Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 26, 2022

مشکل حالات میں خوش رہنا سیکھئے ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مشکل حالات میں خوش رہنا سیکھئے ____

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢ 
 زندگی میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب آدمی پر خوشی یا غمی کا غلبہ ہوتا ہے ان دونوں موقع سے آدمی بے خود ہوجاتا ہے ، اپنے میں نہیں رہتا ، یہ انسانی سرشت ہے ، شریعت چاہتی ے کہ ان دونوں موقعوں سے بھی آدمی قابو میں رہے ، بے پناہ خوشی کے موقع سے وہ لہو ولعب میں مبتلا نہ ہو اور غم کی پُروائی اسے مایوسی میں مبتلا نہ کرے، اسے احساس رہے کہ معاملہ خوشی کا ہویا غمی کا، سب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں، وہ حکیم ہے، اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا، اللہ ایک معتدل زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ، اسی لیے وہ زیادہ ہنسنے کو منع کرتا ہے اور ہنسنے کے بجائے اللہ کے سامنے رونے کا حکم دیتا ہے ، کم ہنسو اور زیادہ روؤ ؛جو اعمال ہم کرتے ہیں، اس کا تقاضہ یہی ہے ، اسی طرح وہ نا امید ہونے کو بھی پسند نہیں کرتا اور بندے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ نا امید وہی ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ۔
 اس اعتدال، توازن کے ساتھ جب زندگی گذرتی ہے تو غم کے موقع سے بھی خوشی کا پہلو نکل آتا ہے، مثلا آپ کثیر العیال ہیں اور رزق کی تنگی کا سامنا ہے ، دن بھر محنت کرتے ہیں، کوئی آپ کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ یہ ساری پریشانی زیادہ بچوں کی وجہ سے ہے، اگر ہم دو بچوں کے باپ ہوتے تو شاید ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، پھر آپ سوچتے ہیں کہ میرے آنگن میں جو بچوں کی کلکاریاں اور گھروں میں روشنی ہے وہ ان بچوں کے ہی دم قدم سے ہے ، اگر یہ بچے نہ ہوتے توگھر کیسا ویران لگتا ، یہ پریشانی میں خوشی کی بات نکل آئی، یہ سوچ کر آپ کے ذہن ودماغ پر جو بوجھ تھا وہ اتر جائے گا ، آپ سوچیں گے کہ کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے ، یہ بچے اپنے ساتھ دو کمانے والا ہاتھ اور ایک سوچنے والا دماغ بھی لے کر آئے ہیں، یہ بڑے ہوں گے تواپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے ، میرا خیال رکھیں یا نہیں ، لیکن اپنی زندگی گذارنے کے وہ لائق ہوجائیں گے تو میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ، گھر میں آپ کی بیوی کو بھی ان بچوں کی وجہ سے دن بھر کام میں لگا رہنا پڑتا ہے، بچوں کے کپڑے دھونا ، اسکول جانے کے پہلے انہیں ناشتہ کھلا کر تیار کرنا، دن کا کھانا ساتھ کرنا ، اسکول سے لوٹیں تو پھر سے ان کاموں پر لگ جانا،جسمانی ، دماغی ہر طرح کی مشقت کا سامنا ہے ، لیکن اگر آپ کی بیوی عقل مند ہے تو اس میں اس کے لیے خوشی کا بھی پہلو ہے کہ وہ بچے اس کی ممتا کو تسکین دیتے ہیں اور عورت کو دنیاوی اعتبار سے اپنے جینے کا ایک مقصد سمجھ میں آتا ہے ، وہ ان بچوں کے لیے جیتی ہے اور ان کی ترقیات دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔
 کسی کا شوہر بہت خراٹے لیتا ہے ، وہ ان خراٹوں کی آواز سے رات بھر سو نہیں پاتی ہے ، اسے اس صورت حال سے پریشانی ہے ، لیکن وہ اس پریشانی میں خوشی کا پہلو ڈھونڈھتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ میرے شوہر میرے پاس رہتے ہیں اور ان کے خراٹے ہمیں ان کے پاس ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، وہ ہم سے دور ہوتے ، کہیں پر دیس میں رہتے تو میں کیسی تنہائی محسوس کرتی ، او زندگی کس قدر بے رس اور بے مزہ ہوتی، خراٹے ان کی زندگی کا ثبوت ہیںاور اس کا بھی کہ وہ میرے پاس موجود ہیں ۔
 آپ کی آمدنی محدود ہے اور ہر مہینے آپ کو بجلی ، پانی ، گیس وغیرہ کا بل جمع کرنا پڑتا ہے ،ا س کا بوجھ آپ کی جیب پر پڑتا ہے ، جو آپ کو ملول کرتا ہے ، لیکن خوشی کا یہ پہلو اس میں ہے کہ یہ چیزیں آپ کو مہیا ہیں، ذرا تصور کیجئے ایسی آبادی کا جہاں ابھی بجلی نہیں پہونچی ہے ، پانی کی سطح زیر زمین اس قدر نیچے چلی گئی ہو کہ آپ پینے کے پانی کے لیے پریشان ہو رہے ہیں، ایندھن کے لیے آپ پر یشان ہیں ، گیس نہیں مل رہا ہے ، ایسے میں آپ کی زندگی کس قدر دشوار ہوتی ، لیکن ان چیزوں کی سہولت نے آپ کی زندگی کو کس قدر خوشگوار بنا دیا ہے۔
 آپ کا لڑکا روز صبح اٹھ کر اپنی ماں سے جھگڑا کرتا ہے ، کہ مچھر اور کھٹمل نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا ، جھگڑا بُری چیز ہے ، اسے نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رات بھر گھر پر رہتا ہے ، آپ کے پڑوس میں رہ رہے نوجوانوں کی طرح آوارہ گردی نہیں کرتا ، وہ بُری صحبت میں مبتلا نہیں ہے ، وہ مچھر ، کھٹمل کے آزار بر داشت کرتا ہے ، لیکن رات گھر ہی میں گزارتا ہے ، ذرا سوچیے جو بچے رات رات بھر گھر سے باہر رہتے ہیں، ان کے گارجین کو کس قدر کلفت اٹھانی ہوتی ہے ، خود ان بچوں کی صحبت ایسے لوگوں سے ہوجاتی ہے جو بعد میں خاندان کے لیے ننگ وعار کا سبب ہوجاتا ہے ، کبھی کبھی وہ ان کا موں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو تھانے پولیس تک اسے پہونچا دیتا ہے اور آپ وکیلوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
 ایک آدمی ہوسپیٹل میں پڑا ہوا ہے ، یقینا یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے ، اسی درمیان اس کے گاؤں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ، گاؤں کے لوگ اس میں ماخوذ ہو گیے ، اور نئی ابتلا وآزمائش سے دو چار ہو ئے ، ایسے میں اس مریض کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ سوچے کہ ہمارا بستر مرض پر پڑا رہنا ہمارے لیے اچھا تھا ، اگر ہم بھی گاؤں میں ہوتے تو دوسروں کے ساتھ ہم بھی ملوث ہوجاتے اور ہمیں بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ، جس سے گاؤں کے لوگ جوجھ رہے ہیں۔
یہ اور اس قسم کی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جائیں گی جو غم ناک اور المناک موقعوں سے بھی آپ کے ذہن میں یک گونہ خوشی کا احساس جگائیں گی اور آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کے لیے اپنے کو تیار کر سکیں گے ، اللہ کے فیصلے پر راضی تو ہر حال میں ہونا اور رہنا ہے ، اس سے مفر نہیں، لیکن رضا کا ایک درجہ ہنسی خوشی ہے اور ایک بجبر واکراہ اور ظاہر ہے دونوں کا جو فرق ہے وہ ہر ایک پر واضح ہے ، خوش رہنے کے اس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نئے منصوبوں کے بنانے اور عملی پیش رفت کے لیے تیار رہتا ہے ،اس کے بر عکس جب  غم والم کی کیفیت ذہن ودماغ پر طاری ہو تو مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے اور مایوس انسان ڈپریشن اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے، مایوسی اور ڈپریشن کے ساتھ تعمیری کاموں کا نہ تو کوئی منصوبہ ذہن میں آتا ہے اور نہ ہی کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ انسان اپنے اندر پاتا ہے ،اس لیے خوش رہیے ، نہیں رہ پاتے تو خوش رہنا سیکھئے، با مقصد زندگی گذارنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے ۔ایک عربی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ جب مصائب تم پر شدید ہوں تو سورہ الم نشرح میں غور کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ عسر (پریشانی او رتنگی) دو آسانیوں کے درمیان ہے، یعنی کوئی پریشانی جو آتی ہے اس کے پہلے بھی آسانی کا دور گذرتا ہے اور بعد میں بھی آسانیاں آنے والی ہوتی ہیں، اس زاویے سے غور کرو گے توتمہیں خوشی ہوگی۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

جمعہ, نومبر 25, 2022

موربی سانحہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موربی سانحہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 موربی شہر گجرات کا ایک قدیم شہر ہے ، جس کے بیچوں بیچ ماچھوندی بہتی ہے، شہر کے مختلف علاقوںکو جوڑنے کے لیے اس ندی پر کئی پل ہیں، لیکن انگریزوں نے ۱۸۷۹ء میں ایک جھولتا ہوا پل بنایا تھا، جو ہندوستان کے اندرونی عجائبات میں سے ایک سمجھاجاتا ہے ، موربی شہر گھڑی اور چینی مٹی کے برتنوں کی صنعت کے لیے مشہور ہے ، لیکن سیاحوں کی دلکشی ودل چسپی کا بڑا ذریعہ یہ جھولا پل ہے، اس پر جانے کے لیے ٹکٹ لینا ہوتا ہے اور با ضابطہ اس کی نگرانی کی جاتی رہی ہے، سات آٹھ مہینہ سے یہ پل مرمت کی غرض سے عوام کے لیے بند رکھا گیا تھا، چھٹھ کے موقع سے بغیر فٹ نس کے اسے کھول دیا گیا ، ایک سو لوگوں کے بیک وقت اس پل سے گذرنے اور جھولا کے لطف لینے کی صلاحیت تھی، ٹکٹ چھ سو پچہتر(۶۷۵) افراد کوفروخت کر دیے گیے، صلاحیت سے زیادہ افراد کے پل پر چڑھ جانے کی وجہ سے یہ جھولا پل ٹوٹ گیا اور لوگ ندی میں جا گرے، کچھ دھارے میں بہہ گیے، ایک سو اکتالیس (۱۴۱) لوگ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق موت کی نیند سو گیے، بہت سارے زخمی حالت میں اسپتال میں داخل ہوئے، سترہ تو اب بھی زندگی کی جنگ اسپتال میں لڑ رہے ہیں، بقیہ کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے ۔اس موقع سے تین مسلمانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کو بچانے کا کام نہیں کیا ہوتا تو یہ تعداد اور بڑھ جاتی۔
 گجرات میں انتخابات ہونے ہیں اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے، اس لیے میڈیا والے اس سانحہ کے لیے پُل کے ٹھیکیدار اور ایجنسی کے بجائے عوام کو ہی مورد الزام ٹھہرانے لگے کہ یہ زیادہ کی تعداد میں پل پر گیے ہی کیوں، گویا مرنے والے پر ہی ہلاکت کا الزام ڈال دیا گیا ، اب کون شہادت پیش کرے اور کون منصفی کرے ۔
 الکٹرونک میڈیا جس قدر بھی لیپا پوتی کرے، حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ میں سارا قصور موبی نگر پالیکا کا ہے ، اس نے اس پل کی مرمت اور دیکھ ریکھ کا کام اور ریواکمپنی کو پندرہ سال کے لیے بغیر کسی ٹنڈر کے دے دیا ، یہ کمپنی گھڑی ، سی ایف ایل بلب اور مچھر بھگا نے والے کوائل بناتی ہے، سڑک اور پل کی مرمت اور نگرانی کا اس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے ، لیکن تعلقات بی جے پی کے بڑے لوگوں سے ہیں، اس لیے مقامی بلدیہ ، ضلع انتظامیہ ، گجرات حکومت اور مرکزی وزارت سیاحت اس بات پر متفق ہو گئی کہ تجربہ ہویا نہ ہو، ہمارا وفادار تو ہے ، وفاداری ہو تو صلاحیت بے معنی ہوجاتی ہے ، یہاں بھی یہی ہوا اور اور یوا کمپنی کے نام قرعۂ فال نکل آیا ، پھر کیا تھا مرمت کا کام جسے آٹھ مہینہ میں مکمل ہوناتھا پانچ ماہ میں ہی جیسے تیسے مرمت کرکے پُل کو کھول دیا گیا، کمپنی کو ٹکٹ سے روپے حاصل ہو گیے، لیکن ان کو کیا ملا، جن کا خاندان اس سانحہ سے گذرا ، حکومت نے دکھانے کے لیے اس کمپنی کے نوافراد کو گرفتار کر لیا، گاج ملازموں پر گری، کمپنی کے ڈائرکٹر اور پُل کے نگراں افسران اور کمپنی کے مالک جے سکھ پٹیل کو ایس ایف آئی آر سے الگ رکھا گیا ہے، وجہ ظاہر ہے ، ’’سیاں بھئے کوتوال، اب ڈر کا ہے کا‘‘گرفتار شدہ کمپنی کے ایک منیجر دیپک پاریکھ نے مقامی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سینئر سول جج ایم جے خان کے سامنے جب وہ اسباب کے درجہ میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا ، کہا کہ یہ بھگوان کی مرضی تھی، اس لیے اس واقعہ کو ٹالا نہیں جا سکتا تھا، یہ ہونی تھی جو ہو کر رہی، گذشتہ کچھ سالوں سے ملک کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ اپنی ہر کمی، خامی، کمزوری، غلطی حتی کہ جرم تک کو بھوان کی مرضی کہہ کر دامن بچالیا جاتا ہے، وزیر خزانہ بھی معاشی بدحالی کو ایکٹ آف گاڈ کہہ کر صاف بچ جاتی ہیں۔
 وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں گجرات میں ہی تھے، دو دن بعد منہہ بھرائی کے لیے موبی زخمیوں کو دیکھنے آئے، ہلاک شدگان کے وارثوں سے ملے، لیکن چالیس مسلمان جو اس حادثہ کی نظر ہوئے ان کے اقربا تک نہیں پہونچ پائے، ان کے موبی پہونچنے سے قبل بڑی عجلت میں اسپتال کی مرتب، رنگ وروغن اور تزئین کاری کا کام کیا گیا، مریضوں کے پاؤں پر نیا پلاسٹر چڑھاکر یہ بتایا گیا کہ بڑا خیال مریضوں کا رکھا جا رہا ہے ، اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد تحقیقات کے لیے ایک جانچ کمیٹی بھی بنا دی گئی اور ۱۴؍ نومبر کو مفاد عامہ کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کی حامی بھر لی ہے ۔
یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، جس نے پورے ملک کو سو گوار کر دیا ہے اور گجرات ماڈل کی پول کھول کر رکھ دی ہے، وزیر اعظم کے لیے البتہ یہ اطمینان کی بات ہوگی کہ ایک سو تینتالیس (۱۴۳) سال پرانا غلامی کایہ نشان خود ہی گر کر ختم ہو گیا، مودی جی کو اس نشان کو مٹانے کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑا، وزیر اعظم نے مغربی بنگال میں ۲۰۱۶ء میں ایک ، فلائی اوور کے گرنے پر کہا تھا کہ یہ ممتا حکومت کے گرنے کا ایشورکی جانب سے اشارہ ہے، کیا جھولاپُل کے اس طرح گرنے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے بلی چڑھنے میں اگلے انتخاب میں گجرات حکومت کے گرنے کا اشارہ تو نہیں ہے ۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

جمعرات, نومبر 24, 2022

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اشتعال انگیزی نہیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اشتعال انگیزی نہیں 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ہندوستان میں اس وقت نفرت کی مارکیٹنگ کی جا رہی ہے ، اور تکثیری سماج کے ذریعہ اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس نے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ سیکولرازم، رواداری اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی معنویت کھوتی جا رہی ہے، فرقہ پرست طاقتیں ہمیں نرم چارہ سمجھ رہی ہیں اور ہم ان سے بھائی چارگی کی توقع لیے بیٹھے ہیں، اس کے لیے ہم کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں، لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ہماری ساری کوششیں فرقہ پرستوں کی منافرت پھیلانے والی ترکیبوں اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں اور ہم نفرت کی اس تیز آندھی میں محبت کے لئے اپنے جلائے ہوئے چراغ کو بجھتا دیکھنے کے لیے مجبور ہیں۔
 ان حالات میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک سخت حکم آیاہے، فاضل ججوں نے دہلی، اتر پردیش اور اترا کھنڈ حکومت کو اپنے سخت ترین حکم میں کہا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات پر روک لگنی چاہیے اور اشتعال انگیزی کرنے والا کوئی ہو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، سپریم کورٹ نے پولیس کو بھی ہدایت دی ہے کہ وہ کسی کے ایف آئی آر درج کرانے کا انتظار نہ کرے، بلکہ اس کا از خود نوٹس لے کر کیس درج کرے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کر دیاہے کہ ایسے معاملات میں کارروائی کا نہ ہونا یا کارروائی میں ناکامی سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہوگا۔
ملک میں اشتعال انگیز بیانات اور نفرت آمیز تقریروں کے خلاف شاہین عبد اللہ نے سپریم کورٹ میں عرضی لگائی تھی، جس کی سماعت جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی دو نفری بینچ نے کی، دونوں ججوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’عدالت پر بنیادی حقوق کی حفاظت اور آئینی اقدار بالخصوص قانون کی حکمرانی اور ملک کے سیکولر جمہوری کردار کے تحفظ کا فرض عائد کیا گیا ہے‘‘۔ جسٹس رشی کیش نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس طرح کے بیانات ایک ایسے ملک کے لیے کافی چونکا دینے والے ہیں، جو مذہب کے سلسلے میں غیر جانبدار ہو،‘‘ جب کہ جسٹس کے ایم جوزف کا احساس تھا کہ ’’اکیسویں صدی میں جب ہندوستان کو سیکولر اور روادار معاشرہ کے طور پر سامنے آنا چاہیے مذہب کے نام پر سماجی تانے بانے کو تباہ کیا جا رہا ہے، ہم نے ایشور کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اس کے نام پر جھگڑے اور فسادات ہو رہے ہیں۔‘‘
 یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ، جب سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنا یا ہے، اس کے قبل ہماچل پردیش کے دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس سی ٹی روی کمار نے اپریل میں جاری اپنے ایک فیصلے میں اس قسم کی تقریر پر روک لگانے کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ ۱۰؍ اکتوبر کو چیف جسٹس یویو للت اور جسٹس ایس روندر بھٹ کی بینچ نے صاف طور پر کہا تھا کہ نفرت انگیز بیانات کے سلسلے کو روکنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے، جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی اسی بینچ نے گذشتہ ستمبر میں سرکار سے دریافت کیا تھا کہ مرکزی حکومت اس کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہے، اور لاء کمیشن نے ۲۰۱۷ء میں جو ہدایت دی تھی کہ ہیٹ اسپیچ کی تعریف متعین کی جائے، اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ لیکن سرکار پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ یہ سرکارہی گونگی، بہری ہے۔
 دیر سے ہی سہی ، عدالت کا موجودہ حکم اب تک کے فیصلوں میں سب سے سخت ہے، اگر یہ فیصلہ پہلے آیا ہو تا تو گڑگاؤں کی مسجد کو شر پسندوں کے حملے سے بچایا جا سکتا تھا، دھرم سنسد، وشوہندو پریشد کے اجتماعات اور ہندویووا واہنی کے پروگرام میں اشتعال انگیزی نہیں ہوتی تو ، دہلی فساد کو روکا جا سکتا تھا، اگر حکومت اس معاملہ میں سخت ہوتی تو مسلمانوں کے معاشی وتجارتی بائیکاٹ کا بر ملا اعلان کرنے والے رکن پارلیامنٹ پر ویش ورما اور اتر پردیش کے رکن اسمبلی نند کشور گوجر آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے، پر دیش ورما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کا دماغ ٹھیک کرنا ہے تو ان کا مکمل بائیکاٹ کردو، نہ خرید وفروخت کرو اور نہ مزدور دو۔
اس نفرت انگیز اور شرمناک بیان کا حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا، جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گیے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، عالمی سطح پر اس طریقہ کار کی وجہ سے ہندوستان کو بد نامی اور خفت کا سامنا کرنا پڑا، اب بھی وقت ہے کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کرکے ہندوستان سے نفرت کی فضا کو ختم کیا جا ئے تاکہ، اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بحال ہو سکے۔
خود کشی کے بڑھتے واقعات 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسائل کی بہتات، پریشانیوں کی کثرت ، مایوسی کے غلبہ ، خاندانی جھگڑے، نفسیاتی تناؤ، عشق ومحبت میں ناکامی کی وجہ سے انسان پر مایوسی کی ایسی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے کہ وہ زندگی کو ہی اپنے لیے بوجھ سمجھنے لگتا ہے، اسے لگتا ہے کہ اس روئے زمین پر اس کا وجود بے کار اور فضول ہے، اسلامی افکار واقدار سے د ور ہونے کی وجہ سے اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ زندگی ہماری نہیں ہے، اللہ کی دی ہوئی ہمارے پاس امانت ہے، نہ ہمارا جسم ہمارا ہے اور نہ ہماری روح ہماری ہے، جب یہ چیزہماری ہے ہی نہیں تو ہم اس کو کس طرح خود سے ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں،موت تو جس طرح آئے بر وقت ہی آتی ہے، لیکن اس وقت کا علم ہمیں نہیں ہے اورہمیں موت کو قریب کرنے والے اعمال سے گریز کی تعلیم دی گئی ہے اور اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے ۔
 لیکن اس بات کو سمجھنے والے دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، اور ڈپریشن کے نتیجے میں وہ خود کشی جیسا بزدلانہ عمل کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ ہندوستانی قانون کے اعتبار سے یہ قابل مؤاخذہ جرم ہے، لیکن یہ مواخذہ بچ جانے کی شکل میں ہی ہو سکتا ہے، ایک پولیس والے کی یہ بات سچی لگی کہ رسی بھی آپ کی ہو اور گلہ بھی آپ کا، تو بھی ہم پھندہ لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
 ابھی حال میں این سی بی آر ۲۰۲۲ء کی رپورٹ سامنے آئی ہے، جس کے مطابق ۲۰۲۱ء میں ایک لاکھ چونسٹھ (۶۴۰۰۰) ہزار سے زیادہ لوگوں نے خود کشی کرکے اپنی زندگی ختم کر لی، ان میں انتیس لاکھ مرد ، پینتالیس ہزار چھبیس(۴۵۰۲۶) عورتیں، اٹھائیس(۲۸) ، تیسری جنس (ٹرانس جنڈر) تھی، یہ تعداد ۲۰۲۰ء کے مقابلہ ۴ء ۷ فی صد زیادہ ہے۔
 یہ بات اچھی ہے کہ بہار میں خود کشی کے واقعات پورے ہندوستان سے کم ۷ء ۰ ؍ فی صد ہیں، جب کہ پورے دیش میں خود کشی کا اوسط بارہ فی صد ہے، پٹنہ میں ۷ء ۴۲؍ فی صد خود کشی کیواقعات میں کمی آئی ہے، ۲۰۲۱ء میں بہار میں آٹھ سو ستائیس (۸۲۷)لوگوں نے خود کشی کی تھی، ۲۰۲۰ء میں یہ تعداد آٹھ سو نو(۸۰۹) تھی۔
 خود کشی کے واقعات کو روکنے میں دوست احباب اور خاندان کا بڑا اہم رول ہے، ایسے لوگ جو ڈپریشن کے شکار ہیں، انہیں الگ تھلگ نہ رہنے دیں، ان کی جذباتیت کو کم کرنے کی کوشش کریں، انہیں یقین دلائیں کہ تمہاری زندگی تمہارے پاس خداکی امانت ہے،ا س کی من پسند چیزوں کو فراہمی اور ڈپریشن کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش اسے زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹا سکتی ہے، اور جیسے ہی اسے یقین ہو گا کہ زندگی بڑی خوبصورت ہے وہ خود کشی جیسے انتہائی قدم سے باز آجائے گا۔

بدھ, نومبر 23, 2022

ہر سطح پر تعلیم وتربیت کی ضرورتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہر سطح پر تعلیم وتربیت کی ضرورت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
تعلیم کے حوالے سے انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو مذہبی ضرورت ہے، جس کا ایک سرااس دنیا سے اور دوسرا آخرت سے جڑا ہوا ہے، یہ تعلیم دنیوی سعادت اور اخروی نجات کے لیے ضروری ہے، اسی لیے اس تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ، جسے اصطلاح میں بنیادی دینی تعلیم کہتے ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سر کار کے رائٹ ٹو ایجوکیشن (تعلیم کے حق) سے الگ ایک چیز ہے، جب ہم حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے لزوم کا پتہ نہیں چلتا ، کیونکہ اپنے حق سے دست برداری کو سماج میں بُرا نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ اگر اس کا تعلق مالی حقوق سے ہو اور کوئی اس سے دست بردار ہوجائے تو اسے ایثار قرار دیا جاتا ہے، یہی حال ان تمام حقوق کا ہے جس کے نتیجے میں آدمی اپنا فائدہ چھوڑ کر دوسرے کو مستفیض ہونے کا موقع عنایت کرتا ہے، لیکن فرض وہ چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے، اور اگر کوئی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو وہ باز پرس، دار وگیر اور سزا کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا ، یعنی اس میں کوتاہی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، جبکہ حقوق کے حصول میں کوتاہی سزا کا موجب نہیں ہوا کرتا ۔یہ الگ بات ہے کہ بچے کے بجائے تنبیہ اور داروگیر گارجین کی ، کی جائیگی،کیونکہ بچوں کی طرف احکام متوجہ نہیں ہوتے۔تعلیم کے اس مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے بچہ کو کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں سے جوڑ دیا جائے، انہیں زری کے کارخانوں اور ہوٹلوں سے اٹھاکر مکتب ، مدرسہ اور اسکول کی میز وچٹائی پر بیٹھا لا جائے تا کہ ان کی بنیادی دینی تعلیم سلیقے سے ہوسکے اور ان کا بچپنہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ پورے ہندوستان میں پھیلے مکاتب ومدارس الحمد للہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
دوسرے علوم وہ ہیں جن کی ضرورت ہمیں اپنی زندگی بسر کرنے میں پڑتی ہے، اور چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس لیے ان علوم کو اس درجہ میں تو نہیں رکھا جا سکتا کہ سب کے اوپر اس کا حصول فرض قرار دیا جائے ، لیکن سماجی اور تمدنی ضرورت کے اعتبار سے مہذب سماج کی تشکیل ، عمرانی ضروریات اور زندگی برتنے کے فن کی واقفیت کے لئے الگ الگ علوم وفنون میں مہارت بھی ضروری ہے ، ہمیں رہنے کے لیے گھر چاہیے؛ اس گھر کا نقشہ بنانے کے لئے اچھے انجینئر کی ضرورت ہے ، بغیر انجینئرنگ میں مہارت کے ہم اس کام کو سلیقے سے نہیں کرسکتے، یہ سلیقگی مکتبی تعلیم سے اوپر اٹھ کر جدید عصری اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس کے لیے مسلمانوں کو انجینئرنگ کالج کھولنے بھی چاہیے اور اپنے بچوں کو اس شعبے میں تیار بھی کرنا چاہیے ، کیونکہ آج یہ معاشی استحکام کا بڑا ذریعہ ہے اور پوری دنیا میں سول اور میکینکل انجینئرنگ کی مانگ بہت زیادہ ہے، اس میدان میں آگے بڑھنے کا سیدھا مطلب اعلیٰ تعلیم میں مہارت کے ساتھ مسلمانوں کے افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنا ہے۔
اسی طرح ہماری صحت کا مسئلہ ہے ، یہ ایک جسمانی ضرورت ہے ، اس کے لئے ہمارے پاس اچھے ڈاکٹر ہونے چاہیے ، جو ہماری بیماریوں کا علاج کر سکیں، میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہمارے پاس میڈیکل کالج بھی ہونے چاہیے اور اچھے اسپتال بھی ، دو چار مسلمانوں کے میڈیکل کالج اور دس بیس اسپتال، آبادی کی ضرورت کو پوری نہیں کر پاتے ، یقینا اسپتال کا کام انسانی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مریض اور اسپتال کے منتظمین کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس علاقے اورکس مذہب کا ہے، لیکن اسپتال بڑی تعداد میں ہوں گے تو مریضوں کو سہولت ہوگی اور کم خرچ میں علاج کے حصول کے لیے بھی سوچنا ممکن ہوگا ، یہی حال دیگر سائنسی علوم میں مہارت کا ہے، ہمارے بچے ابتدائی تعلیم سے ثانوی تک جاتے جاتے گھر بیٹھنے اور معاشی وسائل کے حصول کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کم ہے، اس لیے ہماری حصہ داری اوپر میں کم ہوتی جا رہی ہے، آئی، اس ، آئی پی اس، میں نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے، سیاسی گلیاروں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آزادی کے بعد ہم مسلسل کم ہو رہے ہیں، ہمارے یہاں لیاقتوں کی کمی نہیں ہے ، کمی فکر مندی ، منصوبہ بندی اور اس حوصلے کی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا کرتا ہے، یہ مہمیز کرنے والی قوت الگ ہونی چاہیے ، اس کے لیے ادارے، تنظیمیں ، جماعتیں، جمیعتیں اور سماج کے مختلف طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے، آج سوشل سائٹس پر ملی قائدین کے خلاف سب وستم ، گالی گلوج اور بُرا بھلا کہنے کی مہم زوروں پر ہے ، اس بُرا بھلا کہنے والوں سے پوچھیے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ تو جواب ہو گا صرف تنقید، جو لوگ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی توانا ئی صرف کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی انرجی اور توانائی ملی مسائل کے حل، تعلیمی بیداری اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو اٹھانے پر صرف کریں تو اس سے ملت کو بے پناہ فائدہ پہونچے گا ، کام آگے بڑھے گا ، اس کے بر عکس ملی قائدین کو بُرا بھلا کہنے سے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو تا ہے، اور جو صاحب تنقید کی بساط بچھائے ہوتے ہیں ان کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی نہیں اس لیے ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے، ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے ، یونیورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے ، شرعی حدود وقیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے ، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان کی تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز ، ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور مؤثر ہے لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور اردو کا بڑا سرمایہ ان کی پہونچ سے باہر ہے، ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب ہے، یہ ایک ثقافت اور کلچر ہے، اردو زبان سے نابلد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک تہذیب اور ثقافت وکلچر سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب ، مذہب اور ثقافت سے ہمارا رشتہ منقطع نہ ہو ، ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض تعلیم کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا ، انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا ، سائنس داں مہلک ہتھیاروں کو بناتے وقت اس سے بچاؤ کی تدبیروں پر بھی ریسرچ کرے گا ، سیاست داں، ابن الوقتی ، خود غرضی ، مفاد پرستی سے اونچا اٹھکر بد عنوانی سے پاک سماج بنانے اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے، غرض تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اتنہائی ضروری ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی فراہمی کے لیے ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اداروں کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیاری طلبہ یہیں سے فراہم ہو سکتے ہیں، اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کے بعد ملک وملت کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں، ان اداروں میں تربیتی نظام کو اعلیٰ پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں سے فاغ ہونے والے صرف ڈاکٹر انجیئر سیاست داں، دانشور نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنی خدمات کے ذریعہ فرد سے لے کر سماج کے مختلف طبقات کو فائدہ پہونچا سکے۔
ایک بڑا مسئلہ حصول تعلیم میں گراں قدر اخراجات کا ہے، مسلمانوں کی معاشی حالت عمومی طور پر ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم کی انڈسٹری سے مطلوبہ علوم حاصل کر سکیں، اس کے لیے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں سے ہمیں طلبہ کو واقف کرانا چاہیے، جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے بچے تعلیم کو جاری رکھ سکیں، اور تعلیم چھوڑنے کے تناسب میں کمی آسکے، میرا خیال ہے کہ تھوڑی سی چوکسی اور مختلف تنظیموں کی طر ف سے تھوڑی معلومات کی فراہمی سے ہم اس پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ضرورت ہے عزم وارادہ کی، عزم کمزور ہو اور ارادہ متزلزل تو مالی
 مشکلات  راستے میں حائل ہوجائیں گی اور ان کو عبور کرنا آسان نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اپنے جوانوں میں، طالب علموں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ تم ساری رکاوٹوں دشواریوں اور مشکلات کے باوجود بہت کچھ کر سکتے ہو بقول شاعر 
ع۔ چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
 ایک بڑا کام یہ بھی کرنے کا ہے کہ جو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے معیاری تعلیم کا نظم کیا جائے، ادارہ جس سطح کا ہو اور جس طرح کا بھی ، وہاں سے ہمارے فارغین اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مکمل ہوں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دور مقابلوں کا  ہے، معیار کا ہے، کوالیٹی نہیں رہے گی تو ہم کمیپٹیشن کے اس دور میں بچھڑتے چلے جائیں گے ، ہم جس معیار کی بات کرتے ہیں، وہ ہمارے مقابل سے کئی گنا آگے ہو، اس لیے کہ بحالی والا قلم جن کے ہاتھ میں ہے، وہ عام حالات میں ہم تک پہونچتے پہونچتے شل ہو جاتا ہے اور ہمارے طلبہ کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں ہیوی اکسٹرا صلاحیت کے ساتھ میدان میں اتر نا ہوگا، میں بات صلاحیت کی کر رہا ہوں، صرف نمبرات کی نہیں ، نمبرات کے باوجود کاغذات کے اس ٹکڑے کے پیچھے علمی صلاحیت کا فقدان ہو توہمیں کوئی آگے نہیں بڑھا سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہے، علم کے میدان میں ، تحقیق کے میدان میں، تجربات کے میدان میں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک وملت کا مفید حصہ بننا ہے، یہ ایک تحریک ہے، یہ مہم ہے اس تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے کے لئے سب کو آگے آنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...