Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 15, 2022

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد 

اردو دنیا نیوز٧٢ 
اردو زبان بھارتیوں کی دوسری قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی زبان ہے. 
کہا جاتا ہے کہ قوموں کا زوال بعد میں ہوتا ہے پہلے اس کی زبان کا زوال ہوجاتا ہے. 
اردو زبان کی بقا میں ہی مسلم قوم کی بقا کا راز مضمر ہے. 
اگر کہا جائے کہ اردو ہندی زبان سے بھی بڑی زبان ہے تو شاید غلط نہ ہوگا اس لئے کہ آج متعدد مملالک میں اردو بول چال کا چلن ہے. 
مگر اس حقیقت سے روگردانی کرنا بھی غلط ہوگا کہ کسی زبان کو روئے زمین سے مٹانے میں سب سے بڑا کردار اہل زبان ہی ادا کرتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے. غیر اہل اردو کو اس سے کیا واسطہ کہ زبان راہ فروغ پر ہے یا راہ زوال پر ہے. خود اہل زبان ہی اپنے معاشرتی زندگی میں اس کا چلن چھوڑ دیتے ہیں اور پھر اگلی نسل اس سے ناواقف ہوجاتی ہے 
. اسی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی کئ موقعوں سے نعتیہ مشاعرہ کرواتی ہے تا کہ اردو کا فروغ ہو. اسے ایک چھوٹی سی کوشش کہہ سکتے ہیں. 
اسی سلسلے کی ایک کڑی سوشل میڈیا پلیٹ فارم زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہے. جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری نے کی. 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی نے اردو زبان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ تعلیم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی. ضلع ارریہ کے شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پرتحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں

نعتیہ مشاعرہ زوم ایپ پر
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (14/12/2022 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
اردو دنیا نیوز٧٢ 

 حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور
حضرت مولانا مجاہد الاسلام مجیبی القاسی بھاگلپوری تھے, 
زیر سرپرستی حضرت مولانا خوش محمد صاحب چمپارنوی/
ایم رحمانی--- جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری انوار الحق صاحب بنگلور کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام شہاب صاحب دربھنگوی کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ شعراء کرام میں قاری جسم الدین صاحب (قومی تنظیم ارریہ),شاعر سیمانچل فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
قاری محمد رضوان احمد صاحب لکھنوی' مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ جناب مجاہد الاسلام صاحب گڈاوی'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' 
حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب گنگولوی' مدھوبنی ضلع اورقاری خورشید قمر صاحب
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا

بدھ, دسمبر 14, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پٹنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم صاحب کو جنہوں نے بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے طفل مکتب کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___

ججوں کی تقرری کا طریقۂ کار ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہندوستانی عدلیہ کو مرکزی حکومت سے آزاد رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری کا یہاں الگ نظام ہے، جسے کالجیم کہتے ہیں،،کالجیم کے ارکان طے کرتے ہیں کہ کس کی ترقی ہونی ہے اور کون جج یا چیف جسٹس بنے گا، تقرری کے اس کالجیم سسٹم کی وجہ سے مرکز اور سپریم کورٹ کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ یہ بحالیاں مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونی چاہیے،ا س کی وجہ سے معاملہ گرما گیا ہے، سپریم کورٹ نے ابھی حال ہی میں کالجیم کی سفارش کے باوجود ججوں کی تقرری میں غیر معمولی تاخیر پر حکومت کو پھٹکار لگائی تھی ، اس پر وزیر قانون کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا کہ کالجیم کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ بھیجے گیے ہر نام کو منظور کر لے ، اگر دستور کی روح یہی ہے تو سپریم کو رٹ کو خود سے تقرری کر لینی چاہیے،اس کے ساتھ ہی وزیر قانون نے سپریم کالجیم کے ذریعہ ہائی کورٹ میں تقرری کے لیے پیش فائلوں کو کالجیم کو نظر ثانی کے لیے واپس کر دیا ہے اور ممبئی ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے بھیجے گیے ناموں میں سے صرف دو سینئر وکلاءسنتوش گووندراو ء اور منوہر ساٹھے کی تقرری کی منظوری دی ہے۔
 جن فائلوں کو حکومت نے کالجیم کو واپس کیا ہے ان میں سوربھ کرپال کی تقرری کی فائیل بھی شامل ہے، سوربھ کرپال ہم جنس پرست ہے اور وہ ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت میں بیان دیتے رہے ہیں، انہوں نے سیکس اینڈ دی سپریم کورٹ نامی کتاب بھی لکھی ہے ، وہ ہندوستان کے سابق چیف جسٹس بی این کرپال کے بیٹے ہیں، ان کی سفارش اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمن نے کی تھی، ترقی کی یہ سفارش 11 نومبر 2021ءکو لی گئی تھی، اس کے قبل 2018ءسے اب تک ان کا نام بار بار بھیجا جا تا رہا ہے ، لیکن ان کی ترقی کی منظوری نہ ملنے میں ان کی جنسی بے راہ روی اور ان کے خیالات کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اگر ان کو دہلی ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا تو وہ پہلے ہم جنس پرست جج ہوں گے ، ظاہر ہے ہندوستانی دستور کے اعتبار سے یہ ایک غلط کام ہے اور ہندوستانی تہذیب وثقافت ، انسانی اقدار کے بھی خلاف ہے۔اس لیے حکومت نے ان کی تقرری کو روک رکھا ہے جو لائق ستائش ہے۔
 لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک غلط سفارش کی بنیاد پر ساری فائلوں کو واپس کر دیا جائے، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ججوں کی کمی کی وجہ سے ہی پورے ہندوستان کی عدالت میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے مترادف ہے۔

منگل, دسمبر 13, 2022

نام کتاب : مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں

نام کتاب :    مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مرتب :        عبد الرحیم
صفحات :      72
قیمت :      60 روپے 
سن اشاعت :    2022
مطبع :       عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس، دریا پور پتنہ 
ملنے کے پتے :   مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،
نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما، ویشالی بہار ،
ادارہ سبیل الشرعیہ آواپور شاہ پور سیتا مڑھی،
مبصر :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ،

عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا ضلع دربھنگہ نئی نسل کے نوجوان ہیں، آپ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے سینے میں قوم وملت کا درد بھرا دل رکھتے ہیں، آپ کا خاندان علمی وعملی دونوں اعتبار سے بلند ہے ۔علمی وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی وتعمیراتی کاموں میں پیش پیش رہنا یہ آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔ آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امامت کے فریضے کو بھی انجام دیتے ہیں، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف محترم کس طرح اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ کتاب ‘مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں ’ کی سنہری تحریریں آنکھوں کے راستے دل ودماغ تک کا سفر طے کر کے روح تک اتری ۔ اس کتاب کا نام ہی اس کے اندر موجود تحریروں کی ترجمانی کر رہی ہے ۔ یہ کتاب حقیقت میں چند  لائق وفائق شعراء وادباء کی منظوم تحریریں ہیں جنہیں دنیائے ادب کا سرمائے افتخار کہا جاتا ہے ۔اس کتاب میں شامل تحریریں مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت وفن پر محیط ہے ۔حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی صاحب کی شخصیت عظیم المرتب اور علمی اعتبار سے بلند پایہ ہستی ہے جو تمام  لوگوں کے لیے قابلِ تعظیم ہے ان کی علمی رسوخ اور پختگی کی گواہی معاصرین ادب کے ساتھ ساتھ موافقين ومخالفین علماء اور ائمہ نے بھی دی ہیں ۔  یہ وہ قابلِ قدر ہستی ہے جو علماء وائمہ طبقات کے ساتھ ساتھ شعراء وادباء کے نزدیک بھی قابل تکریم ہے۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ رب ذوالجلال نے اسے دیگر تمام مخلوقات پر علم کی بنیاد پر فوقیت بخشی ہے۔ملائکہ کو مسجود آدم بنا کر انسانوں کی اہمیت وافادیت کا پیغام دیا ہے ۔اللہ ہی ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا۔ اُس کے خاص بندے اسی قلم کے اور کائنات کے مشاہدے کے ذریعہ اپنے علم میں اضافہ کرکے خود کو عملی میدان میں آگے بڑھاتے ہیں ۔ اللہ کے ایسے ہی خاص بندوں میں سے ایک نام مفتی ثناء الہدی قاسمی ہے جنہوں نے علم کے سمندر میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا اور اسی علم کے بحرِ بے کراں بن کر اس کے دامن کو وسیع اور تشنگانِ علم کو سیراب کیا۔ اپنے اسلاف اور خصوصاً اہل علم اسلاف کو یادرکھنا‘ بعد میں آنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور رہنمائی کا ذریعہ بھی۔ زیرِ تبصرہ کتاب ،،مفتی ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں،، مفتی صاحب کی زندگی کے حالات پر مشتمل ہے منظوم کلام ہے۔جس میں 36/شعراء وشاعرات نے اپنے منظوم تاثرات میں حضرت مفتی صاحب کے تئیں اظہار خیال کیا ہے ۔بعض شعراء نے اپنے منظوم کلام میں آپ کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ آپ کی علمی عملی وفنی پہلوؤں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کرنے کی سعی کی ہے اور وہ اس میں بھر پور کامیاب بھی نظر آرہے ہیں، اس کتاب کی شروعات مرتب کتاب نے،، اپنی بات،، کے ذریعہ حضرت مفتی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔اس کے بعد مشہور ومعروف شاعر وادیب وصحافی برادرم کامران غنی صبا نے،، پیش لفظ،، میں پوری کتاب کے جائزے کے ساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب کی سوانح حیات، علوم وفن، شعبيات سے وابستگی کا مکمل مفصل خاکہ اور اپنے تئیں اظہار محبت وعقیدت کے گلدستے بہت سلیقے سے پیش کیا ۔بعدہ مشہور ومعروف شاعر وادیب عطا عابدی نے،،، دو باتیں،، کے ذریعہ اظہار خیال کے ساتھ ساتھ چند شعراء کے کلام کو پیش کرتے ہوئے کتاب کو مزید زینت بخشی ہے ۔منظوم کلام کی شروعات محمد انوار الحق داؤد قاسمی کے منظوم کلام  سے ہے، موصوف نے آپ کی شخصیت وفن، آپ کا خاندانی تعارف، آپ کے علمی خدمات،ادارے سے وابستگی، کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح دیگر شعراء وشاعرات نے بھی اپنے مخصوص لہجے میں آپ کی شخصیت وفن پر منظوم کلام پیش کر کے کتاب کو تزئین بخشتی ۔چند شعراء کے کلام سے

تبصرے ان کے ہیں کتنے دیوان پر
کتنا عمدہ ہے مضمون انسان پر
محمد انوار الحق داؤد قاسمی

حوصلہ پاتی ہے دنیا آپ کی تحریر سے
دل بدل جاتا ہے یکسر آپ کی تقریر سے
طارق ابن ثاقب
ہو خطابت کہ تحریر کا مرحلہ
انفراد اپنا رکھتے ثناء الھدی
عبد المنان طرزی

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
مفکر، مدبر کہ دانشوراں
کامران غنی صبا
علم افزا ہیں کتابیں آپ کی
جن سے تاریخی حقائق آشکار
منصور خوشتر
ملا ہے مرتبہ ان کو امامت سے قیادت سے
ہوا ہے خوب روشن یہ علاقہ شان قدرت سے
مظہر وسطوی
اپنی تحریر میں اپنی تقریر میں
مثل گل دل نشیں ہیں ثناء الہدی
عبد الودود قاسمی
نام ان کا ہے مفتی ثناء الہدی
رب نے بخشی ہے دیدہ وری، آگہی
منصور قاسمی
سادہ کھانا سادہ رہنا اس کا ہے اپنا شعار
اس لئے حاصل ہے اس کو نصرت پروردگار
محمد مکرم حسین ندوی
نظر ان کی بہت گہری ہے احکام ومسائل پر
جو بھی بات کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں فقیہانہ
سید مظاہر عالم قمر
یہ مفتی ثناء الہدی قاسمی
ہیں عصری ادب کی نئی روشنی
ہے تحریر سے ان کی یہ آشکار
ہیں اس دور کی شخصیت عبقری
محمد ضیاء العظیم
بحر وبر کی گہرائی
گہرائی پتا تو دیتی ہے
علم کے حوالے سے
فکر کے وسیلے سے
ڈاکٹر امام اعظم
اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات
امان ذخیروی
اللہ! کتنی اعلیٰ ہے تقدیر آپ کی
ہرلب پہ ہر زباں پہ تشہیر آپ کی
تحسین روزی پٹنہ،

ان شعراء کے علاوہ بھی دیگر شعراء نے اپنے تئیں اظہار خیال منظوم کلام کے ذریعہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہنے کی کوشش کی ہیں، بعض اشعار فنی لحاظ سے کمزور نظر آتے ہیں لیکن تمام شعرائے کرام کے جذبات واحساسات مفتی صاحب کے لئے قابل تحسین ہیں، اس خوبصورت منظر کشی کے لئے ہم اپنی جانب سے خصوصیت کے ساتھ عبدالرحیم کو جنہوں بڑی محنت وجدوجہد سے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور عمومی طور پر تمام شعرائے کرام کے ساتھ ساتھ پوری ٹیم کو جنہوں نے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تعاون پیش کیا مبارک بادی پیش کرتے ہیں ۔بہر حال مفتی صاحب  کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرنا ہم جیسے نااہلوں کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ان کی شخصیات اور فنون کو سمجھنے کے لیے ان کی تصانیف و تقاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ان سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔ان سے دعائیں لی جا سکتی ہیں، اللہ حضرت مفتی صاحب کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین ثم آمین

جی ٹوینٹی (20)کی صدارت ___ مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جی ٹوینٹی (20)کی صدارت ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
  مفتی محمد ثنائ الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جی -۰۲ کی صدارت اس بار ہندوستان کے حصے میں آئی ہے، اس کے ارکان انیس ممالک اور ایک یورپین یونین ہے، جس کی وجہ سے اسے جی -۰۲ یعنی بیس کا گروپ کہا جاتا ہے، اس گروپ میں ارجنٹائنا، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا ، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپین یونین شامل ہے، اس طرح کہنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے بعد یہ سب سے مضبوط گروپ ہے، جس میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک شامل ہیں، اس گروپ میں شریک ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی ، پچھہتر فی صد عالمی تجارت اور اسی فی صد سے زائد دنیا کی مجموعی گھریلو مصنوعات (GDP) پر قابض ہونے کی وجہ سے مضبوط ترین سیاسی قوت ہے، جو ہمہ جہت ترقی، موسمیات وماحولیات ، خوراک، پر امن بقاءباہم کے اصول اور حفظان صحت کے منصوبے پر کام کرتا ہے۔ ۶۲ ستمبر ۹۹۹۱ءکو اس گروپ کی تشکیل ہوئی تھی، مختلف ممالک کے بعد اب اس کی صدارت بھارت کے حصہ میں آئی ہے اوران دونوں وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی اس کے سر براہ ہیں۔
 اب تک دوسرے ممالک اس گروپ کے لیے ترجیحی ایجنڈا طے کرتے رہے ہیں، بھارت کے صدر ہونے کی حیثیت سے اب اس کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر گروپ کے دوسرے ممالک کو راضی کرکے کام کو آگے بڑھا سکے او راپنی ترجیحات کو مرکز توجہ بنا سکے، بالی کے حالیہ اجلاس میں جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس پر تمام ممالک کو متحد کرانے میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اہم رول ادا کیا اور ان کی تقریر کے اس جملے کو کہ ”آج کا عہد جنگ کا عہد نہیں ہونا چاہیے“ من وعن بالی اعلانیہ میں شامل کر لیا گیا، کاش بھارت کے اندرونی معاملات میں بھی مودی جی کا یہ نظریہ کام کرتا تو نفرت کی کاشت اس قدر نہیں ہو پاتی اور بھارت امن وسلامتی اور رواداری کا گہوارہ ہوتا۔

اتوار, دسمبر 11, 2022

مصنوعی اعضاءکی تیاری ____

مصنوعی اعضاءکی تیاری ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثنأ الہدیٰ قاسمی
اللہ رب العزت نے انسانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہمیں ایک خوبصورت جسم دیا ہے، جسے قرآن میں ”احسن تقویم“ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ اعضاءقدرتی نظام کے تحت کام کرتے رہتے ہیں اور ان سے ہماری جسمانی ضرورت پوری ہوتی ہے، دل، پھیپھڑے، جگر وغیرہ کا شمار اعضاءرئیسہ میں ہوتا ہے، ان کے نظام میں گڑبڑی سے جسم کا سارا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود ان اعضاءکا متبادل اب تک تیار نہیں کیا جا سکا ہے، اسی لیے اگر کسی کے گردے وغیرہ میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو دوسرے انسان سے اعضاءلے کر اس کی پیوند کاری کی جاتی ہے، جس کے سہارے انسان زندگی کے کچھ ماہ وسال پا لیتا ہے، اس کام کے لیے اعضاءکی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، جب کہ یہ قانونی طور پر جرم ہے ، آئے دن آپریشن کے نام پر انسانی جسم کے مختلف اعضاءبغیر مریض کو بتائے نکال لیے جاتے ہیں، انہیں بھاری داموں میں بیچا جاتا ہے ، کچھ رشتہ دار بھی اپنے مریضوں کو اعضاءدے کر جان بچانے کا کام کر تے ہیں ، بعض پسِ مرگ اپنے اعضاءدوسروں کی پیوند کاری کے لیے دینے کی وصیت کر جاتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد وہ مریض کے کام آجاتا ہے ، حالاں کہ شریعت کی نظر میں ایسی وصیت غلط ہے، اور اس کی تنفیذ نہیں ہونی چاہیے، لیکن ایسا ہو رہا ہے، اس کے باوجود جس بڑے پیمانے پر اعضاءکی ضرورت ہے،اس کی فراہمی موجودہ طریقہ ¿ کار میں ناممکن ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائی اجناس میں کیمیکل اور کھاد کی شمولیت کی وجہ سے جسمانی اعضاءکثرت سے متاثر ہوتے ہیں، دو لاکھ لوگ ہر سال لیور کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور پیوند کاری کے مواقع نہیں فراہم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سوجاتے ہیں، ڈبلو ایچ او، ڈی جی ایچ ایس اور نوٹو کی مانیں تو اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ہندوستان میں کم از کم پچیس سے تیس ہزار لیور کی ضرورت الگ سے پڑے گی، تاکہ وہ سنگین مریضوں میں لگایا جا سکے، جب کہ صرف پندرہ سو لوگوں کے ہی لیور کی پیوند کاری ابھی ممکن ہو پا رہی ہے، اسی طرح دو لاکھ گردے کے مریضوں کو گردے کی ضرورت ہے، لیکن چھ ہزار مریضوں سے زیادہ گردے کی تبدیلی نہیں ہو سکتی، کیوں کہ گردے دستیاب نہیں ہیں، اسی طرح پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کا دل اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ انہیں بدلنا ضروری ہوتا ہے، لیکن ہندوستان کے صرف اٹھہتر ہوسپیٹل میں ہی یہ سہولیات دستیاب ہیں، جہاں اوسطا دو سو پچاس مریضوں سے زیادہ کے قلب کی پیوند کاری ہو ہی نہیں سکتی، پیوند کاری کے لیے دل کی فراہمی ایک الگ مسئلہ ہے ۔
 سائنس دانوں کو مریضوں کی اس پریشانی سے پریشانی ہے ، تازہ اطلاع کے مطابق سائنس دانوں نے تھری ڈی پرنٹر تیار کر لیا ہے، جو گوشت ، ہڈی کے ذرات اور کیمیکل کے آمیزہ سے خلیات ٹشوز تیار کر سکتا ہے، اسے سائنس دانوں نے میٹو پلس کا نام دیا ہے ، کوشش اس کی بھی جاری ہے کہ مصنوعی پھیپھڑا بنا لیا جائے، اس کھوج کو میڈکل کی اصطلاح میں ایکسوسوم تھروپی کے نام سے جانا جاتا ہے ،ا س طریقہ ¿ کار کی مدد سے پھیپھڑوں کو پہونچنے والے نقصانات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے ، اور ضرورت کے مطابق اس کی مرمت بھی کی جا سکتی ہے ، سائنس دانوں کا ایک تحقیقاتی منصوبہ تھری ڈی مِنی لیور ٹشوز بھی ہے، جس کی مدد سے پھیپھڑوں کے مختلف امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، آئی آئی ٹی کان پور مصنوعی دِل تیار کرنے میں لگا ہوا ہے، اگر یہ تحقیقات کامیابی کی منزل کو پالیتی ہیں تو اعضاءرئیسہ کے بہت سے امراض کا علاج ممکن ہو سکے گا، موت تو وقت پر ہی آتی ہے، لیکن اسباب کے درجہ میں مایوس لوگوں کے حق میں کامیابی کی طرف بڑھتے قدم کو امید افزا کہا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...