Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 18, 2023

جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن

﴿ کچھ تبسّم زیرِلب﴾
تعریف کاجادو 
اردودنیانیوز۷۲ 
٭ ا نس مسرورانصاری   
 
 جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن کےجادوخطابھی کرجاتے ہیں لیکن ایک جادوایسابھی ہے جوکبھی خطانہیں کرتا۔ہمیشہ اپنے ہدف پرجاکر بیٹھتاہے۔اچھے خاصے لوگ بھی اس کاشکارہوکر رہتے ہیں۔یہ تعریف کاجادوہے۔آپ کادوست ہویادشمن ،یہ جادو سب پریکساں چلتاہے بلکہ دوڑتا ہے۔ہمارے سیاسی لیڈران اس جادومیں بڑی مہارت رکھتے ہیں اوراسی کی بدولت بڑی بڑی کرسیاں حاصل کرلیتے ہیں۔جس کویہ جادونہیں آتاوہ کبھی منتری نہیں بن پاتا۔اس جادو کی ایک ذات برادری کانام چاپلوسی بھی ہے۔یہ جادوبڑاخطرناک ہوتا ہے۔ایک سیاسی جلسہ میں جب شہرکے ایک لیڈرتقریرکرنے کے لیے مائک پرآئے توان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مائک والے نے اپنامائک بندکردیا۔ نیتاجی بہت ناراض ہوئے۔ لوگوں نے وجہ  پوچھی توکہنے لگا‘‘میں اس نیتاکواپنے مائک میں نہیں بولنے دوں گا۔یہ سالااپنے بڑے لیڈروں کواتنامسکامارتاہے کہ چکناہٹ سے میرامائک خراب ہوجاتا۔’’ 
تعریف کاجادوسرچڑھ کربولتا ہے۔ہرانسان اس کے اثرمیں بڑی آسانی سے آجاتاہے،بلکہ جانورتک اس جادوسے متاثرہوئے بغیرنہیں رہتے۔یہ ایساذوداثرہے کہ ہرکسی کودل وجان سے عزیزہے۔ مگراس جادوکوچلانے میں اعتدال بھی بہت ضروری ہے۔ زیادہ چلانے پریہ ری ایکشن بھی کرجاتاہے۔لوگ برامان جاتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ان کامذاق اڑایاجارہاہے۔یہ جادولیمیٹڈہوتاہے۔زیادہ چلانے پرجوتے بھی کھانے پڑسکتے ہیں۔اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔سچ کہتے ہیں کہ وہ کام سب سے اچھاہوتاہے جس میں اعتدال ہو۔ اس جادو کے بڑے کرشمے ہیں۔کچھ کرشمے آپ بھی دیکھئے۔ 
مشہورمصّورہ فرنکائیزجیلٹ دنیاکے،عظیم مصورپیلوپکاسو کی بیوی تھی۔وہ دس سال تک ساتھ رہے۔ان کے دوبیٹے بھی ہوئے۔پالومااورکلاڈ۔جب کبھی جیلٹ کوفرصت ملتی،وہ اپنا برش سنبھالتی ،اسٹوڈیوکے دروازے بند کرتی اورتصویرکشی میں کھوجاتی۔بچے بڑی تنہائی محسوس کرتے۔ماں باپ دونوں آرٹسٹ۔دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے۔پالومااورکلاڈ کوبڑی بوریت ہوتی۔ ایک دن
جیلٹ اسٹوڈیوکادروازہ بند کیےایک خوبصورت سی تصویر بنارہی تھی کہ ڈرتے ڈرتےکلاڈ اسٹوڈیوکے دروازہ پرآیااورہلکے سے دستک دی۔جیلٹ نے پوچھا ۔‘‘ہاں،کون ہے۔؟’’پھرکام میں مشغول ہوگئی۔ کلاڈنےکہا۔ 
  ‘‘ممی!مجھے تم سے بہت پیار ہے۔’’لیکن جیلٹ نےبرش ہاتھ سے  نہ چھوڑا۔بولی‘‘پیارےکلاڈ!میں  بھی تم کودل وجان سے چاہتی ہوں۔’’چندمنٹ انتظارکےبعدکلاڈ نے کہا:‘‘ممی!مجھے تمھاری تصویریں بہت پسندہیں۔’’جیلٹ نے اندرہی سےکہا:‘‘پیارے کلاڈ!شکریہ!تم ایک ننھےفرشتےہو،،، پھرایک منٹ بعدکلاڈنےکہا۔
‘‘ممی!تمھاری تصویروں میں توجادوہے۔سچ پوچھوتوتمھاری تصویریں پاپاکی تصویروں سے بھی اچھی ہیں۔ ،، 
کلاڈکے منہ سے یہ سنتے ہی جیلٹ نے برش رکھ دیا۔وہ بے تابی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازہ کھول کرکلاڈکواندر کھینچ لیا۔ گودمیں اُٹھاکراسے دیرتک پیارکرتی رہی۔
آپ نے دیکھا۔تعریف کاجادواس طرح سرچڑھ کربولتاہے۔ہمارے میردانشمندجوہرعلم وفن کے احاطہ میں موجودپائے جا تے ہیں،غالبیات میں بھی اپناایک ممتازمقام رکھتے ہیں۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فی زمانہ اردوزبان کاہرشاعر،ادیب، صحافی،ممتازمقام رکھتاہے۔یہ مقام بہت عام ہوگیاہے۔ہمارے میردانشمندکوبھی یہ امتیازی مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ غالب کے بہت سارے واقعات انھیں ازبر ہیں جنھیں وہ موقع بے موقع، وقت بے وقت سناتے رہتے ہیں۔ایک دن ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئےفرمایا۔۔چچا غالب بڑے زندہ دل ،آوارہ گرد اور بڑے ستم ظریف تھے۔ان کی عادت تھی کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لڑانے کےبعددیررات گئے گھرواپس لوٹتےتھے۔ان کی بیگم ان سے عاجز تھیں(اکثرشاعروں  کی بیگمات ان سےعاجزنظرآتی ہیں)زیادہ تروہ دوستوں کے  ساتھ رات کاکھاناکھا کر لوٹتے تھے۔اس لیے ان کی بیگم بھی ان کاانتظارکیےبغیرسوجاتی تھیں۔لیکن ا یک رات ایسا ہوا کہ وہ شدت کےساتھ غالب کےانتظار میں جاگ رہی تھیں۔کافی رات گئےوہ گھرلوٹے۔چپکےسےدروازہ  کی سٹکنی کھولی ا وراس خیال سے کہ کہیں پیروں کی آہٹ سے بیگم جاگ نہ جائیں،اپنے جوتے اُتارکربغل میں دبالیے اورنہایت خاموشی کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے۔خدشہ تھاکہ بیگم جاگ نہ رہی ہوں۔پنجوں کے بل کسی آہٹ کے بغیراپنے کمرہ کی طرف بڑھے کہ اچانک چراغ کی مدّھم روشنی میں بیگم کی آواز کابم پھٹا۔۔رات کے دوپہر گزر چکے،اب تشریف لائی جارہی ہے اوروہ بھی اس حال میں کہ بغل میں جوتیاں دبی ہوئی ہیں۔گویا اپنے ہی گھرمیں چوری کاارادہ رکھتے ہوں۔’’
    بیگم کی پہلی ہی آوازپرغالب یوں اُچھلےکہ جوتیاں گرکرزمین بوس ہوگئیں۔خجالت ا ورشرمند گی سے بیگم سے آنکھیں نہ ملا سکے۔چونکہ برجستہ گوتھے اس لیے برمحل جواب دیا۔‘‘کیاکہیں بیگم!آپ نے نمازیں پڑھ پڑھ کر سارے گھرکوتومسجدبناڈلاہے۔اب جوتیاں پہن کرمسجدمیں کیسے داخل ہوں۔اس لیے تعظیماََ ہم نے جوتیاں بغل میں دبالیں۔’’
    چارپائی پراُٹھ کربیٹھتے ہوئے بیگم نےکہا۔‘‘ایک توآپ نے میری زندگی کیاکم اجیرن کررکھی ہے۔دوسرےآپ کےشاعرومتاشاعر  دوستوں اورحریفوں نے مجھے الگ ملامت کانشانہ بنارکھاہے۔اب تومیرے صبرکاپیمانہ بھی لبریز ہوچکا۔جب سے آپ کے گھرمیں آئی ہوں،سکون کاسانس لینا نصیب نہ ہوا۔’’ (گلوگیر آواز) 
     ‘‘آخرہواکیا۔؟ایسی کیااُفتادآن پڑی کہ آپ اپنی جان کی دشمن ہوئی جارہی ہیں۔ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے۔’’غالب نے بڑی دل جوئی سے پوچھا۔ 
    ‘‘آپ کی بلاسے ہمیں کوئی کچھ کہتاپھرے۔’’بیگم نے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔‘‘اللہ دشمن کوبھی شاعرکی بیوی نہ بنائے۔اب آرام کیجئے اورصبح نہارمنھ ذرامکان کی باہری دیوارکادیدار کرلیجئے گا۔آپ کے ملاحظہ کے لیے کسی نے دیوارپرکوئلہ سے کچھ لکھ چھوڑاہے۔’’
    اُدھربیگم نے منھ پھیر کر دو سری طرف کروٹ بدلی اورادھر غالب کچھ متفکراورکچھ شر مندہ شرمندہ سے اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔دوستوں کی صحبت میں جوچندجام لنڈھائے تھے ان کانشہ ہرن ہوچکاتھا۔صبح اُٹھے توسب سے پہلے مکان کے باہرکی دیوارکامعائنہ کیا۔ان کی بیگم درازقداورسانولےرنگ کی تھیں۔اسی مناسبت سےکسی منچلےشاعرنےکوئلہ سےدیوارپر ایک مصرعہ لکھ دیاتھا۔۔ 
 ‘‘طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے’’ 
  غالب ساراماجراسمجھ گئے۔دیوارکے آس پاس دیکھاتوکوئلہ کاایک ٹکڑا زمین پرپڑاہواتھا۔اُسے اُٹھاکرمصرعہ کے نیچے ایک برجستہ مصرعہ لکھ دیا۔ 
 ‘‘ وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے ’’ 
  پھروہ اپنی بیگم کاہاتھ پکڑکر دروازہ پرلائے اورکہا۔‘‘دیکھتی ہو بیگم!کسی نے کیاہی عمدہ شعر لکھاہے۔آپ توخواہ مخواہ ناراض ہوئی جارہی ہیں۔’’بیگم نےشعر  پڑھا۔ 
طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے
 وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے 
    غالب کی بیگم شرمائیں،،لجائیں اورمکان کے اندرچلی گئیں۔سمجھ گئیں کہ دوسرامصرعہ خودغالب نے لکھاہے۔آپ نے دیکھا۔؟تعریف کاجادوکیساچلا۔آپ بھی اس جادوکوسیکھیں اور اپنی بیگم پر چلائیں اوردیکھیں کہ پھرکیا ہوتاہے۔ناراض دوست ہوں یا نا راض بیوی، کسی کو بھی منانا ہوتویہ تیربہ ہدف نسخہ ضرور آزمائیں۔ کوئی موجود نہ ہوتو خودپرہی آزمائیں۔جیساکہ ہمارے شعراءخودپر آزمانے ہیں۔ 
  تعریف سے بڑاکوئی جادونہیں۔
 ٭٭
 انس مسرورانصاری
 قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
 سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰
 (یو،پی)
 رابطہ:9453347784۰

جمعہ, فروری 17, 2023

مقدمہ زاویہ نظر ___(مولانا ڈاکٹر) ابو الکلام قاسمی شمسیسابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ

مقدمہ زاویہ نظر ___
(مولانا ڈاکٹر) ابو الکلام قاسمی شمسی
سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ
اردودنیانیوز۷۲ 
 
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی زود نویس صاحب قلم ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناں گوں صفات سے نوازا ہے، وہ تقریر وتحریر دونوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں، جہاں تک تقریر کی بات ہے تو خوب بولتے ہیں، اور زور دار تقریرکرتے ہیں، ان کی تقریر دینی ،علمی اور فکری ہوتی ہے، جو ان کو عام مقررین سے ممتاز کرتی ہے، جہاں تک تحریر کی بات ہے، تو ان کا قلم رواں دواں ہے، اپنی بات کو سجا کر پیش کرنے کا فن جانتے ہیں، وہ علمی مضامین اور تحقیقی مقالات بھی لکھتے ہیں، حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں صحافتی ذوق سے بھی نوازا ہے، وہ امارت شرعیہ کے ہفت روزہ ”نقیب“ کے ایڈیٹر ہیں، نقیب میں مختلف موضوعات پر ان کے افکار ونظریات شائع ہوتے ہیں، ان کے مضامین ، مقالات اور کتابوں کی تعداد دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ بر جستہ لکھتے ہیں، اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریر میں جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، لوگ شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی تحریر میں فن اور فکر دونوں کا امتزاج بھی ہوتاہے ، جس کی وجہ سے پڑھنے والے اکتاتے نہیں ہیں، نیز پڑھنے کے بعد خالی ہاتھ نہیں رہتے ، بلکہ ان کو فکر کا خزانہ حاصل ہوتا ہے ، اس طرح وہ اپنے معاصر ین میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔
 مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی با وقار عالم ذین ، بہترین صاحب قلم، کامیاب خطیب، ماہر صحافی اچھے ادیب اور کامیاب محقق ہیں، ان کی تصانیف ہر موضوع پر دستیاب ہیں، ان کی تصانیف میں مذکورہ صفات کا جلوہ نظر آتا ہے ، یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا اپنوں نے حق بھی ادا کیا ہے، یہ اللہ کی طرف سے توفیق ہے، جو انہیں منجانب اللہ عطا کی گئی ہے۔
 مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر ہیں نقیب کی ادارت نے انہیں ایک دوسرا میدان فراہم کیا ہے، وہ صحافی ہیں، کہنہ مشق صحافی، وہ میدان صحافت میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، ان کی تازہ تصنیف”زاویہ نظر“ کا مسودہ میرے سامنے ہے، اس میں ان کی تحریر کردہ اداریے ہیں اور وہ مضامین ہیں، جو نقیب میں شائع ہوئے ہیں، یہ ملی ، تعلیمی سماجی اور لسانی حالات پر تجزیاتی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
 موجودہ دور تکنیکی دور ہے، لوگ کسی چیز میں زیادہ وقت لگانا پسند نہیں کرتے ہیں، اس دور کا اثر قارئین پر بھی نظر آتا ہے، ان کو طویل مضمون پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی مضمون کو پڑھیں تو جلد ختم ہوجائے اور جلد نتیجہ پر پہنچ جائیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی کتابوں کی جانب رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے، اب لوگ مختصر کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، اس لئے مختصر کتابوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، ادبی اصناف میں ایک صنف ناول ہے، پہلے لوگ طویل ناول پڑھنے کو پسند کرتے تھے، پھر وقت کے تقاضہ کے مطابق افسانہ کا وجود ہوا، پھر اس کے بعد منی افسانہ کا رواج بڑھا، یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے، موجودہ وقت میں پڑھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد مطالعے سے فارغ ہوجائے اور کچھ ضروری معلومات اپنے مطالعہ سے حاصل کر لے، اسی تقاضہ نے مضامین کے مجموعہ کی اشاعت کی طرف متوجہ کیا ہے، چونکہ مضامین کے مجموعہ میں ہر مضمون ایک اکائی ہوتا ہے، جس کو قاری پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے، پھر وہ دوسرے مضمون کو پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے، اس طرح مضامین کے مجموعہ کی طباعت کا رجحان بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ”زاویہ نظر“ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جو نقیب میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں پانچ ابواب ہیں۔ باب اول مذہبیات۔ باب دوم تعلیمات۔ باب سوم سماجیات، باب چہارم لسانیات اور باب پنجم متفرقات پر مشتمل ہے۔
 باب اول میں مذہبیات پر ۹۵ مضامین ہیں، ان مضامین میں مذہبی رہنمائی کی گئی ہے، آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں، یہ پُر فتن دور ہے، مذہب میں رسم ورواج اس طرح داخل ہو گئے ہیں کہ مذہب پر رسم ورواج کا غلبہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لئے موجودہ وقت میں مذہب کے سلسلہ میں رہنمائی ضروری ہے، اس باب میں مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی نے عالم ومفتی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مضبوط اور مدلل انداز میں اپنی بات رکھی ہے، مضامین کے عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مضامین مختلف مواقع پر وقت اور حالات کے اعتبار سے تحریر کئے گئے ہیں، اس طرح یہ مضامین موجودہ وقت اور حالات میں فکری رجحانات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں، اس باب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے ”رحمة للعالمین“ ۔ مضمون سے ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند تعلیمات کا بھی ذکر ہے، جس سے آپ کی رحمت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس موقع پر انداز تحریر مثالی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو” فساد فی الارض “کے قبیل سے ہے۔
ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں۔“ (صفحہ ۵۱) 
اسی طرح ایک مضمون کا عنوان ”علاقائی عصبیت“ہے اس مضمون میں علاقائی عصبیت کے نقصانات کا جائزہ مذہب کی روشنی میں لیا گیا ہے، مذہب کی روشنی میں جائزہ لینے سے مضمون میں زور پیدا ہو گیا ہے، نیز سماجی اور سیاسی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”جس طرح شرم وحیا ختم ہوجائے تو آدمی کچھ بھی کر گذرتا ہے ، اسی طرح جب سیاست میں اخلاقیات نے دم توڑا تو وہ سارا کچھ ہونے لگا جو انہونی کہا جاتا تھا ، انہیں میں سے ایک علاقائی اور ریاستی عصبیت ہے ، جس نے گجرات میں اس زور وشور سے سر اٹھایا ہے کہ شمالی ہندوستان کے مزدور جو وہاں بر سوں سے کام کر رہے تھے، انہیں اپنی ملازمت چھوڑ کر بھاگنا پڑ رہا ہے ، ان کے اندر مار ، کاٹ، قتل وغارت گری اور خون ریزی کی ایسی دہشت پیدا کر دی گئی ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد لوگ گجرات چھوڑنے پر مجبور ہو گیے ہیں، کار خانوں میں مزدوروں کی کمی ہو گئی ہے اور ظاہر ہے اس کا سیدھا اثر پیدا وار پر پڑ رہا ہے ، کانگریس اور بی جے پی والے اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، بات ایک شیر خوار بچی کی آبرو ریزی سے شروع ہوئی تھی ، ظاہر ہے مجرم کوئی ایک تھا ، اسے قانون کے حوالہ کرکے سزا دلانی چاہیے تھی ، تاکہ درندگی اور حیوانیت کے اس سلسلے کو روکا جا سکے ، لیکن اس واقعہ کا سہارا لے کر گجرات خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا ، کانگریس کے الپیش ٹھاکر اور دوسرے کئی سیاسی لوگوں کے بیانات بھڑ کانے اور خوف ودہشت پیدا کرنے والے آئے، اس کی ویڈیو کلپ بھی ٹی وی چینلوں نے جاری کیا، لیکن گجرات حکومت الپیش کو گرفتار نہیں کر سکی اور بظاہر اس کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں، دکھتا تو کیا شمالی ہندوستان کے مزدوروں سے گجرات کو خالی کرانے میں دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ہے اور یہ سارا کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق منظم انداز میں کیا جا رہا ہے ۔“ (صفحہ ۰۱۱)
مزید تحریر کرتے ہیں۔
” لیکن اس عصبیت سے سب سے بڑا نقصان اس ملک کی سا لمیت کو پہونچ رہا ہے ،اس کی وجہ سے ملک کے اتحاد کو خطرہ لا حق ہو رہا ہے ، اور ہر ذی شعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کی تمام ریاستوں میں اس انداز کا ماحول پیدا ہوا تو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو کس قدر نقصان پہونچے گا؟ ہر ریاست خود مختاری کی طرف تیزی سے قدم بڑھا نے لگے گا ، ملک کا جو نقصان ہوگا وہ تو طے ہے ، یہاں کا معاشی نظام ،کل کارخانوں میں پیدا وار کی کمی وجہ سے تباہ ہو کر رہ جائے گا، جواب بھی روپے کی گرتی قیمت کی وجہ سے خطرے کے نشان کو پار کرتا جا رہا ہے ۔
اسی لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ علاقائی بنیادوں پر کسی کو فضیلت اور بر تری حاصل نہیں ہے ، سب کے سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ (صفحہ ۱۱۱)
باب دوم کا عنوان ”تعلیمات“ ہے اس باب میں ۹۱ مضامین ہیں، ہر مضمون کا انداز نرالا ہے، ابتدا حالات کے تناظر میں ہے اور اختتام پر کسی نتیجہ کو اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مضمون کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے، اس باب کے مضامین میں سے ایک مضمون کا عنوان ”فکری یلغار“ ہے، اس کے تحت مصنف تحریر کرتے ہیں:
”قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقہ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔ (صفحہ ۵۹۱)
آگے تحریر کرتے ہیں:
”عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری تقریبا مکمل ہے اور بہت جلد مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کر نے والی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے ، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۶۹۱)
آخر میں رقمطراز ہیں:
” اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔
پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ وکعبہ ہے، اورجس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں ، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکہ کے چشم وابرو پر ایسے ایسے عجیب وغریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعر نوک قلم پر آگیا ۔ 
ای تماشہ گاہ روئے عالم تو
    تو کجا بہر تماشہ می روی؟ (صفحہ ۷۹۱)
باب سوم میں سماجیات پر مضامین ہیں۔ اس باب میں ۱۸ مضامین ہیں ، ان مضامین میں ایک کا عنوان ”بھوک“ ہے، اس مضمون سے مضمون نگار کی وسعت نظری اور مطالعہ کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، اور وہ ماہر اقتصادیات کو پیچھے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں، بھوک سے پیدا ہونے والے مختلف وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد وہ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ کے سروے کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں۔
 ”عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ نے ایک سو انیس ممالک کے سروے کے بعد دنیا کے بھوکے لوگوں کا اشاریہ (عالمی ہنگر انڈکس) پیش کیا ہے ، اس انڈکس کے مطابق ہندوستان سویں مقام پر آگیا ہے، گذشتہ سال کی فہرست میں یہ سنتانوے (۷۹)اور ۵۱۰۲ءکے اشاریہ میں ایک سو ستر(۰۷۱) ملکوں کی فہرست میں اسی (۰۸)نمبر پر تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ہندوستان میں بھوکے لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ پینتالیس (۵۴)درجے یہ ملک نیچے چلا گیا ہے، تین (۳)سال قبل یوپی اے حکومت میں اس کا نمبر پچپن (۵۵)تھا ، اچھے دن آئے، وکاس ہوا ، امیر ، امیر ہو گیے اور غریبوں کی غربت تیزی سے بڑھی ، غربت اور بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس لیے ملک کی عوام مزید بھوک مری کی شکار ہو گئی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۳۲ فی صد بھوکے لوگ صرف ہندوستان میں رہتے ہیں، انیس کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور 19.7فی صد لوگ غذائیت کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، اڑتیس فی صد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ایسی خوراک نہیں مل پا رہی ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کے لیے ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ 35.7فی صد بچوں کا جووزن اس عمر میں ہونا چاہیے وہ اس سے دور ہیں، 51فیصد نوجوان خواتین کو خون کی کمی کا سامنا ہے، سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں 35.6فی صد عورتیں اور 34.2فی صد مرد وں کا بی ام آئی (باڈی ماس انڈکس) 18.5سے کم ہے، یہ انسانی جسم میں غذائیت کی جانچ کا ایک فارمولہ ہے، جس کے مطابق 16سے16.9تک کے لوگ بری طرح عدم غذائیت کے شکار سمجھے جاتے ہیں، 16سے کم والے بھوک مری کی کگار پر ہوتے ہیں، اس وقت ہندوستان گلوبل ہنگر انڈکس میں 31.4پوائنٹ پر ہے، جو سنگین فاقہ کشی کی علامت اور پہچان ہے، ہندوستان میں مدھیہ پردیش اس معاملہ میں سب سے آگے ہے اور اس کا شمار ایتھوپبا اور وسطی افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے، جہاں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ہندوستان اقوام متحدہ کی تجویز کے مطابق بھوک مری سے نمٹنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ 2022تک بھوک مری پر قابو پا لیا جائے گا، اس کام کے لیے حکومت نے نیتی آیوگ کے ساتھ تین اور وزارت کو اس میں شریک کرکے مشترکہ پروگرام چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، نیتی آیوگ نے 640اضلاع میں سے عدم غذائیت کے شکار 110اضلاع کی فہرست جاری کی ہے اور ان اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے باڈی ماس انڈکس کو37.5کے بجائے 20.5تک پہونچا نا ہے، یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ (صفحہ ۰۳۲-۳۳۲)
وہ مفتی ہیں، ان کی نظر دین پر بھی ہے، اس لئے اس موقع پر بھی لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
”کھانا برباد نہ ہو، اس کے لیے اسلام میں سخت ہدایات موجود ہیں، دسترخوان پر گرنے والے ایک ایک دانے کو چن کر کھانے کی تلقین کی گئی ہے، کھانا کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے مختلف طریقہ کار پر زور دیا گیا ہے، خالصا لوجہ اللہ غریبوں ، یتیموں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور جہنمیوں کی زبان سے یہ بیان کروایا گیا کہ ہمارے جہنم میں داخل ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور ان سے کسی بدلے یا کلمات شکر کی امید نہ لگائی جائے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے بھوک مری پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، کاش ہمارے حکمراں بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔(صفحہ ۲۳۲)
باب چہارم میں لسانیات سے متعلق مضامین ہیں، اس باب میں دو مضامین ہیں اور دونوں اہم ہیں، ایک مضمون کا عنوان ”اردو کا مسئلہ“ ہے ، اردو ہماری مادری زبان ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے،محبان اردو نے ہمیشہ اس کی حفاظت کے لئے کوشش اور رہنمائی کی ہے، مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی اردو زبان وادب کے ماہر اور ادیب ہیں، اور حساس شخصیت کے حامل بھی ہیں، اس لئے ان کی رہنمائی کا انداز نرالا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
” واقعہ یہ ہے کہ ہم اردو کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، لیکن ہمیں خوب اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زبان ماتم اور نوحہ سے باقی نہیں رہتی ، ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ اب مسجد میں دعاو¿ں کی تختی بھی ہندی میں لگ رہی ہے ، ہمارے گھروں میں اخبارات ہندی اور انگریزی کے آ رہے ہیں، اردو اخبار کو قاری کی کمی کا شکوہ ہے ، ہمارے بچے اسکول میں اردو بطور سبجیکٹ نہیں رکھتے ، وہ اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں، گھروں میں اب پڑھنے پڑھانے کے بجائے بچہ کو کم عمری میں کنونٹ میں داخل کر دیا جاتا ہے ، ہماری ترجیحات انگلش میڈیم اسکول ہیں، ہم اپنے بچے کے فرفر انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں اور اسے اردو بولنا ، لکھنا، پڑھنا نہیں آتا اس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوتی، جب تک یہ مزاج باقی رہے گا ، ہم اردو کو اس کا مقام نہیں دلوا سکتے ، کیوں کہ ہم یہ لڑائی سرکاری سطح پر نہیں داخلی سطح پر ہار چکے ہیں، داخلی شکست کو فتح میں بدلنا خارجی شکست کے مقابلہ میں زیادہ دشوار ہوتا ہے ۔“(صفحہ۹۶۵)
باب پنجم کا عنوان ”متفرقات“ ہے ، اس باب میں ۰۲ مضامین ہیں، اس باب کے مضامین میں بھی جامعیت اور جاذبیت ہے، تمام مضامین فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں، اس باب میں ایک مضمون ”امیروں کی دنیا“ ہے، اس مضمون کی ابتداءایک سروے ایجنسی کی رپورٹ سے کی گئی ہے، رپورٹ معلوماتی ہے، رپورٹ کے مطالعہ سے مصنف کے تحقیقی ذوق کا بھی پتہ چلتا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”بلومبرگ نامی ایک سروے ایجنسی نے رابن ہوڈ انڈکس کے نام سے دنیا کے مختلف ملکوں کے مالداروں کی دولت کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ جن ملکوں میں وہ رہ رہے ہیں، اس ملک کو اگر ان کو چلانا پڑے تو اپنی دولت سے وہ کتنے دن اس ملک کی کفالت کر سکتے ہیں،اس رپورٹ میں ہندوستان کے مکیش انبانی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بیس دنوں تک ہندوستان کا خرچ بلا شرکت غیرے چلا سکتے ہیں جبکہ بھارت سرکار کا ایک دن کا خرچہ ۸۶۷،۲۱ کڑوڑ روپے کا ہے، امریکہ کے جیف بے حوس پانچ دن ، فرانس کے بنارڈ آرنالٹ ۵۱ دن، میکسیکو کے کارلس سلم ۲۸ دن ، چین کے جیک ما ۴ دن، برازیل کے جارج پاؤ لو تیرہ دن ، اٹلی کے گی اووپنی فرارونو دن، یورپی ملک سائپرس کے جان فرڈ رکسن چار سواکتالیس دن ، جار جیا کے بِد جینا چار سو تیس دن ، ہانگ کانگ کے لی کاسن ۱۹۱دن، ملیشیا کے رابرٹ کو اوک ۵۹ دن ، سنگاپورکے وی چو یا۲۵ دن اور جرمنی کے ڈائٹر سوارج پانچ دن کا خرچ اٹھا سکتے ہیں انچاس ملکوں کے مالداروں کی اس سروے رپورٹ میں چار خواتین کا بھی نام ہے جو اپنے ملک کا خرچ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔(صفحہ ۹۷۵)
اس مضمون سے مصنف نے جونتیجہ اخذ کیا ہے، اس سے ان کے ایک دوسرے ذوق کی نشاندہی ہوتی ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”اس سروے رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز کس تیزی سے ایک فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مالدار اور مالدار ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غریب ، اسلام نے دولت کے ارتکاز کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا ، اس کا معاشی اور اقتصادی نظام دولت کی ایسی تقسیم پر مبنی ہے، جس میں مالداروں کے ذمہ غریبوں مسکینوں کی ضروریات کی کفالت بھی مختلف عنوانات سے شامل ہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہاتھ میں مرکوز نہ ہو کر گردش کرتی رہتی ہے، اسی لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام آمد سے زیادہ خرچ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔“ (صفحہ ۹۷۵)
”زاویہ نظر“ کے ہرباب میں اسی طرح کے مضامین ہیں جو فکر اور تاثیر سے پُر ہیں، اس طرح یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں، ہر مضمون کی اپنی ایک خصوصیت ہے، اور ہر مضمون اپنی الگ فکر اور تاثیر رکھتا ہے، جس کے مطالعہ سے قاری کا ذہن اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
 عام طور پر علماءکا اسلوب بیان اور انداز تحریر گنجلک اور ثقیل ومشکل الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے ، مگر مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی کی تحریر بہت حد تک سادہ اور آسان ہے، زبان میں سلالت اور شیرینی کا پہلو نمایاں ہے، اس طرح یہ کتاب عوام وخواص سب کے لیے یکساں مفید ہے۔
 مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کا وطن ویشالی ضلع کا حسن پور، گنگھٹی ، بکساما ہے، انہوں نے دار العلوم دیو بند سے فضیلت کی سند حاصل کی ، پھر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب میں ایم اے پاس کیا، پی ایچ ڈی پر کام جاری ہے، انہوں نے تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی سے کیا، فی الحال امارت شرعیہ، بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہیں، علمی ، ادبی ، صحافتی اور سماجی خدمات طرۂ امتیاز ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، تصنیف وتالیف سے خصوصی دلچسپی ہے، بہت سی مصروفیات کے باوجود ان کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے، اور بہت سے فنون پر محیط ہے، ان کی تصانیف سے ان کی وسعت مطالعہ بھی پتہ چلتا ہے۔
 مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کی بہت سی کتابیں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہےں، ان میں ”زاویہ¿ نظر “ ایک اہم کتاب کا اضافہ ہے، کتاب بہت معلوماتی ہے، اور اپنے موضوع پر محیط اور دلچسپ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مطالعہ کرنے والوں کو اس کتاب سے فائدہ پہنچے گا۔
 میری دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب کو مقبولیت سے نوازے اور افادیت عام کرے اور تصنیف کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ _

جمعرات, فروری 16, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یاسر رحمن اور عاطف رحمن کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مباکبادی ودعائیہ مجلس کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یاسر رحمن اور عاطف رحمن کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مباکبادی ودعائیہ مجلس کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 16/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس اور محترم کتاب ہے۔ جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لیے  نازل کی گئی ہے ۔ اس کو چھونا، اس کو پڑھنا، اس کو سمجھنا، اور اس پر عمل پیرا ہونا، اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب ، اور تقرب الی اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کی کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے، رہے گی، اور اس کے حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔اس وقت دو بچے سرخیوں میں ہیں یاسر رحمن (بینائی سے محروم)ابن مولانا ومفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی
عمر بارہ سال 
اور عاطف رحمن ابن مولانا ومفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی عمر دس سال(نظام پور دلہن بازار پٹنہ) نے حفظ قرآن جیسی سعادت حاصل کی ہے،
واضح رہے کہ یہ دونوں بچے ہندوستان کے مشہور ومعروف عالم دین سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند موجودہ صدر مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن پٹنہ کے فرزند ہیں، ان دونوں بچوں نے صوبہ بہار کے مشہور ومعروف ادارہ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ میں زیر تعلیم ہیں اور یہیں تکمیل حفظ قرآن کریم کی ہے ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں کی گئی، فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت، اور تکمیل حفظ ایک نابینا بھی کرتے ہیں، یقیناً اللہ اپنی کتاب کی حفاظت اپنے بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں،محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچے کے چچا مولانا عتیق الرحمن نظام پور پٹنہ کو بذریعہ فون مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے قوم وملت کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں،حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے اپنے سینے میں قرآن محفوظ کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا،

عروج آدم خاکی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عروج آدم خاکی___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
انسان کو اللہ رب العزت نے مٹی سے پیدا کیا، اسے نوری مخلوق فرشتوں پر فوقیت دیا ، آتشیں مخلوق جنات بھی اس خاکی انسان کی عظمت کو نہیں پہونچ سکے، اللہ رب العزت نے بنی آدم کو مکرم بنایا ، با عزت وبا عظمت بنایا ، تخلیقی اعتبار سے اسے ساری مخلوقات میں ممتازکیا اور اس کی تخلیق کو خود ہی اللہ نے احسن تقویم کہا یعنی انسان کو اچھے سانچے میں ڈھالا ، اس کے اندر ظاہری اور باطنی ایسی ایسی خوبیاں جمع کر دیں ، جس کی وجہ سے وہ فرشتوں سے سبقت لے گیا اور مسجود ملائک قرار پایا۔
 ماہ وسال گذرتے گیے، انبیاءورسل آتے رہے ، جاتے رہے، مدت ختم ہوتی رہی،لوگ گم گشتہ راہ ہوتے رہے ، انسانیت سسکتی رہی، ظلم وستم نے اپنے دست وبازو پھیلا دیے، کعبة اللہ بھی بتوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ، عورتوں کی عزت سر بازار نیلام ہوتی رہی، اور لڑکیاں زندہ دفن کی جاتی رہیں، کوئی گناہ ایسا نہیں تھا جسے شیاطین نے انسان تک نہ پہونچا دیا ہو اور لوگ اس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں، ایسے میں رحمت خدا وندی جوش میں آئی اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم پھر سے لے جانے کے لئے آقا ومولا فخر موجودات، سر ور کونین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، آپ نے لوگوں میں اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ، اپنے بھی بے گانے ہو گئے اور بیگانوں کی بیگانگی نے ساری سر حدیں توڑ دیں، نت نئے اور نوع بنوع مظالم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ا ن کے رفقاءپر توڑے گئے، جسم اطہر پر اوجھ ڈالی گئی ، راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا ، ان مصائب وآلام اور آزمائش کے ساتھ دعوت کا کام جاری رہا ، آپ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے طائف گئے، وہاں کے اوباشوں نے آپ پر پتھر کی بارش کر دی، پائے مبارک لہو لہان ہو گئے، زخموں سے چور جب آپ بیٹھ جاتے تو اوباش بچے آپ کو اٹھا دیتے اور جب چلنے لگتے تو پتھر بر ساتے ، دل ودماغ کا متشر ہونا لازمی تھا اور زبان مبارک پر دعاؤں کا جاری ہونا تقاضہ بندگی، اللہ ہر حال سے واقف تھا اور محبوب کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا چاہتا تھا ، اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکاون برس نو مہینے کی ہوئی اور منصب نبوت اور اعلان نبوت پر دس سال گذر گیے تو اللہ نے جیتے جاگتے، جسم وروح کے ساتھ اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا ، تاریخ ۷۲ رجب کی تھی ،،جب آدم خاکی کو اللہ نے ایسا عروج عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں دیکھا یا گیا ، قربت الٰہی کا وہ مقام کسی اور کے نصیبے میں نہیں آیا ہے ، اور نہ آئے گا، سفر کے لیے تیز رفتار سواری براق فراہم کرائی گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لایا گیا ، تمام انبیاءکی امامت کرائی گئی عروج مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا ، آسمان وزمین کی سیر کرائی گئی ، جنت وجہنم کا مشاہدہ کرایا گیا ، بد عملی کی سزا دکھائی گئی ، انبیاءورسل سے ملاقات کرائی گئی اور پھر آپ سدرة المنتہیٰ سے بیت المعمور تک پہونچے، جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑا ، دو نیزے اور اس سے کم کی دوری خلوت میں رہ گئی ، تو اللہ رب العزت نے محبوب کو تحفے پیش کیے اور جو حکم دینا تھا، دیا ، بندگی صرف رب کے کرنے کی ہدایت دی گئی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم سے نوازا گیا ،ان کو جھڑکھنے اور اف کہنے تک کی ممانعت کی گئی ، ان کے لئے محبت وشفقت سے کاندھے جھکانے اور بار گاہ خدا وندی میں ان کے لیے رحمت کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی، قتل وزنا وعدہ خلافی ، یتامیٰ کے مال پر تصرف سے دور رہنے کو کہا گیا ، فضول خرچی سے بچنے کی تلقین کی گئی اور فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ، اس موقع سے سب سے بڑا تحفہ نماز کا ملا ، ساری عبادتیں اسی زمین پر نازل کی گئیں اور جبریل کے ذریعہ بھیجی گئیں ، لیکن نماز کا تحفہ رب نے اپنے یہاں بلا کر عطا فرمایا ، اب کسی کو معراج نہیں ہوگی ، لیکن مو من اگر اپنے اندر معراج کی کیفیت محسوس کرنا چاہتا ہے تو اسے نماز سے لو لگانا ہو گا ، نماز اللہ سے سر گوشی کا بہترین ذریعہ ہے، اسی لیے نماز کو معراج المومنین کہا گیا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں سر گوشی کی ، اپنی باتیں رکھیں، امت کی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی سلامتی میں نیک ایمان والوں کو شامل کر لیا اسی طرح بندہ بھی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنی باتیں دعاؤں کی شکل میں ا للہ کے سامنے رکھتا ہے ، اپنے سلام میں نیک بندوں کو شامل کرتا ہے ، اللہ کی مسلسل عبادت کے نتیجے میں اس کی بندگی اس احساس کے ساتھ ہوتی ہے کہ جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہے او راگر اس مقام تک نہیں پہونچتا ہے تو کم از کم وہ یقین واعتماد کے اس مقام تک پہونچ جاتا ہے جہاں ہر وقت اسے خدا کی نگرانی اور اس کے دیکھنے کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ، یہ مقام پہلے سے کم تر سہی ، لیکن اس مقام کو بھی پالینے کے بعد گناہوں کے ارتکاب ، بد عملی اور بے عملی سے انسان نجات پاجاتا ہے ، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ۔اور کوئی کام بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر میں نہیں کر سکتا۔
معراج کا واقعہ سادہ سا واقعہ نہیں ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپ نبی قبلتین ہیں اور آپ کی آمد سے صدیوں سے جاری بنی اسرائیل کی تولیت کا خاتمہ ہو گیا اور اب قیامت تک یہ مقام ومنصب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا گیا ، قرآن کریم میں اس سفر کے جومقاصد بیان کیے گیے ان میں سے ایک، آسمان وزمین کی کچھ نشانیاں دکھانی تھیں، یہ نشانیاں کیا تھیں ، ہمارے پاس اس کی ترجمانی کے لیے الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ الفاظ کا دائرہ ہمارے محسوسات مشاہدات اور تعلقات سے آگے نہیں بڑھتا ، واقعہ یہ ہے کہ عالم بالا کی نشانیاں انسانی محسوسات اور عقل وتصور سے ماورا ہے، اوپر کی چیزہیں، اس لیے اس کی عکاسی الفاظ میں ممکن نہیں، ا للہ کے فضل وتوفیق اور اس کی قدرت کاملہ کے طفیل اللہ کی ان نشانیوں کو الفاظ کا جامہ پہنابھی دیاجائے تو انسانی دماغ ، ان کے سمجھنے کے بعد قوت بر داشت کہاں سے لائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ معراج کے واقعہ پر جسمانی، روحانی ، بیداری اور خواب کی حالت کے حوالے سے بڑی بحثیں کی گئی ہیں، سب نے فہم وفراست کے دائرہ میں اسے دیکھا اور چونکہ معیار فہم الگ الگ ہیں،ا س لیے اختلافات ہوئے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا ، یعنی نہ تو یہ مکمل خواب تھا اور نہ یہ ایسا واقعہ تھا جسے جاگے میں دیکھا جاتا ہے، یعنی ان دونوں سے الگ حالت تھی اور انسان یا تو سوتا ہے یا جاگتا ہے،ا س لیے الفاظ بھی اس کے یہاں انہیں دونوں حالات کے لیے پائے جاتے ہیں۔
 ایک تیسری حالت جو معراج کی رات آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر گذری، ہمارے فہم وادراک سے بالا اور ہمارے پاس اس کی تعبیر کے لیے الفاظ نہیں ہے ۔ رہ گئی بات عقل وخرد کی ، تو معجزات اسی کو کہتے اس کو ہیں جو فطری نہ ہو ، خرق عادات پر مشتمل ہو ، اس کے با وجود ہمارا ایمان وعقیدہ ہے کہ جسمانی معراج بھی عقل وخرد سے بعید نہیں ہے؛ کیونکہ جو اللہ آسمان ستارے او رسیارے کو فضا میں تھام رکھنے پر قادرہے ،اس کے ذریعہ انسانی جسم کو خلامیں لے جانے اور روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز لے جانے میں کون سی بات خلاف عقل ہے،ہندوستان میں ا س واقعہ کی یاد میں شب معراج ہر سال منایا جاتا ہے، بعض لوگ روزے رکھتے ہیں اور بعض جشن معراج نبی منعقد کرتے ہیں، جلسے جلوس کا اہتمام ہوتا ہے، ہمیں خوب یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس شب معراج کے بعد اب کوئی دوسری شب معراج نہیں آئے گی ، تاریخیں آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن اس کو اس معراج سے کیا نسبت ہے، جس رات آقاصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، خوب سمجھ لینا چاہیے کہ شب معراج ہر سال نہیں آتی ، صرف تاریخیں آتی ہیں، اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ اللہ رب العزت نے آدم خاکی کو کیسا عروج بخشاہے، بقول اقبال
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

منگل, فروری 14, 2023

حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی__ ایک تبصرہ

حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی__ ایک تبصرہ
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️محمد عاقب قاسمی خیرآبادی
 فاضل دارالعلوم دیوبند 
رابطہ نمبر 6387689048
 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو ابتدا ہی سےخداداد صلاحیتوں اور گونا گوں خصوصیات و کمالات عطا فرما دیتا ہے جس کی وجہ سے ایسے حضرات شروع ہی سے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دینے کی فکر اور جد و جہد میں لگ جاتے ہیں جو در حقیقت انہیں کا حصہ ہوتے ہیں۔ قابل قدر ہیں ووہ شخصیات جن کو اللہ رب العزت اپنے خزانۂ غیب سے بے مثال محاسن و کمالات عطا کیے ہوں اور وہ رب کریم کے اس عطیہ کی قدر دانی کرتے ہوئے کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ کئی محاذوں پر مصروف عمل ہوں۔ 
 من جملہ خدا تعالیٰ کی ان منتخب شدہ اور چنندہ شخصیات میں سے عہد حاضر کی ایک کثیر االجہات شخصیت امارت شرعیہ پٹنہ بہار کے نائب ناظم ، ہفت روزہ نقیب پٹنہ بہار کے مدیر مسئول، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی ، آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی کے رکن ، وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم ، قوم و ملت کے خادم حضرت اقدس مولانا و مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی مدظلہ العالی بھی ہیں۔ 
 مفتی صاحب جہاں ایک طرف مسند درس و تدریس کے ایک کامیاب ، باکمال لائق و فائق مدرس ہیں تو دوسری طرف میدان خطابت کے شیریں بیاں ، شگفتہ زباں مقرر اور خطیب بھی ہیں۔ آپ اگر صحرائے صحافت کے شہسوار، ماہر ادیب ، نامور مؤرخ اور مشہور زمانہ صاحب قلم ہیں تو دوسری طرف ملی ، قومی اور سماجی امور کے ایک با صلاحیت اور کامیاب منتظم بھی ہیں۔  
 حضرت مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا اور آپ کی کثیر الجہات شخصیت کا اکابر علماء نامور ادباء اور مشہور شعراء اور دانشوران قوم نے نہ صرف یہ کہ اعتراف کیا بلکہ داد و تحسین کی اور دعاؤں سے بھی نوازا۔ 
 آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے جناب شاہد نظامی صاحب لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ایک عالم دین ، مصلح ، اسلامی اسکالر، فقہ وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے اردو زبان و ادب کے محقق و ناقد ، اصلاح معاشرہ کے لئے سر گرم عمل ،امارت شرعیہ ، جمیعت شباب اسلام، ملی کونسل، انجمن ترقی اردو ، نور اردو لائبریری اور مختلف تعلیمی اور ملی اداروں کی خدمات میں کامیاب اور فعال اشتراک عمل کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ (مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات صفحہ نمبر۹۹)
 محمد سلیم رضوی صاحب لکھتے ہیں گزشتہ چند سالوں میں بہار کے مذہبی علمی و ادبی افق پر جو چند قدآور اور بلند آہنگ شخصیتیں نمودار ہوئیں اس میں ایک نام مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا ہے۔ جن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ۲۰۰۰؁ء میں صدر جمہوریہ ہند نے صدارتی ایوارڈ دے کر نہ صرف زرخیز ذہن کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ مدارس اسلامیہ کے تعلیمی معیار کو بھی نگاہ اعتبار بخشا۔( حوالہ بالا ص۹۰)
 انوار الحسن وسطوی لکھتے ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کا قومی ایوارڈ سے سرفراز ہونا حقیقت میں ان کی ہمہ جہت خدمات کا حقیقت پسندانہ حکومتی سطح پر اعتراف اور ان کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ مفتی صاحب متعدد ملی ، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اداروں سے منسلک اور ان کے کاموں میں منہمک رہنے کے با وجود کئی درجن کتابوں کے مصنف اور مؤ لف بھی ہیں۔ مفتی صاحب اردو کے پختہ کار ادیب اور مقالہ نگار ہیں ۔ان کے قلم سے مختلف موضوعات پر بے شمار مقالے تحریر ہو کر ملک کے موقر رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔ (حوالہ بالا ص ۷۳)
 پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب حضرت مفتی صاحب کے وسعت قلم کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی نگارشات کا دائرہ اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ اس میں تحقیق، تنقید ، تاریخ، شاعری، ادب کی نثری اصناف اور علوم دینی کی متعدد شاخیں بالخصوص فقہ و حدیث سب داخل ہیں۔(حوالہ بالاص ۶۴)
 مفتی صاحب کے قلم کی جازبیت کا نقشہ ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں مفتی صاحب کی عبارت میں ادبیت اور پختگی کے علاوہ علمیت کی چاشنی بھی ملتی ہے۔ موصوف اپنے خیالات اور الفاظ کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ پڑھنے والا ادبیت کا مزہ لیتا ہے اور خشک موضوع بھی دل چسپ ہو جاتا ہے۔ اپنی تحریروں سے قوم کو کورانہ اور نمائشی تقلید سے بچانے کے لئے اکثر نہایت پر اثر الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ (حوالۂ بالا ص ۱۳۶)
اکابر علماء اور نامور ادباء کی طرح مشہور شعرائے کرام بھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف اپنے کلاموں میں کرتے آئے ہیں۔ چنانچے کامران غنی صبا صاحب نے آپ کی شان میں یہ اشعار لکھے ہیں۔
ہیں علم شریعت کے وہ رازداں
خموشی میں جن کی نہاں داستاں
وہ ہیں عالم با عمل بالیقیں
جنہیں کہئے اسلاف کا جاں نشیں
مفکر، مدبر کہ دانش وراں
سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
 مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی صاحب آپ کی مدح سرائی کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
لائق صد ستائش ثناء الہدیٰ
میر بزم ادب ہیں ثناء الہدیٰ
وہ محدث، محقق، سخنور بھی ہیں
مرکز علم و فن ہیں ثناء الہدیٰ
ان کی تصنیف ہر فن میں موجود ہے
ہیں سبھی فن میں ماہر ثناء الہدیٰ
 انوار الحق داؤد قاسمی کہتے ہیں ۔
آبروئے وطن صاحب فکر و فن
ہیں ثناء الہدیٰ خود میں اک انجمن
 حسن نواب حسن مرحوم نے تو بہت ہی خوب کہا ہے۔
یہ ہیں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی
ان کو سننا بھی پڑھنا بھی ہے لازمی 
دین و مذہب کے ساتھ ادب کے امیں
ایسا جلدی ملےگا کہاں آدمی
 مختصر یہ کہ مفتی صاحب کی خدمات اور کارناموں کا دائرہ نہ صرف درس و تدریس تک محدود ہے بلکہ تبلیغ و تنظیم ، تحریر و تقریر اور تصنیف و تالیف تک پھیلا ہوا ہے۔ بقول مولانا رضوان ندوی آپ کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں ۔ پیش نظر کتاب یادوں کے چراغ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے جس میں حضرت نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات و تاثرات کو قلم بند کیا ہے جو سب زیر خاک جا چکے ہیں۔ ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں کچھ خورد بھی ، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں ، کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع و با وفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔ اس طرح اس مجموعے میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں۔اسلئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کیے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں۔ اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ان میں متعدد ایسے نام بھی ہیں جن کی یاد اس مجموعے کے ذریعے باقی رہے گی۔ کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے تا کہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات و مشاہدات ہیں ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے۔ 
اس مجموعہ میں ڈاکٹر قاسم خورشید صاحب کا پرمغز مقدمہ مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی ’’آدھی ملاقات ‘‘اور ’’یادوں کے چراغ کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے بڑا ہی گراں قدر ہے۔ جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ ہےکہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا پوری شدت کےساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ روشن کرتے رہے۔ ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے۔ (یادوں کے چراغ ص۱۱) 
 اسی لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا۔ یہ ان کے کمال درجے کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
 بہرحال زیر تبصرہ کتاب کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب کے علاوہ دوسرے جرائد و رسائل کی زینت بن چکے ہیں جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے باب اول میں علماء و مشائق کے احوال و آثار کا تذکرہ ہے ان میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سمیت ۳۲؍اصحاب فضل و کمال کا تذکرہ ہے۔ باب دوم میں شعراء ،ادباء، سیاستداں اور ماہرین تعلیم کی ادبی فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے۔ باب سوم میں چار بھولے بسرے لوگوں کو شریک اشاعت کیا گیا ہے اور آخری باب میں داغ ہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت اور کردارو عمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت و سوانح سے دل چسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
 اخیر میں ڈاکٹر ثوبان فاروقی صاحب کی دعا کو نقل کرکے مقالہ ختم کرتا ہوں۔خدا کرے ان کا احساس تشنگی کبھی زائل نہ ہو ان کی روح یوں ہی مضطرب و بیقرار رہ کر نئے نئے آفاق کی جستجو میں سرگرداں رہے۔ ان کے دل کی آگ امت مسلمہ کے قلوب و اذہان کو عزم و یقین کی قندیل سے ہمیشہ روشن کرتی رہے۔
 میری دعا ہے کہ مفتی صاحب کی ذات بابرکات تادیر قائم و دائم رہے کہ انہیں دیکھ کرامت کے اکابر و اسلاف اور صاحبان دعوت و عزیمت کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ آمین۔(مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات ص۶۹)

آثار قدیمہ کی حفاظت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

آثار قدیمہ کی حفاظت __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 دنیا کے تمام ممالک میں آثار قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے ، کیوں کہ یہ آثار اس ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ کا حصہ ہیں، ان کے مٹانے کی کسی بھی کوشش کا صاف مطلب اپنی تہذیب اور تاریخ پر کلہاڑا چلانا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک آخری حد تک اس کی بقا کا انتظام کرتا ہے، اور اس کی حفاظت پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا فائدہ ملک کو یہ ہوتا ہے کہ سیاح اس کو دیکھنے کے لیے دو ر دور سے آتے ہیں، جو اس ملک کی آمدنی میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے اوراس کے ذریعہ ملک کی تہذیب وثقافت اور تاریخ سے دیگر ممالک کے لوگ بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
 برطانیہ ، متحدہ عرب امارات وغیرہ اس سلسلے میں زیادہ حساس ہیں، وہ قدیم گھروندے اور پرانی روش اور بود وباش کے طریقوں کو بھی نقاشی اورمصوری سے اجاگر کرتے ہیں، اس طرز کے مکانات بنا کر اس میں وہاں کی تہذیب وثقافت کو محفوظ کر لیتے ہیں، وہ پائے اور پیلر تک کو تاریخی سمجھتے ہیں اور ان کو برباد کرنے کی کوئی مہم جرم کے درجے میں شمار ہوتا ہے۔ مصر اور موہن جو داڑو، ہڑپا کی تہذیب عالمی طور پر قدیم تصور کی گئی ہے ، ایک مصر کے حصہ میں آئی اور دوسری غیر منقسم ہندوستان کے، تیسرے نمبر پر ویشالی کے لچھوی راجاؤں کی تہذیب تھی، جو بہار کے لیے باعث فخر ہے۔
 مصر کے اہرام، ابو الہول، غار وغیرہ آج بھی موجود ہیں اور مصر کی معاشی استحکام کا ذریعہ در اصل یہی ہیں، اسکندریہ علاقہ کی زر خیزی اور قاہرہ علاقہ کی سیاحت نہ ہو تو مصر کنگال ہوجائےگا، ان عمارتوں نے پورا اسلامی دوردیکھا ، لیکن اسے مٹانے کا خیال کسی کے ذہن میں نہیں آیا، بلکہ ان لوگوں نے فرعونی دور کو یاد رکھنے کے لیے میوزیم میں فرعون کی لاش محفوظ رکھی ہے ،رمسیس ثانی کے نام پر اسٹیشنوں کے نام رکھے ہیں اوراس دور کی چیزوں سے اپنے یہاں کی میوزیم کو آباد کر رکھا ہے، انگلینڈ میں پرانے گرجاگھروں کو محفوظ کرنے اور رکھنے کے لیے دوسروں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں، لیکن اس کی اصلی ہیئت کو تبدیل کرنے کی اجازت قطعا نہیں ہوتی، افغانستان میں طالبان نے پہلے دور حکومت میں بدھ کی تاریخی مورتی کو زمین بوس کر دیا تھا توشرعی نقطہ نظر سے قطع نظر عالمی طور پر اس کی مذمت اس لیے کی گئی تھی کہ وہ ایک تاریخی ورثہ تھا، اس معاملہ میں طالبان کا کہنا تھا کہ اسلام بت شکنی کے لیے آیا تھا اور بتوں کی حفاظت ہمارا کام نہیں ہے ، ان کی دلیل میں وزن ہونے کے باوجود دنیا ؛بلکہ عالم اسلام نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
 ہندوستان مین بھی 2014 تک حکومت کا رجحان آثار قدیمہ کی حفاظت کا تھا، بھاجپا کی حکومت میں اسے دوسری نظر سے دیکھا جانے لگا، مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ دور حکومت کو یہ حملہ آوروں کی حکومت سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک ان عمارتوں کو نئے نئے نام دے کر اس کی تاریخ مسخ کی جارہی ہے ، عمارت کے ساتھ شہروں ، سڑکوں، پارکوں اور ریلوے اسٹیشن تک کے نام بدلے جا رہے ہیں، حالاں کہ یہ ہمیں اس دور کی تاریخ کو یاد دلاتے ہیں، تہذیب وثقافت کو جاننے اور سمجھنے کی اہمیت بتاتے ہیں، الٰہ آباد پریاگ راج ہو گیا،مغل سرائے دین دیال اپادھیائے اور اب مغل گارڈن ”امرت ادھان“ کے نام سے جانا جا رہا ہے ، گیٹ آف انڈیا کرتویہ پتھ بن گیا، انڈیا گیٹ کے پتھر پر کندہ نام تاریخ کا حصہ بن گیے، امر جیوتی گیٹ آف انڈیا سے اٹھالی گئی ، پارلیامنٹ کی عمارت کو انگریزوں کی یاد گار قرار دے کر نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا، مغل حکمرانوں کے نام پر جو سڑکیں تھیں اسے بھی بدل دیا گیا اور جن کا کوئی رول ملک کی آزادی اورتاریخ میں نہیں تھا، وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں، گاندھی جی کو کئی جگہ سے نکال دیا گیا ہے، اور روپے پر بھی کب تک رہیں گے کچھ کہنا مشکل ہے، ڈیجیٹل انڈیا اور ڈی جیٹل روپی پر اس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
 ہندوستان کے حکمرانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ آثار قدیمہ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا تعلق کسی حکومت اور کسی بھی مذہب سے ہو وہ ملک کا مشترکہ ورثہ ہے، اور جس طرح دوسرے ممالک اس کی حفاظت کرے ہیں اور اس میں تبدیلی گوارہ نہیں کرتے، ہمیں بھی اس کو نہیں بدلنا چاہیے، صرف میوزیم میں مختلف ادوار کے کنکر پتھر جمع کرنا اور موتی مسجد اور لال قلعہ کے دربار خاص سے قیمتی پتھروں کو نکالنے پر نگاہ نہ رکھنا شعور کی علامت نہیں ہے ، اس لیے حکومت کو اپنا نظریہ بدلنا چاہیے اور آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے رقم بھی فراہم کرانی چاہیے، اور اس نفسیات سے نکلنا چاہیے کہ سب کچھ ہم بدل کر رکھ دیں گے۔ اس طرح تو ہندوستان بازیچہء اطفال ہوجائے گا______

سمستی پور کالج میں نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہریوں کے بنیادی فرائض کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد

سمستی پور کالج میں نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہریوں کے بنیادی فرائض کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد
اردودنیانیوز۷۲ 

سمستی پور کالج مورخہ 14/فروری 2023 (پریس ریلیز:ڈاکٹر صالحہ صدیقی) سمستی پور کی نیشنل سروس اسکیم کے زیر اہتمام ہندوستانی شہری اور ان کے بنیادی فرائض' کے عنوان پر مورخہ 13/فروری بروز سوموار ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، تاکہ آئین میں درج بنیادی فرائض کی وسیع پیمانے پر تشہیر وعمل ہوسکے ۔ 
 سیمینار کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستین کمار اور لیڈر شپ پروگرام آفیسر مہیش کمار چودھری نے کی۔ پرنسپل نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں درج بنیادی فرائض ہمیں اپنی قوم میں امن، مساوات، بھائی چارہ ،اور ہم آہنگی وغیرہ کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ حق آئین حاصل کرنے کے لیے فرض کا ہونا ضروری ہے۔ آئین کی طرف سے 11 بنیادی فرائض دیئے گئے ہیں، جن پر عمل کرنا ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے ۔ ہم سب ایک مہذب قوم کے مہذب شہری ہیں۔
ہمیں اپنے آئین پر عمل کرنا چاہیے اور اس کے نظریات، اداروں، قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام کرنا چاہیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر انیل کمار سنگھ، ڈاکٹر اشوک کمار، ڈاکٹر وشواناتھ شاہ، ڈاکٹر سرویش کمار، ڈاکٹر منوہر کمار پاٹھک، ڈاکٹر اپاسنا جھا، ڈاکٹر ناگمنی آلوک، ڈاکٹر شیوانند پٹیل، ڈاکٹر انیل۔ کمار یادو، ڈاکٹر چاندنی رانی، ڈاکٹر صالحہ صدیقی وغیرہ اپنا اظہار خیال کیا ۔اس کے علاوہ غیر تدریسی عملے میں سے پرمود کمار، سنجیو کمار سنگھ وغیرہ نے اپنے خیالات رکھے۔ طلبہ وطالبات میں سے ہیما کماری اور امرجیت کمار نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس موقع پر راجکمار، کنال کمار، پنکج رام، سوریا کانت، جیلسی سمیت ایک سو سے زیادہ لوگ اس پروگرام میں موجود تھے۔ اسٹیج کی نظامت ڈاکٹر آشیش پانڈے نے کی اور اظہار تشکر ڈاکٹر نیتو کماری نے کی۔ قومی ترانے کے بعد پروگرام صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...