Powered By Blogger

اتوار, جنوری 01, 2023

جنسی بے راہ روی کو تحفظمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

جنسی بے راہ روی کو تحفظ
اردو دنیا نیوز٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
کیرالہ کے اکتالیس سالہ تاجر جو سف شائنی (جو ان دنوں اٹلی میں قیام پذیرہے) نے دسمبر۲۰۱۷ء میں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں مفاد عامہ کے حوالہ سے ایک عرضی داخل کیا تھا ، جس میں دفعہ ۴۹۷ کو صنفی بنیاد پر تفریق قرار دے کر رد کرنے کی مانگ کی تھی ، اس دفعہ کی رو سے شادی شدہ مرد اگر کسی دوسرے کی بیوی سے اس کے شوہر کی رضا مندی سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا ہے ، البتہ بلا اجازت اگرکسی نے جنسی تعلق قائم کیا تو یہ جرم کے دائرے میں آتا تھا اور زنا کا ر مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی تھی ، ایسے معاملات میں اس دفعہ کی رو سے عورت کو متاثرہ مان کر چھوڑ دیا جاتا تھا ، اس پر کوئی داروگیر نہیں کی جاتی، اسی طرح اگر زنا کار کی بیوی نے اس مسئلہ پر خود کشی کر لیا تو اس شکل میں بھی شوہر خود کشی پر ابھارنے والا قرار دے کر مجرم گردانا جاتا تھا ، اس بنیاد پر طلاق کے لیے مقدمہ بھی قائم کیاجا سکتاتھا اور یہ تفریق کی بنیاد ہو سکتی تھی ۔
 یہ قانون ایک سو انٹھاون سال پرانا تھا، ۱۸۳۷ء میں تھا مس بائیگٹن میکالے (لارڈ میکالے) نے تعزیرات ہند کے پہلے مسودے میں اسے شامل نہیں کیا تھا، لیکن ۱۸۴۷ ء میں قانون ساز کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ زنا کاری کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دینا قطعا مناسب نہیں ہے ، لیکن اس بار بھی یہ دفعہ داخل نہیں کی جا سکی، البتہ ۱۸۶۰ء میں اسے آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ کے طور پر لاگو کیا گیا ، تب سے یہ قانون ہندوستان میں نافذ تھا، اس درمیان اس قسم کی عرضیاں ۱۹۵۴، ۱۹۸۵ئ، ۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۱ء میں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں؛ لیکن عدالت نے اسے صنفی بنیاد پر تفریق والا نہیں مانا تھا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندر چوڑ (جو ہندوستان کے چیف جسٹس بھی رہے) نے تیس سال پہلے اس قانون کو باقی رکھا تھا ۔
 ان دنوںہندوستان میں مغربی افکار واقدار کو اپنانے ، قبول کرنے اور اسے عدالت سے منظور کرانے کی جو منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں اس دفعہ کو نکال باہر کیا گیا ، چیف جسٹس دیپک مشرا کی سر براہی میں جسٹس اے ایم کھانو لکر، جسٹس آر اف نریمن، جسٹس ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی پانچ رکنی بینچ نے ۲۰۱۸ء میں نہ صرف آئی پی سی کی دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دیا ، بلکہ سی آر سی کی دفعہ ۱۹۸ کے ایک حصہ کو بھی منسوخ کر دیا، فیصلے الگ الگ سنائے گئے ، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے ، اسے دوسرے سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار ہے ، البتہ اگر شوہر کو اعتراض ہو تو وہ طلاق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے ، جسٹس نریمن کی رائے تھی کہ شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا ، جسٹس چند ر چوڑ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ دفعہ عورت کو اس کی خواہش اور پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے ، اس لیے غیر آئینی ہے ۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت کے جسم پر صرف اس کا حق ہے ، وہ شوہر کی جاگیر نہیں ہے ، شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی جنسی خواہش شوہر کو سونپ دے ۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنا کی وجہ سے شادی خراب نہیں ہوتی ، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے عورتیں غیر مرد کی طرف راغب ہوتی ہیں، ایسے میں اسے جرم مان کر سزا دینے کا مطلب ہے کہ دکھی لوگوں کے دکھ میں مزیداضافہ کیا جائے۔جوسف شائنی کی عرضی پینتالیس صفحات کی تھی ، عدالت عظمیٰ کے معزز حج صاحبان نے الگ الگ چار فیصلوں کے لیے ۲۴۳ صفحات کا لے کیے، اس معاملہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا تھا ، اس میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ اور سی پی سی کی دفعہ (۲) ۱۹۸ کو ختم کرنے کا سیدھا اثر ہندوستانی تہذیب وثقافت پر پڑے گا، چوں کہ یہ دفعات شادی کو مقدس رشتے کے طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
لیکن عدالت نے کسی کی نہیں سنی ، اور شائنی کی عرضی میں جو دلائل دیے گیے تھے اس کو مان کر میاں بیوی کو بے لگام جنسی تعلق بالفاظ دیگر قانون اور عدالتی جواز فراہم کر دیا ہے ، لطیفہ یہ ہے کہ جائز چار شادیوں پر یہاں واویلا مچایا جا تا ہے اورنا جائز رشتوں کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے ، یہاں بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کا جنسی تعلق قائم کرنا زنا کے زمرے میں آتا ہے ، بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے اور اٹھارہ ، اکیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی پر سزا دی جا سکتی ہے ، لیکن لیو ان ریلیشن شپ چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو، کی اجازت ہے ، یہ عدالت ہی کے مختلف فیصلے ہیں ، جس کی تلخیص یہاں ذکر کی گئی ہے ، ان فیصلوں کے نتیجے میں خاندانی نظام بر باد ہو رہا ہے ، اور جس طرح مغرب میں بن باپ کے بچوں کی باڑ ھ سی آئی ہوئی ہے اور باپ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کاغذات میں ماں کے نام درج کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، اس کی شروعات یہاں بھی ہو گئی ہے ،مستقبل کے ہندوستان میں حرام جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا، ایسے میں یا تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے یا آوارہ اوباش ، ناکندہ تراش ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی ، جس سے سارا سماج پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
معزز جج صاحبان نے اس فیصلہ میں ان ملکوں کا بھی حوالہ دیا ، جہاں اس قسم کے تعلق کو جرم نہیں مانا جاتا ، پتہ نہیں کیوں ہمارے جج صاحبان کو وہی ملک نظر آتے ہیں جہاں اس قسم کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکتوں کو قانونی جواز فراہم ہے ، دنیا کے بہت سارے ملک وہ بھی تو ہیں ، جہاں اس قسم کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، امریکہ کو ہی لے لیجئے ، یہاں کی اکیس ریاست میں یہ عمل غیر قانونی ہے ، اور مجرم کو عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے ، فلپاین میں چار مہینے سے لے کر چھ سال کی سزا بیاہی عورت کے دوسرے مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی دی جاتی ہے ، ایران میں ایسی عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ، سعودی عرب میں رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے عدالت نے طلاق کے مسئلے پر بھی ملکوں کا حوالہ دیا تھا تو کیا اس طرح غیر ملکی حوالہ دے کر جسم فروشی کو بھی یہاں قانونی جواز ملے گا، وہاں بھی تو عورت اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہ ایک پیشہ کے طور پر رائج ہے، ہمارے ہندوستان میں اب طوائفوں کو سیکس ورکر کہا جانے لگا ہے ، اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہی انداز رہا تو سارے کوٹھے کی گندگی گاؤں اور محلوں تک آجائے گی جو اب بھی تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت جرم ہونے کے باوجود کم نہیں ہے ۔

ہفتہ, دسمبر 31, 2022

دریچہ ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دریچہ  ___
اردو دنیانیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
صارفیت ، مصروفیت اور مشغولیات کے اس دور میں وقت کی کمی کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے ، اب لوگوں کے پاس داستان، ناول اور طویل افسانے پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے ، اس لیے داستان ناول، لکھنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے ، افسانہ مختصر کہانی کے طور پر ہی لکھا جاتا تھا اور وہ زندگی کے کسی ایک واقعہ؛ بلکہ کبھی واقعہ کے کسی ایک جز کو موضوع بنا کر لکھا جاتا تھا، پھر دھیرے دھیرے سعادت حسن منٹو نے مختصر ترین کہانی لکھنی شروع کی اور اسے ”سیاہ حاشیہ“ کے نام سے لوگوں کے سامنے پیش کیا، منٹو کے اسلوب، سماج پر طنز اور تقسیم ہند کے پس منظر میں یہ 
کہا نیاں مقبول ہوئیں، افسانے کے اجزاءترکیبی کی وجہ سے یہ افسانہ ہی رہا، لیکن مختصر ترین ہونے کی وجہ سے” نون اور ہے کے درمیان ایک ”چ“ کا اضافہ کرکے اہل ادب نے اصناف ادب میں اسے ”افسانچہ“ کے عنوان سے متعارف کرایا، احمد رضا ہاشمی نے بجا طور پر اسے ”لمحاتی احساس کو لفظوں سے سجانے“ سے تعبیر کیا ہے۔افسانچوں میں پلاٹ ، کردار، مکالمہ ، ماحول اور مخالف ماحول پیدا کرنے سے زیادہ اس کے اختتامیہ پر پوری توجہ مرکز کرنی ہوتی ہے، جسے پنچ لائن کہتے ہیں، لطیفوں میں بھی یہی کچھ ہوا کرتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ لطیفوں کا اختتامیہ ایسے جملوں پر ہوتا ہے ، جس سے آپ کے ہونٹوں پر ہنسی کھیلنے لگتی ہے اور افسانچہ کی آخری سطر کو پڑھ کر آپ کو ہنسنے پر نہیں کچھ سوچنے اور اخلاقی اقدار کے زوال پر ماتم کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے، اسے ایک مثال سے سمجھئے۔ بہت پہلے ایک افسانچہ پڑھا تھا کہ” دو گدھ نے ایک مردار کو دیکھا، ایک نے دوسرے سے کہا ؛ چلو دوسروں کو خبر کرتے ہیں، سب مل بانٹ کر کھائیں گے، دوسرے نے کہا اس کی ضرورت نہیں، ہم دونوں ہی اسے نوش کریں گے، دوسرے گدھ کا یہ جواب سن کر پہلے نے کہا یار! لگتاہے تو بھی انسان ہو گیا“ سعادت حسن منٹو کا ایک مشہور افسانچہ ان کی کتاب سیاہ حاشیے میں شامل ہے کہ ”آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا، صرف ایک دوکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے“۔
منٹو کے بعد ایک طویل فہرست افسانچہ نگاروں کی ہے، جن میں خواجہ احمد عباس، جوگندر یال، رتن سنگھ، رام لال، الیاس احمد گدی، شین مظفر پوری، عطیہ پروین، فاروق ارگلی،بشیشر پردیپ، افتخار ایلی، مناظر عاشق ہرگانوی، رضوان احمد، خسرو متین، انجم عثمانی، سید احمد قادری ، بانو سرتاج، نینا جوگن، نوشاد عالم آزاد، سو شو بھن سین گپتا وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں، ان حضرات کے افسانچوں کی فہرست طویل نہیں ہے، لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 افسانچوں کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک افسانے میں کئی کئی افسانچے ہوتے ہیں، آپ افسانے سے پیراگراف کاٹ کر لکھ دیجئے اور اختتامیہ کے جملے جاندار ہوں تو وہ افسانچہ بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہم ارکان کی رعایت کے ساتھ نثری تحریروں میں سے الگ الگ جملوں کو لکھتے ہیں تو وہ نثری شاعری یا آزاد شاعری کے نام سے نئی چیز ہمارے سامنے ہوتی ہے، افسانچے نے جب افسانے سے الگ اپنی پہچان بنالی توپہلے سو الفاظ کے افسانے لکھے گیے، پھر پچاس الفاظ کے اور اب احمد بن نذر پچیس الفاظ پر مشتمل افسانچے لکھ رہے ہیں جو 
بر صغیر میں کافی مقبول ہیں، وہ بڑی تیزی سے افسانچوں کی تخلیق کر رہے ہیں، اور بڑی حد تک کامیاب ہیں۔
 ہمارے عہد میں ایک دوسرا بڑا نام افسانچوں کے حوالہ سے احمد رضا ہاشمی کا ہے ، بنیادی طور پر ان کی پیشہ وارانہ وابستگی ہندی صحافت سے ہے، دوردرشن پر ہندی کے ساتھ اردو کی بھی خبریں پیش کرتے ہیں، ماس کمیونیکیشن پٹنہ اور کالج آف کامرس میں بھی خدمات انجام دی ہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں مشغولیت کی وجہ سے بہت ساری تنظیموں نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا ہے، قابل ذکر یہ بات بھی ہے کہ ریاستی سطح کے مقابلے میں مختصر کہانی نویسی کا پہلا انعام بھی انہیں مل چکا ہے، ”ایساکیوں“ کے نام سے ہندی میں ان کے پچھہتر(75) افسانچوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے، اور اب یہ اردو کے قالب میں ہمارے سامنے ہے، ہم ان کو پڑھ کر سماج کے گھنونے احساس، ٹوٹتی قدریں اور مادیت کے دور میں منتشر ہوتے رشتوں کی باز گشت سن رہے ہیں اور ان کا اختتامیہ ہمیں سوچنے اور حالات کی سنگینی کو محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے، ان افسانچوں کے خیالات ہمارے گرد وپیش اور روز مرہ کی زندگی سے ماخوذ ہیں، بعض افسانچے خالصا اسلامی افکار وخیالات سے مستعار ہیں، جس کو افسانچہ نگار نے اپنے خاص اسلوب میں ہم تک منتقل کر دیا ہے، خصوصا ماں سے متعلق جو افسانچے ہیں اور اس کتاب کا نام جس افسانچہ سے لیا گیا ہے دریچہ، اس میں بھی انسانی اقدار کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔
اس مجموعہ کے سارے افسانچے تاثر کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں، بعضوں کا اختتامیہ اتنے سادے طور پر ہو گیا ہے کہ ہمارے ذہن میں کوئی خاص تاثر نہیں ابھرتا، یہ صحیح ہے کہ ہیئت اور فورم سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ پیغام کیا دیا جا رہا ہے ، البتہ جس ہیئت میں ہم پیغام دینا چاہتے ہیں ان کے خصائص اور مسلمات کی رعایت بھی ضروری ہے ، ورنہ افسانہ ، افسانچہ سیدھا اور سپاٹ ہو جاتا ہے، یا بنیے کے روزنامچہ کی طرح خشک اور کھر دُرا ، مثال کے طور پر بدلاؤ کے اختتامیہ کو دیکھا جا سکتا ہے ، کاش میرے والد زندہ ہوتے تو میں ان کی انگلی پکڑ کر چلنے میں خوش قسمت سمجھتا، بات سچی ہے، لیکن سپاٹ ہے،اسی طرح لگھوکتھا کا اختتامیہ بھی قاری پر کوئی خاص اثر نہیں چھوڑتا، بھیا جی ! اب تو میں آپ کی لگھو کتھا ہر دن سنوں گی، اپنی بستی میں لوگوں کو سناؤں گی، پڑھنا کوئی نہیں جانتا ، پر سندیس سب کو پسند ہے ، میرے بابا اور بٹیا بھی سنیں گے“۔
میں دریچہ کے سارے افسانے کے بارے میں یہ بات نہیں کہہ رہا ، بلکہ بعض کے بارے میں یہ بات لکھی ہے اور میں نے شعوری اور احترازی طور پر اس کے لیے بعض لفظ کا استعمال کیا ہے،اسی طرح بعض کہانیوں کا اختتامیہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور اس سے غلط پیغام لوگوں تک پہونچے گا، مثال کے طور پر ”عبدل“ کو دیکھا جا سکتا ہے، اس افسانچہ کو اختتام تک پہونچاتے وقت احمد رضا ہاشمی کے دماغ میں شاید ندا فاضلی کا یہ شعر گردش کر رہا تھا، جو اختتامیہ میں سما گیا، ندا فاضلی کے اس شعر سے میں اتفاق نہیں کر سکا، لکھتے ہیں:
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
 کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
یہ میرا اپنا احساس ہے، اس موقع سے میں اساطین ادب کے ان خیالات کو بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو اس کتاب کی مشمولات کا حصہ ہیں، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ناول نگار ڈاکٹر عبد الصمد لکھتے ہیں:
” جب ایک ساتھ میرے سامنے ان کے کئی مختصر افسانے آئے تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں ان کے افسانوں کو افسانچہ کے زمرے میں نہیں رکھ سکتا، ان کے افسانے مختصر ضرور ہیں، بلکہ بعض مختصر ترین ہیں، پھر بھی افسانے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں اور افسانہ نگار ان کے ذریعہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کی ترسیل کامیابی کے ساتھ ہوجاتی ہے“۔
یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے تعاون سے چھپی ہے، ایک سو ساٹھ صفحات کی قیمت دو سو روپے رکھی گئی ہے، سستی کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے، نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز کے تحت یہ قیمت زیادہ بھی رکھی جا سکتی تھی، ملنے کا پتہ ایک ہی القلم پبلک اسکول لوہروا گھاٹ عالم گنج پٹنہ 7ہے، انتساب والدین کے نام احمد رضا ہاشمی کی سعادت مندی اور قدردانی کی دلیل ہے، انتساب میں دعائیہ جملے آخرت کے اعتبار سے بھی مفید ہیں، اصل کتاب شروع کرنے سے قبل مصنف کا ابتدائیہ” میرے قلم سے“ ،”چھپی ہوئی چنگاری “ڈاکٹر عبد الصمد ،” دیباچے سے“ ڈاکٹر ریحان غنی، ”دریچہ زندگی کا“ جناب سر فراز عالم اور” من کا دریچہ“ جناب انظار احمد صادق کی تحریریں ان افسانچوں کو سمجھنے اور کتاب کی قدر وقیمت کو واشگاف کرنے میں معاون ہیں، یہ تحریریں نہ بھی ہوتیں تو مشک آنست کہ خود بیوید نہ کی عطار گوید کے مثل اس کتاب کی کہانیاں قاری کے دل ودماغ کو ان مسائل کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتیں، ان حضرات کی تحسین وتعریف کے کلمات نے اس کتاب کی قدر وقیمت میں اضافہ کیا ہے۔

جمعہ, دسمبر 30, 2022

احمد علی برقی اعظمی ____

احمد علی برقی اعظمی ____
اردودنیانیوز٧٢
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردو اور فارسی کے مشہورفی البدیہ شاعر، آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی شعبہ فارسی کے سابق سر براہ، غالب اکیڈمی کی گورننگ کونسل کے رکن ڈاکٹر احمد علی برقی کا حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ان کی سسرال جون پور یوپی میں انتقال ہو گیا ، وہ چند روز قبل ہی اعظم گڈھ سے جونپور گیے تھے، سوموار 4 دسمبر 2022ء صبح ا نہیں گھبراہٹ محسوس ہوئی، اسپتال میں بھرتی کرایا گیا، لیکن 5 بجے صبح 5 دسمبر کو جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا، جنازہ ان کے وطن کوٹ اعظم گڈھ لے جایا گیا اور اسی دن بعد نماز عشاءمقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔پس ماندگان میں اہلیہ شہناز بانو ایک لڑکا فراز عالم اور تین بیٹیاں رخشندہ پروین، نازیہ اور سعدیہ پروین کو چھوڑا۔
 احمد علی برقی اعظمی کی زندگی کا سفر 25 دسمبر1954 ءکو ان کے والد مشہور شاعر رحمت علی برق اعظمی کے گھر واقع محلہ باز بہادراعظم گڈھ سے شروع ہوا، درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پٹیلو محلہ آصف گنج شہر اعظم گڈھ سے حاصل کی، 1969ءمیں شبلی ہائر سکنڈری اسکول سے دسویں پاس کرنے کے بعد شبلی نیشنل کالج اعظم گڈھ سے 1971ءمیں انٹر ، 1973ءمیں بی اے اور 1975ءمیں ایم اے اردو نیز 1976ءمیں یہیں سے بی ایڈ کیا، 1979ءمیں جواہر لال نہرو یونیورسیٹی سے ایم اے فارسی اور 1996ءمیں وہیں سے پی ایچ ڈی کیا، ایران کلچر ہاؤس سے ملازمت شروع، جلد ہی وہ 1984ءمیں آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہوگے اور اپنی زبان دانی ، علمی رکھ رکھاؤ اور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے شعبہ کی سر براہی کے منصب تک پہونچے، 31دسمبر 2014ءکو ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی آکاش وانی والے جز وقتی طور پر آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ، ان کی شاعری کے دو مجموعے روح سخن اور محشر خیال علی الترتیب 2013ء اور 2019ءمیں اشاعت پذیر ہوئے۔
 اردو میں موضوعاتی شاعری اسلامی تناظر میں ابو الاثرحفیظ جالندھری نے شروع کیا تھا، جس کا مجموعہ شاہنامہ اسلام کے نام سے جانا جاتا ہے ، ہمارے عہد میں ڈاکٹر عبد المنان طرزی دربھنگہ اس فن کے امام ہیں، دوسرا بڑا نام احمد علی برقی اعظمی کا تھا جو ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیے،ا نہوں نے غالبا آخری نظم پروفیسر معراج الحق برق کے انتقال پر2دسمبر 2022ءکو کہی تھی ، جو ان کی علالت کی وجہ سے اخبارات کی زینت نہیں بن سکی، ان کی خدمات کے اعتراف میں دہلی اردو اکادمی نے انہیں اعزاز دیا ، اردو گلڈ جموں کشمیر نے 2014ءمیں فخر اردو ایوارڈ اور اکرم میموریل پبلک سوسائٹی نجیب آباد بجنور نے محمد علی جوہر ایوارڈ سے بھی نوازا تھا، ڈاکٹر احمد علی برق کی شخصیت پرت در پرت تھی وہ ایک بار میں کسی پر خود کو منکشف نہیں کر تے تھے آپ جتنے دن ان کے ساتھ رہتے ہر دن ان کی ایک نئی خصوصیت کا افشا آپ پر ہوتا ، وہ اردو فارسی کے ساتھ انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے؛ لیکن مزاج میں تعلی اور علم وفن کا پندار وغرور نہیں تھا، اس لیے جھیلانے والوں کو بھی برت لیتے تھے، تعصب وتنگ نظری سے کوسوں دور تھے، معاندانہ جذبات ان کو چھو کر نہیں گذر تے تھے اور چھل کپٹ ان کو آتی نہیں تھی، وہ احباب ورفقاءکے سخت جملوں اور طنز وتعریض سے بھری گفتگو کو بھی اچھا رخ دینا جانتے تھے، اس لیے ان کو کسی سے نہ کوئی گلہ تھا اور نہ شکوہ ، برقی اعظمی نے بہت لکھا اور بہت سارے موضوعات مثلاً سائنس ، طب، حالات حاضرہ ، آفات ارضی وسماوی، گلوبل وارمنگ ، سونامی اور زلزلے وغیرہ پرشاعری کی ، بڑی بات یہ ہے کہ ان کی زود نویسی نے ان کے فن کو نقصان نہیں پہونچایا، ان کی شاعری پر شمیم ریاض نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ڈاکٹر برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، جدت اور ہمہ گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے، برق رفتاری سے شاعری کے باوجود ان کا شعر فنی سقم سے بالکل منزہ ہوتا ہے، ان کے تخیل کی پرواز نے ان کی شاعری کو آفاقی بنا دیا ہے“۔( مطبوعہ انقلاب ۱۱ دسمبر 2022ء)
 گذشتہ چند دہائیوں مین انٹر نیٹ ہر کس وناکس اور ہر مہہ وکہہ تک پہونچ گئی،اس سے اطلاعاتی انقلاب آیا، برقی اعظمی نے انٹرنیٹ کے ذریعہ پروگرام کی رپورٹنگ اور اپنی شاعری وتحریروں کو جس تیزی کے ساتھ لوگوں تک پہونچانے کا کام کیا وہ اپنی نظیر آپ ہے، ان کے پوسٹ کی تفصیلات بھی شاعری میں ہی ہوا کرتی تھی، لوگ اس سے کافی محظوظ ہوا کرتے تھے۔
موضوعاتی شاعری کے بعد انہوں نے اردو غزل کی طرف اپنی توجہات مرکوز کیں اور غزل مسلسل کو عروج بخشا، انہوںنے شعراءوادباءکی کتابوں پر فی البدیہہ تبصرہ لکھا اور جب کسی کے مرنے کی خبر آئی ، ان کا ذہن مرثیہ گوئی اور خراج عقیدت میں لگ گیا، وہ بر جستہ اور فی البدیہہ شاعری میں مہارت رکھتے تھے، اور اس حوالہ سے ان کا نام اور کام انتہائی ممتاز ہے۔
ایسے با کمال انسان کا رخصت ہوجانا ایک بڑا نقصان ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل ۔ آمین۔

آج تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے بارا پنچایت کے پپرا گاؤں میں جوہوسکا

آج تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے بارا پنچایت کے پپرا گاؤں میں جوہوسکا
اردو دنیانیوز ٧٢
کچھ چیزیں شیئر کرنے سے بیداری آتی ہے 
             افسوسناک وقت میں ایک چھوٹی سے پہل 
آج تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے بارا پنچایت کے پپرا گاؤں میں جوہوسکا تقسیم کیا لیکن جانے کے بعد پتہ چلا کہ واقعی دو گھر والوں کا کچھ بھی نہیں بچا ہے کھانے کے سامان کے ساتھ ساتھ پہننے اوڑھنے کے سامان تک جل گئے اللہ ایسے مراحل سے ہم سب کی حفاظت فرمائے جہاں تک ہوسکے تعاؤن ضرور کریں ایسے لوگ لینے اور مانگنے کے لائق نہیں ہیں لیکن وقت مجبور کردیتی ہے آپ دیکھ کر خود محسوس کریں گے 
خیر یہی کہونگا اس طرح لوگوں کی مدد کرنے سے دل بہت ہی شاد ہوجاتا ہے اور سکون سا محسوس ہوتا ہے اللہ ہم تمام امت مسلمہ کو کار خیر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمیں یارب العالمین 
                  راقم الحروف فیاض احمد راھی

بدھ, دسمبر 28, 2022

طرز اظہار(تبصراتی مضامین) : مختصر جائزہقلمکار : ڈاکٹر صالحہ صدیقی

طرز اظہار(تبصراتی مضامین) : مختصر جائزہ
اردو دنیانیوز ٧٢
قلمکار : ڈاکٹر صالحہ صدیقی


انسانی تخلیقات پر جب ہم غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ قدرت نے انسانوں کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کی  ہیں ۔اور جو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، دنیا میں وہ بہت ہی عظیم المرتبت سمجھے جاتے ہیں، خصوصاً وہ ذمہ داریاں جن سے انسان کو تمام خلق خدا پر شرف بخشا گیا ۔یعنی علم وادب کے خدمات انجام دیتے ہیں،ان کا نام تاریخ کے سنہرے ابواب پر لکھے جاتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ زندہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، 
ڈاکٹر منصور خوشتر کا شمار اردو زبان وادب کے مشہور ومعروف شاعر وادیب میں ہوتا ہے ۔اردو زبان وادب کی آبیاری، اردو زبان وادب کی تشہیر ،اور اردو زبان وادب پر آپ کے خدمات یقیناً ناقابل بیان ہیں ۔آپ کے جنون لائق تحسین وتقلید ہے، آپ نے اردو زبان وادب کی خدمات آپ نے زندگی کا اہم مقصد بنا لیا ہے، جو آنے والی نئی نسلوں کے لئے یقیناً خوش آئند ہے ۔آپ کے جو احساسات وجذبات  ادب کے تئیں ہیں اس نے کئ نئے پرانے، نو آموز قلمکاروں کے حوصلے کو بلندی بخشی، ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیدا کردیا ہے ۔
اس وقت میرے سامنے آپ کی مرتب کردہ تبصراتی مضامین کا مجموعہ " طرز اظہار'' ۔ ہے، آپ کا احسان ہے کہ آپ نے یہ قیمتی تصنیف مجھے  ارسال کیا، اس پر میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔
اس کتاب کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے کس جاں فشانی، عرق ریزی، اور جہد مسلسل کے ساتھ ادبی خدمات میں لگے ہوئے ہیں، یقیناً آپ کی یہ تحریک ایک انقلاب برپا کرے گی، اور ارد زبان وادب کو ایک نیا رخ دے گی ۔

384 صفحات کی اس کتاب میں کل 99 تبصراتی، تحقیقی، مضامین ہیں،جو اردو ادب کے مختلف موضوعات اور علمی وادبی، وتاریخی اصناف پر لکھی گئی کتابوں کا تعارف ہے ۔جس کا انتساب مشہور ومعروف قلمکار خورشید حیات کے نام پر ہے ۔ فہرست مضامین میں آپ نے بہت ہی خوبصورت ترتیب قائم کی ہے، آپ نے پرانے ممتاز قلمکاروں کے ساتھ ساتھ نئے قلمکاروں کے مضامین کو بھی شامل کر کے ان سب کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی ہے،جو ایک خوش آئند ہے ۔بظاہر تو یہ ایک مرتب کردہ کتابی شکل ہے، لیکن اگر ہم اس کی باریکی گہرائی وگیرائ میں جائیں، اور بصیرت وبصارت کے عینک لگا کر دیکھیں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ایک کتاب نہیں بلکہ سینکڑوں کتابوں کا مجموعہ ہے ۔اس تصنیف کے ذریعہ ہم سینکڑوں کتابوں کے مضامین ومفاہیم کا احاطہ کر سکتے ہیں ۔خصوصاً ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر مشتاق احمد، انوار الحسن وسطوی، ڈاکٹر جاوید اختر، عبد المنان طرزی، مشرف عالم ذوقی، کامران غنی صبا ،ڈاکٹر احسان عالم، وغیرہ جیسے اردو ادب کے مایہ ناز ہستیوں اور قلمکاروں کے مضامین شامل کرکے اس کتاب کو مزید خوبصورتی بخشی،اور مستند کا درجہ حاصل ہوا ۔
میں پھر سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ آپ نے اس ناچیز کے مضمون کو بھی شامل کر کے حوصلہ افزائی کی ہے ۔
یقیناً یہ کتاب اردو زبان وادب کے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے ،ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے منصور خوشتر کو مبارکبادی پیش کرتی ہیں،اور آپ کی جتنی بھی تصانیف مجھ تک پہنچی ہیں میں ان تمام تصانیف کو بطور ہدیہ ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری پھلواری شریف پٹنہ کو پیش کرتی ہوں، تاکہ ہر خاص وعام ان تصانیف سے استفادہ کرسکیں ، اور ان کی اس محنت وکاوش پر ہدیہ تبریک پیش کرتی ہوں.

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات اور ہمارا رد عمل مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات اور ہمارا رد عمل 
اردو دنیانیوز ٧٢
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری وبرانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ 
موبائل نمبر: 7909098319 

اسلام ایک دین فطرت ہے۔ جس نے ہر قدم پر انسانوں کی راہنمائی فرمائ ہے، زندگی کے کسی بھی پہلو کو باغوردیکھیں گے تو ہمیں کہیں بھی بے یار و مددگار اور مایوس نہیں کیا ہے ، مہد سے لے کر لحد تک انسانی راہنمائی کی ہے، امن و سلامتی کےاور صلح و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں۔
اس روئے زمین پر انسانی ہدایت کے لیے  اللہ  تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، آخر میں صدرکے طور پر سیدناےحضرت  محمد ﷺ کو بحیثیت آخری نبی بنا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ،آپ کی ذات مقدس وہ کامل  ترین ہستی ہے جن کی زندگی  اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل  رہنمائی کا بھر پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ  کی شخصیت قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیےبہترین اور کامل نمونہ ہے۔آپ کو اللہ رب العزت نے سراپا رحمت وبرکت اور ہدایت بنا کر اس دنیا میں انسانوں کی فلاح وکامیابی کے لئے بھیجا، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانوں کے لئے ایسا پیغام ہے جو انسانوں کو مکمل کامیابی کی ضمانت بخشتا ہے ۔آپ نے زبانی اور عملی مشق کے ساتھ زندگی گزار کر دکھا دیا کہ ہم زندگی کس طرح گزاریں، کون سی زندگی رب چاہی زندگی ہے، زندگی کے کسی گوشے اور پہلو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ علیہ السلام نے ہماری رہنمائی کی ہے، خواہ عبادات ہو کہ معاملات ہو، سماجی ومعاشرتی، اقتصادی، اخلاقی،پہلو ہو، سفر ہو کہ حضر ہو، تنہائی ہو کہ محفل ہو، خلوت ہو کہ جلوت ہو، رات ہو کہ دن ہو، صبح ہو کہ شام ہو۔
اور رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل دنیا کی حالت ِ زار ناقابل بیان ہے۔تاریخ اس دور کو دور جاہلیت کہتی ہے ، کیوں کہ وہ معرفت الہی اور ہدایت سے بہت دور گمراہی وضلالت میں گھرے تھے ۔ عرب کی حالت ایام جاہلیت کا بیان مولانا الطاف حسین کے الفاظ میں کچھ یوں ہے :۔

عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا

تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا

نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی

زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں

نہ کھتّوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی

نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا

کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بسُو جا بجا تھا

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی

وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا

وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا

قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا

وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
ہونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں

 توحید کی جگہ شرک، خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ، اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم وزیادتی نے لے لی تھی۔ معاشرے میں کون سی ایسی خرابیاں نہ تھیں جو ان میں نہ ہوں ۔ جن عورتوں کو اسلام نے عزت واحترام بخشتے ہوئے ان کے اعزاز میں مکمل سورہ،، سورہ نساء،، نازل فرمائی ان کی کوئی اہمیت نہ تھی، ان کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا،ذلت و رسوائی کا سبب مانا جاتا ، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی  جنگ وجدال شروع ہوتے تو وہ سالہا سال چلتے رہتے ۔شراب نوشی، قمار بازی، اور اصنام پرستی ان کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ایک رب کو چھوڑ کر سینکڑوں بتوں کی پرستش کرتے تھے، انسانیت سسک سسک کر ، بلک بلک کر، اور چیخ چیخ کر دم توڑ رہی تھی، انہیں ایک مسیحا کا انتظار تھا، جو ان کی دکھتی رگوں پر دست شفا رکھ کر راحت و آرام کا سامان بن سکے، جو ان کے غموں کو اپنے اندر سمیٹ کر ان کے لئے خوشی وشادمانی کا پیغام سناسکے، انہیں ان جاہلانہ رسومات و بدعات ، خود ساختہ مذہبی خرافات ، سماجی ومعاشرتی تنزلی اور گراوٹ ، فتنہ و فساد، تخریب کاری، سے آزادی دلا کر راہ راست پر لاسکے، ظلم وبربریت کی گھٹا ٹوپ اندھیر میں  ہدایت کی شمع جلائے ، اللہ کی رحمت انعام واکرام،عذاب وعتاب سے آشنا کرا سکے ، چنانچہ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔جس کی آمد نے سارے جہاں میں حق کا پیغام سنایا،جس کا وجود سراپا سارے جہاں کے لئے رحمت ہے، جس کی آمد کی خبر سابقہ انبیاء کرام نے دی، 
جس کی آمد سراپا عشق ومحبت اور پیار پر منحصر ہے، جس کا کام عشق ،جس کا پیغام عشق، جس نے صرف درس عشق دیا، عشق بھی وہ عشق جسے ہم عشق حقیقی کہتے ہیں،جو عشق سارے جہاں میں کامیاب وکامران بنائے، کیوں  عشق یہ انسانی فطرت اور تقاضے ہیں،انسان کے رگ وریشے میں قدرت نے اسے رکھا ہے ۔یہ فطری تقاضے کبھی انسانوں کو کامیاب وکامران بنا دیتی ہے اور کبھی ذلت ورسوائ کا سبب بنتی ہے ۔ایک انسان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ مالک حقیقی سے عشق کرے اور عشق کے جو تقاضے ہیں ان تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے ۔اس کے مطابق اس کے ہر اشارہ پر عمل کے لیے آمادہ رہے، کیوں کہ عشق کا تعلق قلب سے ہوتا ہے اور یہ قلبی محبت اگر عروج پر پہنچ جائے تو بسا اوقات جان بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بندہ مومن سے اسلام کا مطالبہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عمومی محبت نہ کرے بلکہ  دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھے تاکہ احکامات خداوندی اور اتباع رسولؐ کا حق کلی طور پر ادا ہو سکے ۔
کیوں کہ کسی چیز کو ہم اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب کلی طور پر اس کی حقیقت وافادیت سے واقف ہوتے ہیں، اس کے نتائج کا علم ہوتا ہے ، اور جب ہم کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو پہلی شرط یہ ہے کہ اس تسلیم شدہ چیز کے تقاضے کو پوری کریں ۔ اسی طرح ایک مسلمان اللہ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کو پوری عقیدت و محبت کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے تو بحیثیت محب اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کی ادائیگی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو پیغامات لے کر آئے ہیں ان پیغامات کو تسلیم کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔چونکہ اسلام نام ہی ہے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کا اور یہ تقاضا تب ہی پورا ہو سکتا ہے جبکہ ہم سیرت کے پیغامات کو اپنائیں، 
اور عشق کے تقاضے یہ ہیں کہ ہم سیرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اہمیت وافادیت سمجھیں، اور یہ ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وپیغامات پر ہی عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی کامیابی اور سرخروئی کی ضمانت ہے ۔قرآنِ کریم کی پوری عبارت اور مفہوم در اصل سیرت کا ہی پیغام ہے ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ تمام انسانوں کے لئے عملی نمونہ ہے جسے قرآن ”اسوۂ حسنہ“ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن مجید مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کے احکامات کا مجموعہ ہے اور سیرتِ نبوی اس مجموعہ کی عملی تعبیر، تصویر، تحریر، اور تقریر ہے۔اسلامی عقائد، اعمال، اخلاق وکردار ، سماجی ومعاشرتی مسائل، انفرادی و اجتماعی مسائل،قومی وبین الاقوامی تعلقات، روابطِ عامہ، امن کے تقاضے، جنگی اصول وقوانین وغیرہ وغیرہ یہ سب سیرتِ طیّبہ کے موضوعات ہیں اور سیرتِ طیبہ میں ان تمام موضوعات کا حل موجود ہے۔ اسی وسعت اور ہمہ جہت پہلوؤں کی وجہ سے سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان اپنے سامنے انسانیتِ کاملہ کی ایسی اعلیٰ مثال دیکھتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں کامل و مکمل نظرآتی ہے، زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سامنے آتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس حیات کا اعجاز ہے کہ انسانی زندگی کے جس بھی پہلو کو سامنے رکھ کر سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی میں نظر آتا ہے۔
رسول اللہ کی زندگی کو نمونہ بنا کر اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش وہی شخص کرے گا جس کو بعث بعدالموت کا یقین کے ساتھ ساتھ احساس بھی اور اعمال کے واجبی نتائج کا یقین کامل ہو۔ رہا وہ فرد جسے یا توآخرت کی امید ہی نہ ہو یا اگر ہو تو کبھی کبھار ہی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا ہو اور زندگی کی ہماہمی و مصروفیات نے اسے موت کے بعد پیش آنے والے نتائج سے غافل کر رکھا ہو تو ایسا شخص بجائے اللہ کے رسول ؐ کو رہنما بنانے کے، اپنی مطلوب من پسند شخصیت کو رہنما بنائے گا تاکہ اس کے لیے دنیاوی ترقی ممکن ہو سکے۔اور یہ ہم اس دور میں میں بدرجہ اولی دیکھ رہے ہیں، ہم اور ہمارا معاشرہ ہر جہت سے اللہ کی ناراضگی اور رسول اللہ صلعم کی تعلیمات کا جنازہ نکال رہا ہے، ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنے سر صرف اللہ کی لعنت مول لے رہے ہیں، ہماری عبادات کا تو اللہ ہی محافظ ہے، معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، دکاندار تجارت میں جھوٹ بول کر چیزیں فروخت کر رہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، لیا ہوا قرض لی ہوئی وامانت لوٹانے کا نام نہیں لے رہے ہیں، بیٹیوں اور پھوپھیوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، نکاح وشادیات جو کہ محض ایک عبادت وبندگی کا نام ہے اس موقع پر ہم چار قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، ناچ گانا، آتش بازیاں، مرد وعورت کے اختلاط، جانوروں کی طرح گھوم گھوم کر کھانے لینا پھر اسے کھڑے ہوکر کھانا، اس دوران اگر کھانا اٹک گیا تو دوڑ کر پانی تلاش کرنا ان تہذیب وثقافت میں خود کو رنگ لیا ہے۔
مسلمانوں کے اکثریت علاقے میں کسی بھی گھر کی بنیاد بغیر جھگڑے کے نہیں پڑتی ہے، جان بوجھ کر دوسرے کی زمین کے حد میں پیلر ڈالنا، ناحق قبضہ جما لینا، اگر کسی سے کوئی رنجش یا اختلاف ہو جائے تو اس کے راز فاش کردینا،کسی کمزور پر ظلم کرنا، کسی کو ناحق ستانا، کسی کی کامیابی پر جلنا، پڑوسیوں کو تکلیف دینا، فقراء ومساکین، یتیموں اور نوکروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنا، اللہ رب العزت نے سورہ ماعون میں کفار ومنافقین کے چند علامات کا تذکرہ کیا ہے اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس سورہ کے پس منظر میں خود کے کردار عمل کو دیکھ سکتے ہیں،انہیں وجوہات کی بنا پر اللہ کا عذاب وعتاب نازل ہورہا ہے چونکہ اللہ رب العزت نے واضح فرما دیا

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى‏ ۞

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں (تو دنیا میں دیکھنے والا تھا اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس دنیا میں میری نشانیاں آئیں تھیں تو تو نے ان کو فراموش کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی فراموش کردیا جائے گا اور جو شخص اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور حد سے تجاوز کرے ہم اسی طرح اس کو سزا دیتے ہیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور بہت باقی رہنے والا ہے (طہ :124-127)


ہم اس آیت کریمہ پر غور وفکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یقیناً ہم اللہ کے احکامات کو پامال کر رہے ہیں جس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے، اللہ کے احکامات کو توڑنا یہ دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے،حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام کر اپنے اندر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام پہلوؤں کو بسا کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں، یہی تقاضا رب اپنے بندے سے کرتے ہیں، اسی سے زندگی کامیاب ہو سکتی ہے چونکہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے   ولَا  تَهِنُوْا  وَ  لَا  تَحْزَنُوْا  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
ترجمہ
مت گھبراؤ غمزدہ نہ ہو تم ہی سربلند رہوگےاگرتم مومن ہو،

اور اللہ کا وعدہ برحق ہے، سچا ہے،
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زندگی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنائیں تاکہ ہماری زندگی مکمل کامیاب ہو سکے۔
اللہ ہم سب ایمان و یقین کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین،

زہریلی شراب سے اموات __

زہریلی شراب سے اموات __
اردو دنیانیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 اسمبلی سے پارلیامنٹ تک ان دنوں چھپرہ اور سیوان کے مشرَق عیسوا پور، مرہوڑہ اور امنور تھانہ کے متعدد گاؤں میں زہریلی شراب سے اموات کا تذکرہ ہے، گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں، الزام تراشی اور دفاع میں تقریروں کا بول بالا ہے ، حزب اختلاف اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنا چاہتا ہے ، اس نے اسمبلی سے گورنر ہاؤس تک نتیش کمار کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے ، اسمبلی میں جو تکرار ہو رہی ہے وہ کسی سبزی منڈی اور مچھلی ہاٹ کا منظر پیش کر رہا ہے ، منتخب نمائندے کرسی اٹھا رہے ہیں، خود وزیر اعلیٰ بھی اپنا آپا کھو رہے ہیں، دوسری بار لوگوں نے انہیں ودھان سبھا میں گرجتے اور غصہ میں ابلتے دیکھا ہے ، اس گرمی اور غصہ نے آگ میں گھی کا کام کیا اور بحث میں مزید تلخیاں پیدا ہوئیں۔
 انفعالیت ، جذباتیت ، اپنی جگہ؛ لیکن موقف وزیر اعلیٰ کا درست ہے، انہوں نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ جن لوگوں نے شراب بندی قانون کی مخالفت کی اور زہریلی شراب پیااور مرے، ان سے کوئی ہمدردی نہیں اور معاوضہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس اعلان میں معقولیت ہے کیوں کہ شراب نوشی بہار میں غیر قانونی ہے اور جرم کے درجہ میں آتا ہے ، اس کو تمام پارٹیوں کی حمایت سے نافذ کیا گیا تھا، بی جے پی نے بھی اس کی حمایت کی تھی اور اسی کے کہنے پر شراب بندی قانون کے بعض دفعات میں نرمی پیدا کی گئی تھی ، اس لیے بی جے پی کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ مہلوکین کے ورثاءکو معاوضہ دیا جائے، قانون شکنی پر سزا ملے گی یا معاوضہ دیا جائے گا، قانون شکنی کی سزا میں وہ موت کی نیند خود ہی سو گیے،ا س لیے دوسری سزا کا کوئی جواز نہیں ہے ، یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کی موت سے ان کا خاندان بے سہارا ہو گیا اور ان کو پوری زندگی بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ کسی قانون میں ا ن بے سہاروں کو سہارا دینے کی شکل نہیں ہے ، ورنہ عدالت جنہیں پھانسی پر قانون کے تقاضوں سے چڑھا دیتی ہے ، کوئی حکومت ان کے بچوں کی پریشانی کا معاوضہ نہیں دیتی ، فطری موت مرنے والوں کے بچے بھی یتیم ہوتے ہیں، لیکن ان کی فکر بھی کون کرتا ہے، اسی طرح شراب پی کر مرنے والوں کا بھی معاملہ ہے ، وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر اپنا موقف صاف کر دیا ہے کہ شراب پیوگے تو مروگے۔
 اس حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن شراب کی فروخت اور دوسرے صوبوں سے بہار منتقلی بھی جرم ہے ، ان مجرمین کو سزا کب ملے گی اور کون دے گا، جانچ کا موضوع یہ بھی ہے کہ کس نے ان کو شراب پہونچانے میں مدد کی ، بے تحاشہ زہریلی شراب بیچی گئی اور پولیس کو پتہ نہیں چلا، یا ان لوگوں نے پولیس سے تعلقات بنا رکھا تھا، چنانچہ شراب اپنی جگہ پہونچی ، اور اس کی خرید وفروخت میں مجرمین نے اس تعلقات کا فائدہ اٹھایا ایسے میں ضرورت ان تمام کو سزا دلانے کی ہے؛ تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے ، ورنہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور دلیر ہوجائیں گے اور اس قانون کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا، وزیر اعلیٰ نے صحیح کہا ہے کہ اگر معاوضہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس قانون کو ختم ہی کر دینا ہوگا۔ ریاستی حکومت نے یہ اچھا کیا کہ اکتیس(31) افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی جانچ کمیٹی بنانا ہے ، مشرَق تھانہ انچارج رتیش مشرا اور چوکیدار وکیش تیواری کو معطل کر دیا گیا ہے۔ حکومت کو شراب مافیا کے خلاف سخت قدم اٹھانی چاہیے، ہو سکتا ہے حزب مخالف اس پر بھی ہنگامہ کرے، لیکن عوام سمجھتی ہے کہ حزب مخالف کا کام صرف مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے ۔
 اسلام میں شراب ام الخبائث ہے، اور اس کا نقصان بہت زیادہ ہے، اس لیے اس کا بنانا ، بنوانا، اس کا پینا ، خرید وفروخت کرنا ، نقل حمل کرنا، اس کی قیمت کھانا سب حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پر لعنت ہے، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی شراب کے ساتھ دیگر منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، دین سے دوری نے ہمارے بچوں کو اس طرف راغب کر دیا ہے ، ہمیں خود بھی اس کے خلاف مہم چلانی چاہیے، جلسوں میں اسے تقریر کا موضوع بنانا چاہیے اور سماج کو اس لعنت سے پاک کرنے میں اپنی حصہ داری نبھانی چاہیے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...