Powered By Blogger

جمعہ, دسمبر 02, 2022

بُلڈوزر کا استعمال غیر قانونی؟ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بُلڈوزر کا استعمال غیر قانونی؟  
اردو دنیا نیوز
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
گذشتہ چند سالوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بغیر ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے، یہ کام اس کثرت سے کیا جا رہا ہے کہ کئی لوگ اسے بلڈوزر کلچر کا نام دیتے ہیں، گھروں کا انہدام یہ سزا ہے اور سزا کا اختیار ہندوستان میں صرف عدلیہ کو ہے، پولیس محکمہ کو نہیں، اس لیے کہ پولس اگر بغیر سنوائی کے سزا دینے لگے تو یہ ظلم کے مترادف ہوگا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے ، اس کے علاوہ پولیس کے ذریعہ کی گئی کارروائی کے بعد عدالت کے فیصلے کا کوئی معنی مطلب نہیں رہ جائے گا، عدالت دو بارہ مکان تعمیر کا فیصلہ سنا دے تو بھی حکمراں اسے قانونی داؤ پیچ میں پھنسا کر فیصلہ کی تنفیذ نہیں ہونے دیتے ، افسران جواز کے لیے دو ر دراز کے حیلے تلاش کرتے رہتے ہیں اور عوام پر خوف ودہشت کا جو اثر ہوتا ہے وہ الگ ہے، اس سے آدمی نفسیاتی طور پر کمزور ہوجاتا ہے ۔
 ایسا ہی ایک معاملہ آسام میں پیش آیا ، ایک تھانہ کو آگ لگانے کے الزام میں پولیس نے پانچ ملزمین کے گھر کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا، گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیا اور حکومت کے اس طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے اور جواب طلب کیا کہ آخر بلڈوزر کی یہ کارروائی کس قانون کے تحت کی گئی ہے، چیف جسٹس آر ایم چھاپا نے حکومت کے وکیل کو کوئی ایسا فوجداری قانون دکھانے کو کہا جس کے تحت بغیر اجازت کے کسی کا گھر منہدم کر دیا جائے، چیف جسٹس نے بہت سخت لہجہ میں حکومت کے کارندوں کو بتایا کہ آپ ایس پی ہو سکتے ہیں، لیکن آپ کے کام کا دائرہ اور طریقہ کار قانون کے دائرہ سے باہر نہیں ہے، اگر اسی طرح کارروائی کی جاتی رہی تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، جب وکیل نے بتایا کہ سرچ وارنٹ کی اجازت لی گئی تھی تو جج صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے محدود مدت کار میں ایسا کوئی معاملہ نہیں سنا ، جس میں سرچ وارنٹ کی اجازت لے کر گھر منہدم کر دیاجائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کو یہ واضح کر نا چاہیے کہ یہ گینگ وار ہے یا پولیس کی کارروائی؟چیف جسٹس کے اس تبصرہ کی حیثیت محض تبصرہ ہی کی ہے، لیکن اندازہ لگتا ہے کہ پولیس کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی کو کم از کم گوہاٹی ہائی کورٹ غیر قانونی سمجھتی ہے۔
 یقینا جن لوگوں نے سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر مکانات بنا رکھے ہیں یا کسی جرم میں ان کے مکان کو منہدم کرنا ضروری ہے تو حکومت یہ کام کر واسکتی ہے، لیکن ہندوستانی قانون کی رو سے اسے ملزمین کے خلاف مقدمہ کرنا چاہیے، ان لوگوں کو بھی مدعیٰ علیہ بنانا چاہیے، جن کی موجودگی میں غیر قانونی تعمیرات کا کام انجام پایا، عدالت میں اس کی سماعت ہو اور جب عدالت فیصلہ کر دے تو اس پر عمل کیا جائے یہ طریقہ جمہوری بھی ہے اورقانونی طور پر صحیح بھی، اب جب کہ گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں اپنی رائے دیدی ہے تو اس کوقانونی حیثیت دے کر عوام کو بلڈوزر کا رروائی کی وحشت اور دہشت سے نجات دلوانی چاہیے۔

ظلم عظیم __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ظلم عظیم  __اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
قرآن کریم میں اللہ رب ا لعزت نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا ، بقیہ جس گناہ کو وہ چاہے گا معاف کر دے گا ، شرک ہے کیا ؟ شرک اللہ کی ذات وصفات میں دوسرے کو شریک کرنا ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے جبین نیاز جھکانا ہے اور قادر مطلق کے علاوہ کسی اور کو کارساز حقیقی ماننا ہے، صوفیاء کرام کے یہاں کسی چیز کی نسبت ظاہری اسباب کی طرف کرنا بھی شرک خفی ہے، مثلا پیٹ میں تکلیف ہو رہی ہے تو یہ کہنا کہ کچی روٹی کھانے کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے، ان کے نزدیک توحید کے منافی ہے، کیوں کہ تکلیف بھی اللہ دیتا ہے اور دور بھی وہی کرتا ہے، دوائیاں اسباب کے درجہ میں بیماری دور کرنے کے لیے کھائی جاتی ہیں، لیکن ہم دوا کو شفا دینے والا نہیں کہہ سکتے ، شفا دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے، اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔
 یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرک کو ظلم عظیم کیوں کہا گیا ؟ وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت بڑا غیور ہے، جب اس کی کٹ گیری اور گروپ کا دوسرا کوئی نہیں ہے تو بھلا دوسرے گروپ کے کسی کو خواہ وہ جیسا ہو ، اللہ کے ساتھ کس طرح شریک کیا جا سکتا ہے، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا جسم دوسرے گروپ کے خون تک قبول کرنے کو تیار نہیں ، اگر بغیر گروپ ملائے کسی کا خون جسم میں داخل کیا گیا تو آدمی کی جا ن جا سکتی ہے۔
 اللہ کہتے ہیں کہ اس کائنات میں دوہی گروپ ہے، ایک گروپ اللہ کا ہے، جو بے نیاز ہے، جسے کسی چیز کی حاجت نہیں، وہ نہ تو کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ سوتا ہے، نہ اسے ہوا کی ضرورت ہے اور نہ ہی حیات کی بقا کے لیے کسی اور چیز کی ،و ہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، مستغنی ہے، بقیہ ساری دنیا کے لوگ فقیر ہیں، محتاج ہیں، ضرورت مند ہیں، اور ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے خالق کائنات کے دست نگر ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے (انسانوں کی طرح ) کسی کو پیدا کیا اور اس کا ہم سر کوئی نہیں۔
 جب اس کا ہم سر کوئی نہیں، گروپ کا کوئی نہیں، تو شرکت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، اور جس طرح بغیر گروپ ملائے مریض کو خون چڑھا دیا جائے تو مریض کے مرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے تو ایمان مر جاتا ہے، اس لیے اللہ اس جرم کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
اللہ کی غیرت کے سامنے انسانوں کی حیثیت ہی کیا ہے، آپ کا چمڑا آپ کے بچے کو راس نہیں آتا ہے، آپریشن ہوتا ہے اور زخم جلد بھرنے کے لیے الگ سے چمڑہ لگا نے کی ضرورت ہوتی ہے ، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ مریض کے جسم کے دوسرے حصے سے چمڑہ کاٹ کر زخم پر لگایا جاتا ہے، اب کوئی باپ ڈاکٹر سے یہ کہے کہ میرے بچے کو تو ایک زخم پہلے ہی ہے، دوسرا زخم اس کو مت لگاؤ ، چمڑے کی ضرورت ہے تو میرے جسم کا چمڑہ لے لو ، توڈاکٹر کہے گا کہ تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ ، تمہارا چمڑہ تمہارے لڑکا کا جسم قبول نہیں کرے گا ، اس لیے اسے دوسرا زخم لگانا ہی ہوگا، تاکہ پہلا زخم جلد بھر جائے ، حالاں کہ دونوں کا ’’ڈی ان اے‘‘ ایک ہے اور سائنسی اعتبار سے ’’جینٹک‘‘ بھی ایک دوسرے کا مماثل ہے، لیکن اس کے با وجود چمڑہ دوسرے کے جسم کا کوئی جسم قبول نہیں کرتا۔
 ایک مثال اور لیں، گردہ تبدیل کرنا ہو اور کوئی دوسرا آدمی گردہ عطیہ کرنے کو تیار ہو تو کیا بغیر خلیات اور ٹیشوز ملائے گردہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں، اس لیے کہ اگر ٹشوز اور خلیات نہیں ملے تو دوسرا گردہ بھی جسم میں جا کر معطل ہو جائے گا، اور بہت ممکن ہے کہ انفکشن کی وجہ سے جان کے لالے پڑ جائیں۔
جب ہمارا یہ حال ہے تو بھلا خدا کی غیرت کا کیا پوچھنا ، اس لیے ہر وقت اور ہر سطح پر یہ خیال رہنا چاہیے کہ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے، اس کا گروپ بندوں کے گروپ سے بالکل الگ تھلگ ہے، جس میں کوئی دوسرا شریک ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے شرک جلی اور خفی دونوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، نہ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا چاہیے اور نہ ہی اللہ کی صفات میں ، اس لیے کہ اللہ جب تک نہ چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا ، کار ساز مطلق وہی ہے جو ہماری ضرورت کی تکمیل کے لیے کافی ہے، جس نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور اس حقیقت کو پا لیا ، اس کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی ہے اور جس نے اللہ کے علاوہ کسی کو حقیقی کار ساز سمجھا وہ دنیا وآخرت دونوں میں خسارے میں ہوگا۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

جمعرات, دسمبر 01, 2022

مبصر : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پھلواری شریف پٹنہ

نام کتاب: انبساط  (شعری مجموعہ)
اردو دنیا نیوز ٧٢
مصنف :                   نذر فاطمی 

 صفحات :               (170)

سالِ اشاعت:             2022 
                         
قیمت                       300
                    
  ناشر/پبلشر:               براڑسنز ،مالیر کوٹلہ پنجاب 

ملنے کا پتہ :                 فلیٹ نمبر 201 النور مینشن، ہارون نگر پھلواری شریف پٹنہ، 
بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ۔
رضا کمپیوٹر، پھلواری شریف پٹنہ ۔
درد دہلوی، جوگابائ اکٹینشن، اوکھلا نئی دہلی 

مبصر :     محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پھلواری شریف پٹنہ 

شاعری نام ہے وسیع وعریض کائنات میں پھیلے تجربات مشاہدات  اور قلب و ذہن   کے احساسات وجذبات کو خوبصورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا۔ شاعر کو وہ بصیرت وبصارت، تصورات وتخیلات عطا کیا گیا ہے جس سے وہ ان کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر بہت حساس، دور اندیش، حکیم، اور فلسفی ذہن کا مالک ہوتا ہے ۔
نذر فاطمی بھی اسی دل اسی شخصیت کے مالک ہیں ۔ شاعری ان کے لیے وسیلۂ اظہار اور علامت بن گئ ہے۔نذر فاطمیَ کا پہلا شعری مجموعہ ممکنات 2018 میں شائع ہوا ۔ یہ دوسرا شعری مجموعہ انبساط محکمہ کابینہ سکریٹریٹ اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ (بہار) کے جزوی مالی تعاون سے شائع کردہ حمد، نعت، اور غزلیات پر مشتمل کتاب ہے، اس سے ان کا فن اور شخصیت  مزید ابھر کر سامنے آئی ہے، ان کی شاعری پڑھیں تو  بڑے سادے الفاظ میں سادگی کے ساتھ عمدہ خیالات،  خوبصورت تخیلات وتصورات کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔جبکہ گہرائی سے جائزہ لیں تو ان میں  فکری گہرائی وگیرائ  مستحکم ارادے، اور حالاتِ حاضرہ کے تحت احوال کا مشاہدہ ہوتا ہے، مجموعہ کلام کی شروعات حصول برکت کے لئے حمدیہ ونعتیہ اشعار سے کی گئی ہے ۔حمدیہ ونعتیہ کلام کے چند اشعار، 

زمین کا مالک گگن کا مالک 
وہی خلا کا پون کا مالک 
اسی کی کلیاں ہیں پھول اس کے 
وہی ہے سارے چمن کا مالک ۔

نعتیہ اشعار 

چاہتے ہو کہ کہیں نور برستا دیکھو 
جاکے اک بار ذرا شہر مدینہ دیکھو 
آپ پر ختم نبوت کا ہے اعلان خدا 
اے جہاں والو یہ سرکار کا رتبہ دیکھو ۔

غزلیات پرمشتمل اشعار ۔

کہاں اب ہمارے خنجر اٹھیں غیر کے مخالف
ہمیں قتل کر رہے ہیں ہمیں لوگ مر رہے ہیں ۔

ظلم پر یلغار ہونا چاہیے 
اک نہیں سو بار ہونا چاہیے 
کچھ نہیں تو نسل نؤ کے واسطے 
سب کو خوش گفتار ہونا چاہیے ۔
فضا زہر آلود بدلنے کی کریں کوشش 
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا سنبھلنے کی کریں کوشش ۔

کم عقلوں کا بھروسا کیوں کریں ہم 
خود اپنا تماشا کیوں کریں ہم ۔
نا مرادی کا دھواں دل سے ہٹاکر دیکھو 
اپنی آنکھوں میں نئے خواب بسا کر دیکھو ۔

ان کی شاعری میں ابھرتے مسائل بھی ہیں، مسائل کے لئے لائحہ عمل بھی ہے،
  شاعر اپنی مخفی کیفیات کو ابھارنے کے لیے ضخیم الفاظ، مبہم تشبیہات و استعارات اور ایسی فلسفیانہ باتوں کو موضوع سخن نہ بنائے تو بہتر ہے جو عام فہم قاری کی فہم سے بالاتر ہو ۔ بلکہ عام فہم الفاظ واستعارات وتشبیہ ،اور سادگی کے ساتھ جملوں کی ترتیب ہو عبارت پیچیدگی، مبہم عبارت  سے بچتے ہوئے اپنی شاعری کا الفاظ اختیار کرے تو یہ اس کے لئے کامیابی کی ضمانت ہے، اور انہیں  باتوں کا خیال نذر فاطمی نے بھر پور رکھنے کی کوشش کی ہے ،
 چند اشعار دیکھیں

کرلوں اقرار میں محبت کا 
مل تو جائے کوئی طبیعت کا 
سوچتا رہتا ہوں اسے ہر پل 
آدمی ہے غلام عادت کا ۔

چھوڑ دو عشق عشق کا چکر 
ہیں بہت کام زندگی کم ہے 
کیا اثر ہے یہ نرم موسم کا 
آج کچھ ان کی بے رخی کم ہے ۔
وقت ایسا بھی کل کو آئے گا 
آدمی آدمی کو کھائے گا ۔
تو اگر بے نقاب آئے گا 
چاند کو بھی حجاب آئے گا ۔


آپ جب ان کے اشعار پڑھیں گے تو محسوس ہوگا کہ کس سہل انداز میں انہوں نے کلام کیا ہے، ان اوصاف کی بنا پر ان کے فن مزید نکھرتے نظر آتے ہیں، اور ان کی انفرادیت کا انکشاف ہوتا ہے، 

نذر فاطمی کے اشعار میں مزاح کے بھی پہلو ہیں، چند اشعار 

یوں کھلے میں نہانے سے کیا فائدہ 
روز لنگی سکھانے سے کیا فائدہ 
سامنے دیکھ سگنل ابھی لال ہے 
اتنا ہارن بجانے سے کیا فائدہ ۔

کون ان حالات میں دلشاد ہے 
کیا سسر ہے اور کیا داماد ہے 
اہلیہ میکے میں ہے، دھنباد ہے
میں ادھر ہوں وہ ادھر آزاد ہے ۔

پکڑ کر چور کو بولا سپاہی 
چرائے مال کا آدھا نکالو 
رسیدیں ساتھ رکھو مدرسے کی 
سفر کا ٹھاٹھ سے خرچہ نکالو ۔
شوخ میک اپ، شامیانہ اور بارش تیز تر، 
کس کی بیوی کس کے اسکوٹر پہ ہوتی تھی سوار، 
کھیل میں جیسے ہی پکڑا مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ 
لاٹھی ڈنڈا لے کے دوڑے لیلیٰ کے سب رشتہ دار ۔

ان کے اشعار میں لہجہ کبھی نرم اور کبھی برہم ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں ماضی کی داستانیں بھی ہیں، اداسیاں بھی ہیں اور مستقبل کی تابناک امیدیں بھی۔  شاعر  کااپنا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے، کبھی وہ خود سوالی بن کر اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ مایوس اور بیزار ہو کر خود کو تسلی بخشتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا یاب بھی ہوتا ہے ۔ وہ آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی پیغام سناتا ہے۔غرضیکہ کے شاعری کا دائرہ محدود نہیں بلکہ غیر محدود ہوتا ہے، اس میں ہجر وصال کے قصے، ماضی کی داستانیں، زمانے کے حوادثات، سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، انفرادی، اجتماعی، گویا کہ ایک بہتا سمندر ہے شاعری کا فن، 
اور سچا فنکار اپنے آس پاس کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔ حسن عسکری کے بقول ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ نذر فاطمی کا قلم  محض تخیل کی سرسبز اور حسین وادیوں میں رقص نہیں کرتا بلکہ ان کا فن عصری تقاضے  پر بھی لگے  ہیں، جو ان کے فن میں سما کر سراپا ایک پیغام بن گیا ہے ۔نذر فاطمی کے مزید چند اشعار جو ان کی شخصیات اور فن کو سمجھنے میں مزید معاونت فراہم کرے گی ملاحظہ فرمائیں 

زمانہ تیرا شیدائی بہت ہے 
تری باتوں میں گہرائی بہت ہے 
غزل پڑھ کر لکھا ہے واہ تم نے 
مری اتنی پذیرائی بہت ہے ۔

کہ کر وہ شب بخیر دعا دے کے سو گیا 
بچپن آرزو کو یہ کیا دے کے سوگیا ۔

فلاں کے گھر نہ جایا کر فلاں نے یہ کہا مجھ سے، 
فلاں کے گھر جو جاتا ہے وہ آتا ہے فلاں ہوکر ۔

ان کا پرانا دوست یا پھر نامہ بر ملے 
کس حال میں ہیں کیسے ہیں وہ کچھ خبر ملے۔

چھڑا کے چل دئے وہ ہاتھ ہائے کیا کیجیے 
رہے نہ قابو میں جذبات ہائے کیا کیجیے۔ 

اس شعری مجموعے میں پیش کئے گئے اشعار کے ہر موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں ہے  خلاصہ کے طور پر دیکھا جائے تو نذر فاطمی  نے اس شعری مجموعے میں عالمی سطح کے مسائل کے ہر پہلوؤں پر گفتگو کی ہے اور اپنے پیغامات ایک عام انسان تک پہنچانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔اور کہا  انہوں نے بڑی بےباکی اور جرات مندی اور مضبوطی کے ساتھ  اپنی باتیں رکھی ہیں انہوں نے واضح انداز میں حق گوئی سے کام لیا ہے ۔ مسائل بزبان غزل پیش کیا ۔ہم پستی کی طرف کیوں جارہے ہیں ان سب پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں سلاست  روانی اور الفاظ وتعبیرات کی خوبصورتی ہے جو قاری کو اپنی جانب متوجہ کراتی ہے،  شاعر نے حق کا ساتھ دے کر شاعر ہونے کا حق ادا کیا ہے ۔ شاعر نے اپنی شاعری میں اشاروں، کنایوں، استعارات اور تلمیحات کا خوب استعمال کیا ہے ان سے ان کی شاعری میں حسن ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا نکھار پیدا ہوا ہے ۔ایسے ہی حق کے طرفداروں کو یہ دنیا بڑی دیر تک یاد کرتی ہے کیونکہ ایسی شاعری کی گونج بہت دیر اور بڑی دور تک سنائی دیتی ہے۔
الغرض یہ مجموعہ کلام اپنی فکری وفنی اعتبار سے بہت معیاری ہے، لیکن کتاب میں عجلت کی بنا پر چند خامیاں بھی نظر آتی ہیں جن کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ کچھ جگہوں پر پر املے کی خامیاں رہ گئی ہیں، جن پر توجہ مرکوز ہے، 
نذر فاطمی صاحب کے ان کی شاعری اور فن کے اعتبار سے انہیں چند پہلوؤں پر سمجھا جا سکتا ہے، میں نے کچھ پہلوؤں پر تبصرہ کیا، مگر انہیں مزید دیگر پہلوؤں پر سمجھنے اور جاننے کے لئے آپ ان کی کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں، 
نذر فاطمی کو ہم اپنی طرف سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کے تمام اراکین کی جانب سے ان کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ رب ذوالجلال ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ ہونے پر ریاض احمد قادری اور سدرہ شاہد کو ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مبارکبادی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ ہونے پر ریاض احمد قادری اور سدرہ شاہد کو ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مبارکبادی 
اردو دنیا نیوز ٧٢
پٹنہ 1/دسمبر 2022 (پریس ریلیز) ریاض احمد قادری بن ریان احمد قادری، سدرہ شاہد بنت شاہد اشرف ساکن سرائے ستار خان لہریا سرائے دربھنگہ  کو ان کی اس کامیابی پر ضیائے حق فاؤنڈیشن مبارکبادی پیش کرتا ہے،کہا جاتا ہے کہ سماج ومعاشرہ میں اگر ایک بھی بچہ کامیاب ہوا تو گویا کہ پورا سماج ومعاشرہ کامیاب ہو گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں بچوں نے محض اپنی محنت و کاوش جہد مسلسل اور والدین کی سرپرستی کی بنا پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سخت مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہوکر پوری قوم وملت کا نام روشن کیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے  کہ یہ دونوں ایک ہی کوچنگ سینٹر علی گڑھ کوچنگ کلاسس سرائے ستار خان جو شاہد اشرف کے زیر نگرانی چل رہی ہے زیر تعلیم تھے ، شاہد اشرف نے  بھرپور محنت و مشقت، جہد مسلسل اور اپنی نگرانی میں  اس لائق بنایا کہ یہ بچے  سخت سے سخت مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کرسکیں ،
ریاض احمد قادری کا داخلہ ڈپلومہ میکنیکل انجینئرنگ، اور سدرہ شاہد کا داخلہ ڈپلومہ کمپیوٹر انجینئرنگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سیشن 2022-23 میں ہوا، ان دونوں نے سرکاری ادارہ سے بارہویں پاس کیا ہے، اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے ان کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچے قوم وملت کے معمار ہوتے ہیں، سماج اور معاشرہ میں ہر ایک فرد کا اہم فریضہ ہے کہ وہ بچے کو کامیاب و کامران بنانے میں کوشاں رہیں، خصوصاً ان والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ضروریات میں اہم ضرورت اور اہم سرمایہ اپنی اولاد کو سمجھیں اور ان کی اچھے مستقبل کے لیے فکر مند رہیں، محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن وٹرسٹی نے بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سماج ومعاشرے  میں اگر ایک فرد بھی کامیاب ہوتا ہے تو گویا پورا سماج و معاشرہ کامیاب ہوا، بامراد ہوگیا، ہم ضیائے فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے والدین اِس واقعے کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں،اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ میں ایک دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا اور خصوصی طور پر ان دونوں کے لئے دعائیں کی گئیں اور عمومی طور پر ملک کے تمام بچوں کے اچھی مستقبل کے لئے دعا ہوئی، ضیائے حق فاؤنڈیشن خصوصی طور پر ملک کے ہر بچے کی تعلیم وتربیت کے لیے فکر مند رہتا ہے، اور اپنی طرف سے طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا ہے،

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

بدھ, نومبر 30, 2022

الحاج انجینئر محمد صالح ؒؒ__ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

الحاج انجینئر محمد صالح ؒؒ__ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢
  امارت مجیبیہ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ دربھنگہ کے سکریٹری، امارت شرعیہ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن، مجلس شوریٰ کے مدعو خصوصی، با وقار ، بردبار، عبادت گذار، صالحیت اور صلاحیت کے مرقع، اسم با مسمیٰ انجینئر محمد صالح ساکن مہدولی، دربھنگہ کا ۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ بوقت ساڑھے سات بجے صبح ان کے آبائی مکان واقع مہدولی میں انتقال ہو گیا، گذشتہ اتوار کو مولانا سہیل احمد ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ کے ساتھ عیادت کے لیے میری حاضری ہوئی تو وہ ماہتاب صاحب کے گھر سے اپنے گھر منتقل ہونہیں رہے تھے، کیے جا رہے تھے، منظر بالکل جنازہ جیسا تھا، وہ بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور چار کاندھوں پر سوار تھے، کوئی چار ماہ قبل ہڈی کا کینسر ثابت ہوا تھا، میدانتا پٹنہ اور بنارس میں علاج جاری تھا، جب ہم لوگ حاضر ہوئے تھے، ڈاکٹر نے جواب دے دیا تھا اور سانس کی ڈور ٹوٹنے کے لیے دو دن کی مدت مقرر کی تھی ، قوت ارادی مضبوط تھی ، وقت مقرر دو دن بعد کا تھا، اس لیے دو دن اور کھینچ لے گیے، عیادت کے لیے حاضری ہوئی تھی تو آنکھوں سے آنسو جاری تھا، مصافحہ کے ہاتھ اٹھا رہے تھے اور وہ گر، گر جا رہا تھا، ہم لوگوں نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور مل کر بجھے ہوئے دل کے ساتھ واپس آگیا، اندیشہ یہ بھی تھا کہیں راستہ ہی سے واپس نہ ہونا پڑے، جو حالت تھی، اس میں یہ اندیشہ بے وجہ بھی نہیں تھا، ہم لوگ واپس ہو گیے، چار روز کے بعد سانس کی رفتار جو عیادت کے وقت ناک سے زیادہ منہ سے قائم تھی ، وہ بھی ٹوٹ گئی، لاولد تھے پس ماندگان میں ایک اہلیہ ، ایک بھائی کو چھوڑا، حضرت امیر شریعت کے حکم اور نائب امیر شریعت کے مشورہ سے ایک وفد نے جنازہ میں شرکت کی ، جس میں مولانا سہیل احمد ندوی مولانا مجیب الرحمن دربھنگوی اور رقم الحروف شامل تھا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز مغرب مفتی خبیب احمد صاحب سابق قاضی امارت شرعیہ دربھنگہ نے پڑھائی او رمقامی قبرستان مہدولی میں تدفین عمل میں آئی ، سینکڑوں لوگ ان کو آخری منزل تک پہونچانے میں شریک تھے، محتاط اندازہ کے مطابق ان کی تعداد پندرہ سو رہی ہوگی۔
 انجینئر محمد صالح بن نبی اختر (م ۳۰؍ مارچ ۱۹۹۰ء ) بن عبد الباری کی ولادت ووٹر شناختی کارڈ کے مطابق۱۹۴۲ء میں حسن چک دربھنگہ میں ہوئی، ان کی نانی ہال مہدولی تھی ،ا ن کے نانا کا نام محمد غفران (م۱۹۳۸) بن فضل الٰہی تھا، چنانچہ جلد ہی وہ حسن چک سے اپنی نانی ہال مہدولی منتقل ہو گیے۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور تین بہنوں میں ایک بہن سے بڑے تھے، دو بھائی ڈاکٹر ظفیر الدین صاحب (م۲۰۲۰ئ) اور محمد سالم صاحب بال بچوں کے ساتھ امریکہ منتقل ہو گیے، وہ دربھنگہ میں تنہا رہ گیے، تنہائی کا کرب وہ پوری زندگی جھیلتے رہے ۔
 محمد صالح صاحب کی ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں ہوئی، ۱۹۵۷ء میں انہون نے مسلم ہائی اسکول سے میٹرک اور سی ام او سائنس کالج دربھنگہ سے آئی ایس سی اور دربھنگہ میں واقع اسکول آف انجینئرنگ سے ٹیکنیکل میں ڈپلومہ کیا، معاش کے حصول کے لیے رانی گنج بردوان مغربی بنگال کے پیپر مل میں ملازت کی، لیکن زمین وجائیداد کی دیکھ بھال کے لیے والد نے صرف چار سال کے بعد وطن بلا لیا، پھر پوری زندگی ملازمت نہیں کی، اپنی زمینداری اور جائیداد کے تحفظ میں وقت گذارا۔
 محمد صالح صاحب کی شادی بارو بیگو سرائے میں ہوئی تھی، ان کے سسر کا نام مولانا ابو القاسم جمیل طیب (م ۱۹۸۵) تھا، جو سید محمد طیب (م ۱۹۰۶) بن سید رحمت علی کے لڑکا تھے۔
 انجینئر محمد صالح کا شمار بڑے اہل خیر میں ہوتا تھا، انہوں نے بہت سارے بچوں کو اپنے صرفہ سے عالم حافظ بنایا ، عصری تعلیم حاصل کرنے والوں کی مالی مدد کی ، وہ بند مٹھی سے مدد کے قائل تھے، ان کی اہلیہ بھی عموما ان کی داد ودہش سے نا واقف رہا کرتی تھیں، وہ نام نمود سے کوسوں دور رہا کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۵ء میں جب امارت مجیبیہ ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ مہدولی دربھنگہ میں قائم ہوا تو زمین کے بڑے حصے کی فراہمی کے باوجود انہوں نے ادارہ کے نام میں اپنا نام شامل کرنا گوارہ نہیں کیا ، اور پوری زندگی بانی سکریٹری کی حیثیت سے ادارہ کو پروان چڑھاتے رہے ، اور دامے درمے ، قدمے سخنے ہر قسم کے تعاون سے کبھی گریز نہیں کیا، ان کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں امارت مجیبیہ ٹکنیکل کو وقار واعتبار حاصل ہوا، ابھی انتقال سے چند ماہ قبل انہوں نے ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کے زمین کی فراہمی کے کاغذات درست کرائے تھے۔
 انجینئر صاحب سے میری پہلی ملاقات فروری ۲۰۰۹ء میں دربھنگہ میں ہوئی تھی، موقع تھا دربھنگہ میں دار القضاء کے قیام اور قاضی کے اعلان کا، مولانا سید نظام الدین صاحبؒ امیر شریعت سا دس کے ساتھ احقر بھی گرد کارواں کے طور پر شریک تھا، اس موقع سے میری کتاب نقد معتبر اور یادوں کے چراغ کا اجرا بھی عمل میں آیا تھا، اور نگر تھانہ والی مسجد کے افتادہ حصہ پرجو امارت شرعیہ کے نام وقف تھا اس پر دار القضاء کی عمارت کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد اکٹھا کیا گیا تھا، تعمیرات کے لیے دربھنگہ سے فراہمی مالیات کا کام میرے ذمہ تھا، میرے ساتھ انجینئر محمد صالح ماسٹر صفی الرحمن عرف ممتازبابو جناب زبیر صاحب بھی ہوا کرتے تھے، نیچے کا حصہ تیار ہونے کے بعد وہاں کی کمیٹی والوں نے دوسرا مصرف نکال لیا اور امارت شرعیہ نے جن مقاصد کے لیے جد وجہد کی تھی اس کی تکمیل نہیں ہو سکی، لیکن محمد صالح صاحب اور دیگر رفقاء نے اس موقع سے جس قدر امارت شرعیہ سے والہانہ تعلق اور وارفتگی کا ثبوت دیا ،اس کی یاد آخری دم تک باقی رہے گی۔
 وہ ایک بافیض انسان تھے، فیض جس قدر عام ہوتا ہے اسی قدر ان کی جدائی سے نقصان پہونچتا ہے، یقینا انجینئر محمد صالح صاحب کے انتقال سے ہم نے ایک با فیض شخص کو کھو دیا ہے، جو پوری صلاحیت اور صلاحیت کے ساتھ ملت کے کاموں کو آگے بڑھانے میں مشغول تھے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...