Powered By Blogger

اتوار, جنوری 22, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے، اس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی تھی اور اسی وقت سے تسلسل کے ساتھ یہ تنظیم اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض ومقاصد علمی وادبی وثقافتی کام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج واشاعت، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا، ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کرکے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیمی اداروں کا قیام، قدرتی آفات اور اجتماعی تشدد سے متاثرین کے لئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف، فری طبی امداد، غریب طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی فیس کا نظم ونسق وغیرہ ہے ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک سینکڑوں پروگرام کا انعقاد ہو چکا ہے جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ماتحت بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک دینی ادارہ,, مدرسہ ضیاء العلوم،،اور ایک لائبریری,, ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری ،، کا قیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
اب ضیائے حق فاؤنڈیشن 2023 کا کیلنڈر بھی منظر عام پر آچکا ہے،جسے قارئین نے سراہا، کیلنڈر میں فاؤنڈیشن کا مختصراً تعارف بھی ہے، اور اب تک تقریباً دو سو لوگوں کو بذریعہ ڈاک بھیجا جا چکا ہے، اسے پٹنہ آفس برانچ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔یا ان نمبرات پر رابطہ کرکے بذریعہ ڈاک بھی منگا سکتے ہیں
7909098319
9899972265

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقادسلسلہ وار

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے


تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ایک بہترین پہل ہر سال کی طرح اس سال بھی سردی کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے غریب ومسکین کے درمیان گرم کپڑے تقسیم کثیرتعداد میں علماء کرام تشریف لائے تمام احباب کی مشورے سے یہ کارخیر کا مکمل کام وجود میں آیا تمام احباب تنظیم کو سراہا اور تنظیم کے حق میں دعائیں کی اللہ اس تنظیم کو قوم وملت کی خدمت کیلئے ہمیشہ سرگرداں رکھے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اراکین تنظیم اور خصوصا مولاناعبدالوارث صاحب مظاہری کواللہ عمرخضرعطافرمائے تاکہ یہ تنظیم ہمیشہ لوگوں کی درد کا مسیحا ثابت ہوتا رہے آمین یارب العالمین 

      

ہفتہ, جنوری 21, 2023

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مولانا محمد مکرم حسین ندوی بن مولانا معظم حسین قاسمی کا تعلق علمی خانوادے سے ہے، اس خانوادہ کی علمی خدمات کا دائرہ متنوع بھی ہے اور وسیع بھی، خود مولانا محمد مکرم حسین ندوی اچھے حافظ قرآن ، بہترین نثر نگار، اور اچھے شاعر ہیں، انہوں نے جامعہ رحمانی مونگیر ، جامعہ عربیہ باندہ ، جامع العلوم پٹکا پور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کسب فیض کیا ہے، اور ان اداروں اور یہاں کے اکابرین کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، عالمانہ وقار، داعیانہ کردار اور سماج میں علم کو پھیلانے کی جد وجہد میں لگے رہے ہیں ان کی اس جد وجہد کا مرکز ان دنوں ماڈرن ویلفئیر اکیڈمی خان مرزا سلطان گنج پٹنہ ہے، وہ ابو البیان، ابو الکلام تو نہیں ہیں، لیکن ابو العمل ہیں، خاموشی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، شور وغوغا، جلسے جلوس اور ہنگامی زندگی کو پسند نہیں کرتے ، سنجیدگی مزاج میں ہی نہیں چال ڈھال ، بود وباش سبھی میں ہے، اتنی سنجیدگی کہ کبھی کبھی خشکی کا احساس ہوتا ہے، سنجیدگی کا غیر معمولی غلبہ ہوتا ہے، اس لیے ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے زیادہ نہیں کھلتے، شاید یہ کیفیت ان کے اوپر ان کے صاحب زادہ با بو حذیفہ کے انتقال کی وجہ سے ہوا ہو ، اس زخم جگر نے انہیں باضابطہ شاعر بنا دیا ، اس سانحہ اور حادثہ کی کہانی مولانا موصوف کی پہلی کتاب ’’کار نامۂ حیات‘‘ اور ’’زخم جگر‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔
’’موجودہ کشمکش کا حل او رمتنوع شعری مجموعہ‘‘ ان کی دوسری تصنیف ہے، جس کے صفحات ایک سو ساٹھ ہیں او رقیمت سو روپے زائد نہیں ہے، کمپوزنگ ان کی صاحب زادی صالحہ فردوس نے کی ہے، طباعت ایجوکیشنل پبلیکیشن نئی دہلی سے ہوئی ہے، آپ اسے پٹنہ کے مختلف مکتبوں او رمرکز سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آسانی سے ملنے کے لیے ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی سلطان گنج پٹنہ ، یا موبائل نمبر 9801266615 سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ نثری مضامین کے لیے اور ایک حصہ شعری ہے، جو نعت پاک، قصیدے، ترانے، سپاس نامے اور مرثیوں پر مشتمل ہے، چند اشعار کی ایک نظم احقر کے بارے میں بھی اس کتاب میں شامل ہے، اردو کے نام پر اور الیکشن کے احوال پر بھی ایک نظم شامل کتاب ہے، آخر میں قطعہ اور مناجات سے بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
نثری حصہ کا آغاز انتساب سے ہوتا ہے جو روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر ہے ، آپ روایتی انداز کے انتساب کی تلاش کرنا چاہیں تو مایوسی ہاتھ لگے گی،البتہ مصنف نے اس انتساب میں تصنیف کتاب کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں: 
’’موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت کا علاج وحل ڈھونڈھنا اور بتانا وقت کی اہم اور اشد ضرورت سمجھتے ہوئے حصول دنیا کے تذکروں اور تبصروں میں گم خدائے واحد اور رب کائنات کو کھل کر قرآن وسنت سے دور، قوت ایمانی اور غیر ت اسلامی سے محروم لوگوں کا رخ اس طرف موڑنا ضروری تھا کہ موجودہ کشمکش کا حل حدیث وقرآن پر عمل ، قوت ایمانی میں اضافہ ، اللہ سے دور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ایک پیراگراف پورے ایک جملہ میں سما گیا ہے، مقصد تصنیف کی پوری وضاحت ہو گئی، عموماطویل جملوں کی وجہ سے تعقید پیدا ہوجاتا ہے،ا سی لیے مختصر جملوں کا چلن آج عام ہے، لیکن جن معنی کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 کتاب کے نثری حصہ میں کل اکسٹھ (۶۱) مضامین ہیں اور تین نعتیں، ہوسکتا ہے ان میں اور نعتوں کا اضافہ ہو، یہ نعتیں نثری حصہ میں برکتاً اور تیمناً شامل ہیں، شعری حصہ میں دوسری تین نعتوں کو شامل کیا گیا ہے، مضامین میں بڑا تنوع ہے، جس طرح شعری حصہ میں تنوع ہے، بات قرآن کریم سے شروع کی گئی ہے، اللہ کی بندگی کے تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے، سیرت رسول سے دوری کو زوال کا سبب بتایا گیا ہے، دشمن کو شکست دینے کے فارمولے کا ذکر ہے، مساجد کے انہدام پر رجائیت بھری تحریر ہے اور کئی مضامین اس حوالہ سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی قدرت سے اپنے گھر کی تعمیر کرائیں گے ، مساجد توڑنے کے عوض لا تعداد مسجدوں کی تعمیر ہوئی ہے، مؤمن کامل بننے، تعلق مع اللہ پیدا کرنے، عمل وکردار سے اسلام کی اشاعت پر زور دیا گیا ، مجموعی طور پر جو مضامین ہیں، ان میں موجودہ کشمکش کے حل کے طور پر دین وایمان پر ثبات، اللہ پر بھروسہ کو ضروری اساس قرار دیا گیا ہے، مولانا نے حالات کا تجزیہ اپنی بصیرت اور تجربہ کی روشنی میں کیا ہے ، جو دلوں کو اپیل کرتا ہے ، اور عمل پر ابھارتا ہے۔
 شعری حصہ بھی سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے، بعض اشعار میں تخیل کی رفعت بھی ہے اور فکر کی ندرت بھی بہتر تو یہی ہوتا کہ نثری اور شعری حصہ الگ الگ کتاب کی شکل میں ہوتا ، کیوں کہ موجودہ دور مین یہ اختلاف مقبول نہیں ہے، لیکن مولانا کی اپنی کچھ مصلحت ہوگی، جو راقم الحروف نہیں جانتا، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو ملت کے لیے مفید بنائے اورمولانا کو فکر وخیال کے گلستاں آباد کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین یا رب العالمین

جمعہ, جنوری 20, 2023

تذکرہ مخدومان منیر __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تذکرہ مخدومان منیر __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
خانقاہوں نے اصلاح ظاہر وباطن ، تزکیۂ نفوس اور روحانی تربیت کے میدان میں پوری دنیا میں عموما نیز بر صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں خصوصا بڑا کردار ادا کیا ہے، خانقاہ سے منسلک ان بوریہ نشینوں ، سجادگان، اور صوفیاءکرام نے رب سے قریب کرنے اور دلوں کو جوڑنے کی مثالی اور انتھک جد وجہد کی جس کے اثرات اس قدر مرتب ہوئے کہ یہ مراکز بلا تفریق مذہب وملت مرجع خلائق بن گیے، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بڑھیا حلوہ بنا کر لائی اور اصرار کرنے لگی کہ میں تو اسے کھلا کرہی جاؤ گی، حضرت نے بڑھیا کی خواہش کا احترام کیا اور حلوہ کھالیا، بڑھیا کے جانے کے بعد مریدوں نے اس طرف متوجہ کیا کہ حضور آپ کا روزہ تھا، فرمایا : روزہ نفلی تھا اس کی قضا ہوجائے گی، لیکن یاد رکھو، دل کے ٹوٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے۔
 اسی طرح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک معتقد نے آپ کی خدمت میں قینچی پیش کی ارشاد فرمایا: فقیر کے یہاں قینچی کا کیا کام ، مجھے سوئی دھاگہ لا کر دو، وہ میرے کام کا ہے، اس لیے کہ میں توسِینے اورجوڑنے کا کام کرتا ہوں تو ڑنے اور کاٹنے کا نہیں۔
 خانقاہ میں جو کام ہوتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ”احسان“ کہتے ہیں اور عرف عام میں تصوف وطریقت، یہ وہ کام ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان کو اللہ رب العزت کا استحضار اس قدر ہوجاتا ہے کہ ہر عبادت کے موقع سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، اگر اس مقام تک نہیں پہونچ پاتا تو کم از کم اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دیکھ رہا ہے، حدیث جبریل میں زبانِ رسالت سے یہ مذکور ہے کہ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم انہیں دیکھ رہے اگر ایسا نہ ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہاہے۔
اللہ سے ایسی قربت پیدا کرنے اورسوئے حرم لے جانے کے لیے بہار میں بھی بہت ساری خانقاہیں قائم ہیں، ان خانقاہوں میں ایک قدیم اور بڑی خانقاہ ، خانقاہ منیر شریف ہے، جس نے سینکڑوں سال سے طریقت کی بساط پر رجال سازی کا کام جاری رکھا ہے ، اس کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری ہیں، جو سجادہ نشیں کے ساتھ ساتھ متولی ودیوان درگاہ خانقاہ منیر شریف بھی ہیں۔اسی خانقاہ اور خانوادہ کے گل سر سبد معروف عالم دین مولانا تقی الدین ندوی فردوسی مدظلہ العالی ہیں جن کے فیوض وبرکات ، شفقت ومحبت سے بندہ بھی پٹنہ میں مستفیض ہوتا رہتا ہے۔
”تذکرہ مخدومان منیر “ حضرت صاحب سجادہ مدظلہ کی قابل قدر ولائق تحسین تصنیف ہے، جسے جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف نے مرتب کیا ہے ، کتاب میں حضرت امام تاج فقیہ کے سلسلے کے اکابر اور سجادگان کے حالات زندگی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تاریخ بھی ہے، تذکرہ بھی ہے، تحقیق بھی ہے اور سلاسل سے متعلق معلومات کا ذخیرہ بھی ، اس نام میں تذکرہ کا لفظ دیکھ کر بے ساختہ مجھے موجودہ سجادہ نشیں کے والدحضرت سید شاہ نور الدین فردوسی منیری رحمة اللہ یاد آگیے، جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی کتاب ”تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی“ پیش کی تو فرمایا کہ آپ کے تواضع نے اس کتاب کو ”تذکرہ“ بنا دیا، ورنہ یہ تو ویشالی کی پوری تاریخ ہے، اس کتاب کے نام میں ”تذکرہ“ کا لفظ بھی کچھ ایسا احساس دلاتا ہے، لیکن میں صاحب سجادہ کو یہ کہنے کی پوزیشن میں اپنے کو نہیں پاتا۔
 یہ قیمتی تاریخی مرقع چھ ابواب پر مشتمل ہے اور قدیم طرز کے مطابق ہر باب کے ذیل میں چند فصول ہیں، پہلا باب ابتدائیہ، تشکر وامتنان ، تہدیہ وانتساب کے بعد شروع ہوتا ہے، جس میں دس فصلیں ہیں اور ان فصلوں کے ذیل میں تصوف کے تعارف، اشتقاقات، اصطلاحات، مقاصد ، حقائق ، اصحاب تصوف ، کتب تصوف، تعلیمات اور سلاسل تصوف کا تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا گیاہے ، اس باب میں مصنف کی محنت سے بڑے مفید مضامین جمع ہو گیے ہیں، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، گو مصنف نے اسے مقدمہ کا نام نہیں دیا ہے ۔
بابِ دوم امام تاج فقیہ اور منیر شریف کے عنوان سے ہے ، اس باب میں منیر شریف کی تاریخ ، مقدس بار گاہیں، مزارات ، مسجدیں، وہاں کے شہدائ، صحبت میلہ ، منیرکامشہور لڈو اور بزرگوں کے اعراس پر تاریخی حقائق، سلیقہ سے آٹھ فصلوں کے ذیل میں مذکور ومندرج ہیں ، اور کہنا چاہیے کہ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔
 بابِ سوم امام تاج فقیہ اور خانقاہ منیر شریف کے نام ہے، چوں کہ اس خانقاہ کی بنیادمیں امام تاج فقیہ ہیں؛ اس لیے اس باب میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ آیا ہے، لیکن اصلاً یہ باب خانقاہ منیر شریف کی تاریخ ، نادر تبرکات ، دوسری خانقاہوں سے اس کے تعلقات، امراءوسلاطین کی حاضری، جنگ آزادی میں خانقاہ منیر شریف کا کردار اور خانقاہ کے بزرگوں کے اعراس وتذکرہ پر مشتمل ہے، چھ فصلوں کے ذیل میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔
 اس تاریخی سلسلے کے ذکر کے بعد کتاب میں دوباب تذکرہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، چوتھے باب میں امام تاج فقیہ اور ان کے خانوادہ کا تذکرہ مرقوم ہے، جس میں ان کی ملی ، مذہبی ، تعلیمی دینی خدمات اور تصوف کے اعتبار سے ان حضرات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب بھی چھ فصلوں پر مشتمل ہے، جس مین بانی خانقاہ امام تاج فقیہ، ان کے تین صاحب زادگان مخدوم اسرائیل ، مخدوم اسماعیل اور مخدوم عبد العزیز رحمہم اللہ کے ساتھ امام تاج فقیہ کے پوتے مخدوم یحیٰ منیریؒ اور پرپوتے مخدوم شرف الدین بن یحیٰ منیریؒ کے احوال وآثار اور طریقت کے باب میں ان کی زریں خدمات کا تذکرہ بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے، یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت مخدوم شرف الدین احمدیحی منیری ؒ کی ولادت منیر شریف خانقاہ ہی کے احاطہ میں ہوئی تھی، آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے، اور زیارت کے لیے لوگوں کی وہاں کثرت سے آمد ورفت رہتی ہے۔
تذکرہ کا دوسراحصہ اور پانچواں باب خانقاہ منیر شریف کے سجادگان کے تذکروں پر مشتمل ہے، جس میں حضرت امام تاج فقیہ ہاشمیؒ سے لے کر موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری مدظلہ کے سوانحی کوائف اور خدمات کا مرقع پیش کیا گیا ہے، جس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ”ایں خانہ ہمہ آفتاب“ است۔
 کتاب کا آخری باب ”مناقب مخدومان منیر“ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس میں کل آٹھ فصلیں ہیں، ہر فصل میں سلسلہ کے ایک بزرگ کے احوال وآثار، خصائص وتفردات اشعار میں بیان کیے گیے ہیں، اس باب میں قصیدہ منیر شریف ، منقبت امام تاج فقیہ، مخدوم یحیٰ منیری ، مخدوم شرف الدین ابن یحیٰ منیری، مخدوم دولت شاہ منیری، مخدوم عنایت اللہ فردوسی منیری ، مخدوم نور الدین منیری رحمہم اللہ اور موجودہ سجادہ نشیں کے عنوان سے شاعر نے اپنے جذبات وخیالات ، مشاہدات واحساسات کو اشعار میں بیان کیا ہے۔ یہ ساری منقبت اور قصائد اس کتاب کے مرتب جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف کے فکروفن کا نتیجہ ہے ، ان اشعار میں عقیدت ومحبت کا سیل رواں موجزن ہے، اس قسم کے اشعار میں تخلیات کی رفعت ، فکر کی ندرت اور فنی باریکیوں کی تلاش کے بجائے طریقۂ اظہار وابلاغ عقیدت ومحبت پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے، اس اعتبار سے اس کا مطالعہ عام لوگوں کو عموما اور سلاسل سے منسلک لوگوں کو خاص کیف وسرور میں مبتلا کرے گا۔
 اس کتاب کا ناشر مخدوم جلیل منیری پبلشنگ اکیڈمی، جامعہ امام تاج الفقہائ، خانقاہ منیر شریف ہے، تقسیم کار کی ذمہ داری مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری کی ہے، سید شاہ میران فردوسی ، وردہ فردوسی اور شبنم بانو نے پروف ریڈنگ کا کام پوری توجہ سے کیا ہے، مخدوم یحیٰ منیری ریسرچ سنٹر نے پیش کش کی ذمہ داری لی، ان تمام حضرات کی محنت کے طفیل یہ قیمتی دستاویز اور تاریخی تحریر معمولی ہدیہ دو سو پچاس روپے میں آپ تک پہونچ رہی ہے، سب ہم تمام کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ رب العزت سب کو بہتر بدلہ عطا فرمائے اور خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔آمین

جمعرات, جنوری 19, 2023

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اردو دنیا نیوز ٧٢
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دل ودماغ میں رچی بسی ہوئی ہے، یہ ہمارے دین وایمان کا حصہ ہے، اس کے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال ودولت ، گھر بار، باپ ماں اور بیوی بچوں کی بہ نسبت ایمان والوں کو اللہ ورسول سے زیادہ محبت نہ ہو تو سزا کے منتظر رہنے کو کہا ہے،ارشاد باری ہے: آپ کہہ دیجئے: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دیں اور اللہ تعالیٰ بے حکمی کرنے والوں کو ان کے مقصود تک نہیں پہونچاتا۔ (سورہ توبہ : آیت ۴۲ رکوع ۳)
یہ آیت ہجرت کے پس منظر میں ہے، لیکن یہ حکم اسی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر دور کے لیے ہے،اس آیت میں اللہ اور رسول کی محبت کو تمام چیزوں کی محبت سے بر تر وبالا رکھنے کی بات کہی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پرسزا کا اعلان بھی کیا گیا ہے، اس لیے ایمانی واسلامی زندگی بغیراللہ رسول کی محبت کے ممکن ہی نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی اسوقت تک مو من کامل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاوں، ایک موقع سے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! سب کی محبت مغلوب ہو چکی ہے ، صرف اپنی ذات سے تعلق زیادہ معلوم ہوتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابھی نہیں عمر ، تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اب اپنی ذات سے بھی زیادہ آپ سے محبت معلوم ہوتی ہے، ارشاد ہوا، ہاں اب ، یعنی اب ایمان مکمل ہو گیا ، اسی محبت کا تقاضہ تھا کہ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ میں پھانسی کے پھندے سے اتار دیا جاؤں اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں کانٹے چُبھیں ۔
اس قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیوں کرنی چاہیے ؟ اس لیے کرنی چاہیے کہ محبت کے تمام اسباب جمال، کمال، احسان اور قرب وہ سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں مکمل طور پر پائے جاتے ہیں، جمال ایسا کہ آپ سے زیادہ خوبصورت انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا، کمال ایسا کہ32 سال کی مختصر مدت میں کایا پلٹ کر دی، ایک خدائے واحد کی پرستش کا غلغلہ بند ہوا ، جہالت دور ہوئی، علم کی روشنی پھیلی، ظلم وستم کا خاتمہ ہوا، کراہتی ہوئی انسانیت نے سکون وآرام پایا، انصاف کی حکمرانی قائم ہوئی، احسان ایسا کہ انسان تو کیا چرند وپرند بھی آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہوئے، دشمنوں کی جان بخشی کی گئی، اور دوستوں پر شفقت ومحبت کی ایسی بارش ہوئی کہ سب گرویدہ ہو گئے اور قرب ایسی کہ قربت خداوندی کا حصول آپ کے قرب کے بغیرممکن نہیں ، اس لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت فطری ہے، اور اس کے لیے کسی دلیل اور حجت کی ضرورت نہیں ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے
حسن یوسف ، دم عیسیٰ ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں جس شخص میں ہوں اس نے ایمان کی حلاوت پالی، ایک وہ شخص جس کو اللہ کے رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے وہ شخص جو محبت صرف اللہ کے لیے کرے اور تیسرا وہ جسے اللہ نے کفر سے بچالیا اور وہ کفر کی طرف لوٹنے سے اس قدر نفرت کرے جیسی آگ سے کرتا ہو۔
ایک دوسری آیت میں اللہ سے محبت کا تقاضہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرار دیا گیا ، اور اطاعت رسول پر مغفرت خدا وندی کا مزدہ سنایا گیا ، گویا اللہ کی خوشنودی کا حصول اتباع رسول کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کی مرضیات پر چلتے اور آپ کے چشم وابرو کے اشارے پر قربان ہونے کو تیار رہتے تھے، ایک بار حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ کے اعلان کی آواز کانوں میں پڑی کہ بیٹھ جا وہیں بیٹھ گیے او رکہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ایک قدم آگے بڑھایا جائے، ایک صحابی نے اپنا قُبّہ صرف اس بات پر توڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرما یا تھا کہ یہ کس کا قبہ ہے، صحابی نے محسوس کیا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں کیا، تبھی تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح کا مال اس کے مالک کے لئے قیامت میں وبال جان ہوگا، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار کسم سے رنگا ہوا گلابی گیروا رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا ، یہ کیا ہے؟ یہ سن کر اس کپڑے کو چولھے میں ڈال کر جلا ڈالا ، دوسرے دن آنے پر دریافت کیا کہ اس کپڑے کو کیا کیا ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جلا ڈالا ، ارشاد ہواکسی عورت کو کیوں نہیں دے دیا ، ان کے لئے اس طرح کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے،اتنا ہی نہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جاں نثاری کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے مقابل اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے والے تیر وتفنگ کا رخ بھی اپنی طرف کر لیتے تھے تاکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بھی بیکا نہ ہو، غزوۂ اُحد کے موقع سے حضرت ابو طلحہؓ آپ کی طرف آنے والے ستر سے زائد تیروں کو اپنے ہاتھ اور سینے پر روکا ، جس کے سبب ان کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے شل ہو کر رہ گیا تھا، اسی موقع سے حضرت ابو طلحہؓ کا یہ قول بھی کتب احادیث میں مذکور ہے کہ میرا سینہ آپ کے لیے موجود ہے، اسی غزوۂ حضرت ابودجانہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ ڈھال بن گیے اور تیر ان کی پیٹھ میں پیوست ہوتے رہے، وہ حرکت بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں میری حرکت کی وجہ سے کوئی تیر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر تک پہونچ نہ جائے، جب دشمنوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیلائی تو ایک صحابیہ بے اختیار مدینہ سے چل کر اُحد پہونچیں راستہ میں انہیں بتایا گیا کہ تمہارا باپ شہید ہو گیا، وہ آگے بڑھتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں، پھر بتایا گیا کہ بھائی، بیٹا اور شوہر بھی اس لڑائی میں کام آگیے؛ لیکن ہر بار وہ یہی پوچھتی تھیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ آپ خیریت سے ہیں، کہتی ہیں مجھے ان کی زیارت کراؤ اور جب رخ انور کی زیارت ہو گئی توکہنے لگی میرا سب کچھ آپ پر قربان، باپ، بھائی، بیٹا ،شوہر سبھی قربان؛ آپ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں قابل برداشت ہیں۔
یہ اور اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام کے نزدیک محبت رسول کا مطلب اللہ کے رسول کی مرضیات پر چلنا تھا،اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے اور ہمارے ہر کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ان کی ہدایات کے مطابق ہوں ، مجازی محبت میں بھی آدمی محبوب کی ایک ایک ادا پر مر مٹتا ہے، یہ تو حقیقی محبت کا معاملہ ہے، اس میں کمی ، کوتاہی کسی صورت گوارہ نہیں، مسلمانوں کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مثالی ہے اور ہم سب اس کے لیے مر مٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، ناموس رسالت پر کسی قسم کا حملہ اور کسی قسم کی توہین ہمیں بر داشت نہیں، جان ، مال ، آل واولاد، باپ ماں، سب آپ پر قربان ، اتنی محبت ہونے کے با وجود ہم اپنا رنگ ڈھنگ سنت کے مطابق نہیں بنا پا رہے ہیں، زندگی سنت کے مطابق نہیں گذر رہی ہے، سماجی ، معاشی ، معاشرتی زندگی میں عموما سنتوں کا چلن نہیں ہے، ان تمام معاملات میں ہم من مانی کر رہے ہیں، اور بھول جاتے ہیںکہ ہمارے اعمال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو با خبر کرایا جاتا ہے، محبت رسول کے دعویٰ کے با وجود سنت رسول سے اس قدر دوری قابل غور ہے اور اس صورت حال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عملی زندگی میں سنت سے دوری کی کسر ہم اظہار محبت کے نت نئے طریقے ایجاد کرکے پورے کر رہے ہیں، حالاں کہ اظہار محبت کا بھی وہی طریقہ معتبر ہے، جو محبوب کو پسند ہو ، محبوب جلسہ ، جلوس ، مظاہرے کو پسند نہ کرتا ہو اور ہم ا ن چیزوں کے ذریعہ محبت کا اظہار کریں، تو محبوب کی خوش نودی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ بلکہ جو طریقے انہیں پسند نہیں، اس کو اپنا کرہم کچھ ان کے عتاب کے ہی شکار ہوں گے، رضا کے نہیں، اس حقیقت کو ہم سب کو جان اور سمجھ لینا چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ ہمیں جشنِ آمدِ نبی تو یاد رہ گیا ہے، مِشن آمدِ نبی سے ہم سب غافل ہیں۔

بند فائلیں ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بند فائلیں ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری دفاتر میں عموماً اور دوسری جگہوں پر خصوصا کچھ فائلیں ہوتی ہیں، جن کا تعلق افراد کی کار کردگی اور اس کے ذریعہ اٹھائے گیے ان اقدام سے ہوتا ہے، جن پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جاسکتے ہیں، یہ فائلیں عام حالتوں میں سرد بستوں میں بند رہتی ہیں، بہت خاص لوگوں کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرد بستہ جب گرم بستے میں بدلے گا تو ملکی حکومت پر، حزب مخالف پر یا کسی فرد پر اس کے کیا اثرات ہوں گے ، پارٹیوں کے ذمہ دار ، حکومت کے سر براہان اور کچھ خاص لوگ وقت کا انتظار کر تے رہتے ہیں کہ اس بستے میں پڑے جِن کو کب باہر نکالا جائے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اور اپنے مخالفین کو زک پہونچائی جا سکے، جن لوگوں کی نظر سیاست پر ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ بر سر اقتدار لوگوں نے کس طرح اس کا استعمال کیا ہے او راپنے حریفوں کو چِت کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھ کنڈے اپنائے ہیں، ایسا ہندوستان ہی نہیں عالمی پیمانے پر ہوتا آرہا ہے اور ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سرد بستے سے نکلنے والایہ جن کئی کو پھانسی کے پھندے ، حبس دوام ، عمر قید تک پہونچا چکا ہے، یہ ایک خطرناک کھیل ہوتا ہے جو مخالفین کو موافق بنانے ، ان کے منہ کو بند کرنے ، عوامی سطح پر ساکھ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا رہا ہے، یہ سو یا ہوا جن کتنی مدت سو یا رہے گا، کہا نہیں جا سکتا، اس کو جگانے کے لیے مناسب وقت آنے میں بر سہا برس لگ سکتے ہیں یہ کبھی بعد از مرگ بھی جاگتا ہے ، جب بھی جگایا جاتا ہے، ایک بھونچال آتا ہے، زلزلہ پیدا ہوتا ہے، اتھل پتھل مچتی ہے اور بہت کچھ بدلتا ہے یا بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 بات در اصل کہنے کی یہ ہے کہ جس طرح سرکاری فائلیں بستے میں بند ہو کر سوئی رہتی ہیں اور لوگ اس سے غافل رہتے ہیں اور گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان فائلوں کے کھلنے پر کن حالات سے سابقہ پڑے گا ویسے ہی انسانوں کے اعمال کی فائل کراماً کاتبین کے ذریعہ قلم بند ہو کر نامہ اعمال میں بند ہوتی رہتی ہے، دنیاوی فائلوں کے سامنے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، لیکن اللہ رب العزت نے نامہ اعمال کے اچھے یا برے ہونے کے اعتبار سے داہنے یا بائیں ہاتھ میں دینے کا اعلان کر رکھا ہے ، پھر ان اعمال کے تولنے کے لیے میزان قائم ہوگا اور اعمال تو لے جائیں گے، اس دن ہمارے بھلے برے اعمال کی وجہ سے جزا وسزا کا فیصلہ ہو گا، اس دن ہماری زبان بند ہوگی اور ہمارے ہاتھ پاؤں وغیرہ خود ہمارے خلاف گواہی دیں گے، اور جن کے اعمال اچھے ہوں گے وہ خوش، خوش جنت میں جائیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ اوندھے منہہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے؛ کیوں کہ وہ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارے کرتوت یوں ہی ختم ہو جائیں گے ، عقل مندوں کے لیے اس میں بڑی نصیحت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...