Powered By Blogger

پیر, دسمبر 05, 2022

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت  __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمہوریت میں صاف ستھرے انتخابی عمل کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اقتدار تک پہونچنے کا صدر دروازہ یہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ای وی ایم میں ادلا بدلی اور بٹن کے سسٹم پر بھی لوگوں کی نظر رہی ہے، ووٹ کسی کو دیں، آپ کا ووٹ کسی خاص پارٹی کو منتقل ہوتے رہنے کی روایت میں کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی صداقت کا سراغ بھی لوگوں نے لگا رکھاہے ، انتخاب کے وقت سارے اختیارات انتخابی کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں، یہ اختیارات اس قدر مضبوط ہیں کہ انتخابی کمیشن کا سر براہ بتادلہ اور دوسری جگہ بحالی کے عمل کو بھی کر گذر سکتاہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اختیارات انتہائی وسیع ہیں، وہ نتیجہ انتخاب کو روک سکتا ہے ، دو بارہ گنتی کا حکم دے سکتا ہے ، گنتی کرنے والے عملہ کو اس عمل سے باہر کر سکتا ہے ، اب اگر انتخابی عمل کو انجام دینے والا مرکزی افسر جسے الیکشن کمشنر کہا جاتا ہے ، خود ہی صاف ستھرا نہ ہو، حکومت کے چشم وابر وپر کام کرنے والا ہو اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی جاگزیں ہو کہ سبکدوشی کے بعد کسی دوسرے اعلیٰ عہدے پر ہمیں فائز ہونا ہے تو انتخابی عمل پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور وہ الیکشن کمشنر نہیں پی ام او آفس کا اردلی بن کر کام کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار واعتماد الیکشن کمیشن سے اٹھ جاتا ہے ، حکومت اس معاملہ میں اس قدر دخیل ہوگئی ہے کہ ۲۰۰۷ء کے بعد الیکشن کمیشن کی مدت کار مختصر ہوتی چلی گئی ہے، پہلے یہ مدت چھ سال کی تھی ، اب یہ سمٹ کر پانچ سال رہ گئی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ارون گوئل کی تقرری کی ہے ، تین دن قبل انہیں رضا کارانہ سبکدوش ہو جانے کو کہا گیا اور تین دن بعد الیکشن کمیشن کے عہدے پر ان کی تقرری عمل میں آگئی، حالاں کہ عرضی گذار پر شانت بھوشن نے پہلے ہی عدالت میں معاملہ درج کرا رکھا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر جج کے ایم جوزف نے سماعت کے دوران حکومت کے وکیل سے بڑے چھبتے ہوئے سوالات کیے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس قدر جلدی کیا تھی، جب معاملہ عدالت مین زیر غور تھا ، انہوں نے رولنگ دیا کہ اگر الیکشن کمشنر ، کمزور اور گھنے ٹیکنے والا ہوگا تو سارے سسٹم کا بریک ڈاؤن ہوجائے گا، ملک کو ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کا دم خم رکھتا ہو، الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، اسے اسی طرح کا کمشنر چاہیے۔ فاضل جج نے اس موقع سے دسویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے تعریف وتوصیف کی، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اور ایک با اصول ، سخت مزاج ، بے خوف اور ایماندار کمشنر کی ایسی شبیہ پیش کی تھی کہ انہیں انتخابی اصلاح کے لیے آج تک یاد کیا جاتا ہے، بلکہ الیکشن کمنشر کے اختیارات اور حدود کا پتہ پہلی بار لوگوں کو چلا، ان کے دور میں تین الیکشن کمشنر کو ان پر مسلط کیا گیا کہ وہ ان کے مشورے سے کام کریں، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا، آج بھی انتخابی اصلاحات اور اسے غیر جانب دارانہ بنائے رکھنے کے لیے ایک نئے ٹی این سیشن کی ضرورت ہے ارون گوبل ٹی این سیشن نہیںبن پائیں گے ، جس طرح ان کی تقرری عمل میں آئی ہے، اس سے تو ایسا ہی معلوم پڑتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اتوار, دسمبر 04, 2022

ناشر/پبلشر: کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی ملنے کے پتے : دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

نام کتاب:      افادات سبحانی 
اردو دنیا نیوز ٧٢

مصنف :        مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی 
مرتب :          فضل رحمن رحمانی 
 صفحات :            (132)
نظر ثانی :            مفتی عین الحق امینی قاسمی بیگو سرائے 
سالِ اشاعت:               2022 
                        
     قیمت:                      250
                    

  ناشر/پبلشر:         کریٹیواسٹار پیلی کیشنز نئی دہلی 
ملنے کے پتے :       دارالاشاعت خانقاہ مونگیر ،سبحانی منزل حضرت گنج خانقاہ روڈ مونگیر، معد عائشہ الصدیقہ کھاتو پور بیگو سرائے، محمد عتیق الرحمن وانیس الرحمن بک سیلر رحمانی کالونی حضرت گنج مونگیر ۔

    مبصر :     محمد ضیاء العظیم رحمانی وقاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی  محتاج تعارف نہیں ہیں، آپ ایک باوقار عالم دین، نیک سیرت، خوش کلام، دور اندیش، قوم وملت کا درد مند، غریب پرور کے ساتھ ساتھ ایک ماہر استاذ ونباض ہیں، آپ اس قدر محبت کرنے والے ہیں کہ جو بھی آپ سے ملے وہ آپ کا دلدادہ ہو جائے، آپ اکابرین کے پروردہ قوم وملت کاایک  عظیم سرمایہ ہیں، آپ کی تصنیف افادات سبحانی جو کہ سابق امیر شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وسجادہ نشین جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رح کے حکم کی تعمیل میں لکھی گئی ایک شاہکار تصنیف ہے،اس سے قبل آپ کی ایک تصنیف خطبات سبحانی (مجموعہ تقارير)2018 میں منظر عام پر آچکی ہے جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی، خصوصاً علماء وائمہ طبقے نے کافی سراہا تھا، افادات سبحانی اس تصنیف کو بھی دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ یقیناً اللہ رب العزت کا اپنے مخصوص بندوں پر خاص فضل ہوا کرتا ہے، آپ کی اس تصنیف نے آپ کو مزید سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے ، افادات سبحانی دعا کی اہمیت وافادیت اوراوقات دعا کے موضوع پر ایک خوبصورت تصنیف ہے، جس میں حضرت مولانا نے بڑے جامع انداز میں دعا سے متعلق ہر پہلوؤں پر باتیں کی ہیں ، دعا کی ضرورت ،دعا کے آداب واطوار واوقات ان سب کو جمع کیا ہے،
یہ کتاب 134 صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے، اس کتاب کی شروعات دو منظوم کلام سے ہے، اس کے بعد مرتب کتاب مشہور ومعروف صحافی فضل رحمن رحمانی نے  کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، پھر موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے اس کتاب اور دعا کے حوالے سے اپنے تاثرات سے نواز کر اس کتاب کو زینت بخشی، مفتی عین الحق امینی قاسمی صاحب نے اس کتاب پر نظر ثانی کی، اور اس کتاب  میں شامل مضامین ومفاہیم کا بہت ہی خوبصورت اور جامع انداز میں تعارف کرایا ، بعدہ صاحب کتاب حضرت مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی نے اس کتاب کی تصنیف وتالیف کی وجہ، تاریخی پس منظر، اور اپنے احساسات وجذبات جو کہ اس کتاب کے حوالے سے ہے اپنے مخصوص انداز میں متعارف کرایا۔
  شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو ایک خاص مقام حاصل ہے او رتمام مذاہب وادیان میں دعا کا ثبوت ملتا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے جو تقدیر بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالک اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اس کے لئے تب ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے  جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کے دائرے کو ملحوظ رکھے۔دعاؤں کے حوالے سے بہت سے کتابیں موجود ہیں جن میں علماء کرام نے مختلف انداز میں میں دعاؤں کے آداب طریقہ اور اوقات جمع کئے ہیں ۔زیرتبصرہ کتاب ''افادات سبحانی '' مولانا عبد السبحان صاحب رحمانی استاذ حدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کی تصنیف ہے  ۔اس کتاب میں ایک خوبصورت انداز وبیان میں مکمل حوالے کے ساتھ دعا کے آداب واطوار واوقات ۔دعاؤں کی فضیلت  ان کے فوائد کےحوالے سے جو باتیں کہیں گئ ہیں وہ کتاب وسنت سے ثابت ہے جس  کی وضاحت بھی انہوں نے کی ہے ۔
دعا اللہ کو رب تسلیم کرتے ہوئے عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنے مطالبات رکھنے کا نام ہے ،دعا مومن کے لئے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں کیوں کہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمَ عَلَی اللہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاء (دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں ہے ) دعا اللہ تعالی کے یہاں بہت ہی مقبول ومحبوب عمل ہے ، سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ (اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے ) دعا سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے،دعا عبادات کو شرف قبولیت بخشنے میں معاونت کرتی ہے ، دعا عبادات کا مغز ہے، دعا سے اللہ تعالیٰ کا غضب وغصہ ختم ہوتا ہے ،ان سب کے باوجود دعا انبیاء علیہم السلام کی اوصاف حمیدہ میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ انبیاء کرام پر بھی جب جب کوئی آزمائش ومصائب آئیں تو انہوں نے دعا کے ذریعہ ہی اللہ سے مدد مانگی،اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے، بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ (دعا موٴمن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے ، اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کی تاکید کی ہے ، اس کی قبولیت کا وعدہ کیاہے نیز اس پر انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولوں کی تعریف کی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے: إنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْن (بے شک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرنے والے تھے اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے)اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف صاف اعلان کیا : وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ(جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، انہیں باتوں کو مکمل مفصل ومدلل اور سہیل انداز میں اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے،جو ہر مسلمان کی اشد ضرورت ہے ۔ اس تصنیف کے ذریعہ مولانا موصوف کو بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے، یہ چندمختصر پہلو ہیں جنہیں ہم نے اپنے تبصرے میں پیش کیا،مزید سمجھنے اور جاننے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کریں، اس سے استفادہ کریں،مولانا محترم سے براہ راست ملاقات کرسکتے ہیں،ان سے دعائیں لینے کا اچھا موقع ہے ۔ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مولانا موصوف کو اور پوری ٹیم کو جو اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اپنی شایان شان جزا وبدلہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین،

اساتذہ سے غیر تدریسی کام __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اساتذہ سے غیر تدریسی کام __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 درس وتدریس کا مشغلہ بڑا محترم اور مقدس ہے ، نو نہالوں کو بنا سنوار کر اور تعلیمی اقدار وافکار سے مزین کرکے اچھے شہری بنانے کی ذمہ داری اساتذہ پر عائد ہوتی ہے، ان کے ایک دن درس کے ناغہ سے کہا جا تاہے کہ چالیس دن کے سبق کی برکت ختم ہوجاتی ہے ، لڑکوں کا جو تعلیمی نقصان ہوتا ہے وہ الگ ، لیکن ادارے کے ذمہ داران اور حکومت کے افسران اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں میں لگاتے رہتے ہیں،دیگر اداروں میں بھی تدریسی عملہ سے غیر تدریسی کام لیا جاتا ہے لیکن اس پر دھیان رکھا جاتا ہے کہ طلبہ وطالبات کا درسی نقصان کم سے کم ہو، اسی لیے مدارس میں جو اساتذہ فراہمی مالیات کے لیے نکلتے ہیں ان کے لیے عموما شش ماہی یا سالانہ تعطیل کے وقت کا انتخاب کیا جا تا ہے؛ تاکہ تعلیمی نقصان نہ ہو جو اساتذہ تعلیمی اوقات میں نکلتے ہیں ا ن کے درس کا متبادل انتظام کیا جاتا ہے اس طرح نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ لیکن سرکاری اسکولوں میں اس کا التزام نہیں کیا جاتا ، وہاں بی ، ایل، او، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری اور انتخابات کرانے کی ذمہ داری ان کے سر ڈال دی جاتی ہے اور اساتذہ مجبور ہوتے ہیں کہ وہ درس وتدریس چھوڑ کر اس کام میں لگیں، نہیں لگیں گے تو ان پر معطلی کی کارروائی ہو سکتی ہے اور نوبت بر خواستگی تک کی بھی آ سکتی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار محکمۂ تعلیم نے ان کے ذمہ میدان میں قضائے حاجت کر رہے لوگوں کی تصویر کھینچ کر محکمہ کو فراہم کرانے کا حکم دیا تھا، کتنی توہین آمیز بات تھی، اور کیسا عجیب لگے گا، جب مرد اساتذہ میدان میں قضائے حاجت کر رہی عورتوں کی تصویر لیتے اور عورتیں مردوں کی، یہ بے حیائی کی بات تھی، سخت اعتراض کے بعد یہ حکم واپس لے لیا گیا، ایک بار آوارہ کتوں کے بارے میں انہیں رپورٹ دینے کو کہا گیا تھا، ایسے میں کار طفلاں تمام نہیں ہوگا تو کیا ہوگا، بعض اسکولوں میں دو ہی استاذ ہیں، ایک استاذمہینوں سے بی، ایل او کے کام کے نام پر اسکول سے باہر ہے، بعض کو امتحان کی گارڈنگ میں ڈال رکھا گیا ہے، اب ایک استاذ پانچ کلاس کو کیسے پڑھائے گا، ہر آدمی سمجھ سکتا ہے، اسی طرح بعض شعبہ کے اساتذہ کو غیر تدریسی کام کے لیے ڈپوٹیشن پر لگا دیا جاتا ہے، اس شعبہ میں ایک ہی استاذ ہو ایسے میں پورا شعبہ ہی بند ہوجاتا ہے۔
 صرف بہار ریاست کی بات کریں تو یہاں دس ہزار سے زیادہ اساتذہ بی ایل او کے کام پر لگے ہوئے ہیں، کئی اساتذہ دوسرے محکمہ میں ڈپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں،جب کہ محکمہ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری کی ہدایت ہے کہ کوئی استاذ ڈپوٹیشن پر نہیں رہے گا۔ جن اسکولوں سے اساتذہ محکمہ تعلیم کے افسران کے دفتر میں چلے گیے ہیں، وہاں کی تعلیم ٹھپ ہے اور اس قسم کے اسکولوں کی تعداداس قدر ہے کہ انہیں انگلیوں پر نہیں گنا جا سکتا۔
 بعض اسکول کے اساتذہ برسوں سے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں، پہلے ان کا استعمال صرف پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخاب میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب بی ایل او کا کام مستقل کام بن گیا ہے، اس سے سخت تعلیمی نقصان ہو رہا ہے، اساتذہ کی تنظیمیں اس کو ختم کرنے یا سلسلے کو مختصر کرنے کی مانگ کرتی رہی ہیں، لیکن مطالبہ پورا اس لیے بھی نہیں ہو رہا ہے کہ بہت سارے اساتذہ کی دلچسپی پڑھانے سے زیادہ باہر کے کام میں ہوتی ہے اور وہ اسکول سے باہر رہنا ہی پسند کرتے ہیں، اسی طرح جو اساتذہ ڈی ای ، او اور بی ای او وغیرہ کے دفتر میں ڈپوٹیشن پر ہیں، وہیں بنے رہنا چاہتے ہیں، کیوں کہ  وہاں بالائی آمدنی، سہولت پہونچانے کی فیس اور رشوت کے مواقع زیادہ ہیں، اسکول کی خشکی کے مقابلے انہیں وہاں کی تری زیادہ پسند ہے، وہ افسران کے نام پر رقم اینٹھنے کا بھی کام کرتے ہیں، اور افسران تک پہونچانے کا بھی، ایسے اساتذہ کی دلچسپی درس وتدریس سے نہیں ہوتی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو یہ انتہائی ضروری ہے کہ تدریسی اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں پر نہ لگایا جائے، دوسرے کام بھی ضروری ہیں، لیکن اس کے لیے سرکار الگ محکمہ بنا کر بحالی کرے جو پورا وقت سروے، مردم شماری، گھر شماری ، جانور شماری ، انتخابی کاموں پر لگائے ، اس لیے کہ یہ کام اب جز وقتی نہیں، کل وقتی ہو گیا ہے ۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

ہفتہ, دسمبر 03, 2022

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) تنظیم ائمہ و خطباء مساجد بہار کی عمومی
اردو دنیا نیوز ٧٢
 *نشست* آج مؤرخہ ٨ جمادی الاول ١٤٤٤ بمطابق ٣ دسمبر ٢٠٢٢ روز سنیچر صبح سات بجے جامع مسجد ہارون نگر سکٹر 1 پھلواری شریف پٹنہ میں حضرت مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب امام و خطیب جامع مسجد خواجہ پورہ کی صدارت میں منعقد ہوئی. مولانا مفتی محمد اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف نے تلاوت کلام ربانی سے مجلس کا آغاز کیا. بعدہ مولانا حسیب جوہر صاحب امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت پیش کیا. نظامت کے فرائض مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام و خطیب سراۓ کی مسجد دانا پور نے انجام دیئے. مجلس کی کاروائی کو آگے بڑھانے سے قبل گزشتہ نشست کی کارروائی پڑھ کر سنائی گئی، بعد ازاں منظور شدہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا. حج کی ترغیب کے سلسلے میں یہ طے ہوا کہ ہر امام اپنے اپنے حلقہ میں ہر صاحب استطاعت شخص کے گھر جاکر ملاقات کرکے اسے ترغیب دی جائے اور اس کے لئے جو ضروری کاغذات ہوں وہ تیار کی جائے. جیسے پاسپورٹ کرونا ویکسین کا دونوں ڈوز وغیرہ. 
رسید کے تعلق سے بات ہوئی کہ تنظیم کی اپنی رسید ہو اور تنظیم کی جانب سے رسید چھپائی جائے، اسی طرح مکتب کے نظام کو مضبوط کیا جائے. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کریں، اگر اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے، تو کم ازکم ابتدائی تعلیم کا انتظام تو کر ہی سکتے ہیں، ہمارے قصبوں، گاؤں اور محلوں میں مساجد تو ہوتی ہیں، اگر اسی کے زیر انتظام مکاتب بھی قائم کر لیں، جہاں ہمارے بچے قرآن، سنت اور دینیات کی تعلیم بسہولت حاصل کر سکیں، تو اس سے معاشرے میں ایک انقلاب پیدا ہوگا اور ہماری آنے والی نسل مذہب کے اصول اور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے آشنا ہوگی۔اور مکتب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ماہانہ ہر بچے پر فیس بھی رکھی جائے،
     اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ اصلاح نفس پر خصوصی دھیان دیا جاۓ، مثلاً شریعت کو خود پر مقدم رکھیں، پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام بہر صورت ہو، خود داری اور کفایت شعاری کو شخصیت کا حصہ بنائیں، لوگوں سے تعلق اور ملاقات بے لوث ہو، آخر میں مولانا عظیم الدین رحمانی صاحب امام وخطیب خواجہ پورہ کی دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا. 
آج کی مٹینگ میں شریک ہونے والے ائمہ کرام کے نام یہ ہیں. حضرت مولانا ظہیر عالم صاحب رحمانی و سرپرست تنظیم ائمہ و خطباء مساجد حضرت مولانا محمد عظیم الدین صاحب رحمانی صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد و حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب قاسمی امام وخطیب ہارون نگر سیکٹر ١.نائب صدر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا محمد گوہر امام صاحب قاسمی امام وخطیب شاہی سنگی مسجد پھلواری شریف سکریٹری تنظیم ائمہ وخطباء مساجد  و حضرت مولانا محمد ساجد صاحب رحمانی امام وخطیب ابوبکر مسجد عیساپور پھلواری شریف کنوینر تنظیم ائمہ وخطباء مساجد وحضرت مولانا رضوان افسر صاحب مظاہری امام وخطیب سرائے کی مسجد داناپور و مولانا ضیاء الحق صاحب رحمانی امام وخطیب مسجد عثمان غنی نہسہ و مولانا حسیب جوہر امام و خطیب چھوٹی جامع مسجد کربگہیا پٹنہ و مولانا صادق حمیدی صاحب قاسمی امام وخطیب مدینہ مسجد خلیل پورہ مولانا شاہد صاحب قاسمی امام وخطیب مریم مسجد نیا ٹولہ پھلواری شریف و مولانا توقیر عبداللہ صاحب قاسمی امام وخطیب جامع مسجد کرجی پٹنہ 
 حضرت قاری محمد امام الدین صاحب نعمانی امام ملی مسجد ملت کالونی و مولانا ضیاءاللہ صوفی صاحب مسجد عیسیٰ پور. مولانا عرفان صاحب بلال مسجد نیورہ پٹنہ مولانا محمد شاہد قاسمی صاحب مریم مسجد پھلواری شریف پٹنہ مولانا عظمت اللہ صاحب مفتاحی مرہم مسجد  مولانا محمد ارشد رحمانی صاحب امام و خطیب بیور جیل مسجد پٹنہ مولانا محمد تعظیم الدین قاسمی صاحب امام فیصل کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا بدیع الزماں قاسمی صاحب امام و خطیب جامع مسجد ابوبکر سلطان گنج پٹنہ مولانا اشتیاق احمد صاحب امام آر، کے نگر پھلواری شریف پٹنہ مولانا اختر حسین صاحب مظاہری امام جمع خارج دیگھا پٹنہ مولانا خالد حسین صاحب امام مسجد نہسہ پھلواری شریف پٹنہ مولانا صدیق احمد فاروقی صاحب امام مسجد تاج پھلواری شریف پٹنہ مولانا شمیم عالم صاحب معاذ بن جبل نیورہ پٹنہ مولانا اسعد اللہ قاسمی صاحب امام و خطیب مسجد سجاد نگر اپنا گھرانہ نیو ملت کالونی پھلواری شریف پٹنہ مولانا مطہرعالم صاحب قاسمی امام وخطیب مسجد ہارون نگر سکٹر ٣ وغیرہم قابل ذکر ہیں.
تنظیم کی آئندہ نشست ٢٥ فروری ٢٠٢٣ روز سنیچر صبح سات بجے بمقام مسجد ابو بکر صدیق فیڈرل کالونی میں منعقد ہوگی ان شاء اللّٰہ.

عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ __مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ
”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ بڑا اہم موضوع ہے، اس کے مصنف پروفیسر محمد انوار الحق تبسم ہیں، پورنیہ نے جو قیمتی لعل وگہر علم وادب کی دنیا کو دیا ہے وہ ان میں سے ایک ہیں، وہ تاریخ کے آدمی ہیں، انہیں نامور مؤرخ عہد وسطیٰ میں اسلامی تاریخ وثقافت پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر قیام الدین احمد کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے،ا نہوں نے عظیم مؤرخ پروفیسر سید حسن عسکری سے بھی استفادہ کیا ہے، اسلامی تاریخ وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے چند اور اہل علم کی سر پرستی اور مشورے ان کو ملتے رہے ہیں، ان سب کے ساتھ خو د پرفیسر محمد انوار الحق صاحب اپنا تاریخی ذوق رکھتے ہیں، ان کے اس ذوق نے رہنمائی کی اور ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطیہ“ نامی کتاب تیار ہو گئی، اس کتاب کو دیکھ کر بر جستہ ترانہئ دار العلوم دیو بند کا ایک شعر یاد آگیا، جو مولانا ریاست علی بجنوری کی فکر جمیل کا نتیجہ ہے، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے ملکی اور بیرونی دونوں عطایا کا ذکر اشاروں میں کیا ہے   ؎
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
 پروفیسر محمد انوار الحق تبسم نے فکر وتحقیق کی دنیا بسائی اور اس موضوع سے جنون کی حد تک تعلق قائم کرکے ”عالمی تہذیب کو اسلام کے عطا یا“ کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے، یہ ٹو ان ون (Tow in one) کتاب ہے، ایک حصہ کتاب کے اصل موضوع پر مشتمل ہے جو اکاسی (۱۸)صفحات تک پھیلا ہوا ہے، صفحہ براسی (۲۸) سے ان کتابوں اور شخصیات کے تعارف کا سلسلہ تعلیقات کے عنوان سے درج ہے، یہ تعلیقات انتہائی مفید ہیں، جو اصل کتاب سے زیادہ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، یہ سلسلہ صفحہ ایک سو تہتر(۳۷۱) پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ یہ در اصل اشاریہ اورانڈکس کی بدلی ہوئی شکل ہے، جس کے مندرجات کو تفصیلی اور تحقیقی بنا کر تبسم صاحب نے انڈکس کی بہ نسبت زیادہ مفیداور کارآمد بنا دیا ہے۔
 تاثرات کا سلسلہ بھی روایت سے ہٹ کر پسِ لفظ کے عنوان سے کتاب کے آخر میں ہے، اور ان میں بڑے اساطین علم وادب کے رشحات شامل ہیں، پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر خالد محمود، جناب شفیع مشہدی، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر محمد غفار صدیقی، پروفیسر فاروق احمد صدیقی جب کسی کتاب کو ”انتہائی اہمیت کا حامل، فنون لطیفہ، سائنس اور مذہبی علوم پر گراں قدر خدمات کا مجموعہ“ قرار دیتے ہوں، موضوعات کے کثیر الجہات تنوع کے ساتھ مصنف کے ذوق کی بالیدگی، تلاش وتحقیق کی حوصلہ مندی، فہم وفراست کی دقیقہ سنجی، تجزیہ کی دلآویزی اور طرز تحریر کی جامعیت“ کی وجہ سے کتاب کے ”امتیازی شان کے معترف ہوں کہ جس کتاب کے بارے میں ”سائنس، حدیث، تفسیر اور مختلف مسلک کے ساتھ خطاطی، مصوری، ثقافتی، موسیقی اور فن تعمیرات جیسے موضوعات کو کتاب میں شامل کرکے موضوع میں وسعت“ پیدا کرنے کی بات کہی گئی ہو،”جس کتاب میں قابل اعتماد فرامین اور نا قابل تنقید ماخذ پیش کرکے اپنی تحریر کو اسناد کی منزل تک پہونچا دیا گیا ہو“، اور جس کتاب میں مصنف نے اپنی بالغ نظری سے سمندر کو کوزہ میں بندکرنے کا ہنر دکھایا ہو، جس کتاب میں بقول خالد محمود شاید”ایک بھی جملہ علم وآگہی سے خالی نہیں ہو“، اُس کتاب کے مندرجات کو بغیر تحقیق وتفتیش کے قبول کرہی لینا چاہئے، ورنہ تحقیقی تبصرہ لکھنے بیٹھیے گا تو آپ کے پاس بھی پروفیسر انوار الحق تبسم کی طرح تاریخ وتہذیب اور ثقافت اسلامی کا گہرا علم ہونا چاہیے، گہرا نہ بھی ہو تو ان کے مطالعہ کی وسعت تولیے ہوئے ہو۔
 پہلی بار اس کتاب کے مندرجات کو دیکھ کو معلوم ہوا کہ نبوت محمد، اساس دین، حدیث، تفسیر، فقہ، مسالک ائمہئ اربعہ اور تجدید احیاء دین بھی تہذیب وثقافت کا ہی حصہ ہیں، ایسا دراصل مصنف کے نزدیک تہذیب کا واضح تصور نہ ہونے یا مذہب، مسلک اور تہذیب کو ایک دوسرے کا مترادف یا قریب المعنی سمجھ لینے کی وجہ سے ہوا ہے، مسلک کا تو تہذیب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، البتہ مذہب اور تہذیب کا حروف اصلی ایک ہی ہے، شاید اسی وجہ سے مصنف کو غلط فہمی ہوئی، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ مذہب تہذیب نہیں ہے، لیکن ہر مذہب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے، جو حرکات وسکنات، اٹھنے بیٹھنے، بود وباش اور خود مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں وجود پذیر ہوتی ہے، اسلام کے حوالہ سے جب ہم بات کرتے ہیں تو اس کی شناخت اسلامی تہذیب کے عنوان سے کراتے ہیں اوراسے ”عالمی تہذیب کو اسلام کا عطیہ“ کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کتاب کا نام ”اسلام کا عطیہ“ کے بجائے ”مسلمانوں کا عطیہ“ زیادہ مناسب ہے، کیوں کہ مصوری، موسیقی وغیرہ کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے اس کا اسلام سے تعلق نہیں ہے، البتہ مسلمانوں کے حوالہ سے بات کی جاسکتی ہے، میں اس اہم کتاب کی تصنیف پر پروفیسر محمدانوار الحق تبسم کو مبارکباد دیتا ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ اردو، فارسی اور انگریزی میں شائع ان کی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبولیت کے بلند مقام تک رسائی حاصل کرے۔
 کتاب کی کمپوزنگ تسنیم کوثر نے کی ہے، ترتیب وتزئین میں نازیہ عمران، مہرین عرفان کی فنی مہارت کام آئی ہے، طباعت روشان پرنٹرس دہلی کی ہے، تقسیم کا کام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے ذمہ ہے، دہلی، علی گڈھ، الٰہ آباد، اعظم گڈھ، گنیش پور، ممبئی، پٹنہ، ارریہ، کولکاتہ، حیدر آباد، پورنیہ کے سولہ پتوں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے، آپ پٹنہ میں ہیں تو بک امپوریم سبزی باغ سے حاصل کر لیجئے ورنہ کتاب پر مصنف کے کئی موبائل نمبر درج ہیں، کسی پر رابطہ کر لیجئے، ایک سو چھہتر صفحات کی قیمت دو سو پچھہتر روپے زائد معلوم ہو تو تخفیف کی درخواست لگا دیجئے، بلا واسطہ لینے میں بک سیلروں کو دی جانے والی رعایت کے آپ بھی مستحق ہو سکتے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...