انہوں نے صفدر کی خیریت نہ دیافت کی ہو یہ تھی کم عمری میں علم کی خوشبو جس کا  اُردو کا لیجنڈ گروپ بھی قائل  ہو چکا تھا
ایک روز میں سلطان گنج قیام گاہ سے دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک  صفدر امام قادری کچھ پریشانی کے عالم میں سازینہ راحت کے ساتھ آگئے سازینہ سے بہ نفسِ نفیس میں پہلی بار ملا تھا ڈرائنگ روم میں اُنہیں بٹھایا اندرون خانہ کو خبر دی کچھ دیر میں ہی شاہدہ آکر ملیں اور سازینہ کو زنان خانے میں لے گئیں بعد میں ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا اور انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیکر دفتر چلا گیا  دونوں کئی دنوں تک ہمارے ساتھ رہے پھر اپنے مشترکہ دوست اور ہمنوا گیان دیو تریپا ٹھی سمیر کے مشورے پر دونوں کے نکاح کا عمل شروع کیا پندرہ بیس دنوں کی تیاریوں کے بعد راجگیر خانقاہ میں اُن کا باضابطہ عقد ہوا اور اس کے بعد دونوں کے گھر والوں کی وقتیہ ناراضگی بھی ختم ہوئی اور ہمیں دعاؤں کے فیض سے نوازا گیا اب اخلاقی ذمےداری کی وجہ سے باضابطہ صفدر کے لئے ایک نوکری کا انتظام کرنا تھا ہم نے کوشش شروع کی اور ایک دن شاعر اثر فریدی اور میں نے قومی تنظیم کے ایڈیٹر جناب اشرف فرید سے صفدر کی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فی الحال نوکری کی درخواست کی اشرف صاحب معترف ہوئے اور صفدر باضابطہ طور پر قومی تنظیم سے جُڑ گئے صلاحیت ایسی تھی کہ اپنی پہچان ازخود بن گئی اور یہاں سے سماجی سروکار اور بڑھنے لگا پھر دونوں ایک کمرہ لے کر الگ رہنے لگے مجھے بھی پٹنہ میں ایک طاقت کا احساس ہوا صفدر نے اپنی تحریروں اور کاوشوں سے جلد ایک الگ سماج بنا لیا پھر وہ باضابطہ لیکچرر ہوئے مگر پٹنہ سے باہر پوسٹنگ کی وجہ سے ہم سب کچھ دنوں پریشان بھی رہے مگر جلد ہی کالج آف کامرس میں پوسٹنگ ہو گئی اور صفدر کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں دو بچے ہوئے اُن کی بہترین پرورش کی بچی کی شادی بھی بہت ہی شاندار ڈھنگ سے کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا دوسری طرف میں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہندوستان گیر سطح پر ایڈورٹائز کلاس 1 آفیسر کے واحد پوسٹ پر منتخب کر لیا گیا اور پھر بعد میں بہار کابینہ کے فیصلے کے بعد مجھے ایس سی ای آر ٹی بہار کا ہیڈ لینگویجز بنایا گیا اس دوران ہم نے سبھی نو زبانوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کروائیں اُردو گروپ سے صفدر7 وابستہ رہے اور ایک بار پھر اسی کیمپس میں صفدر سے ملاقات کی کڑیاں پھر سے جڑیں صفدر نے اپنے کالج میں کئی بڑے پروگرام کیے جس میں میری شمولیت رہی ارتضیٰ کریم جب دلّی یونیورسٹی کے ہیڈ ہوئے تو بڑے پروگرام کا انعقاد کیا جس میں دنیا بھر میں دلّی یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے ساتھ اس فنکشن میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا صفدر بھی مہمان کے طور پر شامل ہوئے یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں جگجیت سنگھ کو روبرو سننے کا موقع ملا تھا اس پروگرام میں ندا فا ضلی صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم نے بہت سی یادیں تازہ کیں 
صفدر امام قادری سے اب عموماً بڑی کانفرنسوں میں ہی ملاقات ہوا کرتی تھی چاہے وہ این سی پی یو ایل کی ورلڈ کانفرنس ہو آل انڈیا مشاعرہ ہو یا کوئی نیشنل سی می نار۔
صفدر نے ادب میں ہمیشہ ایک الگ معیار کے ساتھ اپنی7 موجودگی کا احساس دلوایا ہے کچھ ادارے سرکاری یا غیر سرکاری اخراجات پر عموماً رسمی طور پر ورک شاپ کروا تے ہیں ریکارڈ کے لیے بھلے یہ کام ہو جاتا ہے مگر متعلق اداروں کو ٹھگنے والے زیادہ پیش پیشِ رہتے ہیں اسی لیے بہت کاوشوں کے بعد بھی ایسے مافیاؤں کی وجہ سے سب سے زیادہ ایجوکیشن کی حالت ہی خراب ہے کوشش کے باوجود ان سے ہمارا نظام مکت نہیں ہو سکتا مگر جنہیں جنون ہے وہ اُن کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خدمات سے طوفان میں بھی چراغ روشن رکھتے ہیں ایسے خدمت گزاروں میں بلا شبہ صفدر امام قادری کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس نے مشن بناکر تعلیم کے فروغ کی کوشش کی ہے
صفدر کی کاوشوں کا سلسلہ بہتی ہوئی لہروں جیسا ہے جو کناروں کو چھو کر لوٹ جاتی ہیں یہاں منزل تحریک سے تعبیر ہے ٹھہراؤ سے نہیں۔
جس دن سے چلا ہوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

🟣🟣🟣
سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار
9334079876

پیر, ستمبر 26, 2022

بہار کے 27 اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ ہوگی بارش: محکمہ موسمیات نے جاری کیا یلو الرٹ

بہار کے 27 اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ ہوگی بارش: محکمہ موسمیات نے جاری کیا یلو الرٹ

اردو دنیا نیوز٧٢

مانسون ستمبر کے مہینے میں بہار پر مہربان ہے۔ ریاست میں گزشتہ کئی دنوں سے اچھی بارش ہو رہی ہے۔ جس سے لوگوں کو گرمی سے بھی راحت ملی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق یہ سلسلہ ابھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ساتھ ہی کچھ اضلاع میں بارش بھی لوگوں کے لیے تباہی بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ موسمیات نے بہار کے 27 اضلاع میں بارش اور گرج چمک کا الرٹ جاری کیا ہے۔

ان اضلاع میں اچھی بارش کا امکان ہے۔ دیگر اضلاع میں بھی موسم خوشگوار رہنے کی توقع ہے جس سے کاشتکاروں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس دوران زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30 سے 31 ڈگری سیلسیس اور کم سے کم درجہ حرارت 25 سے 26 ڈگری سیلسیس رہنے کی توقع ہے۔ 

محکمہ موسمیات کی جانب سے بہار کے 27 اضلاع کے لیے یلو الرٹ جاری کیا گیا تھا، جن میں پٹنہ، سوپول، ارریہ، مدھے پورہ، کشن گنج، سہرسہ، پورنیہ، کٹیہار، کھگڑیا، بھاگلپور، مونگیر،بانکا، جموئی، شیخ پورہ، لکھی سرائے، بیگوسرائے، نوادہ نالندہ، جہان آباد، گیا، ارول، بھوجپور، روہتاس، کیمور اور بکسر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کو محفوظ مقام پر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ 


واضح ہوکہ بہار میں ستمبر کے مہینے میں مسلسل بارش کی وجہ سے شہروں کا درجہ حرارت بہت زیادہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اتوار کے روز دارالحکومت پٹنہ میں 32.1 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ گیا میں 32 ڈگری سیلسیس، مظفر پور میں 30.6 ڈگری سیلسیس، بھاگلپور میں 34.3 اور پورنیہ میں 34 ڈگری سیلسیس رہے گا۔ موسم میں نمی کا تناسب 84 فیصد رہے گا۔ 

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...