Powered By Blogger

منگل, فروری 21, 2023

وسی جامع مسجد کے ڈاکٹر شیخ نصیر احمد چیرمین کے عہدے پر بحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وسی جامع مسجد کے  ڈاکٹر شیخ نصیر احمد چیرمین کے  عہدے پر بحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
مہاراشٹرا اسٹیٹ وقف ئریبونیل اورنگ آباد کا تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔ ۲۲ دسمبر ۲۰۲۲ کو وسی جامع مسجد ئرست کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد کو مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف اورنگ آباد کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جنید نے  جامع مسجد ٹرسٹ کے تعلق سے اکاؤنٹ اور  ئرست کی املاک میں کی گئی بدعنوانی کے الزامات کے تحت چند افراد کی شکایت پر ئرست کی چیئرمین شپ سے معطل کر کے ئرست کے انتظامات مکمل طور پر اپنے اختیارات میں لے کر  کوکن وبھاگ کے ریجنل آفیسر عبدل عتیق خان کو ئرست کا نگران مقرر کر دیا تھا  وقف بورڈ نے اس کارروائی کو انجام دینے سے پہلے نا تو ئرست کو کوئی نوٹس دی اور نا ہی وقف بورڈ میں کی گئی شکایت پر کوئی جواب داخل کرنے کا موقع ریا بتاریخ  11 دسمبر 2022 کی ناگپور میں ہوئی  مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف کی مئئگ میں منظور کر دہ تجویز نمبر 46 کے مطابق وقف ایکٹ 1995کے سیکشن 67 کے تحت ئرست سے شیخ نصیر احمد کو انکوائری مکمل ہونے تک معطل کر دیا اور  ئرست آفس تعمیری چندہ بکس  قبرستان اسئور روم  عوامی مطب اور ئرست بینک اکاؤنٹ کو سیل کر دیا  وقف بورڈ کی جانب سے کی گئی عیر قانونی کارروائی کو ڈاکٹر شیخ نصیر احمد نے 23 دسمبر 2022 کو مہاراشٹرا وقف ئریبونیل اورنگ آباد میں چیلنج کرتے ہوئے اپلیکیشن نمبر 63/2022 داخل کر کے وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا وقف ئریبونیل کے ججوں نے معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقف بورڈ کی جانب سے کی گئی کارروائی پر انٹرم آرڈر جاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک وقف بورڈ پر پابندی عائد کر دی اس مقدمے میں وقف بورڈ  میں شکایت کنندگان  نے 26 دسمبر کو وقف ئریبونیل میں فریق بننے کے لئے درخواست داخل کی  جسے وقف ئریبونیل نے 27 دسمبر 2022 کو خارج کر دیا  16 دسمبر 2022 کو وقف بورڈ کئ جانب سے جواب داخل کرنے کے بعد اس مقدمے کی سماعت کی  تاریخ 23  فروری 2023 مقرر کی گئی  جامع مسجد ئرست وسی کی جانب سے اس مقدمے کی پیروی اورنگ آباد کے جانے مانے وکیل نثار احمد خان نے وقف ئریبونیل کے سامنے  تمام دلائل پیش اور ئرست اور عوامی فلاح و بہبود ی کے لئے انجام دی گئی خدمات  پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ نے میرے موکل کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد  الزامات پر تحقیقات  کئےبنا قانونی کارروائی کرتے ہوئے وقف قانون 1995 کا غلط استعمال کیا ہے اور چند لوگوں کی شکایت پر بنا نوٹس  جاری کیے ایک عوامی مذھبی ادارے کے ئرسئ کواس کی خدمات سے بغیر کوئی وجہ بتائے مطعل کرتے ہوئے ارارے کا انتظام وقف بورڈ نے اپنے اختیارات میں لے لیا جس کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے  وقف بورڈ نے 11/12/2022 کی میئنگ میں منظور کر دہ تجویز نمبر  MSBW /ENQ/10043/2022 کے تحت وقف   قانون 1995کے سیکشن 67 کے مطابق معطل کیا ہے جبکہ مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف کو وقف قانون 1995 کے سیکشن 28 اور 68 کے تحت یہ اختیارات حاصل نہیں ہے کہ وہ رجسڑڈ ئرسئ کو معطل کرے  وقف بورڈ میرے موکل کے خلاف انکوائری مکمل کر کے اگر بدعنوانی کے الزامات ملتے  ہیں تو چیف ایگزیکٹو آفیسر کواپنی رپورٹ تیار کر کے ضلع کلکٹر کو روانہ کر نا چاہیے تھا  وقف بورڈ کی رپورٹ پر ضلع کلکٹر ئرسئ کو معطل کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے وقف بورڈ نے تمام قانون کو نذر انداز رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال  میرے موکل پر عیر قانونی طور پر کیا ہے اور جامع مسجد ئرست وسی کا کاروبار اپنے اختیارات میں لے کر ئرست کو مالی نقصانات اور عوامی مذھبی خدمات سے بدخل کر دیا ہے  مہاراشٹرا وقف ئریبونیل میں مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر ججز ایم  ڈی  عاصم اور مسلم لا آفیسر جج محمد معی الدین معید نےجراع کے دوران پیش کیے گئے دلائل اور ثبوت  کوسامنے رکھتے ہوئے وقف بورڈ کے 11/12/2022 کے فیصلے کو مسترد کردیا اور جامع مسجد ئرست وسی کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا  وقف ئریبونیل اورنگ آباد کے اس تاریخی فیصلہ سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ئرست کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد پر عوام کا اعتماد و یقین کامل اور مضبوط ہو گیا ہے  ڈاکٹر صاحب کی ئرست کی  معرفت انجام دی گئی   بے شمار قومی تعمیری  تعلیمی و فلاح و بہبود ی کی خدمات زندہ جاوید اپنے آپ میں ایک مثال کارنامہ ہے آور آج بھی آپ کا  قوم کی  فلاح کے لئے تعمیری سفر جاری ہے اور جاری رہے گا

پیر, فروری 20, 2023

عام بجٹ: اعداد وشمار کی بازی گری__مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عام بجٹ: اعداد وشمار کی بازی گری__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بقول ان کے” امرت کال“ کا پہلا اور اپنے دور کا پانچواں بجٹ پارلیامنٹ میں پیش کیا اور کہا کہ یہ بجٹ سات نکاتی ہے ، اس میں ہمہ جہت ترقی، آخری صف کے آخری آدمی تک پہونچنے بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری ، مواقعات کی توسیع ، سبز خوش حالی وترقی، نوجوانوں کی قوت اور معاشی معاملات کو سامنے رکھا گیا ہے03-45 لاکھ کروڑ روپے کا یہ بجٹ گذشتہ سال کے مقابلے 58-5لاکھ کروڑ زیادہ ہے ، اس بجٹ کے بعد سگریٹ، پیتل، چھاتا، غیر ملک سے بر آمد باورچی خانے کی چمنی، سونا، درآمد چاندی، پلاٹینم، کپڑے اور غیر ملکی کھلونے مہنگے ہوں گے، جب کہ موبائل فون، ٹی وی سیٹ، کچن چمنی، کیمرے وغٰرہ سستے ہوں گے۔
 بجٹ کا ایک اہم جزیہ ہوتا ہے کہ رقم کہاں سے آئیگی اور کہاں خرچ ہوگی، اس میں جو اعداد وشمار دستیاب کرائے گئے اس کے مطابق کمپنی ٹیکس ، انکم ٹیکس سے پندرہ پندرہ پیسے، جی اس ٹی اور دیگر ٹیکس سے سترہ پیسے، قرض اور دیگر ذرائع سے چونتیس پیسے، کسٹم سے چار پیسے، سنٹرل اکسائز ڈیوٹی سے سات پیسے، غیر ٹیکس کی رسیدات سے چھ پیسے اور غیر قرض دار سرمایہ کی رسیدوں سے دو پیسے اس طرح آمد کا سوفی صد پورا کیا جائے گا، جب کہ ان سو پیسوں میں سے سنٹرل اسکیم میں سترہ پیسے، سود کی ادائیگی میں بیس پیسے، دفاعی شعبہ پر آٹھ پیسے، سبسڈی کی ادائیگی میں سات پیسے ، ٹیکس میں ریاستوں کی حصہ داری اٹھارہ(18) پیسے، پنشن کے مد میں چار پیسے، مرکزی منصوبوں میں حصہ داری اور دیگر امور میں نو، نو پیسے اور دیگر اخراجات پرآٹھ پیسے صرف کیے جائیں گے۔
 بجٹ میں عوام سے بہت سارے وعدے بھی کیے گیے ہیں، ایک سو ستاون نرسنگ کالج ، تیس(30) اسکل انڈیا انٹرنیشنل سنٹر،5G خدمات کے لیے ایک سو لیپ قائم کیے جائیں گے ، ایک کروڑ کسانوں کو امداد دی جائے گی ، تین سال کے اندر سات سو چالیس ماڈل رہائشی اسکولوں میں اڑتیس ہزار آٹھ سو اساتذہ وملازمین کی تقرری عمل میں آئے گی، وزیر اعظم رہائشی منصوبہ کے لیے 79 ہزار کروڑ روپے ، چھوٹی صنعتوں کے قرض کے لیے نو (9) ہزار کروڑ روپے، وزارت دفاع کے لیے 5.94 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے ، زرعی قرض کے لیے بیس لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گیے ہیں، اقلیت کے بجٹ میں دو ہزار کروڑ روپے کم کر دیے گیے ، ان تمام اسکیموں کی رقم گھٹادی گئی ہے، جس سے اقلیتوں اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کو فائدہ پہونچتا تھا، مثال کے طور پر منریگا کو پیش کیا جا سکتا ہے،جس سے مزدوروں کو یومیہ مزدوری ملا کرتی تھی، مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کو صرف دس لاکھ روپے دیے گیے ہیں، اس کو تو اب بند ہی سمجھنا چاہیے، یوپی اس سی کی تیاری کے لیے اقلیتی طلباءکے لیے جو اسکیم چل رہی تھی اسے بھی بند کر دیا گیاہے۔
اس بجٹ میں نئے ٹیکس کا نظام بنایا گیا ہے ، جس کے تحت سات لاکھ روپے تک کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ، البتہ اگر سات لاکھ سے ایک روپے زائد کی رقم دکھائی گئی تو پھر تین لاکھ سے چھ لاکھ تک پانچ فی صد اور چھ سے نو لاکھ تک دس فیصد ٹیکس دینا ہوگا، نو سے بارہ لاکھ آمدنی پر پندرہ فی صد اور بارہ سے پندرہ لاکھ روپے پر بیس فی صد اور پندرہ لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر تیس فی صد کا سلیب لاگو ہوگا۔
 اس بجٹ پر جو تبصرے آئے ہیں وہ حسب سابق متضاد ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کا خیال ہے کہ بجٹ میں خوش حال ہندوستان کا عزم ہے، راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ ”متر کال“ کا بجٹ ہے اور مرکز کے پاس مستقبل کا کوئی خاکہ نہیں ہے ، وزیر اعلیٰ بہار کی نظر میں عام بجٹ مایوس کن ہے اور اس میں دور اندیشی کا فقدان ہے۔
 مجموعی طور پر اس بجٹ کی تیاری میں آئندہ سال پارلیامنٹری اور امسال کے نو ریاستوں میں ہونے والے انتخاب کو سامنے رکھا گیا ہے ، جو غیر بھاجپائی اقتدار والی ریاستیں ہیں ان کے مفاد کی ان دیکھی کی گئی ہے اور جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں کار پوریٹ گھرانوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے ، کیوں کہ انتخاب لڑنے کے لیے روپے بھاجپا کو وہیں سے ملتے ہیں، اس لیے ان پر خاص طور سے توجہ دی گئی ہے تاکہ ان کی دوستی پر حرف نہ آئے ، بجٹ کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ اعداد وشمار کی بازی گری ہے اور عوام کو ان بازی گروں نے یا تو دھوکہ دیا ہے یا اعداد وشمار سے لبھایا ہے، اس طرح یہ بجٹ شاعر کے اس شعر کے مصداق ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

اتوار, فروری 19, 2023

مولانا انیس الرحمن قاسمی بھاگلپور ی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا انیس الرحمن قاسمی بھاگلپور ی ؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن ، خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ کے اکابر کے معتمد خاص، جامع العلوم پٹکا پور کان پور، دار العلوم اسلام نگر رانچی ، جامعہ ام سلمہ دھنباد، مدرسہ احیاءالعلوم ناتھ نگر بھاگلپور کے سابق استاذ، ماہنامہ خورشید بریلی، ماہنامہ الفاروق بھاگلپور اور دیش بدیش بھاگلپور کے سابق مدیرمحترم، آل انڈیا ملی کونسل کے سابق سکریٹری مولانا انیس الرحمن قاسمی ناتھ نگر بھاگلپور کا 7 فروری 2023 بروز منگل تین بجے صبح انتقال ہو گیا، جنازہ کی ادائیگی اسی دن بعد نماز عصر ناتھ نگر میں ہوئی ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا مفتی محمد الیاس صاحب شیخ الحدیث مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور نے پڑھائی ، اور ناتھ نگر کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا پیغام تعزیت قاضی شریعت بھاگلپور مولانا خورشیدعالم صاحب نے پڑھ کر سنایا اور جامعہ رحمانی مونگیر کی نمائندگی کرتے ہوئے حافظ محمد امتیاز رحمانی نے مرحوم کے اوصاف وکمالات کا ذکر کیا، پس ماندگان میں دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں، جن میں ایک صاحب زادہ مولانا خالد فیصل ندوی دار العلوم ندوة العلماءمیں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اہلیہ 2016میں وفات پا چکی تھیں
 مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ولادت یکم جنوری 1931 کو ناتھ نگر بھاگلپور میں جناب عبد الغنی بن حاجی خورشیدکے گھر ہوئی، مولانا کی نانی ہال صاحب گنج تھی، ابتدائی تعلیم ناتھ نگر ہی میں مولانا عبد الماجد صاحب سے پائی ، آگے کی تعلیم کے لیے دارالعلوم مﺅ تشریف لے گیے اور وہاں سے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور1956میں سند فراغ پائی ، فن قرأت وتجوید کی تعلیم مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے حاصل کیا، تدریسی خدمات مختلف مدارس میں انجام دیتے رہے، جس کا ذکر اجمالا اوپر آچکا ہے، فطری انسیت صحافت سے تھی، جس کی تربیت انہوں نے عبد الوحید صدیقی غازی پوری ثم دہلوی سے پائی تھی ، بعد میں یہ ذوق ان کے اوپر غالب ہو گیا، چنانچہ کئی رسائل اور اخبارات کے مدیر رہے، روزنامہ دیش بدیش کے لیے مسلسل لکھتے رہے، الفاروق کا بھاگلپور فساد نمبر نکالا؛ جو لوگوں کے لیے فساد کے مضمرات اور حقیقی تجزیہ میں بڑا معاون ثابت ہوا، صحافی ہونے کی حیثیت سے ان کی نگاہ بڑی دور رس تھی ، وہ ملکی اور غیر ملکی خبروں پر یکساں نظر رکھتے تھے، اور حسب موقع لکھتے بھی تھے اور مجلسی گفتگو میں اس پر سیر حاصل بحث بھی کیا کرتے تھے۔
 صحافت ان کے لیے خدمت کا ذریعہ تھا وہ اسے پیشہ کہنا بڑا سمجھتے تھے، خدمت ہی کے نقطہ نظر سے انہوں نے ہندوستان کی مرکزی اور ملی تنظیموں سے اپنا رشتہ آخری دم تک استوار رکھا، خانقاہ رحمانی مونگیر، امارت شرعیہ ، آل انڈیا ملی کونسل، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی تحریکات اور کاموں کوآگے بڑھانے میں وہ ان کے دست وبازو بن کر کام کرتے ، وہ مختلف ملی تنظیموں میں تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ نام الگ ہے، طریقہ کار اور ترجیحات میں فرق ہے، لیکن سب ملت کی سر بلندی اور سماج میں مسلمانوں کو با وقار مقام دلانے کے لیے سر گرم عمل ہیں، اس لیے ان کے کاموں میں رفیق بننا چاہیے، فریق نہیں، فریق بننے سے کام بگڑتا ہے اور رفیق بننے سے کام آگے بڑھتا ہے ، اپنے اس فکر کی وجہ سے وہ بھاگلپور ہی نہیں، ہندوستان کی مرکزی ملی تنظیموں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، مختلف وقتوں میں وہ تعلیمی اداروں کے منظم اور تنظیموں کے رکن رہے اور اپنی بہتر خدمات ان کے لیے فراہم کیں۔
 بھاگلپور فساد کے موقع سے انہوں نے امارت شرعیہ کے وفد کے ساتھ ریلیف کا کام کیا اور کہنا چاہیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا، فساد کے حوالہ سے جو مقدمات ہوئے تھے اس کی پیروی میں بھی انہوں نے اپنی توانائی لگائی، اور جو کچھ بن پڑا کرتے رہے۔ان کی کوششوں سے کئی مجرمین جیل تک پہونچے اور انہیں سزا ہوئی۔
 حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ نے آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ اس کو استحکام بخشنے میں لگ گیے، مئی 2001ءمیں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے انہیں مرکزی دفتر دہلی میں ہمہ وقتی سکریٹری مقرر کیا تھا، بہت دنوں تک وہ آل انڈیا ملی کونسل کے دفتر کے سکریٹری رہے، اس حیثیت سے انہوں نے دفتری نظم ونسق کو مزید بہتر بنانے کے لیے کام کیا، ریاستی تنظیموں سے روابط مضبوط کیے، تنظیموں کے استحکام وتوسیع کے لیے کام کیا تنظیمی دور ے کیے، لیکن دہلی کی سیاسی فضا انہیں راس نہیں آئی اس کے اثرات کو قبول کرنا انہیں منظور نہیں تھا، چنانچہ دہلی چھوڑ کر وہ پھر بھاگلپور چلے آئے، اور آخری دم تک بھاگلپور کوہی اپنا میدان عمل بنائے رکھا، قاضی صاحب ؒنے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی نکالا تو بہت جگہوں پر وہ کارواں کے رفیق سفر رہے۔
 میری ملاقات ان سے ملی کونسل کے قیام کے بعد ہوئی ، ایک زمانہ میں ، میں بھی بہار ملی کونسل کا سکریٹری تھا، اس عہدہ کی وجہ سے بار بار ان سے ملاقاتیں رہیں، مختلف موضوعات پر ہم لوگوں نے لکھا اور کئی موقع سے اسٹیج پر ایک ساتھ تقریر کا موقع ملا۔
 بھاگل پور جب بھی جانا ہوا، مولانا مرحوم سے ملاقات کی کوشش کی، کبھی ملاقات ہوئی اور کبھی نہیں ، جب تک اعضاءوجوارح کام کرتے رہے خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ آنا جانا ہوتا رہا ، قویٰ نے جواب دے دیا اس کے با وجود کوئی آتا توامارت کے خدام کی خیریت دریافت کرتے۔
 دیش بدیش بھاگل پور کی اشاعت بہت نہیں تھی ، لیکن جو لوگ خبروں کے پیچھے جھانکنے اور تجزیہ کاذوق رکھتے ہیں وہ مولانا کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی یہ اخبار دیکھا کرتے تھے، اس سے قارئین کو مختلف مسائل پر بھر پور واقفیت ملتی تھی ، ملی مسائل کے ساتھ انہوں نے خصوصیت سے مسلم معاشرہ میں پھیلی بے راہ روی پر لکھا اور خوب لکھا، انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک اصلاح معاشرہ کے لیے کام کیا اور قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے۔
 مولانا کی شخصیت کئی اعتبار سے قابل قدر تھی،ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہوجانا ہم سب کے لیے افسوس کا باعث ہے، ایسے موقع سے لوگ رنج وغم کی بات کرتے ہیں، غم تو فطری ہے ہوتا ہے، اور ہونا چاہیے، لیکن رنج کا کوئی موقع نہیں ہے، کیوں کہ موت تو اللہ کی جانب سے ہے ، بندوں کو اللہ کے کسی عمل پر رنج ہونے کا حق نہیں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل بخشے آمین یا رب العالمین۔

ہفتہ, فروری 18, 2023

جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن

﴿ کچھ تبسّم زیرِلب﴾
تعریف کاجادو 
اردودنیانیوز۷۲ 
٭ ا نس مسرورانصاری   
 
 جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن کےجادوخطابھی کرجاتے ہیں لیکن ایک جادوایسابھی ہے جوکبھی خطانہیں کرتا۔ہمیشہ اپنے ہدف پرجاکر بیٹھتاہے۔اچھے خاصے لوگ بھی اس کاشکارہوکر رہتے ہیں۔یہ تعریف کاجادوہے۔آپ کادوست ہویادشمن ،یہ جادو سب پریکساں چلتاہے بلکہ دوڑتا ہے۔ہمارے سیاسی لیڈران اس جادومیں بڑی مہارت رکھتے ہیں اوراسی کی بدولت بڑی بڑی کرسیاں حاصل کرلیتے ہیں۔جس کویہ جادونہیں آتاوہ کبھی منتری نہیں بن پاتا۔اس جادو کی ایک ذات برادری کانام چاپلوسی بھی ہے۔یہ جادوبڑاخطرناک ہوتا ہے۔ایک سیاسی جلسہ میں جب شہرکے ایک لیڈرتقریرکرنے کے لیے مائک پرآئے توان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مائک والے نے اپنامائک بندکردیا۔ نیتاجی بہت ناراض ہوئے۔ لوگوں نے وجہ  پوچھی توکہنے لگا‘‘میں اس نیتاکواپنے مائک میں نہیں بولنے دوں گا۔یہ سالااپنے بڑے لیڈروں کواتنامسکامارتاہے کہ چکناہٹ سے میرامائک خراب ہوجاتا۔’’ 
تعریف کاجادوسرچڑھ کربولتا ہے۔ہرانسان اس کے اثرمیں بڑی آسانی سے آجاتاہے،بلکہ جانورتک اس جادوسے متاثرہوئے بغیرنہیں رہتے۔یہ ایساذوداثرہے کہ ہرکسی کودل وجان سے عزیزہے۔ مگراس جادوکوچلانے میں اعتدال بھی بہت ضروری ہے۔ زیادہ چلانے پریہ ری ایکشن بھی کرجاتاہے۔لوگ برامان جاتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ان کامذاق اڑایاجارہاہے۔یہ جادولیمیٹڈہوتاہے۔زیادہ چلانے پرجوتے بھی کھانے پڑسکتے ہیں۔اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔سچ کہتے ہیں کہ وہ کام سب سے اچھاہوتاہے جس میں اعتدال ہو۔ اس جادو کے بڑے کرشمے ہیں۔کچھ کرشمے آپ بھی دیکھئے۔ 
مشہورمصّورہ فرنکائیزجیلٹ دنیاکے،عظیم مصورپیلوپکاسو کی بیوی تھی۔وہ دس سال تک ساتھ رہے۔ان کے دوبیٹے بھی ہوئے۔پالومااورکلاڈ۔جب کبھی جیلٹ کوفرصت ملتی،وہ اپنا برش سنبھالتی ،اسٹوڈیوکے دروازے بند کرتی اورتصویرکشی میں کھوجاتی۔بچے بڑی تنہائی محسوس کرتے۔ماں باپ دونوں آرٹسٹ۔دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے۔پالومااورکلاڈ کوبڑی بوریت ہوتی۔ ایک دن
جیلٹ اسٹوڈیوکادروازہ بند کیےایک خوبصورت سی تصویر بنارہی تھی کہ ڈرتے ڈرتےکلاڈ اسٹوڈیوکے دروازہ پرآیااورہلکے سے دستک دی۔جیلٹ نے پوچھا ۔‘‘ہاں،کون ہے۔؟’’پھرکام میں مشغول ہوگئی۔ کلاڈنےکہا۔ 
  ‘‘ممی!مجھے تم سے بہت پیار ہے۔’’لیکن جیلٹ نےبرش ہاتھ سے  نہ چھوڑا۔بولی‘‘پیارےکلاڈ!میں  بھی تم کودل وجان سے چاہتی ہوں۔’’چندمنٹ انتظارکےبعدکلاڈ نے کہا:‘‘ممی!مجھے تمھاری تصویریں بہت پسندہیں۔’’جیلٹ نے اندرہی سےکہا:‘‘پیارے کلاڈ!شکریہ!تم ایک ننھےفرشتےہو،،، پھرایک منٹ بعدکلاڈنےکہا۔
‘‘ممی!تمھاری تصویروں میں توجادوہے۔سچ پوچھوتوتمھاری تصویریں پاپاکی تصویروں سے بھی اچھی ہیں۔ ،، 
کلاڈکے منہ سے یہ سنتے ہی جیلٹ نے برش رکھ دیا۔وہ بے تابی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازہ کھول کرکلاڈکواندر کھینچ لیا۔ گودمیں اُٹھاکراسے دیرتک پیارکرتی رہی۔
آپ نے دیکھا۔تعریف کاجادواس طرح سرچڑھ کربولتاہے۔ہمارے میردانشمندجوہرعلم وفن کے احاطہ میں موجودپائے جا تے ہیں،غالبیات میں بھی اپناایک ممتازمقام رکھتے ہیں۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فی زمانہ اردوزبان کاہرشاعر،ادیب، صحافی،ممتازمقام رکھتاہے۔یہ مقام بہت عام ہوگیاہے۔ہمارے میردانشمندکوبھی یہ امتیازی مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ غالب کے بہت سارے واقعات انھیں ازبر ہیں جنھیں وہ موقع بے موقع، وقت بے وقت سناتے رہتے ہیں۔ایک دن ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئےفرمایا۔۔چچا غالب بڑے زندہ دل ،آوارہ گرد اور بڑے ستم ظریف تھے۔ان کی عادت تھی کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لڑانے کےبعددیررات گئے گھرواپس لوٹتےتھے۔ان کی بیگم ان سے عاجز تھیں(اکثرشاعروں  کی بیگمات ان سےعاجزنظرآتی ہیں)زیادہ تروہ دوستوں کے  ساتھ رات کاکھاناکھا کر لوٹتے تھے۔اس لیے ان کی بیگم بھی ان کاانتظارکیےبغیرسوجاتی تھیں۔لیکن ا یک رات ایسا ہوا کہ وہ شدت کےساتھ غالب کےانتظار میں جاگ رہی تھیں۔کافی رات گئےوہ گھرلوٹے۔چپکےسےدروازہ  کی سٹکنی کھولی ا وراس خیال سے کہ کہیں پیروں کی آہٹ سے بیگم جاگ نہ جائیں،اپنے جوتے اُتارکربغل میں دبالیے اورنہایت خاموشی کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے۔خدشہ تھاکہ بیگم جاگ نہ رہی ہوں۔پنجوں کے بل کسی آہٹ کے بغیراپنے کمرہ کی طرف بڑھے کہ اچانک چراغ کی مدّھم روشنی میں بیگم کی آواز کابم پھٹا۔۔رات کے دوپہر گزر چکے،اب تشریف لائی جارہی ہے اوروہ بھی اس حال میں کہ بغل میں جوتیاں دبی ہوئی ہیں۔گویا اپنے ہی گھرمیں چوری کاارادہ رکھتے ہوں۔’’
    بیگم کی پہلی ہی آوازپرغالب یوں اُچھلےکہ جوتیاں گرکرزمین بوس ہوگئیں۔خجالت ا ورشرمند گی سے بیگم سے آنکھیں نہ ملا سکے۔چونکہ برجستہ گوتھے اس لیے برمحل جواب دیا۔‘‘کیاکہیں بیگم!آپ نے نمازیں پڑھ پڑھ کر سارے گھرکوتومسجدبناڈلاہے۔اب جوتیاں پہن کرمسجدمیں کیسے داخل ہوں۔اس لیے تعظیماََ ہم نے جوتیاں بغل میں دبالیں۔’’
    چارپائی پراُٹھ کربیٹھتے ہوئے بیگم نےکہا۔‘‘ایک توآپ نے میری زندگی کیاکم اجیرن کررکھی ہے۔دوسرےآپ کےشاعرومتاشاعر  دوستوں اورحریفوں نے مجھے الگ ملامت کانشانہ بنارکھاہے۔اب تومیرے صبرکاپیمانہ بھی لبریز ہوچکا۔جب سے آپ کے گھرمیں آئی ہوں،سکون کاسانس لینا نصیب نہ ہوا۔’’ (گلوگیر آواز) 
     ‘‘آخرہواکیا۔؟ایسی کیااُفتادآن پڑی کہ آپ اپنی جان کی دشمن ہوئی جارہی ہیں۔ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے۔’’غالب نے بڑی دل جوئی سے پوچھا۔ 
    ‘‘آپ کی بلاسے ہمیں کوئی کچھ کہتاپھرے۔’’بیگم نے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔‘‘اللہ دشمن کوبھی شاعرکی بیوی نہ بنائے۔اب آرام کیجئے اورصبح نہارمنھ ذرامکان کی باہری دیوارکادیدار کرلیجئے گا۔آپ کے ملاحظہ کے لیے کسی نے دیوارپرکوئلہ سے کچھ لکھ چھوڑاہے۔’’
    اُدھربیگم نے منھ پھیر کر دو سری طرف کروٹ بدلی اورادھر غالب کچھ متفکراورکچھ شر مندہ شرمندہ سے اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔دوستوں کی صحبت میں جوچندجام لنڈھائے تھے ان کانشہ ہرن ہوچکاتھا۔صبح اُٹھے توسب سے پہلے مکان کے باہرکی دیوارکامعائنہ کیا۔ان کی بیگم درازقداورسانولےرنگ کی تھیں۔اسی مناسبت سےکسی منچلےشاعرنےکوئلہ سےدیوارپر ایک مصرعہ لکھ دیاتھا۔۔ 
 ‘‘طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے’’ 
  غالب ساراماجراسمجھ گئے۔دیوارکے آس پاس دیکھاتوکوئلہ کاایک ٹکڑا زمین پرپڑاہواتھا۔اُسے اُٹھاکرمصرعہ کے نیچے ایک برجستہ مصرعہ لکھ دیا۔ 
 ‘‘ وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے ’’ 
  پھروہ اپنی بیگم کاہاتھ پکڑکر دروازہ پرلائے اورکہا۔‘‘دیکھتی ہو بیگم!کسی نے کیاہی عمدہ شعر لکھاہے۔آپ توخواہ مخواہ ناراض ہوئی جارہی ہیں۔’’بیگم نےشعر  پڑھا۔ 
طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے
 وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے 
    غالب کی بیگم شرمائیں،،لجائیں اورمکان کے اندرچلی گئیں۔سمجھ گئیں کہ دوسرامصرعہ خودغالب نے لکھاہے۔آپ نے دیکھا۔؟تعریف کاجادوکیساچلا۔آپ بھی اس جادوکوسیکھیں اور اپنی بیگم پر چلائیں اوردیکھیں کہ پھرکیا ہوتاہے۔ناراض دوست ہوں یا نا راض بیوی، کسی کو بھی منانا ہوتویہ تیربہ ہدف نسخہ ضرور آزمائیں۔ کوئی موجود نہ ہوتو خودپرہی آزمائیں۔جیساکہ ہمارے شعراءخودپر آزمانے ہیں۔ 
  تعریف سے بڑاکوئی جادونہیں۔
 ٭٭
 انس مسرورانصاری
 قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
 سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰
 (یو،پی)
 رابطہ:9453347784۰

جمعہ, فروری 17, 2023

مقدمہ زاویہ نظر ___(مولانا ڈاکٹر) ابو الکلام قاسمی شمسیسابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ

مقدمہ زاویہ نظر ___
(مولانا ڈاکٹر) ابو الکلام قاسمی شمسی
سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ
اردودنیانیوز۷۲ 
 
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی زود نویس صاحب قلم ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں گوناں گوں صفات سے نوازا ہے، وہ تقریر وتحریر دونوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں، جہاں تک تقریر کی بات ہے تو خوب بولتے ہیں، اور زور دار تقریرکرتے ہیں، ان کی تقریر دینی ،علمی اور فکری ہوتی ہے، جو ان کو عام مقررین سے ممتاز کرتی ہے، جہاں تک تحریر کی بات ہے، تو ان کا قلم رواں دواں ہے، اپنی بات کو سجا کر پیش کرنے کا فن جانتے ہیں، وہ علمی مضامین اور تحقیقی مقالات بھی لکھتے ہیں، حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی تحریر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں صحافتی ذوق سے بھی نوازا ہے، وہ امارت شرعیہ کے ہفت روزہ ”نقیب“ کے ایڈیٹر ہیں، نقیب میں مختلف موضوعات پر ان کے افکار ونظریات شائع ہوتے ہیں، ان کے مضامین ، مقالات اور کتابوں کی تعداد دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ بر جستہ لکھتے ہیں، اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تحریر میں جاذبیت اور کشش ہوتی ہے، لوگ شوق سے پڑھتے ہیں، ان کی تحریر میں فن اور فکر دونوں کا امتزاج بھی ہوتاہے ، جس کی وجہ سے پڑھنے والے اکتاتے نہیں ہیں، نیز پڑھنے کے بعد خالی ہاتھ نہیں رہتے ، بلکہ ان کو فکر کا خزانہ حاصل ہوتا ہے ، اس طرح وہ اپنے معاصر ین میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔
 مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی با وقار عالم ذین ، بہترین صاحب قلم، کامیاب خطیب، ماہر صحافی اچھے ادیب اور کامیاب محقق ہیں، ان کی تصانیف ہر موضوع پر دستیاب ہیں، ان کی تصانیف میں مذکورہ صفات کا جلوہ نظر آتا ہے ، یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا اپنوں نے حق بھی ادا کیا ہے، یہ اللہ کی طرف سے توفیق ہے، جو انہیں منجانب اللہ عطا کی گئی ہے۔
 مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر ہیں نقیب کی ادارت نے انہیں ایک دوسرا میدان فراہم کیا ہے، وہ صحافی ہیں، کہنہ مشق صحافی، وہ میدان صحافت میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، ان کی تازہ تصنیف”زاویہ نظر“ کا مسودہ میرے سامنے ہے، اس میں ان کی تحریر کردہ اداریے ہیں اور وہ مضامین ہیں، جو نقیب میں شائع ہوئے ہیں، یہ ملی ، تعلیمی سماجی اور لسانی حالات پر تجزیاتی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
 موجودہ دور تکنیکی دور ہے، لوگ کسی چیز میں زیادہ وقت لگانا پسند نہیں کرتے ہیں، اس دور کا اثر قارئین پر بھی نظر آتا ہے، ان کو طویل مضمون پڑھنے کی فرصت نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کسی مضمون کو پڑھیں تو جلد ختم ہوجائے اور جلد نتیجہ پر پہنچ جائیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی کتابوں کی جانب رجحان میں کمی آتی جا رہی ہے، اب لوگ مختصر کتابوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، اس لئے مختصر کتابوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، ادبی اصناف میں ایک صنف ناول ہے، پہلے لوگ طویل ناول پڑھنے کو پسند کرتے تھے، پھر وقت کے تقاضہ کے مطابق افسانہ کا وجود ہوا، پھر اس کے بعد منی افسانہ کا رواج بڑھا، یہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے، موجودہ وقت میں پڑھنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد مطالعے سے فارغ ہوجائے اور کچھ ضروری معلومات اپنے مطالعہ سے حاصل کر لے، اسی تقاضہ نے مضامین کے مجموعہ کی اشاعت کی طرف متوجہ کیا ہے، چونکہ مضامین کے مجموعہ میں ہر مضمون ایک اکائی ہوتا ہے، جس کو قاری پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے، پھر وہ دوسرے مضمون کو پڑھنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے، اس طرح مضامین کے مجموعہ کی طباعت کا رجحان بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ”زاویہ نظر“ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جو نقیب میں شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ہے، جس میں پانچ ابواب ہیں۔ باب اول مذہبیات۔ باب دوم تعلیمات۔ باب سوم سماجیات، باب چہارم لسانیات اور باب پنجم متفرقات پر مشتمل ہے۔
 باب اول میں مذہبیات پر ۹۵ مضامین ہیں، ان مضامین میں مذہبی رہنمائی کی گئی ہے، آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں، یہ پُر فتن دور ہے، مذہب میں رسم ورواج اس طرح داخل ہو گئے ہیں کہ مذہب پر رسم ورواج کا غلبہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لئے موجودہ وقت میں مذہب کے سلسلہ میں رہنمائی ضروری ہے، اس باب میں مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی نے عالم ومفتی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مضبوط اور مدلل انداز میں اپنی بات رکھی ہے، مضامین کے عنوانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مضامین مختلف مواقع پر وقت اور حالات کے اعتبار سے تحریر کئے گئے ہیں، اس طرح یہ مضامین موجودہ وقت اور حالات میں فکری رجحانات کی بھی ترجمانی کرتے ہیں، اس باب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے ”رحمة للعالمین“ ۔ مضمون سے ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند تعلیمات کا بھی ذکر ہے، جس سے آپ کی رحمت نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس موقع پر انداز تحریر مثالی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”درختوں کو بلا ضرورت کاٹنے اور جنگ کے موقع سے انہیں برباد کرنے سے بھی منع کیا گیا ،کیونکہ یہ ہمارے لئے ماحول کے تحفظ کا بڑاذریعہ ہیں ،فرمایا گیا کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے پاس اتنی مہلت ہو کہ تم ایک پودا لگا سکتے ہو تو لگا دو ،پھلدار درخت لگانے والوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہو اکہ جس درخت کے پھل سے انسانوں نے اور پتوںسے جانوروں نے فائدہ اٹھایا تو یہ صدقہ ہے ،اور ایسی تمام کوشش جس سے ماحول خراب ہو، فضائی آلودگی پیدا ہو” فساد فی الارض “کے قبیل سے ہے۔
ماحولیات کے تحفظ اور ہر قسم کے جاندار کے لئے پانی کی اہمیت ظاہر ہے،حکم دیا گیا کہ اسے ناپاک نہ کرو ،پینے اور دوسری ضرورتوں کے لئے اسے پاک وصاف رکھو ،پانی میں پیشاب نہ کرو، سو کر اٹھو تو بغیر ہاتھ دھوئے پانی کے برتن میں ہاتھ مت ڈالو ،پانی پیتے وقت برتن میں سانس مت لو ،مشکیزے ،گھڑے اور پانی کے برتن کو ڈھانک کر رکھو،یہ ہدایات ہر اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا مظہر ہیں۔“ (صفحہ ۵۱) 
اسی طرح ایک مضمون کا عنوان ”علاقائی عصبیت“ہے اس مضمون میں علاقائی عصبیت کے نقصانات کا جائزہ مذہب کی روشنی میں لیا گیا ہے، مذہب کی روشنی میں جائزہ لینے سے مضمون میں زور پیدا ہو گیا ہے، نیز سماجی اور سیاسی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے، تحریر کرتے ہیں:
”جس طرح شرم وحیا ختم ہوجائے تو آدمی کچھ بھی کر گذرتا ہے ، اسی طرح جب سیاست میں اخلاقیات نے دم توڑا تو وہ سارا کچھ ہونے لگا جو انہونی کہا جاتا تھا ، انہیں میں سے ایک علاقائی اور ریاستی عصبیت ہے ، جس نے گجرات میں اس زور وشور سے سر اٹھایا ہے کہ شمالی ہندوستان کے مزدور جو وہاں بر سوں سے کام کر رہے تھے، انہیں اپنی ملازمت چھوڑ کر بھاگنا پڑ رہا ہے ، ان کے اندر مار ، کاٹ، قتل وغارت گری اور خون ریزی کی ایسی دہشت پیدا کر دی گئی ہے کہ اب تک پچاس ہزار سے زائد لوگ گجرات چھوڑنے پر مجبور ہو گیے ہیں، کار خانوں میں مزدوروں کی کمی ہو گئی ہے اور ظاہر ہے اس کا سیدھا اثر پیدا وار پر پڑ رہا ہے ، کانگریس اور بی جے پی والے اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، بات ایک شیر خوار بچی کی آبرو ریزی سے شروع ہوئی تھی ، ظاہر ہے مجرم کوئی ایک تھا ، اسے قانون کے حوالہ کرکے سزا دلانی چاہیے تھی ، تاکہ درندگی اور حیوانیت کے اس سلسلے کو روکا جا سکے ، لیکن اس واقعہ کا سہارا لے کر گجرات خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا ، کانگریس کے الپیش ٹھاکر اور دوسرے کئی سیاسی لوگوں کے بیانات بھڑ کانے اور خوف ودہشت پیدا کرنے والے آئے، اس کی ویڈیو کلپ بھی ٹی وی چینلوں نے جاری کیا، لیکن گجرات حکومت الپیش کو گرفتار نہیں کر سکی اور بظاہر اس کا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں، دکھتا تو کیا شمالی ہندوستان کے مزدوروں سے گجرات کو خالی کرانے میں دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ہے اور یہ سارا کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق منظم انداز میں کیا جا رہا ہے ۔“ (صفحہ ۰۱۱)
مزید تحریر کرتے ہیں۔
” لیکن اس عصبیت سے سب سے بڑا نقصان اس ملک کی سا لمیت کو پہونچ رہا ہے ،اس کی وجہ سے ملک کے اتحاد کو خطرہ لا حق ہو رہا ہے ، اور ہر ذی شعور آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کی تمام ریاستوں میں اس انداز کا ماحول پیدا ہوا تو ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو کس قدر نقصان پہونچے گا؟ ہر ریاست خود مختاری کی طرف تیزی سے قدم بڑھا نے لگے گا ، ملک کا جو نقصان ہوگا وہ تو طے ہے ، یہاں کا معاشی نظام ،کل کارخانوں میں پیدا وار کی کمی وجہ سے تباہ ہو کر رہ جائے گا، جواب بھی روپے کی گرتی قیمت کی وجہ سے خطرے کے نشان کو پار کرتا جا رہا ہے ۔
اسی لئے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ علاقائی بنیادوں پر کسی کو فضیلت اور بر تری حاصل نہیں ہے ، سب کے سب آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ (صفحہ ۱۱۱)
باب دوم کا عنوان ”تعلیمات“ ہے اس باب میں ۹۱ مضامین ہیں، ہر مضمون کا انداز نرالا ہے، ابتدا حالات کے تناظر میں ہے اور اختتام پر کسی نتیجہ کو اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مضمون کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے، اس باب کے مضامین میں سے ایک مضمون کا عنوان ”فکری یلغار“ ہے، اس کے تحت مصنف تحریر کرتے ہیں:
”قدیم زمانے میں لڑائیاں جسمانی طاقت وقوت، چستی پھرتی اور حکومتوں کی فوجی منصوبہ بندی کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں، مقابلہ آمنے سامنے کا ہوتا تھا ، اور جیت ہار کا فیصلہ فوجوں کی شکست پر ہوا کرتا تھا ،لیکن اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں ہوتی ہیں؛ سائنسی ترقیات نے اس طریقہ کار کو از کار رفتہ کر دیا ہے، اب تو آسمان سے آگ برستی ہے، سمندر کے راستے بحری بیڑے چلتے ہیں، اور پل بھر میں دشمن کے ٹھکانوں کو نیست ونابود کر کے واپس ہوجاتے ہیں، جن کے پاس نیو کلیائی ہتھیار ہیں، ہلاکت خیز میزائیل ہیں، ان کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک ہیں اور وہ بھبھکیاں دے دے کر کمزور ملکوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں، لیکن یہ چھوٹی جنگ ہے اور یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہا کرتی ہے۔لیکن جنگ کا ایک دوسرا میدان انتہائی وسیع ہے، اس میدان میں توپ، میزائیل ، ٹینک ، گولے بارود نہیں ہوتے، بلکہ اس لڑائی میں فکری یلغار ہوتی ہے، انتہائی منظم اور غیر معمولی منصوبہ بند ، اس حملہ کے اثرات کھیت، کھلیان ، گھر ، مکان اور دوکان پر نہیں پڑتے، سیدھے سیدھے دل، دماغ ، عقل وشعور پر پڑتے ہیں، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے، اور اس تبدیلی کے اثرات صدیوں تک جاری رہتے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، اس تباہی کے نتیجہ میں ارتداد کی وہ لہر پیدا ہوتی ہے جو کچھ دن تک تو نظر نہیں آتی ، لیکن گذرتے ایام کے ساتھ اس کا مشاہدہ عام ہوجاتا ہے، ہر کوئی کھلی آنکھوں اسے دیکھ سکتا ہے، قوموں کی تاریخ میں یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے ، اس لیے کہ اس یلغار سے مذہبی اقدار، خیالات ومعتقدات سب کے سب برباد ہوجاتے ہیں اور فاتح وہ قرار پاتا ہے جس نے دل ودماغ کی دنیا بدلنے کا کام کیا ہے۔ (صفحہ ۵۹۱)
آگے تحریر کرتے ہیں:
”عصر حاضر میں اس سلسلہ کو سب بڑا خطرہ تعلیم کے بھگوا کرن سے ہے، جس کی تیاری تقریبا مکمل ہے اور بہت جلد مرکزی حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے نام سے اسے رائج کر نے والی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان رسومات کو اسکولوں میں رائج کیا جائے گا جو ایمانی اور اسلامی بنیادوں کو متزلزل کرنے والے ہوں گے ، ان مثالی انسانوں کی زندگی کو نصاب تعلیم سے نکال باہر کیا جائے گا ، جنہوں نے اس ملک کو اخلاقی اقدار سے مالامال کیا اور جو یہاں کی تہذیبی شناخت سمجھے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۶۹۱)
آخر میں رقمطراز ہیں:
” اللہ کا شکر اور اس کا احسان ہے کہ ترکی کا ”مرد بیمار“ ہوش میں آگیا ہے، اور تدریجا وہاں اسلامی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو رائج کر نے کی کوشش جاری ہے، ترکی وزارت تعلیم نے اپنے نصاب سے غیر اسلامی چیزوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے، مکتب کا نظام جس پر زمانہ دراز سے پابندی تھی، اب وہاں پھر سے کام کرنے لگا ہے ۔
پوری دنیا کے مسلمان یہ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب جہاں ہمارا قبلہ وکعبہ ہے، اورجس کی طرف رخ کر کے ہم عبادت کر تے ہیں ، وہ بڑی تیزی سے اپنا قبلہ مغرب کو بناتا جا رہا ہے اور امریکہ کے چشم وابرو پر ایسے ایسے عجیب وغریب فیصلے کر رہا ہے کہ عقل حیران ہے، شاعر کا ایک شعر نوک قلم پر آگیا ۔ 
ای تماشہ گاہ روئے عالم تو
    تو کجا بہر تماشہ می روی؟ (صفحہ ۷۹۱)
باب سوم میں سماجیات پر مضامین ہیں۔ اس باب میں ۱۸ مضامین ہیں ، ان مضامین میں ایک کا عنوان ”بھوک“ ہے، اس مضمون سے مضمون نگار کی وسعت نظری اور مطالعہ کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے، اور وہ ماہر اقتصادیات کو پیچھے چھوڑتے دکھائی دیتے ہیں، بھوک سے پیدا ہونے والے مختلف وجوہات کا ذکر کرنے کے بعد وہ عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ کے سروے کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں۔
 ”عالمی فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی چیوٹ نے ایک سو انیس ممالک کے سروے کے بعد دنیا کے بھوکے لوگوں کا اشاریہ (عالمی ہنگر انڈکس) پیش کیا ہے ، اس انڈکس کے مطابق ہندوستان سویں مقام پر آگیا ہے، گذشتہ سال کی فہرست میں یہ سنتانوے (۷۹)اور ۵۱۰۲ءکے اشاریہ میں ایک سو ستر(۰۷۱) ملکوں کی فہرست میں اسی (۰۸)نمبر پر تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ہندوستان میں بھوکے لوگوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ پینتالیس (۵۴)درجے یہ ملک نیچے چلا گیا ہے، تین (۳)سال قبل یوپی اے حکومت میں اس کا نمبر پچپن (۵۵)تھا ، اچھے دن آئے، وکاس ہوا ، امیر ، امیر ہو گیے اور غریبوں کی غربت تیزی سے بڑھی ، غربت اور بھوک کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس لیے ملک کی عوام مزید بھوک مری کی شکار ہو گئی ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ۳۲ فی صد بھوکے لوگ صرف ہندوستان میں رہتے ہیں، انیس کروڑ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور 19.7فی صد لوگ غذائیت کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، اڑتیس فی صد پانچ سال سے کم عمر بچوں کو ایسی خوراک نہیں مل پا رہی ہے، جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کے لیے ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ 35.7فی صد بچوں کا جووزن اس عمر میں ہونا چاہیے وہ اس سے دور ہیں، 51فیصد نوجوان خواتین کو خون کی کمی کا سامنا ہے، سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں 35.6فی صد عورتیں اور 34.2فی صد مرد وں کا بی ام آئی (باڈی ماس انڈکس) 18.5سے کم ہے، یہ انسانی جسم میں غذائیت کی جانچ کا ایک فارمولہ ہے، جس کے مطابق 16سے16.9تک کے لوگ بری طرح عدم غذائیت کے شکار سمجھے جاتے ہیں، 16سے کم والے بھوک مری کی کگار پر ہوتے ہیں، اس وقت ہندوستان گلوبل ہنگر انڈکس میں 31.4پوائنٹ پر ہے، جو سنگین فاقہ کشی کی علامت اور پہچان ہے، ہندوستان میں مدھیہ پردیش اس معاملہ میں سب سے آگے ہے اور اس کا شمار ایتھوپبا اور وسطی افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے، جہاں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ہندوستان اقوام متحدہ کی تجویز کے مطابق بھوک مری سے نمٹنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ 2022تک بھوک مری پر قابو پا لیا جائے گا، اس کام کے لیے حکومت نے نیتی آیوگ کے ساتھ تین اور وزارت کو اس میں شریک کرکے مشترکہ پروگرام چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، نیتی آیوگ نے 640اضلاع میں سے عدم غذائیت کے شکار 110اضلاع کی فہرست جاری کی ہے اور ان اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے باڈی ماس انڈکس کو37.5کے بجائے 20.5تک پہونچا نا ہے، یہ کوشش کتنی کامیاب ہوگی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ (صفحہ ۰۳۲-۳۳۲)
وہ مفتی ہیں، ان کی نظر دین پر بھی ہے، اس لئے اس موقع پر بھی لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
”کھانا برباد نہ ہو، اس کے لیے اسلام میں سخت ہدایات موجود ہیں، دسترخوان پر گرنے والے ایک ایک دانے کو چن کر کھانے کی تلقین کی گئی ہے، کھانا کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے مختلف طریقہ کار پر زور دیا گیا ہے، خالصا لوجہ اللہ غریبوں ، یتیموں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور جہنمیوں کی زبان سے یہ بیان کروایا گیا کہ ہمارے جہنم میں داخل ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے اور ان سے کسی بدلے یا کلمات شکر کی امید نہ لگائی جائے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے بھوک مری پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے، کاش ہمارے حکمراں بھی اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔(صفحہ ۲۳۲)
باب چہارم میں لسانیات سے متعلق مضامین ہیں، اس باب میں دو مضامین ہیں اور دونوں اہم ہیں، ایک مضمون کا عنوان ”اردو کا مسئلہ“ ہے ، اردو ہماری مادری زبان ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے،محبان اردو نے ہمیشہ اس کی حفاظت کے لئے کوشش اور رہنمائی کی ہے، مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی اردو زبان وادب کے ماہر اور ادیب ہیں، اور حساس شخصیت کے حامل بھی ہیں، اس لئے ان کی رہنمائی کا انداز نرالا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
” واقعہ یہ ہے کہ ہم اردو کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، لیکن ہمیں خوب اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ زبان ماتم اور نوحہ سے باقی نہیں رہتی ، ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ اب مسجد میں دعاو¿ں کی تختی بھی ہندی میں لگ رہی ہے ، ہمارے گھروں میں اخبارات ہندی اور انگریزی کے آ رہے ہیں، اردو اخبار کو قاری کی کمی کا شکوہ ہے ، ہمارے بچے اسکول میں اردو بطور سبجیکٹ نہیں رکھتے ، وہ اردو پڑھنے سے کتراتے ہیں، گھروں میں اب پڑھنے پڑھانے کے بجائے بچہ کو کم عمری میں کنونٹ میں داخل کر دیا جاتا ہے ، ہماری ترجیحات انگلش میڈیم اسکول ہیں، ہم اپنے بچے کے فرفر انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں اور اسے اردو بولنا ، لکھنا، پڑھنا نہیں آتا اس پر ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوتی، جب تک یہ مزاج باقی رہے گا ، ہم اردو کو اس کا مقام نہیں دلوا سکتے ، کیوں کہ ہم یہ لڑائی سرکاری سطح پر نہیں داخلی سطح پر ہار چکے ہیں، داخلی شکست کو فتح میں بدلنا خارجی شکست کے مقابلہ میں زیادہ دشوار ہوتا ہے ۔“(صفحہ۹۶۵)
باب پنجم کا عنوان ”متفرقات“ ہے ، اس باب میں ۰۲ مضامین ہیں، اس باب کے مضامین میں بھی جامعیت اور جاذبیت ہے، تمام مضامین فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہیں، اس باب میں ایک مضمون ”امیروں کی دنیا“ ہے، اس مضمون کی ابتداءایک سروے ایجنسی کی رپورٹ سے کی گئی ہے، رپورٹ معلوماتی ہے، رپورٹ کے مطالعہ سے مصنف کے تحقیقی ذوق کا بھی پتہ چلتا ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”بلومبرگ نامی ایک سروے ایجنسی نے رابن ہوڈ انڈکس کے نام سے دنیا کے مختلف ملکوں کے مالداروں کی دولت کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ جن ملکوں میں وہ رہ رہے ہیں، اس ملک کو اگر ان کو چلانا پڑے تو اپنی دولت سے وہ کتنے دن اس ملک کی کفالت کر سکتے ہیں،اس رپورٹ میں ہندوستان کے مکیش انبانی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ بیس دنوں تک ہندوستان کا خرچ بلا شرکت غیرے چلا سکتے ہیں جبکہ بھارت سرکار کا ایک دن کا خرچہ ۸۶۷،۲۱ کڑوڑ روپے کا ہے، امریکہ کے جیف بے حوس پانچ دن ، فرانس کے بنارڈ آرنالٹ ۵۱ دن، میکسیکو کے کارلس سلم ۲۸ دن ، چین کے جیک ما ۴ دن، برازیل کے جارج پاؤ لو تیرہ دن ، اٹلی کے گی اووپنی فرارونو دن، یورپی ملک سائپرس کے جان فرڈ رکسن چار سواکتالیس دن ، جار جیا کے بِد جینا چار سو تیس دن ، ہانگ کانگ کے لی کاسن ۱۹۱دن، ملیشیا کے رابرٹ کو اوک ۵۹ دن ، سنگاپورکے وی چو یا۲۵ دن اور جرمنی کے ڈائٹر سوارج پانچ دن کا خرچ اٹھا سکتے ہیں انچاس ملکوں کے مالداروں کی اس سروے رپورٹ میں چار خواتین کا بھی نام ہے جو اپنے ملک کا خرچ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔(صفحہ ۹۷۵)
اس مضمون سے مصنف نے جونتیجہ اخذ کیا ہے، اس سے ان کے ایک دوسرے ذوق کی نشاندہی ہوتی ہے، وہ تحریر کرتے ہیں:
”اس سروے رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کا ارتکاز کس تیزی سے ایک فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مالدار اور مالدار ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غریب ، اسلام نے دولت کے ارتکاز کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا ، اس کا معاشی اور اقتصادی نظام دولت کی ایسی تقسیم پر مبنی ہے، جس میں مالداروں کے ذمہ غریبوں مسکینوں کی ضروریات کی کفالت بھی مختلف عنوانات سے شامل ہے جس کی وجہ سے دولت ایک ہاتھ میں مرکوز نہ ہو کر گردش کرتی رہتی ہے، اسی لیے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اسلام کا معاشی نظام آمد سے زیادہ خرچ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔“ (صفحہ ۹۷۵)
”زاویہ نظر“ کے ہرباب میں اسی طرح کے مضامین ہیں جو فکر اور تاثیر سے پُر ہیں، اس طرح یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اور دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں، ہر مضمون کی اپنی ایک خصوصیت ہے، اور ہر مضمون اپنی الگ فکر اور تاثیر رکھتا ہے، جس کے مطالعہ سے قاری کا ذہن اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
 عام طور پر علماءکا اسلوب بیان اور انداز تحریر گنجلک اور ثقیل ومشکل الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے ، مگر مفتی ثناءالہدیٰ قاسمی کی تحریر بہت حد تک سادہ اور آسان ہے، زبان میں سلالت اور شیرینی کا پہلو نمایاں ہے، اس طرح یہ کتاب عوام وخواص سب کے لیے یکساں مفید ہے۔
 مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کا وطن ویشالی ضلع کا حسن پور، گنگھٹی ، بکساما ہے، انہوں نے دار العلوم دیو بند سے فضیلت کی سند حاصل کی ، پھر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسیٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب میں ایم اے پاس کیا، پی ایچ ڈی پر کام جاری ہے، انہوں نے تدریسی خدمات کا آغاز مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی سے کیا، فی الحال امارت شرعیہ، بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہیں، علمی ، ادبی ، صحافتی اور سماجی خدمات طرۂ امتیاز ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، تصنیف وتالیف سے خصوصی دلچسپی ہے، بہت سی مصروفیات کے باوجود ان کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے، اور بہت سے فنون پر محیط ہے، ان کی تصانیف سے ان کی وسعت مطالعہ بھی پتہ چلتا ہے۔
 مفتی محمدثناءالہدیٰ قاسمی کی بہت سی کتابیں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکی ہےں، ان میں ”زاویہ¿ نظر “ ایک اہم کتاب کا اضافہ ہے، کتاب بہت معلوماتی ہے، اور اپنے موضوع پر محیط اور دلچسپ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مطالعہ کرنے والوں کو اس کتاب سے فائدہ پہنچے گا۔
 میری دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ کتاب کو مقبولیت سے نوازے اور افادیت عام کرے اور تصنیف کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ _

جمعرات, فروری 16, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یاسر رحمن اور عاطف رحمن کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مباکبادی ودعائیہ مجلس کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یاسر رحمن اور عاطف رحمن کو تکمیلِ حفظ قرآن کریم پر مباکبادی ودعائیہ مجلس کا انعقاد 
اردودنیانیوز۷۲ 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 16/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس اور محترم کتاب ہے۔ جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لیے  نازل کی گئی ہے ۔ اس کو چھونا، اس کو پڑھنا، اس کو سمجھنا، اور اس پر عمل پیرا ہونا، اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب ، اور تقرب الی اللہ کے ساتھ ساتھ دنیا و آخرت کی کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے، رہے گی، اور اس کے حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔اس وقت دو بچے سرخیوں میں ہیں یاسر رحمن (بینائی سے محروم)ابن مولانا ومفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی
عمر بارہ سال 
اور عاطف رحمن ابن مولانا ومفتی عبد الرحمن صاحب قاسمی عمر دس سال(نظام پور دلہن بازار پٹنہ) نے حفظ قرآن جیسی سعادت حاصل کی ہے،
واضح رہے کہ یہ دونوں بچے ہندوستان کے مشہور ومعروف عالم دین سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند موجودہ صدر مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن پٹنہ کے فرزند ہیں، ان دونوں بچوں نے صوبہ بہار کے مشہور ومعروف ادارہ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ میں زیر تعلیم ہیں اور یہیں تکمیل حفظ قرآن کریم کی ہے ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں کی گئی، فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ اس کی تلاوت، اور تکمیل حفظ ایک نابینا بھی کرتے ہیں، یقیناً اللہ اپنی کتاب کی حفاظت اپنے بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں،محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچے کے چچا مولانا عتیق الرحمن نظام پور پٹنہ کو بذریعہ فون مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے قوم وملت کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں،حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے اپنے سینے میں قرآن محفوظ کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا،

عروج آدم خاکی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عروج آدم خاکی___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
انسان کو اللہ رب العزت نے مٹی سے پیدا کیا، اسے نوری مخلوق فرشتوں پر فوقیت دیا ، آتشیں مخلوق جنات بھی اس خاکی انسان کی عظمت کو نہیں پہونچ سکے، اللہ رب العزت نے بنی آدم کو مکرم بنایا ، با عزت وبا عظمت بنایا ، تخلیقی اعتبار سے اسے ساری مخلوقات میں ممتازکیا اور اس کی تخلیق کو خود ہی اللہ نے احسن تقویم کہا یعنی انسان کو اچھے سانچے میں ڈھالا ، اس کے اندر ظاہری اور باطنی ایسی ایسی خوبیاں جمع کر دیں ، جس کی وجہ سے وہ فرشتوں سے سبقت لے گیا اور مسجود ملائک قرار پایا۔
 ماہ وسال گذرتے گیے، انبیاءورسل آتے رہے ، جاتے رہے، مدت ختم ہوتی رہی،لوگ گم گشتہ راہ ہوتے رہے ، انسانیت سسکتی رہی، ظلم وستم نے اپنے دست وبازو پھیلا دیے، کعبة اللہ بھی بتوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ، عورتوں کی عزت سر بازار نیلام ہوتی رہی، اور لڑکیاں زندہ دفن کی جاتی رہیں، کوئی گناہ ایسا نہیں تھا جسے شیاطین نے انسان تک نہ پہونچا دیا ہو اور لوگ اس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں، ایسے میں رحمت خدا وندی جوش میں آئی اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم پھر سے لے جانے کے لئے آقا ومولا فخر موجودات، سر ور کونین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، آپ نے لوگوں میں اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ، اپنے بھی بے گانے ہو گئے اور بیگانوں کی بیگانگی نے ساری سر حدیں توڑ دیں، نت نئے اور نوع بنوع مظالم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ا ن کے رفقاءپر توڑے گئے، جسم اطہر پر اوجھ ڈالی گئی ، راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا ، ان مصائب وآلام اور آزمائش کے ساتھ دعوت کا کام جاری رہا ، آپ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے طائف گئے، وہاں کے اوباشوں نے آپ پر پتھر کی بارش کر دی، پائے مبارک لہو لہان ہو گئے، زخموں سے چور جب آپ بیٹھ جاتے تو اوباش بچے آپ کو اٹھا دیتے اور جب چلنے لگتے تو پتھر بر ساتے ، دل ودماغ کا متشر ہونا لازمی تھا اور زبان مبارک پر دعاؤں کا جاری ہونا تقاضہ بندگی، اللہ ہر حال سے واقف تھا اور محبوب کے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا چاہتا تھا ، اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف اکاون برس نو مہینے کی ہوئی اور منصب نبوت اور اعلان نبوت پر دس سال گذر گیے تو اللہ نے جیتے جاگتے، جسم وروح کے ساتھ اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا ، تاریخ ۷۲ رجب کی تھی ،،جب آدم خاکی کو اللہ نے ایسا عروج عطا فرمایا جو کسی اور کو نہیں دیکھا یا گیا ، قربت الٰہی کا وہ مقام کسی اور کے نصیبے میں نہیں آیا ہے ، اور نہ آئے گا، سفر کے لیے تیز رفتار سواری براق فراہم کرائی گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لایا گیا ، تمام انبیاءکی امامت کرائی گئی عروج مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا ، آسمان وزمین کی سیر کرائی گئی ، جنت وجہنم کا مشاہدہ کرایا گیا ، بد عملی کی سزا دکھائی گئی ، انبیاءورسل سے ملاقات کرائی گئی اور پھر آپ سدرة المنتہیٰ سے بیت المعمور تک پہونچے، جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑا ، دو نیزے اور اس سے کم کی دوری خلوت میں رہ گئی ، تو اللہ رب العزت نے محبوب کو تحفے پیش کیے اور جو حکم دینا تھا، دیا ، بندگی صرف رب کے کرنے کی ہدایت دی گئی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم سے نوازا گیا ،ان کو جھڑکھنے اور اف کہنے تک کی ممانعت کی گئی ، ان کے لئے محبت وشفقت سے کاندھے جھکانے اور بار گاہ خدا وندی میں ان کے لیے رحمت کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی، قتل وزنا وعدہ خلافی ، یتامیٰ کے مال پر تصرف سے دور رہنے کو کہا گیا ، فضول خرچی سے بچنے کی تلقین کی گئی اور فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ، اس موقع سے سب سے بڑا تحفہ نماز کا ملا ، ساری عبادتیں اسی زمین پر نازل کی گئیں اور جبریل کے ذریعہ بھیجی گئیں ، لیکن نماز کا تحفہ رب نے اپنے یہاں بلا کر عطا فرمایا ، اب کسی کو معراج نہیں ہوگی ، لیکن مو من اگر اپنے اندر معراج کی کیفیت محسوس کرنا چاہتا ہے تو اسے نماز سے لو لگانا ہو گا ، نماز اللہ سے سر گوشی کا بہترین ذریعہ ہے، اسی لیے نماز کو معراج المومنین کہا گیا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں سر گوشی کی ، اپنی باتیں رکھیں، امت کی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی سلامتی میں نیک ایمان والوں کو شامل کر لیا اسی طرح بندہ بھی جب نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنی باتیں دعاؤں کی شکل میں ا للہ کے سامنے رکھتا ہے ، اپنے سلام میں نیک بندوں کو شامل کرتا ہے ، اللہ کی مسلسل عبادت کے نتیجے میں اس کی بندگی اس احساس کے ساتھ ہوتی ہے کہ جیسے وہ خدا کو دیکھ رہا ہے او راگر اس مقام تک نہیں پہونچتا ہے تو کم از کم وہ یقین واعتماد کے اس مقام تک پہونچ جاتا ہے جہاں ہر وقت اسے خدا کی نگرانی اور اس کے دیکھنے کی کیفیت محسوس ہوتی ہے ، یہ مقام پہلے سے کم تر سہی ، لیکن اس مقام کو بھی پالینے کے بعد گناہوں کے ارتکاب ، بد عملی اور بے عملی سے انسان نجات پاجاتا ہے ، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ۔اور کوئی کام بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر میں نہیں کر سکتا۔
معراج کا واقعہ سادہ سا واقعہ نہیں ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ آپ نبی قبلتین ہیں اور آپ کی آمد سے صدیوں سے جاری بنی اسرائیل کی تولیت کا خاتمہ ہو گیا اور اب قیامت تک یہ مقام ومنصب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا گیا ، قرآن کریم میں اس سفر کے جومقاصد بیان کیے گیے ان میں سے ایک، آسمان وزمین کی کچھ نشانیاں دکھانی تھیں، یہ نشانیاں کیا تھیں ، ہمارے پاس اس کی ترجمانی کے لیے الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ الفاظ کا دائرہ ہمارے محسوسات مشاہدات اور تعلقات سے آگے نہیں بڑھتا ، واقعہ یہ ہے کہ عالم بالا کی نشانیاں انسانی محسوسات اور عقل وتصور سے ماورا ہے، اوپر کی چیزہیں، اس لیے اس کی عکاسی الفاظ میں ممکن نہیں، ا للہ کے فضل وتوفیق اور اس کی قدرت کاملہ کے طفیل اللہ کی ان نشانیوں کو الفاظ کا جامہ پہنابھی دیاجائے تو انسانی دماغ ، ان کے سمجھنے کے بعد قوت بر داشت کہاں سے لائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ معراج کے واقعہ پر جسمانی، روحانی ، بیداری اور خواب کی حالت کے حوالے سے بڑی بحثیں کی گئی ہیں، سب نے فہم وفراست کے دائرہ میں اسے دیکھا اور چونکہ معیار فہم الگ الگ ہیں،ا س لیے اختلافات ہوئے ۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا ، یعنی نہ تو یہ مکمل خواب تھا اور نہ یہ ایسا واقعہ تھا جسے جاگے میں دیکھا جاتا ہے، یعنی ان دونوں سے الگ حالت تھی اور انسان یا تو سوتا ہے یا جاگتا ہے،ا س لیے الفاظ بھی اس کے یہاں انہیں دونوں حالات کے لیے پائے جاتے ہیں۔
 ایک تیسری حالت جو معراج کی رات آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر گذری، ہمارے فہم وادراک سے بالا اور ہمارے پاس اس کی تعبیر کے لیے الفاظ نہیں ہے ۔ رہ گئی بات عقل وخرد کی ، تو معجزات اسی کو کہتے اس کو ہیں جو فطری نہ ہو ، خرق عادات پر مشتمل ہو ، اس کے با وجود ہمارا ایمان وعقیدہ ہے کہ جسمانی معراج بھی عقل وخرد سے بعید نہیں ہے؛ کیونکہ جو اللہ آسمان ستارے او رسیارے کو فضا میں تھام رکھنے پر قادرہے ،اس کے ذریعہ انسانی جسم کو خلامیں لے جانے اور روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز لے جانے میں کون سی بات خلاف عقل ہے،ہندوستان میں ا س واقعہ کی یاد میں شب معراج ہر سال منایا جاتا ہے، بعض لوگ روزے رکھتے ہیں اور بعض جشن معراج نبی منعقد کرتے ہیں، جلسے جلوس کا اہتمام ہوتا ہے، ہمیں خوب یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس شب معراج کے بعد اب کوئی دوسری شب معراج نہیں آئے گی ، تاریخیں آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن اس کو اس معراج سے کیا نسبت ہے، جس رات آقاصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، خوب سمجھ لینا چاہیے کہ شب معراج ہر سال نہیں آتی ، صرف تاریخیں آتی ہیں، اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ اللہ رب العزت نے آدم خاکی کو کیسا عروج بخشاہے، بقول اقبال
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...