Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 28, 2022

زہریلی شراب سے اموات __

زہریلی شراب سے اموات __
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اسمبلی سے پارلیامنٹ تک ان دنوں چھپرہ اور سیوان کے مشرَق عیسوا پور، مرہوڑہ اور امنور تھانہ کے متعدد گاؤں میں زہریلی شراب سے اموات کا تذکرہ ہے، گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں، الزام تراشی اور دفاع میں تقریروں کا بول بالا ہے ، حزب اختلاف اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنا چاہتا ہے ، اس نے اسمبلی سے گورنر ہاؤس تک نتیش کمار کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے ، اسمبلی میں جو تکرار ہو رہی ہے وہ کسی سبزی منڈی اور مچھلی ہاٹ کا منظر پیش کر رہا ہے ، منتخب نمائندے کرسی اٹھا رہے ہیں، خود وزیر اعلیٰ بھی اپنا آپا کھو رہے ہیں، دوسری بار لوگوں نے انہیں ودھان سبھا میں گرجتے اور غصہ میں ابلتے دیکھا ہے ، اس گرمی اور غصہ نے آگ میں گھی کا کام کیا اور بحث میں مزید تلخیاں پیدا ہوئیں۔
 انفعالیت ، جذباتیت ، اپنی جگہ؛ لیکن موقف وزیر اعلیٰ کا درست ہے، انہوں نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ جن لوگوں نے شراب بندی قانون کی مخالفت کی اور زہریلی شراب پیااور مرے، ان سے کوئی ہمدردی نہیں اور معاوضہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس اعلان میں معقولیت ہے کیوں کہ شراب نوشی بہار میں غیر قانونی ہے اور جرم کے درجہ میں آتا ہے ، اس کو تمام پارٹیوں کی حمایت سے نافذ کیا گیا تھا، بی جے پی نے بھی اس کی حمایت کی تھی اور اسی کے کہنے پر شراب بندی قانون کے بعض دفعات میں نرمی پیدا کی گئی تھی ، اس لیے بی جے پی کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ مہلوکین کے ورثاءکو معاوضہ دیا جائے، قانون شکنی پر سزا ملے گی یا معاوضہ دیا جائے گا، قانون شکنی کی سزا میں وہ موت کی نیند خود ہی سو گیے،ا س لیے دوسری سزا کا کوئی جواز نہیں ہے ، یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کی موت سے ان کا خاندان بے سہارا ہو گیا اور ان کو پوری زندگی بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ کسی قانون میں ا ن بے سہاروں کو سہارا دینے کی شکل نہیں ہے ، ورنہ عدالت جنہیں پھانسی پر قانون کے تقاضوں سے چڑھا دیتی ہے ، کوئی حکومت ان کے بچوں کی پریشانی کا معاوضہ نہیں دیتی ، فطری موت مرنے والوں کے بچے بھی یتیم ہوتے ہیں، لیکن ان کی فکر بھی کون کرتا ہے، اسی طرح شراب پی کر مرنے والوں کا بھی معاملہ ہے ، وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر اپنا موقف صاف کر دیا ہے کہ شراب پیوگے تو مروگے۔
 اس حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن شراب کی فروخت اور دوسرے صوبوں سے بہار منتقلی بھی جرم ہے ، ان مجرمین کو سزا کب ملے گی اور کون دے گا، جانچ کا موضوع یہ بھی ہے کہ کس نے ان کو شراب پہونچانے میں مدد کی ، بے تحاشہ زہریلی شراب بیچی گئی اور پولیس کو پتہ نہیں چلا، یا ان لوگوں نے پولیس سے تعلقات بنا رکھا تھا، چنانچہ شراب اپنی جگہ پہونچی ، اور اس کی خرید وفروخت میں مجرمین نے اس تعلقات کا فائدہ اٹھایا ایسے میں ضرورت ان تمام کو سزا دلانے کی ہے؛ تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے ، ورنہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور دلیر ہوجائیں گے اور اس قانون کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا، وزیر اعلیٰ نے صحیح کہا ہے کہ اگر معاوضہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس قانون کو ختم ہی کر دینا ہوگا۔ ریاستی حکومت نے یہ اچھا کیا کہ اکتیس(31) افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی جانچ کمیٹی بنانا ہے ، مشرَق تھانہ انچارج رتیش مشرا اور چوکیدار وکیش تیواری کو معطل کر دیا گیا ہے۔ حکومت کو شراب مافیا کے خلاف سخت قدم اٹھانی چاہیے، ہو سکتا ہے حزب مخالف اس پر بھی ہنگامہ کرے، لیکن عوام سمجھتی ہے کہ حزب مخالف کا کام صرف مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے ۔
 اسلام میں شراب ام الخبائث ہے، اور اس کا نقصان بہت زیادہ ہے، اس لیے اس کا بنانا ، بنوانا، اس کا پینا ، خرید وفروخت کرنا ، نقل حمل کرنا، اس کی قیمت کھانا سب حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پر لعنت ہے، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی شراب کے ساتھ دیگر منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، دین سے دوری نے ہمارے بچوں کو اس طرف راغب کر دیا ہے ، ہمیں خود بھی اس کے خلاف مہم چلانی چاہیے، جلسوں میں اسے تقریر کا موضوع بنانا چاہیے اور سماج کو اس لعنت سے پاک کرنے میں اپنی حصہ داری نبھانی چاہیے ۔

منگل, دسمبر 27, 2022

یکساں سول کوڈ کا شوشہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یکساں سول کوڈ کا شوشہ ___
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
1972ءسے یونی فارم سول کوڈ یعنی یکساں شہری قانون بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے ، کانگریس اس قسم کی کوشش نرم ہندتوا مزاج کے ساتھ کرتی رہی ، متبنی اور نفقہء مطلقہ بل کے نام پر مسلم پرسنل لا پر شب خوں مارنے کی یہ کوشش آج کی نہیں ہے، کانگریس کا زوال ہوا، بی جے پی بر سر اقتدار آئی،تو اس نے کھلے عام اس کو کرنا شروع کیا، تین طلاق جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر اس نے قانون سازی کی اور عدالت کے ذریعہ اس کے نفاذ کی متواتر کوشش نے تین طلاق کے باوجود مطلقہ کے بیوی بر قرار رہنے اور نان ونفقہ کی ادائیگی کو لازم قرار دیا ، ایک طرف تین طلاق کو جرم قرار دے کر شوہر کو جیل کی سلاخوں میں بھیجنے کا انتظام کیا اور دوسری طرف اسے نفقہ دینے پر مجبور کیا گیا، اب کون پوچھے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا ، کام نہیں کرے گا تو نفقہ کہاں سے لا کر دے گا، جیل میں جو کام کی اجرت دی جاتی ہے، وہ متعینہ یومیہ مزدوری سے اس قدر کم ہے کہ اس سے ماہانہ مقرر کردہ نفقہ کی ادائیگی ہو ہی نہیں سکتی، امیروں کے یہاں تو یہ ممکن ہے، لیکن ایسے لوگ جو روز کماتے اور روز کھاتے ہیں، اس کے متحمل کس طرح ہو سکتے ہیں، حالاں کہ طلاق کا تناسب کمزور طبقوں میں ہی زیادہ ہوتا ہے۔
 ابھی حال ہی میں شاعر اور مکالمہ نگار جاوید اختر نے بھی یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ اگر شوہر کو چار بیوی کی اجازت ہے تو بیوی کو چار شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی، جاوید اختر مذہب بیزار ہیں، خدا اور رسول کے احکام سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن انسانی نفسیات وطبعیات کے خلاف بھی وہ بیان بازی کریں گے اس کی توقع کسی کو نہیں تھی کیوں کہ ان کا شمار دانشوروں میں ہوتا ہے، اور ایک دانشور سے ایسی بے ہودہ بکواس کی توقع کم سے کم دنیا نہیں کرتی، وہ یہ بیان دیتے وقت شاید بھول گیے کہ عورت نفسیاتی طور پر چار مرد کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ہو بھی جائے تو بچوں کا نسب کس سے ثابت ہوگا، کیا چاروں کو اس کا باپ مان لیا جائے گا، اور کیا ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ کسی ایک باپ کو نامزد کر دینا ، جھگڑے کی بنیاد نہیں ڈالے گا، اسی طرح تعلق کے اوقات بھی نزع کا سبب بنیں گے اور عورت کی حیثیت بازیچہء اطفال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی، یہ اس کے ساتھ ظلم ہوگا، اس لیے شریعت نے عورتوں کو چار شادی کی اجازت نہیں دی۔
بی جے پی نے اس قسم کے واقعات ، بیانات اور مسائل کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام کیا اور اب جب کہ پارلیامنٹ اور راجستھان اسمبلی کا الیکشن قریب ہے، ہندتوا کو متحد کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا اور راجستھان کے بی جے پی ایم پی کڑوڑی لال مینا کے ذریعہ 9 دسمبر 2022ءکوراجیہ سبھا میں پرائیوٹ یکساں سول کوڈ بل پیش کروا دیا، حزب مخالف نے برائے نام مخالفت کی اور تئیس (23) ووٹ کے مقابل ترسٹھ (63) ووٹ سے اس بل پر بحث کی منظوری دیدی گئی، برائے نام مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ حزب مخالف میں آل انڈیا ترنمول کانگریس، بیجو جنتا دل ، وائی ایس آر سی پی کے ارکان خاموشی سے ایوان سے باہر چلے گیے، ایوان سے باہر چلے جانے کا یہ عمل در اصل بالواسطہ حمایت کے قبیل سے ہے ، یہ حضرات اگر ووٹنگ میں یونیفارم سول کوڈ کے خلاف ووٹ دیتے تو یہ بل راجیہ سبھا میں پیشی کے لیے منظور نہیں ہوپاتا، کیوں کہ راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے ایک سو دس (110) اور حزب اختلاف کے ایک سو انتیس (129) ارکان ہیں، اس لیے مان لینا چاہیے کہ اس بل کی مخالفت کانگریس کی قیادت میں قائم یوپی اے میں شامل چونسٹھ (64) ارکان نے بھی نہیں کیا، ورنہ مخالفین کی تعداد کم از کم چونسٹھ (64) ضرور ہوتی ، اور ایوان میں ترسٹھ سے ایک ووٹ زائد ہونے کی وجہ سے اسے منظور نہیں کیا جاتا، جب یوپی اے اپنے ووٹ کو متحد نہیں رکھ سکی تو دیگر پارٹیوں کے پاس جوچوسٹھ (64) ارکان ہیں، ان کارونا کیا رویا جائے، اس معاملہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اب تک جسٹس بی اس چوہان کی سر براہی میں قائم لا کمیشن کی رپورٹ بھی پارلیامنٹ میں پیش نہیں کی جا سکی ہے، جو با خبر ذرائع کے مطابق ایک سو پچاسی (185) صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ یونی فارم سول کوڈ اس ملک میں نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی ضروری، لا کمیشن نے یہ رپورٹ سرکار کو 13 اگست 2018ءکو پیش کیا تھا، اسے اب تک پارلیامنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا اور اس رپورٹ کے خلاف یکساں سول کوڈ کا نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں پرائیوٹ بل کا کیا حشر ہوتا رہا ہے، 1952ءسے اب تک کوئی پانچ ہزار چار سو (5400)نجی بل پارلیامنٹ میں پیش کیے گیے، جن میں سے صرف چودہ بل قانون میں تبدیل ہو پائے ، گذشتہ بیس سالوں کی بات کریں تو اکیس سو (2100)نجی بل پیش ہوئے اور بیش تر یا تو رد ہو گیے یا پیش کرنے والے نے اسے واپس لے لیا ، جو بل قانون بن پائے اسے واپسی کے بعد حکومت نے اپنی جانب سے دو بارہ ایوان میں رکھا، ممکن ہے بعد میں اس بل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، فی الوقت مسلمانوں کو اس کو عوامی سطح پر موضوع بحث بنا کر سڑکوں پر اترنے سے گریز کرنا چاہیے؛ البتہ ان تمام طبقات کے ساتھ گفت وشنید اور مشورے کرنے چاہیے جن کے پرسنل لا پر اس قانون کے مضر اثرات پڑیں گے اور وہ فنا ہو کر رہ جائے گا، یہ طبقات صرف اقلیتیں نہیں ہیں، بڑی تعداد ان غیر مسلم بھائیوں کی بھی ہے جوسماجی اور مذہبی امور کی انجام دہی میں منو سمرتی نہیں، اپنے پرسنل لا اور قبائلی رسم ورواج کے مطابق زندگی گذارتے ہیں۔ان تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ بحث میں یکساں سول کوڈ کے منفی پہلووءں کو ایوان میں اجا گر کریں، تاکہ یہ بل اپنی موت آپ مرجائے یا کڑوڑی لال مینا اسے واپس لے لے ۔
 ضرورت ہے کہ مخالف ماحول میں سازگار فضا بنائی جائے اور ہر حال میں اس بل کو پاس ہونے سے روکا جائے، کس طرح؟ یہ سوچنا اور لائحہ  عمل تیارکرنا قائدین کی ذمہ داری ہے۔

پیر, دسمبر 26, 2022

شادی میں ہوگا ناچ گانا تو نہیں پڑھائیں گے نکاح


 شادی میں ہوگا ناچ گانا تو نہیں پڑھائیں گے نکاح
اردو دنیانیوز ٧٢
 جمعیۃ علماء سکندر آباد کے زیر اہتمام منعقدہ میٹنگ میں علمائے کرام کا دوٹوک فیصلہ

 زبیر شاه بلند شهر (ایس این بی)

 تائید ہے متفقہ طور پر طے کیا گیا ہے اور اس فیصلے پر تختی سے عمل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی حتمی فیصلے کے لیے 5 رکنی علماء و ذمہ داران کی شوری فیصلے کی مجاز ہوگی، ان کے ذریعے جو بھی فیصلہ لیا جائے گا وہ حتمی ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے ذمہ دار حاجی شاہد انصاری کی دعاء پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی۔ اس موقع پر مفتی نیم احمد قاسمی ، قاری محمد عالم قاسمی ، قاری محمد اخلاق، قاری ندیم احمد ، قاری زبیر احمد، قاری شفاعت خان، قاری اکرام احمد، مولانا نظام الدین قاسمی، مولانا منت اللہ قاسمی، مولانا جنید اختر مولانا گل صنوبر قاسمی ، حاجی رفیق الدین جرنیل غازی، عابد صدیقی، امان الله خالد مقصود جالب ، رضوان قریشی، مولانا عبد القادر

 جمعیة علماء شہر سکندر آباد کے زیر اہتمام اتوار کی صبح محلہ قاضی واژه واقع شاہی جامع مسجد میں شہر کے علماء ائمہ، متولیان مساجد، ذمہ داران و اسا تذہ مدارس اور شہر کے تمام علاقوں کے معززین کی ایک اہم میٹنگ مولانا محمد ارشد قاسمی کی صدارت اور مولانا محمد عارف قائمی کی نظامت میں منعقد کی گئی ، جس میں متفقہ طور پر مندرجہ ذیل تجاویز وامور پر غور و خوض کیا گیا اور اتفاق رائے سے طے کیا گیا کہ آئندہ یکم جنوری 2023 سے شہر کے مسلمانان شادی بیاہ میں قبل از نکاح یا پروگرام کے بعد کسی بھی قسم کی آتش بازی، پٹانے ، ڈی جے ، ناچ گانا وغیرہ نہیں

 سکندر آباد کی جامع مسجد میں میٹنگ کے دوران خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد قاسمی اور مولانا محمد عارف قاسمی و دیگر .... ( تصویر: ایس این بی)

 کریں گے ۔ مولانا ارشد قاسمی نے وہاں موجود اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں تمام بے جا

 کہا کہ اگر کسی شادی کی تقریب میں ڈی جے آلات موسیقی، آتش بازی، ناچ گانے کا استعمال کیا جائے گا تو وہ نکاح نہیں پڑھائیں

 گے اور نہ ہی کسی اور کو نکاح پڑھانے دیں گے۔ ماسٹر نعیم احمد، ڈاکٹر اقبال احمد نیم سیفی، سید سب نے بلند آواز سے اس تجویز کو پاس اشتیاق احمد، سلیم ملک ایڈووکیٹ ، عابد غازی کیا۔ مولانا محمد عارف نے کہا کہ یہ فیصلہ بھی کی وغیرہ موجود تھے۔

 لوگوں سے برائیوں، رسم ورواج کو ختم کرنے پر رسومات کو ختم کرنے کے لیے متفقہ طور پر ایک

 زور دیا۔ اس موقع پر شہر کے معززین نے بھی تجویز پاس کی گئی۔ علمائے کرام نے متفقہ طور پر

یوم انسانی حقوق ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوم انسانی حقوق ____
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ابھی چند دن قبل 10 دسمبر کو پوری دنیا میں یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا گیا، ہمارے یہاں یہ اب رسم سی بن گئی ہے ، 10 دسمبر 1948ءکواقوام متحدہ کی مجلس عام نے عالمی حقوق انسانی کے نام سے ایک دستاویز جاری کیا تھا، جس کے بہت سارے دفعات اسلام کے حقوق انسانی منشور سے لیے گئے تھے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اکرام انسانیت اور احترام آدمیت کا جو درس دیا تھا وہ اتنا جامع اور بقاءباہم کے لیے اس قدر عملی ہے کہ کسی اور منشور اور مینو فیسٹو کی ضرورت نہیں ہے ، ان اصولوں کو حلف الفضول، میثاق مدینہ اور خطبہ حجة الوداع میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے، قرآن کریم میں اکرام آدمیت اور قتل وغارت گری سے احتراز اور روئے زمین پر فساد پھیلا نے سے گریز کا جو درس دیا گیا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔
عالمی حقوق انسانی کا جو دستاویز اقوام متحدہ نے تیار کیا ، اس سلسلے میں حساسیت پیدا کرنے کے لیے اس نے 10 دسمبر 1950ءکو یہ فیصلہ لیا کہ 10 دسمبر کو یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا جائے، اقوام متحدہ کا ماننا ہے اس کی وجہ سے لوگوں میں سماجی ، ثقافتی، اور جسمانی حقوق کے سلسلے میں بیدار ی پیدا ہوگی اور وہ آزادی ، مساوات اور عزت نفس کے ساتھ زندگی خود بھی گذارنے کے لیے تیار ہوں گے اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں گے، ہندوستانی دستور کے باب 3میں بنیادی حقوق کے ضمن میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور ان حقوق کی ان دیکھی یا پامالی کرنے والوں کے لیے عدالت کے فیصلے کے مطابق سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں جس طرح انسانی حقوق کونظر انداز کرکے نسل، رنگ، جنس ، زبان ، مذہب وغیرہ کے حوالہ سے تفریق کی جا رہی ہے ، وہ جگ ظاہر ہے، حقوق کا ذکر تو ہے، لیکن ان کی تنفیذ نہیں ہو پا رہی ہے، تاریخ کا سیاہ باب ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے حقوق اور فرائض کو الگ الگ سمجھ رکھا ہے ، اپنے حقوق کے سلسلے میں سب حساس ہیں، لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں، حالاں کہ سماجیات کا مشہور مقولہ ہے کہ حقوق وفرائض میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، بہت ساری صورتوں میں حق دینا آپ کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے، آپ نے اگر اس طرف توجہ نہیں دیا تو یقینا دوسرے کی حق تلفی ہوجائے گی۔
 ہندوستانی دستور میں پہلے سات بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں مالیات بھی شامل تھا، لیکن دستور کی چالیسویں ترمیم جو 1978ءمیں کی گئی تھی، اس میں مالیاتی حقوق کو دستور کی دفعہ 300ئ(اے) میں رکھ دیا گیا ، چنانچہ اب صرف چھ بنیادی حقوق ہیں، جن میں مذہبی، تعلیمی ، ثقافتی آزادی بھی شامل ہے، استحصال کے خلا ف آواز اٹھانے کا حق بھی اس کا ایک حصہ ہے، مرکزی اور ریاستی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے دو کمیشن بنے ہوئے ہیں، ابتدائی اندازے کے مطابق 2022ءمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سات ہزار سات سو ساٹھ(7760) معاملے درج ہوئے، پہلے سے چلے آ رہے اور اس سال درج ہوئے مجموعی مقدمات میں سے آٹھ ہزار سات سو سترہ(8717) معاملات حل کیے جا سکے ، جبکہ نئے پرانے چودہ ہزار تین سو چورانوے (14394)معاملات آج بھی کمیشن کے سامنے زیر غور ہیں، یہ وہ معاملات ہیں جوقومی حقوق کمیشن کے سامنے درج ہوئے 2022_2023ءمالیاتی سال میں اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے اور اسے بڑھ کر انہتر ہزار چھ سو دس تک پہونچ جانے کی امید کی جا رہی ہے۔
بہار ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ چھ ہزار چھ سو تہتر(6673) شکایتیں کمیشن کو ملیں، اچھی بات یہ ہے کہ بہار انسانی حقوق کمیشن نے چھ ہزار ایک سو اناسی(6179) معاملات کو نمٹانے میں کامیابی حاصل کی، ان میں چالیس سے پچاس فی صد معاملات تو محکمہ پولیس ہی سے متعلق تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کمیشن کے سامنے مختلف رکاوٹوں کی و جہ سے آ ہی نہیں سکے، اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی ہی کثرت رہی تو یوم حقوق انسانی منانے کا حاصل ہی کیا رہ جائے گا، سب لوگ اپنی ذمہ داری سمجھنے لگیں، ان میں افراد ، جماعتیں، سرکاریں سبھی شامل ہیں، تبھی بنیادی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے گی۔

ممتاز صحافی ، ادیب و افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن

ممتاز صحافی ، ادیب  و افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی  بانی و ایڈمن
اردو دنیانیوز ٧٢
" ایس آر میڈیا " کا 26 دسمبر 1983 یوم ولادت ہے ۔ 
پیشکش ✍️ سلمی صنم

پورا نام قمر اعظم ،قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے ۔ ان کے والد کا نام شہاب الرحمن صدیقی اور والدہ کا نام شاکرہ خاتون ہے ۔ وہ 26 دسمبر 1983ء کو اپنے آبائی وطن بھیرو پور ، حاجی پور ، ویشالی ، بہار میں پیدا ہوئے ۔ ان کی تعلیم ایم اے اردو ( فاصلاتی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد ) سے  ہے اور پیشہ تجارت ( پلمبر اینڈ باتھ فٹنگ کا سپلائی) ہے
ان کے تصنیفات کے نام ہیں 
1 👈 " برگ ہاۓ ادب " ایس آر میڈیا پیج پر شائع مضامین کا مجموعہ (مرتب) : غیر مطبوعہ , قومی کونسل میں مسودہ جمع ہے 

2 " غنچہ ادب " ( مصنف )
غیر مطبوعہ ہے ۔ اردو ڈایرکٹریٹ میں مسودہ جمع ہے ۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ : شخصیات ، دوسرا حصہ : تبصرہ ، تیسرا حصہ : صحافت 
آغازِ تحریر۔۔ پہلی اشاعت : " اردو سے بے توجہی کے لیے ذمہ دار کون ؟ " تاریخ اشاعت : 16/07/2001 زبان و ادب اڈیشن ، روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ ہے.
ان کی سرگرمیاں :
 1 👈 بانی و ایڈمن " ایس آر میڈیا "پیج
2 👈 رکن کاروان ادب حاجی پور ویشالی 
3 👈 رکن اردو ایکشن کمیٹی ویشالی 
4 👈 رکن ضیاۓ حق فاؤنڈیشن

 خدمت اردو کے لیے ان کے ذریعہ چلایا جانے والا فیس بک پیج " ایس آر میڈیا " کی خدمات کو 16 ماہ ہو چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :  
"اپنے تجارتی مصروفیات کی وجہ سے اردو کے لیے زیادہ کچھ تو نہیں کر پاتا ہوں لیکن الحمداللہ کچھ وقت نکال کر لوگوں کے آۓ ہوۓ تحریر کو مستعدی سے لگاتا ہوں ۔ خصوصاً نۓ قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔ " قمر اعظم صدیقی ایس آر میڈیا پیج کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ : 
" ایس آر میڈیا پیج کے قارئین کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ایس آر میڈیا پیج کا دائرہ ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فیس بک رپورٹ کے مطابق نو (٩) ملکوں میں اس کے قارئین موجود ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق مرد قارئین کی تعداد 94 ٪ اور خواتین قارئین کی تعداد 6 ٪ فیصد ہے ۔ اور اگر عمر کی مناسبت سے قارئین کا جائزہ لیا جائے تو فیس بک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 25 سے 34 کے عمر کے قارئین کی تعداد 40٪ فیصد جبکہ 35 سے 44 عمر والے قارئین کی تعداد 20٪ فیصد ، 18 سے 24 عمر کے قارئین کی تعداد 19٪ فیصد ، 45 سے 54 کے قارئین کی تعداد 9٪ ، 55 سے 64 کے عمر کے قارئین کی تعداد 5٪ فیصد اور 65 سے اوپر کے قارئین کی تعداد صرف 3 ٪ فیصد ہے ۔ "
 دوران طالب علمی انہوں نے کئ غزلیں ، نظمیں اور ایک حمد بھی لکھی لیکن ان سب کا سلسلہ دوران طالب علمی میں ہی مکمل بند کر دیا ۔ ایک دو افسانے بھی لکھے ، ابھی شخصیات اور تبصرہ نگاری پر زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں ۔ ویسے تو ان کی تمام تحریریں معیاری اور معلوماتی ہیں لیکن ان تمام تحریروں میں سب سے زیادہ معیاری اور معلوماتی جو تحریر ہے وہ ہے " اردو میں سرگرم ویب سائٹس اور پورٹل ایک تجزیاتی مطالعہ " جو کہ صحافت دو صدی کا احتساب 1822- 2022 نامی کتاب میں شامل ہے جس کے مرتب صفدر امام قادری صاحب ہیں ۔

  ممتاز صحافی، شاعر اور افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی کے یوم ولادت پر پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام 

                     (((( حمد )))))
نظر کو روشنی دل کو اجالا کون دیتا ہے
اندھیری رات کو جگنو سا شیدا کون دیتا ہے
ہماری سانس کو چلنے کی طاقت کس نے بخشی ہے
ہماری روح کو پاکیزہ رشتہ کون دیتا ہے

بدلتے موسموں کو آج بھی ہم غور سے دیکھیں
تو پائیں گے انھیں رحمت کا سایہ کون دیتا ہے

ہماری کھیت کو فصلوں کی نعمت کس نے بخشی ہے
ہر اک کو رزق کا، قسمت کا دانہ کون دیتا ہے

ہر ایک ماں کی شکم میں پرورش بچوں کی کرتا ہے
کسی پتھر میں کیڑے کو نوالہ کون دیتا ہے

اسی کے ہاتھ میں سب ہے، اسے مختار کل جانو
سوا اس کے کسی کو ایک تنکا کون دیتا ہے

خدا کی حمد لکھوں نعت لکھوں یا غزل لکھوں
قمر دل میں تیرے یہ نیک جذبہ کون دیتا ہے 
               ((((( نظم - کویل )))))
پیاری کویل کالی کالی
 سب پنچھی میں بھولی بھالی

آنکھیں اس کی گول مٹول
 بولی میں ہے میٹھی بول

گلشن گلشن اڑتی ہے یہ
 دل کی باتیں کرتی ہے یہ

میٹھے میٹھے گیت سنائے
 نیند سے بو جھل بھی جگ جائے

دل میں پیار کا چشمہ پھوٹے 
لب پر اس کے نغمہ پھوٹے

جو اللہ دے کھاتی ہے یہ
 اللہ کا گن گاتی ہے یہ

                 ((((( غزل )))))

یا خدا تجھ کو مناؤں کیسے
 تیرا بندہ ہوں تو جاؤں کیسے
 مفلسی ایسی پڑی ہے پیچھے
 بھوک کو اپنی مٹاؤں کیسے 
ہوتے ہیں روز غموں کے حملے
 گھر کو گھر جیسا بناؤں کیسے 
کچھ تو ہے سبز ہوا کی امید
 لمحہ زرد بتاؤں کیسے
 ان کو پانے کی تمنا تو ہے
 دل کی مجبوری بتاؤں کیسے
 غم سے انسان نہیں گھبراتا
 اے قمر تجھ کو بتاؤں کیسے

ان کی درجنوں غزلیں دوران طالب علمی شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ 
👈 انکے افسانے کا لنک ملاحظہ فرمائیں : 
ٹوٹتے ارماں 

 https://www.baseeratonline.com/archives/148703

👈نمونہ تحریر کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں : 
قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمت اللہ علیہ ایک بے مثال شخصیت
 
https://ishtiraak.com/index.php/2021/07/22/qazi-mujahidul-islam-qasmi-ek-be-misal-shakhsiyat/

انکی تحریروں کے عنوان بھی ملاحظہ فرمائیں : 
1 اردو سے بے توجہی کے لیے ذمہ دار کون ؟ 
2 قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمت اللہ علیہ ایک بے مثال شخصیت
3  میرے نانا جان 
4 حضرت مولانا محمد ولی رحمانی میری نظر میں
5 محبت و اخلاص کے پیکر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں  
6 ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق تیری خوبیاں زندہ تیری نیکیاں باقی 
7 علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایک مطالعہ
8 علامہ ماہر القادری کی شخصیت اور کارنامے 
 9 عکس مطالعہ میرے مطالعہ کی روشنی میں 
10 پۓ تفہیم ایک مطالعہ 
11 آتی ہے انکی یاد میرے مطالعہ کی روشنی میں
12 جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم ایک جا ئزہ
13 میزان فکر و فن ایک مطالعہ

14 ہم عصر شعری جہات میرے مطالعہ کی روشنی میں
15تعلیم اور کیریئر ایک جائزہ
16 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں  
https://urduleaks.com/mazameen/mufti-muhammad-sana-al-huda-qasmi-a-review149705/

ہفتہ, دسمبر 24, 2022

اسم با مسمی شاعر کامران غنی صبا کی تصنیف ،،پیام صبا (شعری مجموعہ) کا ایک تجزیاتی مطالعہ مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ۔

اسم با مسمی شاعر کامران غنی صبا کی تصنیف ،،پیام صبا (شعری مجموعہ) کا ایک تجزیاتی مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری ،برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ ۔
موبائل نمبر:      7909098319 
اردو دنیانیوز ٧٢
اردو شاعری صدیوں کا سفر طے کرچکی ہے، اور آج بھی اسے وہی مقبولیت حاصل ہے جو ابتداء میں تھی۔آج بھی اردو شاعری مکمل جواں نظر آتی ہے، کیوں کہ اردو شاعری کا مزاج اور دامن ہمیشہ وسیع وعریض رہا ہے، اس لئے کہ اردو زبان وادب اور شاعری کے اندر وہ کشش اور جاذبیت ہے جو ہر ایک خاص وعام کو اپنی جانب مائل کرتی ہے۔
 اور شاعری در اصل نام ہی ہے اپنے احساسات وجذبات اور کیفیات کو اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ اظہار کرنے کا، شاعری اس مختصر عبارت وتحرير کا نام ہے جو بظاہر  مختصر معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی معنوی خوبیاں، گہرائی وگیرائ اس قدر ہوتی ہے کہ اس کی ابتداء وانتہاء کا تعین کرنا محال ہے، ایک شاعر جب شاعری کی زبان سے لب کشائی کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک تاریخ بول رہی ، شاعر کو رب العزت نے ایسی بصیرت وبصارت اور خوبیاں عطا کی ہیں جو اسے اوروں سے ممتاز بناتی ہے ، اس وقت اردو شاعری پورے ہندوستان میں عروج پر ہے، ہندوستان کے ہر شہر وصوبہ میں اردو شاعری کو ایک اہمیت حاصل ہے، 
دبستان بہار خصوصیت کے ساتھ دبستان عظیم آباد نے بڑے بڑے شعراء وادباء پیدا کئے ہیں جن کی شاعری ونثر نگاری کی بنیاد پر وہ زیر زمین ہوکر بھی زندہ وجاوید ہیں،اور اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے شہر عظیم آباد میں ایک نوعمر شاعر کامران غنی صبا جو اپنے خاص لب و لہجہ اور بیباکی ومضبوطی سے اپنی بات کہنے والا،اپنے موقف پر قائم رہنے والا، خاموشی سے اپنی شاعری اور نثر کے ساتھ اٹھا اور دیکھتے دیکھتے دنیائے ادب پر بادلوں کی طرح چھا کر سیراب کرنے لگا ، جب وہ شاعری کرتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  اس کی شاعری ہماری سماعت سے ٹکرا کر جسم وجاں اور روح میں پیوست ہوکر ہمیں بیدار کر رہی ہے، زندگی کی حقیقت سے آشنائی کرا رہی ہے ،اس کی شاعری محض شاعری نہیں بلکہ پیغام ہے ۔اس کی آواز مخالف ہوا دبا نہیں سکتی ، کسی شور میں اس کی آواز گم نہیں ہوسکتی ، شاید وہ جواں شاعر جو دل پر گزرتا ہے اسے بے خوف وخطر قلم سے قرطاس پر رقم کرتا ہے، وہ شعر نہیں کہتا وہ سحر کرتا ہے، آپ کے دل میں ایک گھر بناتا ہے، یقینا وہ ایسا محبوب شاعر اور انسان ہے کہ جو بھی اس کے قریب ہوتا ہے اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔بہت پیارا شاعر اور ایک کامیاب وکامران انسان ہے، وہ ہر لحاظ سے عظیم ہے، خاندانی اعتبار سے بھی وہ بلند ہے،مشہور ومعروف حکیم، عالم دین، عربی اردو وفارسی زبان کے ماہر، مولانا علیم الدین بلخی رح کا نواسہ اور مولانا عثمان غنی رح(مفتی امارت شرعیہ و مدیر ہفت روزہ امارت) کا پوتا، معروف وبیباک صحافی وادیب، ریحان غنی کا فرزند ہے ۔

ہمارے زیر مطالعہ موصوف محترم کی پہلی تصنیف کردہ ”پیام صبا”(شعری مجموعہ  ١٢٨/صفحات پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے،جسے اردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ، پٹنہ (بہار) کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے ۔

اس تصنیف میں کامران غنی صبا نے انتساب کتاب خدا کے نام پر کرکے بہت بڑا پیغام دیا ہے، اور وہ یہ کہ ہماری زندگی، ہماری سانس، ہماری کامیابی یہ محض اس خدا کا فضل وکرم ہے جس کے قبضہ قدرت میں سارے جہاں کی ملکیت ہے، 
مصنف اپنے رب کے سامنے انتساب کے ذریعہ اپنی بندگی کا اظہار اس طرح کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضا وخوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی،ہماری شاعری اور یہ ہماری تصنیفی کامیابی محض آپ کی رضا کے لئے ہے، 
اور یہ واقعی میں اظہار تشکر کا بڑا ذریعہ ہے ، دیگر مصنفین کو بھی اس جانب توجہ کی ضرورت ہے ۔عموماً عیش وعشرت میں بندہ خدا کو فراموش کرجاتا ہے حالانکہ یہ عیش وعشرت وآسودگی نعمتوں کے انبار یہ اللہ کی عطاء کردہ بڑی نعمت ہے موصوف نے حتی الامکان اس تصنیف کے ذریعہ رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بھر پور کوششیں کی ہیں، اللہ انہیں شرف قبولیت بخشے ۔ 
حرف آغاز میں انہوں نے اپنی شعری سفر کا آغاز، اپنی ماضی کی روداد،شاعری اور وصف شاعری کے حوالے سے جو باتیں کہیں ہیں وہ قابل تعریف ہیں ، اس کم عمری میں اللہ رب العزت نے جو سوجھ بوجھ، دور اندیشی، احساسات وجذبات سے بھرا دل، مردم شناس، اور اپنی باتیں مدلل بیان کرنے کا جو سلیقہ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔
ساتھ ساتھ آپ نےچند لوگوں کا فرداً فرداً شکریہ بھی ادا کیا ہے جن میں آپ کے والد محترم ریحان غنی، والدہ محترمہ سلمیٰ بلخی، اور اساتذۂ کرام میں پروفیسر اسرائیل رضا، ڈاکٹر جاوید حیات، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر اشرف جہاں، سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر، جناب ناصر ناکا گاوا، محترمہ سیدہ زہرہ عمران، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، جناب احمد کمال حشمی، جناب طارق متین، جناب احمد اشفاق، ڈاکٹر عبد الرافع، جناب ایم آر چشتی، محترمہ تحسین روزی، جناب مفتی منصور قاسمی، محترمہ نور جمشید پوری، جناب عطا کریم ندوی، جناب اصغر شمیم، محترمہ نرجس فاطمہ، محترمہ انجم اختر،انعام عازمی، طارق عزیز، ہیں ۔


اس کے بعد اردو زبان وادب کے چند مشہور ومعروف ادباء نے کتاب، صاحب کتاب، اور کتاب میں شامل حمد، نعت، منقبت ،غزل اور خصوصاً نظم،، مجھے آزاد ہونا ہے،، کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے، ان تعارف کے ذریعہ ہم مصنف شاعر کو بہت قریب سے سمجھ سکتے ہیں، پہچان سکتے ہیں،
حصول برکت ورحمت کے لئے مصنف شاعر نے  حمد و نعت اور منقبت سے کتاب میں شعر کا آغاز وانتخاب کیا ۔

حمد و نعت و منقبت کے چند اشعار

التجا 
خدائے برتر
میں جانتا ہوں
میں مانتا ہوں 
کہ میرا فردِ عمل گناہوں سے بھر چکا ہے
ابل چکا ہے
جو چند قطرات نیکیوں کے
ٹپک رہے ہیں
لرز رہے ہیں
کہ ان کی اوقات کچھ نہیں ہے
وہ بس نمائش کے چند ایسے گہر ہیں 
جنکی چمک حقیقت کا روپ بن کر
ڈرا رہی ہے
رُلا رہی ہے
مگر کہیں دور تیری رحمت
مرے گناہوں پہ ہنس رہی ہے
خدائے برتر 
اگر یہ سچ ہے
کہ تیری رحمت 
مرے گناہوں کی وسعتوں سے
وسیع تر ہے
تو میرے عصیاں کو اپنی رحمت کا لمس دے دے
مری اداسی کے خشک صحرا  کو
اپنی رحمت کی بارشوں سے
نہال کر دے۔۔۔ کمال کر دے


لب پہ ذکر حبیب خدا چاہیے
 کچھ نہیں، کچھ نہیں، ما سوا چاہئیے
دید کو ان کی چشم رسا چاع
زہد وتقوی سے کچھ ماورا چاہیے 
 سجدۂ شوق کو اور کیا چاہیے
 اپنے محبوب کا نقش پا چاہیے


نہ طلب ہے نام و نمود کی، نہیں چاہیے مجھے خسرو 
مجھے بخش دے تو مرے خدا در مصطفیٰ کی گداگری 
میں ہوں مبتلائے غم و الم، مرا چارہ ساز نہیں کوئی
 تمہیں در دل کی دوا بھی ہو، تمہی غم گسار میرے نبی
 میں اٹھاؤں کیسے یہ بار غم تیرا ہجر مجھ پہ عذاب ہے 
کبھی بخت میرا بھی جاگ اٹھے، کبھی در پہ ہو مری حاضری


وہ بالیقین حق کا استعارہ، حسین سا کوئی ہے بتاؤ
 کہ جس نے جاں دے کے دیں بچایا، حسین سا کوئی  ہے بتاؤ 
شہادتیں یوں تو اور بھی ہیں تڑپ اٹھیں جن سے دل ہمارے
 انہوں نے گھر بار سب لٹایا، حسین سا کوئی ہے بتاؤ


کتاب سے چند نظمیں 

مجھے آزاد ہونا ہے۔۔۔
کہاں تک بھاگ پاؤ گے
کہاں کس کو پکارو گے
یہ عزت اور شہرت، علم و حکمت
مال و دولت کی فراوانی
یہیں رہ جائے گی اک دن
بہت ہو گا تو بس اتنا 
کہ کچھ دن، کچھ مہینوں تک 
تمہارے نام کا چرچا رہے گا
کسی اخبار میں، جلسے میں، محفل میں
بہت ہو گا تو چلئے مان لیتے ہیں
کہیں کوئی 
تمہارے نام کو تحقیق کی بھٹی میں ڈالے گا
کوئی کندن بنائے گا، کوئی شہرت کمائے گا
تمہیں اس سے ملے گا کیا؟
کبھی سوچا ہے تم نے؟
غلغلہ جتنا اٹھے جب تک اٹھے
آخر بھلا ڈالیں گے سب تم کو
تمہیں معلوم ہے!
اس زندگی کے سارے شعبوں میں
سیاست میں، صحافت میں، ادب میں، 
صوت و رنگ و چنگ میں، 
دولت کمانے سینتنے میں اور لٹانے میں
ہزاروں نام ایسے ہیں
کہ جن کے سامنے سورج دیے کی لوَ سا لگتا تھا
مگر کوئی کہاں باقی رہا، دائم رہا
سارے عدم کی راہ کے راہی
کسی ایسے جہانِ بے نشاں میں جا بسے
جانو، کسی کا نام تک کوئی نہیں ہوتا
یہی سب کچھ میں اکثر سوچتا ہوں
اور جب بھی سوچتا ہوں
تب مجھے یہ سب فقط کارِ عبث محسوس ہوتا ہے
مرا جی چاہتا ہے تیاگ کر سب کچھ
کسی گمنام بستی میں چلا جاؤں
جہاں میرے کسی پہچاننے والے
کسی بھی جاننے والے کے جانے کا
کوئی امکاں نہ ہو
اس گوشہء عزلت میں، اس پاتال میں 
گم نام ہو جاؤں
مجھے آزاد ہونا ہے
زمانے بھر کی ہر خواہش سے
ہر رعنائی سے جھوٹی نمائش سے
مجھے آزاد ہونا ہے

فنا آغوش

فنا ایسی حقیقت ہے
نہیں کچھ اختلاف اس میں
نہ مذہب کا، نہ دھرتی کا
نہ اعلیٰ کا، نہ ادنیٰ کا
نہ گورے کا، نہ کالے کا
نہ کمزور اور جیالے کا

مگر کیا اس حقیقت سے پرے بھی کچھ حقیقت ہے؟
یہاں آکر
مفکر، شاعر و صوفی، ادیب و فلسفی، عالم
سبھی کو خامشی درپیش ہوتی ہے
ہزاروں نکتہ ور آئے
مگر اس راز سے کوئی نہیں پردہ اٹھا پایا
کہ وہ لمحہ جسے سارے قضا کا نام دیتے ہیں
اس اک لمحے سے آگے ایک برزخ ہے
وہ برزخ بھی حقیقت ہے
کہ اس کے بعد بھی سب کچھ حقیقت ہے

وہ جس اک راز سے پردہ اٹھانے میں
رہے مصروف ساری عمر
اک لمحے میں پردہ اٹھ گیا اس سے
مگر اب ان کے لب ان کے قلم خامو ش ہیں

 اور وہ فنا آغوش ہیں سارے
مجھے بھی اک تجسس تھا
کہ دیکھوں تو!
کہ اس لمحے کے برزخ سے پرے کیا ہے

گزشتہ شب، نہ جانے کب
یہی کچھ سوچتے، میں نیند کی آغوش میں پہنچا
تو اک بے شکل سچائی، قریب آئی
کہا دیکھو! مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو
وہ میرے سامنے تھی اور
اس کی پشت پر
پردے ہی پردے تھے
کہا اُس نے:
 کہ ان پردوں کے پیچھے کیا ہے دیکھو گے؟
اگر تم دیکھنا چاہو
تو مجھ کو دیکھنے کی تاب تو لاو!
تمہیں سب کچھ بتا دوں گی
دکھا دوں گی
ہر اک پردہ اٹھا دوں گی

محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا

یہ کس نے کہہ دیا تم سے؟
’محبت روٹھ جاتی ہے‘
’محبت ٹوٹ جاتی ہے‘
سنو! تم کو بتاتا ہوں
محبت روح ہے اور روح کا رشتہ
ہمارے جسم و جاں سے اس قدر مربوط ہوتا ہے
اجل سے پہلے ہم اس کو
الگ کر ہی نہیں سکتے
سنو! تم کو بتاتا ہوں
کہ رسم و راہ اور قربت
محبت ہو نہیں سکتی
مراسم ختم ہونے سے
محبت مر نہیں سکتی
محبت جاوداں ہوتی ہے
لفظوں کا تعلق ٹوٹ بھی جائے
وصال یار کا دامن اگرچہ چھوٹ بھی جائے
بظاہر پاس ہو کر بھی
بہت سی دوریاں ہو جائیں
بہت مجبوریاں ہو جائیں
دلوں کے مقبرے میں دفن کرنے سے
محبت مر نہیں جاتی
تعلق ٹوٹ جانا تو محبت کی شہادت ہے
اور اس کے بعد جنت ہے
سو ائے جانِ وفا سن لو!
محبت کی شہادت پر کبھی ماتم نہیں کرنا

امی کے نام
(ان کی سالگرہ پر لفظوں کا ایک چھوٹا سا تحفہ)

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اُڑ جائے گی
سونے چاندی کے سب گہنے
بہن کے حصے میں جائیں گے
سوٹ کوئی اچھا سا کہیے
یا کچھ ناول اور کتابیں؟
لیکن یہ ساری چیزیں بھی
شیلف کی زینت بن جائیں گی
اچھا! امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ٓآپ کو لفظوں سے الفت ہے
آپ نے ہم کو بچپن میں ہی سمجھایا تھا
لفظوں کو ہی دوست بنانا
لفظ ہمیشہ ساتھ رہیں گے
لفظ ہمیشہ سچ بولیں گے
لفظ محبت بن جائیں گے
لفظ عبادت بن جائیں گے
پیاری امی! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت ، لفظ محبت
لفظ ندامت کے پیکر میں
آنکھوں سے اشکوں کی صورت
ٹپک رہے ہیں
پیار کے یہ دو سچے موتی
آپ کو اچھے لگتے ہیں نا؟

عید کا چاند

عید کا چاند تو خوشیوں کی علامت ہے مگر
درد والوں کے لیے زخم ہے رستا ہوا زخم
درد غربت کا اگر ہو تو یہی عید کا چاند
مسکراتا ہوا غربت کا اڑاتا ہے مذاق
اور اگر درد محبت میں ہم ایسا کوئی
ہجر کی رات کو اوڑھے ہوئے سو جاتا ہے
چاند پلکوں پہ ستاروں کو سجا دیتا ہے
کتنے خوابیدہ چراغوں کو جگا دیتا ہے

شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو
 
کیا ہوا۔۔۔۔؟
امن کے سب پیمبر کہاں کھو گئے؟
وہ جو نغمے محبت کے گاتے تھے اور
جن کی آواز سے
نفرتوں کے اندھیرے بھی چھٹ جاتے تھے
فاصلے سارے پل میں سمٹ جاتے تھے
شاعرو، صوفیو! تم بھی خاموش ہو۔۔۔۔۔؟
اب تمہارے یہاں کوئی ساحرؔ نہیں؟
کوئی نانکؔ نہیں، کوئی چشتیؔ نہیں؟
تم اگر ٹھان لو
وقت کے بہتے دریا کا رُخ موڑ دو
اور نفرت کے ہر ایک بت توڑ دو
جنگ سے مسئلے
حل ہوئے تھے، ہوئے ہیں نہ ہو پائیں گے
گھر ہمارے جلے
تو تمہارے بھی گھر تک دھواں جائے گا
لاش اور خون، آہ بکا سے 
بصارت، سماعت کو کس کی قرار آئے گا؟
شاعرو! صوفیو! عقل والو ! اٹھو ۔۔۔
اس سے پہلے کے نفرت کی چنگاریاں
آگ بن جائیں اور
گھر ہمارے جلیں، گھر تمہارے جلیں۔۔۔۔
ایسی چنگاریوں کو بجھا ڈالیں ہم
شاعرو، صوفیو، عقل والو! اٹھو

کتاب میں شامل غزل کے چند اشعار

ہر شخص ہے کیوں لرزہ بر اندام مری جاں
وہ کیا ہے، کوئی غازئ اسلام مری جاں؟
لازم نہیں لفظوں سے ہی اظہار وفا ہو
آنکھیں بھی سنا دیتی ہیں پیغام مری جاں

کبھی زمیں تو کبھی آسماں سے بولتا ہے
وہ اپنے درد کو سارے جہاں سے بولتا ہے
میں اعتبار کروں کیسے اس کی باتوں پر
وہ شخص اور کسی کی زباں سے بولتا ہے

درد جس میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی
ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی
سچ نہیں بولنے کی سب نے قسم کھائی ہے
آئینہ جھوٹ اگر بولے تو حیرت کیسی


اپنی پلکوں پہ کوئی خواب سجایا نہ کرو
ٹوٹ جاؤ گے مری طرح، تم ایسا نہ کرو 
مری دنیا میں بجز کرب رکھا ہی کیا ہے 
گر مجھے دیکھ لو جینے کی تمنا نہ کرو 

غم حیات کو لکھا کتاب کی مانند 
اور ایک نام کہ ہے انتساب کی مانند 
نہ جانے کہ دیا کس بے خودی میں ساقی نے 
سرور تشنہ لبی ہے شراب کی مانند 

طبیعت مضطرب بے چین دل یہ کیا ہوا مجھ کو 
ترے طرزِ تغافل نے پریشاں کردیا مجھ کو 
شب فرقت میں کیا گزری دل درد آشنا تجھ پر
میں ان سے پوچھنے کو تھا دکھایا آئینہ مجھ کو۔



کامران غنی صبا سچا شاعر اوراچھا انسان کی طرح انسانیت کے لیے دھڑکتا دل بھی رکھتا ہے، نثر ہو کہ نظم ان کی عبارت سے یہ خوبیاں صاف ظاہر  ہیں ۔ان کے ذہنی پس منظر میں اسلامی روایات سے سرشار ہیں ، ان کے جذبات واحساسات قوم وملت کے درد سے مملو ہیں، اسی دردمندی سے انہوں نے الفاظ کے موتی اور مفاہیم کی سوغات سے شاعری کا دامن وسیع وعریض کردیا ہے ۔

خیالات کی بلندیاں اُن کی شاعری میں ہے ۔جو نظریات وہ پیش کرتے ہیں وہ خود میں ایک نذیر ہے ۔جو احساسات ان کی نظموں اور غزلوں میں جھلکتے ہیں وہ  اُن کے مزاج کا حسیں عکس وآئینہ ہے ۔
اور ان کے مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہ حسن سیرت وصورت کے جوہر سے بھی سجے سجائے نظر آتے ہیں اور ان أوصاف کے اثرات ان کی شاعری پر بھی غالب ہیں ، نمایاں ہیں ۔
یقیناً آپ کی شاعری میں انقلاب بھی ہے، وقت وحالات کی نزاکت بھی،
اِن کا شمار ملک کے اُن شاعروں میں ہے جن کے یہاں افکار ونظریات ، جذبات وتخیلات اور الفاظ ومعانی کے درمیان ایک ربط وتسلسل اور روانی پائی جاتی ہے ،  ان کی شاعری نظم ہو یا غزل  زندگی کی عکاسی، حالات وواقعات کی صحیح نمائندگی وترجمانی  ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے بہت قریب سے زندگی کے خزاں وبہار کو دیکھا ہے ۔
کیوں کہ اس دور انسان جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے ان میں عدم تحفظ ،غم روزگار، غم تنہائی وکرب ،احساس کمتری، بے چارگی،خوف وحراس ،خود سے اور زندگی سے بے زاری، اس طرح کے ڈھیروں مسائل ومصائب سامنے ہیں،  کامران غنی صبا نے اپنی شاعری میں انہیں جگہ دی ہیں ۔ مگر ان کے یہاں فکر وفن اور خیالات کی بلندی وگہرائ ہر جگہ نمایاں ہے۔وہ ضخامت الفاظ کے بجائے عام فہم اور سادے الفاظ وتراکیب ہی کے ذریعہ اپنے اشعار کو کمال ہنر مندی سے نئے معنی و مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے یہاں خود کلامی بھی ہے، اور کبھی کبھی وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں اور نہایت سادگی اور پر لطف اندوز سے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ان کا دھیما لہجہ بہت مشہور اور دل کو چھو نے والا ہوتا ہے۔ان کے یہاں تشبیہ و استعارہ،علامات اور پیکر تراشی کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ان الفاظ کے استعمال سے ان کے یہاں کسی طرح کی عبارت میں پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی۔

مضمون چونکہ پیام صبا (شعری مجموعہ) کے مطالعہ پر ہے اسی وجہ سے باتیں صرف پیام صبا سے متعلق ہوسکی ، ان کے علاوہ اور بھی بہت سے منظوم کلام  اور نثر بھی ہیں جن پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ہم برادرم کامران غنی صبا کو مبارک بادی پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں دونوں جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، آمین ثم آمین

ظفرپیامی کا تخلیقی سفر

ظفرپیامی کا تخلیقی سفر 
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر عطاء اللہ خان علوی (ولادت ۲۳؍ ستمبر ۱۹۵۵ئ) بن ڈاکٹر محمد آل حسن خان بن ڈاکٹر نور حسن خان ساکن سہسرام موجودہ ضلع رہتاس اپنے ادبی اور قلمی نام اے کے علوی سے جانے پہچانے جاتے ہیں، خاصے پڑھے لکھے آدمی ہیں ، انہوں نے ایم اے پی اچ ڈی کیا ہے ، پوری زندگی تعلیم کے فروغ میں لگادی اسکول سے صدر مدرس کے عہدہ سے سبکدوش ہیں، تعلیمی میدان میں قابل قدر خدمات کی وجہ سے محکمہ وزارت تعلیم حکومت ہند کا ایوارڈ بدست صدر جمہوریہ ہند کے آرنرائنن پا چکے ہیں۔ اہل علم کے درمیان اچھے صحافی ، با شعور تنقید نگار، جرأت مند صحافی اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے متعارف ہیں، سہسرام کی تہذیبی، ثقافتی ادبی سرگرمیوں کی جان ہیں، سرکاری ، غیر سرکاری مختلف محکموں اور اداروں کے رکن اور مختلف ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ہیں، سمینار ،مشاعرہ، کوی سمیلن، سماجی ، تعلیمی اور طبی خدمات میں شرکت ان کی روز مرہ زندگی کے اہم مشاغل ہیں، عمر عزیز کے چالیس سال انہیں کاموں میں صرف کر دیے آج بھی فعال ، متحرک اور ہر دم رواں؛ بلکہ کہیے کہ بڑھاپے میں جواں نظر آتے ہیں، خان برادری کے مختلف گاؤں میں ان کی رشتہ داری ہے ، جسے وہ نبھانے کی کوشش کرتے ہیں، خاندانی نسب وسلاسل کے بھی حافظ ہیں، ایک بار تحریک پیدا کر دیجئے اور پھر ان کی گل افشانیٔ گفتار سے محظوظ ہوتے رہیے۔
 ’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر‘‘ اے کے علوی کا تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کی زیر نگرانی مکمل کیا اور پی اچ ڈی کی ڈگری پائی، اور اب مطبوعہ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ، دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دو سو روپے ہے ، ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی سے چھپی ہے ، اس لیے طباعت صاف ستھری ، دیدہ زیب اور قلب ونظر کو اپنی طرف  متوجہ کرنے والی ہے ، آپ لینا چاہیں تو بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کر سکتے ہیں، سہسرام علی گڈھ اور نئی دہلی کے مکتبوں پر بھی یہ کتاب دستیاب ہے ، کتاب اور بات دونوں کا لطف لینا چاہیں تو علوی ہاؤس ، ہاؤس نمبر (۱) وارڈ نمبر ۳۰، محلہ چوکھنڈی، سہسرام ضلع رہتاس بہار 821115سے 9304520864پر رابطہ کر سکتے ہیں، آپ کے اس رابطہ کا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ کتاب مفت میں مل جائے ، گومفت حاصل کرنے والی لَت اچھی نہیں ہے ، خرید کر پڑھنے سے ہر دو کا فائدہ ہے، آپ رقم خرچ کرنے کی وجہ سے دلچسپی کے ساتھ پڑھ لیں گے نہیں پڑھیں گے تو محسوس ہوگا کہ رقم ضائع گئی اور مصنف کو خرچ کا کچھ حصہ مل جائے گا ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر اعجاز علی ارشد کے نام ہے جو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی پٹنہ کے سابق وائس چانسلر اور پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل رہ چکے ہیں، اور جن کی زندگی مصنف کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی رہی ہے ۔
 پیش گفتار پروفیسر حسین الحق مرحوم سابق صدر شعبۂ اردوو فارسی مگدھ یونیورسیٹی بودھ گیا کا ہے ، جس میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی رودادکے ساتھ مصنف کے کام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، اپنی بات میں مصنف نے پوری کتاب کے مندرجات کا اجمالا ذکر کیاہے اور ظفر پیامی کی زندگی کے مختلف ادوار کو قلم کی زد میں رکھاہے ، رہنمائی، حوصلہ افزائی اور اعانت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ، جن کی تعداد کم وبیش ڈیڑھ درجن ہے ۔
پی ایچ ڈی کے مقالہ میں مصنف کے عہد پر خصوصیت سے روشنی ڈالنے کی روایت رہی ہے ، سو اس کتاب کا اصل آغاز ظفر پیامی کے عہد اور ان کے حالات زندگی سے ہوا ہے ، ان دونوں مراحل سے نمٹنے کے بعد علوی صاحب نے ان کے تخلیقی سفر کا تعاقب شروع کیا ہے اور تخلیقی سفر کے آغاز کے بعد ظفر پیامی کی تخلیقات کا صحافی، افسانہ نگار، ناول نگار، سفرنامہ نگار کی حیثیت سے جائزہ پیش کیا ہے، ظفر پیامی کی دیگر ادبی سرگرمیاں بھی معرض بحث میں آئی ہیں، ظفر پیامی کی وفات، ان کی شخصیت کے اہم پہلو اور پھر پوری تحقیقی کا نچوڑ، ’’حرف آخر‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا ہے ، سوانحی کوائف اور فوٹو فیچر پروفائل مصنف کے ذاتی احوال وکوائف اور سر گرمیوں کا افشا ہے، اس طرح دیکھیں تو اصل کتاب صفحہ ۲۱۱ ؍پر مکمل ہوجاتی ہے۔
دیوان بریندر ناتھ ظفر پیامی (ولادت ۱۹۳۲، وفات ۱۰؍ دسمبر ۱۹۸۹ئ) کی شخصیت کثیر الجہات تھی، ایسے لوگوں پر تحقیق کرنا اور ان کی کثیر الجہات شخصیت کے در وبست کے تما م تقاضوں کو پورا کرنا آسان کام نہیں ہے، ڈاکٹر اے کے علوی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کا معروضی مطالعہ پیش کیا ہے اور اس پیش کش میں انہوں نے انصاف سے کام لیا ہے ۔ 
یہ مقالہ آج کل کے تحقیقی مقالوں میں ممتاز ہے، زبان صاف اور گنجلک سے پاک ہے ، ظفر پیامی کے تخلیقی سفر کی روداد انہوں نے اس طرح بیان کی ہے کہ پڑھنے میں قاری کو اکتاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور آخر تک دلچسپی بر قرار رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر حسین الحق نے ’’پیش گفتار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ڈاکٹر علوی نے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے ،ا سکے با وجود کہ علم وادب کی دنیا میں کوئی کوشش حرف آخر نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر شہاب ظفر صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسیٹی کے اس خیال سے عدم اتفاق کی  کوئی وجہ سمجھ میں نہیںآتی ، لکھتے ہیں:’’ظفر پیامی کا تخلیقی سفر نہ صرف ظفر پیامی کی تخلیقی جہات اور ادبی آفاق کو نمایاں کرتی ہے؛ بلکہ مصنف کے نظریہ نقد اور اسلوب اظہار کا بھی اعتراف کرواتی ہے۔‘‘
ایک اور اقتباس پڑھ ڈالیے اور علوی کے اسلوب اور زبان وبیان کا مزہ لیجئے، اس سے کتاب کی ترتیب اور مصنف کے نقطۂ نظر تک بھی آپ کی رسائی بآسانی ہو سکتی ہے ، لکھتے ہیں:’’اس کتاب میں سنجیدہ اور علمی مطالعہ کے آداب وطریقہ کا خیال رکھتے ہوئے  ادب وثقافت کی ایک فعال شخصیت کے حوالے سے ان کی یادگار خدمتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ کس قدر ذاتی خوبیوں کے مالک تھے، اگر یہ سچ ہے کہ اچھا انسان ہی اچھا فن کار ہوتا ہے تو یقینا اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ قبائے معیار وعظمت ان کی علمی وفکری قد وقامت پر پوری طرح راست آتی ہے (صفحہ۲۰)  
 بڑی کدو کاوش اورتحقیق کی جان کاہی کے باوجود اے کے علوی کا خیال ہے کہ 
’’میں اپنے اس مطالعہ کو ظفر پیامی کی تفہیم کے سلسلے میں پہلا قدم ہی سمجھتا ہوں، دیوان بریندر ناتھ سے ظفر پیامی بن کر اس اہم شخصیت نے جو پیام دیا ہے اس کی تفہیم کے لیے اور بھی مطالعات سامنے آنے چاہیے۔ (صفحہ ۲۱۰) 
قاری کو اپنے علم وتحقیقی کی روشنی میں ظفر پیامی کے تخلیقی سفر پر بحث ونظر کا حق تو ہے، لیکن مصنف کے تواضع اور انکساری سے بھرے ان جملوں کو رد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ کتاب کے مندرجات سے قارئین کی بہ نسبت زیادہ واقف ہیں، اے کے علوی ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے فکری ،فنی اور سوانحی اعتبار سے ظفر پیامی کو ہم تک پہونچا یا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...