Powered By Blogger

پیر, نومبر 28, 2022

گورنروں کی رسہ کشی ___مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

گورنروں کی رسہ کشی ___
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
 آئین میں منتخب ریاستی حکومت کے اوپر قانونی سر براہ گورنر کو قرار دیا گیا ہے، یہ اصلامرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے، ریاست میں حکومت کسی پارٹی کی ہو، گورنر مرکزی حکومت کے مشورے کا پا بند اور اس کے منصوبوں کے مطابق ریاستی حکومت سے کام کروانا چاہتا ہے، اب اگر ریاست ومرکز میں الگ الگ پارٹی کی حکومت ہو تو گورنر اور ریاستی وزراء اعلیٰ کے درمیان اختلاف، رسہ کشی اورٹکراؤ ناگزیر ہو جاتا ہے، دونوں الگ الگ سمت میں ریاست کو لے جانا چاہتے ہیں اورجب انجن ڈبل ہو اور وہ گاڑی کو مخالف سمتوں میں کھینچ رہے ہوں تو کیا حشر ہوگا، آپ خود سمجھ سکتے ہیں، ریاست کی بد حالی اور ترقی کی رفتار میں رکاوٹ کا یہ بڑا سبب ہے، اس ٹکراؤ کی وجہ سے ترقیاتی کام رک جاتے ہیں اور ان کاموں کو روکنے کے لیے منتخب جمہوری حکومت کے خلاف گورنر سد راہ ہوجاتا ہے او رظاہر ہے جب رکاوٹ آئینی عہدہ دار کی طرف سے ہو تو اسے دور کرنا آسان نہیں ہوتا، کانگریس کے عہد حکومت میں اس قسم کے ٹکراؤ کی نوبت عموما نہیں آتی تھی اور آجاتی تو بھی اخلاقی اقدار کا خیال رکھا جاتا تھا، تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا تھا اور اختلاف کی ایک سر حد تسلیم کی جاتی تھی، جس سے آگے بڑھنا عہدے اور وقار کے منافی سمجھا جاتا تھا۔
 مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد یہ اقدار باقی نہیں رہے، گورنر سے ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے کا کام لیا جانے لگا یا ان کی بے لگام زبان فرقہ پرستوں کی ترجمان بن گئی، اڈیشہ اور میگھالیہ کے سابق گورنر کا یہ بیان تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے، آئینی عہدہ پر بیٹھے ہوئے ملکی آئین کے خلاف اس قسم کا بیان گورنر کے عہدے اور وقار کے خلاف ہے، بھگت سنگھ کو شیاری کا یہ کارنامہ بھی آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کے اشارے پر راتوں رات صدر راج ختم کرنے کی سفارش کی اور پھر صبح صادق کے وقت دیو رفرز نو یس کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلا دیا، اسمبلی میں ان کی اکثریت نہیں تھی اس لئے معاملہ ”بیٹھے بھی نہیں تھے کہ نکالے گئے“ جیسا ہوگیا اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا، کانگریس، این سی پی اور شیو سینا کی مہااگھاڑی کی حکومت قائم ہوئی اور کچھ دن کے بعد گورنر کی ہی مدد سے ایکناتھ شنڈے کی سرکار مہاراشٹر میں بن گئی، ان تمام اُتھل پتھل، ادل، بدل، میں گورنر کے رول سے جمہوریت پسند عوام کو سخت صدمہ ہوا۔
 ابھی کچھ دن قبل ہی کی بات ہے کہ مغربی بنگال کا گورنر ہاؤس سبزی منڈی بن گیا تھا، وہاں کے گورنر جگدیپ دھنکڑے ہر دن منتخب حکومت کو دھمکیاں دینے لگے تھے، اعلیٰ افسران کو طلب کرکے باز پرس کرنا ان کا روز کا معمول بن گیا تھا، ایک بار تو انہوں نے اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں خطبہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا، بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا جا سکا، ان امور کا ان کو آئینی اختیار نہیں تھا، لیکن دھنکڑے اپنے حدود واختیار سے تجاوز کرنے لگے تھے، بالآخر ممتا بنرجی کو پریشان کرنے کا انعام انہیں نائب صدر جمہوریہ بنا کر دیا گیا۔
 جھارکھنڈ کے گورنر نے تو وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی اسمبلی کی رکنیت کوہی خطرے میں ڈال دیا تھا، وہاں بی جے پی نے کانگریس ارکان اسمبلی کی خریداری کا کام بھی شروع کر دیا تھا؛تاکہ حکومت گرا دی جائے، ہیمنت سورین نے بڑی جرأت کے ساتھ اسمبلی میں تحریک اعتماد لاکر اس سلسلے کو ختم کرایا، لیکن اب بھی گورنر صاحب کا کہنا ہے کہ جھارکھنڈ میں ایٹم بم کا دھماکہ ہوگا۔
 تازہ رسہ کشی کیرل کے گورنر عارف محمد خان نے شروع کر رکھی ہے، انہوں نے کیرل کی تمام یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلر کو یک قلم برخواست کر دیا، معاملہ ہائی کورٹ گیا اور کیرل ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کی تعمیل پر روک لگا دی، عارف محمد خان کے نزدیک مشہورمؤرخ ڈاکٹر عرفان حبیب مجرم ہیں، انہیں مسلمانوں کے ”اللہ حافظ“ کہنے پر بھی اعتراض ہے، بہت سارے اخبار اور چینل کے لیے انہوں نے اپنے دروازے پر نو انٹری، ممنوع الدخول کا بورڈ لگا رکھا ہے، وہ آر ایس ایس کے منظور نظر ہیں، وہ خود بھی تین دہائی قبل سے ہی آر ایس ایس سے اپنے تعلقات کا اقرار کرتے ہیں، تعلقات کی اس مدت کو وہ کم کرکے دکھاتے ہیں، کیوں کہ آر ایس ایس کے لیے کام کرنا تو انہوں نے نفقہ مطلقہ کے وقت سے ہی شروع کر دیا تھا، ان کی پارلیامنٹ میں نفقہ مطلقہ سے متعلق اسلام مخالف تقریر کو اب تک لوگ نہیں بھولے ہیں، مشہور یہی ہے کہ عوام کاحافظہ کمزور ہوتاہے، لیکن اب اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ پینتیس چالیس سال قبل کی دھواں دھار تقریر بھی ذہن سے محو ہوجائے۔
 گورنر وں کا یہ طرز عمل اور ان کی مداخلت (Governoritis)  ہماری جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے، یہ غیر دستوری، غیر جمہوری اور غیر آئینی بھی ہے، کیوں کہ گورنر کا دائرہ کار آئین میں مذکور ہے اور اس دائرہ سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت کسی پارٹی سے متعلق گورنر کو نہیں دی جا سکتی۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اتوار, نومبر 27, 2022

مولانا نظام الدین اصلاحیؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا نظام الدین اصلاحیؒ
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ممتاز عالم دین، مشہور ملی رہنما، مدھیہ پردیش اور گجرات کے سابق امیر حلقہ ، استاذ الاساتذہ جامعۃ الفلاح بلیریا گنج اعظم گڑھ کے سابق شیخ التفسیر وصدر المدرسین، مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈعلی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کورٹ کے سابق رکن ، بہترین خطیب، عمدہ منتظم مولانا محمد نظام الدین اصلاحی کا اِیرا میڈیکل کالج اسپتال لکھنؤ میں ۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۲ء مطابق ۲۸؍ صفر ۱۴۴۴ھ بروز اتوار بوقت صبح انتقال ہو گیا، تدفین آبائی قبرستان چاند پٹی اعظم گڈھ میں ہوئی، پس ماندگان میں دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں، وہ مولانا ابو اللیث اصلاحی کے چچا زاد بھائی تھے۔
 مولانا نظام الدین اصلاحی کی ولادت اعظم گڈھ ضلع کے مشہور گاؤں چاند پٹی میں کوئی پنچانوے سال قبل ہوئی، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد ۱۹۴۱ء میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڈھ میں داخل ہوئے، ۱۹۴۸ء میں وہیں سے سند فراغ حاصل کیا، مولانا امین احسن اصلاحی (م۱۹۹۷) کے وہ آخری شاگرد زندہ بچ گیے تھے، انہیں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر قرآن فہمی میں کمال پیدا کیا اور اس کے لیے دو سال تخصص فی القرآن میں لگایا، مدرسۃ الاصلاح میں ان کے اساتذہ میں مولانا اختر احسن (م ۹؍ اکتوبر ۱۹۵۸) اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی، اور مولانا ابو اللیث اصلاحی (آمد ۱۵؍ فروری ۱۹۱۳، رفت: ۵؍ دسمبر ۱۹۹۳کا بھی نام قابل ذکر ہے۔
 ۱۹۵۰ء میں فراغت کے فورا بعد مولانا اختر حسن اصلاحی کی ایماء پر مدرسۃ الاصلاح میں ہی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ ۱۹۶۰ء میں مدرسہ کے صدر المدرسین کے عہدہ پر پہونچے، لیکن ۱۹۶۱ء میں بعض نا گزیر وجوہات کی وجہ سے مدرسۃ الاصلاح کو الوداع کہہ دیا، زندگی کے دس سال امیر جماعت اسلامی مدھیہ پردیش کی خدمت کرتے ہوئے گذاری، ایمرجنسی کے دور میں زندان میں بھی رہے، آخر عمر میں راشٹریہ علماء کونسل سے منسلک ہونے کی وجہ سے ان کا تعلق تنظیمی اعتبار سے جماعت اسلامی سے ختم ہو گیا۔ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۱۹ء تک جامعہ الفلاح بلیریا گنج میں استاذ تفسیر اور صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے طلاقت لسانی سے نوازا تھا، قرآن واحادیث سے مزین ان کی تقریریں کافی مؤثر ہوا کرتی تھیں، حالات کے صحیح اور سیاسی تجزیے میں انہیں مہارت حاصل تھی، وہ مطالعہ کے انتہائی شوقین تھے، کتابوں سے شغف تھا، اس لیے ان کے علم میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی ، وہ حاصل مطالعہ لکھنے کے عادی تھے، ایسے کئی رجسٹر ان کے پاس تھے، جن کی حیثیت علمی خزانے کی، مختلف رسائل میں ان کے مضامین اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ اقامت دین کے موضوع پر ان کی ایک کتاب شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہے، تقریر وخطابت کے بعد مولانا کی شہرت استاذ کی حیثیت سے تھی،ان کا درس کافی مقبول تھا۔ مزاجا وہ خوش اخلاق بلند اطوار اور بڑے رجائیت پسند تھے، محی الدین غازی کے بقول لوگ رات کے بڑھتے ہوئے اندھیروں کا شکوہ کرتے اور وہ طلوع آفتاب کی نہیں؛بلکہ ظہور آفتاب کی نوید سناتے۔ ان کی اس رجائیت پسندی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی انہیں خوش و خرم رکھا، جیل میں رہتے ہوئے جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ وہ جیل کی زندگی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، ان کی کسی بات سے نہیں لگتا تھا کہ وہ قید وبند کی صعوبتوں سے نا خوش یا رنجیدہ ہیں، ان کے اس طرز عمل سے نوجوانوں میں حوصلہ، جوش ، جذبہ، بہادری اور جرأت کی صفت پیدا ہوتی تھی، البتہ وہ نو جوانوں کو جذباتیت سے بچنے کی تلقین کرتے تھے، پنچانوے سال کی عمر میں بھی وہ نوجوانوں کی طرح چست اور متحرک تھے۔
مولانا ملت کے ہمدرد، دین کے معاملہ میں مخلص اور بٹلہ ہاؤس ان کاؤنٹر کے بعد سیاسی سر گرمیوں میں پُر جوش ہو گیے تھے، مگر سیاست نے انہیں اپنوں خصوصا جماعت اسلامی سے دور کر دیا ، گو وہ آخر تک اپنے کو جماعت اسلامی ہی سے منسلک قرار دیتے رہے، لیکن یہ اقرار یک طرفہ ہی تھا، مولانا کو مداہنت نہیں آتی تھی، اور کہنا چاہیے کہ وہ علم وفضل ، صلاح وتقویٰ خود داری وجرأت میں اپنے عہد کے ممتاز ترین لوگوں میں تھے، ایسے انسان کا اٹھ جانا عظیم علمی، ملی، دعوتی سانحہ ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

ہفتہ, نومبر 26, 2022

آبرو ئےقلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی زیدت حسناتہم

آبرو ئےقلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی زیدت حسناتہم 

اردو دنیا نیوز ٧٢
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ  ،مدیر ہفت روزہ نقیب اورصدر وفاق المدارس اسلامیہ بہار آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب ہند وپاک کے ایک کہنہ مشق اور مقبول عام خواص نثر نگار ہیں ،بلکہ سچ پوچھئے تووہ نثر میں "شاعری" کرتے ہیں ، ان کی زبان بھی سادہ ششتہ اور قلم بھی شگفتہ و برجستہ ہے ،وہ دیکھنے میں بھی یادگار اسلاف ہیں اور قلم کی جولانی بھی جدید قالب میں قدیم عنصر کو دلچسپ پیرائے میں نمایاں کرتی ہے ،وہ  اپنی عادت کے اعتبار سے اصلاحی ،دینی ،تعلیمی ،تحقیقی یا سیرت وسوانح جس پہلو پرخامہ فرسائی کرتے ہیں، اس کا حق اداکرتے ہیں عام طور پر مضمون چھوٹا ہو یا بڑا ،وہ طویل مقدمہ وتمہید نگاری سے قاری کو بور نہیں کرتے ،وہ کم لفظوں میں پس منظر بیان کرتے ہیں یا کبھی نفس مضمون پر ہی بات شروع کر دیتے ہیں اور سیدھی سیدھی بات کہہ کر اپنے قارئین کو نفس مسئلہ سے فیض یاب کرتے ہیں ،ان کا مضمون سادہ ہوتا ہے ،وہ "قاف لام "کے نہ آدمی ہیں اور نہ بے وجہ قاف لام یا "لیکن چنانچہ" کوپسند کرتے ہیں، وہ اپنی تحریروں کو عربی فارسی زدہ عبارتوں سے بوجھل کئے بغیر روز مرہ کی زبان میں صاف صاف لکھتے ہیں ، لکھنے پڑھنے کے آدمی ہیں ،اس لئے خشک موضوع کو بھی قابل استفادہ اور دلچسپ بناکر پیش کرنے کا ہنر وفن ان کے پاس ہے ، بے نفس ہیں  ، مگر کام وکردار میں دراز نفس ،مسلسل سوچنا اور سوچ کر برتنا ان کی دیگر صفتوں میں ایک ممتاز صفت ہے ،ماضی قریب کے اکابرین سے گہرے مراسم کی بنیاد ان کا مضبوط علم و قلم اور صلاحیت وصالحیت رہی ہے ،کمال کی بات یہ ہے کہ باتوں کو پیش کرنے میں وہ زبان و قلم پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ،یعنی ان کے لطائف علمیہ پر جس طرح سامع ،مسکراتے ہیں اور لذت کام و دہن محسوس کرتے ہیں ،بعینہ ان کی تحریرات کو پڑھ کر بھی قارئین ویسے ہی عش عش کر سامان تسلی پاتے ہیں ۔
میرے احساس میں یہ پہلے خوش نصیب صاحب قلم مولوی ہیں ،جن کی دانشوری کو مروج حلقہ ادب و دانشوری میں قبولیت عطا کی گئی ہے ،ورنہ کم لفظوں کی کہانی لکھنے والے کتنے مولوی آئے گئے . بہار کی سطح پراردو اوراہل اردو ادب کی مجالس میں اکثران کا عکس نظر آجاتا ہے یا ملک و بیرون ملک شائع ہونے والے اردو رسالوں میں ان کے مضامین کو خصوصیت سے جگہ ملتی ہے۔
 ابھی حال میں جواں سال قلم کار جناب مولانا عبد الرحیم برہولیاوی  نے مفتی صاحب کے شخص ونقش کو موضوع بناکر " مفتی صاحب شعراء کی نظر میں "ترتیب دیا ہے ،جس میں تقریبا اکتیس شعراء نے ان کے قلمی وادبی فکر وفن کو تسلیم کیا ہے اور برجستہ کلام پیش کر مفتی صاحب کے رنگ وآہنگ قلم کو سامنے لانے کی حوصلہ افزاء خدمت کی ہے۔
اسی طرح مفتی صاحب نے اپنی" آدھی ملاقات " میں جس طرح سے مختلف جہتوں سے قلمی سرمائے کو تحفظ فراہم کیا ہے وہ بالیقین نئی نسل کے لئے آئینہ ہے ،کتاب ہاتھ میں لیجئے تو مانو سبھوں سے "پوری ملاقات" ہوگئی ۔
ان کے اصلاحی مضامین کا مجموعہ "حرف حرف زندگی" پر ایک سرسری نظر ڈال جائیے تو لگے کا کہ میرے ذاتی احوال و سوالات کو سامنے رکھ کر ایک نشست میں انہوں نے یہ کتاب ترتیب دی ہے ،چھوٹے چھوٹے مضامین جو زندگی کی گرہیں کھولتی نظر آتی ہیں ، یہ کتاب بھی ایسی ہے کہ تکیہ کے برابر میں سرہانے رکھ کر سوجائیے تاکہ صبح کو پہلی نظر "باتیں جس سے زندگی سنورتی ہیں" پر پڑ سکے۔
میرے سامنے" یادوں کے چراغ" کی چوتھی جلد ہے ،کتاب میں ہاتھ لگانے کے بعد بہت سے ضروری کام بھی آگے پیچھے ہوجاتے ہیں ،چوں کہ دوران مطالعہ بعض ایسی محبوب ومطلوب شخصیتوں کی جہتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں ،جن سے کبھی دید وشنید گرچہ نہ سہی  ،مگر جب ان شخصیتوں پر پہلی مرتبہ کوئی لکھے اور محبت کے قلم سے لکھے تو بغیر پڑھے کون ہے جو آگے بڑھ جائے ،اس کتاب میں بھی ان کا سحر آفریں قلم ،قاری کو  اپنا اسیر بناکر چھوڑتا ہے ، کتاب میں مذکورکسی بھی شخصیت کا خاکہ پڑھ جائیے ،محسوس ہوگا کہ سامنے ان سے باتیں ہورہی ہیں ۔سچ ہی کہا گیا ہےکہ


"یہ رتبہ بلند  ملاجس کو مل گیا"

مفتی صاحب میں کودنے پھاند نے کا نہ ذوق ہے اور نہ اس کا احساس، وہ سبک روی مگر نشان منزل پر  مسلسل چلتے رہنے کے قائل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ صغر سنی میں سال سمئے کے بعد جو انہوں نے چلنا شروع کیا ہے تو بس چلے جارہے ہیں ،اور شاید انہیں یقین ہے کہ 

گر تجھے منزل تک پہنچنا ہے تو چل پاؤں پہ اپنے 
کب تلک کوئی راستہ ہموار کرے گا  
اسی لئے ان کے پاس مکتبی کی زندگی کے علمی و قلمی نمونے "آثار قدیمہ"  کی شکل میں آج بھی محفوظ ہیں ، بچپن سےانہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کون خود سے چل رہا ہے اور کون بیساکھی کے سہارے عروج پارہا ہے ،انہیں اپنے دم قدم پر  کل بھی بھروسہ تھا اور آج بھی ہے اور درست بات یہ ہے کہ ان جیسی نمونہ صفت شخصیتوں کو  رہنا بھی چاہئے ۔اسی تسلسل وتحمل کا نتیجہ ہے کہ وہ جہاں ،جس شعبہ میں بھی ہیں ،جن ذمہ داریوں کے مکلف ہیں ،ان امور مفوضہ کو وہ پورے سولہ آنہ سرانجام  دینے کے جذبے سے محنت کرتے ہیں ۔ زندگی کے شب وروز میں متنوع خدمات کے ساتھ ساتھ اب تک  مطبوعہ غیر مطبوعہ اصلاحی ،دعوتی ، فکر ی ،سماجی ،تعلیمی اور قرآن وحدیث پر مشتمل درسی غیردرسی پچاس سے زائد کتابیں ان کے گہر بار قلم سے منصہ شہود پر آ چکی ہیں ۔
گذشتہ دنوں  6/نومبر 2022 کو امارت شرعیہ پٹنہ کے المعہد العالی میں منعقد مدارس اسلامیہ کنونشن کے موقع پر ان سے ملاقاتیں ہوئیں، کئی ایک کتابیں انہوں نے ازراہ شفقت واستفادہ اس عاجز کو عنایت کیں فجزاکم اللہ خیرا ۔
حضرت مفتی صاحب کو میرے ان کوتاہ قد جملوں سے نہ دلچسپی نہ توقع ،یہ اس عاجز کا ذاتی احساس ہے جو بے ربط طریقے سے الفاظ کی شکل لیتا چلا گیا، ورنہ بہت سے آسمانوں نے انہیں قریب سے سمجھا پرکھا اور برتا اوران پر اچھا لکھا بھی ہے ،وہ انسانی صلہ سے بے پرواہ مگر رب کائنات کے صلے کا محتاج اور آرزو مند رہ کرامارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جیسے تاریخی ادارے میں صبر و شکر کے ساتھ برسوں سےعلم ودین اورانسانیت کی خدمت  کررہے ہیں!
اللہ رب العزت انہیں صحت وعافیت کے زیر اثرلانبی عمر بخشے کہ وہ اس وقت آبروئے قلم ہیں نیز! آوروں میں " وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی "

عین الحق امینی قاسمی
نائب صدرجمعیۃ علماء بیگوسرائے۔

26/11/2022

مشکل حالات میں خوش رہنا سیکھئے ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مشکل حالات میں خوش رہنا سیکھئے ____

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢ 
 زندگی میں بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جب آدمی پر خوشی یا غمی کا غلبہ ہوتا ہے ان دونوں موقع سے آدمی بے خود ہوجاتا ہے ، اپنے میں نہیں رہتا ، یہ انسانی سرشت ہے ، شریعت چاہتی ے کہ ان دونوں موقعوں سے بھی آدمی قابو میں رہے ، بے پناہ خوشی کے موقع سے وہ لہو ولعب میں مبتلا نہ ہو اور غم کی پُروائی اسے مایوسی میں مبتلا نہ کرے، اسے احساس رہے کہ معاملہ خوشی کا ہویا غمی کا، سب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں، وہ حکیم ہے، اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا، اللہ ایک معتدل زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ، اسی لیے وہ زیادہ ہنسنے کو منع کرتا ہے اور ہنسنے کے بجائے اللہ کے سامنے رونے کا حکم دیتا ہے ، کم ہنسو اور زیادہ روؤ ؛جو اعمال ہم کرتے ہیں، اس کا تقاضہ یہی ہے ، اسی طرح وہ نا امید ہونے کو بھی پسند نہیں کرتا اور بندے کو حکم دیتا ہے کہ اسے اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ نا امید وہی ہوتے ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے ۔
 اس اعتدال، توازن کے ساتھ جب زندگی گذرتی ہے تو غم کے موقع سے بھی خوشی کا پہلو نکل آتا ہے، مثلا آپ کثیر العیال ہیں اور رزق کی تنگی کا سامنا ہے ، دن بھر محنت کرتے ہیں، کوئی آپ کے کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ یہ ساری پریشانی زیادہ بچوں کی وجہ سے ہے، اگر ہم دو بچوں کے باپ ہوتے تو شاید ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا، پھر آپ سوچتے ہیں کہ میرے آنگن میں جو بچوں کی کلکاریاں اور گھروں میں روشنی ہے وہ ان بچوں کے ہی دم قدم سے ہے ، اگر یہ بچے نہ ہوتے توگھر کیسا ویران لگتا ، یہ پریشانی میں خوشی کی بات نکل آئی، یہ سوچ کر آپ کے ذہن ودماغ پر جو بوجھ تھا وہ اتر جائے گا ، آپ سوچیں گے کہ کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے ، یہ بچے اپنے ساتھ دو کمانے والا ہاتھ اور ایک سوچنے والا دماغ بھی لے کر آئے ہیں، یہ بڑے ہوں گے تواپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے ، میرا خیال رکھیں یا نہیں ، لیکن اپنی زندگی گذارنے کے وہ لائق ہوجائیں گے تو میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ، گھر میں آپ کی بیوی کو بھی ان بچوں کی وجہ سے دن بھر کام میں لگا رہنا پڑتا ہے، بچوں کے کپڑے دھونا ، اسکول جانے کے پہلے انہیں ناشتہ کھلا کر تیار کرنا، دن کا کھانا ساتھ کرنا ، اسکول سے لوٹیں تو پھر سے ان کاموں پر لگ جانا،جسمانی ، دماغی ہر طرح کی مشقت کا سامنا ہے ، لیکن اگر آپ کی بیوی عقل مند ہے تو اس میں اس کے لیے خوشی کا بھی پہلو ہے کہ وہ بچے اس کی ممتا کو تسکین دیتے ہیں اور عورت کو دنیاوی اعتبار سے اپنے جینے کا ایک مقصد سمجھ میں آتا ہے ، وہ ان بچوں کے لیے جیتی ہے اور ان کی ترقیات دیکھ کر خوش ہوتی ہے ۔
 کسی کا شوہر بہت خراٹے لیتا ہے ، وہ ان خراٹوں کی آواز سے رات بھر سو نہیں پاتی ہے ، اسے اس صورت حال سے پریشانی ہے ، لیکن وہ اس پریشانی میں خوشی کا پہلو ڈھونڈھتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بات ہے کہ میرے شوہر میرے پاس رہتے ہیں اور ان کے خراٹے ہمیں ان کے پاس ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، وہ ہم سے دور ہوتے ، کہیں پر دیس میں رہتے تو میں کیسی تنہائی محسوس کرتی ، او زندگی کس قدر بے رس اور بے مزہ ہوتی، خراٹے ان کی زندگی کا ثبوت ہیںاور اس کا بھی کہ وہ میرے پاس موجود ہیں ۔
 آپ کی آمدنی محدود ہے اور ہر مہینے آپ کو بجلی ، پانی ، گیس وغیرہ کا بل جمع کرنا پڑتا ہے ،ا س کا بوجھ آپ کی جیب پر پڑتا ہے ، جو آپ کو ملول کرتا ہے ، لیکن خوشی کا یہ پہلو اس میں ہے کہ یہ چیزیں آپ کو مہیا ہیں، ذرا تصور کیجئے ایسی آبادی کا جہاں ابھی بجلی نہیں پہونچی ہے ، پانی کی سطح زیر زمین اس قدر نیچے چلی گئی ہو کہ آپ پینے کے پانی کے لیے پریشان ہو رہے ہیں، ایندھن کے لیے آپ پر یشان ہیں ، گیس نہیں مل رہا ہے ، ایسے میں آپ کی زندگی کس قدر دشوار ہوتی ، لیکن ان چیزوں کی سہولت نے آپ کی زندگی کو کس قدر خوشگوار بنا دیا ہے۔
 آپ کا لڑکا روز صبح اٹھ کر اپنی ماں سے جھگڑا کرتا ہے ، کہ مچھر اور کھٹمل نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا ، جھگڑا بُری چیز ہے ، اسے نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ رات بھر گھر پر رہتا ہے ، آپ کے پڑوس میں رہ رہے نوجوانوں کی طرح آوارہ گردی نہیں کرتا ، وہ بُری صحبت میں مبتلا نہیں ہے ، وہ مچھر ، کھٹمل کے آزار بر داشت کرتا ہے ، لیکن رات گھر ہی میں گزارتا ہے ، ذرا سوچیے جو بچے رات رات بھر گھر سے باہر رہتے ہیں، ان کے گارجین کو کس قدر کلفت اٹھانی ہوتی ہے ، خود ان بچوں کی صحبت ایسے لوگوں سے ہوجاتی ہے جو بعد میں خاندان کے لیے ننگ وعار کا سبب ہوجاتا ہے ، کبھی کبھی وہ ان کا موں میں مبتلا ہوجاتا ہے جو تھانے پولیس تک اسے پہونچا دیتا ہے اور آپ وکیلوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
 ایک آدمی ہوسپیٹل میں پڑا ہوا ہے ، یقینا یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے ، اسی درمیان اس کے گاؤں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آگیا ، گاؤں کے لوگ اس میں ماخوذ ہو گیے ، اور نئی ابتلا وآزمائش سے دو چار ہو ئے ، ایسے میں اس مریض کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ سوچے کہ ہمارا بستر مرض پر پڑا رہنا ہمارے لیے اچھا تھا ، اگر ہم بھی گاؤں میں ہوتے تو دوسروں کے ساتھ ہم بھی ملوث ہوجاتے اور ہمیں بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ، جس سے گاؤں کے لوگ جوجھ رہے ہیں۔
یہ اور اس قسم کی بہت ساری مثالیں آپ کو مل جائیں گی جو غم ناک اور المناک موقعوں سے بھی آپ کے ذہن میں یک گونہ خوشی کا احساس جگائیں گی اور آپ اللہ کے فیصلے پر راضی ہونے کے لیے اپنے کو تیار کر سکیں گے ، اللہ کے فیصلے پر راضی تو ہر حال میں ہونا اور رہنا ہے ، اس سے مفر نہیں، لیکن رضا کا ایک درجہ ہنسی خوشی ہے اور ایک بجبر واکراہ اور ظاہر ہے دونوں کا جو فرق ہے وہ ہر ایک پر واضح ہے ، خوش رہنے کے اس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نئے منصوبوں کے بنانے اور عملی پیش رفت کے لیے تیار رہتا ہے ،اس کے بر عکس جب  غم والم کی کیفیت ذہن ودماغ پر طاری ہو تو مایوسی کا غلبہ ہوتا ہے اور مایوس انسان ڈپریشن اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے، مایوسی اور ڈپریشن کے ساتھ تعمیری کاموں کا نہ تو کوئی منصوبہ ذہن میں آتا ہے اور نہ ہی کام کو آگے بڑھانے کا حوصلہ انسان اپنے اندر پاتا ہے ،اس لیے خوش رہیے ، نہیں رہ پاتے تو خوش رہنا سیکھئے، با مقصد زندگی گذارنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے ۔ایک عربی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ جب مصائب تم پر شدید ہوں تو سورہ الم نشرح میں غور کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ عسر (پریشانی او رتنگی) دو آسانیوں کے درمیان ہے، یعنی کوئی پریشانی جو آتی ہے اس کے پہلے بھی آسانی کا دور گذرتا ہے اور بعد میں بھی آسانیاں آنے والی ہوتی ہیں، اس زاویے سے غور کرو گے توتمہیں خوشی ہوگی۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...