Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 21, 2022

مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ کا خاتمہ ___

مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ کا خاتمہ ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مرکزی حکومت کی اقلیتی دشمنی کا ایک اور ثبوت سامنے آ یا ہے، اس نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے لیے جاری مولانا آزاد نیشنل اسکالر شپ بند کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیلو شپ پانچ سال کے لیے ہوتا تھا اور اقلیتی طبقات بدھ، جین، عیسائی، پار سی اور سکھ مذہب سے تعلق رکھتے والے طلبہ وطالبات کو ملا کرتا تھا، اس فیلو شپ کا دائرہ ہندوستان میں با قاعدہ اور کل وقتی تحقیق کرنے والے طلبہ وطالبات کے ساتھ یونیورسیٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کے ذریعہ تسلیم تمام یونیورسیٹیوں اور اداروں تک پھیلا ہوا تھا، اس کا آغاز 2009ءمیں راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی سفارشات کے بعد کیا گیا تھا، یہ اطلاع وزیر اقلیتی اموراسمرتی ایرانی نے کانگریس رکن پالیمان ٹی این پرتھا پن کے ذریعہ اٹھائے گیے ایک سوال کے جواب میں پارلیامنٹ میں دیا، انہوں نے کہا کہ اقلیتی طلباءوطالبات اسکالر شپ کی دوسری اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، البتہ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ سے اب وہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کا خیال ہے کہ یہ اقلیتی برادری کے ساتھ نا انصافی ہے اور اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اقلیتی طلبہ وطالبات کے منصوبوں پر اوس پڑجائے گی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جائیں گے ۔اسی درمیان وزیرخزانہ سیتارمن کا بیان آیا ہے کہ یہ اسکالر شپ ختم نہیں کیا گیا ہے، ان کے بیان کے آخری جملہ سے ختم نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جن کو مل رہا تھا انہیں پانچ سال کی مقررہ مدت تک ملتا رہے گا۔
حکومت کے اس فیصلے سے لوگوں میں یہ پیغام گیا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس بھی مودی جی کے دوسرے جملوں کی طرح محض ایک جملہ ہے اور انہیں اقلیتوں کی تعلیم اور ان کے اقتصادی حالات کو ٹھیک کرنے کے تعلق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ضرورت ہے کہ حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، تاکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اقلیتوں کی دشواریاں دو، ہو سکیں۔

منگل, دسمبر 20, 2022

علم وفن کے نیر تاباں"تعارف و تبصرہمفتی خالد نیموی قاسمی،صدر جمعیت علماء بیگو سرائے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
"بسم اللہ الرحمن الرحیم
"علم وفن کے نیر تاباں"تعارف و تبصرہ
مفتی خالد نیموی قاسمی،صدر جمعیت علماء بیگو سرائے
اردو دنیا نیوز٧٢ 

 کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب کے ذوق و شوق کی آخری صدی ہے. 
لیکن کئی جہات سے یہ کلیہ درست نہیں معلوم ہوتا ہے. 
اس لیے کہ آج بھی بہت سی کتابیں پورے سج دھج کے ساتھ مارکیٹ میں آرہی ہیں اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا مقام حاصل کر رہی ہیں؛ کبھی تو کتاب کی کشش، کبھی صاحبِ کتاب کی کشش، کبھی جس شخصیت کی طرف اس کتاب کا انتساب ہے، اس شخصیت کی کشش
لوگوں کے مابین اس کتاب کو مقبولیت عطا کرتی ہے. 
ایسی ہی ایک کتاب" علم و فن کے نیر تاباں" کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے. اور مرتب کی عنایت سے آج ہی رجسٹرڈ ڈاک سے موصول ہوئی ہے. اس کتاب کے بارے میں امید ہے کہ مقبولیت کا مقام حاصل کرے گی. اس کتاب کو ہمارے عزیز دوست ممتاز صاحب قلم مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کمال مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ مرتب فرمایا ہے. یہ کتاب حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت پر اہل علم کے گراں قدر مضامین کا حسین گلدستہ ہے. اور اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے یہ کتاب "عروس جمیل" در لباس حریر "کی مصداق ہے. 
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مقالہ نگاروں نے پوری محنت اور دقت نظر سے اپنے اپنے مقالوں کو تیار کیا ہے اور مرتب کا کمال ہے کتاب میں یہ مقالات اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ مولانا کی زندگی گویا اس کتاب میں سماگئی ہے. امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب آئندہ مستقبل قریب میں مولانا کی شخصیت پر مزید کام کرنے والوں کے لئے
سنگ میل اور بنیادی مرجع ثابت ہوگی اور اہلِ علم اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقاتی کام انجام دے سکیں گے. 
یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ اس کتاب میں صرف مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کے احوال ہی کو قلمبند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطہ جس سے وہ تعلق رکھتے تھے؛ جمال پور دربھنگہ بلکہ پورے بہار کی تاریخ کو ابتدائیہ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اچھی تحقیق پیش کی گئی ہے. 
مقدمہ میں متھلا، متھلانچل، اور ترہت کی تاریخی پس منظر کو بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے. 
بعض تاریخی حقائق کے سلسلے میں
حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا جاتا؛ تو کتاب کی رونق میں اور تاریخی استناد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا. مثلاً" علمی مقام" کے زیر عنوان 
جن اکابر کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛ 
ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تو بڑا اچھا ہوتا. 
ہر باب کے آغاز پہ مناسب حال اشعار
کی سیٹنگ نے کتاب کے حسن کو اور دوبالا کردیا ہے. 
مثلا:باب اول نقوش حیات  ہے؛ تو اگلے صفحہ پر  میں مناسب حال  شعر درج ہے:
 موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
 ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
اسی طرح باب دوم مشاہدات و تاثرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اگلے صفحے میں یہ شعر درج ہے. 
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر جائیں گے
باب سوم تدریس و خطابت پر مشتمل ہے؛ اس سے اگلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے 
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
 ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
باب چہارم تعلیمی و تنظیمی خدمات پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر پسند کیا گیا ہے:. نہ پوچھ مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
باب پنجم تحریری نمونہ پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر منتخب کیا گیا ہے:
اٹھائےکچھ ورق لالے نےکچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری. 
ممتاز اہل قلم کے کی تحریر کی خوشبو نے اس کتاب کے بام و در کو معطر کر دیا اور امید ہے کہ قاری کا مشام جاں بھی معطر ہوجائے گا. اور کیوں نہ ہو جس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سیدابواختر قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا مشہود احمد ندوی، مولانا امیر معاویہ قاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی ،مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر نور السلام ندوی؛ مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی، مولانا بدرالحسن قاسمی؛ مفتی عین الحق امینی قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا رحمت اللہ ندوی مفتی ظفر عالم ندوی ؛مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی مفتی اسعد پالن پوری ،مفتی جمال الدین اور مولانا سفیان احمد کے مضامین ہوں، اس کی اثر انگیزی کے بارے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟؟ . 
یہ کتاب کل 256 صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ سبزی باغ اور دربھنگہ کے کتب خانوں سے یا مرتب سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے. 
تاثرات و تبصرہ :بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز 
مورخہ 17 /12 /2022

 کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب کے ذوق و شوق کی آخری صدی ہے. 
لیکن کئی جہات سے یہ کلیہ درست نہیں معلوم ہوتا ہے. 
اس لیے کہ آج بھی بہت سی کتابیں پورے سج دھج کے ساتھ مارکیٹ میں آرہی ہیں اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا مقام حاصل کر رہی ہیں؛ کبھی تو کتاب کی کشش، کبھی صاحبِ کتاب کی کشش، کبھی جس شخصیت کی طرف اس کتاب کا انتساب ہے، اس شخصیت کی کشش
لوگوں کے مابین اس کتاب کو مقبولیت عطا کرتی ہے. 
ایسی ہی ایک کتاب" علم و فن کے نیر تاباں" کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے. اور مرتب کی عنایت سے آج ہی رجسٹرڈ ڈاک سے موصول ہوئی ہے. اس کتاب کے بارے میں امید ہے کہ مقبولیت کا مقام حاصل کرے گی. اس کتاب کو ہمارے عزیز دوست ممتاز صاحب قلم مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کمال مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ مرتب فرمایا ہے. یہ کتاب حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت پر اہل علم کے گراں قدر مضامین کا حسین گلدستہ ہے. اور اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے یہ کتاب "عروس جمیل" در لباس حریر "کی مصداق ہے. 
اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر مقالہ نگاروں نے پوری محنت اور دقت نظر سے اپنے اپنے مقالوں کو تیار کیا ہے اور مرتب کا کمال ہے کتاب میں یہ مقالات اس ترتیب سے رکھے گئے ہیں کہ مولانا کی زندگی گویا اس کتاب میں سماگئی ہے. امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب آئندہ مستقبل قریب میں مولانا کی شخصیت پر مزید کام کرنے والوں کے لئے
سنگ میل اور بنیادی مرجع ثابت ہوگی اور اہلِ علم اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے مزید تحقیقاتی کام انجام دے سکیں گے. 
یہ امر بھی باعث مسرت ہے کہ اس کتاب میں صرف مولانا ہارون الرشید علیہ الرحمہ کے احوال ہی کو قلمبند نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ خطہ جس سے وہ تعلق رکھتے تھے؛ جمال پور دربھنگہ بلکہ پورے بہار کی تاریخ کو ابتدائیہ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے اور اچھی تحقیق پیش کی گئی ہے. 
مقدمہ میں متھلا، متھلانچل، اور ترہت کی تاریخی پس منظر کو بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے. 
بعض تاریخی حقائق کے سلسلے میں
حوالہ درج کرنے کا اہتمام کیا جاتا؛ تو کتاب کی رونق میں اور تاریخی استناد میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا. مثلاً" علمی مقام" کے زیر عنوان 
جن اکابر کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے؛ 
ان کا حوالہ درج کر دیا جاتا تو بڑا اچھا ہوتا. 
ہر باب کے آغاز پہ مناسب حال اشعار
کی سیٹنگ نے کتاب کے حسن کو اور دوبالا کردیا ہے. 
مثلا:باب اول نقوش حیات ہے؛ تو اگلے صفحہ پر میں مناسب حال شعر درج ہے:
 موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
 ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی
اسی طرح باب دوم مشاہدات و تاثرات کا آغاز ہوتا ہے تو اس سے اگلے صفحے میں یہ شعر درج ہے. 
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر جائیں گے
باب سوم تدریس و خطابت پر مشتمل ہے؛ اس سے اگلے صفحہ پر یہ شعر درج ہے 
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
 ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
باب چہارم تعلیمی و تنظیمی خدمات پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر پسند کیا گیا ہے:. نہ پوچھ مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
باب پنجم تحریری نمونہ پر مشتمل ہے اور اس کے لیے بر محل شعر منتخب کیا گیا ہے:
اٹھائےکچھ ورق لالے نےکچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری. 
ممتاز اہل قلم کے کی تحریر کی خوشبو نے اس کتاب کے بام و در کو معطر کر دیا اور امید ہے کہ قاری کا مشام جاں بھی معطر ہوجائے گا. اور کیوں نہ ہو جس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سیدابواختر قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مولانا مشہود احمد ندوی، مولانا امیر معاویہ قاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی ،مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر نور السلام ندوی؛ مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی، مولانا بدرالحسن قاسمی؛ مفتی عین الحق امینی قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا رحمت اللہ ندوی مفتی ظفر عالم ندوی ؛مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی مفتی اسعد پالن پوری ،مفتی جمال الدین اور مولانا سفیان احمد کے مضامین ہوں، اس کی اثر انگیزی کے بارے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟؟ . 
یہ کتاب کل 256 صفحات پر مشتمل ہے اور پٹنہ سبزی باغ اور دربھنگہ کے کتب خانوں سے یا مرتب سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے. 
تاثرات و تبصرہ :بندہ خالد نیموی قاسمی صدر جمعیت علماء بیگوسرائے ورکن انٹرنیشنل یونین فار مسلم اسکالرز 
مورخہ 17 /12 /2022

تحقیقی تبصرے -ایک مطالعہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ



تحقیقی تبصرے -ایک مطالعہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ
اردو دنیا نیوز٧٢ 

قلمی نام ظفر کمالی سے مشہور جناب ڈاکٹر ظفر اللہ (ولادت 3؍اگست 1959ء) بن کمال الدین احمد مرحوم جائے پیدائش موضع رانی پور بڑہریا سیوان حال مقیم ایم ایم کالونی مل روڈسیوان ذکیہ آفاق کالج سیوان میں فارسی کے استاذ رہے ہیں، نثر نگاری میں انہوں نے مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا سے کسب فیض کیا ہے اور ان سے شرف تلمذ کو وہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں، احمد جمال پاشا کی فکاہت و ظرافت سے جو حصہ انہوںنے پایا اس کے نمونے شاعری میں ظرافت نامہ، ڈنک، وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، نثر میں چٹکیاں، بنام مجتبیٰ حسین، میں بھی اس کے نمونے پائے جاتے ہیں، لیکن تحقیقی مقالات و تبصروں میں ان کا اپنا ایک اسلوب ہے جو صاف و شفاف، تعقیدات لفظی و معنوی سے خالی اور سبک رو ہے۔ اس لیے ان کے تحقیقی تبصرے، تحقیق کی خشکی کے باوجود قارئین کے دل و دماغ کو بوجھل نہیں کرتے، ان کے یہاں اغلاق اور ابہام کا گذر نہیں ہے، جو کہتے ہیں برملا کہتے ہیں، برجستہ؛ مگر تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر کہتے ہیں۔ اس لیے قاری کو پڑھنے کے بعد اپنے علم میں اضافہ کااحساس ہوتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی کتاب کو پڑھ کر آپ کے علم میں اضافہ نہ ہو تو ایسی کتابوں کے مطالعہ پر وقت لگانا تضیع اوقات کے زمرے میں آتاہے۔ اس سے کتاب کی اہمیت بھی ختم ہوتی ہے قاری اور مصنف کے درمیان جو رشتہ ہوتا ہے وہ دھیرے دھیرے کمزور ہوجاتا ہے اور پھرکلیۃً ختم ہوجاتاہے۔
’’تحقیقی تبصرے ‘‘ظفر کمالی کی معتبر اور مستند تحقیق ہے۔ اس میں تبصرے کا عنصر کم اور تحقیقی ذوق زیادہ نمایاں ہے،ہمارے دور میں تبصرے کا مفہوم تعارفِ کتاب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، تنقید کا عنصر تقریباً تبصرے سے غائب ہوگیا ہے، تبصرہ نگار کو تحقیق کی فرصت ہی نہیں ہوتی، تحقیق کے لئے جس جاں کاہی اور پِتّہ پانی کرنے کی ضرورت ہے، تبصرہ نگار اس مخمصے میں پڑنا نہیں چاہتا، بلکہ بعض اساطین ادب کی رائے ہے کہ تبصرہ میں تنقید نہیں ہونی چاہیے، میری رائے ہے کہ تبصرہ نگار کا مبلغ علم اگر اس قدر ہو کہ وہ کتاب کے مندرجات پر اپنی تحقیق کی روشنی میں تنقید کرسکتاہو تو اسے ضرور کرنی چاہے، ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ تبصرہ میں کتاب کے گلشن سے صرف پھول چن کر اس کی عطربیزی سے قارئین کو واقف کرانا چاہئے، کانٹوں سے دامن کشاں کشاں گزر جانا چاہئے۔ میرے خیال میں دونوں نظریات کے حامل افراط و تفریط کے شکار ہیں،اس سلسلہ میں گیان چند جین کی وہ تحریر جو  ان کی کتاب مقدمے اورتبصرے کے صفحہ ۱۴۹،۱۴۸پر درج ہے قول فیصل کی حیثیت رکھتاہے، جناب ظفر کمالی صاحب نے بھی اس اقتباس کو نقل کیا ہے ،لکھتے ہیں:
’’ میرے نزیک موزوں تر یہ ہے کہ اپنی طرف سے کچھ لکھتے وقت اس موضوع پر دوسروں کی تحریروں میں کوئی تسامح دکھا ئی دے توصورت حال پیش کردی جائے ،کسی کتاب یامقالے پر تبصرہ لکھنا ہو تو اس کے دونوں پہلو پیش کردیئے جائیں، محض خوبیو ں پراکتفا کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا محض غلطیاں گنانا( ص ۱۲)
 تبصرہ میں تحقیق بھی ہونی چاہئے اور تنقید بھی، ورنہ کتاب میں جو غلط بات درج ہوگئی ہے، وہ نقل ہوتی رہے گی اور قاری گمراہ ہوتا رہے گاقاضی عبد الودود اور عطا کاکوی نے مختلف مضامین و مقالات کے ذریعہ قاری کو غلط اندراج کی جانکاری دی اور قسطوں میں اس کام کو آگے بڑھایا، مولانا عامر عثمانی نے تجلی میں کھرے کھوٹے اور ماہر القادری نے فاران میں تبصرے کا ایک معیار قائم کیا، ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں تبصرہ، تحقیق اور عملی تنقید کو یک جا کر اس روایت کو وسعت اور تسلسل عطا کیا ہے۔
تحقیقی تبصرے کی اشاعت ۲۰۱۷ء میں ہوئی ،اس کاسرورق خوبصورت اوردیدہ زیب ے،جو اظہا ر احمد ندیم کے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ ہے ،یہ الگ سی بات ہے ہے کہ احقر کو تجریدی آرٹ سے کوئی مناسبت نہیں ،اور جب بھی اس سے معانی اورمفاہیم کشید کرنا چاہتا ہوں ، ڈھیروں پسینہ پیشانی پر اتر آتا ہے،اس عرق ریزی کے بعد بھی پلے کچھ نہیں پڑتا،کمپوزنگ امتیاز وحید کی ہے اور بہت اچھی ہے ،جو اہر آفسیٹ پرنٹس دہلی کی مطبع سے چھپی ،اس کتاب کا ناشر عرشیہ پبلیکیشن ہے،دہلی، الٰہ آباد ،علی گڑھ ،ممبئی ،پٹنہ ،حیدرآباد ،اورنگ آباد، کولکاتا، جموں توی کشمیر نصف درجن سے زیادہ جگہوں سے یہ کتاب بآسانی آپ کو مل سکتی ہے،اتنی خوبصورت اوردوسوچالیس صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے جو زائد تو نہیں ہے ،البتہ اردو کے قارئین کی قوت خرید کمزور ہوتو اس میں مصنف کا کیا قصور ،دوسرے صفحات کے جومندرجات ہیں اس کے بالکل اوپر (C)نشان لگا کر رضیہ سلطانہ لکھا گیا ہے،یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ منظور علی بن محمد اسماعیل اسلامیہ محلہ گوپال گنج کی صاحبزادی رضیہ سلطانہ ظفر کمالی کی اہلیہ ہیں؛لیکن یہاں نام دینے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیاقصورمیری فہم ہی کا ہوسکتا ہے ،کتاب کاانتساب بغیر انتساب کے عنوا ن کے فارسی اوراردو کے اہم محقق سید حسن عباس کے نام ہے ،جو ظفر کمالی کے ذریعہ ان کی خدمات کا اعتراف اوردل میں ان کی عظمت کی دلیل ہے ۔
پیش گفتار میں ظفر کمالی نے ان محققین اوراساتذہ کا ذکرکیاہے جن سے انہوں نے تحقیق کا فن سیکھا ہے ،ان کے کالبدِخاکی میں جو روح ہے وہ انتہائی متواضع اورمنکسرالمزاج ہے اورروح ہی کیا ظاہری رکھ رکھاؤ بھی ان کا اسی انکسار اور تواضع کا مظہر ہے۔ اس لیے انہوں نے شروع میں ہی اس کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں محقق ہونے کا دعویٰ نہیں ،ان کی حیثیت ادنیٰ طالب علم کی ہے انہوں نے اس مختصر مضمون میں یہ بھی واضح کردیا ہے کہ
 ’’میں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ممکنہ طور پر پوری ایمانداری برتی ہے ،عجلت پسندی میرے مزاج کا حصہ نہیں ہے،کسی بھی موضوع پرلکھتے ہوئے تلاش وجستجو سے کام لینے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے ، اورسچ کی پاسداری میں بے جا انکسار سے کام نہیں لیا گیا ہے،صداقت بیانی تحقیق کی بنیاد ی شرط ہے، یہ حقیقت ہمہ دم میرے پیش نظر رہی ہے،کوئی بات اگر صداقت سے پر ے ہے تو اس کا کہنے والا خواہ کوئی ہو اسے بے خوفی سے اجاگر کیا گیا ہے (ص ۱۰)
 ظفر کمالی کے نزدیک ’’تحقیق دراصل پتھر نچوڑ کر پانی نکالنے کا نا م ہے ،اس کے لیے جس جگر کاوی کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے بس کا روگ نہیں، یہاں سہل پسندی اورعقید ت مندی کا بھی گذر نہیں ہے،دقت پسندطبیعتیں ہی اس میدان میں سرخ رو ہوتی ہیں(ص۳۰)
مجھے خوشی ہے کہ ظفر کمالی نے تحقیقی تبصرے میں پتھر نچوڑ کرپانی نکالا ہے ،اورسہل پسندی سے کام نہیں لیا ہے ،البتہ میر ااحساس ہے اورضروری نہیں کہ یہ احساس صحیح بھی ہو کہ ظفر کمالی کو جن شخصیتوں سے عقیدت ہے ان پر لکھتے وقت ان کا لہجہ بدل جاتا ہے ،ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم جس قدر بھی معروضی مطالعہ کی بات کریں انسانی سرشت کی بڑی سچائی ہے کہ شعور یاتحت الشعور میں جن کی خوبیوں نے جگہ بنا رکھا ہے ہم اس سے اپنے کو الگ نہیں کرپاتے ،قلم خود سے چلتا نہیں، اسے ذہن ودماغ اورفکر وشعور کے آمیز ہ سے ہی تحریک ملتی ہے ۔
تحقیقی تبصرے میں کل گیارہ مقالات ہیں، جن کے عناوین درج ذیل ہیں۔
غلطیہائے مضامین: ایک تبصرے پر تبصرہ، ادبی تحقیق، مسائل اور تجزیہ، تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث-ایک تبصرہ، قاضی عبد الودود اور گیان چند جین، قاضی عبد الودود کا خود نوشت سوانحی خاکہ اور سید محمد محسن، قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ از ابوالبرکات کربلائی، مدرس، تدریس اور تحقیق، ضحاک کا ماخذ، بزم فرخ ناٹک، ڈراما اور اسٹیج، گلستاں کا باب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہیں۔
اس کتاب کا پہلا مقالہ سید شاہ عطاء الرحمن عطاکاکوی کے’’ غلطیہا ئے مضامین ‘‘کے اوپر جناب گیان چند جین نے جو تبصرہ کیا تھا اس تبصرہ پر تبصرہ ہے، عطا کاکوی کا یہ مضمون معاصر پٹنہ میں آٹھ قسطوں میں چھپا تھا، گیان چند جین کا یہ تبصرہ پہلے شاعر شمارہ 1986-8میں شائع ہوا تھااور بعد میں ان کی کتاب مقدمے اور تبصرے کا حصہ بنا۔ یہ کتاب 1990ء میں شائع ہوئی تھی۔
ظفر کمالی نے اس تبصرہ پر تبصرہ کا آغاز گیان چند جین کی کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘ کے ایک اقتباس سے کیا ہے اور اس کو اپنے مقالہ کا سرنامہ بنایاہے اور پھر عطاکاکوی کے مضمون اور گیان چند جین کے تبصرے کے اقتباس دے کر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ظفر کمالی کا یہ تحقیقی تبصرہ ایک محاکمہ ہے۔ جس میں ان کے علم کا وفور، تحقیق کا شعور، جانب داری سے نفور اور تنقید کی صلاحیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ اس محاکمہ کا اختتام ظفر کمالی نے اس خوش اسلوبی سے کیا ہے کہ گیان چند جین کی تحریر ہی سے ظفر کمالی کے نظریات کی تائید ہوگئی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’افسوس ہے کہ یہ غلطی ہائے مضامین پر قلم اٹھاتے وقت انہوں نے تحقیقی ذمہ داریوں کالحاظ نہیں رکھا اور حد درجہ بے نیازی سے کام لیا، انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’آپ کو بالکل درست جواب ملے تو لکھئے ورنہ موجودہ مواد کے پیش نظر اپنی معذوری کا اعتراف کرلیجئے  یہ ہرگز نہ ہوکہ آپ دوسرے کے بیان کو غلط ٹھہراکر کوئی تصحیح کردیں اور دوسرا اس تصحیح کا کھوکھلا پن بآسانی ثابت کرسکے، مجھے ان کے قول سے پورا اتفاق ہے۔(تحقیقی تبصرے 29)
اس کتاب کا دوسرا مقالہ رشید حسن خاں کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب’’ ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘ پر ہے، یہ کتاب پہلی بار1978 ء میں چھپی تھی اور دوسرا ایڈیشن اترپردیش اردو اکادمی نے 1990ء میں لکھنؤ سے شائع کیاتھا، یہ تبصرہ بڑی حد تک رشید حسن خاں کی کتاب اور اسکے مندرجات سے اتفاق پر مبنی ہے۔ اس کا اسلوب اور لب و لہجہ اس بات کی طرف مشیر ہے کہ ظفر کمالی رشید حسن خاں کی شخصیت اور ان کی تحقیقات سے خاصے متاثر ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی  ہوسکتی ہے کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر کمالی صاحب کو بقول ان کے تحقیقی آداب سے آگاہی ہوئی، قاضی صاحب اور رشید حسن خاں نے صداقت اور جرأت اظہار کی طاقت بخشی۔‘‘ اس مقالہ کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے۔’’ جو لوگ تحقیق کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہوں اور وہ سرخ روئی اور سرفرازی کے بھی متمنی ہوںتو انہیں’’ ادبی تحقیقی مسائل اور تجزیہ‘‘ کو وظیفے کی طرح پڑھنا چاہیے۔‘‘(تحقیقی تبصرے ص54)
اس کے باوجود انہوں نے چند جگہوں پر رشید حسن خاں کی رائے سے اختلاف کیاہے ،رشید حسن خان نے تذکرے کے اردو تراجم کو فضول کام کہا  اور اسے لوگوں کی دلچسپی کی چیزنہیں مانا ہے، ظفر کمالی نے اس پر اپنے تبصرہ میںلکھا ہے کہ اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے ،دوسری طرف خاں صاحب نے یونیورسٹی میں لکھے جارہے پی ایچ ڈی کے مقالوں کا نثری مرثیہ لکھا تواس سے ظفر کمالی نہ صرف یہ کہ اتفاق کرتے ہیں ،بلکہ ان کے بقول آج تعلیم گاہوں میں تحقیق کی جو صورت حال ہے وہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں مجھے اس موقع سے پروفیسر چند گوپی نارنگ کی وہ بات یادآتی ہے جو انہوں نے اخباری نمائندہ کے سوال کے جواب میں کہی تھی جب ان سے پوچھا گیا کہ آج کل تحقیقی مقالوں کے لے کیا چیز ضروری ہے فرمایا :دفتیوں کے درمیان چند اوراق لکھے ہونے چاہیے ،ظفر کمالی نے ادبی تحقیق ومسائل پر لکھتے وقت اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے انہوں نے اس کتاب کے مضمون ڈاکٹر گیان چند اورقاضی عبدالودود کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ نقوی کا مضمون قدرے مغالطہ میں ڈالنے والا ہے کیوں کہ یہ مقالہ دراصل بت شکن محقق کے بعض حصوں پرتبصرہ ہے ۔اس مقالہ کا اختتام ظفر کمالی کے ان جملوں پر ہوتا ہے:’’اس کتاب کے مطالعہ سے فہم وفراست اورمعانی ومفاہیم کے مختلف درکھلتے ہیں،ان کی دی گئی مثالوں سے چشم عبرت بیںبہت کچھ حاصل کرسکتی ہے،تحقیق ذہانت اورفکری بصیرت سے معمور نقوی صاحب کی اس کتاب اوران کی دیگر قابل قدر تصانیف کی روشنی میں انہیں عصرحاضر کی اردو تحقیق کامرد کامل کہا جاسکتا ہے(ص۷)
تیسرا مقالہ تحقیق و تدوین، مسائل و مباحث پر تبصرہ ہے، یہ حنیف نقوی کی تصنیف ہے اور وہ بھی کمال صاحب کی پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں، ان کی کتاب پر تبصرہ کرتے وقت کمالی صاحب کا قلم ان کی تعریف و توصیف زیادہ کرتا نظر آتاہے، تحقیقی تبصرے کے اس مضمون میں تجزیہ کا عنصر کم، تحقیق کا عنصر غائب اور تائید کا غلبہ ہے۔ اس کے باوجود جہاںکوئی بات سمجھ میں آگئی اس کا ذکرکرنے سے ظفر کمالی نے گریز نہیں کیاہے۔
چوتھا مقالہ قاضی عبدالودود اورگیان چند جین پر ہے جوگیان چند جین کے مضمون ’’قاضی عبدالودود اورمیں‘‘ میں جو غلط فہمیاں گیان چند جین نے قاضی صاحب کے بارے میں پھیلائیں تھی اس پر ظفر کمالی کا یہ تبصرہ ہے ،’’ا س مضمون کے ذریعہ انہوں نے قاضی عبدالودود کا حقائق کی روشنی میں دفاع کیا ہے تاکہ قاری گیان چند جین کے اس مضمون سے گمراہ نہ ہو،اس مضمون کے حوالہ سے گیان چند جین اورقاضی عبدالودود کے درمیان جو مراسلت ہوئی تھی، ظفرکمالی نے علی وجہ البصیر ت اس کا جائزہ لیا اوراس کے مندرجات کو اپنی تشریحات وتوضیحات سے واشگاف کیا ہے،تمام اقتباسات کے محاکمہ کے بعد ظفر کمالی کی رائے ہے کہ گیان چند جین اپنی طالب علمی کے زمانہ میں ہوسٹل میں سورش کرانے پر نکالے گئے تھے،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہوسٹل کے بعد اب وہ ادب میں بھی سورش بریا کرنا چاہتے ہیں۔
پانچواں مقالہ قاضی عبدالودود کی خود نوشت سوانحی خاکہ پر ڈاکٹر محمد محسن کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالا ت کے تجزیئے اوردفاع پر مشتل ہے ،اس مقالہ میں ہندوستانی سیاست کے بعض تاریخی واقعات پر بھی ضمناً روشنی ڈالی گئی ہے ،ظفر کمالی نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے جناب امتیازعلی عرشی ،یوسف حسین خاں وغیرہ کی آراء بھی اپنی تائید میں نقل کیا ہے،بعض اعتراضات کو برحق بھی بتایا ہے ،مثلا ان کاحافظہ آخر عمر میں کمزور ہوگیا تھااور انہیں اپنے نانا کے نام کے بارے میں بھی ایک بار مغالطہ ہوگیا تھا،ظفر کمالی نے صحیح لکھا ہے کہ پروفیسر محسن نفسیات کے آدمی ہیں اور ان کو اس فن میں جو مہارت ہے وہ لائق عز وشرف ہے ،اس میدان میں ان کا مقابلہ قاضی عبدالودود اورکلیم الدین احمد نہیں کرسکتے ۔ٹھیک اسی طرح اردو ادب کے میدان میں قاضی اورکلیم صاحبان کا مقابلہ ان کی تحریر یں کبھی نہیں کرسکتیں،اردو ادب میں انکے مقابلہ میںسکہ تو انہیں دونوں حضرات کا چلا ہے اور چلتا رہے گا۔(ص۳۱)
چھٹے مقالہ میں ابوالبرکات کربلائی کی تصنیف’’ مثنوی قطب مشتری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ کو موضوع تحریر بنایاگیا ہے اوراس کتاب کی خامیوں اورکمیوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ،اورلکھا ہے کہ’’ ابوالبرکات کربلائی نوآموز ہیں انہوں نے وہاب اشرفی کے نسخے پر اعتماد کیا حالانکہ اس میں الفاظ کی غلط قرأ ت بھی موجود ہے اورناموزوں اشعار بھی کم نہیں ہیں،ایسے نسخے کوبنیاد بناکر جب لکھنا تھا تو مزید احتیاط کی ضرورت تھی ،لیکن موصوف نے احتیاط کا دامن سرے سے پکڑا ہی نہیں‘‘
اس مقالہ میں ظفر کمالی نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ابوالبرکات کربلائی نے اپنی کتاب میں وہاب اشرفی کی عبارتیں من و عن بغیر حوالہ کے نقل کر لی ہیں،جسے سرقہ بھی کہا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ ان کی قلت مطالعہ اورتحقیقی شعور کا یہ حال ہے وہ نثری کتابوں کو شعری کتاب سمھ لیتے ہیں،اورغلط بنیادوں پر تحقیقی کام کو آگے بڑھاتے ہیں،ظفر کمالی نے اپنے مقالہ میں بہت سارے اقتباسات دے کرواضح کیا ہے کہ ’’یہ کتاب جس نیک مقصد کے تحت لکھی گئی تھی اس میں قطعی طور پرناکام ہے،یہ قارئین کو فیض یاب کم ،گمراہ زیادہ کرتی ہے ‘‘
ساتواں مقالہ مدرس ،تدریس اورتحقیق کے حوالہ سے ہے اس مقالہ میں درسیات کی بہت ساری کتابوں میں جو اغلاط ہیں ان کو کھول کر رکھ دیا ہے ،ظفر کمالی واضح کرتے ہیںکہ جن اصحاب کا انتخاب نصابی کتابوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے ،ان میں سے اکثر اس کام کے لیے ناموزوں اور غیر مناسب ہوتے ہیں،نصابی کتابوں میں شامل نظموں میںکتابت کی جو غلطیاں در آئی ہیں اس نے مصرعوں کو غیر موزوں اورمعنیٰ کی ترسیل کو دشوار تر بنادیا ہے،جب اساتذہ متن کی خواندگی صحیح نہ کرسکیں تو اوزان ،قافیہ ،ردیف کے بارے میںطلبہ کو بتانا کس قدر مشکل ہوگا،متن کی خواندگی پر اپنے ساتھ گزرا ایک واقعہ برجستہ یاد آگیا کہ بیر ون ملک ایک انڈین اسکول میں ایک صاحب نے میرے سامنے یہ شعر پڑھا
جانا نہ تھا جہاں مجھے سوبار واںگیا
ضعفِ ِقوی سے دست بدیوارواں گیا
میں نے پوچھا :حضوریہ ضعفِ ِقویٰ کیا چیز ہے ،کہنے لگے بہت کمزوری کے معنیٰ میں ہے ،صفت موصوف ہے اسی لیے تو شاعر دیوار پکڑ کر جارہا ہے ،اب استاذ بھی قُوٰا ور قَوی میں فر ق محسوس نہ کرے تو کار طفلاں تو تما م ہوگا ہی ،ظفر کمالی نے بجا لکھا ہے کہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اغلاط کی طرف بچوں کی رہنمائی کریں ،جو کتابوں میں درج ہوگئی ہیں ، اس کے لیے ضروری ہے کہ استاذ کسی درجہ میں محقق بھی ہو تبھی تو وہ بتا سکے گا کہ ’’نگارشات فارسی‘‘ محمد حسین آزاد کا سفر نامہ نہیں فارسی شعراء کا تذکرہ  ہے ،فرہنگ مصطلحات ٹھگی کو کوئی رشیدحسن خاں کی کتاب کہتا ہے تو استاذ کو جاننا چاہیے کہ اس کتاب کے مصنف علی الٰہ آبادی ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ تحقیقی تبصرے کا یہ مضمون عوامی بھی ہے اور شوق دلانے والا بھی ،اس میں تحقیق ہے ،لیکن قاری کے سر کو بوجھل کرنے والا نہیں،اس لیے عام قارئین کے لیے بھی یہ مقالہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔
آٹھواں مقالہ ڈاکٹر محمد حسن کے ڈرامہ ضحاک کے ماخذ کے سلسلہ میں ہے ،ڈراما تو ڈراما ہی ہوتا ہے ،ضحاک معرو ف کردار ہے ،ڈاکٹر محمد حسن نے اس ڈرامہ میں جو مواد استعمال کیا ہے اس کا ماخذ کیا ہے یہ اس مقالہ کا موضوع ہے ،اس ڈرامہ میں بہت سی باتیں طبع زاد ہیں جوکتابوں میں نہیں ملتیں،بعض واقعات کے سلسلہ میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ وہ اختر شیرانی کے کتاب کا سرقہ یا چربہ  ہے،یہ بات حقیقت  سے انتہائی دور ہے، ظفر کمالی نے اپنی تحقیق کے مطابق حتمی اورآخری بات یہ لکھی کہ ’’فردوسی کے شاہنامہ کے ابتدائی حصہ میں ضحاک کا جو قصہ بیان ہوا ہے وہ محمد حسن ضحاک کے قصے کی بنیاد ہے، تھوڑی تبدیلیوں کے باوجود اس سے بہت قریب ہے ،سرور سلطانی سے استفادہ کی بات جزوی طورپر ہی درست کہی جاسکتی ہے؛ لیکن یہ بات سوفیصد درست ہے کہ محمد حسن نے کسی سے کوئی سرقہ نہیں کیا ہے‘‘
نواں مقالہ بزم فرح ناٹک معرو ف بہ فرخ سبھا حافظ کی تحقیق پر مبنی ہے ، اس مقالہ میںظفر کمالی نے حافظ محمد عبداللہ کے اس ڈرامے پر تحقیقی روشنی ڈالی ہے اوران کے مختلف کرداروں کاتذکرہ کیا ہے ،اوراس کی تلخیص پیش کی ہے ،اس ذیل میں امانت اورحافظ کے ڈراموں سے درج اشعار پیش کرکے اس پر امانت کے اثرات کو بھی واضح کیا ہے ،اوراس ڈرامہ کی خامیوں پر بھی روشی ڈالی ہے ، اورحافظ کے اس قول کی تردید کی ہے کہ ’’فرق شاعری وبیان کے اعتبار سے پارسیوں کی فر خ سبھا ز میں ہے ،تویہ آسمان (ص ۲۰۷)
اس کتاب کا دسواں مقالہ’’ ڈرامہ اورا سٹیج ‘‘کے نام سے ہے ،اس مقالہ میں ڈارمہ کی حقیقت اوراسٹیج سے اس کے تعلق پر ظفر کمالی نے گفتگو کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ڈرامہ اسٹیج کا فن نہیں ہے اوریہ بھی صحیح نہیں ہے کہ کاغذ کے صفحات پر ڈرامے کے الفاظ بے روح اور جامدنقوش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ڈرامہ اور اسٹیج دونوں الگ الگ چیز ہے ،بقول ظفر کمالی ’’حقیقت یہ ہے کہ دونوں بالکل علاحدہ علاحدہ  چیزیں ہیں،ان کا آپسی رشتہ ضرور ہے مگر گوشت اورناخن کا نہیں ،اسٹیج ڈرامے کا دست نگر اورمحتاج ہوسکتا ہے اور ہے ؛لیکن ڈرامہ اسٹیج کا نہیں (ص۲۱۳)
اس کتاب کا آخری مقالہ گلستاں کاباب پنجم اور پروفیسر کبیر احمد جائسی ہے، اس مقالہ میں کبیر احمد جائیسی کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان خیالات کی تردید کی گئی ہے ،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس باب کی مشہور حکایتوں میں سعدی نے ایسے مطالب تحریر کیے ہیں کہ ہمارے دور میں ننگوں کا کلب قائم کرنے والے لوگ بھی اس طرح کے مطالب معرض تحریر میںنہیں لائیں گے ۔اس مقالہ میںظفر کمالی نے گلستان باب پنجم کی تما م کہانیوں کا جائزہ لے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں اس قسم کے ا انتہائی نازیبا کلمات کہے جائیں،انہوں نے لکھا ہے کہ
’’ شیخ سعدی اردو کے ترقی پسند وں سے کئی سوسال پہلے اپنے عہد کے سب سے بڑے ترقی پسند ادیب وشاعر تھے ،آج ہم انہیں ترقی پسندوں کا امام بھی کہہ سکتے ہیں،اس حیثیت سے اگر شیخ سعدی کا جائزہ لیاجائے تو تفہیم کی کئی راہیں روشن ہوں گی (ص ۲۴۰)
مختصر یہ کہ ظفر کمالی نے اپنے تبصروں میں جو تحقیق کے فن کو برتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے،اس طرح محنت اورجانکاہی کے ساتھ لکھنے والے ختم تو نہیں، کم ہوتے جارہے ہیں ،یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف ادب اطفال کے حوالہ سے کیا گیا اور انہیںساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ،ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور صحت وعافیت کے ساتھ ان کی درازئی عمر کی دعا کرتے ہیں ،آمین یارب العالمین

پیر, دسمبر 19, 2022

انتخابی نتائج ____

انتخابی نتائج ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
  ضمنی انتخاب کے ساتھ دہلی کارپوریشن ، گجرات اور ہماچل پردیش کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے، عوام نے دہلی میں پندرہ سالہ بی جے پی کے دور اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور بی جے پی کی امیدوں پر جھاڑو پھر گیا، اب اروند کیجریوال زیادہ اچھے انداز میں دہلی کی خدمت کر سکیں گے، حالاں کہ دہلی کے لفٹننٹ گورنر اور دہلی پولیس اب بھی ان کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اگلے اسمبلی انتخاب میں بھاجپا کی کامیابی کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن اروند کیجریوال کا جھاڑو  دہلی میں ابھی کمزور پڑتا نہیں دکھتا، ان کی توجہ دہلی ہی پر مرکوز رہے اس لیے ہماچل پر دیش اور گجرات کی عوام نے کیجریوال کی امیدوں پر جھاڑو کے ساتھ پو چھا بھی لگا دیا ہے۔
 ہماچل پردیش کانگریس نے بھاجپا سے چھین کر امید افزا کام کیا ہے، سکھوندر سنگھ سکھو نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے حلف لے لیا ہے میڈیا جس طرح کانگریس کے اندرونی اختلافات کا ذکر کر رہا تھا انکی حیثیت کانگریس کو کمزور کر نے کی مہم تھی صحیح بات یہ ہے کہ کانگریس  وہاں  کمل کی پنکھڑیوں کو  منتشر کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی ہے، گجرات میں نریندر مودی اور امیت شاہ کا جلوہ ابھی کمزور نہیں پڑا ہے، بلکہ اس بار اسے رکارڈ توڑ کامیابی ملی ہے، اس نے اپنی فتح کے تمام سابقہ رکارڈ توڑ کر تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے، موربی سانحہ بھی گجرات کی عوام کو مودی سے دور نہیں کر پائی۔
 ضمنی انتخابات کے نتائج ملے جلے رہے ہیں، وہاں کسی خاص پارٹی کو تالی بجانے کا موقع تو نہیں ہے، البتہ ضمنی انتخابات میں عظیم اتحاد کی کڑھنی میں ناکامی نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس جیت سے بہار میں بی جے کا حوصلہ بڑھا ہے۔ 
ایسے میں ضرورت ہے کے عظیم اتحاد اپنے طریقے کار پر غور کرے اور سیکولر ووٹ کے بکھراؤ کو روکے۔ ورنہ 2024میں بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔اب تک سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں لیکن اب تو خود ان سیاسی جماعتوں کی بقا کا مسءلہ ہے کم از کم اب تو سیاسی پارٹیاں ہوش کے ناخن لیں۔

اتوار, دسمبر 18, 2022

علم وفن کے نیر تاباں " ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح ............................................................................مؤلف ومرتب: ڈاکٹر نورالسلا م ندوی✍🏻: عین الحق امینی قاسمی معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

"علم وفن کے نیر تاباں " 
            ثاقب فکر ونظر کی حامل سوانح 
............................................................................
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مؤلف ومرتب: ڈاکٹر نورالسلا م ندوی

✍🏻: عین الحق امینی قاسمی 
معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے

انسانوں سے آباد اس دنیا میں یوں تو بے شمار کمالات کے حامل انسان گذرے ہیں ،مگر ماضی قریب میں جن عظیم شخصیات نے اپنی ذہانت وذکاوت ، خدادادانتظامی صلاحیت وصالحیت، علم وفضل ،زہد وورع اور متنوع امتیازات سے متآثر کیا ہے ،ان میں ایک ممتاز نام ،فکر ولی اللہی کے امین، ریاست بہار کی  معروف بزرگ  شخصیت حضرت مولانا ہارون الرشید صاحب نوراللہ مرقدہ کی ذات عالی تھی ،حضرت مولانا مختلف جہتوں کے مالک تھے ،وہ ملک کے کئی ممتاز اداروں میں رہ کر تدریس وتربیت اور انتظامی وروحانی فرائض انجام دیتے رہے،  دینی خدمات کی راہ میں   ایک لانبا عرصہ انہوں نے بتایا ،جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد تیار ہوئے ،جو ملک کے مختلف حصوں میں مصروف کار ہیں ،قضائے الٰہی سے وہ گذشتہ 14/فروری2021 میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

ضرورت تھی کہ ان کی حیات وآثار کو سمجھنے،سمجھ کر برتنے اور آئندہ ان پر بہت کچھ لکھنے پڑھنے کی غرض سے مولانا مرحوم کی شخصیت وخدمات پر مشتمل ایک جامع "نقش اول" سامنے لایا جاتا اور یہ "زندہ خدمت "کسی ایسی شخصیت سے ہی ممکن تھی کہ جومولانا مرحوم کے خاص تربیت یافتہ بھی ہوں اور جنہیں علم وقلم سے گہری وابستگی بھی ہو۔ محترم ڈاکٹر نورالسلام ندوی ہم سبھوں کےشکریہ کے مستحق ہیں ،جنہوں نے اس طرف خاص توجہ دے کرمطلوبہ نقش اول" یعنی علم وفن کے نیر تاباں " کو سامنے لانے میں انتہائی صبر آزما مرحلوں کو انگیز کیا اور بالآخر وہ "معیار "کو پالینے میں سولہ آنہ کامیاب بھی ر ہے ۔
ذاتی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا وطنی تعلق دربھنگہ کے "جمال پور " سے ہونے کی وجہ سے صورت کے ساتھ ساتھ سیرت وکردار میں بھی "جمال وکمال " پورے طور پر حلول کر گیاہے ،کم عمری کے باوجود تھوڑے وقت میں جس طرح سے انہوں نے ریاستی سطح پر  ہر طبقے میں متعدد جہتوں سے اپنی پہچان بنائی ہے یہ ان کے سنجیدہ ،محنتی ،قابل اور صالح ہونےکی دلیل ہے ۔لکھنے پڑھنے کے دھنی انسان تو ہیں ہی،منزل پانے کی جستجو اور لگن بھی جنون کی حدتک ہے ،نفیس ذوق کے مالک ہیں ،جس طرح وہ کسی کانفرنس اور سیمینار کے ڈائز پر اچھا بولتے ہیں ، بعینہ قلم میں بھی برجستگی ،شگفتگی صاف جھلکتی ہے ۔ ان کی کئی ایک کتابیں اس سے قبل کتب خانوں میں آچکی ہیں ۔راقم الحروف ان سے بہت پر امید ہے کہ آنے والے ہندستان میں ان جیسے جیالے ہی" امیدوں کے چراغ "ہوں گے,مگر سرکاری محکموں کے غیر مذہبی ماحول اور اطمینان بخش ملازمت نے مجبورا ہی سہی بہت سوں کو خاموش کردیا ہے ،اس پہلو سے ڈربھی لگتا ہے ،اللہ انہیں حوصلہ دے اور وہ ناخدائی کے جذبہ خدمت سے آشنا رہیں۔

" علم وفن کے نیر تاباں " ان کے حسین ذوق اور فکر وفن کا خوبصورت مرقع ہے ،یوں تو  یہ کتاب مولانا علیہ الرحمہ کی شخصیت پر لکھے گئےمتعدد اہل قلم  کے مضامین کا بیش قیمت مجموعہ ہے ، مگر خوبی کی بات یہ ہےکہ کتاب نہ عام  قلم کا اثر خامہ ہے اور نہ ہی روایتی طریقے سے اسے محض "مجموعہ" بناکر پیش کردیا گیا ہے ، بلکہ 256/ صفحے کی اس کتاب کو ظاہر بیں میں انتہائی نفاست آمیز سرورق کے ساتھ  سامنے لایاگیا ہے ،ایسالگتا ہے کہ ٹائٹل پیج تیار کروانے میں مرتب موصوف نے زندہ دلی سے کام لیا ہے اور ایسے ہی کتاب کے باطن کو سنوارنے میں بھی کم ازکم  شش جہت سے کام لیا ہے ۔کتاب کے مشمولات کا تعارف  فاضل مرتب نے اپنے مبسوط اور دمدارمقدمے کے اخیر حصے میں جس طرح سےکرایا ہے وہ یقینا "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات" کا مصداق ہے :
"کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ،پہلا باب نقوش حیات کے عنوان سے ہے ،اس باب میں مولانا کی زندگی کے ابتدائی احوال ،خاندانی پس منظر اور تعلیمی اداروں سے  وابستگی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس باب میں مولانا امیر معاویہ قاسمی ، مولا نا مفتی ثناء الہدی قاسمی ، مولانا رضوان احمد ندوی ، خاکسارنو رالسلام ندوی ، مفتی جمال الدین قاسمی، نسیم احمد رحمانی ندوی ،مولا نا مفتی سعید پالنپوری فلاحی ، مولا نا مفتی اشتیاق احمد قاسمی اور ابو معاو یہ محمد معین الدین ندوی قاسمی کے مضامین شامل اشاعت ہیں ۔ دوسرا باب ’ ’ مشاہدات و تاثرات ‘ ‘ کے نام سے ہے ، اس باب میں مضمون نگاروں نے اپنے مشاہدات و تاثرات پر قلم بند کئے ہیں ۔ان میں مولانا بدرالحسن قاسمی ، مولانا عبدالرب قاسمی ، مولانا طارق شفیق ندوی ، مولانامفتی خالد نیموی قاسمی ، ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی ، مولانا احتشام الحق قاسمی رامپوری ، مولانا مفتی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سعد اللہ قاسمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ تیسرا باب تدریس وخطابت ‘ ‘ پرمشتمل ہے ، اس باب میں مولا نا مفتی ظفر عالم ندوی ، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی ، مولانامفتی مجاہد الاسلام قاسمی ، مولا نا اسعد ندوی ، مولا نا محمد علی اور مولانا امیر معاویہ قاسمی کے مضامین ہیں ، جن میں مولانا کی تدریسی صلاحیت و تجربات اور خطابت کے انداز واسلوب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ چوتھا باب ’ ’ تعلیمی تنظیمی و تحریکی خدمات ‘ پر محیط ہے ، اس باب میں مولانا کی علمی مشغولیات تعلیمی کارنامے اور تنظیمی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اس حصہ میں مولا نا خالد سیف اللہ ندوی ، مولانامفتی نافع عارفی ، مولا نامفتی عین الحق امینی قاسمی (بیگوسرائے)، حافظ مولا نا نعمت اللہ قاسمی ، احقر نورالسلام ندوی ، مولانا ابوعباده ، مفتی رضوان عالم قاسمی کے مضامین شامل اشاعت کئے گئے ہیں ۔ پانچواں باب مولانا کی تحریروں کے نمونے اور اخبارات کے تراشوں‘‘پر مشتمل ہے"
 
کتاب کے سرسری مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام مضامین کو انہوں نے ازخود پڑھنے کے بعد ہی باب درباب تقسیم کیا ہے اور ہرممکن "بہتر سے بہتر " بناکراپنے قارئین کی بارگاہ میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ تاہم پروف ریڈنگ کی بعض روایتی بھول چوک سے وہ ابھر نہیں سکے ہیں  چوں کہ 

غلطی سے مبرا کوئی انسان نہیں ہے 
یہ ذوق کا دیوان ہے قرآن نہیں ہے

مجموعی اعتبار سے کتاب  قابل حوصلہ ،طلب انگیز ،بصیرت افروز اور ثاقب فکر ونظر کی حامل ہے ، متعدد اہل تجربہ افراد کے پیش لفظ ، تقریظ ،دعائیہ کلمات ،تبریک ،حرف زریں اور خاص کر حافظ مولانا سفیان احمد ناظم مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور دربھنگہ کے حرف چند نے کتاب کی اہمیت بڑھادی ہے ۔ کتاب کی عام قیمت 300/روپے رکھی گئی ہے ۔ فاضل مرتب(9504275151 )   کے علاوہ بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ،مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور ،اور ناولٹی بک ہاؤس اردو بازار دربھنگہ وغیرہ سے کتاب بسہولت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

ہفتہ, دسمبر 17, 2022

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ

پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پروفیسر ڈاکٹر معراج الحق برقؔ نے ۲؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ بوقت ۳؍ بجے سہ پہر بھاگل پور میں بڑے بیٹے امجد حیات برقؔ کی رہائش گاہ پر اپنی آنکھیں موند لیں، ایک وقت کی نماز نہیں چھوٹی، بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس دنیا میں تو اب یہ آنکھ نہیں کھل سکے گی، نہ درد نہ بے چینی، نہ نزع کی تکلیف، نہ آہ وفغان، زندگی میں بھی پُر سکون رہتے تھے اور اسی سکون کی کیفیت کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیے ، جنازہ ان کے مکان واقع زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور رات کے ڈیڑھ بجے پہونچا، لڑکے اور لڑکی کو دہلی اور پنجاب سے آنا تھا، اس لیے جنازہ میں تاخیر ہوئی اور سنیچر کے دن بعد نماز مغرب تجہیز وتکفین میں شرکت کے بعد احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مقامی قبرستان میں چہار دیواری سے اتر جانب متصل تدفین عمل میں آئی، اہلیہ ۲۷؍ جون ۲۰۱۲ء میں انتقال کر چکی تھیں، پس ماندگان میں تین لڑکے امجد حیات برقؔ ، سر ور حیات برقؔ ، انور حیات برقؔ اور ایک صاحب زادی کو چھوڑا، ایک لڑکا ارشد حیات چھ سال کی عمر میں استھانواں میں ہی فوت ہو گیا تھا۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ بن حکیم محمدعبد اللہ (م ۲۷؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ء ۔ اپریل ۱۹۹۴ء ) بن ممتاز حسین بن سخاوت علی بن مراد علی بن من اللہ کی ولادت بیندبلاک کے قریبی موضع میرہ چک ضلع نالندہ میں یکم اپریل ۱۹۳۷ء کو ہوئی ، تعلیم کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہوا، کچھ دنوں بعد مقامی پاٹھ شالہ میں داخل ہوئے، لیکن کم وبیش چھ ماہ کے بعد بیند ہائی اسکول کے پہلے درجہ میں منتقل ہو گیے، یہ سال ۱۹۴۴ء کا تھا، ۱۹۴۶ء میں درجہ چہارم تک پہونچے ، ۱۹۴۶ء میں ہندو مسلم فساد کی وجہ سے برقؔ صاحب کے والد نقل مکانی کرکے استھانواں منتقل ہو گیے ، کیوں کہ میرہ چک میں صرف پانچ خاندان بستے تھے فساد کے بعد یہ تعدادگھٹ کر صرف دو رہ گئی تھی، بقیہ سارے غیر مسلم تھے، معاملہ بتیس دانت کے بیچ ایک زبان کا تھا، دانتوں سے زبان کا کٹنا نادر الوقوع ہے، لیکن غیر مسلموں کے ذریعہ اس زمانہ میں بھی اور آج بھی یہ شاد ونادر نہیںہے ، جس پر الشاذ کالمعدوم کہہ کر بات آگے بڑھادی جائے۔
۱۹۴۶ء کے خون ریز فساد کے بعد برقؔؔ صاحب کو بیند ہائی اسکول چھوڑ دینا پڑا ، میرا چک سے استھانواں کی منتقلی برقؔ صاحب کی زندگی میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا، اور آپ کی تعلیم اسکول کے بجائے مدرسہ محمدیہ استھانواں ضلع نالندہ میں ہونے لگی، اس زمانہ میں مولانا عزیز احمد صاحب بھنڈاری مدرسہ محمدیہ کے ناظم تھے، یہاں برقؔ صاحب کا داخلہ تحتانیہ دوم میں ہوا، اور اسی مدرسہ سے آپ نے بہار اسٹیٹ مدرسہ اکزامنیشن بورڈ کے نصاب کے مطابق عالم تک تعلیم پائی، اس وقت یہ مدرسہ تعلیم وتربیت کے ا عتبار سے مثالی سمجھاجاتا تھا، یہاں برقؔ صاحب نے جن اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علم وادب سیکھا، ان میں مولانا فصیح احمد ، مولانا رضا کریم، مولانا وصی احمد ، حافظ حفیظ الکریم رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں، مولانا فصیح احمد اور مولانا رضا کریم جن کا شمار جید علماء میں ہوتا تھا اور جو تقویٰ طہارت امانت ودیانت میں بھی ممتاز سمجھے جاتے تھے، ان سے برقؔ صاحب نے نحو وصرف، حدیث وتفسیر، فقہ وعقائد منطق وفلسفہ اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، حافظ عبد الکریم نے گلستاں ، بوستاں، اخلاق محسنی، پند نامہ ، عطار کے اسباق پڑھا کر فارسی زبان وادب سے دلچسپی پیدا کی، انگریزی کی تعلیم ماسٹر انوار الحق استھانواں ، ماسٹر عبد الودود اکھدمی، ماسٹر عبد الصمد بہار شریف ، ماسٹر علی کریم استھانوی اور مشتاق بھائی ملک ٹولہ سے پائی، ان حضرات کی محنت سے انگریزی زبان وادب میں ایسی مہارت پیدا ہوئی کہ بعد کے دنوں میں فارسی کے استاذ ہونے کے باوجود لڑکے ان سے انگریزی کی ٹیوشن لیا کرتے تھے، ہندی اور حساب میں بھی گروسہائے پرشاد اکبر پوری نے خاصہ درک پیدا کر دیا تھا۔
برقؔ صاحب نے۱۹۵۹ء میں عالم کی ڈگری مدرسہ سے پانے کے بعد ۱۹۶۰ء میں میٹرک میں کامیابی حاصل کی، ۱۹۶۳ء میں دربھنگہ کے پُرکھوپٹی پرائمری اسکول میں ملازمت مل گئی، اس کے باوجود ۱۹۷۷ء تک تعلیم کے مراحل طے کرتے رہے ، ڈبل ایم اے کرنے کے ساتھ ۱۹۶۶ء میں ٹیچر ٹریننگ کا دو سالہ کورس مکمل کیا، بی اے آنرس فارسی، ایم اے فارسی، ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے، ایم اے فارسی میں ٹوپر کے ساتھ یونیورسٹی کے سابقہ ریکارڈ توڑنے میں بھی انہیں کامیابی ملی ، ۱۹۷۸ء میں امتیازی نتائج امتحان کی وجہ سے بہار یونیورسیٹی مظفر پور کے آر ڈی اس کالج میں آپ کی بحالی عمل میں آئی اور آپ نے قریب کے محلہ پوکھر یا پیر مظفر پور میں زاہدہ منزل کے کرایہ کے ایک کمرہ میں بود وباش اختیار کر لیا اور کالج کے اوقات کے علاوہ طلبہ کو انگریزی کا ٹیوشن کراتے تھے او رواقعہ یہ ہے کہ ان سے اردو وفارسی کے طلبہ کم اور انگریزی کے طلبہ زیادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔
میں جب دار العلوم دیو بند سے فارغ پاکر مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوا تو کئی سال رمضان المبارک میں پوکھریا پیر کی مسجد میں تراویح میںقرآن سنانے کا اتفاق ہوا، وہ ان دنوں میرے مقتدی ہوا کرتے تھے او ربقیہ وقت مسجد میں خالصتا لوجہ اللہ امامت بھی کیا کرتے تھے، میں نے اپنی زندگی میں کسی پروفیسر کو اس پابندی کے ساتھ امامت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ۲۰۰۰ء میں وہ اردو فارسی کے صدر شعبہ کی حیثیت سے آر ڈی اس کالج سے ہی ریٹائر ہوئے، سبکدوشی سے پہلے ۱۹۹۲ء میں انہوں نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور میں ایک قطعۂ آراضی حاصل کرکے مکان تعمیر کرالیا تھا، اور وہیں آخری عمر تک رہے، اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے بڑے صاحب زادہ امجد حیات برقؔ کے ساتھ رہا کرتے تھے، جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا وہ ان کے ساتھ وہاں قیام پذیر ہوجاتے، چند مہینے قبل تک دربھنگہ تھے، پھر جب امجد حیات صاحب کا تبادلہ بھاگلپور ہو ا تو وہ ان کے ساتھ چلے گیے ، امجد حیات رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں، میری بھتیجی طلعت جہاں آرا عرف سوئیٹی بنت ماسٹر محمد رضا الہدیٰ رحمانی ان کے دوسرے صاحب زادہ سرور حیات کے نکاح میں ہے، میری ایک چچازاد بہن اور چھوٹے بھائی ماسٹر محمد نداء الہدیٰ کی اہلیہ زینت آرا عرف نوروزی نے ان کی رہنمائی میں عارف ماہر آروی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، میرے ایک بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ فدا نے بھی ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا رکھا تھا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔
 ڈاکٹر معراج الحق برقؔ فطری طور پر شاعر تھے، اسی لیے کم سنی سے ہی باوزن اور بے وزن اشعار کی پرکھ پیدا ہو گئی تھی ، ۱۹۵۵ء میں یاد رفتگاں کے نام سے ایک نظم لکھی تھی، گاہے گاہے طلب پر سہرا یا موضوعاتی نظم لکھتے رہے ، لیکن شاعری کبھی بھی ان کے لیے ذریعہ عزت نہیں رہی ، پروفیسر ثوبان فاروقی کی بیٹی کی ولادت پر انہوں نے سولہ اشعار پر مشتمل تہنیت نامہ لکھا تھا ، اس کے جواب میں پچاس اشعار پر مشتمل منظوم خط پروفیسر ثوبان فاروقی سابق صدر شعبہ اردو آر این کالج حاجی پور نے ان کو ارسال کیاتھا، برقؔ صاحب نے اس کے جواب میں چھہتر اشعار پر مشتمل دوسرا مکتوب ان کی خدمت میں ارسال کیا، ان تینوں کو ڈاکٹر امام اعظم نے تمثیل نو جنوری ۲۰۲۱ء تا جون ۲۰۲۲ء کے شمارہ میں شائع کر دیا ہے اسی شمارہ میں ’’کھینی امان اللہ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم ہے ، جن سے ان کی قادر الکلامی ، برجستہ گوئی، رفعت تخیل اور ندرت افکار کا پتہ چلتا ہے۔
برقؔ صاحب کی نانی ہال میر غیاث چک تھی ،ا ن کے والد حکیم عبد اللہ صاحب نے یکے بعد دیگرے تین شادی کی تھی ، برقؔ صاحب محل اولیٰ سے تھے ، ان کے ایک اور بھائی سراج الحق تھے، جو ان سے بڑے تھے، جن کا انتقال ۲۰۱۲ء میں ہوا، ان کے تین علاتی یعنی باپ شریک بھائی اور ہیں جن کے نام اعجاز الحق، اظہار الحق اور نثار الحق ہیں،برقؔ صاحب کی شادی باڑھ سب ڈویزن کے گاؤں کنہائی چک ضلع پٹنہ میں دسمبر ۱۹۶۹ء میں ہوئی تھی ۔
 برقؔ صاحب کا اصلاحی تعلق حضرت مولانا شمس الہدیٰ صاحب راجوی دربھنگوی دامت برکاتہم سے تھا، مظفر پور میں جب پروفیسر برقؔؔ صاحب کا قیام ہوتا مولانا کے ارادت مندوں کی مجلس ِمراقبہ اور ذکر پروفیسر برقؔ صاحب کے گھر پر ہی لگا کرتی تھی، گاہے گاہے وہ حضرت سے ملاقات کے لیے گنور وغیرہ کا سفر بھی کیا کرتے تھے، پرفیسر برقؔ تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد میں با جماعت نماز کے انتہائی پابند تھے، زکریا کالونی کے امام مفتی آصف قاسمی جب کبھی رخصت پر ہوتے تو وہاں کی امامت انہیں کے ذمہ ہوتی تھی اور تمام مقتدی ان کی امامت میں نماز کی ادائیگی سعادت سمجھتے تھے، جب گھٹنوں میں تکلیف رہنے لگی تو بھی مسجد کی حاضری نہیں چھوٹی، پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔
 برقؔ صاحب نے پی اچ ڈی تصوف پر کیا تھا، اس لیے ان کے مزاج میں صوفیت کا غلبہ تھا، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، زیادہ سنتے اور کم بولتے، غیبت وغیرہ کی مجلسوں سے دور رہتے، مولانا شمس الہدیٰ راجوی سے اصلاحی تعلق کے بعد اس کیفیت میں اضافہ ہو گیا تھا، تصوف کے رموز ونکات پر ان کی گہری نظر تھی ، وہ اپنے مرشد کی طرف سے دیے گیے اوراد ووظائف کے پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے، انہوں نے اپنی مختصرآپ بیتی بعنوان ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ مولانا طلحہ نعمت ندوی استھانواں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے آمین۔ یا رب العالمین

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ

پئے تفہیم (شعری مجموعہ) کا تنقیدی وتجزیاتی مطالعہ 
اردو دنیا نیوز٧٢ 

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) پٹنہ 
موبائل نمبر :  7909098319 

تمام تعریفیں اس رب کے لیے ہیں جس نے انسانوں کو قوت گویائی عطا کی ،جس سے انسان اپنے احساسات وجذبات کا اظہار کرتا ہے ۔اور یہ اظہار کبھی نثر میں کرتا اور کبھی نظم میں ۔نظم کے ذریعہ جو اظہار خیال کرتا ہے وہ شاعر کہلاتا ہے، شاعر کو قدرت کی جانب وہ نعمتیں عطا کی گئی ہیں جن سے وہ اپنے احساسات وجذبات کو ایک نیا رنگ وآہنگ دے کر اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر دلچسپ بنا دیتا ہے ۔اسے وہ تخیلاتی وتصواراتی پرواز حاصل ہے جو اسے ممتاز بنا دیتا ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان میں اپنی گفتگو کرتا ہے تو وہ بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں پر گفتگو کرجاتا ہے ۔
کیوں کہ شاعری نام ہے ذہن وقلب، دل ودماغ میں اٹھتے تجربات مشاہدات اور اپنے ان احساسات وجذبات کو خوبصورت اور پر لطیف انداز میں پرونے کا جو بظاہر خود کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ دنیا میں موجود خلق خدا کی ترجمانی ہوتی ہے جو ان مسائل ومصائب سے دو چار ہیں، یا آسائش سے آسودہ ہیں ۔ شاعر کو وہ بصارت و بصیرت، تصورات وتخیلات،تجربات ومشاہدات عطا کیا گیا ہے جن سے وہ ان کیفیات کا مشاہدات کرتا ہے جو عام انسانوں کے اختیارات میں نہیں ہیں ، انہیں وجوہات کی بنا پر شاعر کو دور اندیش، صاحب بصیرت وبصارت، حکیم وفلسفیانہ ذہنیت کا مالک تصور کیا جاتا ہے ۔

مظہر وسطوی ؔکا نام اردو دنیا کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ ریاست بہار کے ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پہلی تصنیف،، پئے تفہیم،، (شعری مجموعہ) شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہے ۔ ان کا شمار ویشالی کے ممتاز شاعروں  میں اور عمومی طور پر صوبہ بہار کے معیاری شاعروں میں ہوتا ہے،آپ علمی وادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔آپ کو دبستان عظیم آباد کے بہت مشہور ومعروف اور بزرگ شاعر محترم قوس صدیقی کے شاگردی کا شرف حاصل ہے ۔آپ نے اپنی شعری تصنیف کے ذریعہ اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے، آپ درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، آپ کو ادبی خدمات پر انعامات و اعزازات بھی مل چکے ہیں ۔خصوصاً ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے،، پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ 2018 ۔

ہمارے سامنے آپ کی تصنیف کردہ شعری مجموعہ،،، پئے تفہیم،،، کی سنہری تحریریں روح میں اتر کر تازگی کے ساتھ دل ودماغ کو معطر کر رہی ہیں ۔

پئے تفہیم(شعری مجموعہ) 92/صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ کے مالی تعاون سے شائع کیا گیا ہے۔
 اس میں ایک حمد، دو نعتیہ کلام ، پینسٹھ (۶۵) غزلیں ،اور سات نظمیں شامل ہیں ، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ استاذ الشعراء محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے،  کتاب کی شروعات حرفِ ابتدا میں مصنف شاعر نے وجہ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ شعر وادب سے وابستگی، شعر وادب کے تئیں احساسات وجذبات  کے اظہار ان الفاظ میں کیا کہ میں شاعری روح کی تسکین اور طمانیت قلب کے لئے کرتا ہوں، شاعری میری نگاہ میں تجارت وزراعت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔ہم اس سے ان کے جذبات واحسات کی بلندی اور عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں
کے ساتھ ساتھ اپنے معاونین کا جنہوں نے اس تصنیف میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلے سب کا شکریہ ادا کیا ۔

پئے تفہیم کے حرف ابتدا کے بعد،، مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی،، کے نام سے عنوان قائم کرکے ڈاکٹر بدر محمدی نے بڑے تفصیلات سے شاعر کا تعارف، وصف شاعری، انداز شاعری، پیغام شاعری غرضیکہ کہ مظہر وسطوی کے فن شاعری کے تمام پہلوؤں کو مدلل ومفصل انداز میں  تبادلہ خیال کرتے ہوئے  بہترین تجزیہ پیش کیا ہے، جو مظہر وسطوی کو اور ان کے فن کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوگا ۔بعدہ نذرالاسلام نظمی (سابق مدیر، رابطہ، نئی دہلی) چین پور، ویشالی نے اس تصنیف کے تئیں اظہار خیال کیا ۔مشہور ومعروف  وبیباک شاعر وادیب وصحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نیتیشور کالج مظفّر پور، ڈاکٹر ارشد القادری اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ، اور ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی آپ کی شاعری وفن پر مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے اس تصنیف پر مباکبادی پیش کی ہے ۔
آپ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے فن کو بر محل برتنے اور خیالات کو الفاظ کا سہارا ووسیلہ دے کر شاعری میں کس طرح حسن وجاذبیت پیدا کی جائے اس ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں ۔ اس کتاب میں شامل غزلیں، شاعر کے فکر وفن کی پختگی کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے،روانی وتسلسل کا عالم یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسی سواری پر سوار ہیں جو برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے،  لیکن ذرہ برابر بھی کہیں تھکاوٹ اور جرکن کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ شاعری ہمارے زبان کے راستے دل ودماغ تک اتر کر روح میں پیوست کر گئی ہے ۔اس کم عمری میں بھی شاعر کو  زندگی کا مکمل ادراک حاصل ہے۔  شعورو بیداری کے دائرے میں تخیلاتی پرواز تراش کر اپنے اندر کےاحساسات وجذبات وخیالات، اپنی خوشیاں، اپنے رنج وغم اور دکھ تکلیف کو حقیقی پیرائے میں آپ بیتی کے ذریعہ جگ بیتی پیغام سنانے کا ہنر رکھتے ہیں ۔لا محالہ وہ اپنی غزل میں اپنی عمر، اپنے عہد کے اٹھنے والے کئ مسائل ومصائب ، اور سماج ومعاشرے کی بھر پور ترجمانی اور نمائندگی کرتے ہیں ۔ بعض جگہوں پر،، خیر الکلام ما قل ودل،، کا بھی عکس ملتا ہے ۔شاعر نے دو مصرعوں میں پوری کائنات اور پورے عہد کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ۔اچھی شاعری کی یہی مظہر وجوہر ہے ۔ لفظوں کا پیچ وخم، ضخیم تعبیرات کے بجائے بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ اس نے غزل کو ایک نیا رنگ وآہنگ عطا کیا ہے۔
کتاب کی شروعات حصول وبرکت کے لئے حمد و نعت سے کی گئی ہے ۔حمد و نعت کے چند اشعار 
ہر شئے میں سمایا ہوا کردار وہی ہے 
خالق بھی وہی مالک ومختار وہی ہے، 
ہر سمت ہیں جلوے بھی، تماشے بھی اسی کے 
ہر منظر پر نور میں ضو بار وہی ہے ۔

زمیں پر ان کے آنے سے جہانوں میں نکھار آیا 
تڑپتے ذرے ذرے کو سکوں آیا قرار آیا، 

خاتم الانبیاء حق کے پیارے رسول 
سارے عالم کے والی ہمارے رسول 
چاروں جانب اجالا اجالا ہوا 
ایسے چمکے قدم کے ستارے رسول ۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی تخیلاتی وتصوراتی پرواز جہاں بلند وبالا ہوں گے وہاں ان کا معیار اور مقام بھی متعین ہوتا ہے۔ اور بلند تخیلات وتصورات اور تجربات کے مشاہدات کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، مطالعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔
الطاف حسین حالی اپنی کتاب مقدمہ شعروشاعری میں کہتے ہیں ” قوت متخیلہ یا تخیل جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری اعلیٰ درجے کی ہوگی اور جس قدر ادنیٰ درجے کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنیٰ ہوگی”۔

 یہ موصوف محترم کی پہلی کتاب ہے۔ ابھی انہیں اونچی اڑان طے کرکے مزید کامیابی وکامرانی کی طرف جانا ہے، اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔
غزل کے چند اشعار 

غریبی میں بھی یوں خوش ہیں بسا اوقات ہنس ہنس کے 
قناعت کی کوئی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں، 
جومنصف بن کے آتے ہیں محلے کے تنازع میں 
جب اپنے گھر میں ہوتے ہیں تو بستر اوڑھ لیتے ہیں ۔

یہ انداز محبت ہے ادائیں بات کرتی ہیں، 
ملاقاتیں نہیں ہوتی ہیں آہیں بات کرتی ہیں
عجب عالم ہے اس دل کا عجب عالم ہے اُس دل کا، 
زباں خاموش رہتی ہیں نگاہیں بات کرتی ہیں ۔
دل کی باتیں ساتھ کریں گے گھر آنا 
رستے میں کیا بات کریں گے گھر آنا، 

اگر سچائی کے حق میں تمھارا فیصلہ ہوگا
محبت کاصلہ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا، 
حسیں خوابوں کے نرغے سے سلامت میں نکل آیا
حسینوں کے قبیلے میں بڑا چرچا ہوا ہوگا، 

زمانہ بہت اب خراب آرہا ہے
ترقی کو تھامے عذاب آرہا ہے
محبت کی رسمی علامت ہے یہ بھی
کہ پرزے میں سوکھا گلاب آرہا ہے، 
کس نےکہا کہ آج کی دنیا مزے میں ہے
ہر شخص جانتا ہے وہ کتنا مزے میں ہے۔
جذبۂ انسانيت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے۔

چند متفرق اشعار 

پیار الفت کی زبان لشکری اچھی لگی 
سب زبانوں میں زبان مادری اچھی لگی، 
اس کی شیرنی کی قائل آج ہے ساری زباں 
اس سبب اردو زباں کی برتری اچھی لگی، 

حاجیو! اعلیٰ مقدر آپ کو میرا سلام 
رہ گذار نقش انور، آپ کو میرا سلام، 
آپ کی آمد مبارک، مرحبا صد مرحبا 
آپ ہیں کعبہ کے زائر، آپ کو میرا سلام، 

وہ ننھا پرندہ 
شاخ پر چپ چاپ 
کیوں بیٹھا ہوا ہے 
بہت خاموش اور رنجیدہ! 

وہ کلیم درد، میر کارواں رخصت ہوا 
پاسبان عظمت اردو زباں رخصت ہوا، 

اک ادائے خوش بیاں کی نغمگی جاتی رہی 
باغ اردو سے اچانک سر خوشی جاتی رہی، 

باکمال فکر وفن، محبوب انور محترم 
شاعر طرز سخن، محبوبِ انور محترم، 

شاعر کا ایک اپنا انداز وبیاں ہوتا ہے کبھی وہ تجاہل عارفانہ کے ذریعہ سوالی بن کر خود اس کا جواب دیتا ہے، کبھی وہ بیمار ہوکر خود ہی شفا پاجاتا ہے ۔کبھی زندگیوں کی تلخیاں کا تذکرہ کرتا ہے،اور کبھی زیست کی لذت سے متعارف کراتا ہے، غرضیکہ شاعری کے موضوعات کے دائرے بہت وسیع ہوتے ہیں، 
 اس کا سنجیدہ انداز بیان اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب اور محبت میں آنے والے نشیب وفراز، اذیت و کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے مگر اظہار اس انداز میں کرتا ہے کہ یہ ہر ایک کے مسائل ومصائب ہیں، گویا وہ آپ بیتی پیغام جگ بیتی کے ساتھ سنا جاتا ہے ۔ سوز وگداز اور ظاہری وباطنی کشمکش کا اظہار بڑے فنکارانہ انداز میں کرتا ہے ۔ کتاب کا ٹائٹل، سر ورق دیدہ زیب اور کتابت معیاری ہے،مزید اس نئی نسل کے شاعر کو اور ان کے فن کو سمجھنے کے لئے ان کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، نئی نسل کے شاعر وادیب یہ ادب کے عظیم سرمایہ ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔اردو زبان وادب سے منسلک ہر ہر فرد کی ذمہ داریاں ہیں کہ وہ نئے قلمکاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کریں، تاکہ ان حوصلوں سے ان کے فن پر نکھار آئے ۔اور یہی نئی نسل کے شاعر وادیب زبان وادب کے لئے سرمایہ ہوں گے ۔ہم اپنی جانب اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مظہر وسطوی کے اس کار کردگی پر انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...