Powered By Blogger

جمعہ, جنوری 13, 2023

ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
اردو دنیا نیوز٧٢ 
۔
معاشرے کی روایت و ثقافت اور انسانی اقدار و کردار کو بہترین اعلی اسلوب پیش کرنے کو ادب کہا جاتا ہے، تمام زبانوں کی طرح اردو ادب کی بساط پہ بھی طبع آزمائی کا سلسلہ سالہا سال پہ محیط ہے جو کہ آج بھی جاری و ساری ہے، ایسے میں ضروری نہیں کہ ادب صرف وہی تخلیق کرتے رہے ہیں جنھوں نے اپنے شب و روز کو کتابوں کی نذر کر دیا ہے، ادب کی اپنی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کی چاشنی نے ہر شعبے کے لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ہے، فکر معاش انھیں ادب سے غافل نہیں کر سکی، اس ضمن میں بےشمار شخصیات کے ساتھ قمر اعظم کا بھی نام لیا جا سکتا ہے جن کا اردو کے تئیں والہانہ رویہ قابل قدر ہے۔
قمر آعظم صاحب کا تعلق ہندوستان کی زرخیز سرزمین بہار سے ہے ان کی شخصیت کے کئی رخ ہیں جس میں وہ نشیب و فراز سے گذرے، زندگی کو اپنی شرط پہ جینے کی کوشش میں انھیں کئی طرح کے تلخ تجربات کا بھی سامنا کرنا پڑا  اس کے باوجود انھوں نے تیرگی کی چادر اوڑھ کر گمنامی میں کھونے کے بجائے زندگی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، بنیادی طور پہ وہ ایک تاجر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ادیب، شاعر و صحافی بھی ہیں ان کے فکر و علم کو متاثر کرنے والے یوں تو کئی شخصیات تھے لیکن ان میں ان کے والد، نانا، ماموں نے ایک اہم کردار ادا کیا ان کے سایہء عاطفت میں رہ کر ایک شاگرد کی طرح اپنی فنی صلاحیتوں کو مہمیز دی، آج ان کی تحریریں متعدد پلیٹ فارم پہ اپنے قاری پیدا کر چکی ہیں، لکھنے پڑھنے کے علاوہ دیگر ذرائع سے وہ اردو کی ترویج و ارتقاء کے لئے بھی ہمہ وقت کوشش کرتے رہتے ہیں اس کی ایک بہترین مثال ان کا فیسبک پیج 'ایس آر میڈیا' ہے جس کے ذریعے وہ نامور ادیبوں کی تحریروں کو ان کے قارئین تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں  خاص طور سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کر رہے ہیں ان کا یہ پلیٹ فارم  اردو ادبی دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔
اس وقت قمر اعظم صاحب میرے سامنے ہیں میرے پاس ہمیشہ کی طرح سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے یہ وہ سوالات ہیں جو ان کے حوالے سے اکثر قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اس لئے اب ہم مزید ان کے بارے میں انھیں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت کہاں مقیم ہیں؟

قمر اعظم:  احقر کا اصل نام قمر اعظم اور قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے ۔ تجارتی تعلق سے دکانداروں کے درمیان اعظم بھائ کے نام سے جانا جاتا ہوں ۔ میرے والد کا اسم گرامی شہاب الرحمن صدیقی ہے ۔ جنکی تعلیمی لیاقت ایم اے اردو ہے ۔ آپ گورنمنٹ ہائ اسکول میں اردو کے استاد‌ تھے ۔ اور ماضی قریب میں ہی سبکدوش ہوۓ ہیں ۔ میری والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں ۔ جن کا اسم گرامی شاکرہ خاتون ہے ۔ اور آپ محمد داؤد
 حسن مرحوم ، حسن پور وسطی، مہوا ،  ویشالی کی صاحبزادی ہیں ۔ میرا آبائ وطن ریاست بہار کے تاریخی ضلع ویشالی میں شہر حاجی پور سے 10 کیلومیٹر کی دوری  پر  بدوپور بلاک کے موضع بھیرو پور میں واقع ہے ۔ یہاں ہندو مسلم دونوں آپسی پیار و محبت کے ساتھ آباد ہیں ۔ جس طرح کشمیر سیب کے لیے جانا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح شہر حاجی پور بھی کیلے کے باغان کے لیے اپنی شناخت رکھتا ہے ۔ حاجی پور سے  مہنار جانے والی سڑک کے دونوں جانب کیلے کے باغان کے درمیان ہی یہ  بستی آباد ہے ۔ اور میں یہیں سکونت پذیر ہوں ۔ موضع میں ایک جامع مسجد اور دوسری قدیمی مسجد موجود ہے ۔ مسلم آبادی کی بات کی جائے تو یہ تقریباً 100 گھڑ  کی آبادی ہے  ۔ سبھی خوش حال ہیں ۔ ذریعہ معاش کےلیے زیادہ تر لوگ دوسرے شہر میں یا تو تجارت سے منسلک ہیں یا پھر ملازمت میں ہیں ۔ چند افراد کھیتی پر بھی منحصر ہیں ۔ چند لوگ گھر پر رہ کر ہی تجارت کو انجام دے رہے ہیں ۔ سرکاری ملازمت کی بات کی جائے تو میرے خانوادے سے ہی پانچ حضرات تھے جس میں دو اللہ کو پیارے ہو گۓ اور بقیہ تین ریٹائر ہو چکے ہیں ۔ اسکے علاوہ پورے موضع سے پانچ افراد سرکاری ملازمت  میں تھے جس میں ابھی دو ملازمت کر رہے ہیں ۔ 

علیزے نجف:  آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اس تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس سفر کو آپ نے کس طرح طئے کیا؟

قمر اعظم:  میں نے اردو سے" ایم اے " تک کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ میرے تعلیمی سفر کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہی ہوا ۔ الف ، با حرف تہجی کی شروعات والد صاحب نے ہی کرائ اور کلام پاک بھی والد صاحب کے زیر نگرانی مکمل ہوا ۔ پھر گاؤں کے ہی اردو مکتب میں داخلہ ہوا جہاں پر کچھ دن تعلیم حاصل کی پھر ایک کانونٹ میں داخلہ کرا دیا گیا ۔ پانچویں سے آٹھویں تک کی تعلیم موضع کے مڈل اسکول میں حاصل کی ۔ نویں اور دسویں کے تعلیم کے لیے موضع سے 3 کیلومیٹر کی دوری پر " جنتا اچ ودھیالیہ پانا پور دھرمپور " میں داخل ہو گیا وہیں سے میٹرک تک کی تعلیم مکمل ہوئ ۔ راج نارائن کالج حاجی پور سے آئ ۔ ایس ۔ سی بایولوجی کے ساتھ فرسٹ کلاس سے پاس ہوا ۔ لیکن آئ ایس سی کے درمیان میں ہی ایک واقعہ نے مجھے اس فیصلے پر مجبور کر دیا کہ اب مجھے نہیں پڑھنا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ میں سائینس کے سبھی سبجیکٹ کا ٹیوشن کلاس کرتا تھا ۔ روزانہ گھر سے 10 کیلو میٹر کی مسافرت سائیکل سے ہی کرتا اور شہر حاجی پور میں کلاس کرتا تھا ۔ انہیں دو سالوں کے درمیان ایک بار تمام ہائ اسکول کے اساتذہ ہڑتال پر چلے گۓ اور یہ ہڑتال نو 9 ماہ رہ گیا ۔ ذریعہ معاش والد صاحب کی سیلری کے علاوہ اور کچھ تو تھا نہیں ۔ اس لیے مزید تین چار ماہ بعد ٹیوشن والے ٹیچر کی جانب سے پیسے کی مانگ آنے لگی تو میں نے تمام ٹیچر کو اپنی پریشانی بتائ ۔ الحمداللہ تین ٹیچر تو غیر مسلم تھے وہ سب میری مجبوری سمجھ گۓ اور اس کے بعد انہوں نے دوبارہ فیس اس وقت تک نہیں مانگی جب تک کہ ہڑتال ختم نہیں ہوا ۔ لیکن ایک ٹیچر مسلم تھے میں ان کا نام تو نہیں لوں گا لیکن انہوں نے مجھے فیس کے لیے بہت پریشان کیا ۔ جب کہ وہ خود بھی ہڑتال  پر تھے اور میرے والد سے بخوبی واقف بھی تھے ۔ لیکن الحمداللہ انکے کوچنگ کا معاملہ ایسا تھا کہ وہ اسی سے موٹی رقم اکٹھا کر لیتے تھے ۔ میرے تمام واجب اعتراضات کے باوجود ایک دن وہ سخت ہو گۓ اور فیس نہ لانے کی صورت میں کلاس میں نہ آنے کی بات کہ دی وہ بھی کلاس روم میں ہی سبھوں کے سامنے ۔ یہ بات مجھے بہت بری لگی اور میرے دل و دماغ میں ایسی پیوست کر گئ کہ میں نے اسی دن مکمل ارادہ کر لیا کہ انٹر کی تعلیم کے بعد نہیں پڑھنا ہے ۔ بہر صورت تمام باتیں والد صاحب کو بتائیں انہوں نے کسی سے قرض لے کر ان کا فیس ادا کرنے کو مجھے دیا ۔ تب میں اگلے دن کلاس میں گیا ۔ لیکن میرے ذہن و فکر میں یہ بات رہتی تھی کہ سرکاری ملازمت میں بہت زیادہ کچھ نہیں عزت کے ساتھ دال روٹی سے کسی طرح گزر ہو جاتا ہے اس لیے کوئ تجارت کروں گا اور والد صاحب کا سہارا بنوں گا ۔ ایسا سوچ کر میں نے انٹر کے بعد کسی کی بھی ایک نہ سنی ۔ والد صاحب نے ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کہ دوسرے رشتہ داروں کا بھی سہارا لیا کہ کسی کی بھی بات مان لے اور تعلیم جاری رکھے ۔ لیکن میں بچپن سے ہی ضدی تھا اس لیے اپنے فیصلے پر اٹل رہا ۔ میرے اس فیصلے سے تمام لوگوں کو کافی ناراضگی بھی ہوئ ۔ پھر ایک سال آئ ٹی آئ میں وقت برباد کیا ۔ ایک سال بعد پھر والد صاحب ، تمام ماموں خصوصاً مجھلے ماموں ، نانا جان مرحوم کے بہت کاوشوں کے بعد این سی پی یو ایل کے ذریعہ چلایا جانے والا ایک سالہ کمپیوٹر ڈپلومہ جس کا مطالعہ مرکز امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں تھا اسے کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ میرے شامل مامو زاد بھائی مناظر حسن بھی اس کورس کو کر رہے تھے ۔ قیام وہیں پھلواری میں ہی تھا ۔ لیکن مجھے اس میں بھی دلچسپی نہیں تھی ۔ کورس مکمل کر لیا اسکے بعد ذریعہ معاش کے لیے کچھ دن ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتا رہا اور تمام رشتہ داروں کی کڑوی کڑوی باتیں بھی سنتا رہا ۔ ان سب کے درمیان جب کچھ رقم اپنے ہاتھ آئ تو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ذریعہ چلایا جانے والا فاصلاتی تعلیم ( بی اے ) میں داخلہ لیا جس کا مطالعہ مرکز  مظفر پور تھا ۔ شکیل چشتی صاحب اس کے کو آرڈینیٹر تھے ۔ وقت مقررہ پر آکر امتحان میں شامل ہوتا تھا ۔ اس طرح بی اے اور پھر ایم اے اردو تک کی تعلیم وہیں سے مکمل ہو گئ ۔ لیکن باضابطہ طور پر جس طریقے سے علم حاصل کرنا تھا وہ میں نہیں کر پایا ۔ جس کا ملال اب ہوتا ہے کہ کاش وقت پر والدین اور بڑوں کی بات مان لی ہوتی تو آج میں بھی کامیاب ہوتا ‌۔ لیکن شاید یہی میرا مقدر تھا ایسا سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوں ۔ 

علیزے نجف: ہر پتے کی پہچان درخت سے ہوتی ہے اسی طرح انسان کی پہچان میں اس کے خاندان کا ایک کردار ہوتا ہے میں چاہتی ہوں آپ اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیں آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے خاندان کی کن شخصیات نے کس طرح کا کردار ادا کیا؟

قمر اعظم: جی بالکل میری شخصیت سازی میں میرے والدین کا اہم رول ہے ۔ بچپن سے ہی والدین نے اچھے برے ، حلال و حرام ، جائز ناجائز ، خلوص و محبت ، چھوٹوں پر شفقت بڑوں کی عزت ، مہمانوں کا اکرام ، علماؤں کی قدر ، پڑوسیوں کے حقوق ، حق گوئی ، ایمانداری ، شکرگزاری ، صبر کی تلقین ، رشتہ داروں اور بھائ بہنوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا ، غرباء و مساکین کی مدد کرنا حتیٰ کہ تمام مثبت چیزیں سکھائیں جو انسان کے زندگی میں ہونی چاہیے۔ کئ ایسے مواقع میری زندگی میں آۓ جس پر بر وقت میری اصلاح کر دی گئ جس کے بعد دوبارہ میں نے اس کام کو نہیں کیا ۔ بچپن میں ایک دفعہ میں نے ایک پتھر اٹھا کر کتے کو مار ڈالا والد صاحب نے غالبًا دیکھ لیا کچھ دیر بعد اچانک میرے قریب آکر بغیر کچھ پوچھے میرے بالوں کو پکڑ کر زور سے کھینچا میری چیخ نکل گئی ۔ میں انہیں حیرت سے دیکھنے لگا اور پوچھا کہ میں نے کیا کیا ہے ؟ ۔ تب انہوں نے کہا کہ کتے نے کیا بگاڑا تھا کہ اسے پتھر مار ڈالا اسے بھی اسی طرح درد محسوس ہوا ہوگا ۔ میں سمجھتا ہوں اگر وہ مجھے بغیر درد محسوس کراۓ منع کرتے تو ممکن ہے اس بے زبان کے درد کا احساس نہیں ہوتا ۔ بچپن میں کسی دوسرے بچوں کے ساتھ کوئ لڑائ جھگڑا ہو جاۓ تو مجال ہے کہ والدہ یہ کہیں کہ اُس کی غلطی ہوگی ہمیشہ اپنے بچوں کو ہی بولتیں اور کہتیں کہ تمہاری ہی غلطی رہی ہوگی ۔ کبھی دوسرے بچوں سے پوچھا تک نہیں کہ کیوں ہوا ،  تم نے کیوں مارا ۔ انہوں نے اس طرح ہمیشہ عفو و در گزر کرنا سکھایا ‌۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات نے تربیت عطا کیے ۔

 والدین کے علاوہ دادا دادی ، نانا نانی، چچا، ماموں اور استاد کا بھی میری شخصیت سازی میں حصہ رہا ہے ۔ لیکن والدین کے بعد ان تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اہم کردار میرے نانا جان کا ہے ۔ میرے نانا جان ایک تعلیم یافتہ ، شریف النفس ، ایماندار ، با اخلاق ، مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھے ۔ مہوا رجسٹری آفس میں آپ وثیقہ نویسی کے پیشے سے منسلک تھے ۔ پوری زندگی آپ نے اپنے پیشے میں رہ کر رزق حلال کو اپنایا ۔ حرام لقمہ کو کبھی اپنے نزدیک پھٹکنے نہیں دیا ۔ طالب علمی کے زمانے میں میں تعطیل کے زیادہ تر اوقات اپنے نانیہال حسن پور وسطی ، مہوا میں گزارتا تھا اور اپنے نانا جان کے پاس بیٹھ کر ان سے بہت ساری علمی ، مذہبی اور اخلاقی باتیں سنتا اور ان سے رہنمائ حاصل کرتا ۔ آپ چونکہ ادب نواز شخصیت کے مالک تھے اس لیے آپ سے بہت کچھ ادب بھی سیکھنے کا موقع ملا ۔ اسی طرح بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی صاحب کے ہمراہ بچپن سے ہی ادبی محفلوں میں شرکت کرتا تھا جس سے مجھے ادبی ذوق پیدا ہونے لگا اور یہی وجہ ہے کہ میں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا جس کے نتیجے میں گاہے گاہے کچھ لکھنے پڑھنے لگا ۔ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے باعث ہی میرا ادبی سفر جاری و ساری ہے ۔

علیزے نجف:  آپ فارمل تعلیم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور انفارمل تعلیم کو کس قدر ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کا اہتمام کرتے وقت کن بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

قمر اعظم:  ابتدائی تعلیم کی بات کی جائے تو انٹر تک یا اگر مدرسے کے بچوں کی بات کی جائے تو فوقانیہ تک کی تعلیم کو فارمل تعلیم ہی ہے ۔ اس کے اوپر کی تعلیم کے لیے بچوں کے ذہن اور ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوۓ ان کے گارجین کو یہ طۓ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا کیرئیر کس جانب لے جانا پسند کر رہے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ فارفل تعلیم کے مقابلے انفارمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچوں کے لیے غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کے زیادہ امکانات رہتے ہیں خواہ وہ ٹیکنکل ہوں یا پروفیشنل دونوں جانب راستے ہموار ہیں ۔ بڑی بڑی پرائیویٹ کمپنیاں تو کالج سے ہی پلیسمینٹ کر لیتی ہیں اور ان کے بہتر پرفارم کو دیکھ کر ان کے سیلری  میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن اسکا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ فارمل تعلیم کے بعد میں بچوں کا کیرئیر ڈارک ہے ۔ آج بھی بہت سارے طالب علم فارمل تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور پھر حکومت کے مختلف محکموں میں جاب حاصل کر رہے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت کی لا پرواہی اور بڑھتی آبادی کی وجہ کر تمام طلبا کو وقت پر صحیح ملازمت نہیں مل پاتی ہے۔ بہر صورت مسلم بچوں کو خواہ وہ فارمل تعلیم حاصل کریں یا ان فارمل ساتھ میں دینی تعلیم تو حاصل کرنی ہی چاہیے تاکہ ان کے اندر حلال حرام ، جائز ناجائز ، اچھے برے ، پاکی ناپاکی ،شرعی غیر شرعی ، چھوٹے بڑوں کی تمیز آجاۓ ۔ ان ہی سب باتوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے ۔ 

علیزے نجف:  آپ کا پروفیشن کیا ہے اس پروفیشن کے ساتھ آپ ادبی سرگرمیوں کے لئے کیسے وقت نکالتے ہیں کیا آپ کے اندر کبھی یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش میرا پروفیشن علم و ادب سے وابستہ ہوتا تو میں اس سے بہتر طریقے سے ادب کی خدمت کر پاتا ؟

قمر اعظم:  میرا ذریعہ معاش تجارت ہے ۔ میں ایک چھوٹے سے تجارت سے منسلک ہوں ۔ باتھ فٹنگ ( پلمبر ) کے چھوٹے سامان کی سپلائی کرتا ہوں ۔ اس کے لیے میری اپنی کوئ دکان دستیاب نہیں ہے ۔ ایک روم میں سامان مہیا رہتا ہے ۔ دکانداروں کے درمیان میں اپنے سامان کا نمونہ دکھا کر آرڈر لیتا ہوں اور پھر ان سامانوں کو وہاں تک پہنچاتا ہوں ۔ یہ تمام کام مجھے خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ یہی چھوٹا سا ذریعہ معاش ہے ۔ جب سے میں نے " ایس آر " میڈیا پیج بنایا مصروفیت بڑھ گئ کیوں کہ چھوٹے بڑے ، ادیب ،  شاعر ، صحافی ، دوست احباب ، علماء ، سماجی رہنماؤں اور تنظیموں سے جڑے لوگ ، نۓ قلمکاروں کی تحریریں اور نیوز سب آتی رہتی ہیں ۔ ان سب کو دیکھنا پڑھنا پھر اسے شائع کرنا آۓ ہوے کال کو رسیوں کرنا ۔ ان سے اطمینان بخش باتیں کرنا بہت مشکل امر ہے لیکن محبت اردو اور مخلصین کی محبتوں اور دعاؤں کی وجہ کر ہی یہ سب ممکن ہو پاتا ہے ‌۔ اس کے بعد جو وقت مل پاتا ہے اس میں کچھ آری ترچھی تحریریں لکھ لیتا ہوں ۔  

یہ خیال اکثر آتا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے یا درس و تدریس سے جڑا ہوتا تو کاش اردو کے لیے زیادہ کچھ کر پاتا کیوں کہ میرے پاس وقت کی فراہمی زیادہ ہوتی ۔ ریسورس ہوتے ، رقم کی بھی فراہمی ہوتی تو شاید اور بھی بہتر انداز میں اردو کی خدمت کر پاتا‌ ۔ ابھی تو ریسورس کی اتنی کمی ہے کہ " ایس آر میڈیا " کے پاس سوائے موبائل کے ایک لائپ ٹاپ ،کمپیوٹر بھی موجود نہیں ہے جس سے بھی اردو ادب کا کافی نقصان ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کی تحریر میل پر ان پیج اردو میں آتے ہیں اور موبائل میں ان پیج اردو کھلنے کی کؤی شکل موجود نہیں ہے ۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے پوسٹ " ایس آر میڈیا "  پیج پر شائع کرنے سے قاصر ہوں۔ ایس آر میڈیا پیج صرف اور صرف خدمت اردو اور محبت اردو کے لیے چلاتا ہوں نہ تو میری اس سے کوئ آمدنی ہے اور نہ ہی اس کو چلانے کے لیے کہیں سے کوئ مالی تعاون حاصل ہے ۔ ایک بار میں نے چند قارئین سے  ان کے واٹس ایپ نمبر پر مالی فنڈنگ کے سلسلےمیں مشورہ کیا تھا کہ اگر فنڈنگ ہو تو اردو کو فروغ دینے کے لیے کچھ زمینی سطح پر ایس آر میڈیا کے بینر تلے کام شروع کیا جاۓ ۔ لیکن لوگوں کی دلچسپی نہیں دیکھی اس لیے میں مزید ادب کی خدمت میں آگے قدم نہیں بڑھا سکا ۔  

 علیزے نجف: آپ کے اندر مطالعہ سے شغف پیدا کرنے میں کن عوامل نے اہم کردار ادا کیا کیا مطالعہ کرنے کا کوئی اصول بھی ہوتا ہے مشاہدہ کے تئیں آپ کا کیا نظریہ ہے کیا فقط دیکھنا ہی مشاہداتی صلاحیت کے ارتقاء کے لئے کافی ہے؟

قمر اعظم: دوران طالب علمی سے ہی میرے اندر ادبی ذوق کی وجہ میرے آیڈیل میرے بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی رہے ۔ کیوں کہ وہ غالباً چار دہائیوں سے اردو ادب سے وابستہ ہیں اور اس درمیان کئ تنظیموں سے منسلک رہے اور اب بھی ہیں ۔ بہت دنوں تک انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور فروغ اردو کے لیے دیوانے کی طرح کام کرتے رہے ۔ ابھی وہ کاروان ادب حاجی پور کے جنرل سیکرٹری ہیں ۔ انکی آٹھ تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ ان ہی کو دیکھ کر ان سے سیکھ کر مجھے تحریک ملی اور دوران طالب علمی سے ہی کچھ تحریریں ، شعر و شاعری میں بھی طبع آزمائی کی پھر اسے خیر باد کہہ دیا ۔ لیکن نثر کی دنیا میں گاہے گاہے کچھ لکھتا پڑھتا رہتا ہوں ۔ 

میں نے اب تک کوئ بھی ایسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا جس سے کہ آپ کو بتا سکوں کہ کون سا وصول درست اور صحیح ہوتا ہے ۔ آپ کے اندر جزبہ ہو تو دیکھ کر بھی آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ بس ارادہ نیک اور خلوص سے بھر پور ہونا چاہیے۔ " ایس آر میڈیا " پیج بنانے کے بعد میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ارادہ سچا اور پکا ہو تو کامیابی خود بخود منزل چھو لیتی ہے ۔ الحمداللہ سترہ ماہ کے اس ادبی سفر میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ بڑے ادیبوں ، شاعروں ، علماؤں ، سماجی رہنماؤں سے شناسائی ہوئ ہے ۔ اس سے قبل نہ میں کسی کو جانتا تھا اور نہ ہی لوگ مجھے جانتے تھے ۔ آج میری پہچان ایس آر میڈیا پیج کی وجہ سے ہوئ ہے نہ کہ میری تخلیق سے اس لیے آپ کچھ ایسا کریں جس سے دوسروں کو بھی استفادہ ہو ۔ آج الحمداللہ ایس آر میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہزاروں قارئین اردو پڑھ لکھ رہے ہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ انسان شہرت کی خواہش چھوڑ کر خلوص کے ساتھ کام کرے تو اس کام میں کامیابی تو یقینی ملتی ہے اور آپ کے کام کی خوشبو آپ کو خود بخود شہرت کی منزل تک پہنچا دےگی ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہرت کی چاہ چھوڑ کر آج زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف:  آپ مطالعہ کرنے کے لئے کس طرح کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں اور کن موضوعات پہ پڑھنا آپ کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور کیا ایسی کتابیں بھی ہیں جو آپ کی پسندیدہ ہیں جسے آپ بار بار پڑھ کے بھی تشنگی محسوس کرتے ہیں؟

قمر اعظم:  مطالعہ کے لیے کسی خاص کتابوں کی درجہ بندی نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی الجھنوں میں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے لیکن مختصر وقت میں جو کتاب میسر ہوتی ہے پڑھ لیتا ہوں ۔ خصوصاً مخلصین کے ذریعہ بھیجے گۓ کتابوں کو پہلی فرصت میں پڑھ لینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بعض دفعہ اس میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے جس کے سبب کتابوں پر اپنا اظہار خیال نہیں کر پاتا ہوں ۔ جس کی لوگوں کو دلشکنی بھی ہوتی ہوگی ۔ لہذا آپ کے اس انٹرویو کے ذریعہ ان لوگو سے معزرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔

علیزے نجف:  آپ ایسے ادیب کے طور پہ جانے جاتے ہیں جو اردو سے والہانہ محبت کرتے ہیں اس وقت اردو ادب کو جو مسائل درپیش ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا اردو کی تنزلی کی وجہ حکومت کی عدم توجہی ہے یا یہ خود اردو داں طبقے کی بے رغبتی سے اس حال کو پہنچی ہے؟

قمر اعظم:  سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ نہ میں کوئ ادیب ہوں ، نہ صحافی ہوں ، نہ شاعر ہوں ، نہ افسانہ نگار ہوں ۔ بس ایک ادنی سا ادب کا طالب علم ہوں ۔ یہ سب لقب تو آپ جیسے مخلصین نے دے دیا ہے ورنہ احقر کا ان سب سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ بس گاہے گاہے کچھ لکھ پڑھ لیتا ہوں ۔ رہی بات اردو ادب کے زبوں حالی کی تو غیروں سے کیا شکوہ اور کیا رونا 

کافی مشہور شعر ہے : 

" خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا " 

حکومت کا رونا تو ہم بعد میں روینگے پہلے ہم اردو والے اپنی ذات سے کیا کچھ کر رہے ہیں ؟ 

نہ تو ہمارے گھروں میں اردو بول چال کی زبان ہے ۔ نہ تو اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اردو میں دلوائی جاتی ہے ۔ نہ ہی ہما رے گھروں میں اردو اخبارات ، رسائل خریدے جاتے ہیں ۔ نہ ہی تقریبات کے دعوت نامے اردو میں چھپواۓ جاتے ہیں ۔ نہ ہی ہمارے گھروں پر نیم پلیٹ اردو میں موجود ہے ۔ نہ ہی ہم سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات اردو میں بھیجتے ہیں ۔ نہ ہی موبائل کے اندر لوگوں کے نام اردو میں لکھتے ہیں ۔ نہ ہی ہم دفتروں میں درخواست اردو میں دیتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا اب تو بہت سارے گھروں میں عربی کی تعلیم ( قرآن کریم ) سےبھی محرومی ہے ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اتنی ساری خامیاں تو میرے اندر موجود ہیں تو حکومت سے شکوہ کیسا ؟ 

اوپر میں درج تمام مسائل کو درست کرکے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تب اپنی فریاد لے کر حکومت کے پاس جائیں ۔ 

اردو کے فروغ کے نام پر پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو ہزاروں کی تعداد میں تنظیمیں موجود ہیں اور اردو کے فروغ کے نام پر کڑوروں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے ۔ جس کا حاصل سواۓ شہرت ، ناموری ، عہدہ کی لالچ کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام کے تمام ادارے اور تنظیمیں غلط ہی ہیں ۔ چند ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں بہت بہتر کام کر رہے ہیں ۔ اردو کے فروغ کے نام پر شاندار مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ درجنوں شعراء کرام کو مدعو کیا جاتا ہے اور محض چند گھنٹوں کے لیے ان کو دس ہزار سے لے کر لاکھوں روپیے نذرانے کے طور پر دیا جاتا ہے ۔ اور اس طرح ایک ہی رات میں ایک پروگرام کو سجانے میں لاکھوں روپیے برباد کر دیے جاتے ہیں ۔ معاف کیجیے اس میں چند تو شاعر اور شاعرات کے نام پر گویّا ہوتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس طرح کے پروفیشنل شاعروں کے ذریعہ کس طرح اردو کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے ؟ کاش کہ ان سب پیسوں کا استعمال مسلم معاشرے کے غریب بچوں کی تعلیم پر کیا جاتا تو اس قوم کی اتنی بدتر حالت نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کہیں جلسے جلوس کے نام پر تو کہیں عرس کے نام پر تو کہیں سمینار اور کانفرنس کے نام پر ، خصوصاً شادی کی تقریبات میں لاکھوں لاکھ غیر ضروری خرچ کر دیا جاتا ہے ان سب کا صحیح استعمال کر کے مسلم معاشرے کی تعلیم پر کر دیا جاۓ تو ایک انقلاب برپا ہو جاتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر نام و نمود کے خلوص کے ساتھ زمینی سطح پر کام کیا جاۓ ۔ شہرت اور اخبارات میں نام شائع کرانے کے لیے تو بہت کام ہو چکا ۔ ان سب کاموں کے لیے نئ نسل کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔

علیزے نجف: زبانیں انسان کی ضرورت کے لئے پیدا ہوئی ہیں اور اسے انسانوں نے ہی پروان چڑھایا ہے زبان بھی نشیب و فراز سے گزرتی ہے اس وقت زبان کی سطح پہ جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟

قمر اعظم: میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کے تفصیلی جوابات کے بعد مزید اس سوال کا جواب الگ سے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر کے تمام باتوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے زبان کو باقی رکھا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اپنے زبان کی حفاظت کے لیے خود ہی آگے آنا ہوگا حکومت کی گندی پالیسی اور بد نیتی کا واضح طور پر ہم لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ ہمیں آگے آنا ہوگا تبھی ہماری زبان بھی زندہ رہے گی اور ایک صاف و شفاف معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔

علیزے نجف: آپ نے اردو ادب کی بساط پہ اب تک مختلف موضوعات پہ بہت کچھ لکھا ہے آپ کی ایک کتاب بھی اشاعت کے مراحل میں ہے میرا سوال یہ ہے کہ ادب معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا ہے ادب کے ذریعے معاشرتی روایتوں کو کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے کیا موجودہ دور میں تخلیق کیا جانے والا ادب بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہے؟

قمر اعظم: ادب معاشرے کو بڑی حد تک متاثر کرتا ہے۔دراصل ایک جانب ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے اوردوسری جانب معاشرہ ادب کو متاثر کرتاہے۔ ہر عہد میں آپ دیکھیں گے کہ اس عہد کا ادب اس عہد سے کہیں نہ کہیں متاثر ہے۔سماج و معاشرے کے اندر ملک و قوم کے اندر اور ملک و بیرون ملک جو بھی فضا قائم ہوتی ہے ادب میں اس کا عکس نظر آتا ہے ۔ اپنے عہد کی ترجمانی کیے بغیر کوئی ادب بہت دور تک نہیں جاسکتا ۔ اس کی حیات بھی بہت لمبی نہیں ہوسکتی ۔ رہی بات ادب کے ذریعہ معاشرتی روایتوں کو زندہ رکھنے کی تو یہ معاملہ فنکار کی حسّیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہمارا فنکار چاہے وہ فکشن نگار ہوکہ شاعر یا پھر ناقد وہ اپنے معاشرتی روایتوں کو کس انداز میں جذب کررہا ہے یہ اس کے ثواب دید پر منحصر ہے ۔ آپ کے سوال کا آخری حصہ کہ کیا موجودہ دور میں تخلیق کیا جانے والا ادب بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہے؟ ایک چبھتا ہوا سوال ہے ۔ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اس پر گفتگو ہونی چاہیے ۔ اگر آپ میرا نقطۂ نظر جاننے کی کوشش کریں گی تومیں یہ کہوں گا کہ ہمارا آج کا ادب بدلتے زمانے میں ٹیکنولوجی کے اعتبار سے تو زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہے ۔ لیکن مسائل مواد معاملات موضوعا ت وغیرہ کے اعتبار سے یہ زمانے سے پیچھے چل رہا ہے ۔ زمانہ نے جس انداز میں کروٹ لی ہے ہمارا ادب اس انداز میں اپنے تیور دکھانے میں ذرا پیچھے ہے۔ملک و بیرن ملک سماجی ناہمواری سماجی طبقہ بندی اورزبان کو لسانیات کے تعلق سے جو اختلافات گاہے گاہے سر اٹھاتے رہتے ہیں ان کی سرکوبی کے لیے فی الوقت ہمارا ادب اس اندازمیں پیش پیش نہیں ہے۔

علیزے نجف: آپ ایک صحافی بھی رہے ہیں اس ضمن میں آپ نے بہت کچھ لکھا بھی ہے صحافی بننے کے لئے کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے صحافت اور ادب میں آپ کن قدروں کو مشترک پاتے ہیں کیا ایک صحافی کے لئے اعلی ادبی اسلوب کا حامل ہونا ضروری ہے؟

قمر اعظم:  آپ کا سوال بجا ہے ۔ صحافی بننے کے لیے بس یوں سمجھیے کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جاناہے ، اگر واقعی صحافی بننا ہے تو ۔  اور اگر جوتے چاٹنے ہیں تب توپھر کوئی بات نہیں ۔ کسی لیاقت کسی صلاحیت کسی ہمت کسی دلیری کسی بے باکی کی کوئی اور قطعی ضرورت نہیں ہے۔صاحب اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ کیجئے صاحب ثروت کی قصیدہ خوانی کیجئے اوربڑے صحافی ہونے کا تمغہ لے کر گھومتے رہیے۔دراصل صحافت وہ ہے جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ لکھ سکے ۔ زہرہلاہل کو شکرقند کہنے والے کچھ اور تو ہو سکتے ہیں صحافی نہیں ہوسکتے ۔ جہاں تک صحافت اور ادب میں قدروں کے مشترک ہونے کی بات ہے تو کوئی بھی ادب صحافت کے زینے کو چڑھ کر ہی اونچائی تک پہنچتا ہے ۔ ادب لکھنے میں بھی جو سچائی اورحقیقت نگاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ صحافت کے ذیل میں ہی آتی ہے۔جہاں تک ایک صحافی کے لئے اعلی ادبی اسلوب کا حامل ہونا ضروری ہونے کی بات ہے تو یہ کہوں گا کہ اس سلسلے میں میری ذاتی رائے دوسروں سے ذرا مختلف ہے ۔ یہ تو صحیح  ہے کہ بغیر اسلوب کہ کوئی بات نہ تو کہی جاسکتی ہے اورنہ لکھی جاسکتی ہے ۔ اسلوب ہی تووہ چیز ہے جو ذرہ کو آفتاب بناتی ہے۔اسلوب کی چاشنی ہی کسی فنکار کو کوئی مقام دلاتی ہے اور اسلوب کی شگفتگی اور بے ساختگی کسی صحافی کو مقبول بناتی ہے ۔ دراصل اسلوب کا کام کشش پیدا کرنا ہے ۔ ایک صحافی کے لیے بھی اسلوب بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن صحافتی اسلوب اور ادبی اسلوب میں ذرا فرق ہے ۔ ادب میں جو اسلوب اختیار کیاجاتا ہے وہ ادب میں ادبیت کو برتر بنانے کے لیے کیاجاتا ہے ۔ صحافت میں راست گوئی زیادہ ہوتی ہے ۔ یہاں ادبی چاشنی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔ اس لیے صحافت کے میدان میں اعلیٰ ادبی اسلوب کی ضرورت میرے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ سادہ صاف ستھری اور راست گوئی صحافت کا اصل ہتھیار ہے۔

علیزے نجف:  آپ نے شاعری کی بساط پہ بھی طبع آزمائی کی ہے آپ کی غزلیں مختلف رسائل و جرائد کی زینت بھی بنیں پھر کیا وجہ تھی کہ فن شاعری میں ذوق اور صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ نے درمیان سفر شاعری کو خیرآباد کہہ دیا کیا مستقبل میں شاعری کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں؟

قمر اعظم: جی ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے دوران طالب علمی شاعری بھی کی اور وہ روزنامہ کی زینت بھی بنی ۔ میرے شاعری کی شروعات حمد سے ہوئ ۔ سچ پوچھیں تو صنف شاعری کوئ آسان کام نہیں ہے ۔ ردیف ، قافیہ اور پھر اسکی تختی وزن ملانا یہ سب بہت ہی مشکل امر ہے ۔ اس کے لیے ایک شاعر کے اندر قابلیت سے زیادہ جنون کا ہونا بھی بہت اہم ہے ۔ کیوں کہ جب شاعر شعر کہتا ہے تو اس پر جنون کی سی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ اس کے فکر و خیالات اپنے معاشرے کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں تب جا کر وہ اسکی پوری پوری عکاسی اپنے شعر کے اندر پیرونے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ صنف شاعری قابلیت سے نہیں بلکہ یہ ایک خدا داد تحفہ ہے کیوں کہ شعر و شاعری کا معاملہ قابلیت پر مبنی ہوتا تو تمام پڑھے لکھے لوگ شاعری کرتے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ بڑے سے بڑا دقاق چاہ کر بھی ایک شعر نہیں کہ سکتا ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا کہ ایک دن رات کے وقت اچانک کچھ اشعار ذہن میں آنے لگے جسے میں نے قلمبند کر لیا اور پھر اصلاح کے لیے استاد محترم جناب قوص صدیقی صاحب کو بزریعہ ڈاک بھیج دیا ۔ اصلاح کی ہوئ حمد موصول ہوئ کئ جگہ غلطیوں کی نشاندہی کی گئ تھی بہر صورت اصلاح کی ہوئ حمد کے جو اشعار تھے اس کے معنی و مقاصد کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا ۔ استاد محترم نے حوصلہ افزائی بھی کی تھی اور یہ تلقین بھی کی تھی کہ خوب پڑھو ۔ پڑھتے پڑھتے ہی صلاحیت پیدا ہو گی اور اشعار کو گنگناؤ اس سے اس کے وزن کا اندازہ ہوگا ۔ اور پھر اس طرح گاہے گاہے کئ سالوں تک سلسلہ چلتا رہا اس درمیان کئ غزلیں اور دو تین نظمیں بھی کہیں ۔ ایک دفعہ کچھ دنوں کے لیے احمدآباد جانے کا اتفاق ہوا کسی تقریب میں ایک عالم دین سے ملاقات کا شرف ہوا انہوں نے میرے تعلق سے جانکاری حاصل کی ۔ ان کو جب میں نے اپنے بارے میں بتایا اسی بیچ شعر وشاعری سے شغف کا بھی ذکر ہوا تو انہوں نے منع کر دیا کہ غزل گوئی اچھی چیز نہیں ہے اس سے گریز کریں ۔ ہاں اگر اتنا ہی شوق ہے تو نعت شریف لکھیں نعت میرے بس کا نہ تھا اس لیے میں نے مکمل شاعری ہی بند کر دی ۔ مستقبل میں شاعری کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتا ہوں ۔

علیزے نجف:  آپ کی اردو زبان و ادب سے حد درجہ محبت اب کسی تعارف کی محتاج نہیں رہی " ایس آر میڈیا " کے نام سے آپ کا فیس بک صفحہ کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے اس صفحے کی بنیاد رکھتے ہوئے آپ کی سوچ کیا تھی آپ محب اردو ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس کا نام انگریزی میں رکھا ؟

قمر اعظم: جی آپ نے درست فرمایا کہ " ایس آر میڈیا " پیج ہر روز اپنی بلندیوں کی جانب رواں دواں ہے اس کی خوشبو اپنے ملک ہندوستان سے کافی دور ساحلوں کو پار کرتی ہوئ بیرون ممالک تک پہنچ چکی ہے ۔ اس کے چاہنے والے اور پڑھنے والے یور پ ممالک تک میں موجود ہیں ۔ اور میری یہ دعا ہے کہ یہ پیج ملک کے کونے کونے تک مقبول ہوجاۓ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پر شائع تحریروں سے استفادہ حاصل کر سکیں ۔ اسکی بنیاد رکھنے کی وجہ خالص خدمت اردو اور نۓ قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا مقصود تھا جس سے اردو کا زیادہ سے زیادہ فروغ ہو سکے ۔ جس میں الحمداللہ میں کامیاب ہوتا بھی نظر آ رہا ہوں ۔ کئ نۓ قلمکاروں نے تو اب اپنا اردو ویب سائٹ بھی بنا لیا اور اس سے بھی اردو کا فروغ ہو رہا ہے ۔ یہ بھی کامیابی کی ضمانت ہے ۔

اس کا نام سنے میں تو انگریزی ضرور معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی لکھاوٹ اردو میں کی گئ ہے ۔ " ایس آر میڈیا " در اصل دو نام کے ایک ایک حرف کو لے کر بنایا گیا ہے ۔ میری والدہ کا نام Shakra Khatun ہے تو میں نے ان کے نام کے پہلے حرف سے  ( S ) اور والد کا نام Shahabur  Rahman  ہے تو والد کے نام سے ( R ) کو لیا ۔ گویا اسی مناسبت پر " ایس آر میڈیا نام رکھا گیا ہے ۔ ایس آر نام سے قبل بھی میں نے اپنے دکان کا بورڈ " S R Lather " لکھوایا ۔ اور موجودہ تجارت  کا جی ایس ٹی رجسٹریشن بھی " S R Enterprises " سے ہی موجود ہے ۔ اسی نام سے بینک اکاؤنٹ بھی موجود ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے جوابات سے آپ مطمئین ہو گئ ہونگی ۔ 

علیزے نجف:  ایس آر میڈیا کے ذریعے آپ اردو ادب کی جو خدمت کر رہے ہیں قابل ستائش ہے اس پلیٹ فارم پہ آپ نئے لکھنے والوں کی کھلے دل سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے آپ کو اردو ادب کا مستقبل کیسا معلوم ہوتا ہے نئے لکھنے والوں میں کلاسیکی ادب کی چنگاری ملتی ہے یا وہ محض شہرت اور اشاعت کی غرض سے یو ہی لکھ دیتے ہیں؟

قمر اعظم: جی بالکل میں ایس آر میڈیا پیج کے ذریعہ نۓ لکھنے والوں کی رہنمائی کر رہا ہوں ۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد کچھ بڑھی ہے لیکن اس کی تعداد بس اتنی ہی ہے جیسے سبزی میں نمک کی مقدار کیوں کہ فیس بک رپورٹ کے مطابق ایس آر میڈیا پیج پر 18 سے 24 کی عمر والے قارئین کی تعداد صرف 19.2٪ فیصد ہے ۔ اور 25 سے 34 کے عمر والوں کی تعداد 40٪ فیصد ہے ۔ عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو نئ نسل ابھی اردو سے کافی دور ہے ۔ اور اگر ان لوگوں کی دلچسپی نہیں رہی تو دھیرے دھیرے یہ زبان زوال کی جانب چلی جاۓ گی ۔ بہر حال نئ نسل جو بھی لکھ رہی ہے کلاسیکی ادب موجود نہ صحیح لیکن ان کی صحیح رہنمائی ، حوصلہ افزائی کی گئ اور جو بچے بالکل ابتدائی دور میں ہیں ان کو حرف تہجی پڑھنے کے دور سے ہی دلچسپی دلائ جاۓ وقتا فوقتا ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے ، لکھنے پڑھنے اور بولنے کی مشق کرائی جاۓ تب جاکر اردو زبان پر عبور حاصل کرنا ممکن ہے ۔

علیزے نجف:  افسانے کی صنف میں بھی آپ کو کافی دلچسپی ہے آپ نے خود افسانے لکھے بھی ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کیا ہمارے یہاں لکھے جانے والے افسانے زیادہ تر فینٹسی کی تخلیق کرتے ہیں جس سے قاری تصورات کی دنیا میں رہتے ہوئے کاملیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا یہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی منظر کشی بھی کرتے ہیں آپ نے اپنے افسانوں میں زندگی کے کن پہلوؤں کو سمونے کی ازحد کوشش کی ہے؟

 

قمر اعظم:  میں نے بہت افسانے نہیں لکھے لیکن افسانہ لکھنے کا آئیندہ بھی ارادہ رکھتا ہوں ۔ انشاء اللہ جلد ہی کوئ نیا افسانہ بھی لکھوں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک کامیاب افسانہ نگار وہ ہے جو اپنی کہانیوں کے ذریعہ معاشرے کی برائیوں اور خوبیوں کو اجاگر کرتا ہو اور اپنی کہانیوں کے ذریعہ بگرے ہوۓ معاشرے کو اچھائ کی راہ پر لانے کی کوشش کرتا ہو ۔ آسان اور سہل جملے میں لکھا گیا افسانہ جسے ہر قاری پڑھ کر ایسا محسوس کرتا ہو کہ یہ درد اس کا اپنا ہے ۔ اور جب کسی بھی انسان کو خود کا درد محسوس ہوتا ہے تبھی وہ دوسروں کے درد کو سمجھ سکتا ہے ۔ 

میں نے اپنے ایک افسانے میں غریب والدین کے درد کو بیان کیا ہے جس میں وہ اپنی جوان بیٹی کی شادی کو لےکر پریشان حال ہے ۔ قبل سے بھی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کے بعد قرض کے بوجھ میں دبا ہے ۔ رقم نہ ہونے کی صورت اور لڑکے والوں کی فرمائش کی وجہ کر دوسری بیٹی کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے ۔ قریبی رشتہ دار ، دوست احباب بھی اس کی مدد کو آگے نہیں آرہے ہیں ۔

علیزے نجف:  آپ کی ایک کتاب " غنچہء ادب "  دوسری آپ کی مرتب کردہ کتاب " برگ ہائے ادب " زیر اشاعت ہے ان دونوں کتابوں کے متعلق آپ ہمارے قارئین کو بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ لکھنے کی تحریک آپ کو کہاں سے ملی تھی اور اسے کتاب کی صورت دینے کے لئے آپ نے کس طرح کی جدوجہد کی؟

قمر اعظم: جی بےشک ان دونوں کتابوں کا مسودہ جمع ہے ۔ اسے شائع کر کے  منظر عام پہ لانے کی تیاری میں ہوں امید قوی ہے کہ منظوری مل جائے گی اور انشاءاللہ جلد ہی شائع ہوکر منظرعام پر آجاۓ گی ۔ پہلی کتاب" برگ ہاۓ ادب " کو میں نے ترتیب دینے کا کام کیا ہے ۔ اس میں 33 مضامین شامل ہیں اور تمام کے تمام ایس آر میڈیا پیج پر شائع شدہ ہیں ۔ جسے میں نے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ برگ ہاۓ ادب کے تعلق سے دربھنگہ ٹائمز کے اڈیٹر  منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ : 

" کتاب میں جتنے بھی مضامین شامل کیے گۓ ہیں وہ بھرتی کے نہیں بلکہ مطالعہ طلب ہیں ۔ اردو قارئین کے معلومات میں بھی اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں " 

دوسری کتاب " غنچہ ادب " ہے جس میں تمام وہ مضامین شامل ہیں جسے میں نے کسی نہ کسی موقع سے لکھا ہے ۔ یہ مضامین تین حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ شخصیات ، دوسرا صحافت اور تیسرا حصہ تبصرہ ہے ۔ لکھنے کی تحریک اپنے بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی سے ملی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی و رہنمائی بھی شامل رہتی ہے ۔ 

کتابی شکل دینے میں بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا مجھے نہیں کرنا پڑا کیوں کہ برگ ہاۓ ادب کےتمام مضامین ایس آر میڈیا پر موجود تھے پھر بھی میں نے مضمون نگار سے اجازت لے لی اور ان سے " انپیج اردو " میل پر حاصل کر لیا ۔ جن کو انپیج دینا مشکل تھا اسے میں نے  خود ہی کمپوز کرا لیا اور پھر تمام کی کتابی سیٹنگ مفتی عرفان صاحب نے کر دی ۔ دونوں کتابوں کی ترتیب سیٹنگ ، پروف ریڈنگ سے لے کر مسودہ جمع کرنے تک کے مراحل میں میرے ماموں زاد بھائی عارف حسن وسطوی اور بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی پیش پیش رہے ۔ میں ان لوگوں کا ممنون و مشکور ہوں ۔ 

علیزے نجف:  زندگی گزارنا ایک فن ہے جسے بعض اوقات سیکھا بھی جا سکتا ہے آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ زندگی گزارتے ہیں یا زندگی انہیں گزارتی ہے کیا وجہ ہے کہ لوگ زندگی کا حق ادا نہیں کر پاتے اور اپنی پوری زندگی سعی لا حاصل کی تگ و دو میں گزار دیتے ہیں ؟

قمر اعظم:  اس تعلق سے اپنی رائے پیش کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ سبھوں کے زندگی گزارنے کے اپنے اپنے طور طریقے ہیں ۔ معاشرے میں غریب امیر متوسط طبقہ کے لوگ ، مہذب غیر مہذب ، دیندار بد دین ، سبھی رہتے ہیں اور سب کے جینے اور رہنے کا طریقہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ مثال کے طور پر ایک بہت امیر شخص ہے لیکن غیر مہذب ہے تو اسے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ اس کے جینے کے انداز سے ، اس کے حرکات و سکنات سے گھر والوں کو پڑوسیوں کو معاشرے کو دقت محسوس ہو رہی ہے ۔ وہ تو اپنی زندگی میں مست ہے ۔ 

دوسری جانب ایک مہذب اور غیرت مند انسان ہو لیکن وہ غریبی میں زندگی گزار رہا ہو تو وہ اپنی پریشانی ، فاقہ کشی ، بیماری اور حالات کو عین ممکن ہے کہ اپنے چہار دیواری کے باہر نہ جانے دے ۔ ٹھیک اسی طرح ایک ہی گھر میں الگ الگ مزاج کے لوگ ہوں ۔ ایک اگر شرافت کا شیوہ اختیار کیے ہوۓ ہے تو دوسرا اسکی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسکا استحصال کر رہا ہوتا ہے ۔ اور پھر اسی طرح انسان  پوری زندگی سعی لا حاصل کی تگ و دو میں گزار دیتا ہے ۔  یہ بھی سچ ہے کہ زندگی گزارنا ایک فن ہے ۔ زندگی گزارنے کے طریقے کو سیکھنے کے لیے ہم لوگوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنا  چاہیے ۔ ان سے بہتر  ہم لوگوں کے لیے دوسرا کوئ رہنما اور پیشوا  ہو ہی نہیں سکتا ۔

علیزے نجف: سوشل میڈیا ایک ایسا میڈیم بن چکا ہے جس کے ذریعے لوگ بڑی تیزی سے جڑ رہے ہیں اسکرین کی دنیا میں رشتے اور تعلق کی بہتات بآسانی دیکھی جا سکتی ہے وہیں دوسری طرف حقیقی زندگی میں تشنگی اور تنہائی بڑھتی جا رہی ہے آپ اس پورے منظر نامے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس مشکل کا سد باب کیسے ممکن ہے؟

قمر اعظم:  یہ بات بالکل صحیح ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد خصوصاً پچھلے پانچ سالوں میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے رشتے اور تعلقات کی بہتات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ 

حقیقی زندگی میں تشنگی اور تنہائی بڑھنے کی وجہ صرف اور صرف موبائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہی ہے ۔ اس کے لیے موبائل کے استعمال کو کم کرنا ہوگا۔ اور اپنے تمام معمول میں وقت کی پابندی لازمی کرنی ہوگی ۔ گھر والوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے بات چیت کو لازمی بنانا ہوگا ۔ چند لمحے اپنے خویش و اقارب سے بھی گفتگو کے لیے نکالنے ہونگے ۔ 

علیزے نجف:   تفریح انسانی مشغلے کا ہی ایک حصہ ہے خالی اوقات میں جس کے لئے لوگ اہتمام کرتے ہیں آپ کا تفریحی مشغلہ کیا ہے کیا اس کے لئے آپ باقاعدہ وقت نکالتے ہیں یا اب تفریحی مشغلے مصروفیت کی نذر ہو چکے ہیں؟

قمر اعظم: جی میں آپ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ تفریح بھی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے اور اس کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے ۔ چند لوگ سیر و تفریح کو جاتے ہیں ۔ تو کؤی کھیل کے لیے وقت نکالتا ہے تو کوئ پارکوں میں وقت گزارتے ہیں ۔ میں باضابطہ طور پر اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتا ہوں ۔ اور یہ سچ ہے کہ میرا خالی وقت سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے ۔ 

علیزے نجف: ایک آخری سوال یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے سوالات کے متعلق کیا کہنا چاہیں گے اس کے ذریعے کوئی بات جو کافی دنوں سے آپ کے دل میں ہے کہنا چاہیں گے ؟

قمر اعظم:  پہلی دفعہ یہ موقع میسر ہوا کہ کسی کے انٹرویو کے جوابات دیے ہیں ۔ وہ بھی سوالات خود میں ایک جوابی کاپی کی مانند کیوں کہ ایک ساتھ بیس سوالوں کا جواب دینا وہ بھی روایتی انٹرویو سے جداگانہ الگ ہٹ کر ایک ہی سوال میں کئ کئ سوالات میرے لیے مشکل امر تھا وہ بھی اپنی مصروفیات کے درمیان لیکن علیزے نجف کی بار بار کی یاد دہانی اور محبتوں نے مجھے جوابات دینے پر مجبور کر دیا ۔ خیر مجھے آپ کو اپنا انٹرویو دے کر اچھا لگا کہ آپ نے زندگی کے بہت سارے شعبے پر اظہار و خیال کرنے کا موقع عنایت فرمایا ۔ اور میں نے ان تمام پہلوؤں پر اپنے دل کی آواز کو قلمبند کر دیا۔ لیکن یہ کوئ ضروری نہیں کہ تمام قاری میری باتوں سے اتفاق کرلیں کیوں کہ سب کے اپنے اپنے زاویے الگ الگ ہیں ۔
آپ کے تعلق سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ محترمہ علیزے نجف نے ادیبوں شاعروں ، محققین سے جو انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ اردو ادب کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوگا ۔ آپ کے اس تحقیق کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جانا چاہیے اور اس کی ستائش بھی ہونی چاہیے ۔ خدا کرے آپ اسی طرح کامیابی کی جانب گامزن رہیں ۔ خدا آپ کے حصے میں تمام وہ خوشیاں عطا کر دے جس کی آپ متمنی ہیں ۔ 

انٹرویو نگار : علیزےنجف

غریبوں کا خیال رکھیے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

غریبوں کا خیال رکھیے ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف
اردو دنیا نیوز٧٢ 
  
 دسمبر اور جنوری کا مہینہ بہار میں سر د ہواؤں اور یخ بستہ راتوں کے لیے مشہور ہے ، کڑاکے کی سرد اور برفانی لہروں کی وجہ سے متوسط مزدور اور غریب طبقات کے لیے زندگی گذارنا دشوار ہوتا ہے ، وہ لوگ جن کے سروں پر چھت نہیں ہے ، وہ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، ان کے لیے سردی کے قہر سے خود کو بچانا مشکل ہوجاتاہے ، ٹھنڈک گوشت وپوست ہی کو نہیں اعضاءرئیسہ پھیپھڑے اور قلب وغیرہ کو متاثر کرتی ہے ، جو قلب کے مریض ہیں ان کے ہارٹ اٹیک کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، غرباءاگر ٹھنڈ کی چپیٹ میں آگیے تو ان کے لیے علاج کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے، بہار میں اس وقت بارہ سے پندرہ کلومیٹر کی رفتار سے پچھوا ہوا چل رہی ہے، جس نے درجۂ حرارت کو گرا کر نچلی سطح تک پہونچا دیا ہے ، محکمہ موسمیات کی مانیں تو پٹنہ میں درجۂ حرارت 9.1گیا میں 6.2، بانکا میں6.4، اورنگ آباد میں 8.3، پورنیہ میں 10.8سہرسا میں 10.5سوپول میں 12.4بھاگلپور میں 11.3، مظفر پور میں 11.8رہتاس میں 11.5شیخ پورہ میں 10.5اور بیگو سرائے میں 9.7رکارڈ کیا گیا ہے ، جس نے غریبوں کی مشکلیں بڑھادی ہیں۔
ایسے میں اسلام کا طریقہ یہ ے کہ جو لوگ اس قسم کی پریشانی سے محفوظ ہیں وہ ان غریبوں کا خیال رکھیں اور اپنے ارد گرد کے ٹھنڈک میں پریشان حال لوگوں کی جس قدر مدد کر سکتے ہوں کریں، امارت شرعیہ بھی ایسے موقع سے مستحقین تک کمبل پہونچانے کا کام ہر سال کرتی ہے، امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نے ضلع ، بلاک اور پنچایت سطح پر جو امارت شرعیہ کمیٹی کے صدور اور سکریٹریز ہیں، یا ذیلی دفاتر کے ذمہ دار ہیں، ان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں امارت شرعیہ کے زیر اہتمام اس کام کو کریں، اسلامی اصول کے مطابق علاقہ کے مالداروں سے رقومات حاصل کریں اور اس علاقہ کے ضرورت مندوں تک کمبل خرید کر پہونچادیں۔
 جن علاقوں میں مقامی طور پر یہ کام ممکن نظر نہیں آئے،وہ اپنی رقومات بیت المال امارت شرعیہ کو ارسال کردیں،ا نشاءاللہ مرکزی دفتر امارت شرعیہ کے ذریعہ حسب وسائل بڑے پیمانے پر اس کام کو کیاجائے گا، اور اہل خیر عند اللہ ماجور اور عند الناس مشکور ہوں گے ۔

ڈاکٹر بی ایچ خان ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ڈاکٹر بی ایچ خان ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مشہور ہڈی معالج (آرتھو پیڈک سرجن) جامع مسجد گیا،کانگریس میڈیکل سیل اور بہار مسلم انٹلکچوئل فارم کے سابق صدر ڈاکٹر بدر ہدیٰ خان ساکن قابل پور مرچا ضلع ویشالی کا ان کی رہائش گاہ بورنگ روڈ پٹنہ میں 23 دسمبر 2022ءمطابق 28 جمادی الاولیٰ 144ھ بوقت صبح بروز جمعہ انتقال ہو گیا، وہ زمانہ دراز سے شریف کالونی پٹنہ میں مقیم تھے، حال ہی میں وہ اپنا مستقر تبدیل کرکے بورنگ کنال روڈ منتقل ہو ئے تھے، اس نئے مکان میں گِرجانے کی وجہ سے ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، انہیں پارس اسپتال منتقل کیا گیا، علاج کے بعد وہ اپنے گھر واپس آگیے تھے، مگر وقت موعود آگیا تھا، اس لیے جاں بر نہ ہو سکے، جنازہ ان کے آبائی گاؤں قابل پور سرائے ویشالی لے جایا گیا، جہاں 24 دسمبر 2022ءکو بعد نماز عصر ان کے جنازہ کی نماز حافظ ابو الکلام صاحب ساکن فتح آباد ، سرائے ویشالی نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، کم وبیش ایک ہزار لوگ جنازہ میں موجود تھے، جن میں پٹنہ، گیا ، مظفر پور اور مقامی حضرات کی بڑی تعداد موجود تھی، ان میں علماء، صلحاء، صحافی اور دانشور حضرات بھی شامل تھے، زندگی میں انہوں نے اپنی آخری آرم گاہ کی جگہ کی تعیین کر دی تھی، اسی جگہ سپرد خاک ہوئے۔ ان کی دو شادی تھی، پس ماندگان میں محل اولیٰ سے تین بیٹے دو بیٹیاں اور محل ثانی سے تین بیٹے ہیں، سبھی بر سر روزگار ہیں۔
ڈاکٹر بی ایچ خان ابن محمد ناظم خان کی ولادت 21 جون 1936ءکو قابل پور مرچا ، سرائے موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی ہائی اسکول سرائے سے پائی، میڈیکل سائنس میں وہ ایم بی بی اس ، ایم ایس (آرتھو) ایف آئی سی ایس ، اے او ایف تھے، وہ زمانہ دراز تک سعودی عرب میں خدمات انجام دیتے رہے، وہاں سے لوٹنے کے بعد انہوں نے پٹنہ شریف کالونی میں رہائش اختیار کی، اور یہاں ڈاکٹر خان مکہ آرتھو پیڈک سنٹر اینڈ ریسرچ انسٹی چیوٹ کے نام سے پرائیوٹ کلنک شروع کیا، گیا ان کی سسرال تھی اس لیے وہاں بھی مریضوں کو دیکھا کرتے تھے، ان کا میدان عمل پٹنہ اور گیا تھا، وہ دونوں جگہ سیاسی اور سماجی کاموں میں اپنی حصہ داری نبھاتے تھے، گیا میں انہوں نے خواجہ غریب نوازفٹ بال ٹورنا منٹ کا انعقاد کیا تھا، جس میں ملک بھر کی چنندہ ٹیموں نے حصہ لیا تھا، انہوں نے گیا کی جامع مسجد کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، وہ زمانہ تک کانگریس میڈیکل سیل کے صدر بھی رہے، ان دنوں ان کی سیاسی وابستگی جدیو سے تھی اور وہ نتیش کمار کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے تھے۔
 ڈاکٹر بی ایچ خان نے مذہبی مزاج پایا تھا، عہد شباب مکہ کی پاک سر زمین پر گذارا تھا، اس لیے ان کی فکر وخیال کا رخ راست تھا، وہ حج کے موقع سے مختلف اخبارات میں حج کی فضیلت واہمیت اور ارکان کی ادائیگی کے موضوعات پر مختصر مضامین لکھتے اور شائع کراتے تھے، ان کا دستر خوان وسیع تھا، مہمان نوازی ان کی سرشت کا حصہ تھاجو رمضان المبارک میں افطار پارٹی اور یوم عید کو عید ملن پارٹی میں بدل جاتا ان کی مجلسوں میں سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور صحافی حضرات کی کثرت ہوتی ، وہ امارت شرعیہ اور دیگر ملی تنظیموں سے قریب تھے، حسب توفیق وسہولت ہر ایک کے کام آتے، ان کی شناخت سماج میں ملن سار، خوش اخلاق ، غریب پرور اور دوسروں کے کام آنے والے شخص کی تھی، اس کے باوجود وہ عام انسان تھے اور انسانوں کے تمام فیصلے صحیح ہوں، ایسا نہیں کہا جا سکتا ، غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں، سماج کے لوگ اپنے تعلقات کی نوعیت سے رائے قائم کرتے ہیں، اس لیے ڈاکٹر بی ایچ خان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن ہمیں تو مرنے والوں کے محاسن بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے سیاٰت کو حسنات سے بدل دینے کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے، اس خالق ومالک کو جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے، کسی حوالے اور بہانے کی ضرورت ہی کب ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے، غفار بھی ہے اور ستار بھی۔
ڈاکٹر بی ایچ خان زمیندار گھرانے کے چشم وچراغ تھے، پٹنہ اور گیا میں جاری سر گرمیوں کے ساتھ وہ اپنے آبائی گاؤں قابل پور، سرائے میں بھی سماجی اور ملی کاموں کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے، انہوں نے اپنی زمین میں ایک معیاری اسکول آکسفورڈ انٹرنیشنل اسکول کے نام سے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اس کے لیے ایک بار وہ ماہرین تعلیم کو لے کر گاؤں گیے بھی تھے، زمین کی پیمائش وغیرہ بھی ہو گئی تھی، لیکن کام آگے نہیں بڑھ سکا، انہوں نے اپنے عالیشان مکان کے احاطہ میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی ، ایک حافظ کو رکھ کر بنیادی دینی تعلیم اور مسجد کو آباد کرنے کا نظم کر رکھا تھا، امام اور معلم کا سارا نفقہ ان کے ذمہ تھا، میرے علم میں ہے کہ ایک امام نے تو پوری زندگی وہیں گذار دی، پوری زندگی گذارنے کی بات لکھ دینا تو آسان ہے، لیکن امامت میں یہ آسان نہیں ہوتا، زمینداروں کے کر وفر اور ان کی غلط صحیح ہدایتوں کو برداشت کر لینا آسان نہیں ہوتا۔
 ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ کے آنے کے بعد کی تھی ، حالاں کہ ان کے گاؤں میں میرا آنا جانا مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے دوران قیام ہی سے تھا، مجھے مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے دار العلوم موء لے جانے والے اسی گاؤں کے مولانا خلیل الرحمن علیہ الرحمہ تھے، میرے والد نے کوئی پینتیس (35)سال آدرش ہائی اسکول سرائے میں گذارا، اسی گاؤں مرچا کے ریاض الحق خان مرحوم اس اسکول کے سکریٹری تھے، میں نے اپنا پہلا محراب بھی ان تعلقات کے نتیجہ میں قریب کے محلہ چک اوردوسری بار مرچاگڈھ میں سنایا تھا، ان تعلقات کی وجہ سے وہ مجھ سے واقف تھے، میری پہلی ملاقات امارت شرعیہ کے دفتر میں ہوئی ، جہاں وہ کسی کام سے آئے تھے، بعد میں قربت بڑھتی گئی، حج ہاوس بننے کے بعد جب دعائیہ مجلس کا آغاز ہوا تو وہ جھوم جھوم کر عازمین کو تلبیہ پڑھاتے، اور عربی لب ولہجہ کی نقل کرتے، جس سے خاص کیف وسرور پیدا ہوجاتا، اللّٰہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین

منگل, جنوری 10, 2023

اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی

اسرار رموز کا شاعر اسرار عالم سیفی 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پھلواری شریف پٹنہ ،
موبائل نمبر :7909098319
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 اردو  ایک شیریں اور زندہ وجاوید زبان ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سلسلہ ارتقاء کی تمام کڑیوں سے گزری ہے اور تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اور علمی اثرات قبول کرکے دنیا کی سرمایہ دار زبانوں کی صف میں شمار ہوتی ہے ۔ اس زبان کا حسن اس کی شاعری ہے، اور شاعری زبان وادب کی ترجمانی و نمائندگی کرتی ہے، اس لئے کہ شاعری کے ذریعہ زبان وبیان کی جاذبیت، چاشنی، حسن، گہرائی و گیرائی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اور شاعری کسی بھی انسان کے لئے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کو حسن وجاذبیت کے ساتھ چند اصول وضوابط کی پابندیوں کے ساتھ اظہار و خیال کا نام ہے۔ شاعری کے ذریعہ ہمیں بیک وقت کئی پہلوؤں کا علم و اندازہ ہوتا ہے، انسان  مناظر قدرت اور اپنی تفکرات میں گم رہتا ہے، ہر انسان کا ذاتی نظریہ، ذاتی تجربہ، اور ذاتی مشاہدہ ہوتا ہے۔اور اسے خوبصورت پیرائے میں ڈھال کر اس کا اظہار کرتا ہے ۔شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ معاشرے کو درست اور صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر سماج ومعاشرہ کے ان مسائل پر بھی توجہ دلاتا ہے جہاں تک ہر ایک کی رسائی ممکن نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مثبت انداز فکر رکھنے والے شعراء نے قوموں میں ہمیشہ شعور بیدار کیا۔
الطاف حسین حالی نے شاعری کی تعریف یوں کی ہے،، 
خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزوں کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔
ایک شاعر جب شعر کہتا ہے تو وہ گویا سحر کرتا ہے، شاعری کی زبان در اصل ساحری کی زبان ہوتی ہے جس سے ہر خاص وعام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ شاعر کی زبان پورے کائنات کی زبان ہوتی ہے کیوں کہ وہ  کائنات کے حادثات کو اپنے تخیلات میں سموئے رکھ کر گاہے بگاہے اس کا اظہار کرتا رہتا ہے،چونکہ شاعری کی بنیاد قوت متخیلہ پر ہے،  شاعر کا تخیل جتنا بلند ہوتا ہے شعر میں بھی وہ بلندی، گہرائی وگیرائ نظر آتی ہے،
جب کوئی شاعر اپنے وسیع وعریض تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اپنی شاعری کو حقیقی رنگ و آہنگ دیتا ہے  تو اس میں مثبت سوچ ، عادلانہ فیصلے ، حکیمانہ فلسفے ، بصیرت وبصارت اور درد و رحم جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔
 
کائنات علم و ادب میں اپنے نام اور شہرت کا ڈنکا بجانے والے شاعر کا اصل نام محمد اسرار عالم سیفی ہے ۔ آپ 16 مئ1963ء؁ کو ضلع نالندہ کے مردم خیز گاؤں اسلام پور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ماجد کا نام مولوی محفوظ عالم مرحوم ہے ۔رائے پور چھتیس گڑھ میں محکمہ جنگلات میں آپ ملازم تھے ۔ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ۔ آپ حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، بی اے، اور ایم اے، اردو زبان میں پٹنہ یونیورسٹی سے کیا،آپ کے اساتذۂ کرام میں مولانا فصیح احمد، مولانا رضا کریم، مولانا سید محمد ندوی وغیرہ کا نام ہے، آپ کے بڑے بھائی محمد سرفراز عالم مرحوم نے آپ کی تعلیم وتربیت پر کافی جد وجہد کی، جس کا تذکرہ آپ نے اپنی تصنیف میں بھی کی ہے، آپ نے جن اساتذۂ کرام کی اردو زبان وادب میں رہنمائی حاصل کی ان میں پروفیسر جمیل احمد، پروفیسر اعجاز علی ارشد، پروفیسر ڈاکٹر کلیم عاجز، پروفیسر اسرائیل رضا کا نام سر فہرست ہے۔

اسرار سیفی کی حمدیہ شاعری کے چند اشعار 

اے خدا اے پاک اے رب کریم
 تیری رحمت عام ہے بخشش عظیم
 اے کہ تیری ذات نوری لم یزل
 اے کہ تو ہے خالق حکم عمل
اے کہ تو ہے مالک ارض و سما
اے کہ تو آقا ہے لولاک لما 
تیری رحمت ہے محیط بے کراں
 تیری قدرت ہے صریح کن فکاں
  تجھ سے قائم ہے جہانِ رنگ و بو
 فرش سے تا عرش مولا تو ہی تو 
ہے اطاعت میں تیری مخفی نجات
 تو ہی اک رکھتا ہے لافانی صفات
عمر بھر سیفی ہو زندہ صبر سے
کلمہ پڑھتے نکلے اپنی قبر سے۔

حمدیہ شاعری اس سعادت وبندگی کا نام ہے جس میں براہ راست بندے کا تعلق خدا سے ظاہر ہو،  اور رب کائنات کو اس کے ذاتی وصفاتی اسماء سے اس طرح پکارا جائے کہ رب کی جانب سے اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا مصداق بن جائے، اس کی عظمت وکبریائ ، رحمت و مغفرت  اور محبوبیت کا اظہار ہوجائے ، اور ہر جہت سے بندے کا اپنے معبود حقیقی سے تعلق اور رشتہ  ظاہر ہو۔ اور ان تمام باتوں کا اظہار اسرار عالم سیفی کے حمدیہ اشعار میں نظر آتے ہیں

نعت کے چند اشعار

حشر کے دن کوئی آسرا چاہیے
ہاتھ میں دامن مصطفیٰ چاہیے
یوں کسی کو بھی دارین ملتا نہیں
اسوۂ خاتم الانبیاء چاہیے

کوئی امید کسی کا نہ سہارا کہیو
اس بھری دنیا میں کوئی نہ ہمارا کہیو
ہر خوشی غم میں انہیں کو ہے پکارا کہیو
اک جھلک مجھکو بھی دکھلائیں نظارہ کہیو

کاش مجھ کو بھی شہ دیں کی محبت ملتی
قلب کو ملتا سکوں روح کو راحت ملتی
خاک پا اپنی ان آنکھوں میں لگاتا میں بھی
تیرے روضے پہ جو آنے کی اجازت ملتی۔

نعتیہ کلام کا تعلق چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت حسنہ سے ہے، نعتیہ کلام میں شاعر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت کرتا ہے اور یہ اظہار محبت در اصل بندگی کا سب سے اہم تقاضا ہے، کیوں کہ اللہ رب العزت نے واضح طور پر فرمایا کہ جو نبی سے محبت رکھتا ہے وہ دراصل ہم سے محبت کرتا ہے، موصوف نے نعت کے دائرے کو مکمل ملحوظ رکھتے ہوئے کلام فرمایا ہے، عموماً شعراء کرام نعتیہ کلام میں افراط اور تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں، لیکن آپ نے اپنے کلام کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔

غزل کے چند اشعار

خودی کی فکر ہے اہل سخنوراں میں ہوں
تلاش عشق ہے منزل کہ عاشقاں میں ہوں
تخیلات کی دنیا نہ پوچھئے مجھ سے
کمند ڈالتا پھرتا میں آسماں میں ہوں

مجھ سے ایثار، وفا، عشق جنوں مانگے ہے
زندگی اور ابھی میرا ہی خوں مانگے ہے
مانگنے کا بھی ہے انداز نرالا ایسا
راز پائے نہ سمجھنے کوئی یوں مانگے ہے۔


آپ کی شاعری محض شاعری نہیں ہے  بلکہ ایک فکر ہے، ایک ایسی ذات ہے  جہاں ایک حیات پھوٹتی ہے اور کہکشاں کی قوض و قضا سے کائنات روشن کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک نیوٹرون کی حیثیت ہے اسی طرح انسان خودی کا مظہر ہے۔

عرفان وآگہی کے انا کے خودی کے ہیں
آنسو جو چشم تر میں ہیں وہ بیخودی کے ہیں
اپنے لگائے فصل کو ہی کاٹتے ہیں لوگ
جو پیش مشکلات ہیں تحفے اسی کے ہیں،

خشم آلود تیور دیکھتا ہوں
ترے ہاتھوں میں خنجر دیکھتا ہوں
نظر کا زاویہ بدلا ہوا ہے
کہاں اب کچھ بھی بہتر دیکھتا ہوں۔

اسرار عالم سیفی اصول اور فن کے لحاظ سے ایک کامیاب شاعر نظر آتے ہیں، آپ کی شاعری فن پاروں پر مکمل اترتی نظر آتی ہے، آپ نے روایتی انداز سے ہٹ کر کلام کرنے کی سعی کی ہے، آپ اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کی حقیقت اور اس کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں،

میں ستم رسیدۂ عصر ہوں مجھے زندگی کی تلاش ہے
تری حمد خوانی کی جستجو تری بندگی کی تلاش ہے،
نہ غزل بیانی کا ذوق ہے نہ تو نغمہ خوانی کا شوق ہے
جو سکھائے سوز دروں فقط اسی شاعری کی تلاش ہے ۔

یقیناً کامیاب شاعری اور بامقصد شاعری وہ شاعری ہے جو حقیقت سے بالکل قریب ہو، کیوں کہ شاعری کے مقاصد لہو ولعب نہیں بلکہ شاعری ایک پیغام ہوتا ہے،
تسلسل روانی اور سلاست کی بات کریں تو ان کے کلام میں صاف نمایاں ہیں، جب ہم کلام پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبان خود بخود کلام تک پہنچ رہی ہے، 

متاع دو جہاں ہے اور میں ہوں
خدائے کن فکاں ہے اور میں ہوں
فریبِ دوستاں ہے اور میں ہوں
ہجوم دشمناں ہے اور میں ہوں،

کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا۔

آپ کے چند اشعار سے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات حاضرہ سے آپ کس قدر واقف ہیں، آپ کا دائرہ محض لوح اور قرطاس تک محدود نہیں، بلکہ آپ سماج ومعاشرہ کے احوال سے کلی طور پر واقف ہیں، اور ایک شاعر کے لئے یہ جزء لازم کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ماحولیاتی کا جائزہ لیتا رہے۔

وائرس کی نئی یلغار ہے دیکھو سمجھو
زیست اور موت کی تکرار ہے دیکھو سمجھو
داستاں آج بھی خوں رنگ مناظر کے لئے
غمزدہ صبح کا اخبار ہے دیکھو سمجھو

ہوس کی آگ بڑھتی جارہی ہے
مسلسل تشنگی ہی تشنگی ہے
خرد پہ تیرگی چھائی ہوئی ہے
گناہوں میں ملوث زندگی ہے

ہے دشمن بھائی کا بھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں
ادھر کنواں ادھر کھائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،
کوئی مسلک میں الجھا ہے کوئی فرقہ پرستی میں
مسیحا نہ مسیحائی جہاں ہم لوگ رہتے ہیں،

تمہاری الفت کا دم بھروں میں یہی تو مجھ سے ہوا نہیں ہے
جفاؤں کو بھی وفا ہی کہنا تقاضا انصاف کا نہیں ہے،

معرفت کی طرح آگہی کی طرح
زندگی ہے کہاں زندگی کی طرح
رب نے بخشی قیادت تمہیں تھی مگر
تم کھڑے ہو گئے مقتدی کی طرح،

کسی کو اب کسی کی سروری اچھی نہیں لگتی
بھلا اچھا نہیں لگتا خوشی اچھی نہیں لگتی
تمہارا کام ہے غیروں سے ملنا دل لگی کرنا
ہمیں سیفی یہ طرز مغربی اچھی نہیں لگتی،

یہ اس کی سلطنت جب بیخودی میں ڈوب جائے گی
پتہ کب تھا کسی کو دو گھڑی میں ڈوب جائے گی
تقابل عالموں کا جاہلوں سے ہو نہیں سکتا
جہالت علم کی تا بندگی میں ڈوب جائے گی،

چاند تنہا آسماں تنہا
باغ ہستی کا باغباں تنہا
کل قیامت میں بھول مت سیفی 
پاس کرنا ہے امتحاں تنہا 

امید ویاس کا جو آستاں نظر آیا 
ہمیشہ مجھ سے وہی بدگماں نظر آیا 
زمین سرخ ہے ظالم کے ظلم سے سیفی 
سکوں کا کوئی بھی خطہ کہاں نظر آیا

آپ سے میری ملاقات نہیں تھی پہلے
مہرباں صورت حالات نہیں تھی پہلے
تیرے کوچے سے اب اک پل بھی نکلنا ہے کٹھن
اس قدر تنگئ اوقات نہیں تھی پہلے،

چین حاصل ہے کسے اس گردشِ افلاک میں
کتنے انساں روز ملتے جارہے ہیں خاک میں
ہے جہان رنگ وبو میں اس قدر خوف وہراس
دل نہیں لگتا ذرا بھی کوچۂ سفاک میں،

ہر ظلم ترا پیار کی سوغات لگے ہے
تو قتل کرے بھی تو کرامات لگے ہے
تیرے لب و رخسار تو حد درجہ ہیں شیریں
لیکن تری تلوار سی ہر بات لگے ہے،

کام کچھ لوگ کیا کرتے ہیں نادانی کا
اور بن جاتے ہیں اسباب پشیمانی کا
ان کی تکلیف کبھی ختم نہ ہوگی سیفی
جن کو احساس نہیں اپنی پریشانی کا،

کبھی ایسی خطا مت کیجئے گا
تعلق منقطع مت کیجئے گا
عداوت کا چلا کر تیر سیفی
زباں کو بے مزہ مت کیجئے گا،

چاندنی رات کی معدوم ہوئی جاتی ہے
ہر خوشی نقطۂ موہوم ہوئی جاتی ہے
اہل حق خوف سے خاموش ہیں یکسر سیفی
دنیا بھی صورت معصوم ہوئی جاتی ہے،

ابھی بھی خون و خنجر سامنے ہے
تباہی کا وہ منظر سامنے ہے
سدا ہوشیار رہنا ہے ضروری
بڑا خونخوار لشکر سامنے ہے،

محبت مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں
بصیرت عالمانہ ڈھونڈتے ہیں
تعبد بھی نمائش سے ہو عاری
تکلم مخلصانہ ڈھونڈتے ہیں،

کہے ہے کون ہے بے کار شاعری کرنا
بڑا مزہ ہے مرے یار شاعری کرنا
یہ سوز قلب وجگر بھی ہے ساز عقل خرد
جنون کے بھی ہیں آثار شاعری کرنا،

کیوں بپا ہے حشر سامانی نہ پوچھ
آئینہ ہوں میری حیرانی نہ پوچھ
کارواں گم ہو گئے جس موڑ پر
پھر وہی راہیں ہیں انجانی نہ پوچھ۔

اسرار عالم سیفی کی شاعری میں درس وفا بھی ہے، عشق وعاشقی کا رنگ و آہنگ بھی، جنون وبیقراری بھی ہے، سکون وقراری بھی ہے، سوز وگداز بھی ہے، زندگی کے کئ رنگ بھی ہیں۔اسرار احمد کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست اور روانی ہے ۔ آپ نے اپنی شاعری میں عام فہم زبان‘ آسان اور سہل الفاظ استعمال کئے ہیں۔ آپ تکلف تصنع اور بناوٹ سے بچتے ہیں اور نہایت ہی سادگی کے ساتھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، مگر انداز نہایت ہی موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔
صداقت کا پہلو آپ کی شاعری میں ہر جگہ  نظر آتا ہے۔ وہ جذبات وخیالات کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔الطاف حسین حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی کے خلاف ہیں۔ اور حقیقت نگاری کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت کا ہو یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ اسرار احمد سیفی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ اسرار احمد سیفی کی شاعری حسن و بیان‘ بلند تخیلات ‘ حقیقت نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و سلاست پر مبنی ہے۔ آپ نے شاعری کوقوم وملت کی اصلاح کا بڑا اور اہم ذریعہ بتایا ۔ آپ اردو زبان وادب کے  بڑے خیر خواہ، اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) انسانی ہمدردی ایک بڑی شئے ہے، خالق سے محبت وہی کرسکتا ہے جو مخلوق سے محبت رکھتا ہے، نص قرآنی وأحاديث اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) انسانی ہمدردی ایک بڑی شئے ہے، خالق سے محبت وہی کرسکتا ہے جو مخلوق سے محبت رکھتا ہے، نص قرآنی وأحاديث اس بات کی گواہی دیتی ہے ۔
اردو دنیا نیوز٧٢ 
(خير الناس من ينفع الناس) (حدیث) 
"تم سے بہتر لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچاتے ہیں۔"
قرآن حکیم میں خیر کو کامیابی اور فلاح کا ضامن کہا گیا ہے۔ فرمایا:
(وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (قرآن) 
"اور نیکی کرو تاکہ تمہیں فلاح و کامرانی نصیب ہو۔"
اور لوگوں کو نفع پہنچانا سب سے بڑی نیکی ہے۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد بھی خلوص محبت، اخوت و بھائی چارگی، اور ایثار پر ہی ہے ۔
سال گذشتہ کی طرح اس سال بھی ضیائے حق فاؤنڈیشن ٹرسٹ کی جانب سے غریبوں اور ضرورتمندوں میں کمبل سوئیٹر تقسیم کیا گیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق 08/09/جنوری 2023 کو یہ خدمات مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی، قاری عبدالواجد ،قاری عبد الماجد، قاری ابو الحسن اور بھی کئی اہم شخصیات کے زیر نگرانی انجام دیا گیا،اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے بھی فاؤنڈیشن کے ممبران سمیت تمام کارکنان کا اس کاوش پر مباکبادی پیش کرتے ہوئے انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی تھی اور اسی وقت سے تسلسل کے ساتھ یہ تنظیم اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض ومقاصد علمی وادبی وثقافتی کام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج واشاعت، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا، ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کرکے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیمی اداروں کا قیام، قدرتی آفات اور اجتماعی تشدد سے متاثرین کے لئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف، فری طبی امداد، غریب طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی فیس کا نظم ونسق وغیرہ ہے ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک سینکڑوں پروگرام کا انعقاد ہو چکا ہے جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ماتحت بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک دینی ادارہ,, مدرسہ ضیاء العلوم،،اور ایک لائبریری,, ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری ،، کا قیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں،
,, ضیائے حق فاؤنڈیشن کی اپیل،،

ضیائے حق فاؤنڈیشن چونکہ ایک ایسی تنظیم ہے جو ہمیشہ غرباء، فقراء، اور ضرورتمندوں کی امداد کے لئے مستعد رہتی ہے،تنظیم کے اراکین اپنی ذاتی رقم سے ہی ان فریضے کو انجام دے رہے ہیں، لیکن بڑھتے اخراجات، اور خدمات کے دائرے دن بدن وسیع وعریض ہوتے جارہے ہیں، جس بنا پر اب اراکین فاؤنڈیشن سے اخراجات برداشت نہیں ہو رہے ہیں، اسی لئے آپ اہل خیر خواتین وحضرات سے گزارش ہے کہ اپنی ، اپنے اہل خانہ ، اور اپنے مرحومین کی جانب سے سالانہ، ماہانہ، مالی تعاون ،صدقات زکوٰۃ و عطیات کی رقم ٹرسٹ کو دے کر عند اللہ ماجور ہوں ،
موبائل نمبر 7909098319
9899972265

پیر, جنوری 09, 2023

سمستی پور کالج سمستی پور کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی میں تعاون کی اپیل سمستی پور

سمستی پور کالج سمستی پور کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی میں تعاون کی اپیل 
سمستی پور
اردو دنیا نیوز٧٢ 
 (پریس ریلیز) سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے سبھی اساتذہ وکارکنان کے ساتھ نئے سال کے موقع پر ایک نشست کا انعقاد کیا ۔اس نشست میں تمام اساتذہ وکارکنان  شامل رہے۔  اس موقع پر  کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے کالج کی تعمیر وترقی اور تعلیم کو تعلیم کو بہتر بنانے کی اپیل کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سب کے تعاون سے ہی ترقی ممکن ہے، انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ اساتذہ سمیت تمام کارکنان اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔  
متھلا یونیورسٹی  کے زیر اہتمام 10/دسمبر سے شروع ہونے والے بی اے سال دوم کے امتحانات پوری شفافیت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ 9 نومبر کو آخری پرچہ لیا گیا ،سمستی پور کالج میں  امتحانات میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے جدید آلات خصوصاً موبائل فون وغیرہ پر مکمل پابندی عائد تھی ۔کالج کے کارکنان ہمہ وقت مصروفِ عمل رہیں، جس کی بنا پر کسی بھی امتحانی مرکز میں کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہیں ہوا، تعلیمی بورڈ کی جانب سے امتحانی مراکز کی سیکورٹی کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے تھے۔واضح رہے کہ امتحان کے آخری دن سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار نے تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک پر مغز خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ تعلیمی دراصل انسانی فلاح کا پہلا زینہ ہے، تعلیم سے ہی ہم جہالت کا قلعہ قمع کر سکتے ہیں، انسان کو چاہیے کہ دنیا کی تمام ضروریات میں اہم ضرورت حصول علم کو سمجھے، علم ہی وہ اجالا ہے جو تاریکی اور جہالت دور کرسکتی ہے ۔اس موقع درگیش رائے نے بھی اظہار خیال  کرتے ہوئے کہا کہ امتحان در اصل تعلیمی اور تدریسی پیمائش کا نام ہے، اور امتحان ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم اگر محنت و مشقت کریں گے تو اس کا نتیجہ بھی ہم خود دیکھیں گے ۔اس کے بعد سمستی پور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار کی جانب ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام گیا،  اس موقع پر تمام کارکنان موجود رہیں۔ سمستی پور کالج کے اساتذہ میں ڈاکٹر صفوان صفوی،  ڈاکٹر صالحہ صدیقی، مالا کماری، روی کمار، منہر سنگھ و دیگر اساتذہ  بھی موجود رہیں اور انھونے بھی پرنسپل صاحب کا شکریہ ادا کیا،

اتوار, جنوری 08, 2023

عامر سلیم خان ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بے باک صحافی، ہمارا سماج دہلی کے مدیر ، ادیب

عامر سلیم خان ____
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 بے باک صحافی، ہمارا سماج دہلی کے مدیر ، ادیب، شاعر، ناول نگار، پریس کلب آف انڈیا کے رکن ، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر مرنجا مرنج شخصیت کے مالک چودھری امیر اللہ عرف عامر سلیم خان کا 12 دسمبر 2022ءکو دن کے ایک بجے بے بی پنت اسپتال نئی دہلی میں انتقال ہو گیا ، وہ قلب کے مرض میں مبتلا تھے اور 10 دسمبر کودوسری بار انہیں ہارٹ اٹیک ہوا، تین روز قبل انہیں اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا، مرض اتار چڑھاؤ آتا رہا ، وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا، اور پھر سانس کی ڈور اس طرح اتری کے وہ دوبارہ چڑھ نہ سکی، پس ماندگان میں تین لڑکے اور ایک اہلیہ ہیں، سب سے بڑا لڑکا تیرہ سال کا ہے ، تینوں لڑکے اسکول میں پڑھتے ہیں، جنازہ دن گذار کر ساڑھے آٹھ بجے شب مہدیان قبرستان میں ہوا، مولانا محمد رحمانی ڈاکرئرکٹر جامعہ سنابل نئی دہلی نے جنازہ کی امامت فرمائی اور تدفین قبرستان مہدیان میں والد محمد سلیم خان کے پہلو میں ہوئی ، جنہوں نے صرف ایک ماہ دس دن قبل جان جان آفریں کے سپرد کیا تھا۔
عامر بن سلیم خان (م 2 نومبر 2022ء) اڑتالیس سال قبل1974ءمیں موجودہ ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے ”کوہڑا“ گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد نے ان کا نام چودھری امیر اللہ رکھا تھا، ابتدائی تعلیم کے بعد جب وہ دہلی آئے تو ان کے استاذ قاری فضل الرحمن انجم ہاپوڑی نے ان کا نام بدل کر عامر سلیم خان کر دیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہو گیے، دہلی انہیں مولانا ابو الوفا صاحب لے کر آئے تھے جو ان کے گاؤں کے ہی رہنے والے ہیں، دہلی میں آگے کی تعلیم کے لیے ان کا داخلہ پہلے مدرسہ ریاض العلوم میں ہوا، پھر وہ مدرسہ رحمانیہ ابو الفضل انکلیو منتقل ہو گیے، وہاں سے جامعہ رحیمہ مہدیان آگیے اور یہیں سے فراغت پائی ، صحافی بننے کے قبل تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رحیمیہ مہدیان سے کیا، رہائش بھی ان مہدیان میں تھی ، اس لیے صحافی بننے کے بعد بھی تدریس کی ذمہ داری ادا کرتے رہے، ان کا حافظہ مضبوط تھا اس لیے واقعات وحادثات حافظہ کی گرفت میں جلد آجاتے تھے، انہیں اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبان سے بھی خاصی انسیت تھی، ان کے ذمہ بہت دنوں تک جامعہ رحیمیہ کے حساب وکتاب کی ذمہ داری بھی رہی ۔
 عامر سلیم خان نے صحافت کا آغاز نامہ نگار کی حیثیت سے کیا،ا نہوں نے راشٹر یہ سہارامیں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا، دو سال بعد وہ ہندوستان اکسپریس دہلی سے وابستہ ہو گیے، ہندوستان اکسپریس سے الگ ہو کر خالد انورصاحب نے جب ہمارا سماج نکالا تو وہ اس سے وابستہ ہو گیے، خالد انور کے ایم ایل سی بننے کے بعد وہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر بن گیے اور آخر سانس تک ہمارا سماج کی خدمت کرتے رہے ،ا ن کا لکھنے کا انداز ، مخصوص لب ولہجہ اور لا جواب سر خیوں کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
 صحافت کے ساتھ انہوں نے ایک ناول بھی لکھا تھا جسے انہوں نے با خبر ذرائع کے مطابق نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کے لیے اے رحمن ایڈووکیٹ اور ارشد ندیم کو میل سے بھیج دیا تھا، جنہوں نے اس ناول کو دیکھا ہے ان کے بقول اس کی کہانی دو مدرسہ میں پڑھنے والے لڑکوں کی کہانی ہے جو گاؤں سے شہر آ کر یہاں کے ماحول میں الجھ کر رہ جاتا ہے، عامر سلیم نے اس کہانی کا پلاٹ اس طرح تیار کیا ہے کہ سیاسیات ، سماجیات ، ماحولیات، وغیرہ سب کو اس کا حصہ بنا دیا ہے اور صاف شستہ زبان کے ذریعہ نیم رومانی انداز میں پلاٹ کو آگے بڑھا کر اختتام تک پہونچا دیا ہے ۔
عامر سلیم نے شاعرانہ ذوق بھی پایا تھا، کبھی کبھی اس میں بھی طبع آزمائی کرتے اور موقع ملتا تو مجلسوں میں بھی سنا بھی دیا کرتے تھے ، صحافت میں جس طرح بے باکی کے ساتھ وہ لکھا کرتے تھے، ان کی شاعری کے موضوعات بھی اسی طرح کے ہوتے تھے، جوہر اس شخص کو چوٹ پہونچاتے تھے جس سے ان اشعار کا تعلق ہوتا، ایسے موقع سے سامعین کو’ ’اَلحَقُّ مُرّ “ سچ کڑوا ہوتا ہے کی صحیح تصویر کا ادراک ہوتا۔
صحافت میں ہر موضوع پر لکھنا، صحافی کی مجبوری ہوتی ہے ، چنانچہ ان کی تحریروں کے موضوعات بھی متنوع ہوتے تھے، انہوں نے بعض شخصیات پر بھی مضامین لکھے، ان کی تعداد اتنی تو ضرورہے کہ وہ ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیں، لیکن اسے مرتب کرے گا کون؟ ان مضامین کو جمع کرنا اور پھر اسے طباعت کے مراحل سے گذارنا بہت آسان کام نہیں ہے، احباب ورفقاءبھی فاتحہ خوانی کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ متعلقین اس کام کے لیے فکر مند ہوں، اللہ کرے عامر سلیم خان کے معاملہ میں ایسا نہ ہو۔
 جس کم عمری میں عامر سلیم خان چل بسے، اس نے ان بچوں کی کفالت کا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے ، یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارا سماج کے چیف ایڈیٹر جناب خالد انور ایم ایل سی نے ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ، یہ ایک اچھی روایت قائم ہوئی ہے ، اللہ کرے اس پر عمل بھی ہوجائے، ورنہ کارکن صحافی کی موت کے بعد جو ان کے خاندان کا حشر ہوتا ہے ، اس کے لیے کسی مثال اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے ، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...