اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نامور عالم دین، دارالعلوم قاسمیہ چوک بلسوکرا، رانچی جھارکھنڈ کے ناظم، مدرسہ عراقیہ، دار القرآن رانچی اور مدرسہ عربیہ سونس رانچی کے سابق استاذ، صلاحیت، صالحیت اور تقویٰ میں مشہور خاص و عام مولانا محمد الطاف حسین بن حاجی محمد یعقوب (م 2002) بن نافر علی بن روزن علی بن بخش بن پھوندھی ساکن بلسوکرا ضلع رانچی نے 16دسمبر 2021ءکو بعد نماز عصر بروز جمعرات اس دنیا کو الوداع کہا، اگلے دن 17دسمبر 2021ءکو جنازہ کی نماز ان کی وصیت کے مطابق علاقہ کے مشہور عالم دین مولانا محمد فاروق قاسمی نے پڑھائی، جس میں جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں کے علمائ، صلحاءاور عام مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، بلسوکرا کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک لڑکاحاجی حسن اور دوبیٹیوں کو چھوڑا۔
مولانا کی آمد اس عالم آب و گل میں 12جنوری 1938ءمطابق 24ذی القعدہ1358ھ میں ضلع رانچی (موجودہ جھارکھنڈ) کی معروف بستی بلسوکرا میں ہوئی، ابتدائی تعلیم حافظ عبد الحمیدصاحب گیاوی سے حاصل کرنے کے بعد عصری تعلیم کے حصول کے لیے اردو مڈل اسکول بلسوکرا میں داخلہ لیااور مڈل پاس کیا، مڈل اس زمانہ میں ساتویں کلاس کو کہا جاتا تھا اور غیر منقسم بہار میں اُن دنوں اسرائیل کا بورڈ امتحان ہوا کرتا تھا، عصری علوم کے حصول میں طبیعت کچھ زیادہ لگی نہیں، اس لیے دینی علوم و فنون کی طرف متوجہ ہوئے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ میں داخل ہوئے اور یہیں سے عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم پائی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضرعلیہ السلام کا واقعہ بتاتا ہے کہ دینی علوم کے حصول کے لیے دور دراز کے اسفار کرنے پڑتے ہیں، تبھی انسان مطلوب و مقصود تک پہونچتاہے، چنانچہ مولانا نے آگے کی تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا اور ایک غیرمعروف مدرسہ، مدرسہ دعائیہ میں داخلہ لے کر یہاں عربی سوم تک کی تعلیم حاصل کی، پھر دار العلوم دیوبند تشریف لے گیے، جہاں عربی چہارم سے دورہ حدیث تک کی تعلیم وہاں کے نامور اور نابغۂ روزگار اساتذہ سے حاصل کرنے کی سعادت پائی، بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے پڑھی اور 1959ءمیں سند فراغ حاصل کرکے وطن لوٹ آئے۔
تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عراقیہ رانچی سے کیا، لیکن جلد ہی دار القرآن رانچی منتقل ہوگیے۔ جامعہ عربیہ سونس رانچی کے مسند درس پر بھی چند سال متمکن رہے، خیال تجارت کا آیا، ذہن کے کسی گوشے میں اس کے سنت ہونے اور رزق میں وسعت کے ذریعہ کا تصور بھی بیٹھا ہوا تھا، اس لیے تجارت کا مشغلہ اختیار کیا، اللہ نے اس میں بڑی برکت دی اور کامیاب تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، لیکن اللہ رب العزت کو ان سے دوسری خدمت مطلوب تھی، اس لیے 1985ءمیں انہیں دار العلوم قاسمیہ مدرسہ چوک بلسوکرا کا ناظم منتخب کیا گیا، انہیں اس عہدہ کے قبول کرنے میں خاصہ تردد تھا، لیکن کمیٹی کے اصرار اور مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے اس عہدہ کو مجبوراً انہوں نے قبول کیا، عہدے بے طلب آویں اور اِشراف نفس نہ ہوتو اللہ کی نصرت اور مدد ضرور آتی ہے۔ مولانا نے اس ذمہ داری کو خلوص و للہیت کے جذبہ سے سنبھالا اور مدرسہ روز افزوں ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ آپ کے عہد میں مدرسہ کی تعلیمی و تعمیری ترقی خوب ہوئی، آمد و صرف میں شفافیت اور حسابات کے اندراج میں غیر معمولی احتیاط کی وجہ سے مدرسہ انتظامیہ پر عوام کا اعتماد بڑھا، اس اعتماد نے مدرسہ کو مالیاتی اعتبار سے بھی مضبوط کیا۔ مولانا کی خدمات کاایک بڑا میدان اصلاح معاشرہ و عقائد بھی تھا، انہوں نے علاقہ میں عقائد صحیحہ کی ترویج و اشاعت کے لیے محنت کی، اس کام میں ان کو مشہور مناظر مولانا طاہر حسین گیاوی کا تعاون اور ساتھ ملا۔جس سے مولانا کی تحریک اصلاح عقائد کو مزید تقویت ملی، اس تعلق اور ارتباط کو مضبوط کرنے کے لیے مولانا نے مولانا طاہر حسین گیاوی کو اپنے مدرسہ کا اعزازی مہتمم بنادیا، جس سے ان کی آمد و رفت وہاں زیادہ ہونے لگی اور لوگوں نے محسوس کیاکہ اس تحریک میں مولانا کو ایک بڑے عالم کا ساتھ ہے۔
مولانا سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ہوئی۔ مولانا کو یہ بات کسی نے پہونچا دی کہ تقریر میں بھی کرلیاکرتاہوں، چنانچہ انہوں نے پہلی بار مدرسہ کے جلسہ میں مجھے یاد کیا، اس زمانہ میں مولانا طاہر حسین گیاوی چاق و چوبند اور صحت مند تھے۔ اعزازی مہتمم ہونے کی وجہ سے وہ بھی وہاں موجود تھے، جلسہ کا انتظام و انصرام انتہائی سلیقہ سے کیاگیاتھا، علماءکی رہائش الگ الگ کمروں میں کی گئی تھی، ہر کمرہ میں صابن، تولیہ، بیت الخلاءکی چابھی رکھی گئی تھی؛ تاکہ ضرورت کے وقت پریشانی نہ ہو، مولانا طاہر حسین گیاوی خود ہی کمرے کمرے جاکر علماءکی مزاج پرسی کر رہے تھے، جلسہ میں لوگوں کی بڑی بھیڑ تھی، احقر نے کوئی ایک گھنٹہ بیان کیا، کیوں کہ یہی وقت ہمیں دیا گیا تھا۔ بعد میں امارت شرعیہ کے وفود کے دورے کے موقع سے کئی بار وہاں جانا ہوا، مولاناکی بینائی ختم تھی؛ لیکن مہمانوں کااکرام و احترام اس طرح کرتے کہ ہر آنے والا یہی محسوس کرتا کہ مولانا سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مولانا کی ظاہری بصارت تو چلی گئی تھی، لیکن بصیرت آخری وقت تک سلامت تھی، انہیں یہ کہنے کا حق تھا کہ ”بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے“ اس بصیرت کے سہارے آپ نے آخری وقت تک مدرسہ کے نظام کو پوری مستعدی کے ساتھ سنبھالا اور علاقہ کی دینی ضرورت کی تکمیل کے لئے سرگرم رہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل اور مدرسہ کو ان کا نعم البدل دے آمین یا رب العلمین و صلی اللہ علی النبی الکریم و علی اٰلہ و صحبہ اجمعین۔