Powered By Blogger

اتوار, اکتوبر 16, 2022

مایوس نہ ہوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مایوس نہ ہوں 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 زندگی میں مسائل ، مصائب اور مشکلات آتے رہتے ہیں، ایسے میں انسان گھبرا جاتا ہے ، بے چین ہواٹھتا ہے اور اس پر مایوسی، ناامیدی اور ڈپریشن کا حملہ ہوتا ہے ، یہ حملہ ان مصائب ومشکلات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو خاصہ متاثر کرتا ہے، مصائب کچھ بھی ہو سکتے ہیں، نوکری چھوٹ جائے یا کسی قریبی عزیز کی موت کا غم ، دنیا سے دل اُچاٹ ہوجاتا ہے ، کبھی اپنی گرتی صحت اور دوا علاج سے فائدہ نہیں ہونے کی وجہ سے بھی آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے ،خصوصا اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، حکومتی سطح پر ان کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی جو مہم چل رہی ہے ، اور جس طرح مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں ، اور دس بیس سال کے بعد عدالت ان کو با عزت بری کر رہی ہے، زندگی کے قیمتی مہہ وسال قید وبند میں گذر جاتے ہیں اور باہر آنے کے بعد بھی سماج کی ترچھی نظروں کا ان کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس سے مستقبل کے بارے میں مایوسی اورخوف کا غلبہ ہے، یہ مایوسی آپ کے حال اور مستقبل کو متاثرنہ کرے، اس کے لئے خود کو پُر عزم رکھنا ضروری ہے ، حالات سے گھبرانے کے بجائے حالات سے مقابلہ کی قوت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، گو یہ بہت آسان نہیں ہوتا، اس کے لیے خود کو نفسیاتی طور پر تیار کرنا ہوتا ے ، اور اپنی ذات سے کونسلنگ کرنی ہوتی ہے ، اس کو نسلنگ کا پہلا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ فکر مند ہو کر کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس لیے کہ جو کچھ ہوچکا ہم اس کے لوٹا نے پر قادر نہیں ہیں، حالاںکہ آپ ہر ممکن اس خبر کے بُرے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیے تھے اور اس کے نتائج پر بھی آپ کی گہری نظر تھی، لیکن تدبیر کے درجہ میں آپ اس کو رو کنے پر قادر نہیں تھے، اس لیے دل ودماغ میں خوف کو نہیں گُھسنے دیں، بہت سارے کام خوف کی نفسیات سے بگڑجاتے ہیں۔
 ظاہر ہے فکر مند ہونا ایک فطری چیز ہے، لیکن اس فکر مندی میں بھی مایوسی کے بجائے امید کا دامن تھامے رکھیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ کی رحمت پر ایمان آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے میں انتہائی ممد ومعاون ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ ہر حالت میں اپنے کو پُر سکون رکھیں، آپ کو پُر سکون رکھنے میں آپ کے خاندان اور قرب وجوار کے لوگوں کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان کے تعاون سے مصیبت کی گھڑی کو سہنے اور اس کے مضر اثرات سے نکلنے کا کام آپ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، جو کچھ ہو گیا اس کو یاد کرکرکے ہلکان اور جو ہونے والا ہے اس کے بارے میں سوچ کر پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا ہوجائے گا، اس کی حیثیت بسا اوقات وہم سے زیادہ نہیں ہوتی او وہ عموما وقوع پذیر نہیں ہوتا، لیکن ہمارے دل میں جو خوف بیٹھ گیا ہے وہ ہمیں کسی کام کا نہیں رکھتا، میں یہاں مکمل کنفیڈنس خود اعتمادی کی بات نہیں کرتا، کبھی اوور کنفیڈنس (overconfidece)سے بھی نقصان پہونچ جاتا ہے، اس لیے منفی احساسات وجذبات اور غیر ضروری خود اعتمادی کے درمیان ایک توازن پیدا کریں، تاکہ یہ توازن آپ کی سوچ اور خیالات کو بھی معتدل کرکے مایوسی کے منفی اثرات سے بچا سکے ۔واقعات ، حوادثات اور معاملات کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کیجئے، کیوں کہ سچ کے ہمیشہ دبے رہنے کی روایت قدیم ہے، ایسے موقع سے اپنے جوش کو بنائے رکھنا بھی ایک بڑا کام ہے، یہ جوش بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ڈر اور خوف کو قریب مت آنے دیں، تنہائی کے بجائے تھوڑا وقت خاندان اور دوستوں کے ساتھ گذاریں، خود کو ضرورت سے زیادہ کام میں مشغول نہ رکھیں، چھٹیوں کے ایام واوقات کو سیر وتفریح میں لگائیں، کچھ وقت بیوی بچوں کو دیں، اس لیے کہ اگر آپ نے مایوسی کا سایہ ان پر ڈالا اور ان کے ساتھ وقت نہیں گذارا تووہ آپ کے بغیر جینا سیکھ جائیں، اس وقت آپ اپنے کو تنہا محسوس کریں گے۔
 مایوسی کے اسباب ووجوہات کا تدارک کیا جائے، اگر یہ حالات آپ کی کسی غلطی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں تو اس سے سیکھ لیں، مانیں کہ آپ سے چوک ہوئی ہے، آپ بھی انسان ہیں، اس لیے غلطی ہوئی ، خیال صرف یہ رکھنا ہے کہ بعد میں اس کا اعادہ نہ ہو، ایسے موقعوں سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس غلطی سے آپ کس قدر سیکھتے ہیں، کسی کام میں عجلت نہ کریں، ہر کام کا آغاز دھیمی رفتار سے کریں ، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی ناکامی سے آپ مایوسی کا شکار نہ ہوں، اسلام میں تھوڑا کام اور مسلسل کام کی اہمیت بتائی گئی ہے ۔
 آپ کام کریں گے تو کبھی ناکامی کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے، ایسے میں آپ نروس نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، یقینا ناکامی کے اثرات آپ کے دل ودماغ پر پڑیں گے ، لیکن ناکامی کے خوف سے کام کا آغاز نہ کرناانتہائی درجہ کی بزدلی ہے، کام آپ اپنی پسند کامنتخب کریں، اس میں دل لگائیں، اس کی وجہ سے آپ خوشی محسوس کریں گے ، خوشیاں کوئی بڑا کام نہیں کرتئیں، لیکن وہ اداسی کو قریب نہیں کرنے دیتیں، یہ خوشی ہلکی معلوم ہوتی ہے، لیکن جب چلی جاتی ہے اور پریشانیاں آتی ہیں ، تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کھودیا ہے اور وہ کتنی قیمتی شئے تھی، خوشیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ محبت بھی ہے، نفرت کی سودا گری کے اس دور میں خوشیوں کی کاشت آپ کو مایوس ہونے سے بچا بھی لے گی اور اگر آپ مایوس ہیں تو اس کے دور کرنے میں معاون ہوگی، کسی کا بُرا نہ چاہیں اور جو آپ کا بُرا چاہتے ہیں ان کو بھی اپنے عمل سے بتائیںکہ وہ ان کے بھی خیر خواہ ہیں۔
مایوسی کے باوجود موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے، اپنی ہمت اور صلاحیت کو مجتمع کیجیے اور ذہن میں بٹھائیے کہ اگر میں اس میں کامیاب نہ بھی ہوا تو میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ، اس طرح آپ ایک تجربہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے، ہو سکتاہے یہ تجربہ ہی آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکال دے ، آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سب کچھ ہماری خواہش مرضی اور ضرورت کے مطابق ہو یہ ضروری نہیں؛ لیکن ہم اپنی ناکام خواہشوں کا متبادل تلاش کر سکتے ہیں، یہ ہمارے بس میں میں ہے، آپ خواہشوں کی تبدیلی کے ساتھ کام کے طریقۂ کار کو بدل کر بھی مایوسی پر ایک ضرب لگا سکتے ہیں۔
مایوسی دور کرنے کے بہت سارے طریقے کتابوں میں درج ہیں، آپ ان کو پڑھ کر برت سکتے ہیں، لیکن برتنے کا یہ کام آپ کو خود ہی کرنا ہوگا، اپنی زندگی کو بے رس اور بے کیف نہ ہونے دیں، مصیبت اور پریشانی کے لمحات میں یاد رکھیں کہ ’’یہ دن بھی گذر جائیں گے‘‘ آپ اپنے حالات کا دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں، اس سے آپ خود احتسابی سے محروم ہوجاتے ہیں، اس لیے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھیں، اس سوچ کے نتیجے میں آپ کا ذہن اپنی الجھنوں کو خود ہی دور کرنے کے لیے تیار ہوگا، یہ اپنے میں بڑی بات ہے،حالات چاہے جتنے پریشان کن ہوں، ان کا سامنا کرنا آپ ہی کو ہے اورآپ  اپنی صلاحیت ، توانائی اور قوت سے موجودہ حالات سے نکل کر مستقبل کو مفید اور کار آمد بنا سکتے ہیں، آپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے اور مستقبل میں یہ روشن صبح آپ کی زندگی کا حصہ بننے والی ہے ۔

ہفتہ, اکتوبر 15, 2022

عظیم آباد کے فارسی اساتذہ __

عظیم آباد کے فارسی اساتذہ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
عظیم آباد کو لوگ عموماً دبستان اردو کے ایک مرکز کی حیثیت سے جانتے اور پہچانتے ہیں، لیکن کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ فارسی زبان و ادب میں ’’سبک ہندی‘‘ کا بھی مضبوط مرکز رہا ہے، یہاں کے فارسی شعراء و ادباء نے فارسی، زبان و ادب کی جو مشاطگی کی ہے، اس سے دنیا واقف ہے، تاریخ ادبیات ایران پر لکھی گئی معتبر کتابوں میں عظیم آباد کی فارسی خدمات کا بڑے وقیع الفاظ میں تذکرہ کیا گیاہے۔
آزاد ہندوستان میں فارسی کا چلن کم ہوا تو اس کے پڑھنے والے بھی کم ہوتے چلے گئے، کم کا مطلب ختم ہونا نہیں ہوتا ہے۔ اب بھی یونیورسیٹیوں میں فارسی پڑھائی جاتی ہے، لڑکوں کی تعداد اس شعبہ میں کم ہوتی ہے، لیکن شعبہ جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فارسی پڑھانے والے اساتذہ بھی موجود ہیں  ماضی میں عظیم آباد کے فارسی اساتذہ کی بڑی آن بان شان تھی اور ان میں سے بہت ساروں کی حیثیت آفتاب و مہتاب کی رہی ہے۔
فارسی زبان و ادب سے عدم دلچسپی اور معاشی میدان میں کساد بازاری کے باوجود بعض اہل علم، فارسی زبان و ادب کی شمع تدریسی اور تحریری طور پر روشن کیے ہوئے ہیں، ان میں ایک نام ڈاکٹر محمد رضوان اللہ آروی (ولادت ۱۲؍مئی ۱۹۵۹ئ؁) بن حافظ بشیر احمد مرحوم پروفیسر و صدر شعبہ اردو فارسی جین کالج آرہ بہار کاہے، جن کی تحقیق اور نثرنگاری میں امتیاز کے اہل علم و ادب قائل ہیں، انکی آٹھ کتابیں ناول امراؤ جان ادا از مرزا ہادی رسوا کا تنقیدی مطالعہ مقدمہ و متن، ختم سفر کے بعد (سفرنامہ) بازیافت (مجموعہ ٔ مضامین)بہار کی فارسی شاعری کے فروغ میں شعراء پھلواری کا حصہ (تذکرۂ شعرائ) متاع قلیل (مجموعۃ مضامین) چند کتابیں چندخیال و تاثرات و تبصرے، چراغوں کا دھواں (رپور تاثر) لفظ و معانی(مقالات ادبیات فارسی) خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انہوں نے حجۃ العارفین سلسلہ ابو العلائیہ کے قدیم ترین تذکرہ اور  مکتوبات حسنیہ و ملفوظات حضرت مخدوم شاہ حسن علی قدس سرہ کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی شامل ہے، آخر الذکر پر میں نے پی ایچ ڈی کے لیے ایڈیشن ورک کیا تھا اور اس کا اردو ترجمہ بھی مکمل ہو گیا تھا، میرے گائیڈ پروفیسر متین احمد صبا بہار یونیورسٹی مظفرپور تھے۔ ان کے مرنے کے بعد میرا سارا کام ان کے یہاں ہی رہی گیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ ضائع ہوگیا۔ میں ساری محنت کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری سے محروم رہا، اس کا غم اس قدر نہیں ہے، جتنا اس علمی سرمایے کے ضائع ہونے کا ہے، بات نکل آئی تو درد چھلک آیا۔
ڈاکٹر رضوان اللہ صاحب ان دنوں روضۂ رضوان(مجموعہ مقالات در نقد پثروہش متون ادب فارسی) اور مکتوبات حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد منیری کا فارسی سے اردو ترجمہ کرنے میں مشغول ہیں اور اس کو انہوں نے اشارات کا نام دیا ہے۔
عظیم آباد کے فارسی اساتذہ نامی کتاب کے صفحات دو سو ساٹھ ہیں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی اس معیاری کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے رکھی گئی ہے، جو اس خوبصورت دیدہ زیب، طباعت سیٹنگ وغیرہ کے اعتبار سے ممتاز کتاب کے لئے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ ٹائٹل پر اساتذہ فارسی کی تصویر دیکھ کر کتاب کا قاری ان اساتذہ کے حوالہ سے بھولی بسری یادوں میں کھوجاتا ہے۔ کتاب کا انتساب ہم سر غم گسار نکہت آرا کے نام ہے، جو ان کی نصف اول ہی ہوںگی، زمانہ بھر کے دکھوں کو دل سے لگالینے کا حوصلہ اسی آسرے پر ملتا ہے کہ کوئی غم گسار ہے اور وہ ماں کے بعد اہلیہ ہی ہوتی ہے۔
کتاب کا آغاز ’’انہی کے دم سے فروزاں تھے ملتوں کے چراغ ‘‘سے ہوتا ہے، جو مصنف کے قلم سے ہے، عنوان اس قدر پیارا ہے کہ طبیعت پڑھنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ اس میں مصنف نے کتاب کے وجود میں آنے کے اسباب اور مندرجات کے دروبست پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، یہ تفصیل بھی ساڑھے تین صفحات میں سمٹ گئی ہے، دریا کو کوزے میں بند کرنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
کتاب میں فارسی کے دس نامور اساتذہ کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے، یہ دس اساتذہ پروفیسر سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی، پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر اقبال حسین، پروفیسر سید حسن ، پروفیسر فیاض الدین حیدر، پروفیسر خواجہ افضل امام، پروفیسر سید علی حیدر نیر، پروفیسر محمد صدیق، ڈاکٹر سید اطہر شیر، پروفیسر انوار احمد، پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری ہیں جن کی خدمات فارسی زبان و ادب کے حوالہ سے اس کتاب میں مرقوم ہے۔ ان میں بعض وہ ہیں جن سے میری ملاقات تھی اور بعض سے استفادہ کا بھی موقع ملاتھا۔ پروفیسر غلام مجتبیٰ انصاری میرے ضلع کے تھے اور میں نے ان کے تحقیقی مقالہ سید قاسم حاجی پوری سے تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی کی ترتیب کے وقت بہت فائدہ اٹھایا تھا، بہار مدرسہ بورڈ تاریخ و تجزیہ کی تصنیف کے وقت ان میں سے کئی اساتذہ سے انٹرویو بھی لیا تھا اور ان سے حاصل معلومات کو اپنی کتاب کا جز بنایا تھا، پروفیسر اقبال حسین کو خود نوشت’’داستاں میری‘‘ بھی بڑے ذوق و شوق سے میرے مطالعہ میں رہی تھی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی کی اس کتاب کو پڑھتے وقت میں ماضی میں ڈوبتا چلاگیا، کیسے کیسے لوگ تھے، جن کو زمین کھاگئی، زبان و ادب اور تحقیق و تنقید کا کیسا جذبہ ان اساتذہ میں تھے۔ مس خام کو کندن بنانے کا فن کس قدر ان کے پاس تھا، اپنے شاگردوں سے کس قدر وہ لوگ محبت کرتے تھے ماضی سے حال اور پھر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتاہوں تو تاریکی کا ایک جالہ سا نظر آتا ہے۔ تاریکی اور صرف تاریکی، ڈاکٹر رضوان اللہ آروی نے لکھا ہے اور بجالکھا ہے’’یہ احساس بھی ستم زا ہے کہ الماس و گہر کی مانند، اساتذہ کے ان فرمودات و ارشادات کو مادہ پرستی کے اس دور میں ہم کہاں لے کر آئے ہیں، جب دوائے دل بیچنے والے اپنی دکان بڑھا چکے ہیں اور جوہری بازار سخن بند کر چکے ہیں‘‘ یقینا حال مایوس کن ہے، لیکن ہم ایمان والے دور افق میں روشنی کی ہلکی سی لکیر دیکھتے ہیں، یہ لکیریں پھیلیں گی تو علم و فن کی دنیا پھر سے روشن ہوگی۔
میں اس اہم کتاب کو علمی دنیا میں ایک اضافہ سمجھتا ہوں اور مصنف کو مبارکباد دیتاہوں کہ قینچی اور پیسٹنگ کے اس دورمیں آپ نے پتہ پانی کرکے تحقیق کے معیار و وقار کو بچالیا ہے، اور نئی نسل کو روشنی دکھانے کا کام کیا ہے کہ تذکرہ و تحقیق کو کس طرح شیر و شکر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نثر اس قدر شستہ اور اسلوب اس قدر پاکیزہ ہے کہ کتاب اٹھانے کے مطالعہ مکمل ہوئے بغیر رکھنے کو جی نہیں چاہتا، اگر آپ دوسرے تقاضے سے اٹھ گئے تو بھی دل کتاب کی طرف لگا رہتا ہے اور موقع ملتے ہی آپ اس کے بعد مطالعہ میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس تبصرہ کو پڑھ کر کتاب پڑھنے کی خواہش جاگ گئی ہو تو بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ-۴ سے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔

جمعہ, اکتوبر 14, 2022

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ

مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نوجوان عالم دین، آیوش میں برسرکار کامیاب طبیب، اچھے اناؤنسر، بہترین مقرر، قابل ذکر شاعر مولانا ڈاکٹر محمد حسان ندویؒ علیگ بن علامہ محمد عثمان (م۲۰۰۵) بن حافظ حبیب اللہ بن حافظ غریب اللہ یکم ستمبر ۲۰۲۲ئ؁ شب جمعہ ساڑھے آٹھ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جمعرات کو ساڑھے تین بجے سہ پہر سلطان گنج بھاگلپور ہوسپٹل سے لوٹ رہے تھے، ماچھی پور کے پاس ٹمپو کی ٹکر ہوئی آپ آگے بیٹھے ہوئے تھے، زخمی ہوئے، پیشاب کے راستے سے خون آنا شروع ہوا، یکے بعد دیگرے ایک ہوسپٹل دوسرے ہوسپٹل کو ریفر کرتا رہا، بالآخر سی ان ان ہوسپٹل میں بھرتی ہوئے، معلوم ہواکہ جو وقت مقررہ اللہ کی طرف سے تھا، وہ آگیا پھر چارۂ کار ہی کیا تھا، جنازہ بھاگل پور سے ان کے آبائی گاؤں ملنگا چک پتھنہ لایا گیا۔ جنازہ کی نماز دوسرے دن ان کے بہنوئی مولانا کلام الدین ندوی انچارج مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ندوۃ العلماء لکھنؤنے پڑھائی، سوگواروں کی بھیڑ اس قدر تھی کہ پتھنہ کی عید گاہ ناکافی ہوگئی تو گرہوتیا کے اسکول میدان میں بعد نماز عصرجنازہ کی نماز ہوئی اور پتھنہ کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، لاولد تھے، پس ماندگان میںاہلیہ ہیں جو خود بھی بی یو ایم ایس ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر محمد سلیمان صاحب برہ پور بھاگل پور کی صاحب زادی ہیں ان کے علاوہ حقیقی اور علاتی ملاکر کل چھ بھائی اور پانچ بہن ہیں، مولاناــ‘ علامہ محمد عثمانؒ کی محل اولیٰ سے تھے،ان کی نانی ہال صالح پور بھاگل پورتھی اور ان کے نانا کا نام عبد الرشید تھا۔
مولانا محمد حسان ندوی علیگ کی پیدائش ۱۰؍دسمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو ان کے آبائی محلہ ملنگا چک مقام و ڈاک خانہ پتھنہ، تھانہ گوراڈیہہ، ضلع بھاگلپور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور تکیہ رائے بریلی گئے اور وہاں ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کی، عا  لمیت کی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور ۱۹۹۱ئ؁ میں فراغت حاصل کی، ندوۃ کے دوران قیام وہ درسی مصروفیات کے ساتھ بزم خطابت اور بزم سلیمانی میں بھی پابندی سے حصہ لیا کرتے تھے اور انعامات کے مستحق قرار پاتے تھے، دوسال کے وقفہ کے بعد انہوں نے علی گڑھ کا رخ کیا اور ۱۹۹۴ئ؁ میں بی یو ایم ایس میں داخلہ لیایہاں ان کا قیام حبیب ہوسٹل میں تھا انہوں نے رسالہ الحبیب کے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے، اس زمانہ میں ان کایہ جملہ بہت مشہور ہواتھا کہ ’’علی گڑھ برادری ہوش و خرد کے ساتھ علاقائیت و عصبیت، رنگ و نسل اور ذات برادری کے سارے عفریتوں کا گلا گھونٹ کر ’’پیام سید‘‘ کو لے کر’’ شان سید‘‘ کے ساتھ اٹھے‘‘۲۰۰۲؁ء میں تکمیل طب اور انٹرنس شپ کرنے کے بعد وطن لوٹ آئے۔ ۲۰۰۸ئ؁ میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے، کمی نہ ان کے اندر تھی اور نہ اہلیہ میں، دو بچے ضائع ہوگئے پھر انہیں بچوں کی خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔
مولانا مرحوم کو تقریر و خطابت کا ملکہ وراثت میں ملاتھا، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ اپنے وقت کے نامور خطیب تھے۔ مولانا نے خطابت کو مؤثر بنانے کے اسرار و رموز اپنے والد سے سیکھا اور اس میں بڑی حدتک وہ کامیاب تھے، وہ اچھے اناؤنسر بھی تھے، ۲۰۰۸ئ؁ میں جب میں مدرسہ اعزازیہ پتھنہ کے جلسے میں شریک ہوا تھا تو ان کی اناؤنسری دیکھ کر حیرت زدہ رہا کہ اس نوجوان کو اللہ نے کس قدرطلاقت لسانی دی ہے، ان کی تحریری صلاحیت بھی اچھی تھی، شاعری غضب کی کرتے تھے، میں نے ان کا لکھامرثیہ جو انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع پر لکھا تھاان کی زبانی سنا تھا۔ جس کا ایک شعر تھا  ؎
پاسبان قوم تھا وہ وقت کا زندہ دلی :خانقا ہی پیر و مرشد زیبِ سجادہ نشین
ان کی غزل کا ایک شعر بھی یاد آگیا   ؎
دست نازک میں بھی حسان آگیے تیر و تفنگ
آئے ان ہاتھوں میں پیمانہ اب ممکن نہیں
مولانا سے میری ملاقات دود ہائی کو محیط تھی، ان کے والد علامہ محمد عثمانؒ کی عیادت اور تعزیت کے لیے میری حاضری ان کے گھر ہوئی تھی، میں نے علامہ کے انتقال پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو انہوں نے پسند کیا تھا، بھاگل پور کی طرف کا جب بھی میرا رخ ہوتا اور دونوں کے وقت میں گنجائش ہوتی تو ملاقات کی شکل بن جاتی ورنہ فون پر بھی گفتگو ہوجایا کرتی۔
مولانا نے شادی کے بعد ۲۰۱۰ئ؁ میں آیوش جوائن کرلیا، ابھی جب نئی و یکنسی آئی تھی اور اس کے لیے کونسلنگ ہوئی تھی تو مولانا پُرامید تھے کہ ان کی مستقل تقرری آیوش میںہوجائے گی، یہ یقین اس لیے ان کو تھاکہ سرکار نے ۲۵؍نمبر عارضی بحالی والوں کو اضافی دینے کا اعلان کیا تھا،  نئے لوگ اس نمبر کو حاصل نہیں کرسکتے تھے، اس لیے عارضی بحالی والوں کے استقلال میںکوئی چیز مانع نہیں تھی۔
مولانامزاجاً انتہائی شریف، صالح،باوقار، ذہانت وفطانت میں ممتاز انسان تھے ان کی خوش دلی، خوش خلقی اور ضیافت کے ان کے مخالفین بھی قائل تھے۔ اس کم عمری میں ان کا دنیا کو الوداع کہنا ان کے متعلقین، مخلصین اور احباب کے لیے انتہائی افسوسناک ؛بلکہ جان کاہ خبر ہے۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور سب کو صبر عطا فرمائے آمین۔ حقیقت یہ ہے کہ
مصائب اور تھے پر’’اس‘‘ کا جانا
عجیب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

جمعرات, اکتوبر 13, 2022

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد فریدی پور دوبگا لکھنؤ

مدرسہ تعلیم القرآن میں دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ وسلم واصلاح معاشرہ کا انعقاد
فریدی پور دوبگا لکھنؤ
اردو دنیا نیوز ٧٢
منظور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام گزشتہ جمعرات  بتاریخ  6اکتوبر 2022 کو دوسرا عظیم الشان جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلّم واصلاح معاشرہ  کا انعقاد ہوا جس کی صدارت  حاجی اعجاز  چاندی والے ضحیٰ جویلرس چوک لکھنؤ نے کی سرپرستی حضرت مولانا محمد رحمتہ اللہ نوری صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ نورالعلوم کلیان پور لکھنؤ نے کی
اور نظامت  قاری سید شاہ فیصل نے کی  قاری رستم اقبال کی تلاوت سے جلسے کا آغاز ہوا  مقرر شیریں بیاں حضرت مولانا شبلی قاسمی صاحب بہرائچی   نے  اصلاح معاشرے پر عوام کے سامنے اپنی کچھ بات رکھی اور حضرت مولانا  کفیل اشرف ازہری  لکھنوی  کی دعا پر جلسے  کا  اختتام ہوا
مہمان خصوصی کے طور پر
مفتی احتشام اختر ندوی ،حافظ  شمیم اختر ،قاری اختر  صاحب، پارسد محمد شاکر  عرف بادشاہ غازی ،قاری اخلاق ،مولانا سعد ندوی،  قاری یونس ،بھائی مشیر ، طبھائی شبیر، محمد یامین،  محمد عمران، محمد سلیم ،محمد یاسین، محمد شکیل ،حافظ عبداللہ،  عزیزم  ولی اللہ نوری ،
اسی طرح  منتظمین  میں رہے،
حافظ سید محمد وصی، ڈاکٹر روح الہدی ، محمد اشتیاق ، محمد ممتاز ،
کنوینر  حافظ محمد  سرتاج ہاشمی مہتمم مدرسہ ہٰذا  نے سبھی کا شکریہ ادا کیا

اللّٰہ کے محبوب بندے

اللّٰہ کے محبوب بندے ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت رحمن اور رحیم ہے، اس رحمت کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے،یہ ستر کا عدد بھی اصلاً بندوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ صحیح یہی ہے کہ اللہ کی رحمتیں ہر چیز کو محیط ہیں’’وَ رَحْمتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیئ‘‘(الاعراف:156) اللہ فرماتے ہیں میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اور اس وسعت کا دائرہ تمام مخلوقات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوا ہے۔
اللہ کی رحمت جب بندے پر متوجہ ہوتی ہے تو وہ اللہ کا محبوب ہوجاتا ہے، لیکن اللہ کے محبوب بننے کے لئے پہلے خود کو اللہ کے حوالہ کردینا ہوتا ہے۔ ’’من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ‘‘ جو اللہ کا ہوگیا، اللہ اس کا ہوجاتا ہے، قرآن کریم اور احادیث میں اللہ کے محبوب بندوں کے صفات ذکر کیے گئے ہیں، اگر ہم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہیں تو وہ صفات ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے؛کیوں کہ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ میں ان صفات کے حاملین کو پسند کرتا ہوں۔
ان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بندہ نے جو غلطیاں کی ہیں، احکام خدا اور رسول کی ان دیکھی کرکے ’’رب مانی‘‘ کے بجائے ’’من مانی‘‘ زندگی گزاری ہے، اس سے آئندہ کے عزم کے ساتھ اللہ رب العزت کے دربار میں توبہ کرے، اللہ کے سامنے گرگرائے، معافی مانگے،اس لیے کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوابِینَ و یُحِبُّ المُتَطَھِّرِیْن‘‘(سورۃ البقرہ:223) حدیث پاک میں ہے ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(رواہ ابن ماجہ عن عبد اللہ بن مسعود)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛بلکہ اللہ رب العزت نے اس سے اوپر کی ایک بات بتائی کہ توبہ کرنے کے بعد اللہ اس کے سیئات کو حسنات میں بدل دیتے ہیں بشرطیکہ توبہ کے بعد وہ ایمان اور عمل صالح کی راہ پر گامزن رہے ارشاد ربانی ہے: ’’اِلّاَ مَن تَابَ و اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فاولٰئکَ یبدلُ اللّٰہُ سَیِّئاتِہِمْ حَسَنَات وکانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْماً‘‘(سورۃ الفرقان:70)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے تو ایمان والوں کے حق میں تویہ بدرجہ اولیٰ ہوگا،توبہ کے ساتھ روحانی و جسمانی پاکیزگی بھی ضروری ہے، اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں، بعض روایتوں میں طہارت اور نظافت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے،یہ پاکیزگی روحانی بھی ہو یعنی ایمان مفصل میں جن امور اللہ، رسول، فرشتے، آسمانی کتاب، اچھی بُری تقدیر اور بعث بعد الموت پر ایمان و یقین رکھنا ضروری ہے، اس پر یقین بھی رکھتا ہو، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، یہ ذہنی اور روحانی پاکیزگی ہے، اس کے ساتھ جسم، لباس اور جگہ وغیرہ کو بھی پاک رکھتا ہو یہ ظاہری پاکیزگی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور اسے محبوب رکھتے ہیں۔
توبہ اور پاکیزگی کے ساتھ اللہ پر توکل، اعتماد اور بھروسہ بھی بڑی چیز ہے اور اللہ جن بندوں کو محبوب رکھتے ہیں ان میں توکل کی صفت پائی جانی چاہیے اگر اللہ پر توکل نہ ہو تو بندہ اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا، اللہ رب العزت کا ارشاد’’انَّ اللّٰہَ یُحبُّ المُتَوکِّلِین‘‘(سورہ آل عمران:159) اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ایک جگہ ارشاد ہے: ’’وَ مَنْ یَّتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہ‘‘(سورۃ الطلاق:03)توکل اسباب سے قطع تعلق کا نام نہیں، اسباب اختیار کرنے کے ساتھ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے یہ توکل ہے،حدیث میں اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اونٹ کے پاؤں میں رسے باندھو، پھر اللہ پر بھروسہ کرو، حصول رزق کے لیے اسباب اختیار کیے جائیں پھر اللہ پر یقین رکھا جائے کہ کھلانے والی ذات اللہ کی ہے، دوا علاج پر توجہ دیں اور شفایابی کے لیے اللہ پر بھروسہ کیا جائے، مؤثر اصلی دوا علاج کو نہ سمجھا جائے۔
مسائل، مصائب، مشقتیں، فتنے اور آزمائش پر صبر کیا جائے، صبر صرف آہ و فغاں، چاک گریبانی اور سینہ کوبی سے پرہیز کا نام نہیں، صبر، تحمل اور برداشت کا نام ہے، برداشت کے ساتھ اپنے صحیح موقف پر جمنے کا نام ہے، اسی لئے اللہ ان بندوں سے محبت کرتے ہیں جو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، پریشانیوں کو من جانب اللہ مان کر راضی برضائے الٰہی رہتے ہیں، یہ کام آسان نہیں ہے، لیکن اللہ نے نماز کے ساتھ استعانت کا ایک طریقہ صبر بھی بتایا ہے اور جو اس کی کسوٹی پر پورا اتر جاتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ’’وَ اللّٰہَ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن‘‘ (آل عمران:146) کا یہی مفہوم ہے۔ایک جگہ ارشاد فرمایا: اللہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں ’’انَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن‘‘ (سورۃ البقرۃ:146)
توبہ، صبر، توکل، طہارت کے ساتھ بندہ کو اللہ رب العزت سے ڈرنے والا بھی ہونا چاہیے اللہ کا ڈر، اللہ کا خوف اور اس کی خشیت یہ ماسٹر کی(Mastar Key) اور شاہ کلید ہے جب کسی کے دل کے اندر پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے اس کے سوچنے، جینے، معیشت، معاشرت سب میں ایک ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے جو کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے، تقویٰ کس طرح حاصل ہو اس کے لئے مختلف عبادتیں ہمیں دی گئی ہیں اور ان کا مقصد لَعَلَّکُم تَتَّقُوْن تاکہ تم متقی ہوجاؤ بتایا گیا، یہ اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اس جملہ کو قرآن کریم میں چھ بار ذکر کیا ہے جن میں سے چار بار سورۃ البقرۃ ہی میں ہے۔جب انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی،احکام و مرضیات الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہوجاتی ہے۔ جب بندہ اس مقام کو پالیتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورۃ التوبۃ:04)میں یہی بات کہی گئی ہے۔ایک جگہ فرمایا کہ جو اپنا وعدہ پورا کرے، پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے ’’فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْن‘‘ (سورہ آل عمران:76)
ان اوصاف کے حاملین میں جوایک خاص صفت پیدا ہو جاتی ہے، ان میں ظلم و جور اور نا انصافی سے گریز بھی شامل ہے۔ وہ ظلم نہیں کرتا اور انصاف کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہتا ہے۔ چاہے یہ انصاف خود اس کی ذات، اس کے والدین اور اعز و اقرباء کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اسے کسی قوم سے عداوت اور دشمنی ناانصافی پر نہیں ابھارتی وہ عدل کو تقویٰ کا لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ ایسے لوگ مُقْسِطْ کہے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت کاارشاد ہے ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن ‘‘(الحجرات:9، الممتحنہ:8)
اللہ کے محبوب بندوں میں ایک صفت احسان کی بھی پائی جاتی ہے، مختلف مواقع پر انسانی ضروریات کی تکمیل بغیر کسی مدح و ستائش اور صلہ کی امید کے احسان کی ایک قسم ہے، قرآن کریم میں غصہ کو پی جانے اور بندوں کو معاف کرنے کے ذکر کے بعد اللہ رب العزت نے ’’وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْن‘‘(سورۃ البقرۃ:97) کا اعلان کیا اس کا مطلب ہے کہ جب کسی پر غصہ آجائے اور بندہ اس کو معاف کردے تو یہ بھی صفت احسان ہے اور اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان بندوں سے بھی محبت کرتا ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اللہ کے راستے میں اپنے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی صفیں شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتی ہیں ’’اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الذِیْنَ یُقاتِلْوْنَ فِی سَبِیْلہٖ صَفًّا کانَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ (الصف:04)
اللہ رب العزت کے محبوب بننے کے لیے احادیث میں بھی کئی صفات کا ذکر ہے، یہ مثبت اوصاف ہیں،جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے،بعض اوصاف وہ ہیں جو اللہ کے نزدیک بندوں کو مبغوض بنادیتے ہیں، قرآن کریم میں ان اوصاف کا ذکر لایحب کے ذریعہ کیاگیا ہے، ان کا ذکر پھر کبھی، فی الوقت تو مثبت اوصاف کو اپناکر اللہ کے محبوب بننے کی کوشش کی جائے۔

تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ تیسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ

الحمداللہ کل بروز بدھ شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ تیسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ 
/12/10/2022
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ

اردو دنیا نیوز٧٢
اس پروگرام آغاز قرآن کریم کے ساتھ ہوی 
قاری شہزاد صاحب رحمانی
نعمت پاک مولانا انوار صاحب نے پرھی 
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا فیاض احمد راہی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء  صاحب حضرت قاری انور غفاری صاحب
 مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب
قاری توصیف صاحب مولانا اخلاق صاحب ندوی قاری انوارالحق صاحب قاری رضوان صاحب لکھنئو ی قاری عبد اللہ محمودی  مفتی حفظ الرحمن صاحب
مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری کوثر آفاق صاحب نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢

بدھ, اکتوبر 12, 2022

مچھلی پٹی میں جلسہ سیرت النبی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

مچھلی پٹی میں جلسہ سیرت النبی
 ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ارریہ بازار میں  مچھلی پٹی مشہور ومعروف جگہ کا نام ہے، آس پاس کی آبادی غیر مسلموں کی ہے،انمیں اکثریت بنگالی ہندؤں کی ہے، آٹے میں نمک کے برابر مسلمان وہاں سکونت پذیر ہیں، بقیہ ارریہ نگر پریشد میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد چالیس فیصد سے زیادہ ہی ہے،بعض بعض حصوں کی مکمل آبادی خالص مسلمانوں کی ہی ہے،مگرمچھلی پٹی میں مسلم آبادی برائے نام ہے جنہیں بآسانی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،ایک نوجوان محمد سالک عرف مٹھو ہیں، ان کی تحریک سے ابھی دودن قبل ۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ وہاں سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کیا گیاجو کافی کامیاب رہا ہے،
ڈیڑھ دو گھنٹے کے اس پروگرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے، آنحضور کے اخلاق کریمانہ اور عدل و انصاف پر مفصل گفتگو ہوئی ،
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کا معروف واقعہ پیش کیا گیا کہ، ایک غیر مسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوا اور سات بکریوں کا دودھ پی گیا، رات بھر تمام اہل بیت بھوکا رہا، مگرکسی نے اف تک نہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے،گھر میں جھاڑو دیتے، بازار سے سوداخرید لاتے،جوتی پھٹ جاتی تو خود گانٹھ لیتے اور اپنے ہاتھ سے آٹا تک گوندھ لیتے، یہی  نہیں بلکہ دوسروں کے کام بھی کردیا کرتے،دشمنوں کے ساتھ بھی آپ نے دوستوں جیسا سلوک کرنے کا حکم فرمایا اور کرکے بھی دکھایا،جنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں،راہوں میں کانٹے ڈالے،پاگل کہا، شاعر کہا،جادو گرکہا  آپ نے کسی سے بدلہ نہیں لیا، فتح مکہ کے موقع پر سب کو یہ کہ کر معاف کردیا،
 جاؤ تم سب کو میں نے معاف کردیاہے، تم سبھی آزاد ہو،آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، 
آپ کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی  کو بھی معافی ملی ،اور جس نے آپ کے شہید چچا کے کلیجہ چبا لیاتھا، اسے بھی آپ صلی علیہ وسلم وسلم نے معاف فرمادیاہے، 
 جانوروں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم کی تعلیم فرمائی ہے،قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ کو سب کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، آپ نے یہ پیغام تمام انسانوں کو دیا ہے کہ تم انسان ہو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو،خدا کے بندو!آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایاہےکہ؛تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے،
ایک شخص نے مدینہ کی مسجد میں آکر یہ دعا کی کہ خدایا! مجھ کو اور محمد کو مغفرت عطا فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ، خدا کی رحمت کو تم نے تنگ کردیا،( بخاری )
مذکورہ بالا عناوین پر اس جلسہ سیرت النبی میں سیر حاصل گفتگو کی گئی، جسے سامعین نے بہت ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے۔
قاضی شہر جناب عتیق اللہ صاحب رحمانی نے عورتوں کے حقوق سیرت النبی کی روشنی میں، اس عنوان پر جامع گفتگو کی، اپنی ساس کو بھی ماں کے جیسے عزت دینی چاہیے،اپنی بہو کو بیٹی کے مقام پر دیکھنا چاہئے،آج نشہ میں ہمارا جوان لت پت ہے،اس سے انہیں باہر نکالنے کی فکر کیجئے ،اور نبی کریم کی سیرت کو زندگی میں داخل کیجئے،یہ وقت کا شدید تقاضہ ہے اور اس جلسہ کے انعقاد کے ذریعہ یہی پیغام دینا مقصود ہے۔
جناب الحاج قاری نیاز صاحب قاسمی نے بڑی خوبصورت نظامت فرمائی، اپنی تمہیدی گفتگو میں جوانوں کا اس پروگرام کےانعقاد پر شکریہ ادا کیا، میاں معراج اور سونو بابو کو دعائیں دیں، 
نعت نبی اور اصلاحی نظموں سے جناب عبدالباری زخمی نے جلسہ کو زعفران زار بنادیا۔
شہر کے معروف ومشہور ڈاکٹر جناب آصف رشید صاحب مچھلی پٹی کے ہی رہنے والے ہیں، انہوں نے قاضی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئےیہ کہا ہےکہ، آپ کو یہ پتہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کی تقریر سے زیادہ کس نے فائدہ لیا ہے،سامنے موجود مردوں سے زیادہ خواتین نے اس جلسہ سے کام کی باتیں اخذ کی ہیں ، دیوار سے لگ لگ کر،اپنی چھتوں پر جاکر، گلیوں سے کان لگاکر پورے پروگرام کو وہ سب سن رہی تھیں، اور محظوظ ہورہی تھیں، آپ لوگوں نے وہاں سے صفائی شروع کی ہے جہاں گندگی بہت زیادہ ہے،صفائی کا صحیح طریقہ بھی یہی ہے، ہم نے آج تک یہاں کوئی اس نوعیت کا مفید پروگرام نہیں دیکھا ہے، 
نشہ اور کوریکس پر ہم سب انتظامیہ سے شکایت کرتے رہے،پولس آتی رہی مگر فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں  دوا کی ہے،اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نشستوں کی یہاں شدید ضرورت ہے۔
جلسہ کی کامیابی کی جہاں اپنوں نے شہادت دی ہے وہیں غیروں نے بھی اسے کافی مفید پروگرام  بتلایا ہے،مچلی پٹی  وارڈ نمبر ۲۳کے وارڈ کمشنرجناب منٹو جی جوایک غیر مسلم ہیں، انہوں فون کرکے علماء کرام کا شکریہ ادا کیا ہے، اور اپنی معلومات کے مطابق اسے یہاں کا پہلا پروگرام بتلایا ہے، جسمیں بڑی کام کی باتیں انہیں سمجھ میں آئی ہیں، 
امتیاز صاحب چیرمین، ضلع ارریہ کے سینئر ایڈووکیٹ پدم شری طہ خاموش صاحب شروع سے اخیر تک جلسہ سیرت النبی میں موجود رہے، 
ہم اخیر میں مچھلی پٹی کے ان نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے مچھلی پٹی ہی نہیں بلکہ ضلع ارریہ سے ایک بڑا پیغام دیا ہے، 
جہاں اس وقت خود غرضی اور مفاد ومادہ پرستی کا دور ہے،مسلم نوجوان شہرت کے پیچھے ارریہ سے اتر پردیش چلا جاتا ہے، اور مشہور ہونے کے لیے دین وایمان کا سودا کرلیتا ہے،مگراپنی گلی کی فکر نہیں کرتا ہے، جس چیز میں دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے،اسے بالائے طاق رکھ دیتا ہے اور بالآخر خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور اپنی نسلوں کی ذلت کا سامان بن جاتاہے، 
        اپنی گلی سے یار کا گھر دو قدم پہ تھا 
       دس میل ہم نکل گئے جوش شباب میں 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۴ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...