Powered By Blogger

منگل, نومبر 01, 2022

ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
بحمداللہ بحسن وخوبی پیام انسانیت کی سالانہ کارگزاریوں کا پروگرام آج بتاریخ ۳۰/اکتوبر ۲۰۲۲ اختتام پذیر ہوگیا،آخری خطاب ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ العالی کا پہلے سے طے تھا، حضرت والا باوجود نقاہت وعلالت کےآخری خطاب ودعاء کےلیےمسجد تشریف لائے اور بہت ہی مختصر خطاب میں بڑی قیمتی باتیں فرمائیں،تلخیص حاضر خدمت ہے؛
"میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ سفر کرکے یہاں آئے ہیں اور انسانیت کے عنوان پر جمع ہوئے ہیں،یہ اجرکا موجب ہے،اجر کا تعلق آخرت سے ہے،ان شاء اللہ العزیز آپ سبھی آخرت میں سرخرو ہوں گے، آپ نے بڑے اچھے کام کیے ہیں،اچھی نیت ہوتی ہے تو اچھے کاموں کا نتیجہ اچھا ظاہر ہوتا ہے، دنیا میں ہی برکتیں  نصیب ہوتی ہیں، برکت کا تعلق دنیا سے ہی ہے۔
انسانیت کا پیغام انسانوں تک پہونچانا ہرباشعور انسان کا فرض منصبی ہے،اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور تمام مخلوقات میں افضل بنایا ہے، سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ دیا ہے، سامنے اچھی بری دونوں چیزیں ہوتی ہیں، کیا اچھا ہے کیا برا ہے؟یہ بتانے کے لیے نبیوں کو بھیجا ہے، وہ اپنے وقت کے عظیم انسان ہوتے ہیں جو نبی والا کام کرتے ہیں، آپ یہ کام کررہے ہیں، آپ قابل مبارکباد ہیں، 
انسان دماغ رکھتا ہے، اس لیے اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا ہے، تحریک پیام انسانیت بھی یہی کہتی ہے۔
 اس بات کوپوری فکرمندی اوردردمندی کے ساتھ اس وقت امت کےسامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے اور انسان کیوں بنایا ہے؟
ایک انسان کو کسی زمانے میں بھی انسانی زندگی گزارنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی ہےاور نہ پیش آسکتی ہے ،وہ اس لیے کہ وہ ایک انسان ہے۔
تحریک پیام انسانیت جسکو مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی  میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے  1974میں پورےملک میں شروع کیااسمیں انسانیت کےتحفظ اوربقاکاسامان ہے،ایک موقع پرآپ کہیں تشریف لےجار ہےتھے،پلیٹ فارم پر کیلے کا چھلکاپڑادیکھا،مولانا علیہ الرحمہ نےاسے اٹھا کر کنارے ڈال دیا،محبین نےکہا: حضرت! آپ نے کیوں یہ زحمت کی، مولانا نے جواب دیا! زحمت نہیں کی بلکہ ایک انسان کو زحمت سے بچانے کی فکر کی ہے،کوئی گزرنے والا/راہگیر اگر پاؤں رکھتا تو گرجاتا ،ہمارا مذہب گرنے والوں کو بچانے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک واقعہ میونسپلٹی کےنل میں سے پانی گرنے کا بھی ہے،حضرت نے دیکھاکہ ٹونٹی چالوہے، پانی بیکار گر رہا ہے،خودجاکر اپنے ہاتھ سے بند کیا اور یہ فرمایا کہ:یہ نل کسی کا بھی ہو نقصان  انسانیت کا ہورہا ہے۔
یہ تحریک پیام انسانیت دراصل انہی چیزوں کی طرف توجہ مبذول کرانے اور عملی طور پر کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے،
اس مختصر خطاب کے بعد حضرت کی دعاءسے اس دو روزہ پروگرام کا اختتام ہوا،اللہ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۳۱/اکتوبر ۲۰۲۲ء

اتوار, اکتوبر 30, 2022

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں محفل شعر وسخن کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام، ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں محفل شعر وسخن کا انعقاد 
اردو دنیا نیوز٧٢

پھلواری شریف پٹنہ 30/اکتوبر 2022 (پریس ریلیز) فقیھہ روشن بنت ڈاکٹر فیروز عالم کے سالگرہ کے موقع پر ایک شاندار محفل شعر وسخن کا انعقاد عمل میں آیا. ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر شمیم شعلہ فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر نصر عالم نصر نے انجام دیا. مشاعرہ کا انعقاد ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری  البا کالونی پٹنہ میں ہوا. مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے
نذر فاطمی 
رند بھی ہیں میکدے میں شیخ بھی 
آج گر جائے گی ہر دیوار کیا 
نصر عالم نصر 
اک بار جو حافظ بنا نورانی ہوگیا 
سینے میں جو آیا تو پھر قرآن رہ گیا
محمد ضیاء العظیم
تجھ سے دور ہوتے ہی خود کو تنہا پاتا ہوں 
آنسوؤں کی بارش میں روز میں نہاتا ہوں 
سلیم شوق پورنوی
تین بیٹے ہیں، تین ہی کمرے
میرا مرنا بڑا ضروری ہے، 
اس مشاعرہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی،
مشہور ومعروف شاعر ڈاکٹر نصر عالم نصر نصر ،اور روشن آرا نے تعاون کیا، جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، مہدی حسن، یوسف، افضل، عفان ،حسان، نے کیا، 
مشاعرہ میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلباء وطالبات سمیت دانشوران ادب اور باذوق سامعین موجود تھے، صدر محترم کی اجازت سے
 محمد ضیاء العظیم برانچ اونر وٹرسٹی محمد ضیاء العظیم  کے شکریہ کے ساتھ مشاعرہ کا اختتام ہوا.

پیام انسانیت کی دو پٹریاں راقم الحروف ✍️ہمایوں اقبال ندویحال مقیم، تکیہ(،رائے بریلی

پیام انسانیت کی دو پٹریاں 
اردو دنیا نیوز٧٢
راقم الحروف 
✍️ہمایوں اقبال ندوی
حال مقیم، تکیہ(،رائے بریلی
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ (تکیہ)میں پورے ملک سے تحریک پیام انسانیت کےرضاکاران حاضرہوئےہیں، سالانہ کارگزاری کی مجلس شروع ہوچکی ہے، تحریک پیام انسانیت کے میرکارواں حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی کےتمہیدی خطاب کی تلخیص آپ جملہ قارئین کی نذر ہے؛
  تحریک پیام انسانیت یہ کوئی رفاہی تنظیم نہیں ہے،ایسا نہ ہو کہ آپ اسے ایک رفاہی تنظیم سمجھ کر اس کی افادیت واہمیت کو ضائع کردیں،حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اس بینر سے کوئی رفاہی کام نہیں کیا گیا تھا،بلکہ حضرت مولانا عبداللہ حسنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسے شروع کیا ہے، اس کامقصد صرف یہی ہے کہ جہاں ہم لوگوں کے سامنے اسلام کے اخلاقی اور سماجی پہلو کو رکھیں گے وہاں یہ رفاہی کام ہمارے دعوی کی دلیل بن سکیں گے، مگر مقصد ہماری نظر سے روپوش نہ ہوجائے، اس کا خیال ضروری ہے، 
آج ہمارے سامنےمختلف حالات ہیں،ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، سب سے بڑی کوشش اس بات کی ہے کہ ہمارا ایمان سلب ہوجائے،معاش کو بھی نشانہ اسی لئے بنایا جارہا ہے، بعض وقت ایک آدمی معاشی تنگی سے عاجز آکرخودکشی تک کر لیتا ہے،اور اپنےدین وایمان کا سودا کر لیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا حال یہ تھا کہ انکےگھروں میں کئی دنوں تک فاقہ رہتا،مگرآج وہ ایمان نہیں ہے کہ آدمی معاشی مار کو برداشت کرسکے۔
آج دینی مدارس خطرے میں ہیں، انہیں بند کرنے کے طریقے استعمال کئے جارہے ہیں، ان سر سبز شاداب درختوں کی جڑوں کو کھودا جارہا ہےاور پتیوں کو اس کااحساس نہیں ہے،ایک وقت آئے گا جب وہ بھی خشک ہوجائیں گی۔
لہذا دونوں چیزیں ہمارے لئے ضروری ہیں، یہ دونوں چیزیں  تحریک پیام انسانیت کی دو پٹریاں ہیں، ہم لوگوں کے کام آئیں اور ان کے ذہن ودماغ کوبھی بدلنے کی کوشش کریں۔
پیام انسانیت دین اسلام کی تشریح وتبلیغ کا ایک حکیمانہ طریقہ ہے،ٹکراؤ کی پالیسی کبھی نفع بخش نہیں ہوئی ہے اور نہ اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ نے دشمنوں کو بھی معاف فرمایا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ اس وقت ہمارے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے گئے ہوں اور ہم کچھ نہیں کرسکتے ہوں،آج ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں، جس ملک میں ہم رہتے ہیں، یہاں ہرحال میں حکمت سے ہی کام کرنے کی ضرورت ہے، بہت لوگ بات نہیں سمجھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ فوری فائدہ مل جائے،ایسا نہیں ہوتا ہے،حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے پچاس سال پہلے اس تحریک کو شروع کیا،قبل ازوقت اس خطرہ کو محسوس کیا تھا،الحمد للہ اس کے بڑے فوائد سامنے آئے ہیں، آج ہمیں لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے ذریعہ ہم  دلوں تک اور لوگوں کے دماغ تک پہونچ سکتے ہیں۔

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی
حال مقیم، تکیہ(،رائے بریلی)
۲/ربیع الآخر ۱۴۴۴ھ

ہفتہ, اکتوبر 29, 2022

مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت___
اردو دنیا نیوز٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مکتوب اور مراسلہ نگاری کا رواج زمانۂ قدیم سے رہا ہے، عراق میں کھدائی کے دوران Tel Alsamarna کے مقام پرتین سومٹی کی تختیاں ملیں۔ آثار قدیمہ والوں نے اسے فراعنہ، مصر کے نام لکھے خطوط قرار دیا، یہ خط تین ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ملکۂ صبا یمن کے نام خطوط کا ذکر ہے۔ یقینی طور پر ہم اسے معلوم تاریخ کا پہلا خط مانتے ہیں۔بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یونان میں خط لکھنے کا رواج حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بھی موجود تھا۔ رومن کے شاعر سیسرو (Sissroo) کے مکاتب کا بھی لاطینی زبان میں پتہ چلتا ہے۔ اسی دور میں ہیورلیس(Hurales) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلا منظوم خط لکھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد کے بعض حواریین کے خطوط بھی یونانی زبان میں ملتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی مکتوب نگاری کا فن موجود تھا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلاطین کے نام خطوط جو دعوتی نقطۂ نظر سے لکھے گئے عربی مکتوب نگاری کی بہترین مثال ہیں، حضرت عمرؓ کے مکاتیب گورنروں کے نام اور حضرت علیؓ کے بعض مکاتیب جونہج البلاغۃ میں شامل ہیں، عربی خطوط نگاری کے ترقی پذیر نمونے ہیں۔
فارسی زبان میں مکتوب نگاری کی بات کریں تو سامانی بادشاہ نوشیرواں کے خطوط کا مجموعہ’’ توقیعات نوشیرواں‘‘ اور مولانا جامی کے خطوط کا مجموعہ رقعات جامی اس کے علاوہ رقعات عالمگیری مشہور و مقبول ہے۔ اس فن کی ترقی کا بڑا سبب ’’دارالانشائ‘‘ کا قیام اور ایرانی حکمرانوں کے ذریعہ اس کام کے لئے منشی یا دبیر کے عہدے تھے۔ جن کا کام حکمرانوں کے احکام و ہدایات کو لکھ کر متعلقہ شخصیات تک بھجوانا ہوا کرتا تھا۔
ہندوستان میں فارسی مکتوب نگاری نے صوفیاء کرام کے ذریعہ رواج پایا، اس کا بہترین نمونہ مکتوبات مجدد الف ثانی اور حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری کی مکتوبات صدی اور مکتوبات دو صدی ہے جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، چک مجاہد ویشالی واقع دادا پیر شاہ عماد الدین باطن کے پیر و مرشد سید شاہ حسن علی منعمی کے خطوط کابھی فارسی زبان کے مکتوبات میں ایک مقام ہے۔ اس مجموعہ میں کئی خطوط شاہ عماد الدین باطن کے نام ہیں اور میں نے پی اچ ڈی کامقالہ اسی پر لکھا تھا اور اس کا ایڈیشن ورک بھی کیا تھا۔ فارسی زبان میں ابو الفضل کے مکتوبات کی بھی اہمیت رہی ہے اور اس کے کچھ خطوط یونیورسیٹیوں میں فارسی نصاب کا حصہ رہے ہیں۔
 فارسی میں مکتوب نگاری کی مقبولیت کی وجہ سے مکتوب نگاری کے فن پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں، ان میں منیر لاہوری کی انشائے منیری، چندر بھان برہمن کی چہار چمن اور مادھوراؤ کی انشاء مادھوراؤ کا خاص طور سے ذکر کیا جاسکتا ہے۔
انگریزی میں جیم ہال (Jame Hall) کے مکتوب کو پہلا نمونہ قرار دیا جاتا ہےFerry Queen اور Kids, Charles Lane, Edmand Spencer اور Shallyمختلف ادوار میں انگریزی مکتوب نگاری کے لئے جانے جاتے رہے ہیں، ایک نامBrownyکابھی ہے، جس کے مکتوب کو انگریزی میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز فورٹ ولیم کالج سے قبل ہوچکا تھا، عموماً رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو پہلا مکتوب نگار قرار دیا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر عبد اللطیف اعظمی، گیان چند جین اور عنوان چشتی نے 6 دسمبر 1822ء کو حسام الملک بہادر کے اس مکتوب کو پہلا قرار دیا ہے جو انہوں نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام لکھا تھا۔ حسام الملک کرناٹک کے آرکاٹ کے رہنے والے تھے اور نواب والا جاہ کے چھوٹے صاحبزادہ تھے۔خلیق انجم نے جان طپش اور راسخ عظیم آبادی کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے جان طپش 1814ء میں اور راسخ عظیم آبادی نے 1822ء میں دنیا سے رخت سفر باندھا، گارساں دتاسی نے اردو کے اٹھارہ خطوط کو جمع کیا، جن میں قدیم خط 1810ء کا ہے۔شعری مکتوبات کا رخ کریں تو شیر محمد خاں ایمان کی کلیات میںمنظوم خط 1806ء میںشائع ہوا، ان سے بہت پہلے 1861ء میں مرزا یار علی بیگ سرور اور میر ابراہیم حیوان کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط ملتے ہیں، اس طرح اب بھی یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ اردو کا پہلا خط کس نے لکھا، کس کو لکھا اور مکتوب کے مندرجات کیا تھے۔ان امور سے قطع نظر دیکھیں تو غالب نے اسے فن بنادیا، ان کے مجموعے عود ہندی، اردوئے معلی، مکاتیبِ غالب، مہر غالب میں ان کے مکتوب نگاری کے فن کو دیکھا جا سکتا ہے۔
 غالب کے بعد جو مکاتیب کے مجموعے شائع ہوئے ان میں مکاتیب سرسید، مکاتیب حالی، مکاتیب شبلی، مرزا رجب علی بیگ سرور کا انشائے سرور، صفیہ اختر کے خطوط زیر لب، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے ’’مکاتیب سجاد‘‘ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے ’’مکتوبات ماجدی‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر میں مکتوب نگاری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناش کرایا، ادب عالیہ کے طور پر ان مکاتیب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ان کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کے دوسرے مجموعۂ مکاتیب بھی ہیں، جن میں مکاتیب ابو الکلام آزاد، نقشِ آزاد اور کاروان خیال کا ذکر آتا ہے، ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی ’’مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ بھی اس موضوع پر پیش بہا اضافہ ہیں، جن میں درجنوں ادباء کے خطوط شامل ہیں۔ قاضی جلال ہری پوری کے مکاتیب کا مجموعہ، آئینۂ خیال، اس کے علاوہ ’’اوراق جاوداں‘‘ جواہر لال نہرو کے خطوط بیٹی کے نام، بہادر یار جنگ کے خطوط مشاہیر کے نام ، مولانا مناظر احسن گیلانی کا مجموعہ مکاتیب گیلانی مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒ اور خود امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی  ؒکے خطوط کی چار جلدیں مسمی’’ مکتوبات رحمانی‘‘ اور ڈاکٹر امام اعظم کے نام خطوط کا مجموعہ چٹھی آئی ہے بھی مکتوب اور مراسلہ نگاری کی ترقی پذیر شکل ہے۔
 جاں نثار اختر کے صفیہ کے نام لکھے گئے خالص رومانی خطوط کوبھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ خطوط چاہے کسی زبان میں لکھے گئے ہوں، ان کے اقسام تقریباً یکساں ہوتے ہیں، نجی خطوط، سرکاری خطوط، رسمی خطوط، عمومی خطوط وغیرہ۔ خطوط کے سارے اقسام ان میں سما جاتے ہیں، البتہ ان خطوط کے لکھنے کے طریقے موضوعاتی اور زبان کے اعتبار سے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ان تمام حالات و ادوار سے گزر کر جب مکتوب نگاری ہمارے عہد میں پہونچی تو ہم جیسوں کے خطوط بھی ’’آدھی ملاقات‘‘ اور دوسروں کے بھیجے ہوئے خطوط’’ نامے میرے نام ‘‘اور انوار الحسن وسطوی کے اخباری مراسلے بھی سامنے آئے جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں

جمعہ, اکتوبر 28, 2022

ڈاکٹر احسان عالمپرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں: ایک تاثر

ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں: ایک تاثر
(عبدالرحیم برہولیاوی کی عمدہ ترتیب)
اردو دنیا نیوز٧٢
 عبدالرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین دربھنگہ ضلع میں واقع ایک گاؤں برہولیا کے رہنے والے ہیں۔ فی الحال وہ معہد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی (بہار) میں درس و تدریس انجام دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی مسجد پرانی بازار، سرائے، ویشالی میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ کافی ملنسار اور مخلص انسان ہیں۔ انہوں نے ”مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں“ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ 72صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 36شعرا کے اشعار رقم کئے گئے ہیں جو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور فن پرروشنی ڈالتے ہیں۔اس طرح عبدالرحیم برہولیاوی کی یہ ترتیب کردہ کتاب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔  
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ولادت ویشالی ضلع کے ایک گاؤں حسن پور میں 17نومبر 1958کوہوئی۔ مفتی صاحب نے اسلامی اور دینی تعلیم بڑی دلجمعی کے ساتھ حاصل کی۔ ان کی گھریلو ترتیب نے انہیں تصنع اور بے کار مشاغل سے دور رکھا۔ صرف مطالعہ ہی ان کا مشغلہ بن کر رہ گیا۔ نصابی اور درسی کتابوں کے علاوہ وہ معاون کتابوں کو بھی بڑی توجہ سے پڑھتے۔ مطالعہ کی کثرت نے ان کے ذہن و دماغ کو علوم متداولہ اور اس کی جزائیات سے مزین کر دیا۔ 
 ”اپنی بات“ کے عنوان سے کتاب کے مرتب عبدالرحیم لکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے ممتاز علماء، ادباء، ناقدین، تجزیہ نگاروں اور زبان وادب کے رمز شناسوں میں ایک نمایاں نام نائب ناظم امارت شریعہ، بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا ہے جو لوگوں کے درمیان محتاج تعارف نہیں ہیں۔ 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوان ناقد و شاعر کامران غنی صبا لکھتے ہیں:
”مفتی صاحب کی شخصیت کا اختصاص ان کا متوازن طرز عمل اور طرز اظہار ہے۔ گفتگو کی طرح ان کی شخصیت میں بھی ٹھہراؤ ہے، سنجیدگی ہے، متانت ہے۔ وہ ایک طرف تعلق اور رواداری کا بھی خیال رکھتے ہیں، دوسری طرف معروضیت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ وہ تعلق نبھانے کے لیے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے کی مصلحت کو درست نہیں سمجھتے۔ وہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی رائے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔“(ص:9)
 معرو ف ادیب و شاعر ڈاکٹر عطا عابدی ”دو باتیں“ کے عنوان سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر لکھتے ہیں:
”مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ہمہ جہت خدمات کے سبب دینی، ملی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں میں خاصے معروف ہیں، منصبی ذمہ داریوں کے علاوہ مختلف سماجی و علمی امور و موضوعات کے مطالعے، اس کے بعد غور و فکر اور اس غور و فکر کے حاصل کو تحریر و تقریر کی وساطت سے دور دور تک پہنچانے کا سلسلہ ان کے تبلیغی و تحریکی مزاج کا ثبوت تو ہے ہی، کام کے تئیں ان کی محنت و محبت کا آئینہ دار بھی ہے۔“(ص:11)
 کتاب میں سب سے پہلا منظوم تاثرات محمد انوارالحق داؤد قاسمی کا ہے۔ ”منظوم سوانح حیات“کے عنوان سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
آبروئے وطن، صاحبِ فکر وفن
ہیں ”ثناء الہدیٰ“ خود میں اک انجمن
خوبصورت ”حسن پور“ کی سرزمیں 
ابنِ نورالہدیٰ ہیں یہیں کے مکیں 
ہے ”ہدیٰ فیملی“ اس میں جلوہ نشیں 
جس کی موجودگی سے ہے بستی حسیں 
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت شش جہات ہے۔ تالیف و ترتیب میں بے مثال ہیں۔ صحافت میں مہارت رکھتے ہیں۔ ادارت سے بھی وابستگی رہی ہے۔ کامیاب محقق ہیں۔ موصوف کی ان خوبیوں کا اجاگر کرتے ہوئے مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی اپنے شعری اظہار میں کہتے ہیں:
لائق صد ستائش، ثناء الہدیٰ
میرِ بزم ادب ہیں، ثناء الہدیٰ
وہ محدث، محقق، سخنور بھی ہیں 
مرکز علم و فن ہیں، ثناء الہدیٰ
ان کی تصنیف ہر فن میں موجود ہے
ہیں سبھی فن میں ماہر، ثناء الہدیٰ
 حسن نواب حسن(مرحوم) مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی خوبیوں سے متاثر ہوکر کہتے ہیں:
یہ ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
ان کو سننا بھی پڑھنا بھی ہے لازمی
دین و مذہب کے ساتھ ادب کے امیں 
ایسا جلدی ملے گا کہاں آدمی
 عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
علم و دانش کا اک معتبر آستاں ہیں ثناء الہدیٰ
جن کے دامن میں تقویٰ کا توشہ گراں ہیں ثناء الہدیٰ
گر ہیں پابند دیں آپ اعمال و اقوال و کردار میں 
اپنے افکار میں شرع کے ترجماں ہیں ثناء الہدیٰ
دعوتِ دیں کا بھی فرض پورا جو کرتے ہیں موصوف گر
فن افتا کے اک ماہرِنکتہ داں ہیں ثناء الہدیٰ
 کامران غنی صبا (اسسٹنٹ پروفیسر، نتیشور سنگھ کالج، مظفرپور) اپنے خیالات و جذبات کا اظہار اشعار میں اس طرح کرتے ہیں:
ہیں علم شریعت کے وہ رازداں 
خموشی میں جن کی نہاں داستاں 
وہ ہیں عالمِ باعمل بالیقیں 
جنہیں کہئے اسلاف کا جانشیں 
مفکر، مدبر کہ دانشوراں 
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں 
 ڈاکٹر منصور خوشتر (ایڈیٹر، سہ ماہی ”دربھنگہ ٹائز“ دربھنگہ) اپنے خیالات کی ترجمانی ان اشعار کے ذریعہ کرتے ہیں:
علم دیں کا ایک باغ پُر بہار
ہیں وہ مولانا ثناء عالی وقار
عالمانہ بردباری ان میں ہے
ہے طبیعت میں بڑا ہی انکسار
 مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تین جہتیں ہیں، اسلامی، ادبی، تعلیمی اور تدریسی۔ اس لیے ان کے مقالے اور مضامین بھی تین نوعیتوں کے ہیں۔ ان کی ان خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے احمد حسین قاسمی لکھتے ہیں:
تو ہمارے درمیاں اہل ادب کی آبرو
تیرے قرطاس و قلم رہتے ہیں ہر دم باوضو
دین و شریعت کی حفاظت کا تو اک سامان ہے
ملت بیضاء کی خاطر وقت تیری جان ہے
 منصور قاسمی، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی ذات پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے شعری پیرائے میں بیان کرتے ہیں:
ظلمتِ شب بھی جن سے منور ہوئی
گمشدہ راہ گیروں کو منزل ملی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدیٰ
رب نے بخشا ہے دیدہ وری آگہی
 زماں برداہوی ایک اچھے شاعر تھے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوکر قارئین کے درمیان مقبول ہوئے۔ انہوں نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی شان میں اپنے اشعار کہے ہیں۔ دو اشعار ملاحظہ ہو:
ایک عالم باعمل دینِ متیں کا پاسباں 
وہ بصیرت عالمانہ کا ہوا اک آسماں 
دین کا پابند ہے اعمال میں، افکار میں 
لغزشوں سے پاک رہتا ہے سدا کردار میں 
 ڈاکٹر امام اعظم (ریجنل ڈائرکٹر، ریجنل سنٹر کولکاتا) اپنی چھوٹی بحر کی ایک نظم میں اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
بحر و بر کی گہرائی
یہ پتہ تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
بس کرم خدا کا ہے
مفتی قاسمی صاحب!
 وقیع منظر آسنسول اپنے اشعارکے ذریعے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا استقبال اس طرح کرتے ہیں:
نظریں بچھائے بیٹھے تھے آمد پہ آپ کی
منظور چشم و دل ہوئی تشریف آوری
مفتی بھی، قاسمی بھی، ثناء الہدیٰ کی ذات
خوش آمدید آپ کو کہتے ہیں ہم سبھی
 اما ن ذخیروی اردو شعر وادب کا ایک نمایاں نام ہے۔ انہوں نے کئی شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے فکر و فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں 
اس غم سے سر گراں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
 اس طرح مختلف شعرا حضرات نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ادبی و دینی خدمات پر اپنے عمدہ منظوم خیالات کا اظہار کیا ہے۔ موصوف علمی وادبی دنیا کی اہم شخصیت ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر بہار کی علمی وادبی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ بہار کے نثر نگاروں، عالموں اور محققوں میں ان کا نام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ 
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Ahmad Complex, Near Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga - 846004

جمعرات, اکتوبر 27, 2022

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

یہ نفاق کی بڑی نشانی ہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
اردو دنیا نیوز
میرے بچے نیک ہیں اور کوئی غلط کام نہیں کرتے ہیں،میری اہلیہ پڑھی لکھی ہے،روزانہ بچوں کواپنی قسم دیکر اسکول روانہ کرتی ہے،ایک صاحب نے اپنی بیگم اور بچوں کی تعریف یوں مجھ ناچیز سےفرمائی یے،
یہ واقعی خوشی کی بات ہے،خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں تربیت کرنے والی ماں ہاتھ آئی ہے،کہتے ہیں کہ ہرشخصیت کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کاہاتھ ہوتا ہے،مگران تمام حقائق کے باوجود یہاں دوباتوں کی وضاحت از حد ضروری ہے۔
پہلی بات اپنی قسم دینے سے متعلق ہے،ایک ماں جو روز اپنے بچوں کو اپنی قسم دے رہی ہےگویا اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ قسم یوں بھی کھائی جاسکتی ہے،جبکہ شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش نہیں ،آج مسلم انٹلیکچول طبقہ کا حال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی قسم کھاتا ہے، تو بیوی اپنے شوہر سے کے سر کی قسم کھاتی ہے،مائی باپ کی قسم توعام سی بات ہے۔پڑھے لکھے لوگ بھی شوق سے کھاتے ہیں،جبکہ اللہ کے علاوہ کسی اور کسی قسم کھانے کی اجازت نہیں ہے، ایک موقع پر امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی قسم کھائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پریہ ارشاد فرمایا کہ، یہ بات اچھی طرح سن لو !  اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کردیا ہے،جسے قسم کھانی ہے وہ اللہ کی کھائے یا خاموش رہے (بخاری ومسلم) 
دوسری بات روزانہ کی یہ قسم جو بچوں کے سامنے کھائی جارہی ہے، یہ بلاضرورت  ہے، 
قسم تومجبوری میں کھائی جاتی ہے، یہ تو کوئی شوقیہ چیز نہیں ہے، یہ بھی غیر شرعی عمل ہے،جس کا روزانہ موصوفہ اھتمام کررہی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ان جیسی خواتین سے تربیت پاکر بچے بات بات پر آج قسمیں کھاتے ہیں ،
 فیشن کے طور پربھی اپنی گفتگو میں قسموں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، کبھی اردو میں تو انگریزی میں قسم کے الفاظ کہتے ہیں، اس پر بروقت قذغن  لگانااور اپنے بچوں کی صحیح تربیت ضروری ہے،افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ جنہیں تربیت کی ذمہ داری شریعت میں دی گئی ہے غلطی وہیں سےاب  ہورہی ہے،اس کا احساس بھی نہیں ہے،بچوں کے سامنے قسم روزانہ اسی لئے کھائی جارہی ہے کہ بچے اپنی ماں کی باتوں کو ماننے لگیں،اور قران کریم میں تو اس کی بات ماننے سے منع کردیا گیا ہے جو بہت زیادہ قسمیں کھاتا ہے، ارشاد ربانی ہے؛زیادہ قسمیں کھانے والے کی مت مان ( سورہ القلم )
بات بات پر قسمیں کھانا یہ نفاق کی ایک بڑی نشانی ہے۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۲۷/اکتوبر ۲۰۲۲ء

بدھ, اکتوبر 26, 2022

ڈاک کا دم توڑتا نظاماردو دنیا نیوز ٧٢✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی


ڈاک کا دم توڑتا نظام
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  پیغام رسانی کا کام تو زمانۂ قدیم سے جاری ہے اور یہ انسان کی بہت بڑی ضرورت ہے ، البتہ اس کے نظام اور طریقۂ کار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، پہلے یہ کام ہر کاروں سے لیا جاتا تھا، شیر شاہ سوری نے 1541ء میں بنگال اور سندھ کے بیچ پیغام رسانی کے لیے گھوڑوں کا استعمال کیا ، ڈاک کا موجودہ نظام ہندوستان میں 1766ء میں رابرٹ کلائیو نے رائج کیا ، 1774ء میں برطانوی حکومت کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگس نے اسے منظم کیا اور 31مارچ 1774ء میں کلکتہ میں جنرل پوسٹ آفس (GPO) کھولا گیا۔ اس سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے 1786ء میں مدراس جنرل پوسٹ آفس اور 1793ء میں ممبئی جنرل پوسٹ آفس کا قیام عمل میں آیا۔ان تینوں جنرل پوسٹ آفس کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے ضوابط بنائے گئے ۔ اور کل ہند ڈاک خدمات کا آغاز ہوا۔1947ء میں جب ہندوستان آزاد ہوا، اس وقت پورے ہندوستان میں کل تئیس ہزار تین سو چوالیس(23344) ڈاکخانے تھے ۔ان میں سے انیس ہزار ایک سو چوراسی(19184)دیہی اور چار ہزار ایک سو ساٹھ(4160) شہری حلقوں میں کام کر رہے تھے ۔اب بھی دیہی علاقوں میں ہی ڈاک کا نظام کسی درجہ میں قائم ہے ، ورنہ سوشل میڈیااور انٹرنیٹ کے اس دور میں اس کا مصرف صرف دفتری خطوط کی ترسیل اور اخبارات و رسائل کو مقامات تک پہونچانے کا رہ گیا ہے ۔ اس میں بھی صارفین کی طرف سے تاخیر اور گمشدگی کی شکایت عام ہے ۔ اس کے با وجود اب بھی پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دیہی علاقوں میں ان دنوں ڈاک گھروں کی تعداد ایک لاکھ انتالیس ہزار سڑسٹھ(139067) ہے جو اوسطاً21.56کیلو میٹر کی دوری پر ہے ۔
ڈاک کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف سالوں میں اسے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، 1972ء میں پوسٹل انڈکس نمبر یعنی پن کوڈ کی شروعات کی گئی ،1984ء میں ڈاک جیون بیما اور 1986ء میں اسپیڈ پوسٹ نے ڈاک کے نظام کو تیزرفتار بنایا ۔ 1996ء میں تجارتی ڈاک خدمات کو سامنے لایا گیا اور جب انٹرنیٹ کی آمد ہو ئی تو 2001ء میں الیکٹرونک فنڈ منتقلی نے رواج پایا۔ ڈاک کے پرائیوٹ نظام ’’کوریئر‘‘ کو مات دینے کے لیے شعبۂ ڈاک نے اکسپریس پارسل، تجارتی پارسل، وصولی کے وقت قیمت کی ادائیگی ، رقم کی منتقلی وغیرہ خدمات کے ذریعہ مقابلہ کی کوشش کی ۔لیکن سرکاری کارندوں کی خدمات میں کوتاہی کے نتیجے میں سامان اور پیغام رسانی کے نظام میں نجی کمپنیوں پر سرکاری ڈاک سبقت نہ لے جا سکی۔
ڈاک میں استعمال ہونے والے پوسٹ کارڈ، انتر دیشی ، لفاف وغیرہ کی مانگ کم ہوئی اور اب سوشل میڈیا کی تیز رفتاری نے بہت ساری جگہوں پر اس نظام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔اور محاوروں کی زبان میں کہیں تو ’’ڈاک خانوں کے دن لد گئے۔‘‘
کارڈ وغیرہ کے علاوہ ڈاک خانہ کے نظام میں ڈاک ٹکٹوں کی بھی بڑی اہمیت رہی ہے ، یکم مئی 1840ء کو پہلا ڈاک ٹکٹ پینی بلیک( Penny Black)کے نام سے برطانیہ میں جاری ہواتھا، ہندوستان میں پہلا ڈاک ٹکٹ 1852ء میں سوبہ سندھ میں جاری ہوا۔ اسی سال صوبہ سندھ کے گورنر نے ڈاک مہر کا سلسلہ شروع کیا، 1854ء میں ہندوستان میں نصف آنہ، ایک آنہ اور چار آنے کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے گیے ۔ان پر مہارانی وکٹوریہ کی تصویر ہوا کرتی تھی ، کیوں کہ ہندوستان غلام تھا اور ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں کی بھی ملکہ تھی۔اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت از دہلی تا پالم ہی رہ گئی تھی ۔ہندوستان میں ڈاک ٹکٹوں کی طباعت کا کام 1926ء میں شروع ہوا ، 21نومبر 1947ء کو آزاد ہندوستان کا پہلا ڈاک ٹکٹ عوام کی خدمت کے لیے پیش ہوا۔ اور 15اگست 1948ء سے گاندھی جی کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر شائع ہونے لگی۔اس کے بعد ملک کی نامور شخصیات پر ڈاک ٹکٹوں کا سلسلہ شروع ہوا ؛ جن میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی پر بھی ڈاک ٹکٹ شامل ہے ۔ ریشمی رومال تحریک کے نام سے بھی ایک ڈاک ٹکٹ محکمہ نے جاری کیا تھا۔
 ان تما م کے با وجود ڈاک کا نظام دم توڑتا جا رہا ہے، ڈاک خانہ کے ذریعہ بھیجی جانے والی چیزیںیا تو ملتی نہیں ہیں ، یا ملتی ہیں تو مہینوں لگ جاتے ہیں ، عام ڈاک ہی نہیں اسپیڈ پوسٹ تک کا یہی حال ہے ۔ نقیب کے شمارے قارئین تک نہیں پہونچنے کی شکایتیں بھی ملتی رہتی ہیں۔ ہر ہفتہ پتہ چیک کر کے نقیب ڈاکخانوں میں ڈالا جا تا ہے ، لیکن ڈاک کی گڑبڑی سے وہ جگہ تک نہیں پہونچتا ظاہر ہے ادارہ اس میں کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ خریداروں کو مقامی ڈاکخانوں سے رجوع کر کے وہاں کے بڑے پوسٹ آفس میں شکایت درج کرانی چاہئے اور اس کی کاپی نقیب کے دفتر کو بھی ارسال کی جائے تاکہ پٹنہ کے صدر ڈاک خانے تک ہم بھی آپ کی شکایت پہونچا سکیں ۔اس سے زیادہ کچھ ادارہ کے بس میں نہیں ہے۔ہم زیادہ سے زیادہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ نہ ملنے کی شکایت ہمیں ملے اور وہ شمارہ ہمارے پاس موجود ہو تو اسے دوبارہ بھیج دیں ۔مشترکہ جد و جہد سے شاید کوئی راہ نکل آئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...