Powered By Blogger

جمعہ, اکتوبر 14, 2022

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نوجوان عالم دین، آیوش میں برسرکار کامیاب طبیب، اچھے اناؤنسر، بہترین مقرر، قابل ذکر شاعر مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ علیگ بن علامہ محمد عثمان (م۲۰۰۵) بن حافظ حبیب اللہ بن حافظ غریب اللہ یکم ستمبر ۲۰۲۲ئ؁ شب جمعہ ساڑھے آٹھ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جمعرات کو ساڑھے تین بجے سہ پہر سلطان گنج بھاگلپور ہوسپٹل سے لوٹ رہے تھے، ماچھی پور کے پاس ٹمپو کی ٹکر ہوئی آپ آگے بیٹھے ہوئے تھے، زخمی ہوئے، پیشاب کے راستے سے خون آنا شروع ہوا، یکے بعد دیگرے ایک ہوسپٹل دوسرے ہوسپٹل کو ریفر کرتا رہا، بالآخر سی ان ان ہوسپٹل میں بھرتی ہوئے، معلوم ہواکہ جو وقت مقررہ اللہ کی طرف سے تھا، وہ آگیا پھر چارۂ کار ہی کیا تھا، جنازہ بھاگل پور سے ان کے آبائی گاؤں ملنگا چک پتھنہ لایا گیا۔ جنازہ کی نماز دوسرے دن ان کے بہنوئی مولانا کلام الدین ندوی انچارج مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ندوۃ العلماء لکھنؤنے پڑھائی، سوگواروں کی بھیڑ اس قدر تھی کہ پتھنہ کی عید گاہ ناکافی ہوگئی تو گرہوتیا کے اسکول میدان میں بعد نماز عصرجنازہ کی نماز ہوئی اور پتھنہ کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، لاولد تھے، پس ماندگان میںاہلیہ ہیں جو خود بھی بی یو ایم ایس ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر محمد سلیمان صاحب برہ پور بھاگل پور کی صاحب زادی ہیں ان کے علاوہ حقیقی اور علاتی ملاکر کل چھ بھائی اور پانچ بہن ہیں، مولاناــ‘ علامہ محمد عثمانؒ کی محل اولیٰ سے تھے،ان کی نانی ہال صالح پور بھاگل پورتھی اور ان کے نانا کا نام عبد الرشید تھا۔
مولانا محمد حسان ندوی علیگ کی پیدائش ۱۰؍دسمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو ان کے آبائی محلہ ملنگا چک مقام و ڈاک خانہ پتھنہ، تھانہ گوراڈیہہ، ضلع بھاگلپور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور تکیہ رائے بریلی گئے اور وہاں ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کی، عا  لمیت کی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور ۱۹۹۱ئ؁ میں فراغت حاصل کی، ندوۃ کے دوران قیام وہ درسی مصروفیات کے ساتھ بزم خطابت اور بزم سلیمانی میں بھی پابندی سے حصہ لیا کرتے تھے اور انعامات کے مستحق قرار پاتے تھے، دوسال کے وقفہ کے بعد انہوں نے علی گڑھ کا رخ کیا اور ۱۹۹۴ئ؁ میں بی یو ایم ایس میں داخلہ لیایہاں ان کا قیام حبیب ہوسٹل میں تھا انہوں نے رسالہ الحبیب کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے، اس زمانہ میں ان کایہ جملہ بہت مشہور ہواتھا کہ ’’علی گڑھ برادری ہوش و خرد کے ساتھ علاقائیت و عصبیت، رنگ و نسل اور ذات برادری کے سارے عفریتوں کا گلا گھونٹ کر ’’پیام سید‘‘ کو لے کر’’ شان سید‘‘ کے ساتھ اٹھے‘‘۲۰۰۲؁ء میں تکمیل طب اور انٹرنس شپ کرنے کے بعد وطن لوٹ آئے۔ ۲۰۰۸ئ؁ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، کمی نہ ان کے اندر تھی اور نہ اہلیہ میں، دو بچے ضائع ہوگئے پھر انہیں بچوں کی خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔
مولانا مرحوم کو تقریر و خطابت کا ملکہ وراثت میں ملاتھا، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ اپنے وقت کے نامور خطیب تھے۔ مولانا نے خطابت کو مؤثر بنانے کے اسرار و رموز اپنے والد سے سیکھا اور اس میں بڑی حدتک وہ کامیاب تھے، وہ اچھے اناؤنسر بھی تھے، ۲۰۰۸ئ؁ میں جب میں مدرسہ اعزازیہ پتھنہ کے جلسے میں شریک ہوا تھا تو ان کی اناؤنسری دیکھ کر حیرت زدہ رہا کہ اس نوجوان کو اللہ نے کس قدرطلاقت لسانی دی ہے، ان کی تحریری صلاحیت بھی اچھی تھی، شاعری غضب کی کرتے تھے، میں نے ان کا لکھامرثیہ جو انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع پر لکھا تھاان کی زبانی سنا تھا۔ جس کا ایک شعر تھا  ؎
پاسبان قوم تھا وہ وقت کا زندہ دلی :خانقا ہی پیر و مرشد زیبِ سجادہ نشین
ان کی غزل کا ایک شعر بھی یاد آگیا   ؎
دست نازک میں بھی حسان آگیے تیر و تفنگ
آئے ان ہاتھوں میں پیمانہ اب ممکن نہیں
مولانا سے میری ملاقات دود ہائی کو محیط تھی، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ کی عیادت اور تعزیت کے لیے میری حاضری ان کے گھر ہوئی تھی، میں نے علامہ کے انتقال پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو انہوں نے پسند کیا تھا، بھاگل پور کی طرف کا جب بھی میرا رخ ہوتا اور دونوں کے وقت میں گنجائش ہوتی تو ملاقات کی شکل بن جاتی ورنہ فون پر بھی گفتگو ہوجایا کرتی۔
مولانا نے شادی کے بعد ۲۰۱۰ئ؁ میں آیوش جوائن کرلیا، ابھی جب نئی و یکنسی آئی تھی اور اس کے لیے کونسلنگ ہوئی تھی تو مولانا پُرامید تھے کہ ان کی مستقل تقرری آیوش میںہوجائے گی، یہ یقین اس لیے ان کو تھاکہ سرکار نے ۲۵؍نمبر عارضی بحالی والوں کو اضافی دینے کا اعلان کیا تھا،  نئے لوگ اس نمبر کو حاصل نہیں کرسکتے تھے، اس لیے عارضی بحالی والوں کے استقلال میںکوئی چیز مانع نہیں تھی۔
مولانامزاجاً انتہائی شریف، صالح،باوقار، ذہانت وفطانت میں ممتاز انسان تھے ان کی خوش دلی، خوش خلقی اور ضیافت کے ان کے مخالفین بھی قائل تھے۔ اس کم عمری میں ان کا دنیا کو الوداع کہنا ان کے متعلقین، مخلصین اور احباب کے لیے انتہائی افسوسناک ؛بلکہ جان کاہ خبر ہے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور سب کو صبر عطا فرمائے آمین۔ حقیقت یہ ہے کہ
مصائب اور تھے پر’’اس‘‘ کا جانا
عجیب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

جمعرات, اکتوبر 13, 2022

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد فریدی پور دوبگا لکھنؤ

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد
فریدی پور دوبگا لکھنؤ
اردو دنیا نیوز ٧٢
منظور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام گزشتہ جمعرات  بتاریخ  6اکتوبر 2022 کو دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلّم واصلاح معاشرہ  کا انعقاد ہوا جس کی صدارت  حاجی اعجاز  چاندی والے ضحیٰ جویلرس چوک لکھنؤ نے کی سرپرستی حضرت مولانا محمد رحمتہ اللہ نوری صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ نورالعلوم کلیان پور لکھنؤ نے کی
اور نظامت  قاری سید شاہ فیصل نے کی  قاری رستم اقبال کی تلاوت سے جلسے کا آغاز ہوا  مقرر شیریں بیاں حضرت مولانا شبلی قاسمی صاحب بہرائچی   نے  اصلاح معاشرے پر عوام کے سامنے اپنی کچھ بات رکھی اور حضرت مولانا  کفیل اشرف ازہری  لکھنوی  کی دعا پر جلسے  کا  اختتام ہوا
مہمان خصوصی کے طور پر
مفتی احتشام اختر ندوی ،حافظ  شمیم اختر ،قاری اختر  صاحب، پارسد محمد شاکر  عرف بادشاہ غازی ،قاری اخلاق ،مولانا سعد ندوی،  قاری یونس ،بھائی مشیر ، طبھائی شبیر، محمد یامین،  محمد عمران، محمد سلیم ،محمد یاسین، محمد شکیل ،حافظ عبداللہ،  عزیزم  ولی اللہ نوری ،
اسی طرح  منتظمین  میں رہے،
حافظ سید محمد وصی، ڈاکٹر روح الہدی ، محمد اشتیاق ، محمد ممتاز ،
کنوینر  حافظ محمد  سرتاج ہاشمی مہتمم مدرسہ ہٰذا  نے سبھی کا شکریہ ادا کیا

اللّٰہ کے محبوب بندے

اللّٰہ کے محبوب بندے ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت رحمن اور رحیم ہے، اس رحمت کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے،یہ ستر کا عدد بھی اصلاً بندوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ صحیح یہی ہے کہ اللہ کی رحمتیں ہر چیز کو محیط ہیں’’وَ رَحْمتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیئ‘‘(الاعراف:156) اللہ فرماتے ہیں میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اور اس وسعت کا دائرہ تمام مخلوقات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوا ہے۔
اللہ کی رحمت جب بندے پر متوجہ ہوتی ہے تو وہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے، لیکن اللہ کے محبوب بننے کے لئے پہلے خود کو اللہ کے حوالہ کردینا ہوتا ہے۔ ’’من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ‘‘ جو اللہ کا ہوگیا، اللہ اس کا ہوجاتا ہے، قرآن کریم اور احادیث میں اللہ کے محبوب بندوں کے صفات ذکر کیے گئے ہیں، اگر ہم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہیں تو وہ صفات ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے؛کیوں کہ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ میں ان صفات کے حاملین کو پسند کرتا ہوں۔
ان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بندہ نے جو غلطیاں کی ہیں، احکام خدا اور رسول کی ان دیکھی کرکے ’’رب مانی‘‘ کے بجائے ’’من مانی‘‘ زندگی گزاری ہے، اس سے آئندہ کے عزم کے ساتھ اللہ رب العزت کے دربار میں توبہ کرے، اللہ کے سامنے گرگرائے، معافی مانگے،اس لیے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوابِینَ و یُحِبُّ المُتَطَھِّرِیْن‘‘(سورۃ البقرہ:223) حدیث پاک میں ہے ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(رواہ ابن ماجہ عن عبد اللہ بن مسعود)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛بلکہ اللہ رب العزت نے اس سے اوپر کی ایک بات بتائی کہ توبہ کرنے کے بعد اللہ اس کے سیئات کو حسنات میں بدل دیتے ہیں بشرطیکہ توبہ کے بعد وہ ایمان اور عمل صالح کی راہ پر گامزن رہے ارشاد ربانی ہے: ’’اِلّاَ مَن تَابَ و اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فاولٰئکَ یبدلُ اللّٰہُ سَیِّئاتِہِمْ حَسَنَات وکانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْماً‘‘(سورۃ الفرقان:70)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے تو ایمان والوں کے حق میں تویہ بدرجہ اولیٰ ہوگا،توبہ کے ساتھ روحانی و جسمانی پاکیزگی بھی ضروری ہے، اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں، بعض روایتوں میں طہارت اور نظافت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے،یہ پاکیزگی روحانی بھی ہو یعنی ایمان مفصل میں جن امور اللہ، رسول، فرشتے، آسمانی کتاب، اچھی بُری تقدیر اور بعث بعد الموت پر ایمان و یقین رکھنا ضروری ہے، اس پر یقین بھی رکھتا ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، یہ ذہنی اور روحانی پاکیزگی ہے، اس کے ساتھ جسم، لباس اور جگہ وغیرہ کو بھی پاک رکھتا ہو یہ ظاہری پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور اسے محبوب رکھتے ہیں۔
توبہ اور پاکیزگی کے ساتھ اللہ پر توکل، اعتماد اور بھروسہ بھی بڑی چیز ہے اور اللہ جن بندوں کو محبوب رکھتے ہیں ان میں توکل کی صفت پائی جانی چاہیے اگر اللہ پر توکل نہ ہو تو بندہ اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا، اللہ رب العزت کا ارشاد’’انَّ اللّٰہَ یُحبُّ المُتَوکِّلِین‘‘(سورہ آل عمران:159) اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ایک جگہ ارشاد ہے: ’’وَ مَنْ یَّتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہ‘‘(سورۃ الطلاق:03)توکل اسباب سے قطع تعلق کا نام نہیں، اسباب اختیار کرنے کے ساتھ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے یہ توکل ہے،حدیث میں اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اونٹ کے پاؤں میں رسے باندھو، پھر اللہ پر بھروسہ کرو، حصول رزق کے لیے اسباب اختیار کیے جائیں پھر اللہ پر یقین رکھا جائے کہ کھلانے والی ذات اللہ کی ہے، دوا علاج پر توجہ دیں اور شفایابی کے لیے اللہ پر بھروسہ کیا جائے، مؤثر اصلی دوا علاج کو نہ سمجھا جائے۔
مسائل، مصائب، مشقتیں، فتنے اور آزمائش پر صبر کیا جائے، صبر صرف آہ و فغاں، چاک گریبانی اور سینہ کوبی سے پرہیز کا نام نہیں، صبر، تحمل اور برداشت کا نام ہے، برداشت کے ساتھ اپنے صحیح موقف پر جمنے کا نام ہے، اسی لئے اللہ ان بندوں سے محبت کرتے ہیں جو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، پریشانیوں کو من جانب اللہ مان کر راضی برضائے الٰہی رہتے ہیں، یہ کام آسان نہیں ہے، لیکن اللہ نے نماز کے ساتھ استعانت کا ایک طریقہ صبر بھی بتایا ہے اور جو اس کی کسوٹی پر پورا اتر جاتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ’’وَ اللّٰہَ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن‘‘ (آل عمران:146) کا یہی مفہوم ہے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا: اللہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں ’’انَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن‘‘ (سورۃ البقرۃ:146)
توبہ، صبر، توکل، طہارت کے ساتھ بندہ کو اللہ رب العزت سے ڈرنے والا بھی ہونا چاہیے اللہ کا ڈر، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت یہ ماسٹر کی(Mastar Key) اور شاہ کلید ہے جب کسی کے دل کے اندر پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے اس کے سوچنے، جینے، معیشت، معاشرت سب میں ایک ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے جو کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے، تقویٰ کس طرح حاصل ہو اس کے لئے مختلف عبادتیں ہمیں دی گئی ہیں اور ان کا مقصد لَعَلَّکُم تَتَّقُوْن تاکہ تم متقی ہوجاؤ بتایا گیا، یہ اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اس جملہ کو قرآن کریم میں چھ بار ذکر کیا ہے جن میں سے چار بار سورۃ البقرۃ ہی میں ہے۔جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی،احکام و مرضیات الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہوجاتی ہے۔ جب بندہ اس مقام کو پالیتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورۃ التوبۃ:04)میں یہی بات کہی گئی ہے۔ایک جگہ فرمایا کہ جو اپنا وعدہ پورا کرے، پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ’’فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورہ آل عمران:76)
ان اوصاف کے حاملین میں جوایک خاص صفت پیدا ہو جاتی ہے، ان میں ظلم و جور اور نا انصافی سے گریز بھی شامل ہے۔ وہ ظلم نہیں کرتا اور انصاف کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔ چاہے یہ انصاف خود اس کی ذات، اس کے والدین اور اعز و اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی قوم سے عداوت اور دشمنی ناانصافی پر نہیں ابھارتی وہ عدل کو تقویٰ کا لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ مُقْسِطْ کہے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کاارشاد ہے ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن ‘‘(الحجرات:9، الممتحنہ:8)
اللہ کے محبوب بندوں میں ایک صفت احسان کی بھی پائی جاتی ہے، مختلف مواقع پر انسانی ضروریات کی تکمیل بغیر کسی مدح و ستائش اور صلہ کی امید کے احسان کی ایک قسم ہے، قرآن کریم میں غصہ کو پی جانے اور بندوں کو معاف کرنے کے ذکر کے بعد اللہ رب العزت نے ’’وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن‘‘(سورۃ البقرۃ:97) کا اعلان کیا اس کا مطلب ہے کہ جب کسی پر غصہ آجائے اور بندہ اس کو معاف کردے تو یہ بھی صفت احسان ہے اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان بندوں سے بھی محبت کرتا ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اللہ کے راستے میں اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی صفیں شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتی ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الذِیْنَ یُقاتِلْوْنَ فِی سَبِیْلہٖ صَفًّا کانَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ (الصف:04)
اللہ رب العزت کے محبوب بننے کے لیے احادیث میں بھی کئی صفات کا ذکر ہے، یہ مثبت اوصاف ہیں،جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے،بعض اوصاف وہ ہیں جو اللہ کے نزدیک بندوں کو مبغوض بنادیتے ہیں، قرآن کریم میں ان اوصاف کا ذکر لایحب کے ذریعہ کیاگیا ہے، ان کا ذکر پھر کبھی، فی الوقت تو مثبت اوصاف کو اپناکر اللہ کے محبوب بننے کی کوشش کی جائے۔

تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ تیسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ

الحمداللہ کل بروز بدھ شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ تیسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ 
/12/10/2022
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ

اردو دنیا نیوز٧٢
اس پروگرام آغاز قرآن کریم کے ساتھ ہوی 
قاری شہزاد صاحب رحمانی
نعمت پاک مولانا انوار صاحب نے پرھی 
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا فیاض احمد راہی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء  صاحب حضرت قاری انور غفاری صاحب
 مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب
قاری توصیف صاحب مولانا اخلاق صاحب ندوی قاری انوارالحق صاحب قاری رضوان صاحب لکھنئو ی قاری عبد اللہ محمودی  مفتی حفظ الرحمن صاحب
مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری کوثر آفاق صاحب نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢

بدھ, اکتوبر 12, 2022

مچھلی پٹی میں جلسہ سیرت النبی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

مچھلی پٹی میں جلسہ سیرت النبی
 ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ارریہ بازار میں  مچھلی پٹی مشہور ومعروف جگہ کا نام ہے، آس پاس کی آبادی غیر مسلموں کی ہے،انمیں اکثریت بنگالی ہندؤں کی ہے، آٹے میں نمک کے برابر مسلمان وہاں سکونت پذیر ہیں، بقیہ ارریہ نگر پریشد میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد چالیس فیصد سے زیادہ ہی ہے،بعض بعض حصوں کی مکمل آبادی خالص مسلمانوں کی ہی ہے،مگرمچھلی پٹی میں مسلم آبادی برائے نام ہے جنہیں بآسانی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،ایک نوجوان محمد سالک عرف مٹھو ہیں، ان کی تحریک سے ابھی دودن قبل ۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ وہاں سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کیا گیاجو کافی کامیاب رہا ہے،
ڈیڑھ دو گھنٹے کے اس پروگرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے، آنحضور کے اخلاق کریمانہ اور عدل و انصاف پر مفصل گفتگو ہوئی ،
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کا معروف واقعہ پیش کیا گیا کہ، ایک غیر مسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا اور سات بکریوں کا دودھ پی گیا، رات بھر تمام اہل بیت بھوکا رہا، مگرکسی نے اف تک نہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے،گھر میں جھاڑو دیتے، بازار سے سوداخرید لاتے،جوتی پھٹ جاتی تو خود گانٹھ لیتے اور اپنے ہاتھ سے آٹا تک گوندھ لیتے، یہی  نہیں بلکہ دوسروں کے کام بھی کردیا کرتے،دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے دوستوں جیسا سلوک کرنے کا حکم فرمایا اور کرکے بھی دکھایا،جنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں،راہوں میں کانٹے ڈالے،پاگل کہا، شاعر کہا،جادو گرکہا  آپ نے کسی سے بدلہ نہیں لیا، فتح مکہ کے موقع پر سب کو یہ کہ کر معاف کردیا،
 جاؤ تم سب کو میں نے معاف کردیاہے، تم سبھی آزاد ہو،آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، 
آپ کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی  کو بھی معافی ملی ،اور جس نے آپ کے شہید چچا کے کلیجہ چبا لیاتھا، اسے بھی آپ صلی علیہ وسلم وسلم نے معاف فرمادیاہے، 
 جانوروں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم کی تعلیم فرمائی ہے،قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ کو سب کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، آپ نے یہ پیغام تمام انسانوں کو دیا ہے کہ تم انسان ہو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو،خدا کے بندو!آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایاہےکہ؛تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے،
ایک شخص نے مدینہ کی مسجد میں آکر یہ دعا کی کہ خدایا! مجھ کو اور محمد کو مغفرت عطا فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ، خدا کی رحمت کو تم نے تنگ کردیا،( بخاری )
مذکورہ بالا عناوین پر اس جلسہ سیرت النبی میں سیر حاصل گفتگو کی گئی، جسے سامعین نے بہت ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔
قاضی شہر جناب عتیق اللہ صاحب رحمانی نے عورتوں کے حقوق سیرت النبی کی روشنی میں، اس عنوان پر جامع گفتگو کی، اپنی ساس کو بھی ماں کے جیسے عزت دینی چاہیے،اپنی بہو کو بیٹی کے مقام پر دیکھنا چاہئے،آج نشہ میں ہمارا جوان لت پت ہے،اس سے انہیں باہر نکالنے کی فکر کیجئے ،اور نبی کریم کی سیرت کو زندگی میں داخل کیجئے،یہ وقت کا شدید تقاضہ ہے اور اس جلسہ کے انعقاد کے ذریعہ یہی پیغام دینا مقصود ہے۔
جناب الحاج قاری نیاز صاحب قاسمی نے بڑی خوبصورت نظامت فرمائی، اپنی تمہیدی گفتگو میں جوانوں کا اس پروگرام کےانعقاد پر شکریہ ادا کیا، میاں معراج اور سونو بابو کو دعائیں دیں، 
نعت نبی اور اصلاحی نظموں سے جناب عبدالباری زخمی نے جلسہ کو زعفران زار بنادیا۔
شہر کے معروف ومشہور ڈاکٹر جناب آصف رشید صاحب مچھلی پٹی کے ہی رہنے والے ہیں، انہوں نے قاضی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئےیہ کہا ہےکہ، آپ کو یہ پتہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کی تقریر سے زیادہ کس نے فائدہ لیا ہے،سامنے موجود مردوں سے زیادہ خواتین نے اس جلسہ سے کام کی باتیں اخذ کی ہیں ، دیوار سے لگ لگ کر،اپنی چھتوں پر جاکر، گلیوں سے کان لگاکر پورے پروگرام کو وہ سب سن رہی تھیں، اور محظوظ ہورہی تھیں، آپ لوگوں نے وہاں سے صفائی شروع کی ہے جہاں گندگی بہت زیادہ ہے،صفائی کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے، ہم نے آج تک یہاں کوئی اس نوعیت کا مفید پروگرام نہیں دیکھا ہے، 
نشہ اور کوریکس پر ہم سب انتظامیہ سے شکایت کرتے رہے،پولس آتی رہی مگر فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں  دوا کی ہے،اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نشستوں کی یہاں شدید ضرورت ہے۔
جلسہ کی کامیابی کی جہاں اپنوں نے شہادت دی ہے وہیں غیروں نے بھی اسے کافی مفید پروگرام  بتلایا ہے،مچلی پٹی  وارڈ نمبر ۲۳کے وارڈ کمشنرجناب منٹو جی جوایک غیر مسلم ہیں، انہوں فون کرکے علماء کرام کا شکریہ ادا کیا ہے، اور اپنی معلومات کے مطابق اسے یہاں کا پہلا پروگرام بتلایا ہے، جسمیں بڑی کام کی باتیں انہیں سمجھ میں آئی ہیں، 
امتیاز صاحب چیرمین، ضلع ارریہ کے سینئر ایڈووکیٹ پدم شری طہ خاموش صاحب شروع سے اخیر تک جلسہ سیرت النبی میں موجود رہے، 
ہم اخیر میں مچھلی پٹی کے ان نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے مچھلی پٹی ہی نہیں بلکہ ضلع ارریہ سے ایک بڑا پیغام دیا ہے، 
جہاں اس وقت خود غرضی اور مفاد ومادہ پرستی کا دور ہے،مسلم نوجوان شہرت کے پیچھے ارریہ سے اتر پردیش چلا جاتا ہے، اور مشہور ہونے کے لیے دین وایمان کا سودا کرلیتا ہے،مگراپنی گلی کی فکر نہیں کرتا ہے، جس چیز میں دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے،اسے بالائے طاق رکھ دیتا ہے اور بالآخر خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور اپنی نسلوں کی ذلت کا سامان بن جاتاہے، 
        اپنی گلی سے یار کا گھر دو قدم پہ تھا 
       دس میل ہم نکل گئے جوش شباب میں 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

منگل, اکتوبر 11, 2022

کوہ ِ نور ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کوہ ِ نور ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد سے کوہ نور ایک بار پھر سر خیوں میں ہے، ۱۲-۲۱؍ گرام وزن ، ۶-۳؍ سینٹی میٹر لمبے ۲-۳؍سنٹی میٹر چوڑے اور ۳-۱ ؍ سینٹی میٹر موٹے اس کوہِ نور کی مالیت اس وقت ۴۷۸۰ ؍ کروڑ روپے ہے، بیضوی ہیئت کے اس ہیرے کا وزن کبھی ۲× ۳۶ ؍ گرام تھا، لیکن اب اس کے وزن میں کمی آئی ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے آندھرا پردیش میں کھدائی کے دوران یہ ہیرا نکلا تھا، شاہ جہاں تک کئی واسطوں سے یہ پہونچا اور اس نے تخت طاؤس کے اوپری حصے میں اسے جڑوادیا، نادر شاہ نے جب دہلی کو تخت وتاراج کیا تو اسے تخت طاؤس سے نکال کر اپنے بازو پر باندھنے لگا اور ایران لے گیا، ۱۷۴۷ء میں یہ افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے پاس پہونچا ، شاہ شجاع کے واسطے سے یہ رنجیت سنگھ تک پہونچا، رنجیت سنگھ ہمیشہ تو نہیں لیکن بڑی تقریبات کے موقع سے اسے بازو پر باندھا کرتا تھا۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کے وفات پانے کے چار سال بعد ۱۸۴۳ء میں دلیپ سنگھ کو پنجاب کا راجہ بنایا گیا، اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی ، ۲۹؍ مارچ ۱۸۴۹ء کو دلیپ سنگھ نے انگریزوں سے ڈر کر سمجھوتہ کر لیا جس کے نتیجے میں لاہور کا قلعہ اور کوہِ نور ہیرا انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ لارڈ لہوزی اسے لینے خود لاہور آیا تھا، اس نے اسے وکٹوریہ کو بھیجوا دیا بعد میں اسے تراش خراش کر وکٹوریہ کے تاج میں لگایا گیا، وکٹوریہ کے بعد ایورڈ ہفتم نے اسے تاج میں جگہ نہیں دی، آخری بار یہ تاج میں جڑا ہوا رانی الزبتھ کے تابوت پر ۲۰۰۲ء میں نظر آیا تھا، ملکہ الزبتھ دوم کے دور میں یہ ہیرا ٹاور آف لندن کے جویلر ہاؤس میں رکھ دیا گیا اور یہ اب تک وہیں موجود ہے، اس طرح کوہ ِ نور ہیرا کو برطانیہ کے قبضہ میں ایک سو تہتر (۱۷۳) سال پورے ہو گیے ہیں۔ 
 ہندوستان اس ہیرے پراپنا حق جتاتا رہا ہے، ۱۹۴۷، ۱۹۵۳، ۲۰۰۰، ۲۰۰۸، اور ۲۰۱۰ء میں اس کی واپسی کے لیے ہندوستان نے کوشش کی، ۲۰۱۶ء میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ بھارت کی چیز ہے اسے ہندوستان واپس لانا چاہیے، سوشل میڈیا پر وینکٹیشور شکلا نے ایک بار پھر اسے ہندوستان لانے کی مہم چھیڑی ہے، لیکن یہ کام بہت آسان نہیں ہے، قانونی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، البتہ آپسی سمجھوتے کے نتیجہ میں ایسا ہو سکتا ہے، لیکن جب برطانیہ اس کی موجودگی کو باعث فخر سمجھتا ہے تو یہ سمجھوتہ کس طرح ممکن ہو سکے گا۔
 البتہ اگر یہ مہم کامیاب ہو گئی تو آرلاؤ، ری جنٹ، دی بلو ہوپ کی علی الترتیب روس، فرانس اور امریکہ سے واپسی کی مانگ بھی زور پکڑے گی، گریٹ مغل ڈائمنڈ کے نام سے مشہور آر لاؤ ہندوستان سے بر آمد ہیروں میں سب سے بڑا ہے، اس کا وزن ۶۲-۱۸۹؍ کریٹ ہے، یہ گول کنڈا ، آندھرا پردیش کی کھدائی سے سترہویں صدی میں نکلا تھا، مختلف تاجروں کے دست بدست یہ روس پہونچا اور ان دنوں یہ ماسکو میں واقع ڈائمنڈ فنڈ میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔
 ری جنٹ ۶۴-۱۴۰؍ کریٹ کا ہیرا ہے یہ بھی گول کنڈہ میں کھدائی کے دوران ۱۶۹۸ء میں بر آمد ہوا تھا، یہ مختلف ہاتھوں سے گذر کر فرانس کے راجہ لوئیس ۱۵، تک پہونچا ، ۱۸۰۱ء میں اسے نپولین نے قبضہ کرکے اپنے تلوار میں لگایا، ان دنوںیہ فرانس کے لاؤرے میوزیم کی زینت ہے۔
۵۲-۴۵؍ کریٹ کا دی بلو ہوپ نیلے رنگ کا بہت چمکدار ہیرا ہے، یہ سترہویں صدی میں کولو کھان سے نکلا تھا، یہ ہندوستان ، فرانس، برطانیہ ہوتا ہوا، اب امریکہ کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں رکھا ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان ہیروں کی واپسی کے مطالبہ کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، اب یہ جہاں ہیں، جن کے قبضہ میں ہیں، ان کی ملکیت ہیں، آخر میں جن تین ہیروں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ہندوستان سے لُوٹ کے ذریعہ نہیں گیے ہیں، اس لیے اس پر دعویٰ کی بنیاد ہی نہیں بنتی ہے، لیکن سوشل میڈیا اور ہیش ٹیگ پر مہم چلانے کے لیے کوئی منطقی بنیاد ضروری تو نہیں ہے۔

پیر, اکتوبر 10, 2022

ڈاکٹر علامہ یوسف عبد اللہ قرضاوی- تیری جدائی سے ہے عالم سوگوار

ڈاکٹر علامہ یوسف عبد اللہ قرضاوی- تیری جدائی سے ہے عالم سوگوار
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 عالم اسلام کی ممتاز اور با اثر شخصیت ، یوروپین کونسل اینڈ ریسرچ کے سر براہ، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے سابق صدر، اخوان المسلمین کے سر گرم رکن وقائد، رابطہ عالم اسلامی کے سابق رکن ، مجمع البحوث الاسلامیہ مصر، مجلس الامناء لمنظمۃ الدعوۃ الاسلامیہ افریقہ، مجلس الامناء لمرکز الدراسات الاسلامیہ آکسفورڈ کے رکن، الرقابۃ الشرعیۃ لمصرف قطر کے صدر، ھیئۃ الشرعیہ العالمیۃ للزکوٰۃ کویت کے نائب صدر، نامور مفسر، عظیم محدث مشہور فقیہ؛ بلکہ عصر حاضر کے مجتہد ، داعیٔ اسلام، استاذ الاساتذہ،مفکر اسلام عربی کے بڑے شاعرعلامہ یوسف عبد اللہ قرضاوی کا عیسوی سال کے اعتبار سے ۹۶ اور ہجری سال کے اعتبار سے سو سال کی عمر میں ۲۶؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کو دوحہ قطر میں انتقال ہو گیا، پس ماندگان میں چار بیٹیاں الہام، سہام، علا ، اسماء اور تین بیٹے محمد، عبد الرحمن اور اسامہ پہلی بیوی اسعاد عبد الجواد ام محمد اور ایک لڑکا دوسری بیوی عائشہ اسماء جزائری سے ہے، جنازہ کی نماز دوسرے دن بعد نماز عصر دوحہ کی جامع الامام محمد بن عبد الوہاب المعروف جامع الدولۃ میں ہوئی، نماز جنازہ کی امامت شیخ محمد حسن ولد الدود شفقیطی نے کی، پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی موجودگی میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ابوہامور  قبرستان میں ہوئی، نماز جنازہ میں قطر کے حکمراں، ولی عہد، وزراء کے علاوہ شیخ محی الدین علی القراداغی ، حماس کے مرکزی قائد اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل، آبا صوفیا ترکی کے خطیب علی الارباس، وزیر اوقاف ترکی اور اخوانی قائدین نے شرکت کی، جنازہ کی نماز دوبار ان کی قبر پربھی ادا کی گئی، دنیا کے مختلف ممالک میں غائبانہ نماز جنازہ کا بھی اہتمام کیا گیا، علامہ کی موت سے موت العالِم موت العالَم کا منظر سامنے آگیا۔
 علامہ یوسف القرضاوی کی ولادت مصر کے محافظۃ الغربیۃ کے ایک گاؤں صفط تراب مرکز کے المحلۃ الکبری میں ۹؍ ستمبر ۱۹۲۶ء کو ہوئی، دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، پرورش وپرداخت چچا کے زیر سایہ وسر پرستی ہوئی، نو (۹) بر س کی عمر میں آپ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی،  جامعۃ الازہر یونیورسٹی کے کلیۃ الاصول سے ۱۹۵۳ء میں اصول دین میں گریجویشن اور ۱۹۵۴ء میں کلیۃ اللغۃ العربیۃ سے امتیازی نمبرات سے بی ایڈ اور ۱۹۵۸ء میں عرب انسٹی ٹیوٹ آف ہایر عرب اسٹڈیز سے زبان وادب میں ڈپلومہ کی سند پائی، علوم القرآن پر ماجسٹریٹ اور فقہ الزکوٰۃ پر زبردست مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،جس کا عنوان تھا، ’’دور الزکوٰۃ فی علاج المشکلات الاقتصادیۃ وشروط نجاحھا‘‘ وہ امام ابن تیمیہ ، حسن البنا شہید، محمد غزالی اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے افکار واقدار اور دعوت وتبلیغ کے منہج اور طریقہ کار سے متاثر رہے اور پوری زندگی اسی نہج پر کام کرنے میں صرف کر دیا، وہ مشہور اخوانی رہنما تھے اس لیے انہیں پہلی بار ۱۹۴۹ء میں جیل کی صعوبتیں بھی بر داشت کرنی پڑیں، اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہونے لگا، صرف جمال عبد الناصر کے دور حکومت میں انہیں تین بار قید کیا گیا، رہائی کے بعد ۱۹۶۱ء میں قطر تشریف لائے یہاں کی حکومت نے نہ صرف آپ کا استقبال کیابلکہ قطر کی شہریت بھی تفویض کر دی، چنانچہ کم وبیش زندگی کے باسٹھ(۶۲) سال آپ نے یہاں گذارے، اس دور میں برطانیہ، اسرائیل اور فرانس میں آپ کی آمد ورفت پر پابندی رہی۔ انہوں نے مصری وزارت کے مذہبی اموردعوۃ والارشاد اور محکمۂ اوقاف میں خدمات انجام دیں، قطر اور جزائر کی یونیورسیٹوں میں بھی تدریس اور محاضرات کے فرائض انجام دیے، ۱۹۷۷ء میں آپ نے قطر یونیورسیٹی میں کالج آف شرعیۃ اینڈ اسلامک اسٹڈیز قائم کیا، مرکز سیرت نبوی کو وجود بخشا ، وہ اس کالج کے ڈین بھی رہے، ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۱ء میں اسلامک یونیورسٹی اور اکیڈمک کونسل الجزائر کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔
 آپ دعوت وتذکیر کے ساتھ تحقیق وتصنیف کے بھی مرد میداں تھے، اسلامی قانون اور فقہ ان کا خاص موضوع تھا، انہوں نے ایک سوستر سے زائد کتابیں تصنیف کیں ان میں فقہ الزکوٰۃ ، الحلال والحرام فی الاسلام، فقہ الجہاد، فتاویٰ معاصرۃ، فقہ الطھارۃ، فقہ الصیام، فقہ الغناء والموسیقی، فقہ اللہو والترویح ، الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ ، کیف نتعامل مع القرآن العظیم، کیف نتعامل مع السنۃ النبویۃ بین الجحود والتطرف، ترشید الصحوۃ الإسلامیۃ ابن الخلل  ان کی آپ بیتی ابن القریۃ والکتاب وغیرہ مشہور ومعروف ہیں۔
فنی اور موضوعاتی اعتبار سے ان کی کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے عقیدۃ الملل والنحل پر ۱۵،  فقہ العبادات پر ۱۰، فقہ الاسرۃ والمجتمعات پر ۵، فقہ المعاملات المالیۃ والاقتصاد الإسلامی پر ۸، فقہ الجنائی پر ۳، السیاسۃ الشرعیہ پر ۱۶، الفقہ العالم۵، اصول فقہ پر ۸، فتاویٰ پر ۶، فقہ الاخلاق پر ۹، علوم قرآنی اور تفسیر پر ۹، سنۃ نبویہ اور متعلقات پر ۸، فقہ الامۃ والدعوۃ پر ۲۶، عاملین اسلام پر ۱۰، ھموۃ الاسلامیہ پر ۱۲، تاریخ پر ۱۱، شعر وادب اور متعلقات پر ۱۵، خطبہ جمعہ (۱۰؍ اجزائ) مجموعۂ محاضرات پر ۳۳، کتابیں تصنیف کیں۔    
مولانا بدر الحسن قاسمی مقیم کویت نے لکھا ہے ’’عصر حاضر کے اسلوب میں ان کی تصنیف وتالیف کا اللہ تعالیٰ نے خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا، چنانچہ ان کی تصنیفات میں فکر کی بالیدگی، استدلال کی قوت، تعبیر کی عمدگی، زبان کا زور اور اسلوب نگارش کی سحر آفرینی ساری خصوصیتیں ایسی ہیں، جو پڑھنے والے کو اپنا اسیر بنا لیتی ہیں اور لوگ ان کے گرویدہ اور عقیدت کیش ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ ان میں علمی مواد کے ساتھ فکری انحراف کا علاج بھی ہے اور خود اسلام پسند حلقوں میں جو فکری بے اعتدالی اور انتہا پسندی محسوس ہوتی ہے، اس کا بھر پور تدارک بھی ہے۔‘‘
 آپ عربی زبان وادب کے نامور ادیب اور بہترین شاعر تھے،ا نہوں نے قید وبند کے زمانہ میں شاعری کی، ان کی شاعری کا مجموعۃ ملحمۃ الابتلاء کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔
 علامہ یوسف قرضاوی کی جرأت وبے باکی ضرب المثل تھی، وہ اقبال کے ’’نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘ کے سچے مصداق تھے، ان کو دیکھ کر ایمان میں تازگی، قلب میں فرحت وسرور کی کیفیت پیدا ہوتی تھی، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ یاد آجاتا تھا، ان کی تقریروں کو سن کر غیرت ایمانی شعلہ فروزاں ہوجاتی تھی، وہ عابد شب بیدار اور دین کے مجاہد تھے، انہیں امت کی فکر دامن گیر تھی، انہیں امت مسلمہ سے یہ شکوہ تھا کہ وہ کام نہیں کرتے، وہ ٹرینیں اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کو اپنے یہاں بنانے کی فنی اور پیشہ وارانہ مہارت نہیں پیدا کرتے، ہم پیشہ وارانہ مہارت میں پیچھے ہیں، حالاں کہ پیشہ وارانہ مہارت بھی ہمارے فرائض میں سے ایک فرض ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا اسلام عقیدہ میں جبر ، عبادت میں شکلیت، سلوک میں سلبیت ، فکر میں سطحیت ، فقہ میں ظاہریت اور زندگی میں مظہریت سے بچاتا ہے، جب کہ ہمارا اسلام عقیدہ میں توحید، عبادت میں اخلاص، اخلاق میں خیر، شریعت میں عدل اور روابط میں اخوت کو ایمانی واسلامی روح قرار دیتا ہے، وہ دین، فکر اورسیاسی مخالفین سے مکالمات پر زور دیتے تھے۔اور فلسطین کے تناظر میں خود کش حملوں کو جائز ٹھہراتے تھے۔ وہ عرب کے دیگر علماء کی طرح تصویر کشی کو جائز سمجھتے تھے، ان کے نزدیک اسلام قبول کرنے والی عورت کو حالات کے نارمل ہونے تک غیر مسلم شوہر سے میاں ، بیوی کا رشتہ بحال رکھنے کی اجازت تھی، چاہے اس میں دسیوں سال لگ جائیں، وہ یورپ میں سودی قرض کے جواز کے قائل تھے، وہ عورتوں کے دودھ بینک سے بچوں کو دودھ پلانے کی اجازت دیتے تھے، اہل علم ومفتیان کرام کو ان کے اس قسم کے فتووں سے اتفاق نہیں تھا، وہ اسے ان کے تفردات پر محمول کرتے تھے، ان کی مشہور کتاب الحلال والحرام میں بھی اس قسم کی باتیں کثرت سے ہیں، جن کے جواب میں اہل علم نے الگ الگ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
 ان کی علمی وعملی خدمات کے اہل علم قائل تھے، ان کے استاذ محمد غزالی انہیں امام العصر کہتے تھے، اور فرماتے کہ وہ مجھ سے بہت آگے نکل گیے ، وہ میرے شاگرد تھے، لیکن اب میں ان کا شاگرد ہوں، مولانا ابو الحسن علی ندوی کی رائے تھی کہ وہ بڑے عالم محقق اور بڑے مربی ہیں، شیخ الحسن الددوکی رائے تھی کہ وہ ہمارے زمانہ میں علم کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اول وارث ہیں، مصطفیٰ زرقاء انہیں حجۃ العصر اور مسلمانوں پر اللہ کی نعمت قرار دیتے تھے، محمد عمارۃ، قرضاوی کو مستقل فکری دبستان، فکری منصوبہ ساز اور فقیہ الامۃ قرار دیتے  ہیں، شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی نظر میں وہ علامہ ، مرشد اور بڑے فقیہہ تھے، وقت کے ان جلیل القدر علماء ومشائخ کی آراء سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی علمی ، فکری، عملی عبقریت وعظمت ان حضرات کی نگاہ میں کس قدر تھی۔
انہیں ان کی علمی اور اسلامی خدمات پر ایک درجن سے زائد ایوارڈ ملے، جن میں جائزۃ البنک الاسلامی لعام ۱۹۹۰ء ، جائزۃ الملک فیصل العالمیۃ فی الدراسات الإسلامیۃ ۱۹۹۴، جائزۃ العطاء التعلیمی التمیز من رئیس الجامعۃ الإسلامیۃ ملیشیا ۱۹۹۶، جائزۃ السلطان حسن ابلقیۃ سلطان برونائی فی الفقۃ الإسلامی  ۱۹۹۷، جائزۃ سلطان العویس فی الإنجاز الثقافی والعلمی ۱۹۹۹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 علامہ سے میری ایک دید وشنید تھی اور دوسری باضابطہ ملاقات، دید وشنید، دار العلوم دیو بند کے صد سالہ اجلاس میں ہوئی تھی، میں ان دنوں عربی ششم کا طالب علم تھا اور طالب علموں کے مقدر میں صد سالہ اجلاس میں دور کا جلوہ ہی آیا تھا، اور ان کی گفتگو سننے کا موقع، اس طرح علامہ قرضاوی کو پہلی بار میں نے دیکھا اور ان کی گفتگو سننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔
 دوسری بار قطر میں باضابطہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی، موقع تھا۲۱؍ تا ۲۳ ؍ جون ۲۰۰۸ء میں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے اجلاس عام کا ، یہ تین روزہ پروگرام تھا، جو قطر کی راجدھانی دوحہ میں خصوصیت کے ساتھ ہندوستانی علماء کے لیے منعقد ہوا تھا، ہندوستان سے اس پروگرام میں مولانا سید ارشد مدنی، قاری محمد عثمان ،مولانا سید سلمان حسینی ندوی، مولانا بدر الحسن قاسمی، مولانا نور عالم خلیل امینی اور جماعت اسلامی کے مولانا جلال الدین انصر عمری موجود تھے، ان اکابر کے قافلہ میں گرد راہ کے طور پر یہ حقیر بھی مدعو تھا، اس موقع سے علامہ یوسف قرضاوی نے حسب توقع مجمع کے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دیاتھا، ان کی مرصع تقریر ان کے قلب نہاں کی آواز اور ملت کے لیے بے چین روح کی پکار تھی، انہوں نے علماء کے اتحاد فکر وعمل پر زور دیا تھا، اس موقع سے ڈاکٹر محی الدین قرۃ داعی نے بھی خطاب کیا تھا،بلکہ پروگرام کے ناظم بھی وہی تھے، میں دوسرے دن کے پروگرام میں شریک ہو کر واپس آگیاکیوں کہ اسی دن میری والدہ کا ۲۲؍جون کی رات ڈیڑھ بجے انتقال ہو گیا تھا۔
ہندو پاک کے علماء سے انہیں کافی انسیت تھی، وہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی دعوت پر توسیعی خطبہ کے لیے ۱۹۹۷ء میں ہندوستان آئے تھے، انہوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے جنازہ میں شرکت کے لیے پاکستان کا سفر کیا اور ان کی نماز جنازہ انہوں نے ہی پڑھائی، علامہ قرضاوی نے مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تکملۃ فتح الملہم پر وقیع پیش لفظ لکھا، مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کی شرح مشکوٰۃ پر اتنا طویل مقدمہ لکھا اور وہ بھی علالت کے زمانہ میں کہ وہ ایک مستقل کتاب بن گئی، دار المصنفین اعظم گڈھ میں اسلام اور مستشرقین کے سمینار میں بھی آپ کی تشریف آوری ہوئی تھی اور پر مغز مقالہ پیش فرمایا تھا۔ 
 شیخ یوسف قرضاوی کی یہ داستان مکمل نہیں ہے، اس کا مجھے احساس ہے، لیکن میں کیا کروں، پہلی بار مجھے شیخ پر لکھتے ہوئے الفاظ کی تنگ دامانی کا شکوہ ہو رہا ہے، الفاظ تنگ پڑ گیے ہیں، خیالات پر غم کی چادر پھیل گئی ہے اور دماغ میں برف کی موٹی تہہ نے جگہ بنالیا ہے، اور جب دل ودماغ، احساس وخیالات ہی ساتھ چھوڑ دیں تو داستان تمام نہیں ہوتی، نا تمام ہی رہ جاتی ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...