Powered By Blogger

جمعہ, اکتوبر 21, 2022

مولانا سید مسرور احمد مسرورجن کے جانے پہ آگئے آنسو

مولانا سید مسرور احمد مسرور
جن کے جانے پہ آگئے آنسو
اردو دنیا نیوز ٧٢
  ✍️ محمد سراج الہدی ندوی ازہری
دار العلوم سبیل الســـــــــلام، حیدرآباد

   21/اگست 2022ء مطابق 22/محرم الحرام 1444ھ بروز اتوار کی بات ہے، معمول کے مطابق فجر سے پہلے بیدار ہوا، ابھی بستر ہی پر تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھا تو عزیزم مفتی محمد نعمت اللہ سبیلی، بانی و ناظم معھد القرآن، مریم کالونی، کتہ پیٹ، حیدرآباد کا فون تھا، بے وقت فون پر تعجب تو ہوا؛ تاہم مجھے اندازہ ہوچلا تھا، علیک سلیک کے فوراً بعد ہی کہہ پڑے کہ ابھی ابھی تہجد کے آخری وقت میں مولانا سید مسرور احمد مسرور صاحب نے حیدرآباد کے عثمانیہ ہاسپٹل میں آخری سانس لی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فجر سے متصل ہی مولانا مرحوم کی لاش دار العلوم سبیل الســـــــــلام حیدرآباد سے قریب ان کی قیام گاہ پر لائی گئی، جوں جوں خبر عام ہوتی گئی، اہلِ تعلق اور محبین و مخلصین کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، نماز جنازہ دار العلوم سبیل الســـــــــلام حیدرآباد کے وسیع و عریض احاطے میں ظہر کی نماز کے بعد ان کے بڑے برادر نسبتی محترم سید احمد صاحب نے پڑھائی، جس میں اساتذہ و طلبہ کے علاوہ ایک جم غفیر نے شرکت کی اور تدفین بارکس کی مسجد "نور عين" سے متصل قبرستان میں عمل میں آئی۔

     مولانا سید مسرور احمد مسرور بن سید مشرف حسین کا تعلق سادات خاندان سے تھا۔ آپ کے آبا و اجداد اصلاً بہار کے ضلع "چھپرہ" کے رہنے والے تھے، جن میں ایک مشہور شخصیت سید ریاست حسین کی تھی، جو اپنے وقت میں پولیس محکمہ میں داروغہ کے عہدے پر فائز تھے، ان کا ٹرانسفر "چترا" ہوا، جو ابھی صوبہ جھارکھنڈ کا ایک ضلع ہے، تو افرادِ خاندان "چھپرہ" ضلع سے "چترا" ضلع منتقل ہو گئے، اس وقت کے راجہ مہاراجہ نے ان کی حسنِ کارکردگی پر "رَکْسی" گاؤں میں بڑی جاگیر دی تھی، زمانہ گزرتا رہا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ایک راجہ، جسے آج بھی عوام کی زبان میں "نکٹا راجہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی نیت خراب ہوئی اور مولانا مرحوم کے جدِّ امجد کے باغ کو لینا چاہا؛ لیکن مولانا کے اجداد نے دینے سے انکار کردیا، پھر آپس میں مخاصمت ہوئی، کچھ زمین کی نیلامی ہوئی اور کچھ پر غیروں نے دھیرے دھیرے قبضہ کرنا شروع کردیا، تو مولانا مرحوم کے افرادِ خاندان نے نقلِ مکانی کرنا ہی بہتر سمجھا، اس طرح یہ خاندان مختلف جگہوں پر آباد ہوگیا۔ مولانا مرحوم کے والدِ محترم سید مشرف حسین کی شادی ضلع گیا کے "کوٹھی" گاؤں میں ہوئی، تو آپ وہیں آباد ہوگئے، اس طرح مولانا سید مسرور احمد مسرور کی ولادت، پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت، سب کچھ نانیہال ہی میں ہوئی، جہاں والدین نے مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔

     مولانا مرحوم کی صحیح تاریخِ پیدائش کا تو علم نہیں ہے؛ تاہم آدھار کارڈ کے مطابق 1950ء میں آپ کی ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر ہی میں ہوئی، اس کے بعد اپنے ہی گاؤں "کوٹھی" کے مدرسہ عبیدیہ میں داخل ہوئے، جہاں آپ کے خاص استاذ مولانا کلیم اللہ طوروی رہے، اس کے بعد اپنے وقت کے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ قاسمیہ، گیا میں داخلہ لیا، جہاں چند سالوں تک تعلیم حاصل کی، پھر سرزمینِ دیوبند کا سفر ہوا اور تعلیم و تعلم کی بجائے فنِ کتابت و خطاطی کی طرف توجہ دی، مولانا مرحوم کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ معاشی مسائل اور گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے یہ راہ اختیار کی گئی اور اسی کو ذریعۂ معاش بنایا، دیوبند میں قیام کے دوران حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ اور مدنی خاندان سے کافی گہرا تعلق رہا، جسے وہاں سے آجانے کے بعد بھی نبھاتے رہے۔ دیوبند کے بعد اپنے وطن بہار کا رخ کیا اور ہندوستان کے مشہور و معروف ادارہ امارتِ شرعیہ، پٹنہ سے وابستہ ہوگئے، جہاں امارت شرعیہ کے ترجمان "ہفت روزہ نقیب" کی کتابت کے ساتھ ساتھ "روزنامہ قومی تنظیم" سے بھی منسلک رہے، امارتِ شرعیہ میں امیرِ شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی، قاضی القضاۃ فقیہِ ملت حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، حاجی شفیع صاحب تمنائی اور امیرِ شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہم اللہ سے کافی قربت رہی، آخر الذکر سے آپ کی رشتہ داری بھی تھی۔ 1986ء کے اوائل میں جنوبی ہند کے مشہور و معروف، تعلیمی و تربیتی ادارہ دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد تشریف لائے، پھر دوبارہ کبھی بھی اپنے وطن جانا نہیں ہوا، آخری سانس تک اسی شہر میں رہے۔ بانی دار العلوم سبیل السلام حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی رحمہ اللہ کی متعدد کتابوں، ادارے کے ترجمان "سہ ماہی صفا" اور بھی بعض دیگر لوگوں کی تصنیفات و تالیفات کی کتابت کی، یہاں کی لائبریری کے معاون مدیر بھی رہے، طلبۂ عزیز کی تحریر کی اصلاح بھی کی، اس طرح اپنی افادیت کو ثابت کرتے ہوئے ایک پہچان بنائی۔

    اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو بہت ساری خوبیاں عنایت کی تھیں ، آپ خوبصورت چہرہ، گورا رنگ، کشادہ پیشانی، لمبا قد، چھریرا بدن، مسکراتا چہرہ، خوش مزاج، خوش مذاق، با اخلاق، باذوق، ملنسار، جود و سخا کے پیکر اور فقیری میں شاہی مزاج رکھنے والے تھے، ہمدردی و غم گساری، ایثار و قربانی، صفائی و ستھرائی، سلام میں پہل اور کم خوراک ہونے میں ایک مثال تھے، مزاج میں نستعلیقیت، رفتار میں تیزی، گفتار میں ٹھہراؤ اور کردار میں بلندی تھی، تنہائی پسند تھے، گوشہ نشینی سے محبت تھی، سفر سے گریزاں تھے، بازار تک جانے سے احتراز تھا، شور و شغب سے حد درجہ نفرت تھی، چھوٹے بچوں کو مفرّحُ القلوب کہتے؛ لیکن خود ان سے بہت دور رہتے، وہ ایک بے ضرر انسان تھے۔

     آپ کو نثر و نظم کا صاف ستھرا ذوق تھا، اچھے شاعر تھے، بعض نظمیں اخبارات و رسائل میں شایع ہوئیں، تو بہت پذیرایی ہوئی اور خوب دادِ تحسین ملی؛ لیکن اسے کبھی پیشہ نہیں بنایا، لوگوں کے جذبات کی رعایت میں جب کبھی موقع آتا، عمدہ اور اچھے اشعار کہتے؛ بلکہ اس کے لیے باضابطہ وقت نکالتے، توجہ دیتے اور منظرِ عام پر آنے سے پہلے عموماً ہم لوگوں کو سناتے، میں جب بھی کہتا کہ: آپ کے منظوم کلام کتابی شکل میں آنے چاہیئیں، تو مسکرا کر رہ جاتے اور کبھی اثبات میں بھی جواب دیتے۔ حکمت و طبابت اور شرعی رقیہ سے بھی کسی حد تک لگاؤ تھا، اپنے محدود دائرے میں رہتے ہوئے قرآنی آیات و احادیث کے ذریعہ بچے، بوڑھے اور دیگر مریضوں پر دم کیا کرتے تھے؛ لیکن یہ سب صرف اور صرف خدمتِ خلق کے جذبے سے بغیر کسی فیس اور نذرانے کے انجام دیتے۔

   آپ نے دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں تقریباً 35/ سال کا عرصہ گزارا، ادھر دو ڈھائی سالوں سے پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے مدرسہ آنا جانا نہیں تھا، مدرسہ سے قریب کرائے کے مکان میں اہل و عیال کے ساتھ مقیم تھے؛ لیکن آپ کی طویل المیعاد خدمات کی وجہ سے ناظمِ مدرسہ نے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا تھا، جو آپ تک پہونچا دیا جاتا تھا۔ مدرسہ کے ذمہ داران اور اساتذہ و عملہ سے اچھے تعلقات تھے، بڑے چھوٹے سبھوں کا احترام کرتے، راقمِ سطور کو دار العلوم سبیل السلام کے اساتذہ و طلبہ "مولانا سراج صاحب" یا "مولانا ازہری صاحب" کہا کرتے ہیں، جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا مرحوم نے ہمیشہ "مولانا ازہری صاحب" ہی کہہ کر یاد کیا، یہ ان کی خرد نوازی، محبت، اکرام اور اپنائیت کا اظہار تھا۔
              1987ء میں آپ کی اہلیۂ محترمہ کا انتقال ہوگیا، جن سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تولد ہوا تھا، لڑکیوں کا انتقال تو بچپن ہی میں ہوگیا، لڑکے کا نام سید احمد رومی ہے، جو خوش الحان حافظ و قاری ہیں، اور تقریباً دو دہائیوں سے جدّہ میں مقیم ہیں۔ مولانا کی دوسری شادی حیدرآباد ہی میں ہوئی، جن سے ایک لڑکی اور ایک لڑکا تولد ہوا، لڑکے کا نام سید محمد غزالی ہے، دونوں حافظِ قرآن، شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں۔ مولانا دو بھائی اور دو بہن تھے، سب سے لمبی عمر آپ ہی نے پائی۔ وفات سے دو روز پہلے مولانا سے ملاقات ہوئی، بہت بیمار تھے، نقاہت تھی، لوگوں کو پہچاننا بھی مشکل ہورہا تھا، جوں ہی ان کے صاحب زادے حافظ سید محمد غزالی نے کہا کہ: آپ ازہری صاحب کو یاد کر رہے تھے، وہ آگئے۔ فوراً نظر اٹھائی، بہت دعائیں دی، شکریہ ادا کیا اور متعدد لوگوں کی محبتوں اور ان کے حسنِ تعاون کو نام لے لے کر یاد کیا اور اپنے حُسنِ خاتمہ کے لیے دعا کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے، سیئات پر پردہ ڈال دے، جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے، آمین یا رب العالمین۔

(مضمون نگار مشہور اسلامی اسکالر، اچھے مفتی، بہترین خطیب، مثبت صاحبِ قلم، دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد کے سینئر استاذ اور متعدد تعلیمی و تربیتی اداروں کے سر پرست اور رکن ہیں۔
رابطہ نمبر: 9849085328)

جمعرات, اکتوبر 20, 2022

نمونۂ عمل ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نمونۂ عمل ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اس قدرکامل اورمکمل ہے کہ انسانی زندگی کے ہر موقع کے لئے اس میں نمونۂ عمل موجود ہے، آقاصلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیداہوئے  ماں بھی صغرسنی میں چلی گئیں ،د ادانے بھی رخت سفرباندھ لیا، ایسے میں یتیموں کیلئے بڑاسبق یہ ہے کہ جب اللہ ظاہری سہارے چھین لیتاہے تو حفاظت وتربیت سب کاسامان غیبی طور پر فراہم کردیتاہے، آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے بکریاں چرانے، باغوں کی سینچائی کرنے اورتجارت کے لئے باہر کاسفر ہمیں بتاتاہے کہ رزق حلال کی طلب میں کسی کام کوچھوٹااورحقیر سمجھنے کاکوئی جواز نہیں ہے، کوہ صفاپر چڑ ھ کرقولوالاالہ اللہ تفلحوا کااعلان بتلاتاہے کہ پیغام رسانی کی جوشکلیں رائج ہوں ان کااستعمال کیاجاسکتاہے، چالیس سال کی عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانکاح کرنا،بیوہ سے شادی کرنے اورعمر کے تفاوت سے فرق نہ پر نے کاخیال ہمارے دل میں ڈالتاہے، غارحراء کاقیام ذکراللہ کے لئے وقت کوفارغ کرنے کی اہمیت کوبتاتاہے مشرکین کی طرف سے راستے میں کانٹابچھانے، جسم اطہر پر اوجھ ڈالنے ، گلے میں پھندالگانے اورطائف کی گلیوں میں اوباشوں کے پتھر کھاکھاکر لہولوہان ہونے کے باوجود دعوت حق کے لئے صبروتحمل سے کام لیناامت کومسائل ومشکلات کے وقت صبر وتحمل کاپیغام سناتاہے،سفر معراج عروج آدم خاکی کی داستاں اورمعجزات آپ کی حقانیت کی دلیل روشن ہے، ہجرت کی رات دشمنوں کے نرغے سے صحیح سلامت نکل جانا، بتاتا ہے کہ تدبیر اللہ کی کار گر ہوتی ہے اور وہ اچھی تدبیر کرنے والا ہے، راہ خدا میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اور محبوب زمین کو چھوڑ کر مدینہ چلے جانا اللہ کے حکم پر جان ومال قربان کرنے کے جذبہ کی عملی تصویر ہے۔ حلف الفضول میثاق مدینہ اورصلح حدیبیہ مختلف اوقات کے اعتبار سے بقاء باہم کی حکمت عملی ہے، غزوات وسرایاحق کی سربلندی کے لئے سب کچھ قربان کردینے کے شوق فراواں کامظہر اتم ہے، انتم الطلقاء کااعلان دشمنوں کے ساتھ حس سلوک کی میثال اور فتح مکہ کے بعد اسلامی حکومت کاقیام، اقامت دین کی واضح اور اصولی شکل وصورت ہے، خلفاء راشدین، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، ازواج مطہرات ، اہل بیت وغیرہ کی زندگیاں رجال سازی کاپیغام سناتی ہیں اور آپ کادنیاسے چلے جانابتاتاہے کہ ہر نفس کوموت کامزہ چکھناہے، چاہے وہ محبوب رب العالمین ہی کیوں نہ ہوں،انسان جس حالت میں بھی ہو اس کے لئے آپ کی زندگی میں نمونۂ عمل ہے، مسلمان اس بات کوسمجھ کر عمل کی راہ میں آگے بڑھنا شروع کرے گا تو وہ ذلت وپستی کے موجودہ دور سے نکل جائے گا۔

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ __

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ رب العزت کے نزدیک جو بندے پسندیدہ ہیں ان کے اوصاف پر قرآن کریم کی روشنی میں باتیں کی جاچکی ہیں اب اس کا ایک دوسرا پہلو پیش کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون کون سے کام اللہ کے نزدیک بندے کو ناپسند بنادیتے ہیں۔ سارے منفی اور سلبی اوصاف کا یہاں ذکر مقصود نہیں ہے بلکہ ان اوصاف کا ذکر کرنا ہے جن کے بارے میں اللہ نے اپنی کتاب میں’’ إنَّ اللّٰہَ لاَ  یُحِبُّ‘‘، ’’وَاللّٰہِ لاَ یُحِبُّ‘‘ اور  ’’لاَِ یُحِبُّ اللّٰہُ‘‘ (اللہ ناپسند کرتا ہے )  کے ذریعہ اپنی نا پسندیدگی کا اعلان کیا ہے ۔
ان اوصاف میں ایک یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کرے اس لئے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے اور آگے بڑھ جانے والے کو بالکل پسند نہیں کرتے ، ارشاد ربانی ہے’’ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (سورۃ البقرۃ:19 ) یہ حد سے گزرنا کسی بھی موقع اور کسی بھی معاملہ میں ہوسکتا ہے ،ایک تو میدان جنگ ہے جہاں آدمی اپنے دشمنوں کے ساتھ نفرت و دشمنی کی وجہ سے حد سے تجاوز کرتاہے اور ان حدود کو پار کر جاتا ہے جو شریعت نے ایسے موقعوں کے لئے مقرر کیا ہے ، مثلاً جنگ کے میدان میں مرنے والوں کی اہانت، ان کا مُثلہ یعنی ناک کان کاٹ کر ان کی صورت بگاڑ دینا، یہ شریعت کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتے ۔
بعض لوگ دعاؤں میں بھی حد سے گزر جاتے ہیں،اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ ’’اپنے رب کو پکارو، گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ،یقیناً اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(الاعراف:55 )دعا میں لفظی تکلفات، قافیہ بندی، غیر ضروری شروط، اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بد دعائ، بلا ضرورت چلّاکر دعا کرنا یہ سب حد سے تجاوز کرنے کے ذیل میں آتے ہیں (معارف القرآن:ج3ص57 )حد سے گزرنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ بندہ ان چیزوں کو حلال سمجھنے لگے جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔’’اے ایمان والو! اللہ نے تمہارے لئے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار نہ دو اور حد سے آگے نہ نکلو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(المائدۃ:87 )
اللہ رب العزت نے اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ لوگ اپنے طور پر حلال و حرام کی تعیین کرنے لگیں،اللہ رب العزت نے اسے  اپنی ذات پر بہتان اور گناہ قرار دیا ہے (النحل:116 )حد سے تجاوز کرنے کی ایک شکل چیخ چلِّاکر باتیں کرنا بھی ہے ،اللہ رب العزت کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ مظلوم کے علاوہ کوئی زور سے چلا کر بات کرے ، مظلوم کا آہ و بکا اور چیخ و پکار کرنا فطری ہے ، اس لئے اللہ رب العزت نے اس کا استثناء کردیا اور فرمایا: ’’اللہ رب العزت زور سے ایک دوسرے کو پکارنے کو پسند نہیں کرتے الا یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو(سورۃ النسائ:148)
اللہ کے ناپسندیدہ بندوں میں اللہ پر ایمان نہ لانے والے ، اس کے معبود ہونے کا انکار کرنے والے اور اس کو کائنات کا خالق و مالک نہ ماننے والے بھی ہیں، جنہیں کافر کہا جاتا ہے ، ایسے لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بیان کی کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں اور نبیوں اور عدل و انصاف کی بات کرنے والوں سے لڑتے ہیں ، ایسے لوگوں کے بارے میں دردناک عذاب کی وعید دی گئی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے ، اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔‘‘(آل عمران:21-22)
 اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور اچھے کام کرنے والوں کوخوش خبری سنائی ہے ۔ ’’کفر کرنے والوں پر ان کے کفر کا وبال ہوگا اور نیک کام کرنے والے اپنی ہی آرام گاہ سنوار رہے ہیں،تاکہ اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے بدلہ دے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ،بے شک وہ ناشکروں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔(الروم:45)
کفر اور شرک دونوں نتائج کے اعتبار سے ایک ہیں، کفر انکار کو کہتے ہیں اور شرک اللہ رب العزت کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرلینے کو، چوں کہ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے اس لئے اس کے ساتھ کسی کو کسی بھی طرح شریک کرنا بڑا ظلم ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ’’شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان:13 )
اتنا بڑا ظلم کہ اللہ سارے گناہ کو معاف کر سکتا ہے ،لیکن شرک معافی والی فہرست سے باہر ہے ؛کیوں کہ اللہ کے ساتھ جو شریک ٹھہراتے ہیں، اللہ ان کی مغفرت نہیں فرماتا، اس لئے کہ جس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس نے اللہ پر بہتان باندھا۔(سورۃ النسائ:48) اللہ کو یہ افترا اور بہتان پسند نہیں ہے ، یہ ظلم کا کامل درجہ ہے ، اس میں دوسرے ادنیٰ درجہ کے ظالمین بھی شامل ہیں، اللہ کا اعلان ہے کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ’’واللّٰہ لا یُحِبُّ الظّٰلمین۔‘‘(آل عمران:57) اللہ رب العزت نے مومنین کو تسلی دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ’’ہم لوگوں کے درمیان حالات کی ادلا بدلی کرتے رہتے ہیں، اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘(آل عمران:140)
 اس سلسلے میں اللہ رب العزت نے بندوں کے لئے یہ اصول بھی بیان فرمایا کہ’’ بُرائی کا بدلہ اسی قدر برائی سے دیا جاسکتاہے، تو جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلیا تو اس کا بدلہ اللہ رب العزت کے ذمہ ہے کیوں کہ اللہ ظالمین کو پسند نہیں فرماتا (الشوری:40)
اس قسم کے تمام لوگ جو حد سے گزرنے والے ہیں، وہ ظلم کرنے والے ہیں اور اللہ کی زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں،حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اصلاح کا کام کر رہے ہیں لیکن در حقیقت وہ لوگ فسادی ہیں۔ ان کا عمل تو یہ ہے کہ ’’وہ زمین میں فساد ڈالتے پھرتے ہیں، کھیتی اور جانوں کو تباہ کرتے ہیں، اللہ ایسے مفسدین کو پسند نہیں کرتا(البقرہ:205) اسی طرح آپس کی دشمنی اور لڑائی جھگڑے کو بھی اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے ۔ یہود کے عمل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ قیامت تک کے لیے ان کے برے اعمال اور کفر و سرکشی کی وجہ سے ان کے اندر آپسی دشمنی اور عداوت ڈال دی گئی۔’’ اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے ، جب کبھی لڑائی کے لیے آگ سلگاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے ، اوریہ زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(المائدہ:64 )اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ’’ جو مال تمہیں دیا گیا ہے، اسے آخرت کی تیاری کے لئے خرچ کرو، دنیاوی ضرورتوں کو بھی نہ بھولو، احسان کیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘(القصص:77)
اللہ رب العزت نے بے جا خرچ کرنے کو منع کیا اور اللہ کے نیک بندوں کی صفت اعتدال سے خرچ کرنے کو قرار دیا،فرمایا کہ’’اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی(بلکہ ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے ۔‘‘(الفرقان:67 )
اللہ کا حکم ہے کہ بے جا خرچ نہ کرو، اس لئے کہ ’’بے جا خرچ کرنے والے اللہ کو پسند نہیں ہیں ۔‘‘(الانعام:14 ) اللہ چاہتے ہیں کہ کھاؤ، پیو اور حد سے نہ بڑھو(یعنی فضول خرچی نہ کرو)، اس لئے کہ ’’حد سے بڑھنے والے اللہ کے محبوب نہیں ہوسکتے ۔‘‘(الاعراف:31)
اللہ کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ بنانے والی ایک صفت خیانت ہے یہ خیانت مال میں بھی ہوتی ہے ، امانت میں بھی اور رازدارانہ گفتگو کے افشاء کے ذریعہ بھی، یہ منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، بھلا جس میں منافق کی علامت ہو اسے اللہ کس طرح پسند کرسکتے ہیں، اللہ نے اعلان فرمادیا کہ’’ اللہ خائنین کو پسند نہیں کرتا(الانفال:58)اسی طرح اللہ رب العزت کو تکبر بھی پسند نہیں ہے ، اس لیے کہ کبر اللہ کی چادر ہے جو اس میں داخل ہوگا، ذلیل ہوجائے گا، ا یک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”عزت میری ازار اور کبریائی (بڑائی) میری چادر ہے چنانچہ جو شخص ان دونوں میں سے کوئی شے مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دوںگا‘‘(صحیح مسلم)
اس کا حکم ہے کہ’’اللہ رب العزت نے جو تمہیں ہدایت کی دولت سے مالا مال کیا ہے اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو۔‘‘(سورۃ البقرۃ:185) 
اذان، اقامت، تکبیر تشریق، جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر کہنا، نماز میں اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہلانے کی مصلحت یہی ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ، ولادت کے وقت دائیں کان میں اذان کے الفاظ اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ پہلے دن سے اللہ اکبر بچے کے ذہن میں محفوظ ہوجائے ۔ اللہ کے علم میں ہے جو بندہ کرتاہے چاہے وہ چھپا کر کرے یا اعلانیہ، تکبر اور غرور کرنے والے اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان طریقوں کو بھی پسند نہیں کیا جو کبر کی علامت ہیں، فرمایا’’زمین پر اکڑ کر نہ چلو، کیوں کہ تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور پہاڑ کی اونچائیوں تک پہونچ نہیں سکتے ۔‘‘(الاسرائ:37)اِترانا بھی تکبر کی ہی ایک قسم ہے ، مال و دولت، جاہ و حشمت، پاکر اترانا مؤمن کی شان نہیں ہے اس لیے کہ’’ اللہ شیخی بگھارنے اور تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے (سورہ لقمان:31)
 بندہ کی شان یہ ہے کہ وہ مال و دولت، جاہ و حشمت کو، خدا کی عطا اور پھر اس عطا پر شکریہ ادا کرے ، اس سے نعمت خداوندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اور اگر شکرگزاری کے بجائے تکبر کیا تو اللہ رب العزت کا عذاب انتہائی سخت ہے ، مومن کو کامل مومن بننے کے’’ ایجابی‘‘ یعنی اللہ کے محبوب بننے کے جو اوصاف ہیں اور’’سلبی‘‘ یعنی جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں، دونوں کا خیال رکھنا چاہیے ، یوں تو اللہ غفور رحیم ہے ، اعمال میں کوتاہی نہ ہو اور اللہ سے اچھی امید رکھی جائے ، یہی ایمان و اسلام کا خلاصہ ہے ، ’’الاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَ الْرِّجَائِ۔‘‘ کہا گیا ہے یعنی ایمان خوف اور امید کے درمیان کی چیز ہے ۔

*خاک کے پتلے میں آگ* ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*خاک کے پتلے میں آگ* 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

شہر ارریہ سے قریب ہی بیلوا گاؤں کا رہنے والاایک نوجوان اپنی بیوی کوگھر میں موجود نہیں پاکر مشتعل ہوجاتا ہے، اپنے ہاتھوں اپنے ہی نوزائیدہ بچے کا گلا گھونٹ کر قتل کردیا ہے۔
 ایک خبرمذکورہ ضلع کے ہی ایک گاؤں سے ملی ہے کہ ایک ماں نے غصہ کی انتہا میں آکراپنے ڈھائی ماہ کے شیر خوار بچے کو پٹک پٹک کرہلاک کردیا ہے، یہ دونوں خبریں اتنی درد ناک ہیں کہ سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کوئی جانور بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتاہے ،مگرایک  انسان نے درندگی کی حد کو بھی غصہ میں آکر پار کر لیا ہےاور اپنی نسل کی تباہی کا سامان کرلیا ہے۔
اکثر وبیشتر طلاق کے واقعات غصہ کی وجہ کر رونما ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی باتوں سے جھگڑا شروع ہوتا ہے اور خاندان کی بربادی پر جا کر تمام ہوتا ہے، شوہر نے بیوی سے کھانا مانگا، اور وہ کہ رہی ہے کہ؛میں ابھی آرہی ہوں، ذرا سی دیر ہوئی،میاں جی غضبناک ہوگئے، اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکے،  فائرنگ شروع کردی،طلاق، طلاق، طلاق، بیچاری اب کبھی بھی اپنے شوہر کے پاس آنے کےلائق نہیں رہی ہے،ادھر میاں جی بھی نادم ہیں، مگر معاملہ اب توہاتھ سے نکل چکا ہے۔
آج سماج میں جو شخص سمجھدار سمجھا جاتا ہے وہ بھی بات بات پر غصہ میں آجاتا ہے۔بازار، سڑک، گاؤں،گلی، مسجد، مکتب، مدرسہ کوئی جگہ اس سے پاک نہیں ہے، ہر جگہ غصہ کی کھیتی ہورہی ہے، بروقت اس پر روک نہیں لگائی گئی تو اس کی فصل جب کٹتی ہے تو نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ ایک مسلم سماج میں اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے،یہ ڈوب مرنے کی بات ہے،اس سےاسلام کی غلط تصویر ملک میں جارہی ہے، اور ہم اسلام کی تبلیغ میں رکاوٹ کا سامان بنتے جارہے ہیں، افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔  
حدیث شریف میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ غصہ شیطان سے ہےاور شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے،جب ایک انسان میں غصہ داخل ہوجاتا ہے تواس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس خاک کے پتلے میں شیطانی آگ داخل ہوگئی ہے،یہی وجہ ہےکہ جب غصہ تیز ہوتا ہے تو ایک انسان کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور چہرہ لال ہوجاتا ہے، اور کہتے بھی ہیں کہ وہ آگ بگولا ہوگیاہے،جہاں کہیں آگ نظر آتی ہے آج کے اس گئے گزرے زمانے میں بھی پورا گاؤں اس جانب دوڑ آتا ہے،اور اس کو بجھانے کی فکر کرتا ہے، اوراس وقت تک چین سے کوئی نہیں بیٹھتا جب تک کہ آگ پر قابو نہ پالیا جائے، یہی عمل غصہ کی آگ پر قابو پانے کے لیےاس وقت عمل میں لانے کی ضرورت ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دولوگوں میں کچھ باتیں ہورہی تھیں، انمیں ایک صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ چہرہ لال ہوگیا اور رگیں پھول گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ان کی طرف دیکھا اور یہ کہا کہ؛مجھےایک ایسا کلمہ معلوم ہے،اگر وہ اس کو کہ لے تو یہ غصہ جاتا رہے،اور وہ یہ ہے،اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم۔(بخاری )
مذکورہ حدیث سے یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب کبھی یہ موقع آئے اور کسی کواس آگ میں جلتامحسوس کرے تو اس کو بجھانے کی فکر کرناسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ہے،موجودہ وقت میں یہ سنت ہماری زندگی میں نہیں ہے،اسے زندہ کرنا سو شہیدوں کے اجر کا حامل ہوناہے،اور یہ بات بھی اس حدیث سے معلوم ہوئی کہ اس آگ پرقابو پانے کے لیے سب سے پہلے اللہ کی پناہ ضروری ہے۔
 بغیر قرآن وحدیث کی رہنمائی لیےاسے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی عام آگ نہیں ہے ،یہ انسان کے اندر لگی ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو طاقتور کہا ہے جو اپنے غصہ پر قابو پالیتا ہے،اس کا مطلب واضح ہے کہ غصہ پر قابو پانے والا درحقیقت شیطان کے مقابلے میں فتح پانے والا ہے۔
غصہ سے بچنے کی دوسری تدبیر وضو ہے، غصہ شیطان سے ہے،اور وہ آگ سے پیدا ہوا ہے،شیطان انسان کی رگوں میں گھس جاتا ہے،اوراندر اندر ہی آگ لگاتا ہے،آگ کو پانی بجھادیتا ہے،اس لیے حدیث شریف میں اس موقع پر وضو کی تعلیم دی گئی ہے۔یہ اس کا علاج ہے،وضو انسانی مزاج میں برودت اور ٹھنڈک پیدا کردیتا ہے، اور اس سے غصہ کافور ہوجاتا ہے۔
تیسری تدبیر ہیئت کی تبدیلی ہے،غصہ ور انسان کھڑا ہے تواسے بیٹھ جانا چاہئے، اور اگربیٹھا ہے تو لیٹ جانا چاہیے، ایک روایت میں زمین سے لگ جانے کا بھی حکم ہے۔یہ ایک انسان کو عملی طور پر اپنی پیدائشی چیز مٹی سے قریب کردینا یے۔
آج اس شیطانی آگ میں جلتے ہوئے انسان کو بچانے کی تحریک شدید ترین ضرورت ہے، ایک مسلمان کی ذمہ داری  اس تعلیم پر عمل کرنے کی اور اس کو عام کرنے کی بھی ہے،ایک آدمی نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ؛مجھے کوئی نصیحت فرمائیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛غصہ مت کرو، اس کو یہ نصیحت معمولی لگی تو دوبارہ اس نے یہ عرض کیا کہ نصیحت کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو، سہ بارہ گزارش کی تو تیسری بار بھی آپ صلی علیہ وسلم کا یہی جواب رہا کہ غصہ مت کرو (بخاری )
حدیث شریف کی دوسری کتابوں میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ان صاحب نے اپنی زندگی میں غور کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ساری برائیوں کی جڑغصہ ہی ہے، 
آج سماج اور معاشرہ کا یہی حال ہے، اور اس سے بڑی نصیحت موجودہ وقت کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ؛غصہ مت کیجئے۔
   ع۰۰خون کا شربت پی کے پیاس بجھاتا ہے
             غصہ علم ودانش کو کھا جاتا ہے 
              طاقت ور ہے وہ انسان زمانے میں 
               اپنے غصہ پر جو قابو پاتا ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۳/ربیع الاول ۱۴۴۴ھ

بدھ, اکتوبر 19, 2022

حجاب پر ججوں میں اختلاف

حجاب پر ججوں میں اختلاف 
اردو دنیا نیوز ٧٢
🖋️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اسکول ڈریس کے ساتھ آنے کے لزو م کے ساتھ حجاب پر پابندی لگا دی گئی تھی ، با غیر ت و باحمیت ہماری بچیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور احتجاج کارگر نہیں ہوا تو انہوں نے اسلامی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان اداروں میں جانا بند کر دیا۔ نتیجۃً ان کا تعلیمی سال برباد ہوا اور ان کے مستقبل پر سیاہ بادل چھا گئے ۔لیکن ان لڑکیوں کی واضح رائے تھی کہ حجاب کے بغیر ہم اسکول نہیں جائیںگے۔اور شریعت کے حکم پر عمل کو حصول تعلیم پر فوقیت دیں گے ۔کیوںکہ ہندوستان میں یہ ہمارادستوری حق ہے ۔ اور اس دستوری حق کے حصول کے لیے 15مارچ 2022کو کرناٹک کے ضلع اوڈوپی کی کچھ طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی کہ انہیں کلاس روم میں حجاب کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاپ پر پابندی کو برقرار رکھا ، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا ، دورکنی بنچ میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا نے اس کی سماعت کی اور 13اکتوبر 2022کو دونوں ججوں نے فیصلہ سنایا ، جس میں دونوں کی رائے مختلف تھی ،جسٹس ہیمنت گپتا کا فیصلہ پابندی برقرار رکھنے کے حق میں تھا جبکہ جسٹس دھولیا کا فیصلہ پابندی ہٹا لینے کے حق میں آیا۔
جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اسکولوں میں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے ، لیکن نظم و ضبط کا قیام آزادی اور وقار کی قیمت پر نہیں کیا جاسکتا ۔کسی طالبہ کو اسکول کے گیٹ پر حجاب اتارنے کے لیے کہنا اس کی پرائیویسی اور وقار پر حملہ ہے ، انہوں نے دستور ہند کی دفعہ(1) 19اور دفعہ (1)25کا حوالہ دیتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو غلط ٹھہرایا اور اسے کالعدم قرار دیا۔
دوسری طرف جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا ، انہوں نے بحث کے دوران کہا تھا کہ اگر لباس کے انتخاب کی اجازت کو بنیادی حق مانا جائے تو برہنہ رہنے کو بھی اسی زمرے میں لانا پڑے گا۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی سوچ کس طر ف جا رہی ہے۔ججوں کے فیصلہ میں اس اختلاف کی وجہ سے کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ ابھی برقرار رہے گا اور چیف جسٹس اب اس معاملہ کو بڑی بنچ کے حوالہ کریں گے، جو کم ازکم تین ججوں پر مشتمل ہوگی ۔اس کا مطلب ہے کہ حجاب ابھی کچھ اور دنوں تک بحث کا موضوع بنا رہیگا۔

منگل, اکتوبر 18, 2022

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطفال سوگوار

ادب اطفال کی اہم شخصیت متین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اچل پوری کا انتقال۔ دنیائے ادب 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اطفال سوگوار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نئی دہلی۔۔ ( رپورٹ سراج عظیم) 17اکتوبر ۔۔۔ اچل پور، امراوتی کے مزاح نگار بابو آر کے کی اطلاع کے مطابق آج صبح آٹھ بجے مشہور و معروف شاعر اور ادیب الاطفال متین اچل پوری کا انتقال ہوگیا۔ متین اچل پوری پچھلے ایک سال سے کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک بڑا آپریشن بھی ہوا تھا جو کامیاب نہیں ہو پایا تھا جس کی وجہ سے مرض میں مزید شدت آگئ تھی۔ متین اچل پوری کے انتقال کی خبر سے پورا اردو ادب خصوصاً ادب اطفال سوگوار ہے۔ متین اچل پوری کی پیدائش 18جنوری 1950 کو اچلپور ضلع امراوتی میں ہوئ۔ اردو میں ایم اے اور بی ایڈ کیا۔ اس کے بعد انکا تقرر ایک مدرس کی حیثیت سے ہوگیا۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز 1970 میں کیا۔ بڑوں کی شاعری کے ساتھ انھوں نے اپنی شاعری کا محور بچوں کے ادب پر مرکوز رکھا۔ چونکہ متین صاحب ایک مدرس تھے اس لئے وہ بچوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے اور انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا زیادہ عرصہ ادب اطفال میں صرف کیا۔ انھوں نے بچوں کے ادب میں جہاں سائنسی نظمیں، ماحولیاتی نظمیں تحریر کیں وہیں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کو صدر جمہوریہ سے بہترین مدرس کا ایوارڈ بھی 1990 میں حاصل ہوا۔ متین اچل پوری کو مختلف تنظیموں اور سرکاری اداروں نے بھی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔ متین اچل پوری نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں تقریباً پچاس سے اوپر بچوں اور بڑوں کی کتابوں کا سرمایہ چھوڑا ہے۔ متین اچل پوری کے سانحۂ ارتحال پر ادب اطفال کی شخصیات نے اپنے رنج و ملال کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی کے سکریٹری محمد سراج عظیم نے متین اچل پوری کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متین صاحب ادب اطفال کا ایک متحرک نام تھا جنھوں نے بچوں کے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا اور ادب اطفال میں اپنی ایک طویل روایت کے طور بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ اس دور کی ادب اطفال کی تاریخ میں متین اچل پوری کا نام سرفہرست سنہرے الفاظ میں تحریر ہوگا۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے سابق نائب صدر و معروف شاعر انتظار نعیم صاحب ، رسالہ الفاظ ہند کے مدیر و مالک ریحان کوثر صاحب، کردار آرٹ تھئیٹر گروپ کے چئیرمین اور ڈراما نگار اقبال نیازی، گل بوٹے کے فاروق سید، خیر اندیش کے مدیر مالک اور بچوں کے شاعر خیال انصاری صاحب نے اور ادب اطفال کے ادباء و شعرا نے اپنے گہرے رنج و غم  کا اظہار کیا۔ متین اچل پوری کے جسد خاکی کی تدفین حضرت دولہا شاہ رح علیہ کے مزار کے احاطے میں بعد نماز عصر عمل میں آئ۔

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

پٹنہ پریس ریلیز (18اکتوبر)
امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بہار شریف میں منعقد معلمین و ائمہ کرام سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی و مولانا احمد حسین مدنی کا خطاب
حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کی سر پرستی میں امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے تمام شعبوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ سی بی ایس ای کے پانچ نئے اسکول قائم ہوئے اور دس دار القضاء کا قیام عمل میں آیا، اسی کے ساتھ شعبہ تعلیم کے تحت سو سے زائد مکاتب دینیہ جو خود کفیل ہیں، مختلف اضلاع میں نئے سرے سے قائم ہوئے ہیں۔ 
صیغہئ تعلیم کے تحت شروع سے بین المدارس و المکاتب معلمین کے لیے تربیتی اجتماعات کا انعقاد ہو تا رہا ہے۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی منظوری سے مدینہ مسجد بہار شریف میں سہ روزہ تربیتی اجتماع ہورہا ہے، جس میں مکاتب کے معلمین و اساتذہ کے ساتھ مساجد کے ائمہ بھی بڑی تعداد میں شرکت فرما رہے ہیں، آج دوسرے دن مرکزی دفتر امارت شرعیہ سے دو مہمان خصوصی نے اس جاری ورک شاپ میں حصہ لیا، امارت شرعیہ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب انچارج صیغہ ئ تعلیم اور مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ کا اس تربیتی اجتماع سے خصوصی خطاب ہوا۔ مولانا احمد حسین قاسمی نے حضرات معلمین کوان کے مقام و منصب کا دینی و شرعی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلا معلم خود رب کائنات ہے۔ جس نے حضرت آدم علیہ السلام یعنی پہلے  انسان کو تمام ناموں کا علم سکھایا، پھران کی آنے والی تمام نسلوں کی تربیت و ہدایت کے لیے بہ حیثیت معلم حضرات انبیاء کا انتخاب فرمایا۔ چناں چہ آخری نبی  جناب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کی نمایاں حیثیت کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”انما بعثت معلماً“ میں تمہارے درمیان استاذ و معلم کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا گیا ہوں۔ 
 نبی کے وارث اور ان کے جانشیں ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی حیثیت بھی بہ حیثیت معلم پہچانئے۔ آپ کے سپرد ہماری نئی نسل ہے، جن کی انسانی، دینی و معاشرتی تربیت کر کے بہترین انسان اور کامل مسلمان بنانے کا فریضہ آپ کے ذمہ ہے۔ انہوں نے فن تدریس پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ معلومات ہونا الگ شئی ہے، مگر ان کو بچوں میں منتقل کرنا الگ شئی ہے، جس کے لیے ٹریننگ اور تربیت بہت ضروری ہے۔ تدریس ایک اہم آرٹ اور فن ہے، جسے سیکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے امارت شرعیہ علماء و معلمین اور ائمہ مسائد کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کرتی ہے۔
 مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے حضرات معلمیں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تدریس اور سکھانے کا عمل کار نبوت کا حصہ اور نبوی کام ہے، اس کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ جد و جہد اور قربانی درکار ہے، آپ بے لوث ہو کر محنت کریں، اللہ آپ کی محنت کا بدلہ عطا کرے گا۔ آج پوری امت کا سب سے بڑا مسئلہ نئی نسلوں کی دینی و اسلامی تربیت ہے، جس اہم کام کو آپ انجام دے رہے ہیں۔اگر یہ کام آپ نے کما حقہ کر دیا تو آئندہ کے لیے ہماری نسل محفوظ ہو جائے گی۔ آپ نے بہت کم وقت میں نہایت جامع باتیں بتائیں۔ آج کی دوسری نشست بعد نماز ظہر بہار شریف کے عمائدین پر مشتمل تھی، جس میں امارت شرعیہ کے معاون ناظم مولانا احمد حسین  نے حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی کا پیغام سناتے ہوئے کہا کہ ملک کی نازک صورتحال میں ہمارے کرنے کے جو اہم کام ہیں، ان میں پہلا کام اپنی نئی نسل کے دین و ایمان کے تحفظ کی فکر کرنا ہے، اس کے لیے امارت شرعیہ تحریک چلا رہی ہے، ائمہ مساجد کے تربیتی نظام کا سلسلہ ہر ضلع میں جاری ہے۔مسلمان اپنی مساجد کو مرکز بنا کر اصلاح معاشرہ کا کام انجام دیں، ہر مسجد میں بنیادی دینی تعلیم کے لیے مکتب کا نظام، نما زبا جماعت کی طرح قائم ہو۔ حضرت مفتی محمدثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے ملت اسلامیہ کی فکر فکر و عمل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنی نماز با جماعت سے سبق حاصل کر یں، جس طرح ہم مسجد میں امام کی اطاعت کرتے ہیں، مسجد سے باہر ایک امیر شریعت کی اتباع کو لازم سمجھیں۔ اور کلمہ کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں۔ 
واضح رہے کہ اس پروگرام کی نظامت مولانا منت اللہ حیدری فرما رہے تھے۔ اس موقع پر مولانا منصور قاسمی قاضی شریعت بہار شریف بھی پیش پیش رہے، شہر کے مخلصین کے تعاون  سے تمام علماء و معلمین کی میزبانی آسان ہو سکی۔معلمین کی تربیت کرنے والے علماء میں مولانا عبد الوالی منانی قاسمی، حافظ عالمگیر صاحب استاذ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی سیتا مڑھی اور مولانا مامون الرشید صاحب مدرسہ طیب المدارس پریہار، سیتا مڑھی کے نام اہم ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...