Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 28, 2022

طرز اظہار(تبصراتی مضامین) : مختصر جائزہقلمکار : ڈاکٹر صالحہ صدیقی

طرز اظہار(تبصراتی مضامین) : مختصر جائزہ
اردو دنیانیوز ٧٢
قلمکار : ڈاکٹر صالحہ صدیقی


انسانی تخلیقات پر جب ہم غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قدرت نے انسانوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کی  ہیں ۔اور جو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، دنیا میں وہ بہت ہی عظیم المرتبت سمجھے جاتے ہیں، خصوصاً وہ ذمہ داریاں جن سے انسان کو تمام خلق خدا پر شرف بخشا گیا ۔یعنی علم وادب کے خدمات انجام دیتے ہیں،ان کا نام تاریخ کے سنہرے ابواب پر لکھے جاتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ زندہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، 
ڈاکٹر منصور خوشتر کا شمار اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب میں ہوتا ہے ۔اردو زبان وادب کی آبیاری، اردو زبان وادب کی تشہیر ،اور اردو زبان وادب پر آپ کے خدمات یقیناً ناقابل بیان ہیں ۔آپ کے جنون لائق تحسین وتقلید ہے، آپ نے اردو زبان وادب کی خدمات آپ نے زندگی کا اہم مقصد بنا لیا ہے، جو آنے والی نئی نسلوں کے لئے یقیناً خوش آئند ہے ۔آپ کے جو احساسات وجذبات  ادب کے تئیں ہیں اس نے کئ نئے پرانے، نو آموز قلمکاروں کے حوصلے کو بلندی بخشی، ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیدا کردیا ہے ۔
اس وقت میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ تبصراتی مضامین کا مجموعہ " طرز اظہار'' ۔ ہے، آپ کا احسان ہے کہ آپ نے یہ قیمتی تصنیف مجھے  ارسال کیا، اس پر میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔
اس کتاب کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے کس جاں فشانی، عرق ریزی، اور جہد مسلسل کے ساتھ ادبی خدمات میں لگے ہوئے ہیں، یقیناً آپ کی یہ تحریک ایک انقلاب برپا کرے گی، اور ارد زبان وادب کو ایک نیا رخ دے گی ۔

384 صفحات کی اس کتاب میں کل 99 تبصراتی، تحقیقی، مضامین ہیں،جو اردو ادب کے مختلف موضوعات اور علمی وادبی، وتاریخی اصناف پر لکھی گئی کتابوں کا تعارف ہے ۔جس کا انتساب مشہور ومعروف قلمکار خورشید حیات کے نام پر ہے ۔ فہرست مضامین میں آپ نے بہت ہی خوبصورت ترتیب قائم کی ہے، آپ نے پرانے ممتاز قلمکاروں کے ساتھ ساتھ نئے قلمکاروں کے مضامین کو بھی شامل کر کے ان سب کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی ہے،جو ایک خوش آئند ہے ۔بظاہر تو یہ ایک مرتب کردہ کتابی شکل ہے، لیکن اگر ہم اس کی باریکی گہرائی وگیرائ میں جائیں، اور بصیرت وبصارت کے عینک لگا کر دیکھیں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ایک کتاب نہیں بلکہ سینکڑوں کتابوں کا مجموعہ ہے ۔اس تصنیف کے ذریعہ ہم سینکڑوں کتابوں کے مضامین ومفاہیم کا احاطہ کر سکتے ہیں ۔خصوصاً ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر مشتاق احمد، انوار الحسن وسطوی، ڈاکٹر جاوید اختر، عبد المنان طرزی، مشرف عالم ذوقی، کامران غنی صبا ،ڈاکٹر احسان عالم، وغیرہ جیسے اردو ادب کے مایہ ناز ہستیوں اور قلمکاروں کے مضامین شامل کرکے اس کتاب کو مزید خوبصورتی بخشی،اور مستند کا درجہ حاصل ہوا ۔
میں پھر سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ آپ نے اس ناچیز کے مضمون کو بھی شامل کر کے حوصلہ افزائی کی ہے ۔
یقیناً یہ کتاب اردو زبان وادب کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے ،ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے منصور خوشتر کو مبارکبادی پیش کرتی ہیں،اور آپ کی جتنی بھی تصانیف مجھ تک پہنچی ہیں میں ان تمام تصانیف کو بطور ہدیہ ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری پھلواری شریف پٹنہ کو پیش کرتی ہوں، تاکہ ہر خاص وعام ان تصانیف سے استفادہ کرسکیں ، اور ان کی اس محنت وکاوش پر ہدیہ تبریک پیش کرتی ہوں.

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات اور ہمارا رد عمل مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات اور ہمارا رد عمل 
اردو دنیانیوز ٧٢
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ 
موبائل نمبر: 7909098319 

اسلام ایک دین فطرت ہے۔ جس نے ہر قدم پر انسانوں کی راہنمائی فرمائ ہے، زندگی کے کسی بھی پہلو کو باغوردیکھیں گے تو ہمیں کہیں بھی بے یار و مددگار اور مایوس نہیں کیا ہے ، مہد سے لے کر لحد تک انسانی راہنمائی کی ہے، امن و سلامتی کےاور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں۔
اس روئے زمین پر انسانی ہدایت کے لیے  اللہ  تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، آخر میں صدرکے طور پر سیدناےحضرت  محمد ﷺ کو بحیثیت آخری نبی بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ،آپ کی ذات مقدس وہ کامل  ترین ہستی ہے جن کی زندگی  اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل  رہنمائی کا بھر پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ  کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین اور کامل نمونہ ہے۔آپ کو اللہ رب العزت نے سراپا رحمت وبرکت اور ہدایت بنا کر اس دنیا میں انسانوں کی فلاح وکامیابی کے لئے بھیجا، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانوں کے لئے ایسا پیغام ہے جو انسانوں کو مکمل کامیابی کی ضمانت بخشتا ہے ۔آپ نے زبانی اور عملی مشق کے ساتھ زندگی گزار کر دکھا دیا کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں، کون سی زندگی رب چاہی زندگی ہے، زندگی کے کسی گوشے اور پہلو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ علیہ السلام نے ہماری رہنمائی کی ہے، خواہ عبادات ہو کہ معاملات ہو، سماجی ومعاشرتی، اقتصادی، اخلاقی،پہلو ہو، سفر ہو کہ حضر ہو، تنہائی ہو کہ محفل ہو، خلوت ہو کہ جلوت ہو، رات ہو کہ دن ہو، صبح ہو کہ شام ہو۔
اور رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل دنیا کی حالت ِ زار ناقابل بیان ہے۔تاریخ اس دور کو دور جاہلیت کہتی ہے ، کیوں کہ وہ معرفت الہی اور ہدایت سے بہت دور گمراہی وضلالت میں گھرے تھے ۔ عرب کی حالت ایام جاہلیت کا بیان مولانا الطاف حسین کے الفاظ میں کچھ یوں ہے :۔

عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا

تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں

نہ کھتّوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا

کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بسُو جا بجا تھا

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا

وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا

قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا

وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
ہونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں

 توحید کی جگہ شرک، خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ، اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم وزیادتی نے لے لی تھی۔ معاشرے میں کون سی ایسی خرابیاں نہ تھیں جو ان میں نہ ہوں ۔ جن عورتوں کو اسلام نے عزت واحترام بخشتے ہوئے ان کے اعزاز میں مکمل سورہ،، سورہ نساء،، نازل فرمائی ان کی کوئی اہمیت نہ تھی، ان کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا،ذلت و رسوائی کا سبب مانا جاتا ، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی  جنگ وجدال شروع ہوتے تو وہ سالہا سال چلتے رہتے ۔شراب نوشی، قمار بازی، اور اصنام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ایک رب کو چھوڑ کر سینکڑوں بتوں کی پرستش کرتے تھے، انسانیت سسک سسک کر ، بلک بلک کر، اور چیخ چیخ کر دم توڑ رہی تھی، انہیں ایک مسیحا کا انتظار تھا، جو ان کی دکھتی رگوں پر دست شفا رکھ کر راحت و آرام کا سامان بن سکے، جو ان کے غموں کو اپنے اندر سمیٹ کر ان کے لئے خوشی وشادمانی کا پیغام سناسکے، انہیں ان جاہلانہ رسومات و بدعات ، خود ساختہ مذہبی خرافات ، سماجی ومعاشرتی تنزلی اور گراوٹ ، فتنہ و فساد، تخریب کاری، سے آزادی دلا کر راہ راست پر لاسکے، ظلم وبربریت کی گھٹا ٹوپ اندھیر میں  ہدایت کی شمع جلائے ، اللہ کی رحمت انعام واکرام،عذاب وعتاب سے آشنا کرا سکے ، چنانچہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔جس کی آمد نے سارے جہاں میں حق کا پیغام سنایا،جس کا وجود سراپا سارے جہاں کے لئے رحمت ہے، جس کی آمد کی خبر سابقہ انبیاء کرام نے دی، 
جس کی آمد سراپا عشق ومحبت اور پیار پر منحصر ہے، جس کا کام عشق ،جس کا پیغام عشق، جس نے صرف درس عشق دیا، عشق بھی وہ عشق جسے ہم عشق حقیقی کہتے ہیں،جو عشق سارے جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، کیوں  عشق یہ انسانی فطرت اور تقاضے ہیں،انسان کے رگ وریشے میں قدرت نے اسے رکھا ہے ۔یہ فطری تقاضے کبھی انسانوں کو کامیاب وکامران بنا دیتی ہے اور کبھی ذلت ورسوائ کا سبب بنتی ہے ۔ایک انسان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ مالک حقیقی سے عشق کرے اور عشق کے جو تقاضے ہیں ان تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے ۔اس کے مطابق اس کے ہر اشارہ پر عمل کے لیے آمادہ رہے، کیوں کہ عشق کا تعلق قلب سے ہوتا ہے اور یہ قلبی محبت اگر عروج پر پہنچ جائے تو بسا اوقات جان بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بندہ مومن سے اسلام کا مطالبہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عمومی محبت نہ کرے بلکہ  دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھے تاکہ احکامات خداوندی اور اتباع رسولؐ کا حق کلی طور پر ادا ہو سکے ۔
کیوں کہ کسی چیز کو ہم اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کلی طور پر اس کی حقیقت وافادیت سے واقف ہوتے ہیں، اس کے نتائج کا علم ہوتا ہے ، اور جب ہم کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ اس تسلیم شدہ چیز کے تقاضے کو پوری کریں ۔ اسی طرح ایک مسلمان اللہ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کو پوری عقیدت و محبت کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے تو بحیثیت محب اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو پیغامات لے کر آئے ہیں ان پیغامات کو تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔چونکہ اسلام نام ہی ہے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کا اور یہ تقاضا تب ہی پورا ہو سکتا ہے جبکہ ہم سیرت کے پیغامات کو اپنائیں، 
اور عشق کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت وافادیت سمجھیں، اور یہ ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وپیغامات پر ہی عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخروئی کی ضمانت ہے ۔قرآنِ کریم کی پوری عبارت اور مفہوم در اصل سیرت کا ہی پیغام ہے ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کے لئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن مجید مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر، تصویر، تحریر، اور تقریر ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق وکردار ، سماجی ومعاشرتی مسائل، انفرادی و اجتماعی مسائل،قومی وبین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی اصول وقوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ جہت پہلوؤں کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے، زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔
رسول اللہ کی زندگی کو نمونہ بنا کر اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش وہی شخص کرے گا جس کو بعث بعدالموت کا یقین کے ساتھ ساتھ احساس بھی اور اعمال کے واجبی نتائج کا یقین کامل ہو۔ رہا وہ فرد جسے یا توآخرت کی امید ہی نہ ہو یا اگر ہو تو کبھی کبھار ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہو اور زندگی کی ہماہمی و مصروفیات نے اسے موت کے بعد پیش آنے والے نتائج سے غافل کر رکھا ہو تو ایسا شخص بجائے اللہ کے رسول ؐ کو رہنما بنانے کے، اپنی مطلوب من پسند شخصیت کو رہنما بنائے گا تاکہ اس کے لیے دنیاوی ترقی ممکن ہو سکے۔اور یہ ہم اس دور میں میں بدرجہ اولی دیکھ رہے ہیں، ہم اور ہمارا معاشرہ ہر جہت سے اللہ کی ناراضگی اور رسول اللہ صلعم کی تعلیمات کا جنازہ نکال رہا ہے، ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنے سر صرف اللہ کی لعنت مول لے رہے ہیں، ہماری عبادات کا تو اللہ ہی محافظ ہے، معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، دکاندار تجارت میں جھوٹ بول کر چیزیں فروخت کر رہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، لیا ہوا قرض لی ہوئی وامانت لوٹانے کا نام نہیں لے رہے ہیں، بیٹیوں اور پھوپھیوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، نکاح وشادیات جو کہ محض ایک عبادت وبندگی کا نام ہے اس موقع پر ہم چار قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، ناچ گانا، آتش بازیاں، مرد وعورت کے اختلاط، جانوروں کی طرح گھوم گھوم کر کھانے لینا پھر اسے کھڑے ہوکر کھانا، اس دوران اگر کھانا اٹک گیا تو دوڑ کر پانی تلاش کرنا ان تہذیب وثقافت میں خود کو رنگ لیا ہے۔
مسلمانوں کے اکثریت علاقے میں کسی بھی گھر کی بنیاد بغیر جھگڑے کے نہیں پڑتی ہے، جان بوجھ کر دوسرے کی زمین کے حد میں پیلر ڈالنا، ناحق قبضہ جما لینا، اگر کسی سے کوئی رنجش یا اختلاف ہو جائے تو اس کے راز فاش کردینا،کسی کمزور پر ظلم کرنا، کسی کو ناحق ستانا، کسی کی کامیابی پر جلنا، پڑوسیوں کو تکلیف دینا، فقراء ومساکین، یتیموں اور نوکروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا، اللہ رب العزت نے سورہ ماعون میں کفار ومنافقین کے چند علامات کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس سورہ کے پس منظر میں خود کے کردار عمل کو دیکھ سکتے ہیں،انہیں وجوہات کی بنا پر اللہ کا عذاب وعتاب نازل ہورہا ہے چونکہ اللہ رب العزت نے واضح فرما دیا

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏ ۞

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں (تو دنیا میں دیکھنے والا تھا اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس دنیا میں میری نشانیاں آئیں تھیں تو تو نے ان کو فراموش کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی فراموش کردیا جائے گا اور جو شخص اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور حد سے تجاوز کرے ہم اسی طرح اس کو سزا دیتے ہیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور بہت باقی رہنے والا ہے (طہ :124-127)


ہم اس آیت کریمہ پر غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یقیناً ہم اللہ کے احکامات کو پامال کر رہے ہیں جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے، اللہ کے احکامات کو توڑنا یہ دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے،حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام کر اپنے اندر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلوؤں کو بسا کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں، یہی تقاضا رب اپنے بندے سے کرتے ہیں، اسی سے زندگی کامیاب ہو سکتی ہے چونکہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے   ولَا  تَهِنُوْا  وَ  لَا  تَحْزَنُوْا  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
ترجمہ
مت گھبراؤ غمزدہ نہ ہو تم ہی سربلند رہوگےاگرتم مومن ہو،

اور اللہ کا وعدہ برحق ہے، سچا ہے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں تاکہ ہماری زندگی مکمل کامیاب ہو سکے۔
اللہ ہم سب ایمان و یقین کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین،

زہریلی شراب سے اموات __

زہریلی شراب سے اموات __
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اسمبلی سے پارلیامنٹ تک ان دنوں چھپرہ اور سیوان کے مشرَق عیسوا پور، مرہوڑہ اور امنور تھانہ کے متعدد گاؤں میں زہریلی شراب سے اموات کا تذکرہ ہے، گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں، الزام تراشی اور دفاع میں تقریروں کا بول بالا ہے ، حزب اختلاف اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنا چاہتا ہے ، اس نے اسمبلی سے گورنر ہاؤس تک نتیش کمار کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے ، اسمبلی میں جو تکرار ہو رہی ہے وہ کسی سبزی منڈی اور مچھلی ہاٹ کا منظر پیش کر رہا ہے ، منتخب نمائندے کرسی اٹھا رہے ہیں، خود وزیر اعلیٰ بھی اپنا آپا کھو رہے ہیں، دوسری بار لوگوں نے انہیں ودھان سبھا میں گرجتے اور غصہ میں ابلتے دیکھا ہے ، اس گرمی اور غصہ نے آگ میں گھی کا کام کیا اور بحث میں مزید تلخیاں پیدا ہوئیں۔
 انفعالیت ، جذباتیت ، اپنی جگہ؛ لیکن موقف وزیر اعلیٰ کا درست ہے، انہوں نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ جن لوگوں نے شراب بندی قانون کی مخالفت کی اور زہریلی شراب پیااور مرے، ان سے کوئی ہمدردی نہیں اور معاوضہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس اعلان میں معقولیت ہے کیوں کہ شراب نوشی بہار میں غیر قانونی ہے اور جرم کے درجہ میں آتا ہے ، اس کو تمام پارٹیوں کی حمایت سے نافذ کیا گیا تھا، بی جے پی نے بھی اس کی حمایت کی تھی اور اسی کے کہنے پر شراب بندی قانون کے بعض دفعات میں نرمی پیدا کی گئی تھی ، اس لیے بی جے پی کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ مہلوکین کے ورثاءکو معاوضہ دیا جائے، قانون شکنی پر سزا ملے گی یا معاوضہ دیا جائے گا، قانون شکنی کی سزا میں وہ موت کی نیند خود ہی سو گیے،ا س لیے دوسری سزا کا کوئی جواز نہیں ہے ، یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کی موت سے ان کا خاندان بے سہارا ہو گیا اور ان کو پوری زندگی بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ کسی قانون میں ا ن بے سہاروں کو سہارا دینے کی شکل نہیں ہے ، ورنہ عدالت جنہیں پھانسی پر قانون کے تقاضوں سے چڑھا دیتی ہے ، کوئی حکومت ان کے بچوں کی پریشانی کا معاوضہ نہیں دیتی ، فطری موت مرنے والوں کے بچے بھی یتیم ہوتے ہیں، لیکن ان کی فکر بھی کون کرتا ہے، اسی طرح شراب پی کر مرنے والوں کا بھی معاملہ ہے ، وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر اپنا موقف صاف کر دیا ہے کہ شراب پیوگے تو مروگے۔
 اس حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن شراب کی فروخت اور دوسرے صوبوں سے بہار منتقلی بھی جرم ہے ، ان مجرمین کو سزا کب ملے گی اور کون دے گا، جانچ کا موضوع یہ بھی ہے کہ کس نے ان کو شراب پہونچانے میں مدد کی ، بے تحاشہ زہریلی شراب بیچی گئی اور پولیس کو پتہ نہیں چلا، یا ان لوگوں نے پولیس سے تعلقات بنا رکھا تھا، چنانچہ شراب اپنی جگہ پہونچی ، اور اس کی خرید وفروخت میں مجرمین نے اس تعلقات کا فائدہ اٹھایا ایسے میں ضرورت ان تمام کو سزا دلانے کی ہے؛ تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے ، ورنہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور دلیر ہوجائیں گے اور اس قانون کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا، وزیر اعلیٰ نے صحیح کہا ہے کہ اگر معاوضہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس قانون کو ختم ہی کر دینا ہوگا۔ ریاستی حکومت نے یہ اچھا کیا کہ اکتیس(31) افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی جانچ کمیٹی بنانا ہے ، مشرَق تھانہ انچارج رتیش مشرا اور چوکیدار وکیش تیواری کو معطل کر دیا گیا ہے۔ حکومت کو شراب مافیا کے خلاف سخت قدم اٹھانی چاہیے، ہو سکتا ہے حزب مخالف اس پر بھی ہنگامہ کرے، لیکن عوام سمجھتی ہے کہ حزب مخالف کا کام صرف مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے ۔
 اسلام میں شراب ام الخبائث ہے، اور اس کا نقصان بہت زیادہ ہے، اس لیے اس کا بنانا ، بنوانا، اس کا پینا ، خرید وفروخت کرنا ، نقل حمل کرنا، اس کی قیمت کھانا سب حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پر لعنت ہے، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی شراب کے ساتھ دیگر منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، دین سے دوری نے ہمارے بچوں کو اس طرف راغب کر دیا ہے ، ہمیں خود بھی اس کے خلاف مہم چلانی چاہیے، جلسوں میں اسے تقریر کا موضوع بنانا چاہیے اور سماج کو اس لعنت سے پاک کرنے میں اپنی حصہ داری نبھانی چاہیے ۔

منگل, دسمبر 27, 2022

یکساں سول کوڈ کا شوشہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یکساں سول کوڈ کا شوشہ ___
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
1972ءسے یونی فارم سول کوڈ یعنی یکساں شہری قانون بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے ، کانگریس اس قسم کی کوشش نرم ہندتوا مزاج کے ساتھ کرتی رہی ، متبنی اور نفقہء مطلقہ بل کے نام پر مسلم پرسنل لا پر شب خوں مارنے کی یہ کوشش آج کی نہیں ہے، کانگریس کا زوال ہوا، بی جے پی بر سر اقتدار آئی،تو اس نے کھلے عام اس کو کرنا شروع کیا، تین طلاق جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر اس نے قانون سازی کی اور عدالت کے ذریعہ اس کے نفاذ کی متواتر کوشش نے تین طلاق کے باوجود مطلقہ کے بیوی بر قرار رہنے اور نان ونفقہ کی ادائیگی کو لازم قرار دیا ، ایک طرف تین طلاق کو جرم قرار دے کر شوہر کو جیل کی سلاخوں میں بھیجنے کا انتظام کیا اور دوسری طرف اسے نفقہ دینے پر مجبور کیا گیا، اب کون پوچھے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا ، کام نہیں کرے گا تو نفقہ کہاں سے لا کر دے گا، جیل میں جو کام کی اجرت دی جاتی ہے، وہ متعینہ یومیہ مزدوری سے اس قدر کم ہے کہ اس سے ماہانہ مقرر کردہ نفقہ کی ادائیگی ہو ہی نہیں سکتی، امیروں کے یہاں تو یہ ممکن ہے، لیکن ایسے لوگ جو روز کماتے اور روز کھاتے ہیں، اس کے متحمل کس طرح ہو سکتے ہیں، حالاں کہ طلاق کا تناسب کمزور طبقوں میں ہی زیادہ ہوتا ہے۔
 ابھی حال ہی میں شاعر اور مکالمہ نگار جاوید اختر نے بھی یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا تھا کہ اگر شوہر کو چار بیوی کی اجازت ہے تو بیوی کو چار شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی، جاوید اختر مذہب بیزار ہیں، خدا اور رسول کے احکام سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن انسانی نفسیات وطبعیات کے خلاف بھی وہ بیان بازی کریں گے اس کی توقع کسی کو نہیں تھی کیوں کہ ان کا شمار دانشوروں میں ہوتا ہے، اور ایک دانشور سے ایسی بے ہودہ بکواس کی توقع کم سے کم دنیا نہیں کرتی، وہ یہ بیان دیتے وقت شاید بھول گیے کہ عورت نفسیاتی طور پر چار مرد کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اگر ہو بھی جائے تو بچوں کا نسب کس سے ثابت ہوگا، کیا چاروں کو اس کا باپ مان لیا جائے گا، اور کیا ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ کسی ایک باپ کو نامزد کر دینا ، جھگڑے کی بنیاد نہیں ڈالے گا، اسی طرح تعلق کے اوقات بھی نزع کا سبب بنیں گے اور عورت کی حیثیت بازیچہء اطفال سے زیادہ باقی نہیں رہے گی، یہ اس کے ساتھ ظلم ہوگا، اس لیے شریعت نے عورتوں کو چار شادی کی اجازت نہیں دی۔
بی جے پی نے اس قسم کے واقعات ، بیانات اور مسائل کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا کام کیا اور اب جب کہ پارلیامنٹ اور راجستھان اسمبلی کا الیکشن قریب ہے، ہندتوا کو متحد کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا اور راجستھان کے بی جے پی ایم پی کڑوڑی لال مینا کے ذریعہ 9 دسمبر 2022ءکوراجیہ سبھا میں پرائیوٹ یکساں سول کوڈ بل پیش کروا دیا، حزب مخالف نے برائے نام مخالفت کی اور تئیس (23) ووٹ کے مقابل ترسٹھ (63) ووٹ سے اس بل پر بحث کی منظوری دیدی گئی، برائے نام مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ حزب مخالف میں آل انڈیا ترنمول کانگریس، بیجو جنتا دل ، وائی ایس آر سی پی کے ارکان خاموشی سے ایوان سے باہر چلے گیے، ایوان سے باہر چلے جانے کا یہ عمل در اصل بالواسطہ حمایت کے قبیل سے ہے ، یہ حضرات اگر ووٹنگ میں یونیفارم سول کوڈ کے خلاف ووٹ دیتے تو یہ بل راجیہ سبھا میں پیشی کے لیے منظور نہیں ہوپاتا، کیوں کہ راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے ایک سو دس (110) اور حزب اختلاف کے ایک سو انتیس (129) ارکان ہیں، اس لیے مان لینا چاہیے کہ اس بل کی مخالفت کانگریس کی قیادت میں قائم یوپی اے میں شامل چونسٹھ (64) ارکان نے بھی نہیں کیا، ورنہ مخالفین کی تعداد کم از کم چونسٹھ (64) ضرور ہوتی ، اور ایوان میں ترسٹھ سے ایک ووٹ زائد ہونے کی وجہ سے اسے منظور نہیں کیا جاتا، جب یوپی اے اپنے ووٹ کو متحد نہیں رکھ سکی تو دیگر پارٹیوں کے پاس جوچوسٹھ (64) ارکان ہیں، ان کارونا کیا رویا جائے، اس معاملہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اب تک جسٹس بی اس چوہان کی سر براہی میں قائم لا کمیشن کی رپورٹ بھی پارلیامنٹ میں پیش نہیں کی جا سکی ہے، جو با خبر ذرائع کے مطابق ایک سو پچاسی (185) صفحات پر مشتمل ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ یونی فارم سول کوڈ اس ملک میں نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی ضروری، لا کمیشن نے یہ رپورٹ سرکار کو 13 اگست 2018ءکو پیش کیا تھا، اسے اب تک پارلیامنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا اور اس رپورٹ کے خلاف یکساں سول کوڈ کا نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ماضی میں پرائیوٹ بل کا کیا حشر ہوتا رہا ہے، 1952ءسے اب تک کوئی پانچ ہزار چار سو (5400)نجی بل پارلیامنٹ میں پیش کیے گیے، جن میں سے صرف چودہ بل قانون میں تبدیل ہو پائے ، گذشتہ بیس سالوں کی بات کریں تو اکیس سو (2100)نجی بل پیش ہوئے اور بیش تر یا تو رد ہو گیے یا پیش کرنے والے نے اسے واپس لے لیا ، جو بل قانون بن پائے اسے واپسی کے بعد حکومت نے اپنی جانب سے دو بارہ ایوان میں رکھا، ممکن ہے بعد میں اس بل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو، فی الوقت مسلمانوں کو اس کو عوامی سطح پر موضوع بحث بنا کر سڑکوں پر اترنے سے گریز کرنا چاہیے؛ البتہ ان تمام طبقات کے ساتھ گفت وشنید اور مشورے کرنے چاہیے جن کے پرسنل لا پر اس قانون کے مضر اثرات پڑیں گے اور وہ فنا ہو کر رہ جائے گا، یہ طبقات صرف اقلیتیں نہیں ہیں، بڑی تعداد ان غیر مسلم بھائیوں کی بھی ہے جوسماجی اور مذہبی امور کی انجام دہی میں منو سمرتی نہیں، اپنے پرسنل لا اور قبائلی رسم ورواج کے مطابق زندگی گذارتے ہیں۔ان تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کام کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ بحث میں یکساں سول کوڈ کے منفی پہلووءں کو ایوان میں اجا گر کریں، تاکہ یہ بل اپنی موت آپ مرجائے یا کڑوڑی لال مینا اسے واپس لے لے ۔
 ضرورت ہے کہ مخالف ماحول میں سازگار فضا بنائی جائے اور ہر حال میں اس بل کو پاس ہونے سے روکا جائے، کس طرح؟ یہ سوچنا اور لائحہ  عمل تیارکرنا قائدین کی ذمہ داری ہے۔

پیر, دسمبر 26, 2022

شادی میں ہوگا ناچ گانا تو نہیں پڑھائیں گے نکاح


 شادی میں ہوگا ناچ گانا تو نہیں پڑھائیں گے نکاح
اردو دنیانیوز ٧٢
 جمعیۃ علماء سکندر آباد کے زیر اہتمام منعقدہ میٹنگ میں علمائے کرام کا دوٹوک فیصلہ

 زبیر شاه بلند شهر (ایس این بی)

 تائید ہے متفقہ طور پر طے کیا گیا ہے اور اس فیصلے پر تختی سے عمل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی حتمی فیصلے کے لیے 5 رکنی علماء و ذمہ داران کی شوری فیصلے کی مجاز ہوگی، ان کے ذریعے جو بھی فیصلہ لیا جائے گا وہ حتمی ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے ذمہ دار حاجی شاہد انصاری کی دعاء پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی۔ اس موقع پر مفتی نیم احمد قاسمی ، قاری محمد عالم قاسمی ، قاری محمد اخلاق، قاری ندیم احمد ، قاری زبیر احمد، قاری شفاعت خان، قاری اکرام احمد، مولانا نظام الدین قاسمی، مولانا منت اللہ قاسمی، مولانا جنید اختر مولانا گل صنوبر قاسمی ، حاجی رفیق الدین جرنیل غازی، عابد صدیقی، امان الله خالد مقصود جالب ، رضوان قریشی، مولانا عبد القادر

 جمعیة علماء شہر سکندر آباد کے زیر اہتمام اتوار کی صبح محلہ قاضی واژه واقع شاہی جامع مسجد میں شہر کے علماء ائمہ، متولیان مساجد، ذمہ داران و اسا تذہ مدارس اور شہر کے تمام علاقوں کے معززین کی ایک اہم میٹنگ مولانا محمد ارشد قاسمی کی صدارت اور مولانا محمد عارف قائمی کی نظامت میں منعقد کی گئی ، جس میں متفقہ طور پر مندرجہ ذیل تجاویز وامور پر غور و خوض کیا گیا اور اتفاق رائے سے طے کیا گیا کہ آئندہ یکم جنوری 2023 سے شہر کے مسلمانان شادی بیاہ میں قبل از نکاح یا پروگرام کے بعد کسی بھی قسم کی آتش بازی، پٹانے ، ڈی جے ، ناچ گانا وغیرہ نہیں

 سکندر آباد کی جامع مسجد میں میٹنگ کے دوران خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد قاسمی اور مولانا محمد عارف قاسمی و دیگر .... ( تصویر: ایس این بی)

 کریں گے ۔ مولانا ارشد قاسمی نے وہاں موجود اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آخر میں تمام بے جا

 کہا کہ اگر کسی شادی کی تقریب میں ڈی جے آلات موسیقی، آتش بازی، ناچ گانے کا استعمال کیا جائے گا تو وہ نکاح نہیں پڑھائیں

 گے اور نہ ہی کسی اور کو نکاح پڑھانے دیں گے۔ ماسٹر نعیم احمد، ڈاکٹر اقبال احمد نیم سیفی، سید سب نے بلند آواز سے اس تجویز کو پاس اشتیاق احمد، سلیم ملک ایڈووکیٹ ، عابد غازی کیا۔ مولانا محمد عارف نے کہا کہ یہ فیصلہ بھی کی وغیرہ موجود تھے۔

 لوگوں سے برائیوں، رسم ورواج کو ختم کرنے پر رسومات کو ختم کرنے کے لیے متفقہ طور پر ایک

 زور دیا۔ اس موقع پر شہر کے معززین نے بھی تجویز پاس کی گئی۔ علمائے کرام نے متفقہ طور پر

یوم انسانی حقوق ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوم انسانی حقوق ____
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ابھی چند دن قبل 10 دسمبر کو پوری دنیا میں یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا گیا، ہمارے یہاں یہ اب رسم سی بن گئی ہے ، 10 دسمبر 1948ءکواقوام متحدہ کی مجلس عام نے عالمی حقوق انسانی کے نام سے ایک دستاویز جاری کیا تھا، جس کے بہت سارے دفعات اسلام کے حقوق انسانی منشور سے لیے گئے تھے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اکرام انسانیت اور احترام آدمیت کا جو درس دیا تھا وہ اتنا جامع اور بقاءباہم کے لیے اس قدر عملی ہے کہ کسی اور منشور اور مینو فیسٹو کی ضرورت نہیں ہے ، ان اصولوں کو حلف الفضول، میثاق مدینہ اور خطبہ حجة الوداع میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے، قرآن کریم میں اکرام آدمیت اور قتل وغارت گری سے احتراز اور روئے زمین پر فساد پھیلا نے سے گریز کا جو درس دیا گیا ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔
عالمی حقوق انسانی کا جو دستاویز اقوام متحدہ نے تیار کیا ، اس سلسلے میں حساسیت پیدا کرنے کے لیے اس نے 10 دسمبر 1950ءکو یہ فیصلہ لیا کہ 10 دسمبر کو یوم حقوق انسانی کے طور پر منایا جائے، اقوام متحدہ کا ماننا ہے اس کی وجہ سے لوگوں میں سماجی ، ثقافتی، اور جسمانی حقوق کے سلسلے میں بیدار ی پیدا ہوگی اور وہ آزادی ، مساوات اور عزت نفس کے ساتھ زندگی خود بھی گذارنے کے لیے تیار ہوں گے اور دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں گے، ہندوستانی دستور کے باب 3میں بنیادی حقوق کے ضمن میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور ان حقوق کی ان دیکھی یا پامالی کرنے والوں کے لیے عدالت کے فیصلے کے مطابق سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں جس طرح انسانی حقوق کونظر انداز کرکے نسل، رنگ، جنس ، زبان ، مذہب وغیرہ کے حوالہ سے تفریق کی جا رہی ہے ، وہ جگ ظاہر ہے، حقوق کا ذکر تو ہے، لیکن ان کی تنفیذ نہیں ہو پا رہی ہے، تاریخ کا سیاہ باب ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں نے حقوق اور فرائض کو الگ الگ سمجھ رکھا ہے ، اپنے حقوق کے سلسلے میں سب حساس ہیں، لیکن اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں، حالاں کہ سماجیات کا مشہور مقولہ ہے کہ حقوق وفرائض میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا، بہت ساری صورتوں میں حق دینا آپ کے فرائض میں شامل ہوجاتا ہے، آپ نے اگر اس طرف توجہ نہیں دیا تو یقینا دوسرے کی حق تلفی ہوجائے گی۔
 ہندوستانی دستور میں پہلے سات بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا تھا، جن میں مالیات بھی شامل تھا، لیکن دستور کی چالیسویں ترمیم جو 1978ءمیں کی گئی تھی، اس میں مالیاتی حقوق کو دستور کی دفعہ 300ئ(اے) میں رکھ دیا گیا ، چنانچہ اب صرف چھ بنیادی حقوق ہیں، جن میں مذہبی، تعلیمی ، ثقافتی آزادی بھی شامل ہے، استحصال کے خلا ف آواز اٹھانے کا حق بھی اس کا ایک حصہ ہے، مرکزی اور ریاستی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے دو کمیشن بنے ہوئے ہیں، ابتدائی اندازے کے مطابق 2022ءمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سات ہزار سات سو ساٹھ(7760) معاملے درج ہوئے، پہلے سے چلے آ رہے اور اس سال درج ہوئے مجموعی مقدمات میں سے آٹھ ہزار سات سو سترہ(8717) معاملات حل کیے جا سکے ، جبکہ نئے پرانے چودہ ہزار تین سو چورانوے (14394)معاملات آج بھی کمیشن کے سامنے زیر غور ہیں، یہ وہ معاملات ہیں جوقومی حقوق کمیشن کے سامنے درج ہوئے 2022_2023ءمالیاتی سال میں اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے اور اسے بڑھ کر انہتر ہزار چھ سو دس تک پہونچ جانے کی امید کی جا رہی ہے۔
بہار ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ چھ ہزار چھ سو تہتر(6673) شکایتیں کمیشن کو ملیں، اچھی بات یہ ہے کہ بہار انسانی حقوق کمیشن نے چھ ہزار ایک سو اناسی(6179) معاملات کو نمٹانے میں کامیابی حاصل کی، ان میں چالیس سے پچاس فی صد معاملات تو محکمہ پولیس ہی سے متعلق تھے۔
اس کے علاوہ بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کمیشن کے سامنے مختلف رکاوٹوں کی و جہ سے آ ہی نہیں سکے، اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ایسی ہی کثرت رہی تو یوم حقوق انسانی منانے کا حاصل ہی کیا رہ جائے گا، سب لوگ اپنی ذمہ داری سمجھنے لگیں، ان میں افراد ، جماعتیں، سرکاریں سبھی شامل ہیں، تبھی بنیادی حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے گی۔

ممتاز صحافی ، ادیب و افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی بانی و ایڈمن

ممتاز صحافی ، ادیب  و افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی  بانی و ایڈمن
اردو دنیانیوز ٧٢
" ایس آر میڈیا " کا 26 دسمبر 1983 یوم ولادت ہے ۔ 
پیشکش ✍️ سلمی صنم

پورا نام قمر اعظم ،قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے ۔ ان کے والد کا نام شہاب الرحمن صدیقی اور والدہ کا نام شاکرہ خاتون ہے ۔ وہ 26 دسمبر 1983ء کو اپنے آبائی وطن بھیرو پور ، حاجی پور ، ویشالی ، بہار میں پیدا ہوئے ۔ ان کی تعلیم ایم اے اردو ( فاصلاتی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد ) سے  ہے اور پیشہ تجارت ( پلمبر اینڈ باتھ فٹنگ کا سپلائی) ہے
ان کے تصنیفات کے نام ہیں 
1 👈 " برگ ہاۓ ادب " ایس آر میڈیا پیج پر شائع مضامین کا مجموعہ (مرتب) : غیر مطبوعہ , قومی کونسل میں مسودہ جمع ہے 

2 " غنچہ ادب " ( مصنف )
غیر مطبوعہ ہے ۔ اردو ڈایرکٹریٹ میں مسودہ جمع ہے ۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ : شخصیات ، دوسرا حصہ : تبصرہ ، تیسرا حصہ : صحافت 
آغازِ تحریر۔۔ پہلی اشاعت : " اردو سے بے توجہی کے لیے ذمہ دار کون ؟ " تاریخ اشاعت : 16/07/2001 زبان و ادب اڈیشن ، روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ ہے.
ان کی سرگرمیاں :
 1 👈 بانی و ایڈمن " ایس آر میڈیا "پیج
2 👈 رکن کاروان ادب حاجی پور ویشالی 
3 👈 رکن اردو ایکشن کمیٹی ویشالی 
4 👈 رکن ضیاۓ حق فاؤنڈیشن

 خدمت اردو کے لیے ان کے ذریعہ چلایا جانے والا فیس بک پیج " ایس آر میڈیا " کی خدمات کو 16 ماہ ہو چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :  
"اپنے تجارتی مصروفیات کی وجہ سے اردو کے لیے زیادہ کچھ تو نہیں کر پاتا ہوں لیکن الحمداللہ کچھ وقت نکال کر لوگوں کے آۓ ہوۓ تحریر کو مستعدی سے لگاتا ہوں ۔ خصوصاً نۓ قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں ۔ " قمر اعظم صدیقی ایس آر میڈیا پیج کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ : 
" ایس آر میڈیا پیج کے قارئین کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ایس آر میڈیا پیج کا دائرہ ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فیس بک رپورٹ کے مطابق نو (٩) ملکوں میں اس کے قارئین موجود ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق مرد قارئین کی تعداد 94 ٪ اور خواتین قارئین کی تعداد 6 ٪ فیصد ہے ۔ اور اگر عمر کی مناسبت سے قارئین کا جائزہ لیا جائے تو فیس بک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 25 سے 34 کے عمر کے قارئین کی تعداد 40٪ فیصد جبکہ 35 سے 44 عمر والے قارئین کی تعداد 20٪ فیصد ، 18 سے 24 عمر کے قارئین کی تعداد 19٪ فیصد ، 45 سے 54 کے قارئین کی تعداد 9٪ ، 55 سے 64 کے عمر کے قارئین کی تعداد 5٪ فیصد اور 65 سے اوپر کے قارئین کی تعداد صرف 3 ٪ فیصد ہے ۔ "
 دوران طالب علمی انہوں نے کئ غزلیں ، نظمیں اور ایک حمد بھی لکھی لیکن ان سب کا سلسلہ دوران طالب علمی میں ہی مکمل بند کر دیا ۔ ایک دو افسانے بھی لکھے ، ابھی شخصیات اور تبصرہ نگاری پر زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں ۔ ویسے تو ان کی تمام تحریریں معیاری اور معلوماتی ہیں لیکن ان تمام تحریروں میں سب سے زیادہ معیاری اور معلوماتی جو تحریر ہے وہ ہے " اردو میں سرگرم ویب سائٹس اور پورٹل ایک تجزیاتی مطالعہ " جو کہ صحافت دو صدی کا احتساب 1822- 2022 نامی کتاب میں شامل ہے جس کے مرتب صفدر امام قادری صاحب ہیں ۔

  ممتاز صحافی، شاعر اور افسانہ نگار قمر اعظم صدیقی کے یوم ولادت پر پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام 

                     (((( حمد )))))
نظر کو روشنی دل کو اجالا کون دیتا ہے
اندھیری رات کو جگنو سا شیدا کون دیتا ہے
ہماری سانس کو چلنے کی طاقت کس نے بخشی ہے
ہماری روح کو پاکیزہ رشتہ کون دیتا ہے

بدلتے موسموں کو آج بھی ہم غور سے دیکھیں
تو پائیں گے انھیں رحمت کا سایہ کون دیتا ہے

ہماری کھیت کو فصلوں کی نعمت کس نے بخشی ہے
ہر اک کو رزق کا، قسمت کا دانہ کون دیتا ہے

ہر ایک ماں کی شکم میں پرورش بچوں کی کرتا ہے
کسی پتھر میں کیڑے کو نوالہ کون دیتا ہے

اسی کے ہاتھ میں سب ہے، اسے مختار کل جانو
سوا اس کے کسی کو ایک تنکا کون دیتا ہے

خدا کی حمد لکھوں نعت لکھوں یا غزل لکھوں
قمر دل میں تیرے یہ نیک جذبہ کون دیتا ہے 
               ((((( نظم - کویل )))))
پیاری کویل کالی کالی
 سب پنچھی میں بھولی بھالی

آنکھیں اس کی گول مٹول
 بولی میں ہے میٹھی بول

گلشن گلشن اڑتی ہے یہ
 دل کی باتیں کرتی ہے یہ

میٹھے میٹھے گیت سنائے
 نیند سے بو جھل بھی جگ جائے

دل میں پیار کا چشمہ پھوٹے 
لب پر اس کے نغمہ پھوٹے

جو اللہ دے کھاتی ہے یہ
 اللہ کا گن گاتی ہے یہ

                 ((((( غزل )))))

یا خدا تجھ کو مناؤں کیسے
 تیرا بندہ ہوں تو جاؤں کیسے
 مفلسی ایسی پڑی ہے پیچھے
 بھوک کو اپنی مٹاؤں کیسے 
ہوتے ہیں روز غموں کے حملے
 گھر کو گھر جیسا بناؤں کیسے 
کچھ تو ہے سبز ہوا کی امید
 لمحہ زرد بتاؤں کیسے
 ان کو پانے کی تمنا تو ہے
 دل کی مجبوری بتاؤں کیسے
 غم سے انسان نہیں گھبراتا
 اے قمر تجھ کو بتاؤں کیسے

ان کی درجنوں غزلیں دوران طالب علمی شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ 
👈 انکے افسانے کا لنک ملاحظہ فرمائیں : 
ٹوٹتے ارماں 

 https://www.baseeratonline.com/archives/148703

👈نمونہ تحریر کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں : 
قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمت اللہ علیہ ایک بے مثال شخصیت
 
https://ishtiraak.com/index.php/2021/07/22/qazi-mujahidul-islam-qasmi-ek-be-misal-shakhsiyat/

انکی تحریروں کے عنوان بھی ملاحظہ فرمائیں : 
1 اردو سے بے توجہی کے لیے ذمہ دار کون ؟ 
2 قاضی مجاہد السلام قاسمی رحمت اللہ علیہ ایک بے مثال شخصیت
3  میرے نانا جان 
4 حضرت مولانا محمد ولی رحمانی میری نظر میں
5 محبت و اخلاص کے پیکر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں  
6 ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق تیری خوبیاں زندہ تیری نیکیاں باقی 
7 علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ ایک مطالعہ
8 علامہ ماہر القادری کی شخصیت اور کارنامے 
 9 عکس مطالعہ میرے مطالعہ کی روشنی میں 
10 پۓ تفہیم ایک مطالعہ 
11 آتی ہے انکی یاد میرے مطالعہ کی روشنی میں
12 جہان ادب کے سیاح ڈاکٹر امام اعظم ایک جا ئزہ
13 میزان فکر و فن ایک مطالعہ

14 ہم عصر شعری جہات میرے مطالعہ کی روشنی میں
15تعلیم اور کیریئر ایک جائزہ
16 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں  
https://urduleaks.com/mazameen/mufti-muhammad-sana-al-huda-qasmi-a-review149705/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...