Powered By Blogger

پیر, نومبر 07, 2022

رِشی سونک - برطانیہ کے نئے وزیر اعظممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رِشی سونک - برطانیہ کے نئے وزیر اعظم
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  برطانیہ کی وزیر اعظم اور کنزرویٹوپارٹی کی رہنما لرز ِبرس نے پینتالیس دن بعد اپنے عہدہ سے ۲؍ اکتوبر کو استعفیٰ دے دیا، انہوں نے پریس کانفرنس میں اس کی وجہ بتائی کہ میں وہ کام نہیں کر پا رہی تھی، جس کے لیے مجھے وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا، یہ سیاست میں اخلاقیات کی عمدہ مثال ہے، ہم برطانوی تہذیب وثقافت سے جس قدر بھی اختلاف رکھیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے سیاست داں اس اخلاقی اقدار سے کوسوں دور رہیں، اور ملک چاہے جہاں پہونچ جائے وہ کرسی چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔
یقینا لرزبڑ س کے استعفیٰ کے پیچھے برطانوی سیاست میں جاری خلفشار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جس کی وجہ سے گذشتہ چار ماہ میں برطانوی عوام نے تین وزراء اعظم اور چار وزیر خزانہ کو دیکھا ، اور پھر بھی ملکی معیشت کو مضبوط بنیاد نہیں مل سکی، اس کی وجہ سے عالمی سطح پر برطانیہ کی ساکھ کو کافی نقصان پہونچا، ایسا ممکن ہے کہ اگلے انتخاب میں کنزرویٹو پارٹی کا صفایا ہوجائے اور لیبر پارٹی بر سراقتدار آجائے، لیکن انتخاب ابھی دور ہے، اسے ۲۰۲۴ء میں ہونا ہے، اور پارلیمان میں کنزرویٹو کو اکثریت حاصل ہے، اس لیے کنزر ویٹو ممبران نے ہند نزاد رشی سونک کا اگلے وزیر اعظم کے طور پر انتخاب کر لیا ہے، سابق وزیر اعظم بورس جانسن کی حمایت اورآخری مرحلہ میں پینی مورڈ انٹ کے اپنے نام واپس لینے کی وجہ سے یہ انتخاب متفقہ طور پر ہوا،بادشاہ چارلس سوم نے انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی اور وہ باضابطہ وزیر اعظم ہوگئے۔
وزیر اعظم رشی سونک برطانیہ کے سب سے کم عمر ہند نزاد سنتانویں(۵۷) وزیر اعظم ہیں، دسمبر ۱۷۸۳ء میں ولیم پٹ صرف چوبیس سال کی عمر میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، رشی سونک کی عمر اس وقت بیالیس (۴۲) سال ہے، اس طرح دو سو دس (۲۱۰) سال کی مدت میں وہ سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے ہیں، ان کے دادا گوجرا نوالہ میں پیدا ہوئے تھے جو اب پاکستان میں ہے نقل مکانی کینیاکرکے برطانیہ چلے گیے تھے، وہیں رشی سونک کی پیدائش ہوئی، انہوں نے ۲۰۰۹ء میں انفورٹس کے شریک بانی نارائن درورتی کی بیٹی سے اکچھتا مورتی سے شادی کی، اکھچتا مورتی کے پاس آنجہانی ملکہ الزبتھ سے دوگنی دولت ہے، اکھچیتا کی انفوسس میں ستر کروڑ ڈالر کے حصص ہیں، جب کہ ملکہ کے پاس صرف چھیالیس کروڑ مالیت کی منقولہ وغیر منقولہ جائداد تھی، اس طرح بیوی کے واسطے سے رشی سونک برطانیہ کے مالدار ترین انسان ہیں۔
 رشی سونک کے اس عہدہ تک پہونچنے کی مدت صرف سات سال ہے، ۲۰۱۵ء میں وہ یارک شایر کے رچ منڈ حلقہ سے پہلی بار پارلیامنٹ کے لیے چنے گیے تھے، اس درمیان ۲۰۱۶ء میں وہ بریگزٹ کی حمایت میں تحریک چلانے کی بنیاد پر لوگوں میں مقبول ہوئے، پارٹی میں اپنے اثرات بڑھائے، ۲۰۱۷ء میں دوبارہ چُن کر آنے کے بعد پارلمنٹری پرائیوٹ سکریٹری بنے، ۲۰۱۸ء میں تھریسا کے دور میں پہلی بار وزیر بنے، تیسری بار ۲۰۱۹ء میں منتخب ہونے کے بعد بورس جانسن کی حمایت میں آگے آئے، ۲۰۲۰ء میں وزیر خزانہ بنے، کورونا کے زمانہ میں برطانیہ کی معیشت کو گرنے نہیں دیا، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچ گیے۔
 اس وقت پرتگال اور ماریشش کے وزیر اعظم اور سنگاپور، سُوری نام گویا نا، سے شیل اور ماریشش کے صدر بھی ہند نزاد ہیں، اس کے علاوہ امریکہ کناڈا، نیوزی لینڈ، آئر لینڈ، جاپان ، کینیا، نیدر لینڈس، پرتگال اور بہت سارے دوسرے ملکوں میں بھی ہندوستانی نزاد بڑے عہدے ومناصب پر فائز ہیں، لیکن ہندوستانی میڈیامیں رشی سونک کا وزیر اعظم بننا اس لیے چرچا کا موضوع رہا کہ جس ملک کو انگریزوں نے دو سو سال تک اپنا غلام رکھا، وہاں ایک ہندوستانی نزاد اعلیٰ منصب تک پہونچ گیا، اسے ایک اعزاز اور فخر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کملا ہاسن بھی جب امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوئی تھیں تو ایساہی شور مچا تھا، خوشی منانا بُرا نہیں ہے، لیکن جب ہم سونیا گاندھی کو غیر ملکی کہہ کر وزیر اعظم کی کرسی تک نہیں پہونچنے دیتے ، علامہ اقبال سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لکھنے اور ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود غیر ملکی ہیں، پشتوں سے رہ رہے یہاں کے لوگوں پر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ غیر ملکی ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، ایسے میں ہمیں رشی سونک کے ہندوستانی نزاد ہونے پر تالی پیٹنے کا کیا جواز بنتا ہے اور اس سے ہندوستانی مسائل ومعاملات میں کیا بہتری آئے گی، یہ چرچا کا موضوع ہے۔
وزیر اعظم رشی سونک کے لیے آگے کی راہ آسان نہیں ہوگی، حالاں کہ وہ بورس جانسن کی وزارت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، جو برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد دوسرا بڑا عہدہ ہے۔۲۰۱۶ء میں برطانیہ کے بریگزٹ سے نکلنے کے فیصلے ، ریفرنڈم اور اس کے نتیجے میں چار فی صد کی اکثریت سے بریکزٹ حامیوں کی جیت نے برطانوی عوام کو مسلسل تذبذب میں ڈال رکھا ہے، اور ملک تیزی سے کسادبازاری کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی منڈی میں اپنی ساکھ بچانے کے لیے اور بر طانوی پونڈ کی قیمت کو ڈالر اور یورو کے مقابل بنائے رکھنے کے لیے بھی برطانیہ کو اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کرنی پڑے گی، سست رفتار ترقی، افراط زر، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ جیسے اہم امور سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے، وہاں بادشاہت بھی طاقت کا روایتی مرکزرہے ہے، ملکہ کے انتقال کے بعد ابھی ان کے صاحب زادہ نے مسند کو سنبھالا ہی ہے، ایسے میں ان کے رویہ اورسوچ کا بھی اقتدار پر اثر پڑے گا۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہار وجھارکھنڈ کے چار شعراء وادباء کے اعزاز میں اعزازیہ تقریب ومشاعرہ

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہار وجھارکھنڈ کے چار شعراء وادباء کے اعزاز میں اعزازیہ تقریب ومشاعرہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 

پٹنہ پھلواری شریف 06/نومبر 2022 ( پریس ریلیز) صوبہ بہار وجھارکھنڈ کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔  سے  تعلق رکھنے والے چار مشہور ومعروف شاعر ناشاد اورنگ آبادی، قوس صدیقی پٹنہ، شکیل سہسرامی ،دلشاد نظمی رانچوی کے اعزاز میں قوس صدیقی کے زیر صدارت خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا،
تقریب کا اہتمام  محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی  ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بناء پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراء وادباء کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے دنیائے ادب کے سامنے اجاگر کرنے کی بھر پور سعی کرتی ہے، معلوم ہو کہ مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ  کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم اور ایک لائبریری ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری  بھی چل رہی ہے، جہاں  بچے بچیاں اپنی علمی وادبی پیاس بجھا رہے ہیں ،
 پروگرام  کی نظامت مشہور ومعروف شاعر ناظم شکیل سہسرامی نے کی ، پروگرام کی شروعات قاری یوسف متعلم مدرسہ ہذا کی تلاوت قرآن سے ہوا، اس موقع پر مشہور ومعروف شاعر، مترجم شکیل سہسرامی نے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے،  پھر چاروں شعراء وادباء قوس صدیقی ،ناشاد اورنگ آبادی ،دلشاد نظمی ،شکیل سہسرامی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مولانا عظیم الدین رحمانی اور دیگر بزرگ شعراء کے ہاتھوں توصیفی سند اور شال سے نوازا گیا،اور ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا، 
مشاعرہ میں شعراء کرام کے غزل سے چند اشعار 
سہیل فاروقی 
یہ کہاں سیکھا ہے انداز عزل گوئی سہیل 
خون دل بیٹھ کے کاغذ پہ نچوڑا کرنا 
شوق پورنوی 
مجھ سے گلہ ہے آپ کو اور آپ سے مجھے 
دونوں ملیں گے مل کے کوئی حل نکال لیں گے 
نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو 
شمیم شعلہ 
اسے پتہ ہے کہ آپس میں اتحاد نہیں 
اسی لئے تو وہ آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے 

ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں 
رنگینئ چمن کی فضا آپ ہی ہیں قوس 
باغ سخنوری کی ہوا آپ ہی ہیں قوس 
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
آدمی آدمی ہی رہتا ہے 
چاہ کر بھی خدا نہیں ہوتا 
محترمہ سویتا غزل 
کیا ضروری ہے کہ ہر بات زباں سے بولوں 
آپ تو خوب سمجھتے ہیں اشارہ میرا 
میر سجاد
رکھتے آئے ہیں جو ہر دور میں شیشے کا مکاں 
وہ بھی آئیں گے کبھی ہاتھ میں پتھر لے کر 
ناشاد اورنگ آبادی 
سکون تو یوں ضروری ہے آدمی کے لئے
یہ بات سچ ہے مگر ہے کسی کسی کے لئے
میم اشرف 
سورش اعمال کا کیا اثر دیکھتے لوگ 
دیکھنا آسان نہیں ہوگا مگر دیکھتے لوگ 
چودھری سیف الدین سیف 
شیشہ دل میں بسائی جب سے ایک تقدیر ہے 
دل کے بہلانے کی بس چھوٹی سی ایک تدبیر ہے 
شکیل سہسرامی 
یہ بات ان کے لئے نقطہء اہم ہے بہت 
مری خوشی کا مرے حاسدوں کو غم ہے بہت 
دلشاد نظمی (مہمان خصوصی) 
بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے 
مگر کچھ عادتیں دلشاد نظمی گھر سے آتی ہیں 
مرغوب اثر فاطمی (مہمان خصوصی شاعر) 
ایک نظم، ناجائز 
یہ معجزہ سے نہ تھا کم وہیں گڑا جھنڈا 
انا کی جنگ میں ہم جس جگہ پہ ہارے تھے، 

آخر میں ناظم مشاعرہ شکیل سہسرامی نے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میری زندگی کے یادگار کا حسین لمحہ ہوگا، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن جید عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ وصدر مدرس مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی تشہیر واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم قوس صدیقی کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا،اس پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی،  ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے.

اتوار, نومبر 06, 2022

ٹی-20 عالمی کپ: زمبابوے کو ہرا کر ٹاپر بنا ہندوستان، سیمی فائنل میں انگلینڈ سے مقابلہ، نیوزی لینڈ سے ہوگا پاکستان کا مقابلہ

ٹی-20 عالمی کپ: زمبابوے کو ہرا کر ٹاپر بنا ہندوستان، سیمی فائنل میں انگلینڈ سے مقابلہ، نیوزی لینڈ سے ہوگا پاکستان کا مقابلہ

اردو دنیا نیوز٧٢ 

میلبرن: آئی سی سی ٹی۔ 20 عالمی کپ کے سپر 12 مرحلہ کے آخری مقابلہ میں ٹیم انڈیا نے زمبابوے کو 71 رونوں سے روندتے ہوئے گروپ 2 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان پہلے ہی سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کر گیا تھا اور اب اس کا مقابلہ 10 نومبر کو انگلینڈ سے ہوگا۔ وہیں، پاکستانی ٹیم بھی سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے اور اسے گروپ 1 ایک ٹاپر نیوزی لینڈ سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔

سیمی فائنلز میں جیت حاصل کرنے والی 2 ٹیمیں ٹی-20 فارمیٹ کی بادشاہت کے لئے میدان میں اتریں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیمی فائنل میں پاکستان اور ہندوستان نے اپنے اپنے مدمقابل کو زیر کر دیا تو فائنل میں ایک بار پھر ان روایتی حریفوں کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔


ٹیم انڈیا نے زمبابوے کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 186 رنوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ سوریہ کمار یادو نے محض 25 گیندوں میں 61 رنوں کی اننگ کھیل کر میچ کا رخ ہی پلٹ دیا۔ جواب میں زمبابوے کی ٹیم پوری طرح فلاپ رہی اور اس کے وکٹ لگاتار گرتے رہے۔ 


ایک وقت پر ہندوستان کی حالت خراب ہو گئی تھی اور 101 کے اسکور پر چار وکٹیں گر چکی تھیں لیکن بعد میں سوریہ کمار یادو نے شاندار اننگز کھیلی، جس میں انہوں نے صرف 25 گیندوں میں 61 رنز بنائے۔ اس شاندار اننگز کی بنیاد پر ہندوستان نے اسکور 186 تک پہنچا دیا۔

جواب میں زمبابوے نے پوری طرح گھٹنے ٹیک دیئے، زمبابوے کی حالت یہ تھی کہ صرف 36 کے اسکور پر اس کی 5 وکٹیں گر چکی تھیں۔ ایسے میں اس کے لیے میچ جیتنا مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیم انڈیا کے روی چندرن اشون نے 3، ہاردک پانڈیا نے 2 اور محمد شامی نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔ زمبابوے کی پوری ٹیم 20 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور 115 کے اسکور پر آل آؤٹ ہو گئی۔ سوریہ کمار یادو کو ان کی شاندار کارکردگی کے لئے پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔

احمد سعید ملیح آبادی- دید وشنیدمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

احمد سعید ملیح آبادی- دید وشنید
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  روزنامہ آزاد ہند کلکتہ کے سابق مدیر ، راجیہ سبھا ، مغربی بنگال حج کمیٹی، کورٹ آف علی گڈھ یونیورسیٹی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، مغربی بنگال ٹیلی فون ، دور درشن، مشاورتی کمیٹی، اور کلکتہ یونیورسیٹی کے سابق رکن، عظیم صحافی، مشہور دانشور، بڑے محب وطن، غالب اور برلا ایوارڈ یافتہ ، مدبر، دانشور اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک جناب احمد سعید ملیح آبادی کا ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار چار بجے لکھنؤ کے سنجے گاندھی پی جی آئی اسپتال میں انتقال ہو گیا، ان کی عمر چھیانوے سال تھی، وہ کافی دنوں سے بلڈ کینسر جیسے موذی اور مہلک مرض میں مبتلا تھے، ۸؍ ستمبر کوان کی طبیعت سہ پہر ۴؍ بجے زیادہ خراب ہوئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا، لیکن ۲؍ اکتوبر کو وقت موعود آگیا، وہ جان بر نہیں ہو سکے، ضعف وپیرانہ سالی کے ساتھ وہ مختلف امراض کے شکار تھے، لیکن مرض الموت ان کا کورونا پوزیٹیو ہونا بنا، ۳؍ اکتوبر کو بعد نماز ظہر ملیح آباد میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی ، اور ملیح آباد کے قبرستان میں والدہ کے بازو میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں تین بیٹے اورایک بیٹی ہے، اہلیہ کا انتقال دسمبر ۲۰۱۹ء میں ہو گیا تھا اور گذشتہ سال اکلوتی بہن بھی چل بسی تھیں۔
احمد سعید ملیح آبادی نامور صحافی اور ابو الکلام آزاد کے دست راست مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے فرزند تھے، ان کی والدہ صابیہ بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں، ۱۹۲۶ء  میں احمد سعید صاحب ملیح آباد میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے بڑے چچا عبد الوحید خان کی اہلیہ سے حاصل کی، انہوں نے اردو، فارسی، عربی ہندی اور انگریزی کی ابتدائی کتابیں احمد سعید ملیح آبادی کو پڑھائیں، پانچ سال کی عمر میں اسٹول پر کھڑے ہو کر تقریر کی مشق بھی چچی نے ہی کرائی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوئے ، لیکن تیسرے کلاس تک ہی ابھی پہونچے تھے کہ والدہ کی علالت کی وجہ سے آگے اسکولی تعلیم جاری نہیں رہ سکی، اور ان کا رخ مدرسہ کی طرف ہو گیا، انہوں نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے اپنی تعلیم کے بعد دار المصنفین سے منسلک علماء سے کسب فیض کیا،پھر کلکتہ منتقل ہو گیے، جہاں ان کے والد صاحب کا قیام تھا، مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے ۱۹۲۹ء میں ہند اخبار جاری کیا، مختلف سالوں میں اخبار کا نام بدلتا رہا، الہند، ہند جدید، ہندروزنامہ کے نام سے نکلتا رہا، ۱۹۴۷ء میں آزاد ہند نکلنا شروع ہوا،آزاد ہند کے نام سے اخبار جاری کیا تو وہ والد کی معاونت کرتے رہے، مولانا ابو الکلام آزاد جب وزیر تعلیم ہوئے تو انہوں نے اپنے دیرینہ رفیق کوثقافۃ الہند کے ایڈیٹر کی حیثیت سے دہلی بلانے کی تجویز رکھی، مولانا عبد الرزاق کو تردد تھا کہ آزاد ہند پر اس کا اثر پڑے گا، مولانا نے اپنا معذرت نامہ لکھ بھیجا ، جس میں اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اخبار کا کیا ہوگا، مولانا آزاد نے احمد سعید کے حولہ کر دینے کی بات کہی اور یہ تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ مچھلی اور بطخ کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، وہ تو بغیر سکھائے تیر نے لگتی ہے ، مولانا عبد الرزاق صاحب اخبار سے مطمئن ہو کر دہلی روانہ ہو گیے اور احمد سعید ملیح آبادی نے والد ہی کے طرز پر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، انہوں نے اس اخبار کا  ہفت روزہ ایڈیشن اجالا بھی نکالنا شروع کیا، بنگلہ زبان بولنے والوں کی ریاست مغربی بنگال میں اس اخبار نے اردو زبان وادب کی ترویج واشاعت کا غیر معمولی کام انجام دیا، ان کے اداریوں نے حق گوئی وبے باکی کی تاریخ رقم کی اور ان کے تجزیاتی مطالعہ نے سیاسی قائدین اور حکمراں طبقہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا، بنگال میں جب کانگریس کی حکومت تھی اس وقت بھی انہوں نے ظلم وجبر کے خلاف آواز لگائی، کمیونسٹ دور حکومت میں مرکز اور ریاست کی سیاست دوانتہاؤں پر چل رہی تھی، اور دونوں نظریات کی حمایت کرنا ممکن نہیں تھا، اس وجہ سے ان کے اداریوں میں پہلے والی دھار اور کاٹ باقی نہیں رہی ، اس صورت حال کا فائدہ اخبار مشرق نے اٹھایا ، آزاد ہند کے قاری کا حلقہ کمزور پڑا، اس کے باوجود آزاد ہند کی پکڑ اور کھپت اچھی خاصی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں وہ بھاری اکثریت سے جیت کر راجیہ سبھا کے رکن بن گیے اور کہنا چاہیے کہ احمد سعید کی صحافت اسی دن مر گئی، دو سال کسی کسی طرح آزاد ہند سانس لیتا رہا، بالآخری ۲۰۱۰ء میں احمد سعید ملیح آبادی نے شاردا گروپ کے ہاتھ اس اخبار کو بیچ دیا، کیوں کہ ان کے لڑکوں میں کوئی نہ اس کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ ہی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار تھا، شاردا گروپ مقدمہ میں پھنس گیا اور آزاد ہند، آزاد ہندوستان میں بندہو گیا، تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔
 احمد سعید ملیح آبادی راجیہ سبھا کی رکنیت کے زمانہ میں ہی ۲۰۱۳ء میں بلڈ کینسرکے مریض ہو گیے، صحت ٹھیک نہیں رہی اور بیماری کے اثرات بڑھنے لگے تو انہوںنے اپنے آبائی وطن ملیح آباد کو اپنا مسکن بنایا، یہاں وہ اپنے بڑے لڑکے کے یہاں قیام پذیر ہو گیے، جن کی اہلیہ ان کی حقیقی بھانجی تھیں اور ان کی ضرورتوں کا بھر پور خیال رکھتی تھیں۔ ۱۸؍ اگست کو نزلہ وزکام کا حملہ ہوا ، گلے میں خراش کی تکلیف ہوئی، سہارا اسپتال میں آرٹی سی پی ٹسٹ کرایا گیا، کورونا پوزیٹو نکلا اور اس بیماری نے آخرکام تمام کر دیا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کی تقریریں سلجھی ہوا کرتی تھیں، لیکن ان کی شہرت ان کی صحافت اور اداریوں کی وجہ سے تھی، ان کے اداریوں نے کم وبیش دو نسلوں کو متاثر کیا، ان کی شناخت قومی مبصر کی حیثیت سے بھی تھی، انہوں نے کئی صدر جمہوریہ اور وزرائے اعظم کے ساتھ متعدد قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی، ف، س اعجازنے ان کی زندگی میں ہی ماہنامہ انشاء کا ضخیم نمبر ان کی شخصیت اور خدمات پر نکالا تھا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں ، ۱۹۴۷ء میں انہوں نے ’’آج کا پاکستان‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی، ۱۹۷۲ء میں حج کا سفر نامہ ’’اللہ کے گھر میں‘‘ لکھا، ۱۹۹۸ء میں ’’بغداد سے مدینہ منورہ تک‘‘ شائع ہوئی، اتحاد وآزادی کے نام سے بھی انہوں نے ایک کتاب لکھی، ان کی آخری کتاب ان کی خود نوشت آپ بیتی’’میری صحافتی زندگی‘‘ تھی، جو قارئین میں کافی مقبول ہوئی ، خراج عقیدت کے جلسے تو بہت ہو رہے ہیں، لیکن ایک بڑ اکام ان کے اداریوں کو موضوعات کے اعتبار سے مرتب کرکے شائع کرنے کا ہے ، دیکھیے یہ فال نیک کس کے نام نکلتا ہے۔
 احمد سعید صاحب سے میری ملاقات ان کے کلکتہ قیام کے دوران سال میں ایک بار ہوجایا کرتی تھی، ان دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں ہوا کرتا تھا، رمضان المبارک میں میرا سفر لازمی طور پر کولکاتہ کا ہوتا اور اس بہانے ایک ملاقات ان سے ہوجاتی ، ان ملاقاتوں میں دینی ، ملکی، سیاسی، سماجی سبھی مسائل پر ان کی رائے سننے کو ملتی ، پھر جب امارت شرعیہ آگیا تو یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، لیکن امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے راہ ورسم باقی رہی ، پھر جب وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنے تو انہوں نے اپنے فنڈ سے مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول آسنسول کے لیے چار کمروں پر مشتمل ایک عمارت بنوائی، جو امارت شرعیہ سے ان کی محبت کی دلیل اور کاموںپر اعتماد کا واضح ثبوت تھا۔
 احمد سعید ملیح آبادی کو جاننا اور سمجھنا ہو تو ان کی خود نوشت میری صحافتی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے، یہ آپ بیتی ہی نہیں ان کے عہد کی سیاسی وسماجی تاریخ بھی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اردو صحافت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

ہفتہ, نومبر 05, 2022

مدارس اسلامیہ کنونشن ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارس اسلامیہ کنونشن  ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
امارت شرعیہ کی جانب سے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت پر نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی نے 6؍ نومبر، 2022ء کو المعہد العالی ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں ’’مدارس اسلامیہ کنونشن ‘ کے عنوان سے ایک اجلاس طلب کیا ہے ، جس میں بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ،مغربی بنگال کے تقریبا پانچ سو مدارس کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، اجلاس میں مدارس کو در پیش موجودہ خطرات ، تعلیم وتربیت کے مسائل ، انتظام وانصرام کو مزید چاق وچوبند اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے ۔ اجتماعی غور وفکر سے کوئی حل سامنے آئے گا۔ انشاء اللہ 
واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ اس وقت بڑے نازک دور سے گذر رہے ہیں، اس کو نیست ونابود کرنے کی جو مہم آسام کی بی جے پی حکومت نے چلائی تھی ، اسے یوپی کی یوگی حکومت نے بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، عجلت میں وہاں کے مدارس کا سروے کرایا گیا اور سات ہزار پانچ سو مدارس کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا، غیر قانونی کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے خلاف کارروائی ہوگی، حالاں کہ ان میں بیش تر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ رجسٹرڈ سرکار کے یہاں نہیں ہیں، رجسٹرڈ نہ ہونے کا مطلب غیر قانونی ہونا نہیں ہوتا، یہ مدارس دستور میں اقلیتوں کو دیے گیے حقوق کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، پھر وہ غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں تعلیم کی ترویج واشاعت میں نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ، اس نے لادینی بے راہ روی، بے حیائی کے خلاف اپنی تربیت کے ذریعہ مؤثر مہم چلائی اور ایسے افراد تیار کئے ، جن میں صالحیت بھی تھی اور صلاحیت بھی ، بہارہی نہیں، ملک، بلکہ بیرون ملک تک مدارس اسلامیہ کے فارغین کی خدمات کے نقوش ثبت ہیں اور ان کی جدو جہد کے مناظر ومظاہر ، ہر علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں، تعلیم کو تجارت بنانے کے اس دور میں بھی یہ مدارس ، غریب ونادار ، بے کس وبے سہارا بچوں کے لئے تعلیم کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ ہیں، تعلیمی اداروں میں ہوسٹل اور ان کے خورد ونوش کا تصور بھی مدارس اسلامیہ ہی کادیا ہوا ہے، جس کو جزوی طور پر’’ مڈ ڈے میل ‘‘ کے طور پر حکومت نے اسکولوں میں نافذ کیا اور اسے اسکولی تعلیم کو پر کشش بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ۔ 
مدارس اسلامیہ میں بڑی تعداد تو ایسے مدارس کی ہے جو آج بھی سود وزیاں سے بے نیاز ملت کے چند وں سے اس کام کابیڑا اٹھائے ہوئے ہیں، اورملت کے بچوں کو تعلیم سے آشنا کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں، ان کی نظر مالی منفعت پر نہیں ، تعلیم کو عام کرنے پر ہے ،وہ سرکاری امداد کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ، بلکہ بہت سارے اسے مدارس کے لئے مضر سمجھتے ہیں، بوریہ نشیں ان علماء نے روکھی سوکھی کھا کر اور کھلا کر ،چٹائی اور بوریوں پر سوکر اور بچوں کو سلا کرمسلمانوں کو علم سے آراستہ کر دیا ۔اور اجرت کے حصول کے بجائے اجر اخروی کی توقع پر زندگی گذاردی۔
 اس مہم کا ایک حصہ ایسے مدارس بھی ہیں جو بہار کے تناظر میں پہلے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ، پھربہار مدرسہ اکزامینیشن بورڈ اور اب بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق ہیں، اپنے ایک سو دو سالہ  دور میں ان مدارس کے ذریعہ بھی بڑی تعداد میں علماء اور دانشور پیدا ہوئے ، امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمنؒ نے بھی وہیں تعلیم پائی تھی،مولانا سید محمد شمس الحق سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کی متوسطات تک کی تعلیم ایسے ہی مدرسہ میں ہوئی تھی، اس طرح کے بہت سارے نام لئے جا سکتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی خدمات دونوں سطح پر بڑے پیمانے پر جاری ہیں، اور اس کے اثرات بھی مختلف اندازکے سامنے آ رہے ہیں ، میرا احساس یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی ترقی اور تربیت کے خوب سے خوب تر بنانے کی کوئی آخری منزل نہیں ہوتی، یہاں تو بڑھتا جا، اور چڑھتا جا، کا موقع ہوتا ہے ، اسی لئے ہر دور میں اکابر علماء نے اصلاح تعلیم وتربیت اور اصلاح نصاب کی تحریک چھیڑی اور اس نظام کو جمود سے بچانے کی قابل قدر اور بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں۔ اب امارت شرعیہ نے یہ تحریک چھیڑی ہے اور اسے  بہار کے دور دراز مدارس تک پہونچا دینے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے ، پھر دورے وغیرہ کی ترتیب بنے گی اور کار وائی آگے بڑھے گی ، ہمیں اس تحریک سے نیک توقعات رکھنی چاہئے اور ہر ممکن  مدد کرنی چاہئے اور ہر سطح پر اس مہم کو کامیاب کرنے کی عملی جد وجہد میں ہاتھ بٹانا چاہئے ۔
 حدیث میں’’ تھوڑا عمل اور مسلسل عمل ‘‘کی اہمیت بتائی گئی ہے ، ہمیں اس اہمیت کو سمجھنا چاہئے اور مسلسل اس کام کو جاری رکھنا چاہئے ، ہمارے کام کا مزاج سوڈا کے ابال جیسا بن گیا ہے ، جوش کے ساتھ ایک رات میں مسجد بھی بنادیتے ہیں اور تالاب بھی کھود دیتے ہیں، لیکن بقول مولانا ابو الکلام آزاد ایک ایک اینٹ جوڑ کر مسلسل اس کام کو نہیں کر پاتے اور پھر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جا تے ہیںکہ ’’ مرد ے از غیب بروں آید وکارے کند ‘‘ ہمیں اپنے اس طرز عمل کو بدلنا ہو گا ، اور اس کٹھن کام کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے طویل منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔

جمعہ, نومبر 04, 2022

اردو کے فروغ میں اردو صحافت کا اہم رول: اے محمد اشرف


اردو کے فروغ میں اردو صحافت کا اہم رول: اے محمد اشرف
میاسی اردو اکیڈمی بااشتراک شعبہ اردو وعربی، نیوکالج کے زیر اہتمام بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
چینئی(✍️ساجد حسین ندوی) میاسی اردو اکیڈمی و شعبہ اردو عربی، نیوکالج، چینئی کے زیر اہتمام دوسو سالہ جشن اردو صحافت کی مناسبت سے آل تمل ناڈو بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد بتاریخ ۲/نومبر ۲۲۰۲ء کو عمل میں آیا جس میں صوبہئ تمل ناڈو کے ۵۱/ سے زائد کالجز کے طلباء وطالبات نے شرکت کی اور صحافت کے مختلف موضوعات پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ پیش کیا۔
پروگرام کا آغاز بی اے اردو، نیوکالج کے طالب علم عزیزم محمد فیضان سلمہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور عزیزم محمداکبر سلمہ نے بارگاہ رسالت ِمآب ﷺ میں نعتیہ کلام کا نذرانہ پیش کیا۔ جبکہ نظامت کے فرائض میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب محمد روح اللہ صاحب نے انجام دی۔
میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ: صحافت کے دوسو سال کا جشن پورے ملک میں بڑے آب وتاب کے ساتھ منایا جارہاہے لہذا میاسی اردو اکیڈمی نے جنوبی ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے صحافت کے دوسوسالہ جشن منارہی ہے۔ نیز طلباء میں اردوصحافت کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے بین الکلیاتی تقریری مقابلہ کا انعقاد کیا گیا تاکہ طلباء اردو صحافت کی تاریخ سے واقفیت حاصل کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے اردو کو فروغ دینے میں اردو صحافت نے ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے، نیز جدید ٹکنالوجی کی دنیا میں بھی اردو صحافت نے اپنے قدم جمانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔  
پروگرام کے مہمان خصوصی جناب اسجد نواز ایڈیٹر روزنامہ سالار نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں ان اسلاف کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا خون جگر لگاکر اردو اخبارکو سینچا اور پروان چڑھایا تھا، خواہ وہ سید باقر ہوں یا پھر مولانا ابوالکلام آزاد۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ کا جشن ضرور منایا جارہاہے، لیکن حقیقت میں اردو صحافت کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ انہوں نے حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہاانہوں نے اپنی فوج ٹریننگ کے لیے نہ صرف اردو اخبار(فوجی اخبار) شائع کروایا بلکہ اس کے لیے پرنٹنگ پریس بھی لگوایا۔ اتنی بڑی اردو کی خدمات کو عام طور پر فراموش کردیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو نے جنم شمالی ہندوستان میں ضرور لی، لیکن اس کا ارتقا جنوبی ہندوستان کے دکن میں ہوئی۔
اس تقریری مقابلہ میں صوبہ تمل ناڈو کے مختلف کالجز سے تقریبا ۰۲/ طلباء نے شرکت کی۔ جبکہ حکم کے فرائض جناب مولانا فیاض عالم، ڈاکٹر محترمہ ذاکرہ ام شہلہ اور ڈاکٹر پروین فاطمہ نے انجام دیا۔ حکم صاحبان نے منصفانہ طور پر نمبرات دیتے ہوئے تین طلباء وطالبات کو اول دوم اور سوم کے لیے منتخب کیا جب کہ دو طلباء جو چہارم وپنجم پوزیشن پر آئے تھے ان کو تشجیعی انعامات میں لیے منتخب کیا گیا۔ شعبہ اردو نیوکالج کے طالب علم عزیزم عبد اللہ مشتاق سلمہ نے اول پوزیشن حاصل کی اور عزیزم عبدالمجید سلمہ نے دوم پوزیشن، جبکہ سوم پوزیشن اسلامیہ کالج برائے اناث،وانمباڑی کی طالبہ عزیزہ مدیحہ فردوس نے حاصل کی۔ نیزساجد باشا اسلامیہ کالج برائے ذکور،وانمباڑی نے چوتھی پوزیشن اور طالبہ طوبی ایاز اسلامیہ کالج برائے اناث وانمباڑی نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ اس مقابلہ جاتی پروگرام میں حصہ لینے والے تمام طلباء وطالبات کو سرٹیفکٹ مع کیسہ زر سے نواز گیا۔ پروگرام میں میاسی کے جملہ ممبران، نیوکالج کے پرنسپل، وائس پرنسل، ڈپٹی وارڈن کے علاوہ شہر مدراس و اطراف واکناف سے ڈاکٹر امتیازباشا، اکبر زاہد،اسانغنی مشتاق، کے عبدالباری ایڈیٹر نشان منزل کے علاہ دیگر احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اخیر میں جناب محمد روح اللہ صاحب نے جملہ مہمان کرام کا شکریہ ادا کیا اور مولانا فیاض عالم صاحب کی دعا پر جلسہ اختتام پذیر ہوا

روس ، یوکرین جنگ ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

روس ، یوکرین جنگ ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 24؍ فروری 2022ء کو روس نے جب یوکرین پر حملہ کیا تو اسے ہی نہیں پوری دنیا کو یقین تھا کہ یوکرین ایک ہفتہ سے زیادہ روس کی افواج اور عسکری طاقت کا سامنا نہیں کر سکے گا، روس کے صدر پوتن بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے، ان کا اندازہ تھا کہ یوکرین ان کے تابڑ توڑ حملوں اور جدید اسلحوں کے استعمال کے بعد یا تو وہ نیست ونابود ہوجائے گا یا ہمارے قبضہ میں پورا یوکرین آجائے گا، چاہے وہ کھنڈر کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ہوا اس کے بر عکس ، روس یویکرین جنگ کے آٹھ ماہ پورے ہو گیے ہیں اور اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
روسی صدر پوتین کے جنگ کے اس فیصلے سے وہاں کی عوام نا خوش ہے، انتقال مکانی کر رہی ہے بغاوت کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، روس کی افواج بھی نفسیاتی طور پر کمزورہے ، کیوں کہ وہ اسے بلا وجہ کی جنگ تصور کرتے ہیں، اس نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے افواج میں مقابلہ کی طاقت کم ہوئی ہے، اور بالآخر روسی صدر نے جنگ کی کمان دوسرے کے حوالہ کر دیا ہے، پوتن نے تین لاکھ محفوظ تربیت یافتہ افراد کو بھی لام بندی اور یتاری کے لیے کیا تو عوام کے ساتھ تربیت یافتہ افراد نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی،  صدر پوتن کو اس کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اب بیلاروس کے بھی جنگ میں شامل ہوجانے سے روس کو کچھ تقویت ملی ہے ، اس جنگ نے روس کی معیشت کو سخت نقصان پہونچا یا ہے ، معاشی بد حالی کی وجہ سے عوام نقل مکانی پر مجبور ہیں اور ان ملکوں کی سرحدوں پر لمبی قطاریں دیکھی جا رہی ہیں، جہاں روس کے لوگ بغیر ویزا کے داخل ہو سکتے ہیں، جارجیا ان ملکوں میں سے ایک ہے ۔
 واقعہ یہ ہے کہ روس کی فوجی طاقت کے مقابلے یوکرین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، روس کی فوج کی افرادی قوت سات لاکھ اکہتر ہزار (771000)ہے، جب کہ یوکرین کے پاس فوج کی تعداد صرف دو لاکھ ہے ، بحری بیڑہ روس کے پاس بیس ہزار پچاس ہے، جبکہ یوکرین کے پاس صرف دو ہزار بحری جہاز ہے، روس کے پاس توپ خانے چودہ ہزار پانچ سو ستناون اور یوکرین کے پاس تین ہزار نو سو تہتر، روس کے پاس لڑا کو جہاں چار ہزار چار سو اکتالیس ہیں، جب کہ یوکرین کے پاس صرف چار سو پچیس ہے
 رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے بھی یوکرین اور روس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے ، روس کا رقبہ یوکرین سے اٹھائیس گنا زیادہ ہے، یہ ایک کڑوڑ ستر لاکھ مربع کیلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے، جب کہ یوکرین کے حصہ میں صرف چھ لاکھ تین ہزار مربع کیلو میٹر اراضی ہے، روس کی آبادی چودہ کروڑ پانچ لاکھ ہے ، یوکرین کی آبادی صرف چار کروڑ ایک لاکھ ہے، ڈی جی پی کی بات کریں تو روس کے پاس جنگ کے دوران گیارہ فی صد کم ہونے کے با وجود پینتالیس سو ارب ڈالر ہے، یوکریں کی ڈی جی پی پانچ سو اٹھاسی ارب ڈالر ہے۔
 پھر روس پر یوکرین کیوں بھاری پڑ رہا ہے، اس کی وجہ وہاں کی عوام کی ملک کے تئیں وفاداری اور صدر کا بار بار حوصلہ دلانا ہے، پوتین احکام صادر کرتے ہیں، مارشل لا لگانے کی بات کہتے ہیں اور یوکرین کے صدر فوج اور عوام دونوں کا حوصلہ بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، اس طرح دیکھا جائے تو یوکرین کی فوج اپنے ملک کے لیے لڑ رہی ہے اور روسی فوج پوتین کے حکم کی تعمیل میں محاذ پر ہے۔
 پوتین کو یہ غلط فہمی تھی کہ امریکہ، افغانستان او رعراق میں اپنی ہار کے بعد اس جنگ میں یوکرین کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون نہیں ہوگا، اور موجودہ صدر ڈونالنڈ ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ والی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر دخل اندازی نہیں کرے گا، نا ٹو کے ممالک مدد کے لیے آگے نہیں آئیں گے، روسی صدر کی غلط فہمیوں کی وجہ سے یہ لڑائی شروع ہوئی او رابھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے، فتح جس کی بھی ہو یوکرین کے افواج کی جرأت کی داستان تاریخ میں صدیوں محفوظ رہے گی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...