Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 07, 2022

ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات:معروضی ، پس معروضی مطالعہکامران غنی صباصدر شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور

ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات:معروضی ، پس معروضی مطالعہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

کامران غنی صبا
صدر شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور

حالیہ چند برسوں میں ہارٹ اٹیک سے ہونے والی اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 17.3 ملین لوگ ہارٹ اٹیک کا شکار ہو رہے ہیں۔رواں ماہ (دسمبر 2022) کے پہلے ہفتہ میں "ہارٹ اٹیک" ٹیوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔ دنیا بھر کے ماہرین طب اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کے تعلق سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر سبرت اکھوری (کارڈیالوجسٹ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز، فریدآباد) اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اگلے پانچ سے دس سال میں ہندوستان کے 20 فیصد لوگ ہارٹ اٹیک سے متاثر ہوں گے۔ ایک آر ٹی آئی سے جمع کی گئی معلومات کے مطابق ممبئی میں گزشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان کورونا سے زیادہ اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ مدت میں کورونا سے 10 ہزار 289 اموات ہوئیں جبکہ اسی مدت میں ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد 17 ہزار 880 تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں دنیا بھر میں 1.79 کروڑ اموات دل سے جڑی بیماریوں سے ہوئی تھیں۔
ہارٹ اٹیک کے اثرات نوجوانوں یہاں تک کہ طالب علموں اور کم عمر نوجوانوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔ حالیہ کچھ دنوں میں کئی ایسے واقعات مشاہدے میں آئے ہیں کہ کوئی گلوکار اسٹیج پرفارمنس کے دوران اچانک گرا اور اس کی روح پرواز کر گئی، کوئی طالب علم اسکول جاتے ہوئے اچانک لڑکھڑایا اور چشم زدن میں اس کی جان چلی گئی۔ہم میں سے کئی لوگ ایسی اموات کے شاہد ہیں جو انتہائی غیر متوقع تھیں۔
یہ واقعات ہمیں خوف زدہ کرتے ہیں۔ دنیا بھر کےڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کی وجوہ اور اس کے خدشات کو کم کرنے کی تدابیر پر نہ صرف غور و فکر کر رہے ہیں بلکہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ ہارٹ اٹیک بعض اہم وجو ہ درج ذیل ہیں:
نشہ آور چیزوں کا استعمال،غیر متوازن غذا،نیند کی کمی،سستی، ذہنی تنائو، بلڈ پریشر وغیرہ
ماہرین کے مطابق نشہ آور چیزوں سے گریز کرنے، متوازن غذا لینے، وقت پر سونے اور اٹھنے، متحرک رہنے، ذہنی تنائو سے بچنے اور اصول حفظان صحت پر عمل کرنے سے ہارٹ اٹیک کے خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک کے اسباب اور اس سے محفوظ رہنے کے طریقہ کار کا معروضی مطالعہ ضرور ہونا چاہیے لیکن کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو معروضیت سے پرے ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ ہارٹ اٹیک کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تنائو ہے۔اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جس تیزی سے ہارٹ اٹیک کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے انسانی ذہن تنائو کا شکار ہو رہا ہے۔ ماہرین صحت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ذہنی تنائو کم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے انسان کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے۔ہم پہلے کے مقابلے زیادہ اچھا کھانا کھاتے ہیں۔ رابطے آسان ہوئے ہیں۔آج ہم میں سے بیشتر لوگوں کے پاس اچھے موبائل فون ہیں۔ گھر ہے، گاڑیاں ہیں، تفریح کے مختلف ذرائع ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی طور پر ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ماہرین صحت کے پاس ملنا شاید مشکل ہے۔ شاید ہر سوال کا جواب سائنسی اصولوں کے مطابق بھی نہیں مل سکتا۔ اگر معروضیت سے پرے کچھ فطری اور روحانی اصولوں کو ہم سمجھ سکیں تو ممکن ہے کہ جواب تک ہماری رسائی ہو جائے۔ ماں سے بہت دور کوئی بچہ کسی خاص ساعت میں حادثہ کا شکار ہوتا ہے، ماں کو کسی مادی ذرائع سے حادثے کی اطلاع نہیں ملتی ہے لیکن اس کے باوجود جس وقت اس کا لخت جگر حادثے کا شکار ہوتا ہے، ماں کا دل تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ اب اس واقعہ کی کوئی معروضی وجہ نہیں بتائی جا سکتی۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے کی فی زمانہ جتنی کوششیں ہو رہی ہیں وہ سب معروضی ہیں۔ مثلاً صبح چہل قدمی کی جائے، ورزش کی جائے، موبائل فون کا استعمال کم کیا جائے، مکمل نیند لی جائے، غذا متوازن ہو، وقت پر ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ ساری تدابیر بھی اکثر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے اور زندگی کو پرسکون بنانے کے مختلف طریقے بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے مفید اور کارآمد ہوں لیکن فطرت سے قریب ہوئے بغیر نہ تو ہم ذہنی تنائو کو کم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔فطرت سے قربت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم وادیوں، جھرنوں، ندیوں اور سمندروں کا نظارہ کرنے لگ جائیں۔جب انسان کا ذہن اذیت میں ہوتا ہے تو اسے خوشگوار نظارے بھی بے لطف او ربے نور نظر آنے لگتے ہیں۔ فطرت سے قربت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کو اس کے اصل روپ میں قبول کریں۔ زندگی کا اصل روپ صرف خوشی نہیں ہے، غم بھی ہے۔ صرف خواب نہیں ہے، شکستِ خواب بھی ہے۔ زندگی صرف حاصل کا نام نہیں ہے، زندگی میں سعئی لاحاصل بھی ہے۔زندگی صرف تبسم سے مکمل نہیں ہوتی، اسے نالہ نیم شب بھی چاہیے۔  
آج کا انسان صرف خوش رہنا چاہتا ہے۔ وہ خوشی کا تعاقب کرتا ہے۔ جب اسے اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندرون میں خوشی نہیں ملتی تو وہ پارکوں، ہوٹلوں، بار اور نائٹ کلبوں کا رُخ کرتا ہے۔ اُسے وقتی طور پر خوشی مل بھی جاتی ہے لیکن واپس جب وہ اپنے اصل ماحول میں آتا ہے تو اسے وحشت سی محسوس ہوتی ہے، یہی وحشت اس کے ذہنی تنائو کا سبب بنتی ہے۔
آج کا انسان حقیقی مسرتوں سے محروم ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں کو نہیں پہچانتا، پہچانتا ہے تو بس اِس طور پر کہ ان سے گلے اور شکووں کا رشتہ ہے۔ اس نے اپنی مصروفیت کو کم کرنے کے لیے مشینیں خرید رکھی ہیں ، لیکن اس کی مصروفیات اور بھی بڑھ چکی ہیں۔ اس کے پاس اپنے بیوی بال بچوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ سچ پوچھیے تو اپنے لیے وقت نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تمنا میں وہ اپنی اوقات بھول چکا ہے لیکن جیسے ہی اسے اپنی اوقات یاد آتی ہے، وہ ذہنی تنائو کا شکار ہونے لگتا ہے۔
آج کا انسان قناعت کی دولت سے محروم ہے۔ وہ دنیا میں جنت کے مزے لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد کر کے حال کا شکر ادا نہیں کرتا، دوسروں کے حال کو دیکھ کر اپنے حال کی ناشکری کرتا ہے۔ یہ ناشکری اسے ذہنی طور پر منتشر کر دیتی ہے۔
ذہنی تنائو سے بچنے کی تمام سائنسی اور طبی تدابیر اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ خالق کے قرب کے بغیر ذہنی سکون کے حصول کی سبھی کاوشیں سعئی لاحاصل ہیں ۔ خالق کا قرب ہمیں اندیشہ سود و زیاں سے بے نیاز کرتا ہے۔ نمائش اور تصنع کو زندگی سے نکال دیا جائے تو زندگی پرسکون ہو سکتی ہے لیکن ہم انہیں نکالنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ نمائش اور تصنع سے ہمارا رشتہ منقطع تو ہوتا ہے لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اپنے سے چھوٹے لوگوں میں وقت گزارنے سے سکون ملتا ہے۔ کسی کا سکون غارت نہ کیا جائے تو سکون مل سکتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کی تمنا چھوڑ دی جائے تو سکون ملنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ سارے نکات معروضی نہیں ہیں اور ہم اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں کہ معروضیت کی عینک اتارے بغیر مطالعۂ کائنات ہمارے لیے مشکل ہے۔ اس مشکل کا حل تلاش کر لیا جائے تو ہارٹ اٹیک کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

کیف میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام آفاق احمد خان کے اعزاز میں ادبی محفل کا انعقاد پٹنہ:(پریس ریلیز )

کیف میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام آفاق احمد خان کے اعزاز میں ادبی محفل کا انعقاد 
پٹنہ:(پریس ریلیز )
اردو دنیا نیوز
بہار کے معروف سیاست دان اور ایم ایل سی جناب آفاق احمد خان کے اعزاز میں بزم کیف پٹنہ کے زیر اہتمام ایک شاندار ادبی نششت کا اہتمام کیا گیا،اس موقع پر بزم کیف کے ڈائریکٹر جناب آصف نواز صاحب نے مہمانوں کا استقبال کیا اور بزم کیف کے مقاصد اور کارناموں پر روشنی ڈالی،بزم کے سرپرست پروفیسر اعجاز علی ارشد نے تنظیم کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی اور بزم کے حوالے سے گفتگو کی،ڈاکٹر زرنگار یاسمین صدر شعبہ اردو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی،پٹنہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اردو کا جو قبیلہ ہے اس کا رخ کوویڈ کے دنوں میں کچھ دوسری طرف ہو گیا تھا، اب ہم واپس ادب کی فضا میں لوٹ رہے ہیں، اس سلسلے میں براہ راست مکالمے کا آغاز ایک نئی شروعات ہے،معروف افسانہ نگارخورشید حیات صاحب نے  کہا کہ آج کی محفل اردو کے جو حروف ہیں ان کو نئ جہت دیتے ہیں، جناب آفاق احمد خان اور پروفیسر اعجاز علی ارشد کے علاوہ آصف نواز صاحب کی کاوشیں ضرور اہم رول ادا کریں گی، انہوں نےاپنی ایک کہانی یہ اسی کی آواز ہے، سنائی،جس کا تجزیہ پروفیسر اعجاز علی ارشد اور مشتاق احمد نوری اور ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے کیا، جبکہ مشتاق احمد نوری نے اپنا افسانہ لمبے قد کا بونا پڑھ کر سنایا جس پر پروفیسر جاوید حیات اور شمیم قاسمی نے تجزیہ پیش کیا، 
پروفسیر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ اس طرح کی مختصر ادبی محفلوں میں زیادہ سکون اور محویت کے ساتھ شعری اور نثری تخلیقات کے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے، اور قاری ایک نئے کیف سے آشنا ہو تا ہے، محفلِ میں جناب آفاق احمد اور صلاح الدین صاحب کی شرکت اردو زبان وادب کی بڑھتی ہوئی وسعت کا اشاریہ ہے،بزم کیف ایک ایسی انجمن ہے جو سیاست یا ادبی سیاست سے کوسوں دور ہے، اکثر وبیشتر ادبی بے تکلف گفتگو ہوتی ہے، اور ایسی ادبی محفلیں مہینوں یاد رہتی ہیں،محمد آصف نواز اور ڈاکٹر زرنگار یاسمین کی محبت محفل کو یادگار بنا دیتی ہے،
پروفیسر جاوید حیات نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ بزم کیف ہے جہاں کیف بھی ہے اور سرور بھی،فکر کی جوانی بھی ہے، آج کی اس مخصوص مگر غیر رسمی مجلس ہماری زندگی کی ترجمان ہے، جہاں آفاقیت بھی ہے اور شعر وادب کی اعجاز بھی ہے، 
جناب آفاق احمد خان نے کہا کہ مجھے یہاں آکر بہت خوشی ہوئی، کیونکہ ایسے کئ لوگ ہیں جنہیں میں نے دیکھنے کی تمنا کی تھی ان سے ملاقات ہوئی اور ان کو سننے کا موقع ملا، خالص سیاسی آدمی ہونے کے باوجود میں بہت شوق سے پہلی بار ایک خالص ادبی نششت میں اتنی دیر تک سکون سے بیٹھا رہا، میں اپنے آپ کو کیف میموریل ٹرسٹ سے جوڑتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ اگلی نششت میری سرکاری رہائش گاہ پر ہو، اس کی تائید سبھی حاضرین نے کی،
اس موقع پر ایک مختصر مگر اہم شعری نششت بھی منعقد ہوئی، جس میں موجود شعراء نے اپنے منتخب کلام سے سامعین کو محفوظ کیا،
محبتوں کا جس دن سے سلسلہ ٹوٹا
نہ ہم سکوں میں ہیں ارشد نہ وہ قرار میں ہیں،
اعجاز علی ارشد
سخت سے سخت جان ہو جانا
ٹوٹنا مت کمان ہو جانا
شمیم قاسمی
تم اپنے منصب ومحراب کے شکار ہوئے
ہم اس حصار سے نکلے تو زرنگار ہوئے 
زرنگار یاسمین 
زنبیل میں مری 
بھیگی بھیگی سی 
تحریر تمہاری 
جسم پر 
سنہری پوشاک 
مسلسل گونجتی رہتی ہے
ہر لمحہ 
چہار سمت 
اک تری ہی آواز 
خورشید حیات
اخیر آصف نواز نے تمام مہمانوں کو شکریہ ادا کیا،

مواقع کا صحیح استعمال ___

مواقع کا صحیح استعمال ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ  
 فیفا ورلڈ کپ کی دھوم اس وقت پوری دنیا میں ہے، اس کے قبل بھی فیفا کے ورلڈ کپ کا انعقاد ہوتا رہاہے، اور کھیل کے شوقین لوگوں کی دلچسپیوں کی وجہ سے اس کھیل نے مقبولیت کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے، لیکن اس بار اس کھیل کے ساتھ اور بھی کئی ایسی چیزیں جڑ گئی ہیں، جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالیا۔
 فیفا(FIFA)فرنچ زبان کے لفظ Fédération Internationale de Football Association کا مخفف ہے ، جس کا مطلب ہے”انٹرنیشنل فیڈریشن آف فٹ بال ایسوسی ایشن “ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، اس کا آغاز ۰۳۹۱ءمیں ہوا، اور اس کے ذریعہ ہر چار سال پرعالمی فٹ بال کپ کے لیے بین الاقوامی مقابلہ ہوا کرتا ہے، ۲۴۹۱ءاور ۶۴۹۱ءمیں دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے اس کھیل کا انعقاد نہیں کیا جا سکا تھا۔
 اس عالمی فٹ بال مقابلہ کے لیے میزبانی کا شرف بھی ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتا، فیفا نے اس کے لیے ایک معیار مقرر کر رکھا ہے ، اس معیار کو پورا کرنے کے بعد بھی ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے، اوراس میں کامیابی کے بعد اگلے میزبان ملک کا اعلان کیا جاتا ہے، قطر پہلا اسلامی ملک ہے جس کو ۲۲۰۲ءکی فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا موقع ملا ہے۔ قطر ایک چھوٹا ملک ہے، اس کا رقبہ صرف ۶۸۵۱۱ مربع کیلو میٹر اور آبادی تیس (۰۳)لاکھ سے بھی کم ہے۔ ۰۱۰۲ءمیں فیفا کی مجلس منتظمہ نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کے مقابلے قطر کو چودہ میں سے آٹھ ووٹ دے کر میزبانی کا اعلان کیا تھا اور قطر نے اسے قبول کر لیا تھا۔
اس مقابلہ میں شرکت کے لیے کسی بھی ملک کی ٹیم کو کوالی فائی کرنا ضروری ہے ،قطر کی فٹ بال ٹیم نے کبھی کوالی فائی نہیں کیا تھا، اس طرح اسے کبھی بھی ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع نہیں ملا تھا، اس بار چوں کہ وہ خود میزان ہے، اس لیے فیفا کے ضابطہ کے مطابق اسے کوالی فائی کی قید سے مستثنیٰ رکھا گیا اور اس نے پہلی بار پہلے دن ہی مقابلہ میں شرکت کیا، لیکن اس کوایکواڈور سے شکست ملی اور مقابلاتی دوڑ سے باہر ہو گیا، جس کا افسوس قطریوں کو ہوا، لیکن جب سعودی عرب کی ٹیم نے کئی بار کی چمپین ارجنٹائنا کو شکست سے دو چار کر دیا تو پوری عرب دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سعودی عرب کی یہ ایسی جیت تھی، جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔
 قطر کی ٹیم مقابلہ میں ہار گئی، لیکن وہاں کی حکومت نے اس بین الاقوامی کھیل کا دعوتی رخ دینے میں کامیابی حاصل کر لی اور اس کی وجہ سے قطر عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بن گیا، خصوصا ایسے وقت میں جب سعودی عرب میں اسلامی اقدار دھیرے دھیرے ختم کیے جا رہے ہیں، قطر نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
 قطر نے اپنا بڑا سرمایہ فیفا ورلڈ کپ کے معیار کے مطابق اسٹیڈیم، ہوٹل، سڑک وغیرہ کی تعمیر پر لگایا، ہزاروں کی تعداد میں مزدور کئی ممالک سے لائے گئے اور انہیں کام پر لگایا گیا، جنگی پیمانے پر اس کام کی انجام دہی میں کئی مزدوروں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، لیکن قطر نے اپنا تعمیراتی کام جاری رکھا اور وقت سے پہلے ساری تیاریاں مکمل کر لیں اور جائزہ ٹیم نے اس کے حسن انتظام پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
 مغربی ممالک نے جب پہلی بار قطر کو فیفا کی میزبانی بخشی تو ان کی ترجیحات یہ تھی کہ پوری دنیا کے شائقین جب اپنی تہذیب وکلچر کے ساتھ وہاں پہونچیں گے تو قطر کی تہذیب خاصی متاثر ہوگی اور وہاں مغربی تہذیب افکار وخیالات کے نفوذ کے دروازے کھلیں گے، لیکن قطر میں شیخ تمیم کی حکومت نے اس موقع کا استعمال اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے کرنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی، اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اٹھائیس دن کے کھیل کے لیے اپنا دین ومذہب نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم اسلامی تہذیب وثقافت سے کوئی سمجھوتہ کریںگے، اس فیصلہ کے نتیجے میں قطر نے اعلان کیا کہ یہاں ہم جنسی سے جڑے لوگ اور تنظیموں کا داخلہ ممنوع ہوگا، اس نے اس جہاز کو بھی اپنے ملک سے واپس کر دیا جس پر ایل جی پی ٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا، اس نے طے کیا کہ فیفا ورلڈ کپ کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے ہوگا اور اس کے لیے اس نے ایک ایسے قاری غانم المفتاح کا انتخاب کیا جو کمر سے نیچے معذور تھا، اسے فیفا عالمی کپ کے ایمسیڈرکے طور پر متعارف کرایا گیا،اس طرح ہم جنسی کے مقابلے قطر نے معذوروں کو آگے بڑھانے کا کام کیا جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔اس نے دعوتی کاموں کے لیے ہندوستان سے باہر جلا وطنی کی زندگی گذاررہے ڈاکٹر ذاکر نائک کو بھی قطر بلا لیا، اسٹیڈیم میں شراب لے جانے، پینے، عریاں کپڑے پہن کر داخل ہونے پر بھی پابندی لگائی، اسٹیڈیم کے قریب نمازوں کی جماعت کا اہتمام کروایا، پوری دنیا سے آئے مہمانوں کے درمیان اسلام کے تعارف کے لیے ڈاکٹر ذاکر نائک کے خطابات رکھے، دعوت وتبلیغ سے وابستہ افراد کو اس کام پر لگا دیا، اسٹیڈیم، سرکاری راہداری، سڑکوں اور مختلف مقامات پر اسلامی تعلیمات کے بڑے بڑے بورڈ ، ہوڈنگ اور اسٹیکر س لگائے گیے ، عربی کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ دیا گیا تاکہ غیر ملکی لوگ اس کو سمجھ سکیں، با خبر ذرائع کے مطابق ان تمام طریقہ کار کو بروئے کار لانے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ مشرف باسلام ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اسے کہتے ہیں ایمانی فراست کے ساتھ مواقع کا صحیح دعوتی استعمال۔ مغرب کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ قطر اس عالمی کپ مقابلہ میں یہ سب کر گذرےگا، اس لیے اب فیفا کی مجلس منتظمہ اور اس کے ذمہ دار کو اس کا افسوس ہے ،جس کا اظہار صدر نے ایک انٹرویو میں کر بھی دیا ہے۔

منگل, دسمبر 06, 2022

حضرت سید شاہ نورالدین احمد فردوسی ندوی ___

حضرت سید شاہ نورالدین احمد فردوسی ندوی ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ
خانقاہ منیر شریف کے ستائیسویں سجادہ نشیں، سمپورن وکاس دل کے سابق نائب صدر،ماہنامہ اشارہ پٹنہ کے  سابق مدیر، ہفتہ وار اخبار ہم دم پٹنہ کے بانی ومدیر اعلیٰ،  حضرت سید شاہ نور الدین احمد فردوسی منیری عرف پیارے صاحب کا 29/شعبان 1431ھ مطابق 10/اگست 2010ء روز اتوار خانقاہ منیر شریف میں انتقال ہوگیا، پس ماندگان میں اہلیہ، دولڑکے سید شاہ طارق عنایت اللہ، سید شاہ ایمن اور چھ لڑکیاں اور دو نامور بھائی علوم عربیہ ودینیہ کے ممتاز عالم مولانا تقی الدین ندوی فردوسی دامت برکاتہم اورعلی احمد فردوسی کو چھوڑا، تدفین چھوٹی درگاہ منیر شریف میں مقبرہ سے جانب جنوب بڑے چبوترے پر والدہ ماجدہ کے بغل میں ہوی۔
حضرت سید شاہ نور الدین احمد فردوسی بن سید شاہ عنایت اللہ فردوسی (م 1 دسمبر 1991ء) بن سید شاہ فضل حسین منیری (م 1924ء) بن سید شاہ امجد حسین (م 1921ء) حسنی ہاشمی منیری کی ولادت 18/شعبان 1351ھ مطابق 17/دسمبر1932 میں پٹنہ سیٹی کے صدر گلی میں ہوئی، مکتب کی تعلیم خانقاہی روایت کے مطابق اپنے بزرگو ں سے حاصل کی، عربی وفارسی کی تعلیم اپنے چچا حضرت شاہ مراد اللہ فردوسی منیریؒ سے پائی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ عالیہ کلکتہ میں داخلہ لیا اور مروجہ علوم وفنون میں درک پیدا کیا، دینی تعلیم کے بعد عصری علوم کی طرف متوجہ ہوئے، منیر ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد بی این کالج پٹنہ سے انٹر اور بی اے کیا، علی گڑھ یونیورسیٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کرنے لگے، اجازت وخلافت والد ماجد سے حاصل تھی، ان کے وصال کے بعد خانقاہ کے سجادہ نشیں مقرر ہوئے اور بیعت وارشاد کا سلسلہ شروع کیا، آپ خانقاہ منیر کے چودہ سلاسل اور سلسلہ تاج فقیہی میں اپنے مریدوں سے بیعت لیتے تھے اور ان سلاسل کی تعلیم اور اوراد ووظائف کی تلقین کیا کرتے تھے۔
تصوف کا مطلب حضرت کے یہاں رہبانیت اور علائق دنیا سے دوری نہیں تھی، اس لئے منیر شریف خانقاہ کی وقف زمینوں کی حفاظت کے لئے آپ کی آمد ورفت عدالت میں بھی تھی اور سیاست سے بھی شغف تھا، چنانچہ جب رنجن پر سادیادو نے اپنی پارٹی سمپورن وکاس دل بنایا تو آپ اس کے نائب صدر منتخب ہوئے، بہار کی قدآور سیاسی شخصیت جے پرکاش ناراین اور مہامایا بابو وغیرہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
سیاست کے ساتھ صحافت سے بھی آپ کی اچھی خاصی دلچسپی تھی، زمانہ دراز تک ماہنامہ اشارہ پٹنہ کے ایڈیٹر رہے، بعد میں اپنا ہفتہ وار اخبار ہم دم نکالنا شروع کیا، جس نے ملک وملت کے مختلف سلگتے ہوئے مسائل میں عمدہ رہنمائی کی، آپ شاعری بھی کیا کرتے تھے، کبھی کبھی جب طبیعت موزوں ہوتی تو کچھ اشعار کہہ لیا کرتے تھے، جو سب کے سب محفوظ نہیں رہے، کچھ اشعار موجودہ سجادہ نشیں اور ان کے صاحب زادے طارق عنایت اللہ فردوسی نے تذکرہ مخدومان منیر میں جمع کردیا ہے، ان کے احوال بھی بڑی حد تک اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
آپ کی شادی حافظ سید شاہ منظور احمد کی صاحب زادی سے ہوئی تھی، جو الحمد للہ ابھی بقید حیات ہیں، حضرت سید شاہ نور الدین فردوسی سے میری ملاقات قدیم تھی، الحاج محمد سلیم مرحوم ہوٹل ڈیزی، دریاپور، سبزی باغ پٹنہ ان کے معتقدوں میں تھے، ان کا آنا جانا وہاں لگا رہتا تھا، ان کے ساتھ میری پہلی بار خانقاہ میں حاضری ہوئی تھی، حضرت نے خود ہی تمام مقامات دکھائے اور ان کی تاریخی حیثیت بتائی تھی، پھر اس کے بعد کئی بار میرا خانقاہ جانا ہوا، جب میری کتاب ”تذکرہ  مسلم مشاہیر ویشالی“ چھپ کر آئی اور ان کی خدمت میں پیش کیا تو بہت خوش ہوئے، فرمایا کہ آپ مولویوں کی تواضع بھی عجیب ہوتی ہے، ویشالی کی اس تاریخ کو تذکرہ کا نام دے کر اس کے علمی مقام کو آپ نے کم کردیا ہے، کتاب کا نام تاج فقیہی سلسلہ کے ایک شخص کے نام تھا، اس کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا اور دیر تک حضرت تاج فقیہؒ کے احوال وآثار پر گفتگو کرتے رہے، یہ میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب ساری عمارتیں خانقاہ کی فقیرانہ انداز کی اور مٹی کی تھیں، اب بھی خلوت اور سجادہ نشیں کی نششت اپنی قدیم حالت پر ہے، بقیہ عمارتوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے، اب ان عمارتوں کو دیکھ کر فقیر کی کٹیا نہیں، شاہانہ قصر کا احساس ہوتا ہے، جن خانقاہوں میں پیری مریدی کے ساتھ تعلیم، تدریس اور تحقیق کا کام ہوتا ہے، خانقاہ منیر شریف ان میں سے ایک ہے، سید شاہ نور الدین احمد فردوسی اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، اس خانوادہ کے چشم وچراغ اور علمی دنیا کے آفتاب وماہتاب  حضرت مولانا تقی الدین ندوی فردوسی دامت برکاتہم مجھ سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں، انہوں نے میری کتاب ”نئے مسائل کے شرعی احکام“  جس کا عربی ترجمہ ”المسائل المستجدۃ فی ضوء الاحکام الشرعیۃ“ کے نام سے مطبوعہ ہے، اس پیرانہ سالی میں نظر نہائی ڈال کر احقر پر احسان کیا،عربی میں اس پر قیمتی مقدمہ لکھا، آج بھی ان کے الطاف وعنایات کا سلسلہ جاری ہے، ان کے ایک دوسرے بھائی علی احمد فردوسی ہیں، جنہوں نے  ہمدرد یونیورسٹی دہلی سے سبکدوش ہوکر پٹنہ میں ہی بود وباش اختیار کرلیا ہے، وفاق المدارس سے چند ملحق مدارس کی اسناد کو منظور کرانے میں وہ بڑے معاون ثابت ہوئے۔
سید شاہ نور الدین احمد فردوسی رح کے والد سید شاہ عنایت اللہ فردوسیؒ نے امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کا نکاح پڑھایا تھا، اس طرح دیکھیں تو کئی پشتوں سے اس خانوادہ کا تعلق امارت شرعیہ اور اکابر امارت شرعیہ سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہا ہے، اس تعلق کی وجہ سے حضرت شاہ صاحب کے جنازہ میں بڑی بھیڑ تھی احقر بھی گردارہ کے طورپر شریک جنازہ ہوا تھا، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ حضرت شاہ صاحب کے درجات بلند کرے اور خانقاہ کے فیض کو ہمیشہ جاری رکھے، ہمارے مخلص بزرگ حضرت مولانا تقی الدین ندوی فردوسی کو صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے۔ آمین

پیر, دسمبر 05, 2022

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتماماشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی

اشرف استھانوی کیلئے قرآن خوانی ودعائیہ مجلس کا اہتمام
اردو دنیا نیوز ٧٢
اشرف استھانوی کی خدمات ناقابل فراموش، انہوں نے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی:عالم قاسمی
پٹنہ:بہار کے سینئر، مشہور اور بے باک صحافی اشرف استھانوی مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی اور دعائیہ نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس موقع پر حاضرین نے قرآن پاک کی تلاوت کرکے ان کیلئے ایصال ثواب اور ان کی مغفرت کی دعائیں کی۔ در یاپور جامع مسجد کے امام وخطیب ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی نے دعا کرائی، انہوںنے دعا سے قبل اپنے مختصر خطاب میں جناب اشرف استھانوی کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے بلندی درجات کیلئے دعائیں کیں۔ انہوں نے کہاکہ ان کے اندر تین بڑی خوبیاں تھیں، پہلی خوبی یہ تھی کہ وہ بے باک اور حق گو صحافی تھے۔ انہوں نے جس بات کو سچ سمجھا اسے بے خوف وخطر ہوکر لکھا اور کسی کی پرواہ نہیں کی، دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی علمائے کرام اور دینی اداروں کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم وزبان سے دینی اداروں کو تقویت پہنچائی، تیسری خوبی یہ تھی انہوں نے جو کچھ کیا وہ ذاتی مفاد سے بلند ہوکر کیا، وہ نئی نسل کی آبیاری اور تربیت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ اللہ انہیں اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور جنت کا مکین بنائے۔نوشاد عالم نے ان سے متعلق یادوں کو شیئر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے میرا گہرا تعلق تھا، وہ مجھے جب جس کام کیلئے بولتے میں ہمیشہ تیار رہتا تھا، میں نے انہیں ہمیشہ مخلص اور وفادار پایا۔ صحافی کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہترین اور باکردار انسان تھے، ان کے انتقال سے بہار کی اردو صحافت میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نورالسلام ندوی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مرحوم اردو زبان اور اردو صحافت کے بے لوث خادم تھے، انہوں نے پوری زندگی قلم وقرطاس کی آبیاری میں گذاری۔ اردو زبان اور صحافت کے تعلق سے ان کے کارنامے لائق ستائش ہے، ان کو نئی نسل سے بڑی محبت تھی اور وہ ہمیشہ نئے لکھنے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور قدر کیاکرتے تھے۔ قاری ایاز احمدنے کہاکہ اشرف استھانوی ملی وسماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے، وہ دینی اداروں کی ترقی اوراس کو آگے بڑھانے کیلئے فکر کیا کرتے تھے،ان کوجامعہ مدنیہ سبل پور اور اس کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم مرحوم سے بڑی محبت تھی۔ وہ ایک متحرک ، فعال اور سرگرم صحافی اور سماجی کارکن تھے، اردو کیساتھ ساتھ ہندی میں بھی صحافت کیا کرتے تھے۔ یحیٰ فہیم نے کہاکہ مرحوم میرے محسن تھے، وہ ہمدرد اور مخلص انسان تھے، ان کو مجھ سے بڑی محبت تھی اور ان کی بہت ساری کتابیں میں نے کمپوز کی ہے، وہ جس سے کام لیتے تھے تو اس کا معقول معاوضہ بھی دیا کرتے تھے۔ ضیاء الحسن نے کہاکہ وہ بے باک صحافی تھے انہوںنے اپنی صحافت کے ذریعہ اردو صحافت کو وقار واعتبار بخشا، انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے اور اردو رسالے اور جرائد ان کے اوپر خصوصی گوشہ شائع کیاکرے۔
اس موقع پر عارف اقبال صحافی، احمد علی ، مبین الہدیٰ، مولانا محمد سعد قاسمی، حافظ عرفان دلکش، محمدمہزادوغیرہم نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نئے ٹی این سیشن کی ضرورت  __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمہوریت میں صاف ستھرے انتخابی عمل کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اقتدار تک پہونچنے کا صدر دروازہ یہی ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، ای وی ایم میں ادلا بدلی اور بٹن کے سسٹم پر بھی لوگوں کی نظر رہی ہے، ووٹ کسی کو دیں، آپ کا ووٹ کسی خاص پارٹی کو منتقل ہوتے رہنے کی روایت میں کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی صداقت کا سراغ بھی لوگوں نے لگا رکھاہے ، انتخاب کے وقت سارے اختیارات انتخابی کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں، یہ اختیارات اس قدر مضبوط ہیں کہ انتخابی کمیشن کا سر براہ بتادلہ اور دوسری جگہ بحالی کے عمل کو بھی کر گذر سکتاہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اختیارات انتہائی وسیع ہیں، وہ نتیجہ انتخاب کو روک سکتا ہے ، دو بارہ گنتی کا حکم دے سکتا ہے ، گنتی کرنے والے عملہ کو اس عمل سے باہر کر سکتا ہے ، اب اگر انتخابی عمل کو انجام دینے والا مرکزی افسر جسے الیکشن کمشنر کہا جاتا ہے ، خود ہی صاف ستھرا نہ ہو، حکومت کے چشم وابر وپر کام کرنے والا ہو اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ بھی جاگزیں ہو کہ سبکدوشی کے بعد کسی دوسرے اعلیٰ عہدے پر ہمیں فائز ہونا ہے تو انتخابی عمل پر اس کے اثرات پڑتے ہیں اور وہ الیکشن کمشنر نہیں پی ام او آفس کا اردلی بن کر کام کرنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار واعتماد الیکشن کمیشن سے اٹھ جاتا ہے ، حکومت اس معاملہ میں اس قدر دخیل ہوگئی ہے کہ ۲۰۰۷ء کے بعد الیکشن کمیشن کی مدت کار مختصر ہوتی چلی گئی ہے، پہلے یہ مدت چھ سال کی تھی ، اب یہ سمٹ کر پانچ سال رہ گئی ہے ۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت نے چیف الیکشن کمیشن کے عہدے پر ارون گوئل کی تقرری کی ہے ، تین دن قبل انہیں رضا کارانہ سبکدوش ہو جانے کو کہا گیا اور تین دن بعد الیکشن کمیشن کے عہدے پر ان کی تقرری عمل میں آگئی، حالاں کہ عرضی گذار پر شانت بھوشن نے پہلے ہی عدالت میں معاملہ درج کرا رکھا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر جج کے ایم جوزف نے سماعت کے دوران حکومت کے وکیل سے بڑے چھبتے ہوئے سوالات کیے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس قدر جلدی کیا تھی، جب معاملہ عدالت مین زیر غور تھا ، انہوں نے رولنگ دیا کہ اگر الیکشن کمشنر ، کمزور اور گھنے ٹیکنے والا ہوگا تو سارے سسٹم کا بریک ڈاؤن ہوجائے گا، ملک کو ایسے الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کا دم خم رکھتا ہو، الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، اسے اسی طرح کا کمشنر چاہیے۔ فاضل جج نے اس موقع سے دسویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کی انتخابی اصلاحات کے حوالہ سے تعریف وتوصیف کی، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اور ایک با اصول ، سخت مزاج ، بے خوف اور ایماندار کمشنر کی ایسی شبیہ پیش کی تھی کہ انہیں انتخابی اصلاح کے لیے آج تک یاد کیا جاتا ہے، بلکہ الیکشن کمنشر کے اختیارات اور حدود کا پتہ پہلی بار لوگوں کو چلا، ان کے دور میں تین الیکشن کمشنر کو ان پر مسلط کیا گیا کہ وہ ان کے مشورے سے کام کریں، لیکن اس کی وجہ سے بھی ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا، آج بھی انتخابی اصلاحات اور اسے غیر جانب دارانہ بنائے رکھنے کے لیے ایک نئے ٹی این سیشن کی ضرورت ہے ارون گوبل ٹی این سیشن نہیںبن پائیں گے ، جس طرح ان کی تقرری عمل میں آئی ہے، اس سے تو ایسا ہی معلوم پڑتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر

اسلامی کیلنڈر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...