Powered By Blogger

جمعرات, اکتوبر 27, 2022

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز
میرے بچے نیک ہیں اور کوئی غلط کام نہیں کرتے ہیں،میری اہلیہ پڑھی لکھی ہے،روزانہ بچوں کواپنی قسم دیکر اسکول روانہ کرتی ہے،ایک صاحب نے اپنی بیگم اور بچوں کی تعریف یوں مجھ ناچیز سےفرمائی یے،
یہ واقعی خوشی کی بات ہے،خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں تربیت کرنے والی ماں ہاتھ آئی ہے،کہتے ہیں کہ ہرشخصیت کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتا ہے،مگران تمام حقائق کے باوجود یہاں دوباتوں کی وضاحت از حد ضروری ہے۔
پہلی بات اپنی قسم دینے سے متعلق ہے،ایک ماں جو روز اپنے بچوں کو اپنی قسم دے رہی ہےگویا اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ قسم یوں بھی کھائی جاسکتی ہے،جبکہ شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش نہیں ،آج مسلم انٹلیکچول طبقہ کا حال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی قسم کھاتا ہے، تو بیوی اپنے شوہر سے کے سر کی قسم کھاتی ہے،مائی باپ کی قسم توعام سی بات ہے۔پڑھے لکھے لوگ بھی شوق سے کھاتے ہیں،جبکہ اللہ کے علاوہ کسی اور کسی قسم کھانے کی اجازت نہیں ہے، ایک موقع پر امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی قسم کھائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پریہ ارشاد فرمایا کہ، یہ بات اچھی طرح سن لو !  اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا ہے،جسے قسم کھانی ہے وہ اللہ کی کھائے یا خاموش رہے (بخاری ومسلم) 
دوسری بات روزانہ کی یہ قسم جو بچوں کے سامنے کھائی جارہی ہے، یہ بلاضرورت  ہے، 
قسم تومجبوری میں کھائی جاتی ہے، یہ تو کوئی شوقیہ چیز نہیں ہے، یہ بھی غیر شرعی عمل ہے،جس کا روزانہ موصوفہ اھتمام کررہی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان جیسی خواتین سے تربیت پاکر بچے بات بات پر آج قسمیں کھاتے ہیں ،
 فیشن کے طور پربھی اپنی گفتگو میں قسموں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، کبھی اردو میں تو انگریزی میں قسم کے الفاظ کہتے ہیں، اس پر بروقت قذغن  لگانااور اپنے بچوں کی صحیح تربیت ضروری ہے،افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ جنہیں تربیت کی ذمہ داری شریعت میں دی گئی ہے غلطی وہیں سےاب  ہورہی ہے،اس کا احساس بھی نہیں ہے،بچوں کے سامنے قسم روزانہ اسی لئے کھائی جارہی ہے کہ بچے اپنی ماں کی باتوں کو ماننے لگیں،اور قران کریم میں تو اس کی بات ماننے سے منع کردیا گیا ہے جو بہت زیادہ قسمیں کھاتا ہے، ارشاد ربانی ہے؛زیادہ قسمیں کھانے والے کی مت مان ( سورہ القلم )
بات بات پر قسمیں کھانا یہ نفاق کی ایک بڑی نشانی ہے۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۷/اکتوبر ۲۰۲۲ء

بدھ, اکتوبر 26, 2022

ڈاک کا دم توڑتا نظاماردو دنیا نیوز ٧٢✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی


ڈاک کا دم توڑتا نظام
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  پیغام رسانی کا کام تو زمانۂ قدیم سے جاری ہے اور یہ انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے ، البتہ اس کے نظام اور طریقۂ کار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، پہلے یہ کام ہر کاروں سے لیا جاتا تھا، شیر شاہ سوری نے 1541ء میں بنگال اور سندھ کے بیچ پیغام رسانی کے لیے گھوڑوں کا استعمال کیا ، ڈاک کا موجودہ نظام ہندوستان میں 1766ء میں رابرٹ کلائیو نے رائج کیا ، 1774ء میں برطانوی حکومت کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگس نے اسے منظم کیا اور 31مارچ 1774ء میں کلکتہ میں جنرل پوسٹ آفس (GPO) کھولا گیا۔ اس سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے 1786ء میں مدراس جنرل پوسٹ آفس اور 1793ء میں ممبئی جنرل پوسٹ آفس کا قیام عمل میں آیا۔ان تینوں جنرل پوسٹ آفس کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے ضوابط بنائے گئے ۔ اور کل ہند ڈاک خدمات کا آغاز ہوا۔1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا، اس وقت پورے ہندوستان میں کل تئیس ہزار تین سو چوالیس(23344) ڈاکخانے تھے ۔ان میں سے انیس ہزار ایک سو چوراسی(19184)دیہی اور چار ہزار ایک سو ساٹھ(4160) شہری حلقوں میں کام کر رہے تھے ۔اب بھی دیہی علاقوں میں ہی ڈاک کا نظام کسی درجہ میں قائم ہے ، ورنہ سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کے اس دور میں اس کا مصرف صرف دفتری خطوط کی ترسیل اور اخبارات و رسائل کو مقامات تک پہونچانے کا رہ گیا ہے ۔ اس میں بھی صارفین کی طرف سے تاخیر اور گمشدگی کی شکایت عام ہے ۔ اس کے با وجود اب بھی پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دیہی علاقوں میں ان دنوں ڈاک گھروں کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزار سڑسٹھ(139067) ہے جو اوسطاً21.56کیلو میٹر کی دوری پر ہے ۔
ڈاک کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف سالوں میں اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، 1972ء میں پوسٹل انڈکس نمبر یعنی پن کوڈ کی شروعات کی گئی ،1984ء میں ڈاک جیون بیما اور 1986ء میں اسپیڈ پوسٹ نے ڈاک کے نظام کو تیزرفتار بنایا ۔ 1996ء میں تجارتی ڈاک خدمات کو سامنے لایا گیا اور جب انٹرنیٹ کی آمد ہو ئی تو 2001ء میں الیکٹرونک فنڈ منتقلی نے رواج پایا۔ ڈاک کے پرائیوٹ نظام ’’کوریئر‘‘ کو مات دینے کے لیے شعبۂ ڈاک نے اکسپریس پارسل، تجارتی پارسل، وصولی کے وقت قیمت کی ادائیگی ، رقم کی منتقلی وغیرہ خدمات کے ذریعہ مقابلہ کی کوشش کی ۔لیکن سرکاری کارندوں کی خدمات میں کوتاہی کے نتیجے میں سامان اور پیغام رسانی کے نظام میں نجی کمپنیوں پر سرکاری ڈاک سبقت نہ لے جا سکی۔
ڈاک میں استعمال ہونے والے پوسٹ کارڈ، انتر دیشی ، لفاف وغیرہ کی مانگ کم ہوئی اور اب سوشل میڈیا کی تیز رفتاری نے بہت ساری جگہوں پر اس نظام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔اور محاوروں کی زبان میں کہیں تو ’’ڈاک خانوں کے دن لد گئے۔‘‘
کارڈ وغیرہ کے علاوہ ڈاک خانہ کے نظام میں ڈاک ٹکٹوں کی بھی بڑی اہمیت رہی ہے ، یکم مئی 1840ء کو پہلا ڈاک ٹکٹ پینی بلیک( Penny Black)کے نام سے برطانیہ میں جاری ہواتھا، ہندوستان میں پہلا ڈاک ٹکٹ 1852ء میں سوبہ سندھ میں جاری ہوا۔ اسی سال صوبہ سندھ کے گورنر نے ڈاک مہر کا سلسلہ شروع کیا، 1854ء میں ہندوستان میں نصف آنہ، ایک آنہ اور چار آنے کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گیے ۔ان پر مہارانی وکٹوریہ کی تصویر ہوا کرتی تھی ، کیوں کہ ہندوستان غلام تھا اور ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں کی بھی ملکہ تھی۔اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت از دہلی تا پالم ہی رہ گئی تھی ۔ہندوستان میں ڈاک ٹکٹوں کی طباعت کا کام 1926ء میں شروع ہوا ، 21نومبر 1947ء کو آزاد ہندوستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ عوام کی خدمت کے لیے پیش ہوا۔ اور 15اگست 1948ء سے گاندھی جی کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر شائع ہونے لگی۔اس کے بعد ملک کی نامور شخصیات پر ڈاک ٹکٹوں کا سلسلہ شروع ہوا ؛ جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر بھی ڈاک ٹکٹ شامل ہے ۔ ریشمی رومال تحریک کے نام سے بھی ایک ڈاک ٹکٹ محکمہ نے جاری کیا تھا۔
 ان تما م کے با وجود ڈاک کا نظام دم توڑتا جا رہا ہے، ڈاک خانہ کے ذریعہ بھیجی جانے والی چیزیںیا تو ملتی نہیں ہیں ، یا ملتی ہیں تو مہینوں لگ جاتے ہیں ، عام ڈاک ہی نہیں اسپیڈ پوسٹ تک کا یہی حال ہے ۔ نقیب کے شمارے قارئین تک نہیں پہونچنے کی شکایتیں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ہر ہفتہ پتہ چیک کر کے نقیب ڈاکخانوں میں ڈالا جا تا ہے ، لیکن ڈاک کی گڑبڑی سے وہ جگہ تک نہیں پہونچتا ظاہر ہے ادارہ اس میں کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ خریداروں کو مقامی ڈاکخانوں سے رجوع کر کے وہاں کے بڑے پوسٹ آفس میں شکایت درج کرانی چاہئے اور اس کی کاپی نقیب کے دفتر کو بھی ارسال کی جائے تاکہ پٹنہ کے صدر ڈاک خانے تک ہم بھی آپ کی شکایت پہونچا سکیں ۔اس سے زیادہ کچھ ادارہ کے بس میں نہیں ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ نہ ملنے کی شکایت ہمیں ملے اور وہ شمارہ ہمارے پاس موجود ہو تو اسے دوبارہ بھیج دیں ۔مشترکہ جد و جہد سے شاید کوئی راہ نکل آئے۔

منگل, اکتوبر 25, 2022

رواداری : بقائے باہم کے لئے ضروری

رواداری : بقائے باہم کے لئے ضروری
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جس ملک میں مختلف مذاہب ، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں ، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا ، ٹی وی اوردوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔
 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے ، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی ، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے ، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔
 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے ، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے ، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے ۔
رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے ، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا ۔
 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص ہیں، اور ان کے شعار کے طور پر وہ نعرے لگائے جاتے ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے ، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقۂ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمۂ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمۂ کفر پر راضی ہونا دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی ۔
رواداری کیؤنام پر اکبر نے دین الہی کو رواج دیا گو یہ دین ترقی نہیں کر سکا، خود اکبر کے نورتنوں میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اکبر نے غیر مسلم عورتوں سے شادیاں کیں، اپنے حرم کی زینت بنایا، ان کے مشرکانہ اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا؛تاکہ غیر مسلم رعایا کی نظر میںاس کی حیثیت ایک سیکولر حکمراں کی بنی رہے،کم وبیش پچاس سال کی اس کی حکمرانی میں رواداری کے نام پر اسلامی افکار و اقدار،معتقدات کا قتل کیا گیا،حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور ان کے صاحب زدگان کی مسلسل محنت سے اس تحریک کے برے اثرات کو ختم کیا جا سکا،اس کے برعکس حضرت اورنگزیب عالمگیر کی حکومت بھی کم و بیش پچاس سال رہی،ان کے نزدیک رواداری کا مفہوم ــ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ یعنی تمہارے لیے تمہارا دن اور ہمارے لئے ہمارا دین تھا ،وہ اپنے دین و شریعت پر سختی سے عامل رہے، ان کے اس عمل کی وجہ سے حکومت کمزور نہیں ہوئی؛بلکہ جنوب کے علاقوں میں برسوں ان کا لڑائی میں مشغول رہنا ان کی حکومت کے زوال کا سبب بنا ۔
 ہندوستان میں رواداری کے نام پر جس کلچرکو فروغ دیا جا رہا ہے وہ اکبر کے سیکولرزم کا چربہ ہے اور وہ اسلامی افکار و اقدار سے مل نہیں کھاتا، ہم اسے بھائی چارہ کہتے ہیں اور ان کے ذہن و دماغ میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مسلمان اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اس لیے وہ اس رواداری پر اتر آیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارؤچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو ، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیںکہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو ، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے ، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، اس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

پیر, اکتوبر 24, 2022

ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا

ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا
اردو دنیا نیوز ٧٢
اسلاف کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک پہنچانااہل قلم کی ذمہ داری:انیس الرحمن قاسمی /امتیاز احمدکریمی
23/اکتوبرپھلواری شریف (پریس ریلیز)
ملک کے ممتاز عالم دین، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق صدر مدرس اورجامع اسلامیہ انکلیشور گجرات کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ہارون الرشید ؒ کی حیات وخدمات پر مشتمل معروف اہل قلم ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا اجراء آج آل انڈیا ملی کونسل بہار کے ریاستی دفتر پھلواری شریف،پٹنہ میں ہوا۔ اس پر وقارعلمی تقریب کی صدارت آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرحضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی نے کی۔تقریب کے مہمان خصوصی بہار پبلک سروس کمیشن کے رکن اورصف اول کے افسر جناب امتیاز احمد کریمی صاحب اورمہمان اعزازی کے طورپرڈاکٹر پروفیسر سرورعالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیور سٹی،ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار اورمولاناڈاکٹر شکیل احمد قاسمی اورینٹل کالج،پٹنہ نے شرکت کی۔اس پر وقارعلمی،ادبی تقریب کا آغاز مولانا جمال الدین قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔اپنے صدارتی کلمات میں مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کتاب کے مؤلف ڈاکٹرنورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولاناہارون الرشید قاسمی ؒ ریاست کے گنے چنے علمامیں تھے،جنہوں نے گوشہ گمنامی رہ کر علم وادب اوررجال سازی کی قابل قدر خدمت انجام دی، میرا مولاناسے پیتیس چالیس سالوں کا گہرا ربط وتعلق رہا،وہ علم وعمل اورعمرمیں مجھ سے بڑے تھے، لیکن جب ملاقات ہوتی تو انتہائی محبت وشفقت اورحترام کا سلوک فرمایاکرتے،وہ اچھا لکھتے تھے اورخوبصورت ودل کش اندازمیں تقریربھی کیاکرتے تھے۔انہوں نے تعلیم نسواں پر خاص توجہ دی اورلڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور میں قائم کیا۔ یہ ادارہ آج بھی خد مت انجام دے رہا ہے۔مولاناقاسمی نے مؤلف کتاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے علاقہ اورحضرت مولاناکے شاگردوں پر ایک قرض تھا،جو مولانانورالسلام ندوی کی کوششوں سے اداہوگیا۔ مولانا ندوی صالح فکرکے حامل نوجوان عالم دین اورمصنف ہیں۔میں امید کرتاہوں کہ ان کا قلم ہمیشہ تازہ دم رہے گااوراسی طرح کی چیزیں ان کے قلم سے آتی رہیں گے۔اللہ سے دعاہے کہ یہ کتاب ہر خواص وعام تک پہنچے اورنئی نسل کے لیے مشعل راہ بنے۔تقریب کے مہمان خصوصی امتیازاحمد کریمی نے کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی کا قلم زندہ اورتابندہ ہے، ان کی یہ تیسری باضابطہ تصنیف ہے،ویسے تو ان کے سینکڑوں مضامین ومقالات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن مضمون لکھنا اورمستقل کتاب لکھنا دونوں میں بڑا فرق ہے۔ایک مصنف میں جو خوبیاں اصولی طورپر ہونی چاہئے وہ تمام اوصاف وکمالات مولانا نورالسلا م ندوی نے کم عمری میں حاصل کر لیے ہیں۔میں ان سے اکثر کہتا ہوں کہ اپنے قلم کو کبھی آرام نہ دیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے مصنفین پیدا ہوں جو اسلاف کے کارناموں کو اگلی نسل کے لیے محفوظ کر دیں۔ مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ اسلاف کے کارناموں کو جمع کر کے اگلی نسلوں تک پہونچاناہماری ملی ذمہ دار ی ہے۔قابل مبارک باد ہیں ہمارے عزیر مولاناڈاکٹرنورالسلام ندوی جہنوں نے حضرت مولاناہارون الرشدی قاسمی ؒ کی سوانح مرتب کر کے علمی دنیا کو بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ کتابوں کی تالیف کتنی دشوار ہے،اس کا احساس ہر اس شخص کو ہے جس نے اس راہ کی آبلا پائی کی ہے۔ مولانا نورالسلام ندوی ابھی نوجوان ہیں،سنجیدہ فکر کے حامل ہیں، ان کی اس کاوش میں ان کی فکر جھلکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی نے کہا کہ کتاب پر صحیح تبصرہ توکتاب کے مطالعہ کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، ابھی جب کہ یہ کتاب ریلیز ہوئی ہے،اس کی فہرست کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے صاحب سوانح کی شخصیت کا پورے طورپر ان کی زندگی کے ہر گوشہ پر کتاب روشنی ڈالتی ہے، میں دل کی گہرائیوں سے مؤلف کتاب ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو ان کی اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔رسم اجراء کے اس تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے کہا کہ مولانا ہارون الرشید جیسی شخصیت اگر یوروپ میں پیدا ہوتی تو ان کا نام علم وفن کے آسمان پر چاند وسورج کی طرح چمکتا نظرآتا،بزرگوں اوراسلاف کی خدمات کو یادکرنے اوران کو سراہنے کا حکم خود اللہ کے رسول ؐ نے دیا۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے،ہمارے برادر عزیزڈاکٹر نورالسلام ندوی نے بڑی عرق ریزی اورجانفشانی کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی تالیف پر میں انہیں اورآل انڈیا ملی کونسل کو جس نے یہ تقریب منعقد کی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔آل انڈیا ملی کونسل اس لیے بھی مبارک باد کے لائق ہے کہ وہ ہر علمی،ادبی کاموں کونہ صرف یہ کہ سراہتی ہے، بلکہ علم کی اشاعت میں اہم رول اداکررہی ہے۔ مصنف کی حوصلہ افزائی کے لیے اس طرح کی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل بہارکے کارگزارجنرل سکریٹری مفتی محمدنافع عارفی نے نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگومیں کہا کہ صاحب سوانح حضرت مولاناہارون الرشید قاسمیؒ میرے بچپن کے استاذ تھے،وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے،اس وجہ سے وہ مجھے بہت عزیزرکھتے  رتھے اورہمیشہ محبت وشفقت فرمایاکرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے عزیزدوست ڈاکٹر نورالسلام ندوی ذاتی طورپرمیرے شکریہ کے مستحق اورقابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے استاذمحترم کی سوانح مرتب فرمائی۔ان کا قلم بڑا سیال اوررواں ہے،اللہ ان کے قلم کی طاقت کمال فن عطا کرے۔ تقریب میں شریک دیگر مہمانوں نے بھی کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو اپنے اپنے الفاظ میں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔ اس موقع پر مولانا صدرعالم ندوی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ کتاب کے مؤلف ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی علمی خدمات پر مستقبل قریب میں کوئی باذوق قلم اٹھائے گا۔مولانا ہارون الرشید کے صاحبزادے جناب مولاناسفیان احمدنے اس موقع پر والد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ابا نے ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تربیت کی تھی اورانہوں نے اپنے استاذ کا حق اداکیا،وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔مولانا مرحوم کے نواسے جناب مولاناامیر معاویہ قاسمی نے اپنے ناناجان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کے مؤلف مولاناڈاکٹر نورالسلام کا شکریہ اداکیا اورانہیں مبارک باد پیش کی۔جناب نجم الحسن نجمی ڈائرکٹرنجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف نے ڈاکٹر نورالسلام ندوی کوکتاب کی تالیف پر مبارک باد دی۔اس موقع پرجناب عقیل احمد ہاشمی،جناب خالدعبادی، جناب جاوید احمد جمال پوری،جناب مسرور عالم دربھنگہ،جناب ریحان احمد،جناب محمد توفیق ندوی،جناب اثرفریدی،جناب محمد نورعالم رحمانی ارریہ،جناب جاویداختر،جناب حافظ محمد عارف،جناب نعمت اللہ ندوی،مولاناجاویدجمالی،جناب رضاء اللہ قاسمی،جناب نسیم احمد قاسمی،جناب محمد جمال الدین قاسمی اورابونصرہاشم وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔

ہفتہ, اکتوبر 22, 2022

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری نمائش کا انعقاد

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری نمائش کا انعقاد
اردو دنیا نیوز ٧٢
 تسمیہ جونئیر ہائی اسکو ل ٢٣اکتوبر(٢٠٢٢)اور اس کی نمائش کا انعقاد کیا گیا ۔ اس موقع پر اس کے رسید احمد پرپل جاوید مظہر اور محتر مہ بنت حسن زیدی ( پرنسل زب نبی گرلس انٹر کالج مظفرنگر مہمان خصوصی موجود ہے ۔ نمائش میں ہوم سائنس اور کتابی دستکاری کے اساتذہ کی مدد سے اسکول کے طلبہ وطالبات نے جوش وخروش سے حصہ لیا ۔ نمائش میں درجہ سے ۸ تک کے تمام طلبہ و طالبات نے اپنی دستکاری کی عمدہ کارکردگی پیش کی ۔ درجہ 7 بی کے طلبہ نے کئی طرح کے کاغذ کے خوبصورت لفافے ، درجہ ے بی کے طلبہ نے الگ الگ طرح کی فائل وغیرہ پیش کی جو بہت عمدہ تھیں ۔ کچھ طلبہ نے گھر میں پڑے بے کار سامان سے گھر کو سجانے کے لئے خوبصورت ائٹم بنا کر پیش کئے ۔ درجہ ے بی کے طلبہ نے کتابی دست کاری میں استعمال ہونے والے آلات کو پیپر پر پیش کیا اور ساتھ ہی گھر پر بہت کم دام میں خوبصورت فائل اور البم بنا کر پیش کی ۔ ہوم سائنس کے طالبات نے بھی اپنی صلاحیتوں سے نمائش میں تعاون کیا ۔ درجہ جی کی طالبات نے بریکا سامان کو بہت خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے گھر کا سجاوٹی سامان بنا کر پیش کیا جیسے اونی لباس سے بنی گڑ یا گتے کی الماری ، بوتل کا گلدستہ ، جسے پانی کے پھولوں سے سجایا گیا ، پیپر سے بنا گھر ، آئس کریم اسٹک سے بنا  گل دستہ ، انڈے کی ٹرے سے بنا شوٹیں اور سیمنٹ چوک سے ملا کر خوبصورت گملا جسے رنگوں کے ذریعہ سجایا گیا ۔ درجہ ہے جی کی طالبات نے پیپر پر کڑھائی کے مختلف نمونے بناۓ اور ابتدائی طبی امداد کے لئے فرسٹ ایڈ بوکس ، درجہ ۸ جی کی طالبات نے سوتی رومال پر مختلف ایمبر ایڈری سلائیوں کے استعمال سے خوبصورت رومال بنائے اور سلائی مشین کے مختلف حصوں کو پیپر پر پیش کیا ۔ اس نمائش سے طلباء وطالبات نے بیحسوس کرایا کہ وقت کا اچھا استعمال کر کے مہنگائی کے اس دور میں پیسے کی بچت کر کے گھر کی سجاوٹ کا خاص خیال رکھا جا سکتا ہے ۔ جو کہ ہماری کاریگری پر منحصر ہے ۔ نمائش دیکھ کر مہمان خصوصی محتر مہ بنت حسن زیدی بہت خوش ہوئی اور حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کی بہت تعریف کی اور ساتھ ہی ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم بھی کو ہر طرح سے خودمختار ہونا چاہئیے ۔ جس میں دستکاری اہم ہے ۔ ہم سبھی کوا پی دست کاری کو بہتر کرنا چاہیئے ۔ دست کاری کے ذریعہ ہم مستقبل میں کا بیج انڈسڑی شروع کر سکتے ہیں جو ہماری محنت سے بعد میں چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ اس طرح مہمان خصوصی نے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی اسکول کا اور بھی اساتذہ کا شکر بیادا کیا ۔ نمائش میں ہوم سائنس اور کتابی دست کاری کے اساتذہ کے ساتھ ساتھ بھی اساتذہ مند پرویز ، محمد شاہ رخ ، خوش نصیب ، ثانیہ مریم ، ناز بی پروین ، درخشاں پروین ، ریشمہ ، لائقہ عثمانی عصمت آرا ، رقیہ بانو شمن ، عباس سیدہ شائلہ ، امر بین انصاری ، نهم فاطمہ ، مولانا شوکت اور مرسلین خان زبیر احمد کا تعاون رہا ۔

مولانا محمد عثمان غنیؒ کی اہم تصنیف ؛’’بُشریٰ‘‘ __

مولانا محمد عثمان غنیؒ کی اہم تصنیف ؛’’بُشریٰ‘‘  __
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مولانا محمد عثمان غنی ؒ بڑے مفتی نامور قائد اچھے منتظم اور مشہور مجاہد آزادی تھے،انہوں نے امارت شرعیہ میں فتویٰ نویسی کا بھی کام کیا ،نظامت بھی سنبھالی ،اپنی دھاردار تحریروں کی وجہ سے جیل بھی گئے ،امارت اور جمعیت کے پلیٹ فارم سے جد و جہد آزادی میں حصہ لیا،ان کے اداریئے،مضامین اور مقالات جو جریدۂ امارت ’’نقیب‘‘ المجیب اور دوسرے رسائل میں چھپے وہ ان کے قلم کی جولانی اسلوب کی پختگی، دلائل کی منطقیت اور اثر آفرینی کی واضح دلیل ہے ۔انہوں نے لکھا اور بھرپور لکھا ،خطابت کا ملکہ ان کے اندر نہیں تھا،مجلسی گفتگو کے آدمی تھے لیکن لکھتے تو لکھتے چلے جاتے ،اور قارئین مسحور ہوجاتے ۔  
مولانا نے بہت لکھا ،ان کے مقالات اور اداریئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فکری طور پر اسلامی افکار و اقدار کے امین اور سچے وارث تھے ،ان کے تعلقات کامریڈ تقی رحیم وغیرہ سے ضرور تھے،اور سیاسی طور پر آزادی کے بعد وہ کمیونسٹ آڈیالوجی کو پسند کرتے تھے ،لیکن اس کا مطلب دین و ملت سے بے زاری نہیں تھی جیسے بہت سارے علماء سیاسی طور پر کمیونسٹ کو پسند کرتے تھے،ویسے ہی آخری دور میں مولانا کی یہ سوچ تھی کہ جوڑی بیل کے بجائے ہنسوا بالی مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے،یہ بات میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے بیان کر رہا ہوں جو خواہ مخواہ ان کے بارے میں وقتاًفوقتاً پھیلائی جاتی رہی ہے ،شاہد رام نگری نے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ؛
’’کانگریس نے اپنی اعلان شدہ پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے پس روی ختیار کی تو آپ نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور تحریروں کے ذریعہ حکومت کو اپنی اصلاح کرنے کا مشورہ دیا ،جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو آپ کھل کے میدان میں آ گئے اور کانگریس حکومت کی غلط بیانیوں کی بھرپور مخالفت کی اور سیاست میں بائیں بازو کے رجحان کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔مولانا کی مضبوط رائے تھی کی فرقہ واریت سے لوہا لینے کے لئے بائیں بازو کی قوت کا استحکام ضروری ہے ،چنانچہ اس وقت جب مسلمان کمیونسٹ پارٹی سے جھجھک محسوس کرتے تھے آپ نے سیاسی بنیادوں پر کمیونسٹ کی حمایت کی اپیل کی ۔‘‘
مولانا نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ایک اہم کتاب ’’بشریٰ ‘‘ہے جس کا موضوع سیرت پاک ہے ،یہ ایک مختصرمگر جامع کتاب ہے،جس کی زبان آسان ہے اورجو طلبہ نیز کم پڑھے لکھے لوگوں تک معنی کی ترسیل کے لئے انتہائی مفید ہے۔
بشریٰ کے اب تک تین ایڈیشن نکل چکے ہیں ،پہلا ایڈیشن ۱۳۵۰؁ھ میں شائع ہوا تھا،اس ایڈیشن تک میری رسائی نہیں ہو سکی،البتہ دوسرا ایڈیشن ڈاکٹر ریحان غنی صاحب کی کرم فرمائی سے میرے مطالعہ میں آیا ،اس ایڈیشن کے سر ورق پر بشریٰ از مولانا سید شاہ محمد عثمان غنی صاحب اور نیچے ناشر میں غنی بک ڈپو درج ہے،اندرونی ٹائٹل دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ان دنوں ناظم امارت شرعیہ صوبہ بہار تھے ،اس پر عرض ناشر یکم صفر ۱۳۷۴؁ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ پہلا ایڈیشن چند مہینے میں ختم ہو گیاتھا اور لوگوں کے مطالبے جاری تھے۔
دوسرے ایڈیشن کے پریس جانے کے پہلے مصنف ؒ نے اس پر نظر ثانی فرمائی اور طباعت سے پہلے معمولی سی لفظی ترمیم بھی کی،اس کی طباعت آزاد پریس سبزی باغ سے ہوئی تھی۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۱۴۰۴؁ھ مطابق ۱۹۸۳؁ء میں سامنے آیا اسے مسلم اسٹوڈینٹس ایسوسی ایسوشن آف انڈیا دارالغنی شاہ گنج پٹنہ نے چھپوایا تھا،عظیم آباد پبلی کیشنز لمٹید بھکنا پہاڑی پٹنہ ۶ سے طبع شدہ اس ایڈیشن کی قیمت چار روپے تھی ،اس پر سنہ اشاعت نومبر ۱۹۸۳؁ء درج ہے ،لیکن یہ صحیح نہیں ہے ،اس لئے کہ عرض ناشر کے طور پر ڈاکٹر ریحان غنی کی جو تحریر اس کتاب میں شامل ہے اس پر تاریخ یکم دسمبر۱۹۸۳؁ ء مطابق ۲۵ ؍صفر ۱۴۰۴؁ھ دج ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ نومبر میں یہ کتاب نہیں چھپی تھی دسمبر اور اس کے بعد ہی اس کی طباعت ہو سکی ہوگی،ڈاکٹر ریحان غنی صاحب نے عرض ناشر میں لکھا ہے کہ ’’مولانامفتی سید شاہ محمد عثمان غنی ؒ نے آسان اور عام فہم زبان میں یہ کتاب لکھ کر وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔‘‘(ص: ۳) 
بشریٰ کے بارے میں شروع میں دو تأثرات اور آرا بھی درج کی گئی ہیں ان میں ایک اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ہند بہار کے ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ کے تأثرات ہیں جنہیں ان کی رائے سے تعبیر کیا گیا ہے ،ڈاکٹر صاحب کی رائے ہے کہ ’’بچوں کے لئے اتنا جامع رسالہ سیرت طیبہ پر میں نے نہیں دیکھا ہے ،انداز بیان بھی سیدھا سادہ ہے اور واقعات کو مختصر پیرا گرافوں میں اور آسان زبان میں بیان کر کے بچوں کے لئے بہت مفید بنا دیا گیا ہے ۔
پھر بیش تر واقعات کے بعد ہلکا پھلکا سبق آموز جملہ استعمال کر کے بچوں کی توجہ ادھر مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کریں جو  فطری طور پر کسی واقعہ کو پڑھنے کے بعد بچوں میں خود بھی پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘(ص: ۴)
مولانا سید شاہ عون احمد قادری ؒ اس وقت کے جمعیۃ علماء بہار کے صدر کی رائے مختصر سی درج ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ’’سیرت نبوی میں مختصر کتاب کی تصنیف کاچلن مولانا موصوف کی کتاب بشریٰ کے بعد شروع ہوا۔‘‘(ص:۵)
ڈاکٹر سید ضیاء الہدیٰ صاحب نے اس کتاب کے مندرجات میں ایک کمی اور تشنگی کا بھی ذکر کیا ہے ،لکھتے ہیں : ’’البتہ ایک تشنگی مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ بچیوں یا بالفاظ دیگر صنف اناث کے لئے مواد برائے نام ہی ہے ،ظاہر ہے ان کے لئے جو مخصوص نمونے ہو سکتے ہیں وہ صحابیات ہی کے اندر پائے جا سکتے ہیں ،جس کا ذکر سیرت نبوی ؐکے ضمن میں آنا چاہئے ،مثلاً غزوۂ احد میں ایک صحابیہ ام عمارہ ؓ کا واقعہ بیان کیا جا سکتا تھا ،جنہوں نے آنحضور ؐ کو بچانے کے لئے ستر تیر کھائے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جس طرف بھی دیکھتا تھا، ام عمارہؓ نظر آتی تھیں۔ ‘‘(ص:۴)
کتاب کا آغاز مصنف علیہ الرحمہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد مختصر سے خطبہ الحمدللہ و سلام علی عبادہ الذین الصطفیٰ سے کیا ہے ،تمہید بھی مختصر سی تین سطر کی ہے ،جس میں اللہ کی بڑی رحمت اور نعمت میں سے ایک انسان کامل کی ولادت با سعادت کو قرار دیاہے۔اس کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ولادت با سعادت ،بچپن ،جوانی ،کسب معاش ،نکاح ،ایفائے وعدہ ،اصلاحی کام ،دیانت پر اعتماد ،گوشہ نشینی ،نبوت اور نزول وحی ،تبلیغ اسلام ،اعلانیہ تبلیغ اسلام ،عزم و استقامت ،صحابہ کا صبر و ثبات ،حبشہ کی ہجرت ،لالچ اور دھمکی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقاطعہ ،صدمہ اور ظلم،مکہ سے باہر تبلیغ،معراج،نماز کا حکم ،مدینہ میں اسلام ،نقابت، رسول اللہ کی ہجرت ،مسجد نبوی کی تعمیر ،بھائی چارہ ،امن و اتحاد کی کوشش، مدینہ کے دشمن ،جہاد ،غزوۂ بدر ،اذان کی ابتداء ،غزوۂ احد ،صحابہ کی محبت،یہودیوں کی شرارتیں ،شراب کی حرمت ،غزوۂ خندق ،عہد شکنی کی سزا ،صلح حدیبیہ ،معاہدہ کی پابندی ،غزوۂ خیبر ،عمرہ کی ادائیگی،بادشاہوں کو دعوت اسلام ،فتح مکہ، دشمنوں سے سلوک ،غزوۂ حنین ،غزوۂ تبوک ،حج کی ادائیگی ،حجۃ الوداع ،مرض وفات ، آخری وصیت ،معجزہ ،اخلاق ، سادگی ،صفائی ،گھر کا کام ،سبق حاصل کرو جیسے اہم موضوعات پر مولانا محمد عثمان غنی ؒ نے انتہائی سادہ اور سہل انداز میں طلبہ و طالبات کی استعداد و صلاحیت کو سامنے رکھ کر لکھا ہے، واقعات وہی ہیں جو سیرت کی عام کتابوں میں بھی مذکور ہیں ،لیکن مولانا نے جگہ جگہ بچوں کو جو نصیحتیں کی ہیں اور جو نتائج اخذ کئے وہ ان کے اخاذ دہن کی پیداوار ہیں ،عموماً ان کی طرف نگاہ کم جاتی ہے ۔صحابہ کے صبر و ثبات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ ذ کر کیا ہے وہ آج کے موجودہ حالت میں ہمارے لئے نصیحت بھی ہے اور حوصلہ افزا پیغام بھی ،لکھتے ہیں :’’جب ظالموں اور جابروں کا غلبہ اور تسلط ہو اور مسلمانوں کے لئے کوئی خاص جائے پناہ نہ ہو اور حق کو ظلم و جور سے پامال کرنے کی کوشش کی جاتی ہو تو ان حالات میں ان ظالموں کے مقابلہ میں اعلان حق کرنا اور صداقت و حقانیت پر قائم رہتے ہوئے ہر قسم کے مصائب برداشت کرنا ،یہاں تک کہ اس راہ میں جان عزیز تک قربان کر دینا عین دین ہے ،اور اسی کو قر آن و حدیث میں صبر جمیل اور استقامت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔‘‘(ص:۲۲) 
مولانا امارت شرعیہ کے ناظم بھی تھے اور سیاسی قائد بھی ،اس لئے مختلف جگہوں پر سیرت کے واقعات کی روشنی میں ایک امیر کے ماتحت زندگی گزارنے اور بھائی بھائی بن کر رہنے پر زور دیا ہے ،یہ سیرت نبی کا پیغام بھی ہے اور اسلام کو مطلوب بھی ،لکھتے ہیں :’’حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے سے پہلے وہاں کے مسلمانوں کا جماعتی نظم قائم کر دیا اور ہر قبیلہ کے لوگوں کو ایک سردار کے ماتحت کر دیا ،تا کہ تمام اسلامی و جماعتی کام خوش اسلوبی سے انجام پائے۔‘‘
مولانا کا اسلوب اس کتاب میں یہ ہے کہ وہ واقعات ذکر کر کے اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں ،اور طلبہ کو اس طرف سبق کے انداز میں متوجہ کرتے ہیں اور اس پر عمل کی تلقین کرتے ہیں ۔

جمعہ, اکتوبر 21, 2022

مولانا سید مسرور احمد مسرورجن کے جانے پہ آگئے آنسو

مولانا سید مسرور احمد مسرور
جن کے جانے پہ آگئے آنسو
اردو دنیا نیوز ٧٢
  ✍️ محمد سراج الہدی ندوی ازہری
دار العلوم سبیل الســـــــــلام، حیدرآباد

   21/اگست 2022ء مطابق 22/محرم الحرام 1444ھ بروز اتوار کی بات ہے، معمول کے مطابق فجر سے پہلے بیدار ہوا، ابھی بستر ہی پر تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی، دیکھا تو عزیزم مفتی محمد نعمت اللہ سبیلی، بانی و ناظم معھد القرآن، مریم کالونی، کتہ پیٹ، حیدرآباد کا فون تھا، بے وقت فون پر تعجب تو ہوا؛ تاہم مجھے اندازہ ہوچلا تھا، علیک سلیک کے فوراً بعد ہی کہہ پڑے کہ ابھی ابھی تہجد کے آخری وقت میں مولانا سید مسرور احمد مسرور صاحب نے حیدرآباد کے عثمانیہ ہاسپٹل میں آخری سانس لی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فجر سے متصل ہی مولانا مرحوم کی لاش دار العلوم سبیل الســـــــــلام حیدرآباد سے قریب ان کی قیام گاہ پر لائی گئی، جوں جوں خبر عام ہوتی گئی، اہلِ تعلق اور محبین و مخلصین کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، نماز جنازہ دار العلوم سبیل الســـــــــلام حیدرآباد کے وسیع و عریض احاطے میں ظہر کی نماز کے بعد ان کے بڑے برادر نسبتی محترم سید احمد صاحب نے پڑھائی، جس میں اساتذہ و طلبہ کے علاوہ ایک جم غفیر نے شرکت کی اور تدفین بارکس کی مسجد "نور عين" سے متصل قبرستان میں عمل میں آئی۔

     مولانا سید مسرور احمد مسرور بن سید مشرف حسین کا تعلق سادات خاندان سے تھا۔ آپ کے آبا و اجداد اصلاً بہار کے ضلع "چھپرہ" کے رہنے والے تھے، جن میں ایک مشہور شخصیت سید ریاست حسین کی تھی، جو اپنے وقت میں پولیس محکمہ میں داروغہ کے عہدے پر فائز تھے، ان کا ٹرانسفر "چترا" ہوا، جو ابھی صوبہ جھارکھنڈ کا ایک ضلع ہے، تو افرادِ خاندان "چھپرہ" ضلع سے "چترا" ضلع منتقل ہو گئے، اس وقت کے راجہ مہاراجہ نے ان کی حسنِ کارکردگی پر "رَکْسی" گاؤں میں بڑی جاگیر دی تھی، زمانہ گزرتا رہا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ایک راجہ، جسے آج بھی عوام کی زبان میں "نکٹا راجہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کی نیت خراب ہوئی اور مولانا مرحوم کے جدِّ امجد کے باغ کو لینا چاہا؛ لیکن مولانا کے اجداد نے دینے سے انکار کردیا، پھر آپس میں مخاصمت ہوئی، کچھ زمین کی نیلامی ہوئی اور کچھ پر غیروں نے دھیرے دھیرے قبضہ کرنا شروع کردیا، تو مولانا مرحوم کے افرادِ خاندان نے نقلِ مکانی کرنا ہی بہتر سمجھا، اس طرح یہ خاندان مختلف جگہوں پر آباد ہوگیا۔ مولانا مرحوم کے والدِ محترم سید مشرف حسین کی شادی ضلع گیا کے "کوٹھی" گاؤں میں ہوئی، تو آپ وہیں آباد ہوگئے، اس طرح مولانا سید مسرور احمد مسرور کی ولادت، پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت، سب کچھ نانیہال ہی میں ہوئی، جہاں والدین نے مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔

     مولانا مرحوم کی صحیح تاریخِ پیدائش کا تو علم نہیں ہے؛ تاہم آدھار کارڈ کے مطابق 1950ء میں آپ کی ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم گھر ہی میں ہوئی، اس کے بعد اپنے ہی گاؤں "کوٹھی" کے مدرسہ عبیدیہ میں داخل ہوئے، جہاں آپ کے خاص استاذ مولانا کلیم اللہ طوروی رہے، اس کے بعد اپنے وقت کے مشہور و معروف ادارہ مدرسہ قاسمیہ، گیا میں داخلہ لیا، جہاں چند سالوں تک تعلیم حاصل کی، پھر سرزمینِ دیوبند کا سفر ہوا اور تعلیم و تعلم کی بجائے فنِ کتابت و خطاطی کی طرف توجہ دی، مولانا مرحوم کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ معاشی مسائل اور گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے یہ راہ اختیار کی گئی اور اسی کو ذریعۂ معاش بنایا، دیوبند میں قیام کے دوران حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ اور مدنی خاندان سے کافی گہرا تعلق رہا، جسے وہاں سے آجانے کے بعد بھی نبھاتے رہے۔ دیوبند کے بعد اپنے وطن بہار کا رخ کیا اور ہندوستان کے مشہور و معروف ادارہ امارتِ شرعیہ، پٹنہ سے وابستہ ہوگئے، جہاں امارت شرعیہ کے ترجمان "ہفت روزہ نقیب" کی کتابت کے ساتھ ساتھ "روزنامہ قومی تنظیم" سے بھی منسلک رہے، امارتِ شرعیہ میں امیرِ شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی، قاضی القضاۃ فقیہِ ملت حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، حاجی شفیع صاحب تمنائی اور امیرِ شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہم اللہ سے کافی قربت رہی، آخر الذکر سے آپ کی رشتہ داری بھی تھی۔ 1986ء کے اوائل میں جنوبی ہند کے مشہور و معروف، تعلیمی و تربیتی ادارہ دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد تشریف لائے، پھر دوبارہ کبھی بھی اپنے وطن جانا نہیں ہوا، آخری سانس تک اسی شہر میں رہے۔ بانی دار العلوم سبیل السلام حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی رحمہ اللہ کی متعدد کتابوں، ادارے کے ترجمان "سہ ماہی صفا" اور بھی بعض دیگر لوگوں کی تصنیفات و تالیفات کی کتابت کی، یہاں کی لائبریری کے معاون مدیر بھی رہے، طلبۂ عزیز کی تحریر کی اصلاح بھی کی، اس طرح اپنی افادیت کو ثابت کرتے ہوئے ایک پہچان بنائی۔

    اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو بہت ساری خوبیاں عنایت کی تھیں ، آپ خوبصورت چہرہ، گورا رنگ، کشادہ پیشانی، لمبا قد، چھریرا بدن، مسکراتا چہرہ، خوش مزاج، خوش مذاق، با اخلاق، باذوق، ملنسار، جود و سخا کے پیکر اور فقیری میں شاہی مزاج رکھنے والے تھے، ہمدردی و غم گساری، ایثار و قربانی، صفائی و ستھرائی، سلام میں پہل اور کم خوراک ہونے میں ایک مثال تھے، مزاج میں نستعلیقیت، رفتار میں تیزی، گفتار میں ٹھہراؤ اور کردار میں بلندی تھی، تنہائی پسند تھے، گوشہ نشینی سے محبت تھی، سفر سے گریزاں تھے، بازار تک جانے سے احتراز تھا، شور و شغب سے حد درجہ نفرت تھی، چھوٹے بچوں کو مفرّحُ القلوب کہتے؛ لیکن خود ان سے بہت دور رہتے، وہ ایک بے ضرر انسان تھے۔

     آپ کو نثر و نظم کا صاف ستھرا ذوق تھا، اچھے شاعر تھے، بعض نظمیں اخبارات و رسائل میں شایع ہوئیں، تو بہت پذیرایی ہوئی اور خوب دادِ تحسین ملی؛ لیکن اسے کبھی پیشہ نہیں بنایا، لوگوں کے جذبات کی رعایت میں جب کبھی موقع آتا، عمدہ اور اچھے اشعار کہتے؛ بلکہ اس کے لیے باضابطہ وقت نکالتے، توجہ دیتے اور منظرِ عام پر آنے سے پہلے عموماً ہم لوگوں کو سناتے، میں جب بھی کہتا کہ: آپ کے منظوم کلام کتابی شکل میں آنے چاہیئیں، تو مسکرا کر رہ جاتے اور کبھی اثبات میں بھی جواب دیتے۔ حکمت و طبابت اور شرعی رقیہ سے بھی کسی حد تک لگاؤ تھا، اپنے محدود دائرے میں رہتے ہوئے قرآنی آیات و احادیث کے ذریعہ بچے، بوڑھے اور دیگر مریضوں پر دم کیا کرتے تھے؛ لیکن یہ سب صرف اور صرف خدمتِ خلق کے جذبے سے بغیر کسی فیس اور نذرانے کے انجام دیتے۔

   آپ نے دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں تقریباً 35/ سال کا عرصہ گزارا، ادھر دو ڈھائی سالوں سے پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے مدرسہ آنا جانا نہیں تھا، مدرسہ سے قریب کرائے کے مکان میں اہل و عیال کے ساتھ مقیم تھے؛ لیکن آپ کی طویل المیعاد خدمات کی وجہ سے ناظمِ مدرسہ نے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا تھا، جو آپ تک پہونچا دیا جاتا تھا۔ مدرسہ کے ذمہ داران اور اساتذہ و عملہ سے اچھے تعلقات تھے، بڑے چھوٹے سبھوں کا احترام کرتے، راقمِ سطور کو دار العلوم سبیل السلام کے اساتذہ و طلبہ "مولانا سراج صاحب" یا "مولانا ازہری صاحب" کہا کرتے ہیں، جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا مرحوم نے ہمیشہ "مولانا ازہری صاحب" ہی کہہ کر یاد کیا، یہ ان کی خرد نوازی، محبت، اکرام اور اپنائیت کا اظہار تھا۔
              1987ء میں آپ کی اہلیۂ محترمہ کا انتقال ہوگیا، جن سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تولد ہوا تھا، لڑکیوں کا انتقال تو بچپن ہی میں ہوگیا، لڑکے کا نام سید احمد رومی ہے، جو خوش الحان حافظ و قاری ہیں، اور تقریباً دو دہائیوں سے جدّہ میں مقیم ہیں۔ مولانا کی دوسری شادی حیدرآباد ہی میں ہوئی، جن سے ایک لڑکی اور ایک لڑکا تولد ہوا، لڑکے کا نام سید محمد غزالی ہے، دونوں حافظِ قرآن، شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہیں۔ مولانا دو بھائی اور دو بہن تھے، سب سے لمبی عمر آپ ہی نے پائی۔ وفات سے دو روز پہلے مولانا سے ملاقات ہوئی، بہت بیمار تھے، نقاہت تھی، لوگوں کو پہچاننا بھی مشکل ہورہا تھا، جوں ہی ان کے صاحب زادے حافظ سید محمد غزالی نے کہا کہ: آپ ازہری صاحب کو یاد کر رہے تھے، وہ آگئے۔ فوراً نظر اٹھائی، بہت دعائیں دی، شکریہ ادا کیا اور متعدد لوگوں کی محبتوں اور ان کے حسنِ تعاون کو نام لے لے کر یاد کیا اور اپنے حُسنِ خاتمہ کے لیے دعا کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے، سیئات پر پردہ ڈال دے، جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل عطا کرے، آمین یا رب العالمین۔

(مضمون نگار مشہور اسلامی اسکالر، اچھے مفتی، بہترین خطیب، مثبت صاحبِ قلم، دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد کے سینئر استاذ اور متعدد تعلیمی و تربیتی اداروں کے سر پرست اور رکن ہیں۔
رابطہ نمبر: 9849085328)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...