Powered By Blogger

منگل, نومبر 15, 2022

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 14/نومبر (پریس ریلیز) 

مدرسہ ضیاء العلوم (زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن) پٹنہ میں واقع ایک خالص دینی ادارہ ہے، جہاں طلبہ وطالبات کثیر تعداد میں  علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہاں ابتدائی دینیات سے اعلیٰ تعلیم کا بھی بہترین نظم ونسق ہے، 
سابقہ روایت کی طرح 14/نومبر 2022 کو یوم اطفال کے موقع پر تقریب  کا انعقاد کیا گیا ،بچوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس تقریب میں پیش پیش رہے، ادارہ کی جانب سے بچوں کے درمیان بطور اعزاز اور حوصلہ افزائی کے لئے انعامات بھی تقسیم کئے گئے، اس موقع پر ادارہ کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم نے بچوں کو یوم اطفال کا تاریخی منظر سے آشنا کراتے ہوئے انہیں اپنی اچھی مستقبل کے لئے جہد مسلسل کرنے کی ترغیب دلائی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم یہ ملک کے مشہور ومعروف تنظیم ضیائے حق فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے زیر اہتمام چلنے والا ایک خالص دینی ادارہ ہے، اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے بھی غائبانہ طور پر تمام بچوں کو یوم اطفال کی مبارکبادی پیش کی ، آخر میں  محمد ضیاء العظیم قاسمی صاحب نے تمام بچوں کو دعا دیتے ہوئے اس تقریب کے اختتام کا اعلان کیا،

جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*مفتی محمد ثناء الہدی قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

*جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

جھارکھنڈ کو ملک کے اٹھائیسویں  ریاست کی حیثیت سے15 نومبر 2000ء کو منظوری ملی تھی، اور بہار دو حصوں   میں   تقسیم ہو گیا تھا، جھارکھنڈ چوبیس اضلاع پر مشتمل ہے ، یہاں  کی کل آبادی 3,2988134 اور اس کا رقبہ 79714/کلو میٹر ہے، یہاں  مسلمانوں  کی کل آبادی4793994/اور ہندو نیز آدی باسی کی مجموعی آبادی 22376051 ہے، یہ اعداد وشمار 2011ء کے ہیں ، یہاں  کا آدی باسی سماج 47 مذہبی خانوں   میں   بٹا ہوا ہے،یہاں  کی دفتری سرکاری زبان ہندی ہے اور عوام مختلف بولیوں  کا استعمال کرتے ہیں ، جن  میں   ایک کھوٹّا بھی ہے، دو دہائی سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد بھی اردو کو اس کا حق نہیں  مل سکا ہے، کہنے کو 2007 ء سے یہاں  کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے،حکومت نے اس سلسلہ کا جو نوٹی فیکیشن جاری کیا اس کا نمبر  20/204-6807۔21 مورخہ 16/ اکتوبر 2007 ہے ۔  یہاں  اب تک نہ مدرسہ بورڈ قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اردو اکیڈمی وجود پذیر ہو سکی، وقف بورڈ بھی ایک سی او کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے ، غربت کی وجہ سے یہاں  تعلیم کا تناسب مجموعی آبادی کے اعتبار سے کم ہے، حالاں  کہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی  میں   عیسائی مشنریوں  کے بہت سارے ادارے قائم ہیں ، جو مسلم بچوں  کو دین وایمان اور اسلامی اقدار سے دور کرنے  میں   موَثر رول ادا کر رہے ہیں  ۔ جھارکھنڈ میں   آٹھ یونیورسیٹیاں  کام کر رہی ہیں  اور ایک ٹکنالوجی انسٹی چیوٹ بھی ہے ، یہاں کے آدی باسی اپنی تہذیب وثقافت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ، انہیں  خطرہ ہے کہ ہندو آبادی انہیں  اپنے  میں   ضم نہ کر لے، جھارکھنڈ  میں   قابل کاشت آراضی صرف اڑتیس لاکھ ہیکٹر ہے اور جنگلات 18423/ کیلو میٹر اسکوائر  میں   پھیلے ہوے ہیں ، جس کی وجہ سے یہاں  کے مناظر دلکش اور آب وہوا صحت کے لیے مفید ہے، جنگلات اور درختوں  کی فراوانی کی وجہ سے یہاں  فضائی آلودگی کم پائی جاتی ہے، جھارکھنڈ کی اسمبلی  میں   براسی(82)، راجیہ سبھا  میں   چھ(6) اور پارلیامنٹ کی چودہ (14)سیٹیں  ہیں ، جن  میں   مسلمانوں  کی نمائندگی انتہائی کم ہے ۔  جھارکھنڈ میں  پہلا اسمبلی انتخاب 2005ء  میں   ہوا تھا اور صرف دو ارکان اسمبلی جیت کر آئے تھے، 2009ء  میں   یہ تعداد پانچ تک پہونچی، لیکن 2014ء  میں   دوارکان نے جیت درج کرائی ،2020ء کے انتخاب  میں   چار مسلم ارکان اسمبلی پہونچ سکے، اور دو کو وزیر بننے کا موقع ملا، جن  میں   ایک سابق وزیر حسین انصاری صاحب مرحوم کے صاحب زادہ ہیں ،2011ء کی مردم شماری کے مطابق جھارکھنڈ  میں   مسلم آبادی کا تناسب کم از کم پندرہ فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا، جام تاڑا، صاحب گنج، پاکوڑ، لوہر دگا اور گریڈیہہ میں   مسلمانوں  کی کثیر آبادی ہے، صاحب گنج اورپاکوڑ  میں   مجموعی آبادی  میں   مسلمانوں  کا تناسب تیس فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا ، جام تاڑا، لوہر دگا ، گریڈیہہ اور رانچی  میں   مسلمانوں  کی آبادی سرکاری اعداد وشمار کے اعتبار سے بیس فی صد ہے، اس کے باوجودجھارکھنڈ سے ایک ہی مسلم ممبر، پارلیامنٹ پہونچ پاتے ہیں ، اس معاملہ میں   فرقان انصاری ہمیشہ خوش قسمت ثابت ہوتے رہے تھے ، اس بار ان کا ستارہ بھی گردش  میں   آگیا اور پارلیامنٹ  میں   مسلم نمائندگی صفر ہو گئی ۔

معاشی اعتبار سے بھی مسلمان یہاں پسماندہ ہیں ، مسلمانوں میں روزگار کی شرح یہاں صرف 5ء43 فی صد اور خواتین میں 8ء 18فی صد ہے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کی غربت کی شرح 32 فیصد ہے جب کہ عام شہریوں میں 18 فیصد ہے ۔

امارت شرعیہ کے اکابر کی دور رس اور دور بیں نگاہوں نے جھارکھنڈ کے قیام بلکہ اس کی تحریک سے پہلے ہی جھارکھنڈ کے علاقہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، اور کءی ذیلی دفاتر انہیں علاقوں میں قائم کیے گئے1967 کے فساد میں راحت رسانی اور آباد کاری کا مثالی کام امارت شرعیہ نے کیا، جھارکھنڈ بننے کے بعد دارالقضاء کے کاموں کو مختلف اضلاع میں وسعت دی گئی ، وفود کے دورے کثرت سے ہونے لگے ، جھارکھنڈ کے قیام کے بعد ’’جھارکھنڈ کانفرنس 13/مئی 2001 کومشن گراوَنڈ رانچی میں کرکے امارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد عوام تک پہونچانے کا کام کیا گیا اور مکاتب وغیرہ کے قیام کے ذریعہ بنیادی دینی تعلیم کے کام کو فروغ بخشا گیا،معلمین کی تربیت کے لیے کئی کیمپ لگائے ، او ر وفاق المدارس کا بین المدارس اجتماع مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھند میں کرایا گیا23ْجنوری 2011ء کو انجمن اسلامیہ ہال رانچی میں امیر شریعت سادس کی صدارت میں تعمیر انسانیت کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی تشریف فرما تھے،13مارچ 2016ء کو امیر شریعت  سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی صدارت میں دین ودستور بچاوَ کے عنوان سے عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کے ساتھ وانم مشرام وغیرہ نے بھی شرکت کی تھی، لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، اس کانفرنس نے دین ودستور بچانے کے سلسلے میں حساسیت پیدا کی ، اور اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوئے،جب کبھی جھارکھنڈ میں کوئی زمینی یا آسمانی آفت آئی، امارت شرعیہ نے متاثرین میں راحت رسانی اور باز آباد کاری کا کام کیا، لاک ڈاوَن کی پریشانی تو ابھی کل کی بات ہے ، امارت شرعیہ نے بڑے پیمانے پر غذائی اجناس کی فراہمی اور تکالیف دور کرنے کے لیے مسلسل منظم اور مربوط جد وجہد کی، علماء ، ائمہ جو پریشان حال تھے، اس موقع سے ان کا بھی خیال رکھا گیا، رانچی مقامی دفتر کے ذمہ دار اور قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی نے حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت اور قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی کی نگرانی میں جو خدمات انجام دیں ، اس کی وجہ سے بعض تنظیموں کے ذریعہ امارت شرعیہ کو توصیفی سند سے نوازا گیا، امارت شرعیہ نے مسلمانوں میں تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے لیے ’’تعلیمی ہب‘‘ سے مشہور رانچی کے ہند پیڑھی محلہ میں کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر کرائی ،تاکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کا مضبوط اور مستحکم نظام قائم کیاجا سکے ۔

جھارکھنڈ میں ’’ عشرہ برائے ترغیب تعلیم وتحفط اردو‘‘ یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوا، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے قضاۃ اور کارکنان کے ذریعہ پورا عشرہ جھارکھنڈ کے چوبیس اضلاع میں بنیادی دینی تعلیم، عصری تعلیم کے اداروں کے قیام اور داخلی وخارجی سطح پر اردو کے فروغ وتحفظ کے لیے مہم چلائی گئی ، سبھی اضلاع میں کمیٹیاں بنائی گئیں اور کمیٹی کو ان تینوں امور پر عملی پیش رفت کا ہدف دیا گیا ۔

اس موقع سے حضرات علماء کرام نے جو پیغامات لوگوں کو دیے وہ بھی بہت قیمتی تھے ، انہوں نے کہا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے ملت کی ترقی کے لیے جو سہ نکاتی فارمولہ دیا ہے وہ کافی اہم ہیں ، اور ہندوستان میں ملت اسلامیہ اس وقت جن خطرات سے دو چار ہے اس کے دور کرنے کے لیے ماسٹر کی اور شاہ کلید کی(Master Key) حیثیت رکھتی ہے، یاد رکھنے کی بات ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے لیے سب سے پہلے جس جملے کا انتخاب اللہ رب العزت نے کیاوہ اقراء یعنی پڑھو ہے، تعلیم تمام برائیوں کو دور کرنے، ایمان پر جمنے اور اسلام پر ثابت قدم رکھنے کا الٰہی نسخہ ہے، تعلیم میں عصری علوم، جدید ٹکنالوجی وغیرہ سبھی کچھ شامل ہے، اس لیے  ہمیں ایک طرف دینی علوم حاصل کرنا ہے اور عصری تعلیمی محاذ پر بھی کام کرنا ہے، ہمارا بہت سارا علمی سرمایہ، ہماری تہذیب وثقافت کا بڑا حصہ اردو زبان سے متعلق ہے، اس لیے ہمیں تحفظ اردو کے سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے، اپنے گھروں اور کاموں میں اردوکا استعمال کرنا چاہیے اور عوامی سطح پر اسے مقبول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس دس روزہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو مہم سے عوام کی دلچسپی دیدنی تھی اور ان کا شوق وذوق مستقبل میں ان منصوبوں کو زمین پر اتارنے کا مزدہ سنا رہا تھا، کارواں چل پڑا ہے اور عزم یہ ہے کہ اب منزل پر ہی جا کر دم لیں گے ۔

اس عشرہ کے اختتام کے بعد 13،14 اور 15 مارچ کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں سہ روزہ پروگرام رکھا گیا تھا ، جس کے پہلے دن جھارکھنڈ کے ملی مسائل پر علماء ائمہ ودانشوروں کے ساتھ خصوصی مشاورتی اجتماع ہوا، دوسرے دن اس قسم کا اجتماع اردوکے تحفظ ، عوامی استعمال، تدریس سے متعلق مسائل پر ہوا جس میں پورے جھارکھنڈ کے اردو دوست حضرات شریک ہوءے اور ان کی قیمتی آرا کی روشنی میں آئندہ کے لیے لاءحہ عمل طے کیا گیا، 15 مارچ کو امارت پبلک اسکول کی سنگ بنیاد ہوجِر، ہلداما(اِربا) اوینا روڈ ضلع رانچی میں امیر شریعتِ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے رکھی تھی اور اس موقع سے بھی ایک اجلاس عام ہوا تھا، یہ اسکول اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی اقامتی درسگاہ کے طور پرجلد ہی کام کرنے لگے گا تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے اپنے دور امارت میں جس کام کو  شروع کیا تھا،اور اس سلسلے کے دو اسکول جھارکھنڈ میں پہلے ہی قایم ہو چکے تھے ، ایک بن کھنجو گریڈیہہ میں اور دوسرا پسکا نگری ضلع رانچی میں ۔ اسے نو جودہ امیر شریعت تسلسل بخش رہے ہیں جلد ہی ہند پیڑھی رانچی میں ایک تعلیمی ادارہ کا آغاز بھی ہونے والا ہے،امارت کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرتِ مولانا احمد ولی فیصل رحما نی دامت برکاتہم  کے حکم سے مجلس شوریٰ کی میٹنگ ہو رہی ہے۔اس سے جھار کھنڈ میں ایک نیے دور کا انشاءاللہ آغاز ہوگا۔ خدمات او ربھی ہیں ، جس کی تفصیل پھر کبھی۔یار زندہ صحبت باقی ۔

پیر, نومبر 14, 2022

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد

تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں یوم اطفال کا انعقاد
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 تسمیہ جونئیر ہائی اسکول میں ۱۰ نومبر ۲۰۲۲ ء سے ۱۴ نومبر ۲۰۲۲ کو یوم اطفال کے موقع پرکئی پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جس میں اسکاؤٹ گانڈکیمپ اور ہر طرح کے کھیل کو دکوکرایا گیا ۔ نومبر ۲۰۲۲ ء جمعرات کو اسکاؤٹ گائڈکیمپ کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر اسکول کے میجر سیداعجاز احمد اور پرنسپل جاوید مظہر اور مہمان خصوصی محترمه میتری رستوگی ( اقلیتی فلاح بہبودافسر مظفرنگر ) موجودرہے اسکاؤٹ گانڈ کیمپ میں طلبہ وطالبات کو کئی طرح کی جسمانی ورزش کرائی گئی جس میں پر یڑ کما نڈ نگ اور تالیوں بجانے کا طریقہ کیمپ لگانا ، گانٹھ باندھنا ، جھنڈے سے متعلق قاعدے و قانون ، اسکاؤٹ گائڈ گیت اور کھیل کرائے گئے ۔۱۲ نومبر ۲۰۲۲ ء بروز ہفتہ کو اسکول کی سبھی درجہ سے مختلف کھیلوں کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ وطالبات کے بیچ کرکٹ ، کیرم اور دوڈ کرائی گئی جس میں درجہ ایل ۔ کے۔جی سے پیک اپ اوبجیکٹ ریس ، درجہ یو ۔ کے ۔ جی سے غبارہ ریس ، درجہ اول سے بیک ریس ، درجہ دوم سے ون لیگ ریس ، درجہ سوم سے بک ہولڈنگ ، درجہ چار سے لیمن پیچ دوڈ ، درجہ پانچ سے تھری لیگ دوڑ ، درجہ چھ بی سے سیک ریس ، درجہ چھ جی سے پینگوئن دوڑ ، درجہ سات بی سے فائف لیگ رئیس ، درجہ سات جی سے بلاک اسٹیپ دوڑ ، درجہ آٹھ بی سے سلوسائیکل ریس ، درجہ سات بی اور آٹھ بی کے طلبہ کے نیچ کرکٹ اور طالبات کے بیچ کیرم باسکٹبال ، بیڈمنٹن کھیلا گیا ۔ جس میں فلاور ڈرل ۔ ربن ڈرل ، بال ڈرل ، مچھا تا ڈرل ، دو پٹہ ڈرل ، وینگ ڈرل ، بمبوڈرل وغیرہ کا انعقاد کیا گیا کھیل میں جیتے گئے طلبہ کو انعامات سے نوازہ گیا ۔ یوم اطفال کے موقع پر اسکول کے منیجر سید اعجاز احمد نے مہمان خصوصی محترم میتری رستوگی ( اقلیتی فلاح بہبودافسر مظفرنگر کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور یادگارنشان پیس کر کے کیا پروگرام کی شروعات ( آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جو درجہ پنجم اقدس نے کی درجہ ایل ، کے ، بی اور یو ۔ کے ۔ بی کے بچوں نے لکڑی کی کاٹھی ، کاٹھی پر گھوڑا پیارا گیت ، درجہ اول تراندوی شیل اور کم ، درجہ دوم سے میں تیار ہوں گیت ، درجہ سوم سے پروپ ایکٹیویٹی ، درجہ چہارم سے ترانہ ہم اپنی ملت کے ، درجہ پانچ سے بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے ، درجہ کچھ بی سے چل دین کی تبلیغ میں ، درجہ سات جی سے خوبصورت ڈرامہ اور بچوں کا گیت پیش کیا گیا ۔ اسکول کے طلبہ وطالبات نے پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ بچوں کو انعامات سے نوازہ کیا ابراہیم ، حریہ ، عفان ، ارمان ، کیف ، فیضان ، شاه باز سادان ، انس میرا || زبیر ، شابان ، جوسر ی ، اقدس ، سبحان ، شعیب ، ثا قب میرا ، زیاناز ، اقدس ، عمرہ ، ارینہ ، میرا ، فطمہ پروین ، تسمیہ ، اقصی ، صوفیہ ، صوفیہ ، شمائلہ ، ایان ، وارث ، عذیف ، ابوذر ، منان ، بلال ، ذکی ، صد ، حسان ، شان محمد ، طیب ، ڈرل میں عاتکہ ، ثوبیہ ، شفا ، میرا جویریہ ، عائشہ ، انشا نور ، میرا شبینہ ، انزلہ ، کھوہ کھوہ میں منشا ، بیڈمنٹن میں کنزا ، میوزیکل چیر مین اقصی ، باسکٹ بال میں شمائلہ کامیاب رہے ۔ یوم اطفال کے موقع پر مہمان خصوصی نے مہمانوں ، بچوں اور والدین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کی تعلیم کیسی بھی ملک کی ترقی کا خاص جز ہے ہمیں اخلاقی تربیت اور تکنیکی علم یں ترقی کرنی چاہیے انھوں نے اپنی تقریر میں نیکی اور بھائی چارہ کا پیغام اور والدین سے بچوں کے جسمانی صحت پر غور کرنے پر زور دیا اسکول کے پرنسپل نے خصوصی مہمان ، طلبہ و طالبات اور اسکول کے اسٹاف کا بھی شکر یہ ادا کیا ۔ اسکول کا اسٹاف زبیراحمد محمد پرویز ، مولانا شوکت ، مرسلین خان محمد شاہ رخ ، ریشمہ تبسم بعصمت آرا ، لا لقہ عثانی ، خوش نصیب ، درخشاں پروین ، رقیہ بانو ہمن ، سانیہ مریم ، شمائلہ ، امرین ، سید ہ عباس اور انعم فاطمہ وغیرہ موجودر ہے ۔

ہفتہ, نومبر 12, 2022

امارت شرعیہ: ترقی کی طرف بڑھتے قدممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ: ترقی کی طرف بڑھتے قدم
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آٹھویں امیرشریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ کا انتخاب بحیثیت امیر شریعت 9؍اکتوبر2021ء کو کثرت رائے سے ہوا تھا۔ ؍اکتوبر2021ء کو پورے ایک سال مکمل ہوگئے، ان ایام میں حضرت امیر شریعت کی مخلصانہ جد و جہد، رہنمائی اور بروقت اقدام کی صلاحیت کی وجہ سے امارت شرعیہ کا یہ کارواں ہر دم رواں ہے، اس ایک سال میں دس نئے دار القضاء کھولے گئے حضرات قضاۃ اور کارکنوں کی بحالی عمل میں آئی، ہفتہ وار ذیلی دار القضاء سے رپورٹ مرکزی دفتر بھیجنے کا سلسلہ شرع ہوا،تاکہ مرکزی دار القضاء ذیلی دار القضاء کے احوال سے بر وقت با خبر رہے،بدلتے ہوئے حالات میں بعض مسائل میں تنقیح کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے ۱۳؍ تا ۱۵؍ نومبر ۲۰۲۲ء کل ہند سمینار جمشیدپور میں رکھا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ حضرات قضاۃ اور وکلاء کی بحث وتمحیص اور غور وفکر کے نتیجے میں شرعی طور پر مثبت راہ سامنے آئے گی، اور اس کے دوررس اثرات مرتب ہوںگے۔
بنیادی دینی تعلیم کے لئے امارت شرعیہ کے پاس خودکفیل نظام تعلیم کا جامع منصوبہ پہلے سے موجود تھا اور سابق امراء شریعت اس منصوبے پر عمل درآمد کے خواہش مند بھی تھے، حضرت امیرشریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر خودکفیل نظام مکاتب کو رواج نہیں دیا گیا تو یہ کام بڑے پیمانے پر نہیں ہوسکتا کیوں کہ کسی بھی تنظیم کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں کہ وہ بنیادی دینی تعلیم کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے گاؤں گاؤں مکاتب کھول سکے۔ اس لیے اس مسئلہ کا حل خودکفیل نظام تعلیم ہی ہے۔ آٹھویں امیر شریعت نے اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرکے خود کفیل نظام تعلیم کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس وقت تک نوے مکاتب خودکفیل قائم ہوچکے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم کے لئے بیداری پیدا ہوئی ہے اور دور دراز کے دیہات کے لوگ بھی اس کام کو اپنی ضرورت سمجھنے لگے ہیں۔مکاتب اور اس میں بنیادی دینی تعلیمی دینے والے اساتذہ وائمہ مساجد کا سہ روزہ بین المکاتب والمدارس اجتماع ۱۶؍ تا؍ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء مدینہ مسجد بڑی شیخانہ بہار شریف میں منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں معلمین نے شرکت کی، حضرت نے مکاتب کے نصاب تعلیم کی ازسرنو ترتیب پر زور دیا جس پر کام جاری ہے۔
 عصری تعلیم کے فروغ اور مسلم آبادیوں تک اسے پہونچانے کیلئے امارت پبلک اسکول کے قیام کا منصو بہ امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمدولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بنایا تھا، گر یڈ یہ اور نگری ( رانچی) میں کام بھی آپ کے وقت میں شروع ہوگیا تھا ،ار با رانچی میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد بھی آپ نے ڈالی تھی ۔موجودہ امیر شریعت نے اس کام کو ترجیحی بنیاد پر آگے بڑھایا۔ آپ کی توجہ سے پانچ نئے اسکول کٹیہار، پورنیہ، کٹک ، گڈا اور ار با میں قائم کئے گئے ، ایک ہائی اسکول آسنسول میں مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول اور ایک پٹنہ میں قاضی نور الحسن میموریل اسکول اس کے علاوہ ہے جو پہلے سے چل رہا ہے ۔ معیاری تعلیم وتر بیت، اسلامی ماحول اور بنیادی دینی تعلیم کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے کی وجہ سے ان اداروں کی طرف کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات کا رجوع ہے ، اسلام میں مخلوط تعلیم کا تصور نہیں ہے ، اس لیے ان اسکولوں میں درجہ سوم کے بعد طلبہ وطالبات کی تعلیم کاالگ الگ شفٹوں میں انتظام کیا گیا ہے ۔
ہائی اسکول سطح کی تعلیم کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت ہی کے دور میں کریش کورس شروع کیا گیا ، جس سے طلبہ و طالبات نے فائدہ اٹھایا اور نہ صرف اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے بلکہ اعلی تعلیم کے لیے معیاری درسگاہوں میں ان کے داخلہ کا راستہ بھی صاف ہوا۔ان دنوں اگلے سیشن کے لیے کریش کورس میں داخلے جاری ہیں ۔
 سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کے جو نقصانات ہو سکتے ہیں ،اس کے تجزیہ کے لیے آپ نے ایک کمیٹی بنائی یہ نصابی کمیٹی عصری علوم کی درسگاہوں کے لئے ایک نصاب ترتیب دے گی اور اسے تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس سلسلہ میں کمیٹی کے ارکان کی آرا ء تحریری طور پر موصول ہوگئی تھیں ،15اکتوبر کی میٹنگ میں اس موضوع پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا اور لائحہ عمل طے کیے گیے، تاکہ نئی تعلیمی پالیسی سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کی شکل نکالی جا سکے ۔ نقیب کو قارئین کے لئے پرکشش اور مفید سے مفید تر بنانے کے لئے حضرت کی صدارت میں کئی میٹنگیں ہوئیں، بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے جو ہدف مقرر کیا تھا، اس پر غور وفکر کے بعد بعض مضامین کا اضافہ کیا گیا اور بعض موضوعات کو خصوصیت کے ساتھ نقیب کا حصہ بنایا جار ہا ہے ، تا کہ بدلتے ہوئے حالات میں وہ عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کرسکے۔
تنظیم اور دعوت وتبلیغ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے اس شعبہ میں مزید پچیس افراد بحال کیے گئے ، اس درمیان چھ سو چالیس گاؤں میں جدید تنظیم قائم ہوئی ، قدیم تنظیموں کو فعال اور متحرک رکھنے کے لیے آٹھ اضلاع میں ضلعی کمیٹیوں کی میٹنگ کی گئی اور سنتاون(۵۷) اضلاع کی ضلعی کمیٹی کے ذمہ داروں کی فہرست کو آخری شکل دی گئی۔ ضلع وار میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے ، نقباء کے اجتماع اور بلاک سطح تک امارت شرعیہ کے ذمہ داران کی تعیین کا جو کام حضرت امیر شریعت سابع مولا نا محمد ولی رحمانیؒ نے شروع کیا تھا۔ اس کو وسعت دی گئی اور جلد ہی یہ ا جلاس آئندہ ماہ جمشید پور، ارریہ اور اور سہرسہ میں منعقد ہوگا ۔
مبلغین کی تربیت کا بھی حضرت نے ایک نظام بنایا اور اس کے لئے جدید انداز میں فکری و عملی تربیت کی خا کہ بندی کی گئی ؛جس کے مطابق تربیتی موضوعات پر مضامین تیار کرائے جار ہے ہیں، امید ہے کہ تربیتی نظام ان شاء اللہ پہلے سے زیادہ مؤثر اور مفید ہوگا ۔اسی طرح وفود کے دورے بھی ہو رہے ہیں۔
امارت شرعیہ میں شعبہ امور مساجد بہت پہلے سے قائم ہے ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تحر یک پرائمہ کے لیے سہ روزہ تربیتی کیمپ لگائے گئے۔اور ان میں اذان ، نماز ، وضواورقرآت قرآن کی عملی مشق ہوئی تھی ۔ اسی موقع پر دہلی سے مولانا عبداللہ طارق خاص کر بلائے جاتے تھے ، قاضی صاحب بعض امور پر تربیت کی ذمہ داری احقر کے ذمہ کرتے تھے ، گذشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ موقوف تھا، حضرت امیر شریعت ثامن کے حکم سے شعبہ امور مساجد میں فعالیت آئی ہے اورگیارہ روزہ اور یک نشستی تربیتی کیمپ کا انعقاد ہوا، جس سے ائمہ کرام میں اصلاح معاشرہ ، جمعہ کی تقریر میں موضوع کا انتخاب اور عوامی رابطہ کے سلسلہ میں بیداری آئی۔
 بیت المال کے نظام میں بھی تبد یلی لائی گئی ، آپ نے حسابات کو جدید طریقوں کے مطابق کرنے کا حکم دیا اور اسے سرکاری نظام کے تابع کیا گیا، کارکنوں کی تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ پی ایف اور ای ایس آئی کی سہولت فراہم کرائی گئی۔ غرباء اور ضرورت مندوں کی امداد پر خصوصی توجہ دی گئی اور اس کا ایک فارم تیار کر کے بلا واسطہ مستحقین تک رقومات کی فراہمی ٹرسٹ کے ضابطوں کے یقینی بنائی گئی ۔ بیوگان محتاجان کے وظائف جو پہلے سے جاری تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وقتی طور پرموقوف ہو گئے تھے اسے پھر سے جاری کیا گیا۔
 تین نئے شعبے منصوبہ سازی ، تحفظ اوقاف اور اصلاحات اراضی کے کھولے گئے ، سارے منصوبوں کو بنانے اور اس کو زمین پر اتارنے کی ذمہ داری مدیر المشاریع کی حیثیت سے نائب امیر شریعت حضرت مولا نا محمد شمشادرحمانی قاسمی صاحب کو دی گئی وہ پوری مستعدی تندہی کے ساتھ کام کو آگے بڑھارہے ہیں ، اس طرح امارت شرعیہ کی آراضی جو چارصوبوں میں پھیلی ہوئی ہے اس کے تحفظ ، بقا اور سرکاری تقاضوں کی تکمیل کے لئے اصلاحات اراضی کا شعبہ قائم کیا گیا ، جس کی ذمہ داری سابق اے ڈی ایم اور ڈی سی ایل آر جناب عبدالوہاب انصاری کو دی گئی ،اس شعبہ سے امارت شرعیہ کی غیرمنقولہ جائیداد کی حفاظت کا کام لیا جار ہا ہے ۔ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں اوقاف کی جائداد کاخرد بردعام ہے ، اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی ایک کمیٹی مرکزی دفتر میں سرگرم عمل ہے ۔
 مدھوبنی ،مظفر پور، سہرسہ اور گڈا میں امارت شرعیہ کے مختلف مقاصد کو زمین پر اتارنے کے لیے وسیع قطعہ اراضی کا حصول بھی اس ایک سالہ دور کا اہم واقعہ ہے ، ان زمینوں پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے مدیر المشاریع منصوبہ سازی میں مصروف ہیں۔
امارت شرعیہ کی تاریخ کو زندہ رکھنے اور ا کا بر امارت شرعیہ کی خدمات سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے مولانامحمدعثمان غنی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر ایک روزہ مضبوط اور وقیع علمی سیمینار بھی حضرت کے دور میں منعقد ہوا ، اس سیمینار کی منظوری حضرت امیر شریعت سابع رحمۃ اللہ علیہ نے دی تھی لیکن لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے یہ سیمینار منعقد نہیں ہو سکا تھا، حضرت امیر شریعت ثامن مدظلہ کی صدارت میں منعقد اس سیمینار نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ پر دودہائی قبل منعقد ہونے والے سیمینار کے بعدامارت شرعیہ کی جانب سے منعقد ہونے والا کسی شخصیت پر یہ دوسرا سیمینار ہے ۔اردو صحافت کے دوسوسال مکمل ہونے کے موقع سے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے رفیق کار پر منعقد ہونے والا یہ سیمینا را یک آغاز ہے ، جس سے طویل وقفہ کے بعد دوسرے اکا بر پر سیمینار کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔سوشل میڈیا، پورٹل، اخبارات اور الکٹرونک میڈیا نے اس سمینار کی خبروں کو نمایاں طور پر نشر کیا۔
حضرت امیر شریعت مدظلہ کی خصوصی دلچسپی سے مولا نا سجاد میموریل اسپتال بھی پورے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، یہاں شعبۂ دندان میں رات کی خدمات کا اضافہ کیا گیا ،کاموں کے ڈیجیٹل اور آن لائن طریقہ کارکوفروغ دیا گیا۔
ڈاکٹر عثمان غنی میمور یل گرلس کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ ہارون نگر میں پارا میڈیکل کے شعبہ کا اضافہ ہوا ، دار العلوم الاسلامیہ میں نصابی کتابوں کے ساتھ مختلف مذاہب کے مطالعہ کی شروعات ہوئی ، اس ایک سال میں مختلف جگہوں اور ذیلی اداروں میں تعمیری کام کیے گئے اور ضرورت کے مطابق ان کی تزئین اور آرائش بھی ہوئی ۔
 اس کے علاوہ مختلف عناوین سے بہار اور بہار سے باہرحضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے خطابات نے امارت شرعیہ کے استحکام اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ۔ سفراب بھی جاری ہے ، ہمیں حضرت کی صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر اور کام کے تسلسل میں مزید وسعت کی دعا کرنی چاہئے ۔

جمعہ, نومبر 11, 2022

سوال:

نماز میں کل کتنی سنتیں ہیں؟ جزاک اللہ

جواب نمبر: 601080

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:221-151/sn=4/1442

 نماز میں کل اکیس(21) سنتیں ہیں، تعلیم الاسلام(مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ) سے ان کی تفصیل منسلک ہے ،ملاحظہ فرمالیں ۔

نماز کی سنتوں کا بیان

نماز کی سُنّتوں سے کیا مراد ہے ؟

جواب۔ جو چیزیں نماز میں حضور رسولِ کریم ﷺ سے ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر ثابت نہیں ہوئی انہیں سنت کہتے ہیں ۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نہ گناہ ہوتا ہے ۔ اور قصداً چھوڑ دینے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ہوتا ہے

سوال۔ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟

جواب۔ نماز میں اکیس (۲۱) سنتیں ہیں۔_

(۱) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔

(۲) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔

(۳) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔

(۴) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔

(۵) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔

(۶) ثنا پڑھنا۔

(۷) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔

(۸) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔

(۹) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔

(۱۰)آمین کہنا۔

(۱۱) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔

(۱۲) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔

(۱۳) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔

(۱۴)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔

(۱۵) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔

(۱۶) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔

(۱۷) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔

(۱۸) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔

(۱۹) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔

(۲۰) درود کے بعد دعا پڑھنا۔

(۲۱) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

سوال:

نماز میں کل کتنی سنتیں ہیں؟ جزاک اللہ

جواب نمبر: 601080

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:221-151/sn=4/1442

 نماز میں کل اکیس(21) سنتیں ہیں، تعلیم الاسلام(مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ) سے ان کی تفصیل منسلک ہے ،ملاحظہ فرمالیں ۔

نماز کی سنتوں کا بیان

نماز کی سُنّتوں سے کیا مراد ہے ؟

جواب۔ جو چیزیں نماز میں حضور رسولِ کریم ﷺ سے ثابت ہوئی ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر ثابت نہیں ہوئی انہیں سنت کہتے ہیں ۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو نہ نماز ٹوٹتی ہے نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے نہ گناہ ہوتا ہے ۔ اور قصداً چھوڑ دینے سے نماز تو نہیں ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والا ملامت کا مستحق ہوتا ہے

سوال۔ نماز میں کتنی سنتیں ہیں؟

جواب۔ نماز میں اکیس (۲۱) سنتیں ہیں۔_

(۱) تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔

(۲) دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔

(۳) تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔

(۴) امام کو تکبیر تحریمہ اور ایک رُکن سے دوسرے میں جانے کی تمام تکبیریں بقدر حاجت بلند آواز سے کہنا۔

(۵) سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔

(۶) ثنا پڑھنا۔

(۷) تعوّذ یعنی اَعُوْذُ بِا للّٰہ الخ پڑھنا۔

(۸) بِسْمِ اللّٰہ الخ پڑھنا۔

(۹) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہٴ فاتحہ پڑھنا۔

(۱۰)آمین کہنا۔

(۱۱) ثنا اور تعوّذ اور بسم اللہ اور آمین سب کو آہستہ پڑھنا۔

(۱۲) سنت کے موافق کوئی قرأت کرنا یعنی جس جس نماز میں جس قدر قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اس کے موافق پڑھنا۔

(۱۳) رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا ۔

(۱۴)رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ لینا۔

(۱۵) قومہ میں امام کو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور مقتدی کو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہنا ۔ اور منفرد کو تسمیع اور تحمید دونوں کہنا۔

(۱۶) سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے پھر دونوں ہاتھ پھر پیشانی رکھنا۔

(۱۷) جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف رہیں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔

(۱۸) تشہّد میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ پر انگلی سے اشارہ کرنا۔

(۱۹) قعدہ اخیرہ میں تشہّد کے بعد درود شریف پڑھنا۔

(۲۰) درود کے بعد دعا پڑھنا۔

(۲۱) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

جمعرات, نومبر 10, 2022

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح

امیر شریعت رابع: ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

امیر شریعت رابع امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ،جھارکھنڈ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری،جمعیت علمائے بہار کے سابق ناظم،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق استاذ ،سینکڑوں مدارس اور تعلیمی اداروں کے صدر اور سرپرست، تحفظ شریعت کے مرد میداں، ملی، تعلیمی اور رفاہی کاموں کے سرگرم قائد، ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مسلمانوں کے پیر و مرشد ابوالفضل حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رح کا وصال رمضان المبارک ١٤١١ھ کی تیسری شب  کوخانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوگیا، دوران تراویح ہی دل کا دورہ پڑا، حجرہ میں لے جاۓ گئے اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی، سب کچھ منٹوں میں ختم ہو گیا، ١٩/مارچ ١٩٩١ء کی شام شریعت و طریقت کا آفتاب غروب ہوگیا، ٣/رمضان المبارک ١٤١١ھ کو بعد نمازِ مغرب جامعہ رحمانی کے صحن میں ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب (جو بعد میں امیر شریعت سادس ہوئے) جنازہ کی نماز پڑھائی اور اپنے نامور والد قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کی قبر کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے،
حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی بن قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری بن سید عبد العلی بن سید غوث علی بن سید راحت علی بن سید امان علی رحمھم اللہ کی ولادت ٩/جمادی الثانی ١٣٣٢ھ روز منگل خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، سلسلہ نسب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے جاملتا ہے، ابتدائی تعلیم خانقاہ رحمانی میں حاصل کرنے کے بعد حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، پھر گیارہ سال کی عمر میں ہی حیدرآباد مولانا عبد اللطیف رحمانی صاحب کی خدمت میں بھیج دئیے گئے، ایک سال ہی میں صرف و نحو، منطق اور دیگر فنون سے خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی، وہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے، اور ہدایہ اولین تک کی تعلیم یہیں پائی، طالب علمانہ زندگی کے چار سال یہاں لگاۓ، ١٩٣٠ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور یہاں کے نامور اساتذہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رح سے کسب فیض کیا، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا حیدر حسن خاں محدث کا نام بھی آتا ہے۔١٩٣٣ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہوئی۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں طالب علمی کے دوران ہی حضرت مولانا محمد علی مونگیری کا وصال ہوگیا، ظاہر ہے یہ عمر تصوف و سلوک کے کُنہیات سمجھنے کی نہیں تھی، اس لیے تصوف و سلوک کی تربیت بعد میں آپ نے حضرت مونگیری کے خلیفہ حضرت مولانا محمد عارف صاحب سے حاصل کی جو ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ کے رہنے والے تھے، اس راہ میں مرتبہ کمال پر پہونچنے کے بعد مولانا محمد عارف صاحب نے اجازت بیعت و خلافت سے نوازا، ١٩٤٢ء میں جب حضرت مولانا لطف اللہ صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا تو حضرت مونگیری کے تمام خلفاء و مریدین نے خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں  آپ کومقرر کیا  آپ نے مخلوق خدا کی روحانی تربیت  کے ساتھ جامعہ رحمانی کی نشأۃ ثانیہ کا کام کیا، برسوں خود بھی تدریسی کاموں سے منسلک رہے، بعد میں ہجوم کار کی وجہ سے یہ سلسلہ باقی نہ رہ سکا؛ لیکن آپ کی خصوصی توجہ اور طریقہ کار کی وجہ سے جامعہ اور خانقاہ دونوں کی پورے ملک میں ایک شناخت بن گئی،اور اس کا شہرہ ملک و بیرون ملک میں پھیلا۔
 ١٩٣٥ء میں آپ جمعیت علمائے بہار کے ناظم منتخب ہوئے،١٩٣٧ء میں مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، ٢٤/مارچ ١٩٥٧ء کو حضرت مولانا ریاض احمد سنت پوری کی صدارت میں منعقد اجلاس میں آپ امیر شریعت منتخب ہوئے، اس وقت مجلس ارباب حل و عقد کے نام سے کوئی مجلس نہیں تھی، بڑے علماء اس موقع سے مدعو ہوتے تھے اور امیر شریعت کا انتخاب عمل میں آتا تھا، انتخابی اجلاس مدرسہ رحمانیہ سپول دربھنگہ میں ہوا تھا، نہ پولنگ بوتھ بنا تھا اور نہ ہی بیلٹ پیپر کی چھپائی ہوئی تھی، مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی  تھی، مجلس میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت دوم، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ شریک تھے۔
انتخاب امیر کے بعد شروع کے پانچ سال بڑی آزمائش اور کشمکش کے تھے؛ لیکن جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز کے عطا فرماتا ہے؛ چنانچہ ١٩٦٢ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح جامعہ رحمانی کی معلمی چھوڑ کر امارت شرعیہ آگئے، اور جلد ہی مولانا سید نظام الدین صاحب کو امارت شرعیہ لانے میں کامیاب ہو گئے، حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے کا کام کیا اور امارت شرعیہ کا کام پھلینے لگا، امارت شرعیہ کا دفتر خانقاہ مجیبیہ میں تھا، وہاں سے قاضی نورالحسن اسکول کی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا، قریب کی ایک اور بلڈنگ خریدی گئی،بڑی جد و جہد کے بعد امارت شرعیہ کے دفتر کی موجودہ اراضی سرکار سے لیز پر لی گئی اور ١٥/نومبر ١٩٨١ء کو اس زمیں پر حضرت امیر شریعت رابع رح نے دفتر امارت شرعیہ کی سنگ بنیاد ڈالی، اس موقع سے آپ نے فرمایا: 
"میں عمر کی اس منزل پر پہنچ چکا ہوں جہاں لوگ نئے منصوبے نہیں بناتے؛لیکن خدا کے فضل اور پورے ملک میں پھیلے ہوئے مخلصین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ نیا کام شروع کیا جارہا ہے، قومی اور ملی کاموں کا انحصار افراد پر نہیں ہوتا، میں رہوں یا نہ رہوں اسے پورا کرنے کی ذمہ داری آپ سبھوں کی ہے"۔
جب پارلیمنٹ میں یکساں شہری قانون لاکر مسلم پرسنل لا بورڈ کو کالعدم قرار دینے کا منصوبہ بنایا گیا تو آپ میدان میں نکلے، ٢٨/جولائی ١٩٦٣ء کو  امارت شرعیہ کے زیر اہتمام انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی، جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے فرمائی، مولانا ابواللیث اصلاحی امیر جماعت اسلامی نے افتتاح فرمایا، کئ سال کی تگ و دو کے بعد ١٤/١٣ /مارچ ١٩٧٢ء کو دارالعلوم دیوبند میں نمائندہ اجتماع ہوا، اور اس کے فیصلہ کی روشنی میں ٢٨/٢٧/ دسمبر ١٩٧٢ء کو ممبئی میں وہ تاریخی اجلاس ہوا، جس میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی، اپریل ١٩٧٣ء میں حیدرآباد اجلاس میں آپ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور تادم آخری اس عہدے پر فائز رہے۔آپ نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر اعلان کیا:
"میں اس کے لئے تیار ہوں کہ ہماری گردنیں اڑادی جائیں، ہمارے سینے چاک کر دیۓ جائیں، مگر ہمیں یہ برداشت نہیں کہ"مسلم پرسنل لا "کو بدل کر ایک "غیر اسلامی لا" ہم پر لاد دی جائے ہم اس ملک میں باعزت قوم اور مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔"
آپ کے وقت میں امارت شرعیہ نے خدمت خلق اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کا فیصلہ کیا، مولانا سجاد ہوسپیٹل اور ام ام یو ہائی اسکول آسنسول اس کام کا نقطۂ آغاز تھا، جو بعد کے امراء کے دور میں پھیلا، حضرت کی خدمات کا دائرہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ لکھی جاتی رہیں گی،واقعہ یہ ہے کہ "دامان  نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار"۔
میں اپنے ہی ایک مضمون کے اقتباس پر اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔
"مولانا دارالعلوم دیوبند کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہوں یا ندوۃ کی مجلس شوریٰ میں کوئی مسٔلہ زیر بحث ہو، جامعہ رحمانی مونگیر کو عروج و ارتقاء کے مختلف مدارج سے گزارنا ہو یا خانقاہ کی مسند سجادگی ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی تحریک ہو یا اس کا دور نظامت، شاہ بانو کیس میں نفقہ مطلقہ کے خلاف احتجاج ہو یا ایمرجنسی میں خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تحریر و تقریر، امارت شرعیہ کے امیر شریعت کی حیثیت سے تنفیذ و شریعت اور توسیع دارالقضاء کی جہد مسلسل ہو یا انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاسی جد و جہد ،قریہ قریہ دعوت دین کا کام  ہویا مدارس کی سرپرستی سب تحفظ شریعت اور دفاع اسلام ہی کے مختلف عنوان ہیں، اور ہر عنوان ایک ضخیم کتاب کا مضمون، اس لیے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب نوراللہ مرقدہ نے بجا لکھا ہے کہ"ہندوستان میں اسلام کی حفاظت و صیانت کی تاریخ جب بھی لکھی جاۓ گی وہ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل ہوگی، بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ مولانا کے کالبد خاکی میں جو خون گردش کررہا تھا اور جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے جو سانس کی آمد و رفت تھی اگر زبان حال کو سننے والے کان ہوتے تو معلوم ہوتا کہ وہ تحفظ شریعت ہی کے لیے وقف تھے"۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...