Powered By Blogger

پیر, جنوری 23, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں تکمیل قرآن کریم پر تقریب کا انعقاد 
پھلواری شریف پٹنہ 
اردو دنیا نیوز ٧٢
مورخہ 22/جنوری 2023 (پریس ریلیز) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں دس بچے بچیوں نے تکمیل قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن مکمل کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
عمار رحمانی، فریحہ رحمانی، فقیھہ روشن ،عالیہ پروین ،صادقین اختر ،شاداب خان، سمیرہ پروین ،حماد رحمانی، انشاء ریاض، زینب پروین، زاہرہ پروین کا نام شامل ہے،
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے تمام بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے مستقبل کے لئے دعائیں دیں، فاؤنڈیشن کے برانچ اونر پٹنہ وڈائریکٹر مدرسہ ضیاء العلوم نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

اتوار, جنوری 22, 2023

اس مادّی کائنات میں انسان خداکی ایک افضل ترین مخلوق ہے لیکن چونکہ اس کاوجودگندے

مضمون)               
 ا عتراف و انحراف 
 اردو دنیا نیوز ٧٢
 ٭ انس مسرورؔانصاری 

 اس مادّی کائنات میں انسان خداکی ایک افضل ترین مخلوق ہے لیکن چونکہ اس کاوجودگندے پانی کی حقیربوندسے ہوتاہے اورادنیٰ سے اعلاکی طرف مراجعت کرتاہے۔اسی لیے قدرت نے اس کی فطرت میں متضاداوصاف کوودیعت کیا ۔چنانچہ اگریہ پاکیزگی میں فرشتوں سے برترہے تومعصیت میں شیطان سے بھی بدتر۔مختاربھی ہے مجبوربھی ۔قوی بھی ہے اورکم زوربھی۔بداعمال بھی ہے اورخوش خصال بھی۔ قدرت نے اسے یہ اختیاربھی دیاہے کہ وہ خودجیساچاہے ویسااپنے آپ کوبنائے۔اس دنیامیں اس پرکوئی گرفت نہیں،کوئی پکڑنہیں۔قدرت نے اسے زندگی کی شاہراہ پرکھڑاکردیاہے جہاں سے مختلف سمتوں میں راستے منقسم ہیں۔انسان پرقدرت کایہ عظیم احسان ہے لیکن انسان کے حق میں قدرت کے احسانات ونوازشات کاسلسلہ یہاں ختم نہیں ہوجاتابلکہ شاہراہِ زندگی سے مختلف سمتوں میں جانے والے راستوں کے انتخاب کے لیے قدرت نے انسان کوقوی ذہن اورادراک وعرفان کی بے حساب صلاحیتوں سے نوازہ اورانتخاب کی پوری پوری آزادی بخشی۔انسان کومکمل اختیاردیاکہ جس راستے پرچاہے،جاسکتاہے لیکن اپنے نفع ونقصان کاوہ خودذمّہ دارہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کوکسی رہنماکی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔کسی سہارے کی احتیاج ہوتی ہے۔وہ کسی ماورائی طاقت سے امدادکاطالب ہوتاہے۔پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ انسان متضادخصوصیات کامالک ہے۔جہاں وہ اتناقوی ہے کہ کائنات کی ہرشئے پر تصرفات کاحوصلہ رکھتاہے وہیں اتناکم زوربھی ہے کہ قدم قدم پراسے سہارے کی تلاش ہوتی ہے۔یہ سہاراخداکابھی ہوسکتاہے اورخودانسان کابھی۔!حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی شاہ راہ پرانسان کوبہرحال کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہاں ہمیں اس ماورائی طاقت کاادراک ہوتاہے جس نے انسان کی تخلیق کی اورجس کی مددسے ہم وجودکی اس منزل تک پہونچے ہیں اورجوکائنات کے میکانکی نظام کواس ترتیب اورتسلسل کے ساتھ چلاتی ہے کہ ہم اس میں کسی طرح نقص نہیں پاتے۔کوئی عیب ہمیں نظرنہیں آتا۔وہ ماورائی ان دکھی طاقت جسے ہم خداکہتے ہیں۔جب خداکاگیان حاصل ہوجاتاہے توہم اس سے مددمانگتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ہمیں قدم قدم پرخداکے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم اس پراعتمادکرتے ہیں اوراسے راضی کرنے کے مختلف طریقے بروئے کارلاتے ہیں۔اسے قادرِ مطلق مان کراس کی مددسے ہم ان اشیاء پربھی تصرفات حاصل کرتے ہیں جوبظاہرہماری دست رس سے باہر ہوتی ہیں۔ خداکے وجودکاادراک وعرفان نہ ہونے کی صورت میں یاادراک ہوتے ہوئے بھی اسے قادرِ مطلق نہ سمجھنے کی صورت میں انسان کے سامنے واحدراستہ یہ ہے کہ وہ اپنے دل ودماغ اورفکروتدبّرکواپنا سہارابنائے اورمادّی اسباب پربھروسہ کرے۔فطری اقتضابہرحال انسان کوکسی نہ کسی چیزکاسہارالینے اوراس پراعتمادقائم کرنے پر مجبورکرتاہے۔غورطلب یہ بھی ہے کہ انسان کوقد رتی ا ختیارحاصل ہوتے ہوئے بھی وہ بے اختیارہے ۔قدرت نے اس کے اختیارات پر مکمل کنٹرول رکھاہے ورنہ یہ دنیا کب کی جہنم بن چکی ہوتی۔ دل ودماغ اورتدبّرواسباب پرکوئی اختیار نہیں۔چنانچہ جب تدبیرواسباب ناکام ہوجاتے ہیں اورحصولِ مقاصدکے لیے مادّی اسباب فراہم نہیں ہوتے توانسان مجبوراوربے دست وپاہوکررجاتاہے۔تدبّرو تفکراوروسائل واسباب قابل اعتمادہوتے تودنیاکے بڑے بڑے مفکرین ومدبرین کبھی ناکام نہ ہوتے۔نپولین کو مسلسل فتوحات کے بعد کبھی شکست نہ ہوتی اورمغل سلطنت کوکبھی زوال نہ آتا۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اعلیٰ مرتبت انسانوں کی زندگی میں باربارایسے مواقع آتے رہے ہیں جب تمام ترتدبیروں نے ان کاساتھ چھوڑدیا اورسارے اسباب وعوامل ان کی دست رس سے باہرہوگئے۔در حقیقت انسان اتناکم زورہے کہ تدبیراوروسائل واسباب پربھی اسے اختیارحاصل نہیں۔یہ بھی قدرتی اشاروں کے محتاج ہیں۔اس کے باوجود انسان کوخودمختاری کادعویٰ ہے۔ 
 خداکی اس زمین پر خداپرست اورمادّہ پرست انسان ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد مادّہ پرستی کوجس طرح فروغ حاصل ہوا،اس کی مثال نہیں ملتی۔اس کابہت برانتیجہ یہ سامنے آیا کہ انسانوں میں خودکشی کے رجحانات کوخوب تقویت ملی۔خودکشی کے عالمی اعدادوشماربتاتے ہیں کہ سکون وعافیت کی جستجو میں ناکامی کے سبب مادّہ پرست انسانوں میں منفی رجحانات کااضافہ شدت کے ساتھ ہواہے۔ چنانچہ مادّہ پرست انسان جب ناکام ومایوس ہوجاتاہے تواس کو تمام راستے مسدود نظرآتے ہیں اورخودکشی کے سواکوئی راستہ نظرنہیں آ تا۔زندہ رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی سہارانہیں ہوتا۔کوئی امیدنہیں ہوتی۔کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اس کے برعکس خداپرست انسان چونکہ ناکامی وکامیابی کاساراانحصاراپنے خداپررکھتاہے اس لیے جب بھی وہ اپنے مقصدمیں ناکام ہوتاہے توخداکے وجودکاایقان وعرفان اسے ہرکوشش کے بعدایک اورکوشش پرآمادہ رکھتاہے۔چونکہ اس کاایمان واعتماداقتدارِاعلاپرہوتاہے۔اسے یقین ہوتاہے کہ حاکمِ کُل خداہے جوقادرِ مطلق ہے ۔اس لیے اس کاکام کوشش وتدبیرہے۔اس کاخداجب چاہے گااس کی مطلوبہ چیزاسے فراہم کردے گا۔خداکی حاکمیت کایقین واعتراف اس کاسب سے بڑاسہاراہوتاہے جوخداپرست انسان کوکبھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔جبکہ مادّہ پرست انسان کی تمام تدبیروں کاسرچشمہ مادّہ ہوتاہے جومجبورِ محض ہے۔ایسے شخص کی زندگی کاانحصاراتفاقات پرہوتاہے۔اتفاق سے وہ کامیاب ہوتاہے اوراتفاقات ہی پروہ جیتاہے۔ جب اتفاقات اس کاساتھ نہیں دیتے تووہ آندھی میں تنکے کی طرح بے وزن وبے وقارہوجاتاہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں حالتِ مایوسی میں خودکشی کے سوازندگی کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ہوتا۔خد انکار اور اس سے انحراف اصل میں باطل کااقرارواعتراف ہے اورخداکااقرارواعتراف اصل میں فطرت کااقرارواعتراف ہے اورفطرت وہ چیزہے جس کے بغیرحرکت وعمل اورکسی طرح کی زندگی کاتصورمحا ل ہے۔ 

 ٭٭ 
 
 انس مسرورؔانصاری 

 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن 
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔ 
امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰۔ 
 (یوپی) 
 رابطہ۔9453347784 
 

ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے

پھلواری شریف پٹنہ (پریس ریلیز) 
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو محتاج تعارف نہیں ہے، اس کی بنیاد 2011 میں رکھی گئی تھی اور اسی وقت سے تسلسل کے ساتھ یہ تنظیم اپنی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض ومقاصد علمی وادبی وثقافتی کام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج واشاعت، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا، ان کے اعزاز میں پروگرام کا انعقاد کرکے حوصلہ افزائی کرنا، تعلیمی اداروں کا قیام، قدرتی آفات اور اجتماعی تشدد سے متاثرین کے لئے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ریلیف، فری طبی امداد، غریب طلبہ وطالبات کے لئے تعلیمی فیس کا نظم ونسق وغیرہ ہے ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اب تک سینکڑوں پروگرام کا انعقاد ہو چکا ہے جس کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہیں ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ماتحت بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک دینی ادارہ,, مدرسہ ضیاء العلوم،،اور ایک لائبریری,, ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری ،، کا قیام عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔
اب ضیائے حق فاؤنڈیشن 2023 کا کیلنڈر بھی منظر عام پر آچکا ہے،جسے قارئین نے سراہا، کیلنڈر میں فاؤنڈیشن کا مختصراً تعارف بھی ہے، اور اب تک تقریباً دو سو لوگوں کو بذریعہ ڈاک بھیجا جا چکا ہے، اسے پٹنہ آفس برانچ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔یا ان نمبرات پر رابطہ کرکے بذریعہ ڈاک بھی منگا سکتے ہیں
7909098319
9899972265

تحفظ شریعت کے بینر تلے نعتیہ مشاعرہ کا انعقادسلسلہ وار

تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے


تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ کے بینرتلے
اردو دنیا نیوز ٧٢
 ایک بہترین پہل ہر سال کی طرح اس سال بھی سردی کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے غریب ومسکین کے درمیان گرم کپڑے تقسیم کثیرتعداد میں علماء کرام تشریف لائے تمام احباب کی مشورے سے یہ کارخیر کا مکمل کام وجود میں آیا تمام احباب تنظیم کو سراہا اور تنظیم کے حق میں دعائیں کی اللہ اس تنظیم کو قوم وملت کی خدمت کیلئے ہمیشہ سرگرداں رکھے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اراکین تنظیم اور خصوصا مولاناعبدالوارث صاحب مظاہری کواللہ عمرخضرعطافرمائے تاکہ یہ تنظیم ہمیشہ لوگوں کی درد کا مسیحا ثابت ہوتا رہے آمین یارب العالمین 

      

ہفتہ, جنوری 21, 2023

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ

موجودہ کشمکش کا حل اور متنوع شعری مجموعہ ___
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مولانا محمد مکرم حسین ندوی بن مولانا معظم حسین قاسمی کا تعلق علمی خانوادے سے ہے، اس خانوادہ کی علمی خدمات کا دائرہ متنوع بھی ہے اور وسیع بھی، خود مولانا محمد مکرم حسین ندوی اچھے حافظ قرآن ، بہترین نثر نگار، اور اچھے شاعر ہیں، انہوں نے جامعہ رحمانی مونگیر ، جامعہ عربیہ باندہ ، جامع العلوم پٹکا پور اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کسب فیض کیا ہے، اور ان اداروں اور یہاں کے اکابرین کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، عالمانہ وقار، داعیانہ کردار اور سماج میں علم کو پھیلانے کی جد وجہد میں لگے رہے ہیں ان کی اس جد وجہد کا مرکز ان دنوں ماڈرن ویلفئیر اکیڈمی خان مرزا سلطان گنج پٹنہ ہے، وہ ابو البیان، ابو الکلام تو نہیں ہیں، لیکن ابو العمل ہیں، خاموشی سے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، شور وغوغا، جلسے جلوس اور ہنگامی زندگی کو پسند نہیں کرتے ، سنجیدگی مزاج میں ہی نہیں چال ڈھال ، بود وباش سبھی میں ہے، اتنی سنجیدگی کہ کبھی کبھی خشکی کا احساس ہوتا ہے، سنجیدگی کا غیر معمولی غلبہ ہوتا ہے، اس لیے ہم جیسے لوگ بھی ان کے سامنے زیادہ نہیں کھلتے، شاید یہ کیفیت ان کے اوپر ان کے صاحب زادہ با بو حذیفہ کے انتقال کی وجہ سے ہوا ہو ، اس زخم جگر نے انہیں باضابطہ شاعر بنا دیا ، اس سانحہ اور حادثہ کی کہانی مولانا موصوف کی پہلی کتاب ’’کار نامۂ حیات‘‘ اور ’’زخم جگر‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں۔
’’موجودہ کشمکش کا حل او رمتنوع شعری مجموعہ‘‘ ان کی دوسری تصنیف ہے، جس کے صفحات ایک سو ساٹھ ہیں او رقیمت سو روپے زائد نہیں ہے، کمپوزنگ ان کی صاحب زادی صالحہ فردوس نے کی ہے، طباعت ایجوکیشنل پبلیکیشن نئی دہلی سے ہوئی ہے، آپ اسے پٹنہ کے مختلف مکتبوں او رمرکز سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آسانی سے ملنے کے لیے ماڈرن ویلفیئر اکیڈمی سلطان گنج پٹنہ ، یا موبائل نمبر 9801266615 سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصہ نثری مضامین کے لیے اور ایک حصہ شعری ہے، جو نعت پاک، قصیدے، ترانے، سپاس نامے اور مرثیوں پر مشتمل ہے، چند اشعار کی ایک نظم احقر کے بارے میں بھی اس کتاب میں شامل ہے، اردو کے نام پر اور الیکشن کے احوال پر بھی ایک نظم شامل کتاب ہے، آخر میں قطعہ اور مناجات سے بھی آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
نثری حصہ کا آغاز انتساب سے ہوتا ہے جو روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر ہے ، آپ روایتی انداز کے انتساب کی تلاش کرنا چاہیں تو مایوسی ہاتھ لگے گی،البتہ مصنف نے اس انتساب میں تصنیف کتاب کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں: 
’’موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت کا علاج وحل ڈھونڈھنا اور بتانا وقت کی اہم اور اشد ضرورت سمجھتے ہوئے حصول دنیا کے تذکروں اور تبصروں میں گم خدائے واحد اور رب کائنات کو کھل کر قرآن وسنت سے دور، قوت ایمانی اور غیر ت اسلامی سے محروم لوگوں کا رخ اس طرف موڑنا ضروری تھا کہ موجودہ کشمکش کا حل حدیث وقرآن پر عمل ، قوت ایمانی میں اضافہ ، اللہ سے دور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ایک پیراگراف پورے ایک جملہ میں سما گیا ہے، مقصد تصنیف کی پوری وضاحت ہو گئی، عموماطویل جملوں کی وجہ سے تعقید پیدا ہوجاتا ہے،ا سی لیے مختصر جملوں کا چلن آج عام ہے، لیکن جن معنی کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 کتاب کے نثری حصہ میں کل اکسٹھ (۶۱) مضامین ہیں اور تین نعتیں، ہوسکتا ہے ان میں اور نعتوں کا اضافہ ہو، یہ نعتیں نثری حصہ میں برکتاً اور تیمناً شامل ہیں، شعری حصہ میں دوسری تین نعتوں کو شامل کیا گیا ہے، مضامین میں بڑا تنوع ہے، جس طرح شعری حصہ میں تنوع ہے، بات قرآن کریم سے شروع کی گئی ہے، اللہ کی بندگی کے تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے، سیرت رسول سے دوری کو زوال کا سبب بتایا گیا ہے، دشمن کو شکست دینے کے فارمولے کا ذکر ہے، مساجد کے انہدام پر رجائیت بھری تحریر ہے اور کئی مضامین اس حوالہ سے سپرد قرطاس کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی قدرت سے اپنے گھر کی تعمیر کرائیں گے ، مساجد توڑنے کے عوض لا تعداد مسجدوں کی تعمیر ہوئی ہے، مؤمن کامل بننے، تعلق مع اللہ پیدا کرنے، عمل وکردار سے اسلام کی اشاعت پر زور دیا گیا ، مجموعی طور پر جو مضامین ہیں، ان میں موجودہ کشمکش کے حل کے طور پر دین وایمان پر ثبات، اللہ پر بھروسہ کو ضروری اساس قرار دیا گیا ہے، مولانا نے حالات کا تجزیہ اپنی بصیرت اور تجربہ کی روشنی میں کیا ہے ، جو دلوں کو اپیل کرتا ہے ، اور عمل پر ابھارتا ہے۔
 شعری حصہ بھی سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے، بعض اشعار میں تخیل کی رفعت بھی ہے اور فکر کی ندرت بھی بہتر تو یہی ہوتا کہ نثری اور شعری حصہ الگ الگ کتاب کی شکل میں ہوتا ، کیوں کہ موجودہ دور مین یہ اختلاف مقبول نہیں ہے، لیکن مولانا کی اپنی کچھ مصلحت ہوگی، جو راقم الحروف نہیں جانتا، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو ملت کے لیے مفید بنائے اورمولانا کو فکر وخیال کے گلستاں آباد کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین یا رب العالمین

جمعہ, جنوری 20, 2023

تذکرہ مخدومان منیر __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تذکرہ مخدومان منیر __
اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
خانقاہوں نے اصلاح ظاہر وباطن ، تزکیۂ نفوس اور روحانی تربیت کے میدان میں پوری دنیا میں عموما نیز بر صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں خصوصا بڑا کردار ادا کیا ہے، خانقاہ سے منسلک ان بوریہ نشینوں ، سجادگان، اور صوفیاءکرام نے رب سے قریب کرنے اور دلوں کو جوڑنے کی مثالی اور انتھک جد وجہد کی جس کے اثرات اس قدر مرتب ہوئے کہ یہ مراکز بلا تفریق مذہب وملت مرجع خلائق بن گیے، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بڑھیا حلوہ بنا کر لائی اور اصرار کرنے لگی کہ میں تو اسے کھلا کرہی جاؤ گی، حضرت نے بڑھیا کی خواہش کا احترام کیا اور حلوہ کھالیا، بڑھیا کے جانے کے بعد مریدوں نے اس طرف متوجہ کیا کہ حضور آپ کا روزہ تھا، فرمایا : روزہ نفلی تھا اس کی قضا ہوجائے گی، لیکن یاد رکھو، دل کے ٹوٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے۔
 اسی طرح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک معتقد نے آپ کی خدمت میں قینچی پیش کی ارشاد فرمایا: فقیر کے یہاں قینچی کا کیا کام ، مجھے سوئی دھاگہ لا کر دو، وہ میرے کام کا ہے، اس لیے کہ میں توسِینے اورجوڑنے کا کام کرتا ہوں تو ڑنے اور کاٹنے کا نہیں۔
 خانقاہ میں جو کام ہوتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ”احسان“ کہتے ہیں اور عرف عام میں تصوف وطریقت، یہ وہ کام ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان کو اللہ رب العزت کا استحضار اس قدر ہوجاتا ہے کہ ہر عبادت کے موقع سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، اگر اس مقام تک نہیں پہونچ پاتا تو کم از کم اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دیکھ رہا ہے، حدیث جبریل میں زبانِ رسالت سے یہ مذکور ہے کہ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم انہیں دیکھ رہے اگر ایسا نہ ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہاہے۔
اللہ سے ایسی قربت پیدا کرنے اورسوئے حرم لے جانے کے لیے بہار میں بھی بہت ساری خانقاہیں قائم ہیں، ان خانقاہوں میں ایک قدیم اور بڑی خانقاہ ، خانقاہ منیر شریف ہے، جس نے سینکڑوں سال سے طریقت کی بساط پر رجال سازی کا کام جاری رکھا ہے ، اس کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری ہیں، جو سجادہ نشیں کے ساتھ ساتھ متولی ودیوان درگاہ خانقاہ منیر شریف بھی ہیں۔اسی خانقاہ اور خانوادہ کے گل سر سبد معروف عالم دین مولانا تقی الدین ندوی فردوسی مدظلہ العالی ہیں جن کے فیوض وبرکات ، شفقت ومحبت سے بندہ بھی پٹنہ میں مستفیض ہوتا رہتا ہے۔
”تذکرہ مخدومان منیر “ حضرت صاحب سجادہ مدظلہ کی قابل قدر ولائق تحسین تصنیف ہے، جسے جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف نے مرتب کیا ہے ، کتاب میں حضرت امام تاج فقیہ کے سلسلے کے اکابر اور سجادگان کے حالات زندگی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تاریخ بھی ہے، تذکرہ بھی ہے، تحقیق بھی ہے اور سلاسل سے متعلق معلومات کا ذخیرہ بھی ، اس نام میں تذکرہ کا لفظ دیکھ کر بے ساختہ مجھے موجودہ سجادہ نشیں کے والدحضرت سید شاہ نور الدین فردوسی منیری رحمة اللہ یاد آگیے، جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی کتاب ”تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی“ پیش کی تو فرمایا کہ آپ کے تواضع نے اس کتاب کو ”تذکرہ“ بنا دیا، ورنہ یہ تو ویشالی کی پوری تاریخ ہے، اس کتاب کے نام میں ”تذکرہ“ کا لفظ بھی کچھ ایسا احساس دلاتا ہے، لیکن میں صاحب سجادہ کو یہ کہنے کی پوزیشن میں اپنے کو نہیں پاتا۔
 یہ قیمتی تاریخی مرقع چھ ابواب پر مشتمل ہے اور قدیم طرز کے مطابق ہر باب کے ذیل میں چند فصول ہیں، پہلا باب ابتدائیہ، تشکر وامتنان ، تہدیہ وانتساب کے بعد شروع ہوتا ہے، جس میں دس فصلیں ہیں اور ان فصلوں کے ذیل میں تصوف کے تعارف، اشتقاقات، اصطلاحات، مقاصد ، حقائق ، اصحاب تصوف ، کتب تصوف، تعلیمات اور سلاسل تصوف کا تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا گیاہے ، اس باب میں مصنف کی محنت سے بڑے مفید مضامین جمع ہو گیے ہیں، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، گو مصنف نے اسے مقدمہ کا نام نہیں دیا ہے ۔
بابِ دوم امام تاج فقیہ اور منیر شریف کے عنوان سے ہے ، اس باب میں منیر شریف کی تاریخ ، مقدس بار گاہیں، مزارات ، مسجدیں، وہاں کے شہدائ، صحبت میلہ ، منیرکامشہور لڈو اور بزرگوں کے اعراس پر تاریخی حقائق، سلیقہ سے آٹھ فصلوں کے ذیل میں مذکور ومندرج ہیں ، اور کہنا چاہیے کہ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔
 بابِ سوم امام تاج فقیہ اور خانقاہ منیر شریف کے نام ہے، چوں کہ اس خانقاہ کی بنیادمیں امام تاج فقیہ ہیں؛ اس لیے اس باب میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ آیا ہے، لیکن اصلاً یہ باب خانقاہ منیر شریف کی تاریخ ، نادر تبرکات ، دوسری خانقاہوں سے اس کے تعلقات، امراءوسلاطین کی حاضری، جنگ آزادی میں خانقاہ منیر شریف کا کردار اور خانقاہ کے بزرگوں کے اعراس وتذکرہ پر مشتمل ہے، چھ فصلوں کے ذیل میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔
 اس تاریخی سلسلے کے ذکر کے بعد کتاب میں دوباب تذکرہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، چوتھے باب میں امام تاج فقیہ اور ان کے خانوادہ کا تذکرہ مرقوم ہے، جس میں ان کی ملی ، مذہبی ، تعلیمی دینی خدمات اور تصوف کے اعتبار سے ان حضرات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب بھی چھ فصلوں پر مشتمل ہے، جس مین بانی خانقاہ امام تاج فقیہ، ان کے تین صاحب زادگان مخدوم اسرائیل ، مخدوم اسماعیل اور مخدوم عبد العزیز رحمہم اللہ کے ساتھ امام تاج فقیہ کے پوتے مخدوم یحیٰ منیریؒ اور پرپوتے مخدوم شرف الدین بن یحیٰ منیریؒ کے احوال وآثار اور طریقت کے باب میں ان کی زریں خدمات کا تذکرہ بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے، یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت مخدوم شرف الدین احمدیحی منیری ؒ کی ولادت منیر شریف خانقاہ ہی کے احاطہ میں ہوئی تھی، آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے، اور زیارت کے لیے لوگوں کی وہاں کثرت سے آمد ورفت رہتی ہے۔
تذکرہ کا دوسراحصہ اور پانچواں باب خانقاہ منیر شریف کے سجادگان کے تذکروں پر مشتمل ہے، جس میں حضرت امام تاج فقیہ ہاشمیؒ سے لے کر موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری مدظلہ کے سوانحی کوائف اور خدمات کا مرقع پیش کیا گیا ہے، جس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ”ایں خانہ ہمہ آفتاب“ است۔
 کتاب کا آخری باب ”مناقب مخدومان منیر“ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس میں کل آٹھ فصلیں ہیں، ہر فصل میں سلسلہ کے ایک بزرگ کے احوال وآثار، خصائص وتفردات اشعار میں بیان کیے گیے ہیں، اس باب میں قصیدہ منیر شریف ، منقبت امام تاج فقیہ، مخدوم یحیٰ منیری ، مخدوم شرف الدین ابن یحیٰ منیری، مخدوم دولت شاہ منیری، مخدوم عنایت اللہ فردوسی منیری ، مخدوم نور الدین منیری رحمہم اللہ اور موجودہ سجادہ نشیں کے عنوان سے شاعر نے اپنے جذبات وخیالات ، مشاہدات واحساسات کو اشعار میں بیان کیا ہے۔ یہ ساری منقبت اور قصائد اس کتاب کے مرتب جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف کے فکروفن کا نتیجہ ہے ، ان اشعار میں عقیدت ومحبت کا سیل رواں موجزن ہے، اس قسم کے اشعار میں تخلیات کی رفعت ، فکر کی ندرت اور فنی باریکیوں کی تلاش کے بجائے طریقۂ اظہار وابلاغ عقیدت ومحبت پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے، اس اعتبار سے اس کا مطالعہ عام لوگوں کو عموما اور سلاسل سے منسلک لوگوں کو خاص کیف وسرور میں مبتلا کرے گا۔
 اس کتاب کا ناشر مخدوم جلیل منیری پبلشنگ اکیڈمی، جامعہ امام تاج الفقہائ، خانقاہ منیر شریف ہے، تقسیم کار کی ذمہ داری مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری کی ہے، سید شاہ میران فردوسی ، وردہ فردوسی اور شبنم بانو نے پروف ریڈنگ کا کام پوری توجہ سے کیا ہے، مخدوم یحیٰ منیری ریسرچ سنٹر نے پیش کش کی ذمہ داری لی، ان تمام حضرات کی محنت کے طفیل یہ قیمتی دستاویز اور تاریخی تحریر معمولی ہدیہ دو سو پچاس روپے میں آپ تک پہونچ رہی ہے، سب ہم تمام کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ رب العزت سب کو بہتر بدلہ عطا فرمائے اور خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...