Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 19, 2022

ممتاز عالم دین مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

ممتاز عالم دین مفتی رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
اردودنیانیوز٦٢
Mufti Rafi Usmani Passes Away: 
مفتی محمد
 رفیع عثمانی و فاق المدارس العربیہ پاکستان کے نائب صدر ، کراچی یونیورسٹی اور ڈاؤ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ رکن، اسالمی نظریاتی کونسل، رویت ہالل کمیٹی اور زکٰوۃ و عشر کمیٹی سندھ کے رکن اور سپریم کورٹ ٓاف پاکستان اپیلٹ بینچ کے مشیر بھی رہے۔ مفتی رفیع عثمانی 21 جوالئی 1936 کو متحدہ ہندوستان کے عالقے دیوبند میں پیدا ہوئے اور 1986 میں دارالعلوم کراچی کے صدر بنے۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے مفتی محمد رفیع عثمانی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسالم کے لیے عظیم نقصان ہے۔ دینی تعلیمات کے فروغ کے لیے مفتی صاحب کی خدمات بے مثال ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ ان کے انتقال سے پیدا ہونے واال خال ایک عرصے تک پر نہیں ہوسکے گا۔ مفتی اعظم پاکستان اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر مفتی محمد رفیع عثمانی 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مفتی رفیع عثمانی، معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔ مرحوم، مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھائی، جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر اور دارالمدارس العربیہ کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے۔ وہ تقسیم ہند سے قبل ہندوستان کے صوبے دیوبند میں اکیس جولائی انیس سو چھتیس کو پیدا ہوئے۔ تحریک پاکستان کے رہنما اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے بڑے صاحب زادے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مفتی اعظم دیوبند محمد شفیع دیوبندی سے پائی۔ ان کا شمار پاکستان کے سرکردہ علما میں ہوتا تھا، انہوں نے درجن بھر کتابیں لکھیں جن میں درس مسلم، دو قومی 
نظریہ، اور نوادر الفقہ قابل ذکر ہیں۔
صدر مملکت نے مفتی رفیع عثمانی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مفتی رفیع عثمانی نے فقہ، حدیث اور تفسیر کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں، مرحوم کی دینی اور علمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جمعرات, نومبر 17, 2022

عیادت میں آداب کا خیال کیجیے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ۱۷/نومبر ۲۰۲۲ء بروز جمعرات

عیادت میں آداب کا خیال کیجیے 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
میرے استادنے ایک موقع پر یہ نصیحت کی تھی کہ خود کو بیمار مت سمجھو باوجودیہ کہ تم بیمار ہو، ایسا سمجھنے اور محسوس کرنے سے بیماری ٹھیک نہیں ہوسکتی ہے، ایک بیمار انسان کی سب سے بڑی بیماری یہی ہے کہ وہ خود کو بیمار سمجھتا ہے، یہ احساس دراصل ایک لاعلاج مرض کا نام ہے،تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ اچھا خاصا تندرست اور صحت مند آدمی کی طبیعت ذرا سی مضمحل ہوئی،اپنے مرض کا خیال دل ودماغ میں جاگزیں کرلیا تو وہ بستر علالت کو پکڑ لیتا ہے، اسمیں غلطی صرف مریض کی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے محرک خیریت پوچھنے والے بھی ہیں جو آداب مزاج پرسی سے بیگانہ ہوتے ہیں،ایسی باتیں کہتے ہیں جن سے حوصلہ پست ہوجاتا ہے،اور بیمار کا خیال یقین میں بدل جاتا ہے کہ واقعی وہ بہت بیمار ہے،جوں ہی ملاقات ہوئی یہ کہنے لگتے ہیں کہ؛بھائی آپ کی حالت تو بہت خراب ہوگئی ہے، چہرہ اتر گیا ہے، بالکل کمزور ہوگئے ہیں، ارے جسم پر گوشت کہاں ہے؟صرف ہڈی اور چمڑی رہ گئی ہے،یہ آپ کا شوگر تو لاعلاج ہے وغیرہ۰۰۰۰۰ 
         افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
         لوگوں نے پوچھ پوچھ کر بیمار کردیا 
کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا خیال نہیں کیا جائے تو واقعی وہ بیمار کی بیماری میں اضافہ کا سامان بن جاتی ہیں، آج ان کا خیال  بالکل بھی نہیں کیا جاتا ہےکہ یہ وقت بیمار سے ملنے کاہے یا نہیں ہے ؟ آدھی رات کو پہونچ جاتے ہیں اور زور زور سے دروازہ پیٹ رہے ہیں،اندر آگئے تو دیر تک بیٹھے ہیں، بیمار کی خیریت معلوم کرنے تشریف لائے تھے ،آکر اپنی پوتھی کھول دیے ہیں، یہ باتیں  آداب عیادت کے خلاف اور غیر شرعی ہیں۔
          دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر
          کہنے کو یہ ہےکہ آئے ہیں عیادت کرنے

ایک بیمار کی عیادت اسلام میں بڑی چیز ہے، مسلمان کا مسلمان پر یہ واجبی حق ہےکہ،جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کا مسلمان بھائی اس کی عیادت کو جائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی تاکید فرمائی یے، مگر ساتھ ہی عیادت کے آداب بھی بتلائے ہیں، دعائیں بھی دینے کی تعلیم فرمائی ہیں،ان باتوں کو خیال ضروری ہے۔
حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سلیقہ بتایا ہے کہ جب عیادت کے لیےکوئی جائے تو پہلے اس کے ہاتھ اور پیشانی پر ہاتھ رکھے،اس کو تسلی اور دلاسا دے،شفاکےلیے خدا سے دعا کرے، (ابوداؤد )
اطباء حضرات مریض سے پہلی ملاقات میں یہی کرتے ہیں جو حدیث شریف میں تعلیم دی گئی ہے،ایک بیمار کی بیماری آدھی ختم ہوجاتی ہے جب محبت اور شفقت کے لہجہ لیے ہوئے ڈاکٹر اس عمل کو انجام دیتا ہے، یہ عیادت کا شرعی طریقہ ہے جسے ڈاکٹروں نے برائے علاج اپنالیا  ہے،ہم غور نہیں کرتے ہیں،گفتگو میں بیماری خواہ کتنی مہلک کیوں نہ ہو ڈاکٹر مریض کو اطمینان ہی دلاتا ہے اور کوئی ایسا جملہ اس کے سامنے ادا نہیں کرتا ہے جو اس کی بے اطمینانی کا سامان بن جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے، حدیث میں جو کلمہ بیمار سے کہنے کا ہے اسمیں سراسر دلاسا اور تسلی کےہی الفاظ ہیں،"لاباس طهور إن شاءالله "کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا یہ بیماری( گناہوں سے)پاک کرنے والی ہے،(بخاری )
ان الفاظ میں گویا ایک طرح کا جادو ہے اور یہ تسلی ہی نہیں بلکہ مریض کے لیے شفاء کا پیام بھی ہے،
          حال بیمار کا پوچھو تو شفا ملتی ہے 
         یعنی ایک کلمہ پرسش بھی دوا ہوتا ہے 
ایک حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ جب کوئی صبح کو کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو فرشتے شام تک اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں، اور جب شام کو کرتا ہے تو صبح تک فرشتے اس کی مغفرت کے لیے بارگاہ الہی میں دعا مانگتے ہیں ،(ابوداؤد )
مذکورہ بالا حدیث میں عیادت کے وقت کی تعیین تو نہیں کی گئی ہے اور نہ محدثین نے اس طرح کی کوئی بات کہی ہے، مگر عیادت کے لیے مناسب وقت کا خیال یہ آداب عیادت میں ضرور داخل ہے،
اور صبح وشام کا ذکرخاص طور پر حدیث شریف میں کیا گیا ہے، اس سے روشنی ضرور ملتی ہے کہ یہ دونوں وقت عیادت کے لیے بہت ہی مناسب اور موزوں ہیں، انمیں بیمار کا بھی شریعت نے خیال کیا ہے اور تیماردارکے لیے بھی بڑی سہولت ہے،آسانی سے ان دووقتوں کو بیمار کی عیادت کے لیے فارغ کیا جاسکتا ہے تو وہیں مریض کے لیے بھی ان وقتوں میں بڑی راحت کی بات ہے۔
کچھ چیزوں کا خیال عیادت کرنے والوں کے لیے ضروری ہےتو وہیں کچھ باتیں بیمار سے بھی کہی گئی ہیں کہ وہ بیماری پر صبر کا دامن تھام رکھے، کوئی شکایت اور ناشکری کا حرف اپنی زبان سے ادا نہ کرے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک اعرابی مدینہ میں آکر بیمار پڑ گیا، آپ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے اور کلمات تسکین ادا فرمائے،اس نے کہا؛آپ نے خیریت فرمائی ہے مجھے تو شدید تپ ہےجو قبر میں لاکر چھوڑے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ہاں اب یہی ہو،(بخاری )
آخری بات یہ کہ آج مزاج پرسی کی جاتی ہے تیمارداری نہیں، بلکہ تیمارداری کا مزاج ہی ختم ہوتا جارہا ہے، عیادت کے اصل معنی تیمارداری یعنی مریض کی مکمل دیکھ ریکھ ہے،مزاج پرسی نہیں ہے،حدیث شریف میں مزاج  پرسی پر جب اس قدر اجر ہے تو بیمار کی مکمل دیکھ بھال اور خدمت پر کس قدر اجر مل سکتا ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۷/نومبر ۲۰۲۲ء بروز جمعرات

الحمداللہ کل بروز بدھ شب ٩بجےتحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ چوتھا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ/16/11/2022جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کیجلسہ کے فرائض انجام دیۓ

الحمداللہ کل بروز بدھ شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ چوتھا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ/16/11/2022
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ
اردو دنیا نیوز٧٢
اس پروگرام آغاز قرآن کریم کے ساتھ ہوی 
قاری شہزاد صاحب رحمانی
نعمت پاک مولانا انوار صاحب نے پرھی 
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا خوش محمد صاحب زیر نقابت حضرت مولانا شمسرصاحب مظاہری زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء صاحب حضرت شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگہوی صاحب
 شاعر اسلام مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب
قاری توصیف صاحب مولانا اخلاق صاحب ندوی قاری انوارالحق صاحب قاری رضوان صاحب لکھنئو ی قاری عبد اللہ محمودی مفتی حفظ الرحمن صاحب
 اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری کوثر آفاق صاحب نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢

بدھ, نومبر 16, 2022

نقوش خوش خطیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نقوش خوش خطی
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  خوش خطی کا فن مردہ ہوتا جا رہا ہے، اچھے اچھے قلم کاروں کی تحریریں پڑھنے میں پسینہ آجاتا ہے، کیوں کہ وہ صاف نہیںلکھی ہوتی ہیں اور خط شکستہ سے قریب تر ہوا کر تی ہیں، حالاں کہ خوش خطی کی وجہ سے تحریر پڑھنے کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے، امتحانات میں اچھے نمبر ملتے ہیں، گویا فائدہ ہی فائدہ ہے، انہیں فوائد کے پیش نظر ہمارے بچپن میں تختی لکھوائی جاتی تھی، کانٹرے کا قلم ہوتا تھا، اور چاول کی روشنائی تختی صاف کرنے کے لیے ایک خود روپودے بھنگریا کا استعمال ہوتا تھا، خوش خطی کے لیے مستقل محنت کرائی جاتی تھی اور یہ سلسلہ پرائمری درجات تک عموما جا ری رہتا تھا، تختی کے بعد نیب والے قلم کا استعمال ہونے لگا، نیب کی قط کاٹ دی جاتی تھی تو اس سے بھی کانڑے کے قلم کی طرح حروف خوشخط لکھے جاتے تھے، پھر لیڈ پین کا دور آیا، تو خوش خطی کی طرف توجہ کم ہو گئی، اور اب استعمال کرو اور پھینکو قبیل کے قلم اور کمپیوٹر نے اس مرحلہ کو اختتام تک پہونچا دیا، کنونٹ میں رائٹنگ پاور بڑھانے پر خوب محنت ہوتی ہے، لیکن کسی زبان کے الفاظ کے خوش خط لکھنے کی طرف توجہ کم ہی ہوتی ہے، اس لیے ٹیڑھی میڑھی لکیروں کا پڑھنا آسان نہیں ہوتا، اور اگر وہ ڈاکٹر ہے تو اس کا نسخہ پڑھ لینا بغل والے دوا کے دکاندار کے علاوہ کسی کے لیے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا، کیوں کہ ڈاکٹر کو دوا کا کمیشن اسی دوکاندار سے ملتا ہے۔یہی حال ہمارے حکیموں کا رہا ہے، ایسا لکھیں گے کہ دوسرا پڑھ ہی نہ سکے،ا لٹا سیدھا پڑھ لیا تو گھر میں ماتم پَسر جاتی ہے، ایک حکیم صاحب نے نسخہ میں دانہ الائچی لکھا، نسخہ پڑھنے والے نے ’’وانہ لا یحی‘‘ پڑھ دیا، یعنی وہ نہیں زندہ رہے گا، بس کیا تھا، رونا پیٹنا جو شروع ہوا۔ الامان والحفیظ
اس دور میں بھی حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ خوش خطی پر بہت توجہ دیتے تھے، میں نے بعض درخواستوں کو لوٹا تے ہوئے دیکھا کہ خوش خط لکھ کر لائیے، فرماتے اپنی تحریر اچھی بنائیے، تحریریں ہمارے چہرے کی طرح ہوتی ہیں، جس کو دیکھ کر کسی انسان کے ذہنی افتاد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، میرے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ تحریر کا ٹیڑھا پن مزاج کے ٹیڑھے پن کو بتاتا ہے ، یہ بات سو فی صد صحیح نہیں ہو تو بھی کچھ نہ کچھ حقیقت کا ادراک ان تجربہ کار حضرات کے ملفوظات سے تو ہوتا ہی ہے ، حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ جامعہ رحمانی میں خاص طور پر اس پر نگاہ رکھتے تھے، بعض لڑکوں کو تحریر کی مشق خود بھی کرایا کرتے تھے، بعض اہم لوگوں کے خط کو درست کرانے کے لیے بعض خوش خط تحریر والے اساتذہ کو مامور کر رکھا تھا، اس محنت کے نتیجے میں جامعہ رحمانی کے طلبہ کی تحریریں آج بھی خوش خطی میں دوسرے اداروں کے بنسبت ممتاز ہوتی ہیں، خوش خطی کے لیے ایک شعبہ فن کتابت کا ہوا کرتا تھا، لیکن کمپیوٹر کے غیر معمولی استعمال کی وجہ سے یہ فن بھی دم توڑ گیا ہے ، ورنہ ایک زمانہ میں خلیق ٹونکی ، ابو بکر قاسمی، انیس احمد، طارق بن ثاقب وغیرہ نے اس فن کو عروج بخشا تھا، اور ابو بکر قاسمی نے تو تاشقند کے خطاطی نمائش میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔
قاری شہاب الدین صاحب ناظم مدرسۃ مدینۃ العلوم مغربی محلہ بلوارہ ، نینگا، برونی ، بیگوسرائے اس فن کو زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں، انہوں نے نقوش خوش خطی کے نام سے دو جزء میں کتاب مرتب کی ہے ، مشق کے لیے جگہ خالی چھوڑنے کے اعتبار سے یہ خوش خطی کی کاپی معلوم ہوتی ہے، یہ ایک میں تین (تھری ان ون) کے فارمولے پر مرتب کی گئی ہے ، اس میں اردو خوش خطی کے ساتھ ہندی اور انگریزی کی مشق بھی کی جا سکتی ہے ، پہلے جزء کے آخر میں روز مرہ استعمال کی دعائیں، اسلامی معلومات، مدرسہ مدینۃ العلوم کے دو ترانے اور علامہ اقبال کی بچوں کی دعائ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ اور ترانہ ہندی ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ وطالبات اسے آسانی سے یاد کر لیں، چونسٹھ صفحات پر مشتمل اس کاپی کی قیمت پنچانوے روپے کنوینٹ والوں کے لیے ممکن ہے مناسب ہو، لیکن مدارس کے طلبہ کے لیے انتہائی غیر مناسب ہے، پچاس فی صد کمیشن ملنے کے بعدبھی یہ گراں ہی محسوس ہوگی۔
نقوش خوش خطی حصہ دوم میں قیمت درج نہیں ہے ، ہر صفحہ کے سر ورق پر کوئی نہ کوئی دعا مذکور ہے،علی الترتیب دو حرفی ، سہ حرفی، الفاظ کی مشق کرائی گئی ہے ، دین کی بنیادی باتوں کو بھی درج کیا گیا ہے ، اسلامی اور انگریزی مہینوں کے ناموں سے بھی واقفیت بہم پہونچائی گئی ہے، عمومی معلومات بھی فراہم کرانے کی کوشش کی گئی ہے ، کتاب ہر طرح سے مفید مطلب ہے۔ البتہ جن صفحات پر الفاظ کے معنی درج کیے گیے ہیں، ان میں سے بعضے محل نظر ہیں، جیسے سٹ کے معنی میں سازش، بل کے معنی رقم، پُن کے معنی خیرات، لت کے معنی بُری عادت، جائے کے معنی بچہ، لَے کے معنی آواز، غار کے معنی کھائی، اُجلا کے معنی روشنی، شہرت کے معنی نام، آوارہ کے معنی آزاد، آزاد کے معنی آوارہ وغیرہ ،ا س قسم کے اور بھی الفاظ ہیں، جن کے صحیح معنی پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کتاب کے دونوں حصہ پر مفتی عین الحق امینی مہتمم مدرسہ عائشہ خاتوپور بیگوسرائے نے تاثرات لکھے ہیں، جس میں اس کتاب کے دونوں حصوں کو اردو سے قریب کرنے کی مثالی کوشش اور بہترین خدمت قرار دیا ہے، قاری شہاب الدین صاحب کے نام اوپر درج پتے سے کتاب طلب کی جا سکتی ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اردو کی مطبوعہ کتاب کے صفحات پر تھِن پیپر رکھ کر مشق کیجئے، مسلسل اس عمل کے نتیجے میں آپ کی تحریر خوش خط ہو سکتی ہے، استاذ تلاشنے کی بھی ضرورت نہیں،اس کو کہتے ہیں، ہلدی لگے نہ پھٹکری ، رنگ آئے چوکھا۔

منگل, نومبر 15, 2022

بڑا فائدہ سمجھ میں آیاہےہمایوں اقبال ندوی، ارریہ۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

بڑا فائدہ سمجھ میں آیاہے
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

جناب مفتی جمال الدین صاحب مظاہری کی دعوت پر باغ نگر گاؤں میں حاضری ہوئی ہے، موصوف" دارالمعارف اخوات المنور للبنات باغ نگر"کے بانی ومہتم ہیں، ماشاءاللہ یہ مدرسہ بچوں اور بچیوں سے بھرا پڑا ہےاور یہاں کی شدیدترین ضرورت ہے، باغ نگر شہر ارریہ سے دکھن سمت میں پندرہ کلومیٹرفاصلے پرواقع ہے،ندی کے کنارے آباد یہ گاؤں بہت خوبصورت ہے، زمین میں بڑی زرخیزی ہے، یہاں کی سبزیاں اور ترکاریاں ضلع ارریہ واطراف میں اپنی تازگی واچھائی میں مشہور بھی ہیں، گاؤں کے زیادہ لوگ کھیتی وکاشتکاری سے وابستہ ہیں، بڑے محنتی اورجفاکش ہیں،کھیتی باڑی پر زیادہ دھیان رکھنے والے ہیں اور وہاں تعلیم کی بڑی کمی ہے، دین کی بنیادی باتوں سےبھی ناواقف ہیں، 
بڑی خوشی کی بات ہے کہ مفتی جمال الدین صاحب مظاہری کو یہ فکر دامنگیر ہوگئی ہے، مفتی صاحب جہاں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ادارہ چلارہے ہیں، وہیں عام لوگوں میں بھی تعلیم کے تئیں بیداری پیدا کرنے کےلیےفکر مند ہیں،ہر مہینے اپنے ادارہ کے وسیع وعریض احاطہ میں دینی مجالس قائم کررہے ہیں، ایک مجلس مردوں کے لیے ہوتی ہے تو وہیں دوسری مجلس ہر مہینہ خواتین کے لیے خاص ہے،واقعی یہ بڑی بات ہے، میری معلومات کے مطابق ضلع ارریہ واطراف میں کہیں بھی اس طرح کی منظم کوشش نہیں ہورہی ہے،بالخصوص خواتین میں مفتی صاحب کا کام قابل تقلید اور لائق ستائش ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے،
 حدیث شریف میں یہ لکھا ہوا ہے ؛
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مرد حضرات ہی مستفید ہوا کرتے تھے، خواتین کو موقع کم ملتا تھا، اس بنا پر عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لیےخاص دن مقرر فرمایا جائے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست منظور کی اور ان کےوعظ وارشادکے لیے ایک خاص دن مقرر ہوگیا،(سیرت النبی جلد /۲ ص۱۴۰)

ناچیز کی حاضری مردوں کو مخاطب کرنے کے لیے ہوئی ہے، معلوم ہوا کہ اس سے قبل خواتین کی مجلس ہوچکی ہے، مفتی صاحب نے یہ بتایا کہ الحمد للہ اس کا بڑا فائدہ سمجھ میں آیا ہے،خواتین میں دینی معلومات کے حصول کی خاطربڑاذوق و شوق پیدا ہو گیا ہے،اورسماج میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے،ظہر کی نماز کے بعد دوگھنٹے تک خواتین کی دینی مجلس رہتی ہے، سوال وجواب کا بھی سیشن رکھا جاتا ہے، خواتین بے باکانہ انداز میں باری باری سوال کرتی ہیں، بہت سارے مسائل انہیں معلوم ہوتے ہیں، رسوم ورواج سے متعلق انمیں پھیلی بہت سی غلط فہمیاں دور ہورہی ہیں، یہ مجالس بہت ہی مفید ثابت ہورہی ہیں ۔نہ کوئی اشتہار ہے اورنہ کوئی اناؤنسنگ کی جاتی ہے،نہ چندہ اکٹھا کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جاتی ہے اور نہ کوئی کوپن چھپتا ہے،مفتی غفران حیدر صاحب مظاہری ناظم مدرسہ نور المعارف دیا گنج ارریہ مرد حضرات کو خطاب کرنے حاضر ہوجاتےہیں، ہر مہینہ کی دس تاریخ کو بعد نماز مغرب تا عشاء یہ مجلس رہتی ہے، خواتین کو خطاب کرنے کے لیےکسی ایک معلمہ کی خدمت لی جاتی ہے،مستورات کے لیے ہر مہینہ کی پچیس تاریخ کوبعد نماز ظہر دو گھنٹے کے لیےدینی مجلس منعقد کی جاتی ہے، سبھی مرد وخواتین حضرات کوپہلے سےہی اس کی جانکاری  ہے۔

ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، صحابہ کرام کے دو حلقے قائم تھے،ایک قرآن خوانی اور ذکر ودعا میں مشغول تھااور دوسرے حلقے میں علمی باتیں ہورہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں عمل خیر کررہے ہیں، لیکن خدا نے مجھ کو صرف معلم بناکر مبعوث کیا ہے، یہ کہ کر علمی حلقے میں بیٹھ گئے،(سیرت النبی ج/۲ص:۱۴۱)
مذکورہ بالا حدیث سے جہاں تعلیمی مجلس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے،وہیں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ تعلیمی مجلس کی افادیت تعلیمی اجلاس سے کہیں بڑھ کر ہے،یہ تعلیمی حلقے جہاں سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہوتا ہے، ہر آدمی کو سوال کرنے اور پوچھنے کی اجازت ہوتی ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، علماء کرام جو وارثین انبیاء ہیں، آج اسی طرز پر کام شروع کرتے ہیں تواس کے ذریعہ سماج ومعاشرہ میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، 
مجالس نبوی میں شریک ہونے والے بدو اور دیہاتی بھی ہوا کرتے تھے اور بےباکانہ انداز میں سوال وجواب کیا کرتے تھے، اس سے علم کا ایک دریا بھی رواں ہوگیا ہے۔
آج بڑے بڑے اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں،مگر فائدہ اور نتیجہ اس کا بڑا نہیں دکھ رہا ہے، تعلیمی بیداری کانفرنس سے بیداری نہیں پیدا ہورہی ہے،سیرت النبی کے اجلاس سے زندگی میں سنت رسول زندہ نہیں ہورہی ہے،عظیم الشان اجلاس عام کے نام ایک بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے اور مینا بازار لگ جاتا ہے،اسی بازار میں سنت وشریعت گم ہوجاتی ہے اور جلسہ کا مقصد بھیڑ کی نذر ہوجاتا ہے، کچھ صالح قسم کے مرد احباب وحضرات جو پنڈال کے اندر ہوتے ہیں، انہیں کچھ فائدہ پہونچ جاتا ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔جہاں تک خواتین کی بات ہے تو یہ بیچاری محروم ہی رہتی ہیں،اشتہارات میں یہ تو ضرور لکھا ہوا موجود ہوتا ہے کہ" مستورات کے لیے پردے کا معقول نظم ہے"مگر ایک الگ پنڈال بناکر حالات کے رحم وکرم پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے،اکثر مقررین حضرات کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی ہے کہ سامعین میں خواتین بھی ہیں،نہ انہیں خطاب کیا جاتا ہے اور نہ خواتین سے متعلق ضروری باتیں پیش کی جاتی ہیں۔ان حالات میں جناب مفتی جمال الدین صاحب مظاہری واقعی قابل مبارکباد ہیں، 
    میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا 
      میرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۱۴/نومبر ۲۰۲۲ء

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم میں یوم اطفال کے موقع پر تقریب کا انعقاد 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 14/نومبر (پریس ریلیز) 

مدرسہ ضیاء العلوم (زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن) پٹنہ میں واقع ایک خالص دینی ادارہ ہے، جہاں طلبہ وطالبات کثیر تعداد میں  علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہاں ابتدائی دینیات سے اعلیٰ تعلیم کا بھی بہترین نظم ونسق ہے، 
سابقہ روایت کی طرح 14/نومبر 2022 کو یوم اطفال کے موقع پر تقریب  کا انعقاد کیا گیا ،بچوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس تقریب میں پیش پیش رہے، ادارہ کی جانب سے بچوں کے درمیان بطور اعزاز اور حوصلہ افزائی کے لئے انعامات بھی تقسیم کئے گئے، اس موقع پر ادارہ کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم نے بچوں کو یوم اطفال کا تاریخی منظر سے آشنا کراتے ہوئے انہیں اپنی اچھی مستقبل کے لئے جہد مسلسل کرنے کی ترغیب دلائی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم یہ ملک کے مشہور ومعروف تنظیم ضیائے حق فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے زیر اہتمام چلنے والا ایک خالص دینی ادارہ ہے، اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے بھی غائبانہ طور پر تمام بچوں کو یوم اطفال کی مبارکبادی پیش کی ، آخر میں  محمد ضیاء العظیم قاسمی صاحب نے تمام بچوں کو دعا دیتے ہوئے اس تقریب کے اختتام کا اعلان کیا،

جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*مفتی محمد ثناء الہدی قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

*جھارکھنڈ اور امارت شرعیہ*
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

جھارکھنڈ کو ملک کے اٹھائیسویں  ریاست کی حیثیت سے15 نومبر 2000ء کو منظوری ملی تھی، اور بہار دو حصوں   میں   تقسیم ہو گیا تھا، جھارکھنڈ چوبیس اضلاع پر مشتمل ہے ، یہاں  کی کل آبادی 3,2988134 اور اس کا رقبہ 79714/کلو میٹر ہے، یہاں  مسلمانوں  کی کل آبادی4793994/اور ہندو نیز آدی باسی کی مجموعی آبادی 22376051 ہے، یہ اعداد وشمار 2011ء کے ہیں ، یہاں  کا آدی باسی سماج 47 مذہبی خانوں   میں   بٹا ہوا ہے،یہاں  کی دفتری سرکاری زبان ہندی ہے اور عوام مختلف بولیوں  کا استعمال کرتے ہیں ، جن  میں   ایک کھوٹّا بھی ہے، دو دہائی سے زیادہ مدت گذرنے کے بعد بھی اردو کو اس کا حق نہیں  مل سکا ہے، کہنے کو 2007 ء سے یہاں  کی دوسری سرکاری زبان اردو ہے،حکومت نے اس سلسلہ کا جو نوٹی فیکیشن جاری کیا اس کا نمبر  20/204-6807۔21 مورخہ 16/ اکتوبر 2007 ہے ۔  یہاں  اب تک نہ مدرسہ بورڈ قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اردو اکیڈمی وجود پذیر ہو سکی، وقف بورڈ بھی ایک سی او کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے ، غربت کی وجہ سے یہاں  تعلیم کا تناسب مجموعی آبادی کے اعتبار سے کم ہے، حالاں  کہ جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی  میں   عیسائی مشنریوں  کے بہت سارے ادارے قائم ہیں ، جو مسلم بچوں  کو دین وایمان اور اسلامی اقدار سے دور کرنے  میں   موَثر رول ادا کر رہے ہیں  ۔ جھارکھنڈ میں   آٹھ یونیورسیٹیاں  کام کر رہی ہیں  اور ایک ٹکنالوجی انسٹی چیوٹ بھی ہے ، یہاں کے آدی باسی اپنی تہذیب وثقافت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ، انہیں  خطرہ ہے کہ ہندو آبادی انہیں  اپنے  میں   ضم نہ کر لے، جھارکھنڈ  میں   قابل کاشت آراضی صرف اڑتیس لاکھ ہیکٹر ہے اور جنگلات 18423/ کیلو میٹر اسکوائر  میں   پھیلے ہوے ہیں ، جس کی وجہ سے یہاں  کے مناظر دلکش اور آب وہوا صحت کے لیے مفید ہے، جنگلات اور درختوں  کی فراوانی کی وجہ سے یہاں  فضائی آلودگی کم پائی جاتی ہے، جھارکھنڈ کی اسمبلی  میں   براسی(82)، راجیہ سبھا  میں   چھ(6) اور پارلیامنٹ کی چودہ (14)سیٹیں  ہیں ، جن  میں   مسلمانوں  کی نمائندگی انتہائی کم ہے ۔  جھارکھنڈ میں  پہلا اسمبلی انتخاب 2005ء  میں   ہوا تھا اور صرف دو ارکان اسمبلی جیت کر آئے تھے، 2009ء  میں   یہ تعداد پانچ تک پہونچی، لیکن 2014ء  میں   دوارکان نے جیت درج کرائی ،2020ء کے انتخاب  میں   چار مسلم ارکان اسمبلی پہونچ سکے، اور دو کو وزیر بننے کا موقع ملا، جن  میں   ایک سابق وزیر حسین انصاری صاحب مرحوم کے صاحب زادہ ہیں ،2011ء کی مردم شماری کے مطابق جھارکھنڈ  میں   مسلم آبادی کا تناسب کم از کم پندرہ فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا، جام تاڑا، صاحب گنج، پاکوڑ، لوہر دگا اور گریڈیہہ میں   مسلمانوں  کی کثیر آبادی ہے، صاحب گنج اورپاکوڑ  میں   مجموعی آبادی  میں   مسلمانوں  کا تناسب تیس فی صد ہے، دیو گھر ، گڈا ، جام تاڑا، لوہر دگا ، گریڈیہہ اور رانچی  میں   مسلمانوں  کی آبادی سرکاری اعداد وشمار کے اعتبار سے بیس فی صد ہے، اس کے باوجودجھارکھنڈ سے ایک ہی مسلم ممبر، پارلیامنٹ پہونچ پاتے ہیں ، اس معاملہ میں   فرقان انصاری ہمیشہ خوش قسمت ثابت ہوتے رہے تھے ، اس بار ان کا ستارہ بھی گردش  میں   آگیا اور پارلیامنٹ  میں   مسلم نمائندگی صفر ہو گئی ۔

معاشی اعتبار سے بھی مسلمان یہاں پسماندہ ہیں ، مسلمانوں میں روزگار کی شرح یہاں صرف 5ء43 فی صد اور خواتین میں 8ء 18فی صد ہے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کی غربت کی شرح 32 فیصد ہے جب کہ عام شہریوں میں 18 فیصد ہے ۔

امارت شرعیہ کے اکابر کی دور رس اور دور بیں نگاہوں نے جھارکھنڈ کے قیام بلکہ اس کی تحریک سے پہلے ہی جھارکھنڈ کے علاقہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، اور کءی ذیلی دفاتر انہیں علاقوں میں قائم کیے گئے1967 کے فساد میں راحت رسانی اور آباد کاری کا مثالی کام امارت شرعیہ نے کیا، جھارکھنڈ بننے کے بعد دارالقضاء کے کاموں کو مختلف اضلاع میں وسعت دی گئی ، وفود کے دورے کثرت سے ہونے لگے ، جھارکھنڈ کے قیام کے بعد ’’جھارکھنڈ کانفرنس 13/مئی 2001 کومشن گراوَنڈ رانچی میں کرکے امارت شرعیہ کے اغراض ومقاصد عوام تک پہونچانے کا کام کیا گیا اور مکاتب وغیرہ کے قیام کے ذریعہ بنیادی دینی تعلیم کے کام کو فروغ بخشا گیا،معلمین کی تربیت کے لیے کئی کیمپ لگائے ، او ر وفاق المدارس کا بین المدارس اجتماع مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھند میں کرایا گیا23ْجنوری 2011ء کو انجمن اسلامیہ ہال رانچی میں امیر شریعت سادس کی صدارت میں تعمیر انسانیت کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی تشریف فرما تھے،13مارچ 2016ء کو امیر شریعت  سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ کی صدارت میں دین ودستور بچاوَ کے عنوان سے عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کے ساتھ وانم مشرام وغیرہ نے بھی شرکت کی تھی، لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، اس کانفرنس نے دین ودستور بچانے کے سلسلے میں حساسیت پیدا کی ، اور اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوئے،جب کبھی جھارکھنڈ میں کوئی زمینی یا آسمانی آفت آئی، امارت شرعیہ نے متاثرین میں راحت رسانی اور باز آباد کاری کا کام کیا، لاک ڈاوَن کی پریشانی تو ابھی کل کی بات ہے ، امارت شرعیہ نے بڑے پیمانے پر غذائی اجناس کی فراہمی اور تکالیف دور کرنے کے لیے مسلسل منظم اور مربوط جد وجہد کی، علماء ، ائمہ جو پریشان حال تھے، اس موقع سے ان کا بھی خیال رکھا گیا، رانچی مقامی دفتر کے ذمہ دار اور قاضی شریعت مفتی محمد انور قاسمی نے حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت اور قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی کی نگرانی میں جو خدمات انجام دیں ، اس کی وجہ سے بعض تنظیموں کے ذریعہ امارت شرعیہ کو توصیفی سند سے نوازا گیا، امارت شرعیہ نے مسلمانوں میں تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے لیے ’’تعلیمی ہب‘‘ سے مشہور رانچی کے ہند پیڑھی محلہ میں کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر کرائی ،تاکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کا مضبوط اور مستحکم نظام قائم کیاجا سکے ۔

جھارکھنڈ میں ’’ عشرہ برائے ترغیب تعلیم وتحفط اردو‘‘ یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوا، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے قضاۃ اور کارکنان کے ذریعہ پورا عشرہ جھارکھنڈ کے چوبیس اضلاع میں بنیادی دینی تعلیم، عصری تعلیم کے اداروں کے قیام اور داخلی وخارجی سطح پر اردو کے فروغ وتحفظ کے لیے مہم چلائی گئی ، سبھی اضلاع میں کمیٹیاں بنائی گئیں اور کمیٹی کو ان تینوں امور پر عملی پیش رفت کا ہدف دیا گیا ۔

اس موقع سے حضرات علماء کرام نے جو پیغامات لوگوں کو دیے وہ بھی بہت قیمتی تھے ، انہوں نے کہا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے ملت کی ترقی کے لیے جو سہ نکاتی فارمولہ دیا ہے وہ کافی اہم ہیں ، اور ہندوستان میں ملت اسلامیہ اس وقت جن خطرات سے دو چار ہے اس کے دور کرنے کے لیے ماسٹر کی اور شاہ کلید کی(Master Key) حیثیت رکھتی ہے، یاد رکھنے کی بات ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے لیے سب سے پہلے جس جملے کا انتخاب اللہ رب العزت نے کیاوہ اقراء یعنی پڑھو ہے، تعلیم تمام برائیوں کو دور کرنے، ایمان پر جمنے اور اسلام پر ثابت قدم رکھنے کا الٰہی نسخہ ہے، تعلیم میں عصری علوم، جدید ٹکنالوجی وغیرہ سبھی کچھ شامل ہے، اس لیے  ہمیں ایک طرف دینی علوم حاصل کرنا ہے اور عصری تعلیمی محاذ پر بھی کام کرنا ہے، ہمارا بہت سارا علمی سرمایہ، ہماری تہذیب وثقافت کا بڑا حصہ اردو زبان سے متعلق ہے، اس لیے ہمیں تحفظ اردو کے سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے، اپنے گھروں اور کاموں میں اردوکا استعمال کرنا چاہیے اور عوامی سطح پر اسے مقبول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس دس روزہ ترغیب تعلیم وتحفظ اردو مہم سے عوام کی دلچسپی دیدنی تھی اور ان کا شوق وذوق مستقبل میں ان منصوبوں کو زمین پر اتارنے کا مزدہ سنا رہا تھا، کارواں چل پڑا ہے اور عزم یہ ہے کہ اب منزل پر ہی جا کر دم لیں گے ۔

اس عشرہ کے اختتام کے بعد 13،14 اور 15 مارچ کو جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں سہ روزہ پروگرام رکھا گیا تھا ، جس کے پہلے دن جھارکھنڈ کے ملی مسائل پر علماء ائمہ ودانشوروں کے ساتھ خصوصی مشاورتی اجتماع ہوا، دوسرے دن اس قسم کا اجتماع اردوکے تحفظ ، عوامی استعمال، تدریس سے متعلق مسائل پر ہوا جس میں پورے جھارکھنڈ کے اردو دوست حضرات شریک ہوءے اور ان کی قیمتی آرا کی روشنی میں آئندہ کے لیے لاءحہ عمل طے کیا گیا، 15 مارچ کو امارت پبلک اسکول کی سنگ بنیاد ہوجِر، ہلداما(اِربا) اوینا روڈ ضلع رانچی میں امیر شریعتِ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ نے رکھی تھی اور اس موقع سے بھی ایک اجلاس عام ہوا تھا، یہ اسکول اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی اقامتی درسگاہ کے طور پرجلد ہی کام کرنے لگے گا تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی  نے اپنے دور امارت میں جس کام کو  شروع کیا تھا،اور اس سلسلے کے دو اسکول جھارکھنڈ میں پہلے ہی قایم ہو چکے تھے ، ایک بن کھنجو گریڈیہہ میں اور دوسرا پسکا نگری ضلع رانچی میں ۔ اسے نو جودہ امیر شریعت تسلسل بخش رہے ہیں جلد ہی ہند پیڑھی رانچی میں ایک تعلیمی ادارہ کا آغاز بھی ہونے والا ہے،امارت کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرتِ مولانا احمد ولی فیصل رحما نی دامت برکاتہم  کے حکم سے مجلس شوریٰ کی میٹنگ ہو رہی ہے۔اس سے جھار کھنڈ میں ایک نیے دور کا انشاءاللہ آغاز ہوگا۔ خدمات او ربھی ہیں ، جس کی تفصیل پھر کبھی۔یار زندہ صحبت باقی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...