Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 10, 2022

دعتی کا کوئی عمل قبول نہیں شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔

بدعتی کا کوئی عمل قبول نہیں 
اردو دنیا نیوز٧٢
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی 
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار ۔
مسلمانو کبھی نہ چلنا راہ بدعت پر
بدعت کی تعریف ۔
ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھۃ :  (در مختار ، حاشیہ شامی)
ترجمہ ۔ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے معروف و منقول ہے اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا ضد و عناد کے ساتھ نہیں بلکہ کسی شبہ کی بنا پر ۔
اور علامہ شامی نے علامہ شمسی سے اس کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے :
ما ا حدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ ﷺ  من علم أو عمل أ و حال بنوع شبھۃ واستحسان و جعل دینا قویما وصراطا مستقیما ؛
ترجمہ ۔ جو علم ، عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ  سے منقول ہے کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بنا پر اور پھر اسی دین قویم اور صراط مستقیم بنالیا جائے وہ بدعت ہے ۔ خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو طریقۂ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ  ﷺ  سے نہ قولا ثابت ہو، نہ فعلا ، نہ صراحتاً ، نہ دلالۃ ، نہ اشارۃ ۔ جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے بلکہ بزعم  خود ایک اچھی بات اور کار ثواب سمجھ کر اختیار کرے ۔ وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے ۔
بدعت کی قسمیں ۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ شرعیہ ،  دوسری بدعتِ لغویہ۔  بدعتِ شرعیہ یہ ہے کہ ایک ایسی چیز کو دین میں داخل کر لیا جائے جس کا کتاب و سنت ،  اجماعِ امت اور قیاس مجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو یہ بدعت ہمیشہ بدعتِ سیئہ ہوتی ہے اور یہ شریعت کے مقابلے میں گویا نئ شریعت ایجاد کرنا ہے ۔
بدعت کی دوسری قسم وہ چیزیں ہیں جن کا وجود رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں نہیں تھا جیسے ہر زمانے کی ایجادات ‌۔  ان میں سے بعض چیزیں مباح ہیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر کرنا وغیرہ اور ان میں جو چیز یں کسی اور مستحب کا ذریعہ ہوں وہ مستحب ہوں گی جو کسی امر واجب کا ذریعہ ہوں وہ واجب ہوں گی مثلاً صرف و نحو وغیرہ علوم کے بغیر کتاب و سنت کو سمجھنا ممکن نہیں اس لئے ان علوم کا سیکھنا واجب ہوگا اسی طرح کتابوں کی تصنیف مدارسِ عربیہ کا بنانا چونکہ دین کے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ ہیں اور دین کی تعلیم و تعلم فرض عین یا فرض کفایہ ہے تو جو چیزیں کہ بذات خود مباح ہیں اور دین کی تعلیم کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں وہ بھی حسبِ مرتبہ ضروری ہوں گی ان کو بدعت کہنا لغت کے اعتبار سے ہے ورنہ یہ سنت میں داخل ہیں ۔
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ھدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہیں اور امت کی صلاح و فلاح  ان کی پیروی و  پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لئے گمراہ ہوئیں کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا ۔ اعتقادات،  اعمال ،  اخلاق اور جذبات وغیرہ کے بارے میں انسانوں کو جس مثبت یا منفی ہدایت  ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر ) کی ضرورت ہے یقیناً کتاب اللہ اور سنتِ نبوی و طریق محمدی اس کے پورے کفیل ہیں اس کے بعد گمراہی کا ایک دروازہ جاتا ہے کہ اللہ و رسول اللہ ﷺ نے جن باتوں کو دین قرار نہیں دیا ان کو دین کا رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور قرب و رضائے الہی اور فلاح اخروی کا وسیلہ  سمجھ کر اپنا لیا جائے دین کے رہزن شیطان کا سب سے خطرناک جال یہی ہے اگلی امتوں کو اس نے زیادہ تر اسی راستہ سے گمراہ کیا ہے مختلف امتوں کے مشرکوں میں بت پرستی عیسائیوں میں تثلیث اور حضرت مسیح کی انبیت و ولدیت اور کفارہ کا عقیدہ اور احبار و رہبان کو اربابا من دون اللہ بنانے کی گمراہی یہ سب اسی راستے سے آئی تھیں اور رسول اللہ ﷺ پر منکشف کیا گیا تھا کہ اگلی امتوں میں جو گمراہیاں آئی تھیں وہ سب آپ کی امت میں بھی آئیں گی اور انہیں راستوں سے آئیں گی جن سے پہلی امتوں میں آئی تھیں اسی لئے آپ اپنے مواعظ و خطبات میں بار بار یہ آگاہی دیتے تھے بس کتاب اللہ اور میری سنت کا اتباع کیا جائے صرف وہی حق و ہدایت ہے اور اسی میں خیر و فلاح ہے اور محدثات و بدعات سے اپنی اور دین کی حفاظت کی جائے بدعت خواہ ظاہری نظر میں حسین وجمیل معلوم ہو فی الحقیقت وہ صرف ضلالت اور ہلاکت ہے ۔
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے  اپنے مکتوبات میں  فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعت کو دو خانوں  ( بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ )  میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑے علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے  اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے ۔
کام  خواہ کتنا ہی بہتر اور نیک کیوں نہ ہو اگر سنت کے مطابق  نہیں تو و ہی بد سے بدتر ہے روزے نماز عبادت خدا کوئی بری چیز نہیں لیکن جب یہ خلاف سنت ہوں تو ان کی وجہ سے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی بیزاری ہو جاتی ہے  یہ جو آج کل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صاحب تیجے میں کیا حرج ہے؟ اللہ کے نام کا دینا ہی ہے میلاد میں کیا حرج ہے ؟ذکر اللہ ہی تو ہے تعزیہ داری میں کیا حرج ہے؟ نواسۂ رسول اللہ ﷺ کی عزت و عظمت کا اظہار ہی تو ہے یہ یاد رکھیں کہ گو کام کتنا ہی اچھا اور بالکل ہی عمدہ کیوں نہ ہو چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اس لئے بد سے بدتر ہے ان کاموں کے کرنے والے قیامت کے دن امت رسول میں شمار کئے جائیں گے اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ حضور صلی اللہ ﷺ کے بعد کسی کام کو دین میں نکالنا نہایت ہی برا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی پکڑ کے بعد ان کو شفاعت رسول خدا بھی میسر نہیں ہونے کی حالانکہ اور گناہگار شفاعت سے چھوڑ دئیے جائیں گے لیکن بدعتیوں سے خود رسول خدا ﷺ بیزار ہو جائیں گے اور صاف فرما دیں گے ان کا منہ جلاؤ اور انہیں میرے سامنے سے ہٹاؤ جنہوں نے  میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا تھا 
رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی قبول نہیں کرتا صاحب بدعت ( یعنی بدعتی )  سے روزہ نہ نماز نج زکوۃ نہ خیرات نہ حج نہ عمرہ نہ جہاد اور بدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے (ابن ماجہ) 
بدعتی کا اللہ تعالی نماز روزہ اور کوئی عمل اس لئے قبول نہیں کرتا کہ بدعتی خانہ ساز مسئلے بنا کر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا مقابلہ کرتا ہے حضور ﷺ  بھی خدا کی وحی سے کار ثواب بتائیں اور مقابلہ میں بدعتی بھی مسئلے بناۓ اور کار ثواب جاری کرے اس نبوت کا مقابلہ کرنے والے  بدعتی کا اللہ کوئی عمل قبول نہیں کرتا اس پر خدا کا قہر آتا ہے وہ مردود ہو جاتا ہے شرک نہ  اللہ اپنی ذات میں برداشت کرتا ہے اور نہ حضور ﷺ  کی رسالت میں خدا کی قولی بدنی اور مالی عبادت میں شرک کرنے سے سب اعمال حبط اور برباد ہو جاتے ہیں اور بدعت پر عمل کرنے سے اللہ بدعتی کا کوئی نیک کام قبول ہی نہیں کرتا تو مشرک اور بدعتی اگر ہزار سال کی عمر پاۓ اور ہزار سال تک نمازیں پڑھے سینکڑوں روزے رکھے حج کرے ہر سال زکوۃ دے کروڑ وں روپے خیرات کرے تہجد اشراق بھی پڑھتا رہے مر کر دوزخ میں جائے گا  ( اگر بلا توبہ مر گیا) الحاصل ترک سنت اکبر الکبائر گناہ ہے اور  فعل  بدعت اس سے بھی بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے تو ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ شرکیہ عقیدوں اور عملوں کو جانے بوجھے اور ان سے تازیست بچے اور بدعت کے کاموں کو بھی معلوم کرے کہ کون کون سے ہیں پھر ان سے حذر کرے

جمعہ, دسمبر 09, 2022

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔

پیام انسانیت کے کاموں کو ابنائے ندوہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں۔
اردو دنیا نیوز ٧٢
11/دسمبر کو مدرسہ شمس الہدیٰ کے احاطہ میں پیام انسانیت فورم کے تحت لگنے والے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اسے کامیاب بنانے کیلئے تنظیم ابنائے ندوہ سرگرم۔

پٹنہ:(پریس ریلیز )مدرسہ محمدیہ نیو عظیم آباد کالونی کے مہتمم اور جامع مسجد پیر بہور کے امام و خطیب مولانا ثناءاللہ ندوی ازہری کی قیام گاہ پر تنظیم ابناء ندوہ بہار کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی۔ جسمیں شرکاء نے اس بات کا اظہار کیا کہ تنظیم ابنائے ندوہ بہار تحریک ندوہ کے ضمن میں قائم ہونے والے ملی سماجی و علمی اداروں کے فروغ کو اپنے مشن کا حصہ سمجھتی ہے۔ چنانچہ  تحریک پیام انسانیت کے تحت مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے احاطہ میں مورخہ 11/دسمبر کو منعقد ہونے والے بلڈ ڈونیشن و فری میڈیکل کیمپ کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں تنظیم ابنائے ندوہ سرگرمی کے ساتھ مہم چلارہی ہے۔ تنظیم کے ذمہ داران نے ملت کے نوجوانوں سے بالعموم اور ابنائے ندوہ سے بالخصوص اپیل کی ہے اس کیمپ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہونچ کر غریب مریضوں کی امداد میں اپنے خون کا عطیہ دیکر انکی جان بچانے میں معاون بنیں۔ اور بے سہاروں کا سہارا بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام انسانیت کو فروغ دینے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقاء و تحفظ میں اپنا کردار اداکرکے مثال پیش کریں۔
اس موقعہ پر لکھنؤ سے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے کہا کہ اس کیمپ کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کامیاب بنانے کیلئے پٹنہ و قرب و جوار میں موجود تنظیم کے کارکنان دو دو چار چار نوجوانوں کو خون کے عطیہ کیلئے تیار کرکے اپنے ساتھ لیکر کیمپ میں پہونچیں۔ تاکہ بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی خدمت اور غریب مریضوں کی جان بچانے کا ذریعہ بن کر سکون حاصل کرسکیں۔
مولانا غلام سرور ندوی نے کہا کہ گذشتہ ماہ پیام انسانیت کے اجلاس کے موقعہ پر تنظیم ابنائے ندوہ  کے کارکنان کے ساتھ میٹنگ میں تحریک پیام انسانیت کے روح رواں حضرت مولانا بلال حسنی ندوی صاحب نے پیام انسانیت کے پیغام اور مشن کو تحریک ندوہ کی فکر کا حصہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کام ملت کے ہر فرد کو اپنا کام سمجھ کر کرنا چاہئے۔ آجکے ملکی حالات میں نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کیلیے یہ ایک بہترین راستہ ہے۔ اور ابنائے ندوہ کو خاص طور پر اس مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔میٹنگ میں ڈاکٹر نورالسلام ندوی اور حافظ مولانا عارف نثار ندوی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے سے مستفید کیا،میٹنگ میں تنظیمی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کی فعالیت پر زور دیا گیا،

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __

جنسی بے راہ روی کی بد ترین صورت __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مغربی تہذیب وثقافت سے جو چیز ہم نے بر آمد کی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے، ان میں ایک ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ ہے، لڑکے، لڑکیوں کا ایک ساتھ ایک کمرہ میں رہنا اور ہر طرح کی بے راہ روی سے گذرنا ریلیشن شپ لوازمات میں سے ہے، یہ لیو ان ریلیشن شپ جس عمر کے بھی لڑکے لڑکیوں کو درمیان ہو، نہ عدالت کو اس پر اعتراض ہے اور نہ حکومت کو ، اعتراض ہے تو کم عمر بالغ لڑکے لڑکیوں کے نکاح پر ، کیرالہ ہائی کورٹ اسے پاکسو (PAXO)ایکٹ کے تحت ڈالنے پر مصر ہے، جب کہ دوسرے کئی ہائی کورٹ کا پہلے سے فیصلہ موجود ہے کہ مسلم پرسنل لا اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتا، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان کو اس صورت حال پر سخت تشویش کا سامنا ہے، تفہیم شریعت کے ایک ورک شاپ میں بورڈ کی خاتون ممبر مونسہ بشریٰ نے بہت صحیح کہا کہ’’ہندوستان میں ایسے قوانین بنائے جا رہے جہاں ایک عورت کو رکھیل تو بنا کر رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کو عزت کے ساتھ بیوی بنا کر رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
لیو ان ریلیشن شپ کے مضر اثرات میں جنسی بے راہ روی کے علاوہ ہوس پوری ہونے کے بعد قتل کے واقعات بھی سامنے آر ہے ہیں، ابھی تازہ واقعہ شردھا والکر کا ہے، جس کو آفتاب امین پونے والا نامی پارسی نے جسم کی طلب ختم ہونے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف جگہوں پر اس کے اعضا کو منتشر کر دیا اور اب پولیس اس کی تحقیق میں جٹی ہوئی ہے اور آفتاب کا نارکو ٹسٹ کیا جا رہا ہے، تاکہ اس کے تحت الشعور میں جو باتیں اس قتل کے حوالہ سے دبی ہوئی ہیں، انہیں ہیناٹزم کے انداز میں باہر نکالا جائے، قتل کا یہ سلسلہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ میں دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 ہندوستان جیسے ملک میں جو مختلف مذاہب اور صوفی سنتوں کی آماجگاہ رہا ہے، کبھی بھی اس قسم کی بیہودگی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا جو عالم ہم پر طاری ہے اس نے ہر بے ہودگی کو ثقافت اور کلچر کا درجہ دے  دیا ہے، جب کہ پوری دنیا میں مشرقی تہذیب وتمدن کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا رہا ہے، اس کی بقاوتحفظ کی کوشش کرنی چاہیے، بلکہ مہم چلانی چاہیے کہ ہندوستان میں یہ سلسلہ قانونی طور پر بند ہو، ورنہ اس کے نتیجہ میں جنسی بے راہ روی سے سماج، معاشرہ اور بہت سارے خاندان غلاظت کے اس دلدل میں ڈوبتے جائیں گے، جس سے باہر نکلنا ممکن نہیں ہو سکے گا، وقت رہتے ہمیں اس طوفان بلا خیز کو روکنے کی شکلوںپر غور کرنا چاہیے۔

مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

نظافت سخن (مجموعہ حمد و نعت) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مصنف :شکیل سہسرامی

،✍️مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ موبائل نمبر 7909098319

اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دیں اور احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط کے آداب وعادات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات واحسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور جب اس شاعری کو مخصوص لہجہ وفن،اور کائنات کے مالک کی شان میں کہتا ہے تو وہ حمد کہلاتا ہے، 
حمد عربی زبان کا ایک لفظ ہے،جس کے معنی‘‘تعریف‘‘ کے ہیں۔ اللہ کی تعریف میں کہے جانے والے اشعار کو حمد کہتے ہیں، حمد میں اللہ رب العزت کی تعریف، فطرت کے مناظر، اللہ کی قدرت ان سب چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، کما حقہ اللہ کی تعریف وتوصیف بیان کرنا انسانوں کو اتنی قدرت  وطاقت نہیں کہ وہ اللہ کی حمد وثناء کرسکیں لیکن اس ذات کے احسانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں وہ کلمات سکھائے جن کے ذریعہ ہم اس ذات مقدس کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہیں، اور آغاز قرآن بھی ترتیبا حمد سے کرکے یہ پیغام دیا کہ ہم اللہ کی تعریف کس طرح بیان کریں، جب یہ دنیا وجود میں نہیں آئی تھی تب بھی فرشتے اور ابلیس اللہ کی حمد وثناء کرتے تھے، اردو زبان وادب کے بھی تقریباً تمام شعراء نے اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے حمدیہ اشعار کہیں ہیں۔اور جب اس شاعری کا رخ دنیا کی سب سے محترم شخصیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتے ہے تو وہ نعت بن جاتی ہے،
اطاعت خدا اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اطاعت ہی نعت گوئی کا تقاضہ ہے ۔نعت مقدس، بابرکت اور پاکیزہ شاعری کے زمرے میں آتی ہے،
 یہ ادب کی ایک معروف مشہور ومانوس صنف ہے،
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کو نظم کے انداز میں بیان کرنا  نعت خوانی یا نعت گوئی کہلاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہا جاتا ہے۔شاعر کو اللہ رب العزت نے بہت حساس وبیباک بنایا ہے، شاعر کی تخیلاتی پرواز بہت بلند ہوتی ہے، وہ سمندر کو ایک کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت وقابلیت رکھتا ہے، پوری تاریخ کو دو سطروں میں بیان کرجاتا ہے، 
 دنیا کی ہر زبان میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھی جارہی ہے، پڑھی جارہی ہے ۔ لفط "نعت" اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے لئے مختص ہوگیاہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ، سیرت، اور زندگی کے حالات واقعات کو بیان کرنے کے لئے نعت سے زیادہ کوئی شاعری برتر نہیں۔ نعت میں شاعرسرور کونین ﷺکی ذات اقدس سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے خوبصورت الفاظ وانداز میں فن کے مکمل تقاضے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرکے اظہار محبت واطاعت کے ساتھ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ اکثر شعرا نے نعت گوئی کو باعث سعادت فخر و نجات گردانا ہے۔
شکیل سہسرامی اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ناظم ہیں،آپ کے والد صاحب کا نام مولوی عبد الوحید خاں غازی شمسی مرحوم ہے، آپ کا اصل نام محمد شکیل خان جبکہ دنیائے ادب آپ شکیل سہسرامی کے نام سے جانتی ہے، آپ کا تعلق بہار کا تاریخی شہر سہسرام سے ہے، حالیہ مقیم سمن پورہ پٹنہ، آپ سرکاری ملازمت سے وابستہ ہیں، اب تک آپ کی چار تصنیفات منظر عام پر آچکی ہیں 
1: آوارجہ : غزلوں کا مجموعہ
2:  نظافت سخن : حمد و نعت و منقبت کا مجموعہ
3:  ابر سخن : مخلوط شعری مجموعہ
4:   گلبانگ چشم و قلم :  تبصروں کا مجموعہ
جبکہ  پانچواں شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے،
آپ کی شخصیت وفن دونوں باکمال ہے ۔آپ ایک نیک صفت، حق گو، بے باکی سے اپنی باتیں خواہ وہ نثر ہو یا نظم ہو کہ جاتے ہیں ۔آپ کی تخیلاتی پرواز کے ساتھ ساتھ اصول اور فن پر بھی آپ کو اچھی دسترس حاصل ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’نظافت سخن ‘‘ ( حمد و نعت  کا مجموعہ) ١٢٠ صفحات پر مشتمل حمد و نعت ومنقبت پر ایک شاہکار تصنیف ہے ،جس کا انتساب مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے، اس کتاب کی شروعات میں مصنف عرض احوال کے ذریعہ اس کتاب کے سلسلے میں اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس توفیق وتوثيق پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس تصنیف کو اللہ کے یہاں شرف قبولیت کی دعائیں کی ہیں، ساتھ ساتھ کتاب میں شامل مضامین کا اجمالی خاکہ بہت خوبصورتی سے پیش کرکے مزید دلچسپ بنا دیا ہے،اس کتاب کو تصنیف کرنے کی غرض وغایت، اردو زبان وادب میں حمد اور نعت و منقبت کی اہمیت وضرورت ان سب کو بڑے دلچسپ پیرائے کے ساتھ بیان کرکے کتابوں میں شامل مضامین کا اچھا جائزہ پیش کیا ہے،کسی تصنیف کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کا مقدمہ اس انداز میں ہو کہ مقدمہ کے ذریعہ تصنیفی خاکہ کا علم ہوسکے ۔

کتاب سے چند حمدیہ اشعار

اس لئے دل میں ہے یہ ڈر تیرا
میں ہوں بندہ ترا بشر تیرا
میرے مولا مرے خدائے پاک
علم تیرا ہے، سب ہنر تیرا
تو طبیبوں کا ہے طبیعت خدا
ہر دوا تیری، ہر اثر تیرا

تجھ پہ ہر چیز ہے عیاں اللہ
کچھ بھی تجھ سے نہیں نہاں اللہ

تعداد کیا گناؤں میں لاکھوں ہزار کی
مخلوق بے شمار ہے پرور دگار کی
ہوتی ہے صبح وشام خدا ہی کے حکم سے
تقدیر وہی لکھتا ہے لیل ونہار کی

رلاتا وہی ہے ہنساتا وہی ہے
وہی مارتا ہے جلاتا وہی ہے

مجھے یقیں ہے کسی فکر میں نہ ڈالے گا
خدا خدا ہے کوئی راستہ نکالے گا

اسی کے حکم سے ہوگا فنا سب
اسی کے حکم سے عالم بنا ہے
اسی کا آسماں بے ستون ہے
اسی کی یہ زمین برملا ہے

اسی کے حکم سے روتا ہے بندۂ مقہور
اسی کے رحم سے عاجز بہل بھی سکتا ہے

رب العزت نے شکیل سہسرامی کو شاعری میں بہت کمال عطاء کیا ہے۔ شکیل صاحب نے حمدیہ کلام کے  تقاضوں کو مجموعی طور پر ملحوظ رکھنے کی بھر پور سعی کرتے ہوئے عجز وانکساری کے ساتھ رب کائنات کے جلال و جمال، سزا وجزا، عذاب وثواب،اور بندگی کے تقاضے کے کئ پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے اقرار واظہار کچھ ایسے دلکش وجاذب ودلچسپ انداز وبیان میں کیا ہے کہ قاری پر ایک سکینہ نازل ہونے لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہو کر اس کی عطاء اس کی رحمت اس کے کرم کا سوالی، اور اس کے قہر وغضب سے پناہ چاہ رہا ہے ۔نیز اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو قرآنی مفاہیم وتراجم کی جھلکیاں اور پہلو دیکھ سکتے ہیں، ان کے حمدیہ اشعار پر غور کریں تو 
دست قدرت میں فطری مناظر کو اللہ کی تخلیقات کو چاہے وہ سورج ہو چاند ہو زمین ہو یا آسمان ،خشکی ہو یا تری، صحرا ہوں یامیدان، گل ہوں یا خار، نظام لیل و نہار، خزاں و بہار،ہستی وپستی، چاند ستارے، دریا موج کنارے، غنچہ وگل،طوطی و بلبل، کڑ کتے بادلوں، بلند کہسار ، گرتی آبشار، برگ وثمر کا مفہوم لا کر کے شان ربوبیت کو بیان کیا ہے،۔رب کائنات کی صفات اور اسماء کا اظہاربھی بڑے عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ بڑی عمدگی سے اللہ تعالی کے اوصاف کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں

نعتیہ کلام کے چند اشعار

اللہ اللہ کس قدر اعلیٰ ہے نام مصطفیٰ
ہے صراط خیر امت احترام مصطفیٰ

احاطہ کیا کرے کوئی بھلا آقا کی رفعت کا
خدا ہی کو پتہ ہے بس محمد کی حقیقت کا

اوقات اس کے سامنے کیا بحر وبر کی ہے
یہ نعت پاک حضرت خیرالبشر کی ہے

اے حلیمہ تیری تقدیر بڑی اعلیٰ ہے
تیری آغوش نے آقا کو مرے پالا ہے

آنکھیں روشن ہوں مری صورت طیبہ ہوکر
دل دھڑکتا رہے سینے میں مدینہ ہوکر

بڑی گمرہی تھی سیادت سے پہلے
محمد کی اعلیٰ قیادت سے پہلے
سجالے تو دل کو درود نبی سے
در مصطفیٰ کی زیارت سے پہلے

بصیرت جگمگاتی ہے بصارت جگمگاتی ہے
ہر اک فرمان میں ان کی ہدایت جگمگاتی ہے

بہت رسوا ہوئے ہیں عشق میں ہم در بدر ہوکر
ہمیں رہنا ہے اب شہر نبی میں معتبر ہوکر

مری بھی آرزو پوری یہ آخری ہوجائے
در حبیب پہ اپنی جو حاضری ہو جائے

یہ کلام مومنانہ
ہے پیام مومنانہ
تھی مثال آپ اپنی
شہ دین کا گھرانہ

حسیں کتنی مدینے کی گلی معلوم ہوتی ہے
یہاں تو زندگی ہی زندگی معلوم ہوتی ہے

منقبت کے چند اشعار

ذیشان، ذی وقار ہے، ذی احتشام ہے
محبوب کردگار جو خیر الانام ہے
صبر ورضا کا درس یہ ماہ صیام ہے
ماہ صیام رحمت حق کا انعام ہے

شکیل سہسرامی نے بہت محتاط انداز میں نعت گوئی کے دائرے کو ملحوظ رکھا ہے ۔ اور نعتیہ شاعری میں ہر جہت سے فنی اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ تخیلاتی پرواز بھی بہت بلند رکھی ہے ۔ اپنے نعتیہ کلام کے ذریعہ اس بات کا واضح ثبوت دیا کہ نعت گوئی در اصل سعادت ہے، عبادت ہے، اور محبت ہے، کیوں کہ یہ وصف بھی خدائی دین ہے ۔ شکیل سہسرامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ انہوں نے" با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار" کے مصداق سنبھل سنبھل کر نعت گوئی کا حق ادا کیا ہے۔المختصر ان کے حمدیہ ونعتیہ کلام میں عشق کی چاشنی ،عقیدت ومحبت کی خوشبو ، پیار سے بھرے جذبہ کی روانی، رب کی اطاعت وبندگی کے تقاضے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اصول، در رسول پر حاضری کی تمنا وتڑپ ،فراق و ہجر کی کیفیت، مدینے میں تدفین کی آرزو،شفاعت کی طلب وغیرہ سے معمورہے ۔ انہوں نے اپنے پاکیزہ جذبات کو شعری اظہار کا وسیلہ بنا یا ہے۔  برجستگی ، سلاست روانی، فصاحت و بلاغت ان کی شاعری کا خاصہ ہے ۔شکیل سہسرامی کی شخصیت اور فن کے چند پہلوؤں پر تذکرہ وتبصرہ کیا گیا ہے،وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر ہیں، مشاعروں میں نظامت کے فریضہ کو بہت اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں، مزید انہیں اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی تصنیفات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے،ان سے براہ راست ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں

جمعرات, دسمبر 08, 2022

پڑوسی کی آہ لگی ہے پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھناہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

پڑوسی کی آہ لگی ہے 
پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 
وہ عورت میرے مکان کے قریب ہی رہتی ہے، جب ہم گھر سے نکلتے ہیں مجھےگھورتی ہے، میرا یہ یقین ہے کہ ہمیں اسی کی نظر لگی ہے،میرے اہل خانہ پریشان ہیں، اہلیہ خواب میں روزانہ گندی چیزیں دیکھتی ہے،بچے گھر آتے ہی عجیب کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، خانقاہ رحمانی مونگیر سے بھی ہم دعا درود لےکر آئے ہیں، باہر سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، گھر آتے ہی پریشانی شروع ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں سے بھی رابطہ کیا ہے،جانچ بھی کروالی ہے،ہمیں کوئی بیماری نہیں لگی ہے، ایک یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسی کی نظر لگی ہے،کوئی اچھا عامل بتائیے پلیز۰۰۰۔
مذکورہ بالا واقعہ ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے،اسمیں دو باتیں قابل غور ہیں، پہلی یہ کہ ایک غریب عورت جو موصوف کے پڑوس میں رہتی ہے شک کی سوئی اسی کی جانب گھوم گئی ہے،؟ ایک غریب پر شک کرنا اوراسے مورد الزام ٹھہرانا یہ نیا نہیں ہے،بالخصوص نظر کے معاملے میں ہمیشہ سماج کے کمزور طبقہ ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے،بسا اوقات اس کا انجام بہت بھیانک سامنے آجاتا ہے،اور اخبارکی زینت یہ خبر بن جاتی ہے کہ" ایک غریب عورت کو گاؤں کےدبنگ لوگوں نے ڈائن سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ مسلم سماج سے مارڈالنے والی کوئی خبرنہیں آئی ہے،مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ بھی اسلامی پٹری سے اترگیاہےاورغیروں کےڈگرپر چلا گیا ہے، بےاعتمادی کی یہاں فضا قائم ہوگئی ہے، پڑوسی کا مطلب قریب رہنے والا ہے ،مگر آج وہ ہم سے بہت دور ہوگیا ہے،محبت کی جگہ نفرت ہے،جبکہ اسلام میں ایک پڑوسی سے محبت وتعلق بڑھانے کی تعلیم دی گئی ہے، ہدایا وتحائف سے محبت بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے، جب گھر میں سالن بناؤ تو پانی بڑھا دو،اور اس سے اپنے ہمسایہ کی خبر گیری کرو، (مسلم)
دوسری بات جو اس واقعہ میں غور کرنے کی ہے،بغیر کسی بیماری اور پریشانی کے ایک صاحب ایمان پریشان ہے،اپنے عالیشان مکان میں رہتا ہے، چہار دیواری میں محفوظ ہے،مال واسباب رکھتا ہے، باوجود اس کے وہ پریشان ہے،اور گھر کے قریب شخص سے دور ہے،اس کی وجہ ھمسایہ کی حق تلفی ہے۔
  پڑوسی کے حقوق کی مذہب اسلام میں بڑی تاکید آئی ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛جبریل نےمجھےپڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کی میں نےسمجھاکہیں ان کو وراثت کا حق نہ دلادیں،(متفق علیہ)
چنانچہ بیماری میں عیادت کرنا، تنگدستی میں مالی تعاون کرنا،خوشی میں مبارکباد دینا،غمی میں ہمدردی کرنا،موت پر جنازہ میں شرکت کرنا،
یہ وہ حقوق ہیں جنہیں بحیثیت پڑوسی ادا کرنا ایک ایمان والے کے لیے ضروری ہے، ان ذمہ داریوں سے آنکھیں چراناحق تلفی ہےاور ظلم ہے۔
آج جھونپڑی میں رہنے والی ایک غریب عورت بھوک اور فاقہ کی وجہ سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے،اپنے درد اور تکلیف کی ہمیں دوااپنے خوشحال پڑوسی کو سمجھتی ہے،اور وہ حضرات مداوابننے کے بجائے تکلیف کا سامان بن جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کو مومن نہیں کہا ہےجس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے، (متفق علیہ )
ایمان واسلام کا مطلب امن وسلامتی بھی ہے،ہر وہ آدمی جو اسلام کے تقاضوں سے مسلمان ہوتے ہوئے بھی دور ہوتا ہےاسے عافیت کی زندگی نصیب نہیں ہوتی ہے، مذہب اسلام میں ایک مظلوم کی نظر نہیں بلکہ آہ لگتی ہے،یہ واقعی مصیبت اور نحوست کی چیز ہوتی ہے، مسلم سماج میں بھی یہ نحوست داخل ہوگئی ہے،اس کا احساس نہیں ہے، مرض کچھ اورہے،اور دوا کچھ اور کی جارہی ہے، آج عموما یہی ہوتا ہے کہ لوگ مظلومیں کی آہوں اور بددعاوں کا شکار ہورہے ہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں کی نظر لگی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنصیحت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کے اور خدا کے بیچ میں کوئی پردہ نہیں ہے( بخاری ) 
           پڑوسی کےمکاں میں چھت نہیں ہے 
               مکاں  اپنے  بہت  اونچے نہ رکھنا
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم، تعارف و تبصرہڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ

محب اردو حمید انور اور بک امپوریم، تعارف و تبصرہ
ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
اردو دنیا نیوز ٧٢

پٹنہ کے سبزی باغ میں واقع بک امپوریم بظاہر کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان ہے، مگر اس کی شہرت ہندوستان کے بیشتر اردو آبادی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ علم و ادب کے شائقین کا مرکز ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادباء ، شعراء ، صحافی اور عاشقان اردو اس کے گرد جمع ہوتے تھے، ادبی موضوعات پر تبصرہ کرتے تھے، ادبی معرکے اور مکالمے بھی ہوتے تھے، یہ عاشقان اردو برنچ پر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر گھنٹوں علمی موشگافیاں کرتے اور مزہ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بک امپوریم کے مالک حمید انور تھے، وہ پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ان کا خلوص ومحبت ادیبوں اور صحافیوں کو وہاں آنے پر مجبور کردیتا تھا، حمید انور کی ادب نوازی اور اردو زبان سے محبت نے چھوٹی سی دکان کو بڑی کائنات میں سما دی تھی۔ حالانکہ حمید انور خود نہ ادیب تھے نہ شاعر، نہ صحافی اور نہ مصنف، لیکن ان کے اردگرد ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مصنفوں کا جمگھٹا رہتا تھا، وہ کتابوں کے ایک تاجر تھے، لیکن عام تاجروں سے الگ اورمنفرد تھے وہ۔ ادباء، شعراء اور مصنفوں سے ان کا محض کاروباری رشتہ نہ تھا بلکہ کاروباری سے زیادہ قلبی تعلق تھا۔ وہ معاملات کے نہایت صاف ستھرے اور بے باق آدمی تھے۔ طلبہ کی رہنمائی اور مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ اکثر طلبہ ان سے نئے رسائل و جرائد اور کتابیں ادھار لے جایا کرتے تھے اور وہ بخوشی دے بھی دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے انتقال کی جب خبر ہوئی تو بڑے بڑے ادباء و شعراء نے اظہار تعزیت کیا اور ان پر تاثراتی مضامین تحریر کیے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’محب اردوحمید انور اور بک امپوریم ‘‘(مطالعات و مشاہدات ) حمید انور کے انتقال کے بعد لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، جسے ان کے لائق فرزند جناب ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے ترتیب دیا ہے۔ کتاب سات ابواب اور 356 صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلا باب مضامین و تاثرات پر مشتمل ہے، اس باب میں حمید انور کے معاصرین، دوست و احباب اور رشتہ دار و متعلقین کے مضامین ہیں، جن کے مطالعہ سے حمید انور کی شخصیت پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ یہ مضامین حمیدانور کے خلوص ووفا، ایثار و قربانی محبت و اپنائیت، ادب نوازی، رشتہ کی پاسداری، معاملات کی صفائی، کردار کی پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں، انہوں نے خاموشی کے ساتھ اردو کی خدمت کی، ادیبوں کی کئی نسل کو فروغ دیا اور ان کے اندر ادب کا ذوق پیدا کیا۔ دنیا سے گزر جانے کے بعد کون کس کو یاد کرتا ہے، لیکن جس طرح ادباء و شعرا نے ان کے انتقال کے بعد تعزیتی پیغامات بھیجے اور طویل و مختصر مضامین تحریر کئے یہ اس بات پر دال ہے کہ حمید انور پرکشش شخصیت کے مالک اور ایک بے ضرر انسان تھے، وہ ایک ایسا شجر سایہ تھے جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر طلبہ و اساتذہ اور شعراء وادباء ٹھنڈک محسوس کرتے تھے اور کتب و رسائل کے ذریعے علمی پیاس بجھاتے تھے، مشہور ادیب و شاعر عطا عابدی اپنے مضمون میں تحریر کرتے ہیں:
’’ دراصل حمید انور صاحب کی ذات سماجی و ادبی معاملات سے دلچسپی لینے کے سبب بھی مرکز توجہ تھی، انہوں نے کئی حوالوں سے ادیبوںو شاعروں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے ذریعے اردو کتب و رسائل کی ترقی اور فروغ کی راہیں استوار کیں۔‘‘
حمید انور نے اپنی چھوٹی سی دکان بک امپوریم کو ایسی شہرت دی کہ اس کی حیثیت ادبی اڈے کی ہوگئی، بیشتر مضمون نگاروں نے حمید انور کے ذکر کے ساتھ بک امپوریم کا ذکر بھی دل کھول کر کیا ہے۔ بک امپوریم کی اہمیت اور زبان وادب کے فروغ کے حوالے سے اس کی افادیت کا اندازہ ان مضامین کے مطالعہ سے خوب ہوتا ہے، چھوٹی سی دکان میں نئی نئی کتابیں اور ملک بھر سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد اور اردو ڈائجسٹ موجود ہوتے تھے۔محمد یونس ہرگانوی اپنے مضمون بعنوان ’’حمید انور ایک روایت، ایک حکایت‘‘ میں بک امپوریم کے تعلق سے تحریر کرتے ہیں:
’’ اردو بازار میں بلحاظ وسعت بک امپوریم سب سے چھوٹی دکان ہے، لیکن اس دکان کو روز اول ہی سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ حمید انور کو اردو ادبیات اور رسالہ جات سے خاص دلچسپی تھی، ہندوپاک کے ناول، افسانے،شعری مجموعے، رسالے اور ڈائجسٹ کہیں ملیں نہ ملیں بک امپوریم میں دستیاب تھے، ان کی فراہمی پر خصوصی توجہ تھی، یہی وجہ ہے کہ بک امپوریم ادبی حلقوں میں بہت جلد مقبول ہو گیا۔ یہاں پر یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ رحمانیہ ہوٹل کبھی ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ رہا ہے، گھنٹوں گھنٹوں ان کی بیٹھک ہوتی تھی، اور چائے پر چائے کے دور چلتے رہتے تھے،آتے جاتے یہ بک امپوریم پرضرور ٹکتے، بلاشبہ بک امپوریم کے مقبول عام ہونے میں حمید انور کی کاروباری سوجھ بوجھ، محنت و مشقت اور اخلاق بات کو بڑا دخل رہا ہے، بک امپوریم علمی وادبی حلقے کا انفارمیشن سینٹر بھی رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں میں کون کب آئے تھے؟کہاں گئے؟ کہاں ملیں گے؟ بک امپوریم سے معلوم کرلیں۔‘‘
دوسرا باب مکتوبات پر مشتمل ہے، اس باب میں 56 مکتوبات ہیں، مختلف ادباء ، شعراء، صحافی اور مصنفین حضرات کے وہ خطوط جو انہوں نے حمید انور کو تحریر کئے، اس حصہ میں بڑے سلیقے سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔خطوط کی ترتیب میں تاریخ اور سنین کی رعایت برتی گئی ہے،ان میں پہلا خط علقمہ شبلی کا ہے جو 23 مارچ 1955 کا ہے، آخری خط پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا ہے جو 10 جون 2000 کا تحریر کردہ ہے، یہ خطوط تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں، ان میں زیادہ تر ذاتی اور تجارتی نوعیت کے ہیں،لیکن ان میں ان کے عہد کے نشیب و فراز اور حالات کی عکاسی بھی ہے اور علمی وادبی سرگرمیوں کی جھلکیاں بھی۔ تیسرا باب مشاہیر کے ان خطوط پر مشتمل ہے جو حمید انور کے انتقال کے بعد تعزیت کے طور پر لکھے گئے تھے۔ان خطوط کی تعداد 24 ہے، اس کی ترتیب میں بھی تاریخ اور سنین کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ چوتھاباب علقمہ شبلی اور پروفیسر راشد طراز کے منظوم خراج عقیدت پر مبنی ہے۔
پانچواں باب ڈائری کے اوراق سے ہے،حمید انور صاحب پابندی سے ڈائری لکھا کرتے تھے، ڈائری کے اس حصہ کا مطالعہ حمید انور کے عہد کی سماجی، ادبی، اور عصری منظر نامہ پر روشنی ڈالتا ہے، انہوں نے نہایت سادہ اور آسان زبان میں روزنامچے تحریر کیے ہیں،یہ حصہ گرچہ مختصر ہے،لیکن اہم ہے۔ ڈاکٹر قاسم خورشید اپنے مضمون میں حمید انور کی ڈائری پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’حمید انور نے بہت عرق ریزی اور چابکدستی سے روزنامچہ تحریر کیا، مختلف نکات پر گفتگو بھی کی، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے عہد کے سماجی، ادبی ،ملی و عصری منظر نامے کو سمجھنے کے لیے ان روز نامچوں کا مطالعہ ناگزیر ہے، ان کی تحریر بالکل شخصیت سے مشابہ نظر آتی ہے۔‘‘
چھٹا باب متفرقات ہے اس میں مشاہیر کی ایسی تحریریں جمع کی گئی ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی جہت سے حمید انور سے رہا ہے۔ ساتواں باب تصاویر کی جھلکیاں پیش کرتا ہے۔ کتاب کی پشت پر معروف ادیب و صحافی حقانی القاسمی کی جامع تحریرکو جگہ دی گئی ہے۔ صفحہ28 پر ’’تو قیت حمید انور ‘‘ہے جسے محمد شکیل استھانوی نے محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اس میں انہوں نے تاریخ پیدائش 25؍جنوری 1931 لکھاہے جبکہ انہوں نے خود اپنے مضمون میںصفحہ نمبر 174 پر تاریخ پیدائش 1930 تحریر کی ہے۔پہلا باب بہت طویل ہے، سارے مضامین اسی باب کے تحت جمع کردیئے گئے ہیں۔ اگر ان مضامین کو موضوعات کے تحت دوتین ابواب میں تقسیم کئے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
مذکورہ کتاب حمید انور کی پرکشش شخصیت اور حیات و خدمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے، اس کے ساتھ ہی بک امپوریم کی ادبی اہمیت اور اس کی تاریخ پر بھی خوبصورتی کے ساتھ روشنی پڑتی ہے، کتاب اس لائق ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور نئی نسل کو خاص طور پر مطالعہ کرنا چاہئے۔بک امپوریم آج بھی قائم ہے، ان کے چھوٹے فرزند امتیاز انور فہمی اپنے والد کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بڑے فرزند ڈاکٹر ممتاز فرخ مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے والد بلکہ ایک خادم اردو اور عاشق اردو کی زندگی و شخصیت اور ان کے احوال و کوائف پر مشتمل کتاب ہمارے سامنے پیش کر دیا تاکہ ہم اپنے محسنوں کو جان سکیں، یاد کر سکیں اور ان سے استفادہ بھی کر سکیں، مرتب کتاب کا پیش لفظ بھی عمدہ ہے، انہوں نے اپنے والد کے بعض ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع اس کتاب کی قیمت 350 روپے ہے۔ کتاب کی ترتیب و پیشکش بہتر ہے،بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ سے کتاب حاصل کی جاسکتی ہے یا مرتب کتاب سے اس نمبر 9798909392 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
______

ائمہ کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی

ائمہ کی تنخواہ کی سرکاری ادائیگی 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
ملک کی اکثر وبیشتر ریاست میں سرکار کا ایک محکمہ وقف بورڈ ہے، اس کے ذمہ اوقاف کے تحفظ اور اس کی املاک سے ہونے والی آمدنی کے استعمال کا اختیار ہے، اوقاف مسلم پرسنل لا کے تحت آتے ہیں، اس لیے اس کی آمدنی کو خرچ کرتے وقت واقف کے منشا کی رعایت کی جاتی ہے، بہت سارے اوقاف مساجد کے ہیں، جن کی آمدنی کو مفاد مسجد میں خرچ کرنا متولیان کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لیے اوقاف کی زمینوں پر واقع مساجد کے ائمہ کو وقف بورڈ کے ذریعہ وظیفہ دیا جاتا ہے اور کہیں کہیں تنخواہ کی ا دائیگی بھی کی جاتی ہے، اس سلسلے میں پنجاب ، دہلی اور بہار کا نام لیا جا سکتا ہے۔
 ابھی حال میں مرکزی اطلاعاتی کمیشن کے کمشنر” اُدے مہور کر“نے اس پر سوالات اٹھائے ہیں اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کل ہند تنظیم ائمہ مساجد کی عرضی پر ۳۹۹۱ءمیں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے، یہ تبصرہ انہوں نے سوبھاش اگروال کی اس عرضی پر کیا جو اس نے وقف بورڈ سے امام اور مو ¿ذن کو ملنے والی تنخواہ پر اطلاعاتی کمیشن میں داخل کیا تھا، مرکزی اطلاعاتی کمشنر نے وقف بورڈ کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اس اطلاعات کے حاصل کرنے میں سبھاش اگروال کا جو وقت لگا اور اسے جو پریشانیاں ہوئیں اس کے عوض وقف بورڈ اسے پچیس ہزار روپے ہرجانہ دے ۔
 کمشنر برائے اطلاعات کی رائے یہ تھی کہ تمام مذاہب کے عبادت کرانے والوں کو برابر کی تنخواہ دی جانی چاہیے، بقول یہ عجیب بات ہے کہ امام اور مو ¿ذن کو تو اٹھارہ ہزار اور سولہ ہزار روپے ماہانہ ملے اور ہندو وقف (نیاس) کے پجاریوں کو دو ہزار روپے دیا جائے، کمشنر صاحب یہ بھول گیے کہ جس وقف کی جیسی آمدنی ہے، اس کے اعتبار سے وظائف مقرر کیے جاتے ہیں، نیاس کی آمدنی کا بڑا حصہ پجاریوں کے پاس بلا حساب وکتاب منتقل ہوجاتا ہے، نیاس بورڈ کے ذریعہ دی جانے والی دو ہزار کی رقم صرف ٹوکن منی ہے جو نیاس سے پجاریوں کے تعلق کی علامت ہے، ظاہر ہے سب جگہ کشور کنال جیسا ذمہ دار تو ہے نہیں، جس نے گذشتہ بیس پچیس سالوں میں مندروں کی آمدنی سے مہابیر کینسر جیسا اسپتال کھڑا کر دیا اور دوسری جگہوں پر بھی مندر کی آمدنی کو ہندو سماج کے لیے با رآور اور ثمر دار بنانے کے لیے غیر معمولی کام کیا ہے۔
 اس کے بر عکس اوقاف کی آمدنی کا معاملہ ہے، یقینا لوٹ کھسوٹ یہاں بھی کم نہیں ہے، لیکن بڑی حد تک کوشش کی جاتی ہے کہ اسے خُرد بُرد سے بچایا جائے اور چوں کہ یہ وقف جن کاموں کے لیے کیا گیا ہے، ان کے مدات کی رعایت ہمارا شرعی فریضہ ہے، اس کی یک گونہ حفاظت وقف بورڈ کے ساتھ متولیان اور کمیٹی کے دیگر افراد بھی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، اس لیے یہاں کی رقم ائمہ مساجد اور مو ¿ذنین پر خرچ کی جاتی ہے ۔
 کمشنر برائے اطلاعات ادے مہور کرنے یہ بھی کہا کہ مو ¿ذن اور امام کی یہ تنخواہ سرکاری ٹیکس کی رقم سے دی جاتی ہے ،وہ یہ بتانا بھول گیے یہ ٹیکس کی رقم بھی سرکار کے خزانے میں اوقاف کی آمدنی سے ہی آتی ہے ، مختلف ریاستوں میں اوقاف کی آمدنی پر الگ الگ ٹیکس لیا جاتا ہے، حالاں کہ ہمارا مطالبہ قدیم ہے کہ اوقاف کی جائیدا د کو ٹیکس سے مستثنیٰ کیا جائے۔
اس پورے قضیہ میں یہ مسئلہ بھی بڑا اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ مناسب ہے ،یہ تو توہین عدالت کے مترادف ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ میںپھر سے اٹھایا جائے اور عدالت اس پر نظر ثانی کرے، یہ تو ہو سکتا ہے؛ لیکن عدالت کے فیصلے پر اس قسم کا تبصرہ عدالتی نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے ، اس لیے” ادے مہور کر“ کو اس قسم کے تبصرے سے بچنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...