Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 20, 2022

*خاک کے پتلے میں آگ* ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*خاک کے پتلے میں آگ* 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

شہر ارریہ سے قریب ہی بیلوا گاؤں کا رہنے والاایک نوجوان اپنی بیوی کوگھر میں موجود نہیں پاکر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے ہاتھوں اپنے ہی نوزائیدہ بچے کا گلا گھونٹ کر قتل کردیا ہے۔
 ایک خبرمذکورہ ضلع کے ہی ایک گاؤں سے ملی ہے کہ ایک ماں نے غصہ کی انتہا میں آکراپنے ڈھائی ماہ کے شیر خوار بچے کو پٹک پٹک کرہلاک کردیا ہے، یہ دونوں خبریں اتنی درد ناک ہیں کہ سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی جانور بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتاہے ،مگرایک  انسان نے درندگی کی حد کو بھی غصہ میں آکر پار کر لیا ہےاور اپنی نسل کی تباہی کا سامان کرلیا ہے۔
اکثر وبیشتر طلاق کے واقعات غصہ کی وجہ کر رونما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی باتوں سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور خاندان کی بربادی پر جا کر تمام ہوتا ہے، شوہر نے بیوی سے کھانا مانگا، اور وہ کہ رہی ہے کہ؛میں ابھی آرہی ہوں، ذرا سی دیر ہوئی،میاں جی غضبناک ہوگئے، اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکے،  فائرنگ شروع کردی،طلاق، طلاق، طلاق، بیچاری اب کبھی بھی اپنے شوہر کے پاس آنے کےلائق نہیں رہی ہے،ادھر میاں جی بھی نادم ہیں، مگر معاملہ اب توہاتھ سے نکل چکا ہے۔
آج سماج میں جو شخص سمجھدار سمجھا جاتا ہے وہ بھی بات بات پر غصہ میں آجاتا ہے۔بازار، سڑک، گاؤں،گلی، مسجد، مکتب، مدرسہ کوئی جگہ اس سے پاک نہیں ہے، ہر جگہ غصہ کی کھیتی ہورہی ہے، بروقت اس پر روک نہیں لگائی گئی تو اس کی فصل جب کٹتی ہے تو نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ ایک مسلم سماج میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے،یہ ڈوب مرنے کی بات ہے،اس سےاسلام کی غلط تصویر ملک میں جارہی ہے، اور ہم اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ کا سامان بنتے جارہے ہیں، افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔  
حدیث شریف میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ غصہ شیطان سے ہےاور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے،جب ایک انسان میں غصہ داخل ہوجاتا ہے تواس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس خاک کے پتلے میں شیطانی آگ داخل ہوگئی ہے،یہی وجہ ہےکہ جب غصہ تیز ہوتا ہے تو ایک انسان کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور چہرہ لال ہوجاتا ہے، اور کہتے بھی ہیں کہ وہ آگ بگولا ہوگیاہے،جہاں کہیں آگ نظر آتی ہے آج کے اس گئے گزرے زمانے میں بھی پورا گاؤں اس جانب دوڑ آتا ہے،اور اس کو بجھانے کی فکر کرتا ہے، اوراس وقت تک چین سے کوئی نہیں بیٹھتا جب تک کہ آگ پر قابو نہ پالیا جائے، یہی عمل غصہ کی آگ پر قابو پانے کے لیےاس وقت عمل میں لانے کی ضرورت ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دولوگوں میں کچھ باتیں ہورہی تھیں، انمیں ایک صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہ لال ہوگیا اور رگیں پھول گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ان کی طرف دیکھا اور یہ کہا کہ؛مجھےایک ایسا کلمہ معلوم ہے،اگر وہ اس کو کہ لے تو یہ غصہ جاتا رہے،اور وہ یہ ہے،اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم۔(بخاری )
مذکورہ حدیث سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کبھی یہ موقع آئے اور کسی کواس آگ میں جلتامحسوس کرے تو اس کو بجھانے کی فکر کرناسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ہے،موجودہ وقت میں یہ سنت ہماری زندگی میں نہیں ہے،اسے زندہ کرنا سو شہیدوں کے اجر کا حامل ہوناہے،اور یہ بات بھی اس حدیث سے معلوم ہوئی کہ اس آگ پرقابو پانے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی پناہ ضروری ہے۔
 بغیر قرآن وحدیث کی رہنمائی لیےاسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی عام آگ نہیں ہے ،یہ انسان کے اندر لگی ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو طاقتور کہا ہے جو اپنے غصہ پر قابو پالیتا ہے،اس کا مطلب واضح ہے کہ غصہ پر قابو پانے والا درحقیقت شیطان کے مقابلے میں فتح پانے والا ہے۔
غصہ سے بچنے کی دوسری تدبیر وضو ہے، غصہ شیطان سے ہے،اور وہ آگ سے پیدا ہوا ہے،شیطان انسان کی رگوں میں گھس جاتا ہے،اوراندر اندر ہی آگ لگاتا ہے،آگ کو پانی بجھادیتا ہے،اس لیے حدیث شریف میں اس موقع پر وضو کی تعلیم دی گئی ہے۔یہ اس کا علاج ہے،وضو انسانی مزاج میں برودت اور ٹھنڈک پیدا کردیتا ہے، اور اس سے غصہ کافور ہوجاتا ہے۔
تیسری تدبیر ہیئت کی تبدیلی ہے،غصہ ور انسان کھڑا ہے تواسے بیٹھ جانا چاہئے، اور اگربیٹھا ہے تو لیٹ جانا چاہیے، ایک روایت میں زمین سے لگ جانے کا بھی حکم ہے۔یہ ایک انسان کو عملی طور پر اپنی پیدائشی چیز مٹی سے قریب کردینا یے۔
آج اس شیطانی آگ میں جلتے ہوئے انسان کو بچانے کی تحریک شدید ترین ضرورت ہے، ایک مسلمان کی ذمہ داری  اس تعلیم پر عمل کرنے کی اور اس کو عام کرنے کی بھی ہے،ایک آدمی نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ؛مجھے کوئی نصیحت فرمائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛غصہ مت کرو، اس کو یہ نصیحت معمولی لگی تو دوبارہ اس نے یہ عرض کیا کہ نصیحت کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو، سہ بارہ گزارش کی تو تیسری بار بھی آپ صلی علیہ وسلم کا یہی جواب رہا کہ غصہ مت کرو (بخاری )
حدیث شریف کی دوسری کتابوں میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ان صاحب نے اپنی زندگی میں غور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ساری برائیوں کی جڑغصہ ہی ہے، 
آج سماج اور معاشرہ کا یہی حال ہے، اور اس سے بڑی نصیحت موجودہ وقت کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ؛غصہ مت کیجئے۔
   ع۰۰خون کا شربت پی کے پیاس بجھاتا ہے
             غصہ علم ودانش کو کھا جاتا ہے 
              طاقت ور ہے وہ انسان زمانے میں 
               اپنے غصہ پر جو قابو پاتا ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۳/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

بدھ, اکتوبر 19, 2022

حجاب پر ججوں میں اختلاف

حجاب پر ججوں میں اختلاف 
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اسکول ڈریس کے ساتھ آنے کے لزو م کے ساتھ حجاب پر پابندی لگا دی گئی تھی ، با غیر ت و باحمیت ہماری بچیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور احتجاج کارگر نہیں ہوا تو انہوں نے اسلامی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اداروں میں جانا بند کر دیا۔ نتیجۃً ان کا تعلیمی سال برباد ہوا اور ان کے مستقبل پر سیاہ بادل چھا گئے ۔لیکن ان لڑکیوں کی واضح رائے تھی کہ حجاب کے بغیر ہم اسکول نہیں جائیںگے۔اور شریعت کے حکم پر عمل کو حصول تعلیم پر فوقیت دیں گے ۔کیوںکہ ہندوستان میں یہ ہمارادستوری حق ہے ۔ اور اس دستوری حق کے حصول کے لیے 15مارچ 2022کو کرناٹک کے ضلع اوڈوپی کی کچھ طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی کہ انہیں کلاس روم میں حجاب کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاپ پر پابندی کو برقرار رکھا ، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا ، دورکنی بنچ میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی سماعت کی اور 13اکتوبر 2022کو دونوں ججوں نے فیصلہ سنایا ، جس میں دونوں کی رائے مختلف تھی ،جسٹس ہیمنت گپتا کا فیصلہ پابندی برقرار رکھنے کے حق میں تھا جبکہ جسٹس دھولیا کا فیصلہ پابندی ہٹا لینے کے حق میں آیا۔
جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اسکولوں میں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے ، لیکن نظم و ضبط کا قیام آزادی اور وقار کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا ۔کسی طالبہ کو اسکول کے گیٹ پر حجاب اتارنے کے لیے کہنا اس کی پرائیویسی اور وقار پر حملہ ہے ، انہوں نے دستور ہند کی دفعہ(1) 19اور دفعہ (1)25کا حوالہ دیتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو غلط ٹھہرایا اور اسے کالعدم قرار دیا۔
دوسری طرف جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا ، انہوں نے بحث کے دوران کہا تھا کہ اگر لباس کے انتخاب کی اجازت کو بنیادی حق مانا جائے تو برہنہ رہنے کو بھی اسی زمرے میں لانا پڑے گا۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی سوچ کس طر ف جا رہی ہے۔ججوں کے فیصلہ میں اس اختلاف کی وجہ سے کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ابھی برقرار رہے گا اور چیف جسٹس اب اس معاملہ کو بڑی بنچ کے حوالہ کریں گے، جو کم ازکم تین ججوں پر مشتمل ہوگی ۔اس کا مطلب ہے کہ حجاب ابھی کچھ اور دنوں تک بحث کا موضوع بنا رہیگا۔

منگل, اکتوبر 18, 2022

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطفال سوگوار

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اطفال سوگوار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نئی دہلی۔۔ ( رپورٹ سراج عظیم) 17اکتوبر ۔۔۔ اچل پور، امراوتی کے مزاح نگار بابو آر کے کی اطلاع کے مطابق آج صبح آٹھ بجے مشہور و معروف شاعر اور ادیب الاطفال متین اچل پوری کا انتقال ہوگیا۔ متین اچل پوری پچھلے ایک سال سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک بڑا آپریشن بھی ہوا تھا جو کامیاب نہیں ہو پایا تھا جس کی وجہ سے مرض میں مزید شدت آگئ تھی۔ متین اچل پوری کے انتقال کی خبر سے پورا اردو ادب خصوصاً ادب اطفال سوگوار ہے۔ متین اچل پوری کی پیدائش 18جنوری 1950 کو اچلپور ضلع امراوتی میں ہوئ۔ اردو میں ایم اے اور بی ایڈ کیا۔ اس کے بعد انکا تقرر ایک مدرس کی حیثیت سے ہوگیا۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز 1970 میں کیا۔ بڑوں کی شاعری کے ساتھ انھوں نے اپنی شاعری کا محور بچوں کے ادب پر مرکوز رکھا۔ چونکہ متین صاحب ایک مدرس تھے اس لئے وہ بچوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے اور انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا زیادہ عرصہ ادب اطفال میں صرف کیا۔ انھوں نے بچوں کے ادب میں جہاں سائنسی نظمیں، ماحولیاتی نظمیں تحریر کیں وہیں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کو صدر جمہوریہ سے بہترین مدرس کا ایوارڈ بھی 1990 میں حاصل ہوا۔ متین اچل پوری کو مختلف تنظیموں اور سرکاری اداروں نے بھی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔ متین اچل پوری نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں تقریباً پچاس سے اوپر بچوں اور بڑوں کی کتابوں کا سرمایہ چھوڑا ہے۔ متین اچل پوری کے سانحۂ ارتحال پر ادب اطفال کی شخصیات نے اپنے رنج و ملال کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے سکریٹری محمد سراج عظیم نے متین اچل پوری کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متین صاحب ادب اطفال کا ایک متحرک نام تھا جنھوں نے بچوں کے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا اور ادب اطفال میں اپنی ایک طویل روایت کے طور بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ اس دور کی ادب اطفال کی تاریخ میں متین اچل پوری کا نام سرفہرست سنہرے الفاظ میں تحریر ہوگا۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے سابق نائب صدر و معروف شاعر انتظار نعیم صاحب ، رسالہ الفاظ ہند کے مدیر و مالک ریحان کوثر صاحب، کردار آرٹ تھئیٹر گروپ کے چئیرمین اور ڈراما نگار اقبال نیازی، گل بوٹے کے فاروق سید، خیر اندیش کے مدیر مالک اور بچوں کے شاعر خیال انصاری صاحب نے اور ادب اطفال کے ادباء و شعرا نے اپنے گہرے رنج و غم  کا اظہار کیا۔ متین اچل پوری کے جسد خاکی کی تدفین حضرت دولہا شاہ رح علیہ کے مزار کے احاطے میں بعد نماز عصر عمل میں آئ۔

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)
امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی و مولانا احمد حسین مدنی کا خطاب
حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کی سر پرستی میں امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے تمام شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ سی بی ایس ای کے پانچ نئے اسکول قائم ہوئے اور دس دار القضاء کا قیام عمل میں آیا، اسی کے ساتھ شعبہ تعلیم کے تحت سو سے زائد مکاتب دینیہ جو خود کفیل ہیں، مختلف اضلاع میں نئے سرے سے قائم ہوئے ہیں۔ 
صیغہئ تعلیم کے تحت شروع سے بین المدارس و المکاتب معلمین کے لیے تربیتی اجتماعات کا انعقاد ہو تا رہا ہے۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی منظوری سے مدینہ مسجد بہار شریف میں سہ روزہ تربیتی اجتماع ہورہا ہے، جس میں مکاتب کے معلمین و اساتذہ کے ساتھ مساجد کے ائمہ بھی بڑی تعداد میں شرکت فرما رہے ہیں، آج دوسرے دن مرکزی دفتر امارت شرعیہ سے دو مہمان خصوصی نے اس جاری ورک شاپ میں حصہ لیا، امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب انچارج صیغہ ئ تعلیم اور مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ کا اس تربیتی اجتماع سے خصوصی خطاب ہوا۔ مولانا احمد حسین قاسمی نے حضرات معلمین کوان کے مقام و منصب کا دینی و شرعی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا معلم خود رب کائنات ہے۔ جس نے حضرت آدم علیہ السلام یعنی پہلے  انسان کو تمام ناموں کا علم سکھایا، پھران کی آنے والی تمام نسلوں کی تربیت و ہدایت کے لیے بہ حیثیت معلم حضرات انبیاء کا انتخاب فرمایا۔ چناں چہ آخری نبی  جناب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کی نمایاں حیثیت کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”انما بعثت معلماً“ میں تمہارے درمیان استاذ و معلم کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا گیا ہوں۔ 
 نبی کے وارث اور ان کے جانشیں ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی حیثیت بھی بہ حیثیت معلم پہچانئے۔ آپ کے سپرد ہماری نئی نسل ہے، جن کی انسانی، دینی و معاشرتی تربیت کر کے بہترین انسان اور کامل مسلمان بنانے کا فریضہ آپ کے ذمہ ہے۔ انہوں نے فن تدریس پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ معلومات ہونا الگ شئی ہے، مگر ان کو بچوں میں منتقل کرنا الگ شئی ہے، جس کے لیے ٹریننگ اور تربیت بہت ضروری ہے۔ تدریس ایک اہم آرٹ اور فن ہے، جسے سیکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے امارت شرعیہ علماء و معلمین اور ائمہ مسائد کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کرتی ہے۔
 مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے حضرات معلمیں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تدریس اور سکھانے کا عمل کار نبوت کا حصہ اور نبوی کام ہے، اس کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ جد و جہد اور قربانی درکار ہے، آپ بے لوث ہو کر محنت کریں، اللہ آپ کی محنت کا بدلہ عطا کرے گا۔ آج پوری امت کا سب سے بڑا مسئلہ نئی نسلوں کی دینی و اسلامی تربیت ہے، جس اہم کام کو آپ انجام دے رہے ہیں۔اگر یہ کام آپ نے کما حقہ کر دیا تو آئندہ کے لیے ہماری نسل محفوظ ہو جائے گی۔ آپ نے بہت کم وقت میں نہایت جامع باتیں بتائیں۔ آج کی دوسری نشست بعد نماز ظہر بہار شریف کے عمائدین پر مشتمل تھی، جس میں امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین  نے حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ ملک کی نازک صورتحال میں ہمارے کرنے کے جو اہم کام ہیں، ان میں پہلا کام اپنی نئی نسل کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنا ہے، اس کے لیے امارت شرعیہ تحریک چلا رہی ہے، ائمہ مساجد کے تربیتی نظام کا سلسلہ ہر ضلع میں جاری ہے۔مسلمان اپنی مساجد کو مرکز بنا کر اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیں، ہر مسجد میں بنیادی دینی تعلیم کے لیے مکتب کا نظام، نما زبا جماعت کی طرح قائم ہو۔ حضرت مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے ملت اسلامیہ کی فکر فکر و عمل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنی نماز با جماعت سے سبق حاصل کر یں، جس طرح ہم مسجد میں امام کی اطاعت کرتے ہیں، مسجد سے باہر ایک امیر شریعت کی اتباع کو لازم سمجھیں۔ اور کلمہ کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں۔ 
واضح رہے کہ اس پروگرام کی نظامت مولانا منت اللہ حیدری فرما رہے تھے۔ اس موقع پر مولانا منصور قاسمی قاضی شریعت بہار شریف بھی پیش پیش رہے، شہر کے مخلصین کے تعاون  سے تمام علماء و معلمین کی میزبانی آسان ہو سکی۔معلمین کی تربیت کرنے والے علماء میں مولانا عبد الوالی منانی قاسمی، حافظ عالمگیر صاحب استاذ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی سیتا مڑھی اور مولانا مامون الرشید صاحب مدرسہ طیب المدارس پریہار، سیتا مڑھی کے نام اہم ہیں۔

اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

اسقاط حمل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اے ایس بوپننا کی سہ نفری بینچ نے شادی شدہ ، غیر شادی شدہ اور ریلیشن شپ یعنی بغیرشادی کے مردوںکے ساتھ رہنے والی عورتوں کو چوبیس ہفتے یعنی کم وبیش چھ (۶)ماہ تک محفوظ اسقاط حمل کی اجازت دیدی ہے، سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ایم ٹی پی ایکٹ ترمیم شدہ ۲۰۲۱ء کی دفعہ ۳(۲) جی کے تحت سنایا، یہ قانون اصلا شادی شدہ خواتین کے اسقاط حمل سے متعلق ہے، لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو اس قانون سے الگ رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے ، ایسا کرنا آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ کے خلاف ہوگا، عدالت نے شوہر کے ذریعہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر جنسی تعلقات جسے قانون کی زبان میںازدواجی عصمت دری کہاجاتاہے کے نتیجے میں ٹھہرنے والے حمل کو بھی اس دائرہ میں لانے کی ضرورت پر زور دیا، اور ہدایت دی کہ حاملہ اگر نا بالغہ ہو تو اس کے نام کی تشہیر بھی نہیں کی جا سکتی، پاکسو ایکٹ ( POCSO ACT.2012)کے تحت اس کی پابندی بھی لازمی ہوگی۔
عدالت نے یہ فیصلہ ایک پچیس سالہ غیر شادی شدہ حاملہ عورت کی عرضی پر سنائی ہے، یہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ذریعہ اپنی مرضی سے حاملہ ہو گئی تھی اور اسے تئیس(۲۳) ہفتے ، پانچ (۵)دن کا حمل تھا، جسے وہ ضائع کرانا چاہتی تھی،دہلی ہائی کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ سے باہر مانا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے ایم ٹی پی ایکٹ کے دائرے میں مان کر اسقاط حمل کی اجازت دو ڈاکٹروں کی ٹیم کے معائنہ کے بعد محفوظ اسقاط کی صورت میں دیدی۔
 ایم ٹی پی (MEDICAL TERMINATION OF PREGNANC) ACT۱۹۷۱میں بنایا گیا تھا، ۲۰۰۳ اور ۲۰۲۱ء میں اس میں ترمیم کی گئی اور اسقاط حمل کی اجازت بیس (۲۰) ہفتہ سے بڑھا کر چوبیس (۲۴) ہفتے کر دی گئی جس کا مطلب ہے کہ چھ ماہ تک یہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی قتل، حمل کے دوران کیا جا سکتا ہے، یہ وہ مدت ہے جس میں بچہ میں روح پڑجاتی ہے اور اس کے اعضاء تکمیل کے مرحلے سے گذر رہے ہوتے ہیں، بلکہ اسلام کی روشنی میں یہ بچہ اس قدر مکمل ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح وسالم اس مدت میں پیدا ہو سکتا ہے، سات آٹھ ماہ کے اندر ولادت کے واقعات عجوبے کے درجے میں نہیں ہوتے، ایسے بچے عموما لا غر اور کمزور ہوتے ہیں، جن پر خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور بس ، بتانا صرف یہ ہے کہ چوبیس(۲۴) ہفتے میں بچہ ولادت کے مرحلہ سے بھی گذر سکتا ہے اورعقلی اعتبارسے اس کا اسقاط ایک بچے کے قتل کے دائرہ میں آناچاہے۔
 عدالت کے اس فیصلے کی بنیاد عورت کی خود مختاری کے حقوق بالفاظ دیگر ــ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘کے اصول پر مبنی ہے، اس طرح کی اجازت سے جنسی بے راہ روی بڑھے گی، کیوں کہ تعلق قائم کرنے والی عورت کو اسقاط حمل کی اجازت کی وجہ سے قانونی تحفظ حاصل ہوگا اور تعلق قائم کرنے والامرد مطمئن ہوگا کہ اس پر بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں آئے گی، کیوں کہ وہ دنیا میں آئے گا ہی نہیں۔
 خواتین کے حقوق سے متعلق تنظیموں نے اس فیصلے کی ستائش کی ہے، پرینکا چترویدی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ہے ’’سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر عورت کو اپنے جسم پر اختیار کا مساوی حق ہے، سپریم کورٹ نے تمام عورتوں کو برابر کا حق دیا ہے، سماج کو چاہیے کہ وہ عورتوں کے بنیادی حقوق، مساوات، پرائیویسی اور ان کے اپنے جسم کے تئیں حقوق کو سمجھے‘‘۔
 برابری کے اس حق کو تووہ ممالک جن کے یہاں عورتوں کی آزادی کا تصور عام ہے، وہ بھی منظور نہیں کرتے، مغربی یورپی ، افریقی اورایشیائی چوبیس ممالک میںاسقاط حمل قابل سزاجرم ہے ابھی اسی سال ماہ جون میں امریکہ نے ۱۹۷۱ء کے اسقاط حمل قانون میں تبدیلی کرکے اسے ممنوع قراردیدیاہے جس کی وجہ سے اسقاط کاحق قانونی باقی نہیں رہا، امریکہ میںاحتجاج اورمظاہروںکے بعدیہ حق ریاست کودیدیاگیاہے کہ وہ مقامی طورپر اس سلسلے میں کوئی فیصلہ لے جب اسقاط حمل کووہاںقانونی حق حاصل تھاتوبھی زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک اس حق کااستعمال کیاجاسکتاتھا،لٹن امریکی دیش السلواڈورمیں حمل کے ضائع ہونے کی صورت میں عورت کوتیس (۳۰)سال تک کی سزاہوسکتی ہے، انگلینڈ اور آئرلینڈ میں اسقاط عورت کاحق ہے، وہ اگربچے کوآنے نہیںدیناچاہتی ہے تواسقاط کرواسکتی ہے،لیکن جاپان میں اسقاط حمل اور  مانع حمل دواؤں کے استعمال کے لئے بھی شوہر کی اجازت کی ضرورت ہے، کیوں کہ حمل میں پلنے والا بچہ صرف عورت کا نہیں،مرد کا بھی ہے اور پیدا ہونے کے بعد اسے والد کا نام ملے گا، اس لیے مرد کی اہمیت کو حمل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،جن ملکوںمیں اسقاط پر پابندی ہے ، وہاںحمل میں پلنے والے بچے کے حقوق کی رعایت کی گئی ہے، کیوں کہ وہ بھی ایک روح ہے اوراسے بھی دنیادیکھنے کاحق ہے ، یہی اسلام کاموقف ہے اس لئے ہماری گذارش ہے کہ  اس فیصلہ پر عدالت کو نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ہر ایک کے حقوق کی رعایت ہو سکے۔
عدالت نے بغیر بیوی کی رضا مندی کے جنسی تعلق کو بھی عصمت دری (ریپ) کے زمرے میں رکھنے کی ضرورت بتائی ہے، یہ رولنگ نہیں، فیصلے کا حصہ ہے، اس لیے نظیر کے طور پر آدھا کام تو ہو گیا ، دوسرے آدھے کی تعیین اگلی سماعت میں ہو جائے گی، اس کی وجہ سے خواتین کی طرف سے شوہروں کو ہراساں کرنے اور خانگی تشدد کا بازار بھی گرم ہو سکتا ہے، اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس فیصلے کامنفی اثرسماج پر پڑے گا۔

پیر, اکتوبر 17, 2022

مدارس اسلامیہ کاسروےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارس اسلامیہ کاسروے
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مدارس اسلامیہ اور ملی تنظیموں کی مخالفت کے باوجود اترپردیش حکومت نے آزاد مدارس کے سروے کا کام شروع کردیا ہے ، کام کا آغاز دیوبند کے دار العلوم زکریا سے کیا گیا ہے ، یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے ، کیوں کہ بہت سارے مدارس مغربی یوپی میں ہی واقع ہیں، دیوبند تو مدرسوں کا شہر ہے ، یہ سروے کرنے والے اب دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم اور ندوۃ العلماء تک پہونچ گیے ہیں، یقینا مدارس اسلامیہ جو خدمات انجام دے رہے ہیں، اس میں کہیں بھی انگشت نمائی کا موقع نہیں ہے ، لیکن جانچ کرنے والوں کی نفسیات بھی پولس والوں سے کم نہیں ہوتی، جس طرح پولس والے اگر کسی کی گاڑی کو ہاتھ دے دیں تو کچھ نہ کچھ کمی نکال دیتے ہیں، ویسے ہی جانچ کرنے والی ایجنسیاں غیر ضروری طور پر مدارس والوں کوہراساں کرنے کی کوشش کریں گی، جانچ کا یہ کام بہبودیء اطفال کی منصوبہ بندی کے نام پر کیا جارہا ہے اس لیے مدارس کے طلبہ کے خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی جانچ کے دائرہ میں آئے گا اور سروے کے بعد یہ ممکن ہے کہ بہت سارے مدارس کو اسی حوالہ سے یا تو آسام سرکار کی طرح اترپردیش کی یوگی حکومت بند کردے یا ایسے شرائط لگادے جن کا پورا کرنا چھوٹے مدرسوں والوں کے لیے خصوصاً ممکن نہ ہوسکے ۔
اترپردیش میں اگر یہ سروے بہبودیٔ اطفال کے لیے کیا جارہا ہے تو گروکل، پاٹھ شالے اور دوسرے مذاہب کے اقامتی تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں کرایا جا تا، بلکہ خود سرکاری اسکولوں میں ملنے والے دوپہر کی خوراک کا جائزہ حکومت کیوں نہیں لیتی اور وہاں جو غیر معیاری غذائیں ملتی ہیں کیوں وہ بہبودیء اطفال کے خلاف نہیں ہیں،
حکومت نے مدارس کے سروے کے لئے جو سوالات تیار کیے ہیں، ان میں سوالوں کی تعداد بارہ ہے ، مدرسہ کانام، مدرسہ چلانے والے ادارہ کا نام، مدرسہ کے قیام کا سال، مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا اس کا اپنا مکان ہے ، پینے کے پانی کی سہولت، بیت الخلا کا نظم، بجلی کی سہولت ہے یا نہیں، مدرسہ میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، مدرسہ کا نصاب، مدارس کا ذریعہ آمدنی کیا ہے اور وہ مدارس کس تنظیم کے تحت چل رہے ہیں، جہاں تک مدارس کی مالیات کا تعلق ہے پورا ہندوستان اور خود سرکار بھی اس بات کو جانتی ہے کہ مدارس کے ذمہ دار، سفرائ، اساتذہ اور محصلین دوکان دوکان اور گھر گھر جاکر مسلمانوں سے خیرات، زکوٰۃ، صدقات، عطیات وغیرہ کی رقومات حاصل کرتے ہیں، بڑی محنت کے باوجود مدارس کا سالانہ بجٹ پورا نہیں ہوتا اور کئی کئی مرتبہ ان کی تنخواہ باقی رہ جاتی ہے ، پھر موسم بہار رمضان آجاتا ہے ، دوبارہ محنت شروع ہوتی ہے تو اساتذہ کی تنخواہیں ادا ہوتی ہیں، خورد و نوش اور رہائش کا معیار بھی آمدنی کے اعتبار سے طے ہوتا ہے ، مدارس کے ذمہ داران اس بات کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اچھا سے اچھا کھلایا جائے ، اچھی طرح ان کی بود و باش ہو، لیکن چھوٹے مدرسوں کے لیے ایسا کرنا عملاً ممکن نہیں ہوتا، یہ ویسے ہی ہے ،جیسے ہم اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہیں، کون نہیں چاہتا کہ اپنے بچوں کو اچھی رہائش اور اچھی خوراک فراہم کرائے ، لیکن سارا کچھ آمدنی پر منحصر ہوتا ہے ۔ آمدنی نہ ہو تو گھر میں بھی روٹی چٹنی پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور کبھی فاقہ کشی کی بھی نوبت آتی ہے ، ہر مدرسہ ایک خاندان کی طرح ہے اور اس کا سب کچھ چندے کے ذریعہ آمدنی پر منحصر ہوتاہے ۔ اور یہ نوبت اس حالت میں آتی ہے کہ وہاں پڑھانے والوں کی تنخواہیں یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے والوں سے بھی کم ہوتی ہے ، یہاں کے اساتذہ بقدر کفاف روزینہ پر کام کرتے ہیں، ان کی نظر اجرت پر نہیں اللہ رب العزت کی جانب سے ملنے والے اجر پر ہوتی ہے ۔ اور وہ آخرت کی امید پر قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیں، عمومی احوال یہی ہیں، ہوسکتا ہے بعض مدارس کثرت آمدنی کے باوجود طلبہ کی خوراک، اساتذہ کی تنخواہ اور بود وباش کو معیاری نہیں بناتے ہوں، لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوا کرتا ہے ۔
اترپردیش کے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری نے اس سروے کا جواز یہی بتایاتھا کہ اس سروے کے ذریعہ دینی مدارس میں پڑھ رہے بچوں کو دی جانے والی مراعات کی جانچ کی جائے گی اور تحفظ حقوق اطفال کمیشن کے مطلوبہ معیار کو سامنے رکھا جائے گا۔ مطلب صاف ہے جو مدارس اس معیار پر پورا نہیں اتریں گے ۔ ان کے لئے سرکار مصیبتیں کھڑی کرے گی اور غریب مسلمانوں کے جوبچے ان مدارس میں تعلیم پاکر آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے راستے مسدود کردیے جائیں گے ۔ مسلمانوں کا تعلیمی گراف جو پہلے ہی دوسرے مذاہب کے مقابلے انتہائی کم تر ہے ۔ وہ جہالت میں خطرے کے نشان سے نیچے چلاجائے گا، ایسے میں ہمیں سرکار سے تصادم یا تعاون کے نقطہ نظر سے غور کرنا چاہیے ، جو مفید ہو اس کی طرف مدارس والوں کی رہنمائی کی جائے ۔ جو بھی قدم اٹھایا جائے متحد ہوکر اٹھایا جائے ، اگر سب لوگ الگ الگ تجاویز لاکر اس پر عمل کرانا چاہیں گے تو یہ ناممکن سا ہوگا اور ہماری آواز بھی کمزور ہوگی، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ بھی اس سلسلے میں کافی فکرمند ہیں، امید کی جاتی ہے کہ ان کی فکرمندی کے نتیجہ میں جلدہی کوئی لائحہ عمل سامنے آئے گا۔ممکن ہے امارت شرعیہ تحفظ مدارس کے عنوان سے کوئی اجلاس بلائے ۔

اتوار, اکتوبر 16, 2022

موت کوئی حادثہ نہیں ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

موت کوئی حادثہ نہیں ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
جامعہ تجوید القرآن میر نگر ارریہ میں ناظم مدرسہ جناب مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی کی نظامت میں مرحوم سبطین احمد کے لیےایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی،مولانا جسیم الدین صاحب حسامی اوراساتذۂ جامعہ وطلبہ کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر کی ایک قیمتی تعداد موجود تھی، مہمان خصوصی کی حیثیت سے جناب حضرت مولانا افتخاراحمد صاحب قاسمی استاد حدیث جامعہ اکل کواں نے اپنے صدارتی بیان میں مجمع کو خطاب کرتے ہوئےیہ کہا ہےکہ؛ مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم سبطین احمد بڑی خوبیوں کے حامل تھے،تعلیمی وملی خدمات میں پیش پیش رہتے، انسان میں کمیاں بھی ہوتی ہیں، مرنے کے بعد کمیوں کا نہیں بلکہ خوبیوں کا ذکر کرنے کا حکم ہے،اپنی خوبیوں سے انسان زندہ رہتا ہے، قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے جو نفع کی چیز ہوتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے، اس دنیا کا یہ اصول ہے کہ پھل دار درخت کو دشمن بھی نہیں اکھیڑتا ہے،اور خاردار درخت کو دوست بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے،مرحوم کم سخن تھے مگر علم وعلماء کے قدردان تھے،یہ ان کے بڑے ہونے کی دلیل ہے،
درحقیقت بڑے لوگ وہی  ہیں جو علم وعلماء کی قدر کرتے ہیں، ایک واقعہ سلطان سبکتگین کا یاد
آگیا ہے، پہلےیہ کوئی بادشاہ نہیں تھا بلکہ بادشاہ کی فوج کا ایک ادنی ملازم رہا ہے، ایک موقع پر ان کے گھر ایک عالم تشریف لائے، انہوں نے بڑی تکریم کی، جب روانگی کا وقت ہوا تو ساتھ ساتھ چلے، چلنے میں چند قدم اس عالم سے آگے نکل گئے تھے، فورا اپنے کو پیچھے کیا، اورچھ قدم پیچھے ہوگئے، اللہ نے اس کے صدقے ان کے چھ نسلوں میں بادشاہت عطا کی، سلطان محمود غزنوی انہیں کی لائق وفائق اولاد ہے،آپ اگر یہ سوچیں اس وقت ہمیں بادشاہت نہیں مل سکتی ہے تو یہ سوچ غلط ہے،اصل بادشاہت تو دلوں پر ہوتی ہے، اس وقت جو دلوں پر حکومت کرتا ہے وہی دراصل بڑا فاتح ،اور ایک عظیم انسان ہے،وہ چپ اور خاموش بھی بیٹھا رہتا ہے مگر وہ بڑا ہے،بقول شاعر 
 ع۰۰۰     یہ الگ بات کہ خاموش کھڑے رہتے ہیں 
    پھر بھی جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں 
مرحوم کے والد گرامی قدر جناب پروفیسر الحاج رقیب احمد صاحب اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں، انہیں دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہے اور غم بھی،غم اس بات پر کہ جوان بیٹا باپ کے سامنے فوت ہوگیا ہے، یہ ایک باپ کے لیے صدمہ کی بات ہے، مگر خوشی اس بات پر ہورہی ہے کہ انہیں صبر جمیل نصیب ہوا ہے، ہشاش بشاش ہیں،اپنے چھوٹے بیٹے انجینئر ابوسفیان صاحب اور مرحوم کے اکلوتے بیٹے ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے اہل خانہ کو سنبھالنے کا کام کررہے ہیں، یہ بڑی بات ہے، 
قرآن کریم کا یہی پیغام ہے،خدا تعالی نے صبر کرنے والوں کو بشارت دی ہے،جب کوئی جانی مالی نقصان کا سامنا اہل ایمان کو ہوتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، قرآنی یہ جملہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہتا ہے تو دنیا وآخرت کی بھلائیاں اسے نصیب ہوجاتی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون کے دو مطالب لیے جاسکتے ہیں، ایک یہ کہ اے اللہ یہ اولاد کی شکل میں دی ہوئی امانت آپ کی ہی ہے، آپ نے واپس مانگ لیا ہے تو بخوشی ہم اس کو واپس کررہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ہم بھی تیار بیٹھے ہیں، جب بھی بلاوا آئے گا ہم بھی واپس چلے جائیں گے، دوسرا مفہوم یہ کہ اے اللہ! اس مصیبت کی گھڑی میں ہم آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں، جو حکم آپ نے اس موقع پر اہل ایمان کو دیا ہے بسروچشم اسے قبول کرتے ہیں، ہم آپ کی مرضی کے خلاف نہ کچھ کہنے جارہے ہیں اور نہ کچھ کرنے جارہے ہیں، موت ایمان والوں کے لیے کوئی حادثہ نہیں ہےبلکہ ایک تحفہ ہے،جب بندہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس پر اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
اس دنیا میں خوشی بھی ہے اور غم بھی ہے،زندگی تو اسی کا نام ہے،ترمذی شریف کی حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جب کسی کا بچہ فوت ہوجاتا ہے،تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی؟ باوجود یہ کہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے،فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نکال لی ہے،پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے نے اس پر کیا کہا ہے؟فرشتے کہتے ہیں؛اس نے آپ کی حمد کی ہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ہے،  اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے میرے بندے کے لئے جنت میں ایک گھر بنادو جس کا نام بیت الحمد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...