Powered By Blogger

بدھ, فروری 22, 2023

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یہ فتنے جو ہر اک طرف اٹھ رہے ہیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام مخالف طاقتیں روز اول سے اس کوشش میں رہی ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو دین سے بیزار کر کے راہ ہدایت سے ہٹا کر راہ ضلالت پر ڈال دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایمان قبول کرنے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ اسی لیے توڑے جاتے تھے کہ وہ کسی طرح کلمہ کا انکار کرکے پھر سے ضلالت وگمراہی اور شرک وبت پرستی کی راہ پر لگ جائیں، لیکن یہ کام اس دور میں ممکن نہیں ہو سکا؛ کیوں کہ جام وحدت پی کر جو ایمان ویقین ان کے سودائے قلب میں جاگزیں ہو گیا تھا اور معرفت الٰہی کی جو لذت انہیں ملی تھی، اس نے اس قدر انہیں سرشار کر دیا تھا کہ ایمان کاسرور کسی بھی ظلم وستم سے دور نہیں کیا جاسکا، بعد میں مسیلمہ کذاب کے زمانہ میں خود اس نے اورجھوٹے مدعیان نبوت ومہدیت نے ایک شیطانی نظام کے تحت مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کا کام کیا ، فرقہء باطنیہ جس کا بانی حسن بن صباح تھااورجس نے مصنوعی جنت بنا رکھی تھی چھٹی صدی ہجری میں اس فرقہ کے عروج نے کتنے ایمان والوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اور کتنوں کو مصنوعی جنت کا خواب دکھا کر ایمان واسلام سے دور کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ہندوستان میں حزب الشیطان نے اس مہم کے ذریعہ بھولے بھالے اور سیدھے سادے مسلمانوں کو اپنا شکار بنایا، قلوب میں شکوک وشبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے اور اسلامی احکام ومعتقدات پر اعترضات کرکے اس کی حقانیت پر سوالات کھڑے کیے ، کبھی نیچریت نے زور پکڑا، کبھی حدیث کا انکار کیا گیا اور کبھی اسلام کے سارے احکامات وجزئیات کو قرآن کریم تک محدود کر دیا گیا ، ہندوستان سے باہر مستشرقین نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بزعم خود علمی انداز میں اسلام کے مسلمات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ہندوستان کا ایک طبقہ جو ہندوستان سے آکسفورڈ ، کیمبرج اور دوسری یورپی درسگاہوں میں حصول تعلیم کو فخر ومباہات کا ذریعہ سمجھتا تھا اور مغرب سے آنے والی ہر ہوا ان کے دماغ کو تروتازہ رکھتی تھی، مستشرقین کے احساسات وخیالات اوران کی غلط فہمیوں پر مبنی تخیلات وتحقیقات کو ہندوستان نے بر آمد کر لیا اور اپنی ہمہ دانی کے زُعم میں اسے ہندوستان میں تیزی سے پھیلانے کا کام کیا، اس طرح ہندوستان کی حد تک مستشرقین یورپ کی ضرورت باقی نہیں رہی، وہاں کے بیش تر فضلاءاور فارغین نے مرعوبیت کے زیر اثر مستشرقین کے شکوک وشبہات پھیلانے کے کام کو اپنے ذمہ لے لیا ، اب نقل (قرآن وحدیث) کے بجائے عقل میزان ہو گئی اور جو بھی چیز کھوپڑی میں نہیں سماسکی، اس کا انکار کیا گیا، بڑی تعداد میں مسلمان اس سے متاثر ہوئے، روس کے انقلاب کے بعد ایک بڑا طبقہ مارکسزم اور لینن واد کے زیر اثرآ گیا، جس کی وجہ سے مارکسی اور ترقی پسند ادب نے یہاں فروغ پایا ، معاش کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کو معطل اور کالعدم کرنے کے چکر میں مذہب بیزاری ، دین سے دوری ، اس قدر عام ہوگئی کہ دین ومذہب، خدا ورسول ، جنت وجہنم ، تقدیر خیر وشر کا تصور ذہن سے نکل گیا ، اس شجر خبیث سے جو سلسلہ چلا اس نے دہریت اور خدا کے تصور کے بغیر ساری کائنات کوعناصر میں ظہور ترتیب کا نتیجہ قراردیا ، اس لیے اس دور کے بہت سے ادبا، شعراءاور مفکرین نے مرنے کے بعد دفن ہونے کے بجائے، ”پنج تنر میں ویلین“ ہونے کے لیے اپنے کو آگ کے حوالہ کرنے کی وصیت کی اور دنیاہی میں ان کو آگ نے جلا کر نمونہ عبرت بنا دیا ، فکری ارتداد کا یہ سلسلہ مختلف عنوانوں سے آج بھی جاری ہے، بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ”ارتداد دبے پاوں آتا ہے، غیر محسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اترتا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین وتعریف کے جملے کہتا ہے۔“
ایک دوسرے طبقہ نے ارتداد کے جراثیم، مذہب کی چادر اوڑھ کر پھیلانا شروع کیا، مہدویت اور قادیانیت کی تحریک نے ختم نبوت کے عقیدے پر چوٹ کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے چیلوں نے ارتداد کی نئی مہم شروع کی، یہ مہم مذہب کی آڑ میں شروع کی گئی تھی؛ اس لیے زیادہ خطرناک تھی، چنانچہ مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ وغیرہ نے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری توانائی لگادی، حضرت مونگیری کا یہ جملہ ایک زمانہ میں زبان زد خلائق تھا کہ ”قادیانیوں کے خلاف اتنا لکھو اور اتنا چھاپو اور اس قدر تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح اٹھے تو اس کے سرہانے قادیانیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی رسالہ اور کتابچہ موجود ہو“۔
علماءکے نتائج سامنے آئے، اس فتنہ کے سیلاب بلا خیزپر بند باندھا گیا، اس کی طغیانی میں کچھ کمی آئی، پاکستان میں قادیانیوں کو پارلیامنٹ کے ذریعہ غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود اس فتنہ کا پورے طور پر قلع قمع اب تک نہیں کیا جا سکاہے، انگریزوں کی یہ کاشت امریکہ ، برطانیہ ہی میں نہیں، ہمارے ملک میں بھی اپنے قدم جمانے میں لگی ہوئی ہے، اس کے عبادت خانے مختلف شہروں میں موجود ہیں، اس کے مکتبے اور رسائل اس کے معتقدات کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
 قادیانیت ہی کی ایک شاخ شکیل بن حنیف کا فتنہ ہے، جوان دنوں یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ میں برگ وبار لا رہا ہے، شکیل بن حنیف (ولادت ۸۶۹۱) پیدا عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ میں ہوا، تعلیم انجینئرنگ کی پائی، اس نے پہلے لکچھمی نگر دہلی میں ایک مکان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور اب ان دنوں اورنگ آباد شہر سے باہر ”پڑے گاوں“ میں جا کر پڑگیا ہے، رحمت نگر کے نام سے پوری کالونی پولیس اکیڈمی کے قریب بنا لیا ہے اور جس طرح قادیانی جال میں پھانس کر قادیان لے جاتے ہیں اسی طرح یہ اپنے ماننے والوں کو اورنگ آباد بلاتا ہے، اور ذہنی تطہیر کے مرحلہ سے گذارتا ہے، یہ فتنہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ ابھی چند سال قبل ایک مذہبی خانوادہ میں نکاح پڑھانے کے لیے جانا ہوا،حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ بھی تشریف لے گیے تھے، نکاح سے قبل خبر ملی کہ یہ لڑکا شکیل بن حنیف کا مرید ہے، بلا کر حضرت نے بہت سمجھایا ، مہدی موعود کی علامت والی حدیثیں بھی سنائیں؛ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، مجبورا ہمیں اس نکاح کو روک دینا پڑا، حضرت مولانا جب کوئی حدیث سناتے تو وہ کہتا کہ یہ علامت شکیل بن حنیف میں پائی جا رہی ہے، بالآخر وہ گاوں چھوڑ کر شکیل کے پاس چلا گیا ، یہ ایک واقعہ ہے، لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس کا فتنہ دیندارمسلم گھرانوں تک پہونچ رہا ہے، اس لیے اس کے تعاقب کی سخت ضرورت ہے، واقعہ یہ ہے کہ فتنوں کے اندھیرے ہماری دیواروں تک پہونچ گیے ہیں، اور ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
 اس لیے اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہرسطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ اہل خانہ کی فکری وایمانی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ وہ فتنوں سے با خبر رہیں، تاکہ ان کے جال میں نہ پھنسیں، جن علاقوں میں فتنے پھیل رہے ہیں، اس کا جائزہ لے کر علمائ، ائمہ مساجد ، مذہبی تنظیموں کو متوجہ کیا جائے، تاکہ اس فتنہ کے تدارک کے لیے وہ آگے آسکیں۔ بچوں کو فکری ارتداد سے بچانے کے لیے انہیں مشنری اسکولوں اور ایسے اداروں میں پڑھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے، جہاں دیوی دیوتاو ¿ں کی پوجا ، وندنا ، یوگا، پرارتھنا،ان کی روٹین کا حصہ ہو اور جہاں عیسائیت اور ہندوازم کو قومی ثقافت وکلچر ، تہذیب ووراثت کا حصہ بتاکر بچوں کے معصوم ذہنوں کو زہر آلود کیا جا رہا ہو۔
ایک بڑا فتنہ ان دنوں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی اور ان کے گھر سے فرار ہونے کا ہے، اس فتنہ کی وجہ سے ارتداد کی نئی لہر نے مسلم گھرانوں پر دھاوا بول دیا ہے، ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد و زن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی ۔ کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتاہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان و مکان کے حدود و قیود سے بھی آزاد ہوگیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھاوا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آستہ خانہ بن گئی ہیں، ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جن کی وجہ سے ہماری لڑکیا مرتد ہورہی ہیں، جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا ایف آئی آر درج کرالیا جائے، وکلاءسے قانونی مدد لی جائے تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے۔
اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ گاو ¿ں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشور سر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس کی وجہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ٹھیس پہونچتی ہے اور سماجی تانا بانا بکھر کر رہ جاتاہے، وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھنا چاہیے اور سب کو اس فتنہ کے تدارک کے لیے آگے آنا چاہیے۔

قیامت خیز زلزلہ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قیامت خیز زلزلہ ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ترکیہ(سابق نام ترکی) اور شام میں 6/فروری2023 کو آنے والے پچھتر(75) سیکنڈ کے ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت والے زلزلوں نے جو تباہی مچائی ہے، اس نے ہزاروں افراد کو بے گھر کرنے کے ساتھ ترکیہ میں 34870 اور شام میں 29600 افراد کو موت کی نیند سلا دیا، ترکیہ میں 80270 اور شام میں 7280 افراد ایک اندازہ کے مطابق زخمی بھی ہوئے ہیں، 84.1 بلین ڈالر کا نقصان ابتدائی سروے میں سامنے آیا ہے ہے، جس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔فلک بوس عمارتیں ملبوں کا ڈھیر بن گئیں اور لوگ ان کے نیچے دب گئے، بعضوں کے تو پورے خاندان کا صفایا ہو گیا، سخت سردی اور بارش نے ملبوں سے لوگوں کو نکالنے کے عمل کو متاثر کیاہے، جس تیزی سے اس کام کو ہونا چاہیے تھا، نہیں ہو پارہا ہے، اور گزرتے ہوئے شب و روز کے ساتھ ملبوں میں دبے لوگوں کے زندہ نکالے جانے کی امیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں بلکہ ختم ہو گئی ہیں۔
حالانکہ اس وقت ستر ملکوں کے ماہرین کی ٹیمیں اس کام میں لگی ہوئی ہیں، جن میں ہمارا ہندوستان بھی شامل ہے۔ راحت اور بچاؤکے کاموں میں 60217 افراد اور 4746 گاڑیاں سر گرم عمل ہیں،ہندوستان نے 4C سترہ  طیارے ترکیہ بھیجے ہیں جن میں ایک سو آٹھ ٹن سے زیادہ وزنی امدادی پیکج تھے، سو سے زیادہ فوجی اہل کار بھی بھیجے گئے ہیں، تاکہ وہ خصوصی آلات کی مدد سے ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے میں مدد کر سکیں۔کچھ سدھائے ہوئے کتے بھی بھیجے گئے ہیں تاکہ وہ ملبہ میں دبے زندہ لوگوں کی نشاندہی کر سکیں۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں، جو وسائل دستیاب ہیں اس سے سڑکیں بنائی جا رہی ہیں، تاکہ امدادی رسد متاثرین تک پہونچ سکے۔
صدر اردگان گھوم گھوم کر لوگوں کو حوصلہ پیدا کرنے کی تلقین کے ساتھ انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ہم کسی کو سڑک کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے نہیں چھوڑیں گے، اتنی بڑی اپیل کا نتیجہ بھی سامنے آنے لگا ہے، عالمی بینک نے امداد اور باز آبادکاری کے لیے ایک ارب اٹھہتر کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے،اور اٹھہتر کروڑ ڈالر فوری دینے کی پیش کش کی ہے، یہ ساری رقم مل جائے تو بھی ترکیہ کو اس بحران سے نکلنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت پڑیگی، کیوں کہ باز آبادکاری کے لیے چار ارب ڈالر سے زیادہ کی مالیت درکار ہو گی،ترکیہ میں زلزلہ اور اس سے مچنے والی تباہی کوئی نئی نہیں ہے، 1668ء کا زلزلہ جو شمالی اناطولیہ میں آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، 1939ء میں ایرزنکن اور 1999ء میں ازمیت کے زلزلہ کے بعد یہ سب سے تباہ کن زلزلہ ہے۔
دیر سویر ترکیہ اس مصیبت سے باہر نکل آئے گا، لیکن اندیشہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے قرضوں اور امداد کے بدلے میں معاہدہ لوزان جو اسی سال24  جولائی کو ختم ہو رہا ہے، اس کو غیر مؤثر بنانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کر لے۔اگر ایسا ہوا تو ترکیہ کے لیے ان کے مکر جال سے نکلنا دشوار ہو جائے گا، اور ترکیہ جو اپنے صدررجب طیب اردگان کی زیر قیادت عظمت رفتہ کی بازیابی کی طرف گامزن تھا، اس میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔

ساتواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پرتحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار

ساتواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (21/02/2023 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور قاری عظمت اللہ نور فیضی 
زیر سرپرستی حضرت مولانامشتاقاحمدصاحب قاسمی گنگولی/
قاری مطیع اللہ صاحب جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری شہزاد صاحب رحمانی استاد دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا چوک مینا 
قاری بدالھد صاحب  دیوبند کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام محمد اعظم حسن صاحب ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی عادل امام صاحب کھگڑیا
جناب قاری جمشید انجم صاحب کھگڑیا حضرت مولانا گلشادصاحب صاحب قاسمی گنگولی 
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل مولانا فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
 اورقاری خورشید قمر صاحب
حسن آواز صاحب ارریہ 
قاری مجاہد صاحب فیضی نرپتگنج 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجے شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :30بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

منگل, فروری 21, 2023

وسی جامع مسجد کے ڈاکٹر شیخ نصیر احمد چیرمین کے عہدے پر بحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وسی جامع مسجد کے  ڈاکٹر شیخ نصیر احمد چیرمین کے  عہدے پر بحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
مہاراشٹرا اسٹیٹ وقف ئریبونیل اورنگ آباد کا تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔ ۲۲ دسمبر ۲۰۲۲ کو وسی جامع مسجد ئرست کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد کو مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف اورنگ آباد کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جنید نے  جامع مسجد ٹرسٹ کے تعلق سے اکاؤنٹ اور  ئرست کی املاک میں کی گئی بدعنوانی کے الزامات کے تحت چند افراد کی شکایت پر ئرست کی چیئرمین شپ سے معطل کر کے ئرست کے انتظامات مکمل طور پر اپنے اختیارات میں لے کر  کوکن وبھاگ کے ریجنل آفیسر عبدل عتیق خان کو ئرست کا نگران مقرر کر دیا تھا  وقف بورڈ نے اس کارروائی کو انجام دینے سے پہلے نا تو ئرست کو کوئی نوٹس دی اور نا ہی وقف بورڈ میں کی گئی شکایت پر کوئی جواب داخل کرنے کا موقع ریا بتاریخ  11 دسمبر 2022 کی ناگپور میں ہوئی  مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف کی مئئگ میں منظور کر دہ تجویز نمبر 46 کے مطابق وقف ایکٹ 1995کے سیکشن 67 کے تحت ئرست سے شیخ نصیر احمد کو انکوائری مکمل ہونے تک معطل کر دیا اور  ئرست آفس تعمیری چندہ بکس  قبرستان اسئور روم  عوامی مطب اور ئرست بینک اکاؤنٹ کو سیل کر دیا  وقف بورڈ کی جانب سے کی گئی عیر قانونی کارروائی کو ڈاکٹر شیخ نصیر احمد نے 23 دسمبر 2022 کو مہاراشٹرا وقف ئریبونیل اورنگ آباد میں چیلنج کرتے ہوئے اپلیکیشن نمبر 63/2022 داخل کر کے وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا وقف ئریبونیل کے ججوں نے معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقف بورڈ کی جانب سے کی گئی کارروائی پر انٹرم آرڈر جاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک وقف بورڈ پر پابندی عائد کر دی اس مقدمے میں وقف بورڈ  میں شکایت کنندگان  نے 26 دسمبر کو وقف ئریبونیل میں فریق بننے کے لئے درخواست داخل کی  جسے وقف ئریبونیل نے 27 دسمبر 2022 کو خارج کر دیا  16 دسمبر 2022 کو وقف بورڈ کئ جانب سے جواب داخل کرنے کے بعد اس مقدمے کی سماعت کی  تاریخ 23  فروری 2023 مقرر کی گئی  جامع مسجد ئرست وسی کی جانب سے اس مقدمے کی پیروی اورنگ آباد کے جانے مانے وکیل نثار احمد خان نے وقف ئریبونیل کے سامنے  تمام دلائل پیش اور ئرست اور عوامی فلاح و بہبود ی کے لئے انجام دی گئی خدمات  پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ نے میرے موکل کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد  الزامات پر تحقیقات  کئےبنا قانونی کارروائی کرتے ہوئے وقف قانون 1995 کا غلط استعمال کیا ہے اور چند لوگوں کی شکایت پر بنا نوٹس  جاری کیے ایک عوامی مذھبی ادارے کے ئرسئ کواس کی خدمات سے بغیر کوئی وجہ بتائے مطعل کرتے ہوئے ارارے کا انتظام وقف بورڈ نے اپنے اختیارات میں لے لیا جس کی وجہ سے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے  وقف بورڈ نے 11/12/2022 کی میئنگ میں منظور کر دہ تجویز نمبر  MSBW /ENQ/10043/2022 کے تحت وقف   قانون 1995کے سیکشن 67 کے مطابق معطل کیا ہے جبکہ مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ آف وقف کو وقف قانون 1995 کے سیکشن 28 اور 68 کے تحت یہ اختیارات حاصل نہیں ہے کہ وہ رجسڑڈ ئرسئ کو معطل کرے  وقف بورڈ میرے موکل کے خلاف انکوائری مکمل کر کے اگر بدعنوانی کے الزامات ملتے  ہیں تو چیف ایگزیکٹو آفیسر کواپنی رپورٹ تیار کر کے ضلع کلکٹر کو روانہ کر نا چاہیے تھا  وقف بورڈ کی رپورٹ پر ضلع کلکٹر ئرسئ کو معطل کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے وقف بورڈ نے تمام قانون کو نذر انداز رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال  میرے موکل پر عیر قانونی طور پر کیا ہے اور جامع مسجد ئرست وسی کا کاروبار اپنے اختیارات میں لے کر ئرست کو مالی نقصانات اور عوامی مذھبی خدمات سے بدخل کر دیا ہے  مہاراشٹرا وقف ئریبونیل میں مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر ججز ایم  ڈی  عاصم اور مسلم لا آفیسر جج محمد معی الدین معید نےجراع کے دوران پیش کیے گئے دلائل اور ثبوت  کوسامنے رکھتے ہوئے وقف بورڈ کے 11/12/2022 کے فیصلے کو مسترد کردیا اور جامع مسجد ئرست وسی کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا  وقف ئریبونیل اورنگ آباد کے اس تاریخی فیصلہ سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ئرست کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ نصیر احمد پر عوام کا اعتماد و یقین کامل اور مضبوط ہو گیا ہے  ڈاکٹر صاحب کی ئرست کی  معرفت انجام دی گئی   بے شمار قومی تعمیری  تعلیمی و فلاح و بہبود ی کی خدمات زندہ جاوید اپنے آپ میں ایک مثال کارنامہ ہے آور آج بھی آپ کا  قوم کی  فلاح کے لئے تعمیری سفر جاری ہے اور جاری رہے گا

پیر, فروری 20, 2023

عام بجٹ: اعداد وشمار کی بازی گری__مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عام بجٹ: اعداد وشمار کی بازی گری__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بقول ان کے” امرت کال“ کا پہلا اور اپنے دور کا پانچواں بجٹ پارلیامنٹ میں پیش کیا اور کہا کہ یہ بجٹ سات نکاتی ہے ، اس میں ہمہ جہت ترقی، آخری صف کے آخری آدمی تک پہونچنے بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری ، مواقعات کی توسیع ، سبز خوش حالی وترقی، نوجوانوں کی قوت اور معاشی معاملات کو سامنے رکھا گیا ہے03-45 لاکھ کروڑ روپے کا یہ بجٹ گذشتہ سال کے مقابلے 58-5لاکھ کروڑ زیادہ ہے ، اس بجٹ کے بعد سگریٹ، پیتل، چھاتا، غیر ملک سے بر آمد باورچی خانے کی چمنی، سونا، درآمد چاندی، پلاٹینم، کپڑے اور غیر ملکی کھلونے مہنگے ہوں گے، جب کہ موبائل فون، ٹی وی سیٹ، کچن چمنی، کیمرے وغٰرہ سستے ہوں گے۔
 بجٹ کا ایک اہم جزیہ ہوتا ہے کہ رقم کہاں سے آئیگی اور کہاں خرچ ہوگی، اس میں جو اعداد وشمار دستیاب کرائے گئے اس کے مطابق کمپنی ٹیکس ، انکم ٹیکس سے پندرہ پندرہ پیسے، جی اس ٹی اور دیگر ٹیکس سے سترہ پیسے، قرض اور دیگر ذرائع سے چونتیس پیسے، کسٹم سے چار پیسے، سنٹرل اکسائز ڈیوٹی سے سات پیسے، غیر ٹیکس کی رسیدات سے چھ پیسے اور غیر قرض دار سرمایہ کی رسیدوں سے دو پیسے اس طرح آمد کا سوفی صد پورا کیا جائے گا، جب کہ ان سو پیسوں میں سے سنٹرل اسکیم میں سترہ پیسے، سود کی ادائیگی میں بیس پیسے، دفاعی شعبہ پر آٹھ پیسے، سبسڈی کی ادائیگی میں سات پیسے ، ٹیکس میں ریاستوں کی حصہ داری اٹھارہ(18) پیسے، پنشن کے مد میں چار پیسے، مرکزی منصوبوں میں حصہ داری اور دیگر امور میں نو، نو پیسے اور دیگر اخراجات پرآٹھ پیسے صرف کیے جائیں گے۔
 بجٹ میں عوام سے بہت سارے وعدے بھی کیے گیے ہیں، ایک سو ستاون نرسنگ کالج ، تیس(30) اسکل انڈیا انٹرنیشنل سنٹر،5G خدمات کے لیے ایک سو لیپ قائم کیے جائیں گے ، ایک کروڑ کسانوں کو امداد دی جائے گی ، تین سال کے اندر سات سو چالیس ماڈل رہائشی اسکولوں میں اڑتیس ہزار آٹھ سو اساتذہ وملازمین کی تقرری عمل میں آئے گی، وزیر اعظم رہائشی منصوبہ کے لیے 79 ہزار کروڑ روپے ، چھوٹی صنعتوں کے قرض کے لیے نو (9) ہزار کروڑ روپے، وزارت دفاع کے لیے 5.94 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے ، زرعی قرض کے لیے بیس لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گیے ہیں، اقلیت کے بجٹ میں دو ہزار کروڑ روپے کم کر دیے گیے ، ان تمام اسکیموں کی رقم گھٹادی گئی ہے، جس سے اقلیتوں اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کو فائدہ پہونچتا تھا، مثال کے طور پر منریگا کو پیش کیا جا سکتا ہے،جس سے مزدوروں کو یومیہ مزدوری ملا کرتی تھی، مولانا آزاد ایجوکیشنل فاونڈیشن کو صرف دس لاکھ روپے دیے گیے ہیں، اس کو تو اب بند ہی سمجھنا چاہیے، یوپی اس سی کی تیاری کے لیے اقلیتی طلباءکے لیے جو اسکیم چل رہی تھی اسے بھی بند کر دیا گیاہے۔
اس بجٹ میں نئے ٹیکس کا نظام بنایا گیا ہے ، جس کے تحت سات لاکھ روپے تک کی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا ہے ، البتہ اگر سات لاکھ سے ایک روپے زائد کی رقم دکھائی گئی تو پھر تین لاکھ سے چھ لاکھ تک پانچ فی صد اور چھ سے نو لاکھ تک دس فیصد ٹیکس دینا ہوگا، نو سے بارہ لاکھ آمدنی پر پندرہ فی صد اور بارہ سے پندرہ لاکھ روپے پر بیس فی صد اور پندرہ لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر تیس فی صد کا سلیب لاگو ہوگا۔
 اس بجٹ پر جو تبصرے آئے ہیں وہ حسب سابق متضاد ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کا خیال ہے کہ بجٹ میں خوش حال ہندوستان کا عزم ہے، راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ ”متر کال“ کا بجٹ ہے اور مرکز کے پاس مستقبل کا کوئی خاکہ نہیں ہے ، وزیر اعلیٰ بہار کی نظر میں عام بجٹ مایوس کن ہے اور اس میں دور اندیشی کا فقدان ہے۔
 مجموعی طور پر اس بجٹ کی تیاری میں آئندہ سال پارلیامنٹری اور امسال کے نو ریاستوں میں ہونے والے انتخاب کو سامنے رکھا گیا ہے ، جو غیر بھاجپائی اقتدار والی ریاستیں ہیں ان کے مفاد کی ان دیکھی کی گئی ہے اور جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں کار پوریٹ گھرانوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے ، کیوں کہ انتخاب لڑنے کے لیے روپے بھاجپا کو وہیں سے ملتے ہیں، اس لیے ان پر خاص طور سے توجہ دی گئی ہے تاکہ ان کی دوستی پر حرف نہ آئے ، بجٹ کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ اعداد وشمار کی بازی گری ہے اور عوام کو ان بازی گروں نے یا تو دھوکہ دیا ہے یا اعداد وشمار سے لبھایا ہے، اس طرح یہ بجٹ شاعر کے اس شعر کے مصداق ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

اتوار, فروری 19, 2023

مولانا انیس الرحمن قاسمی بھاگلپور ی ؒ __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مولانا انیس الرحمن قاسمی بھاگلپور ی ؒ __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے سابق رکن ، خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ کے اکابر کے معتمد خاص، جامع العلوم پٹکا پور کان پور، دار العلوم اسلام نگر رانچی ، جامعہ ام سلمہ دھنباد، مدرسہ احیاءالعلوم ناتھ نگر بھاگلپور کے سابق استاذ، ماہنامہ خورشید بریلی، ماہنامہ الفاروق بھاگلپور اور دیش بدیش بھاگلپور کے سابق مدیرمحترم، آل انڈیا ملی کونسل کے سابق سکریٹری مولانا انیس الرحمن قاسمی ناتھ نگر بھاگلپور کا 7 فروری 2023 بروز منگل تین بجے صبح انتقال ہو گیا، جنازہ کی ادائیگی اسی دن بعد نماز عصر ناتھ نگر میں ہوئی ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا مفتی محمد الیاس صاحب شیخ الحدیث مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور نے پڑھائی ، اور ناتھ نگر کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا پیغام تعزیت قاضی شریعت بھاگلپور مولانا خورشیدعالم صاحب نے پڑھ کر سنایا اور جامعہ رحمانی مونگیر کی نمائندگی کرتے ہوئے حافظ محمد امتیاز رحمانی نے مرحوم کے اوصاف وکمالات کا ذکر کیا، پس ماندگان میں دو لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں، جن میں ایک صاحب زادہ مولانا خالد فیصل ندوی دار العلوم ندوة العلماءمیں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اہلیہ 2016میں وفات پا چکی تھیں
 مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ولادت یکم جنوری 1931 کو ناتھ نگر بھاگلپور میں جناب عبد الغنی بن حاجی خورشیدکے گھر ہوئی، مولانا کی نانی ہال صاحب گنج تھی، ابتدائی تعلیم ناتھ نگر ہی میں مولانا عبد الماجد صاحب سے پائی ، آگے کی تعلیم کے لیے دارالعلوم مﺅ تشریف لے گیے اور وہاں سے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور1956میں سند فراغ پائی ، فن قرأت وتجوید کی تعلیم مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے حاصل کیا، تدریسی خدمات مختلف مدارس میں انجام دیتے رہے، جس کا ذکر اجمالا اوپر آچکا ہے، فطری انسیت صحافت سے تھی، جس کی تربیت انہوں نے عبد الوحید صدیقی غازی پوری ثم دہلوی سے پائی تھی ، بعد میں یہ ذوق ان کے اوپر غالب ہو گیا، چنانچہ کئی رسائل اور اخبارات کے مدیر رہے، روزنامہ دیش بدیش کے لیے مسلسل لکھتے رہے، الفاروق کا بھاگلپور فساد نمبر نکالا؛ جو لوگوں کے لیے فساد کے مضمرات اور حقیقی تجزیہ میں بڑا معاون ثابت ہوا، صحافی ہونے کی حیثیت سے ان کی نگاہ بڑی دور رس تھی ، وہ ملکی اور غیر ملکی خبروں پر یکساں نظر رکھتے تھے، اور حسب موقع لکھتے بھی تھے اور مجلسی گفتگو میں اس پر سیر حاصل بحث بھی کیا کرتے تھے۔
 صحافت ان کے لیے خدمت کا ذریعہ تھا وہ اسے پیشہ کہنا بڑا سمجھتے تھے، خدمت ہی کے نقطہ نظر سے انہوں نے ہندوستان کی مرکزی اور ملی تنظیموں سے اپنا رشتہ آخری دم تک استوار رکھا، خانقاہ رحمانی مونگیر، امارت شرعیہ ، آل انڈیا ملی کونسل، تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کی تحریکات اور کاموں کوآگے بڑھانے میں وہ ان کے دست وبازو بن کر کام کرتے ، وہ مختلف ملی تنظیموں میں تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ نام الگ ہے، طریقہ کار اور ترجیحات میں فرق ہے، لیکن سب ملت کی سر بلندی اور سماج میں مسلمانوں کو با وقار مقام دلانے کے لیے سر گرم عمل ہیں، اس لیے ان کے کاموں میں رفیق بننا چاہیے، فریق نہیں، فریق بننے سے کام بگڑتا ہے اور رفیق بننے سے کام آگے بڑھتا ہے ، اپنے اس فکر کی وجہ سے وہ بھاگلپور ہی نہیں، ہندوستان کی مرکزی ملی تنظیموں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، مختلف وقتوں میں وہ تعلیمی اداروں کے منظم اور تنظیموں کے رکن رہے اور اپنی بہتر خدمات ان کے لیے فراہم کیں۔
 بھاگلپور فساد کے موقع سے انہوں نے امارت شرعیہ کے وفد کے ساتھ ریلیف کا کام کیا اور کہنا چاہیے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا، فساد کے حوالہ سے جو مقدمات ہوئے تھے اس کی پیروی میں بھی انہوں نے اپنی توانائی لگائی، اور جو کچھ بن پڑا کرتے رہے۔ان کی کوششوں سے کئی مجرمین جیل تک پہونچے اور انہیں سزا ہوئی۔
 حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ نے آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ اس کو استحکام بخشنے میں لگ گیے، مئی 2001ءمیں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے انہیں مرکزی دفتر دہلی میں ہمہ وقتی سکریٹری مقرر کیا تھا، بہت دنوں تک وہ آل انڈیا ملی کونسل کے دفتر کے سکریٹری رہے، اس حیثیت سے انہوں نے دفتری نظم ونسق کو مزید بہتر بنانے کے لیے کام کیا، ریاستی تنظیموں سے روابط مضبوط کیے، تنظیموں کے استحکام وتوسیع کے لیے کام کیا تنظیمی دور ے کیے، لیکن دہلی کی سیاسی فضا انہیں راس نہیں آئی اس کے اثرات کو قبول کرنا انہیں منظور نہیں تھا، چنانچہ دہلی چھوڑ کر وہ پھر بھاگلپور چلے آئے، اور آخری دم تک بھاگلپور کوہی اپنا میدان عمل بنائے رکھا، قاضی صاحب ؒنے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی نکالا تو بہت جگہوں پر وہ کارواں کے رفیق سفر رہے۔
 میری ملاقات ان سے ملی کونسل کے قیام کے بعد ہوئی ، ایک زمانہ میں ، میں بھی بہار ملی کونسل کا سکریٹری تھا، اس عہدہ کی وجہ سے بار بار ان سے ملاقاتیں رہیں، مختلف موضوعات پر ہم لوگوں نے لکھا اور کئی موقع سے اسٹیج پر ایک ساتھ تقریر کا موقع ملا۔
 بھاگل پور جب بھی جانا ہوا، مولانا مرحوم سے ملاقات کی کوشش کی، کبھی ملاقات ہوئی اور کبھی نہیں ، جب تک اعضاءوجوارح کام کرتے رہے خانقاہ رحمانی اور امارت شرعیہ آنا جانا ہوتا رہا ، قویٰ نے جواب دے دیا اس کے با وجود کوئی آتا توامارت کے خدام کی خیریت دریافت کرتے۔
 دیش بدیش بھاگل پور کی اشاعت بہت نہیں تھی ، لیکن جو لوگ خبروں کے پیچھے جھانکنے اور تجزیہ کاذوق رکھتے ہیں وہ مولانا کی تحریروں کو پڑھنے کے لیے ہی یہ اخبار دیکھا کرتے تھے، اس سے قارئین کو مختلف مسائل پر بھر پور واقفیت ملتی تھی ، ملی مسائل کے ساتھ انہوں نے خصوصیت سے مسلم معاشرہ میں پھیلی بے راہ روی پر لکھا اور خوب لکھا، انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تحریک اصلاح معاشرہ کے لیے کام کیا اور قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے۔
 مولانا کی شخصیت کئی اعتبار سے قابل قدر تھی،ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہوجانا ہم سب کے لیے افسوس کا باعث ہے، ایسے موقع سے لوگ رنج وغم کی بات کرتے ہیں، غم تو فطری ہے ہوتا ہے، اور ہونا چاہیے، لیکن رنج کا کوئی موقع نہیں ہے، کیوں کہ موت تو اللہ کی جانب سے ہے ، بندوں کو اللہ کے کسی عمل پر رنج ہونے کا حق نہیں ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل بخشے آمین یا رب العالمین۔

ہفتہ, فروری 18, 2023

جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن

﴿ کچھ تبسّم زیرِلب﴾
تعریف کاجادو 
اردودنیانیوز۷۲ 
٭ ا نس مسرورانصاری   
 
 جادواورجادوگروں کی کہانیاں آپ نے بہت پڑھی اور سنی ہوں گی اورآپ نے یہ بھی دیکھاہوگا کہ اُن کےجادوخطابھی کرجاتے ہیں لیکن ایک جادوایسابھی ہے جوکبھی خطانہیں کرتا۔ہمیشہ اپنے ہدف پرجاکر بیٹھتاہے۔اچھے خاصے لوگ بھی اس کاشکارہوکر رہتے ہیں۔یہ تعریف کاجادوہے۔آپ کادوست ہویادشمن ،یہ جادو سب پریکساں چلتاہے بلکہ دوڑتا ہے۔ہمارے سیاسی لیڈران اس جادومیں بڑی مہارت رکھتے ہیں اوراسی کی بدولت بڑی بڑی کرسیاں حاصل کرلیتے ہیں۔جس کویہ جادونہیں آتاوہ کبھی منتری نہیں بن پاتا۔اس جادو کی ایک ذات برادری کانام چاپلوسی بھی ہے۔یہ جادوبڑاخطرناک ہوتا ہے۔ایک سیاسی جلسہ میں جب شہرکے ایک لیڈرتقریرکرنے کے لیے مائک پرآئے توان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی مائک والے نے اپنامائک بندکردیا۔ نیتاجی بہت ناراض ہوئے۔ لوگوں نے وجہ  پوچھی توکہنے لگا‘‘میں اس نیتاکواپنے مائک میں نہیں بولنے دوں گا۔یہ سالااپنے بڑے لیڈروں کواتنامسکامارتاہے کہ چکناہٹ سے میرامائک خراب ہوجاتا۔’’ 
تعریف کاجادوسرچڑھ کربولتا ہے۔ہرانسان اس کے اثرمیں بڑی آسانی سے آجاتاہے،بلکہ جانورتک اس جادوسے متاثرہوئے بغیرنہیں رہتے۔یہ ایساذوداثرہے کہ ہرکسی کودل وجان سے عزیزہے۔ مگراس جادوکوچلانے میں اعتدال بھی بہت ضروری ہے۔ زیادہ چلانے پریہ ری ایکشن بھی کرجاتاہے۔لوگ برامان جاتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ان کامذاق اڑایاجارہاہے۔یہ جادولیمیٹڈہوتاہے۔زیادہ چلانے پرجوتے بھی کھانے پڑسکتے ہیں۔اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔سچ کہتے ہیں کہ وہ کام سب سے اچھاہوتاہے جس میں اعتدال ہو۔ اس جادو کے بڑے کرشمے ہیں۔کچھ کرشمے آپ بھی دیکھئے۔ 
مشہورمصّورہ فرنکائیزجیلٹ دنیاکے،عظیم مصورپیلوپکاسو کی بیوی تھی۔وہ دس سال تک ساتھ رہے۔ان کے دوبیٹے بھی ہوئے۔پالومااورکلاڈ۔جب کبھی جیلٹ کوفرصت ملتی،وہ اپنا برش سنبھالتی ،اسٹوڈیوکے دروازے بند کرتی اورتصویرکشی میں کھوجاتی۔بچے بڑی تنہائی محسوس کرتے۔ماں باپ دونوں آرٹسٹ۔دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے۔پالومااورکلاڈ کوبڑی بوریت ہوتی۔ ایک دن
جیلٹ اسٹوڈیوکادروازہ بند کیےایک خوبصورت سی تصویر بنارہی تھی کہ ڈرتے ڈرتےکلاڈ اسٹوڈیوکے دروازہ پرآیااورہلکے سے دستک دی۔جیلٹ نے پوچھا ۔‘‘ہاں،کون ہے۔؟’’پھرکام میں مشغول ہوگئی۔ کلاڈنےکہا۔ 
  ‘‘ممی!مجھے تم سے بہت پیار ہے۔’’لیکن جیلٹ نےبرش ہاتھ سے  نہ چھوڑا۔بولی‘‘پیارےکلاڈ!میں  بھی تم کودل وجان سے چاہتی ہوں۔’’چندمنٹ انتظارکےبعدکلاڈ نے کہا:‘‘ممی!مجھے تمھاری تصویریں بہت پسندہیں۔’’جیلٹ نے اندرہی سےکہا:‘‘پیارے کلاڈ!شکریہ!تم ایک ننھےفرشتےہو،،، پھرایک منٹ بعدکلاڈنےکہا۔
‘‘ممی!تمھاری تصویروں میں توجادوہے۔سچ پوچھوتوتمھاری تصویریں پاپاکی تصویروں سے بھی اچھی ہیں۔ ،، 
کلاڈکے منہ سے یہ سنتے ہی جیلٹ نے برش رکھ دیا۔وہ بے تابی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازہ کھول کرکلاڈکواندر کھینچ لیا۔ گودمیں اُٹھاکراسے دیرتک پیارکرتی رہی۔
آپ نے دیکھا۔تعریف کاجادواس طرح سرچڑھ کربولتاہے۔ہمارے میردانشمندجوہرعلم وفن کے احاطہ میں موجودپائے جا تے ہیں،غالبیات میں بھی اپناایک ممتازمقام رکھتے ہیں۔آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فی زمانہ اردوزبان کاہرشاعر،ادیب، صحافی،ممتازمقام رکھتاہے۔یہ مقام بہت عام ہوگیاہے۔ہمارے میردانشمندکوبھی یہ امتیازی مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ غالب کے بہت سارے واقعات انھیں ازبر ہیں جنھیں وہ موقع بے موقع، وقت بے وقت سناتے رہتے ہیں۔ایک دن ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئےفرمایا۔۔چچا غالب بڑے زندہ دل ،آوارہ گرد اور بڑے ستم ظریف تھے۔ان کی عادت تھی کہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لڑانے کےبعددیررات گئے گھرواپس لوٹتےتھے۔ان کی بیگم ان سے عاجز تھیں(اکثرشاعروں  کی بیگمات ان سےعاجزنظرآتی ہیں)زیادہ تروہ دوستوں کے  ساتھ رات کاکھاناکھا کر لوٹتے تھے۔اس لیے ان کی بیگم بھی ان کاانتظارکیےبغیرسوجاتی تھیں۔لیکن ا یک رات ایسا ہوا کہ وہ شدت کےساتھ غالب کےانتظار میں جاگ رہی تھیں۔کافی رات گئےوہ گھرلوٹے۔چپکےسےدروازہ  کی سٹکنی کھولی ا وراس خیال سے کہ کہیں پیروں کی آہٹ سے بیگم جاگ نہ جائیں،اپنے جوتے اُتارکربغل میں دبالیے اورنہایت خاموشی کے ساتھ مکان میں داخل ہوئے۔خدشہ تھاکہ بیگم جاگ نہ رہی ہوں۔پنجوں کے بل کسی آہٹ کے بغیراپنے کمرہ کی طرف بڑھے کہ اچانک چراغ کی مدّھم روشنی میں بیگم کی آواز کابم پھٹا۔۔رات کے دوپہر گزر چکے،اب تشریف لائی جارہی ہے اوروہ بھی اس حال میں کہ بغل میں جوتیاں دبی ہوئی ہیں۔گویا اپنے ہی گھرمیں چوری کاارادہ رکھتے ہوں۔’’
    بیگم کی پہلی ہی آوازپرغالب یوں اُچھلےکہ جوتیاں گرکرزمین بوس ہوگئیں۔خجالت ا ورشرمند گی سے بیگم سے آنکھیں نہ ملا سکے۔چونکہ برجستہ گوتھے اس لیے برمحل جواب دیا۔‘‘کیاکہیں بیگم!آپ نے نمازیں پڑھ پڑھ کر سارے گھرکوتومسجدبناڈلاہے۔اب جوتیاں پہن کرمسجدمیں کیسے داخل ہوں۔اس لیے تعظیماََ ہم نے جوتیاں بغل میں دبالیں۔’’
    چارپائی پراُٹھ کربیٹھتے ہوئے بیگم نےکہا۔‘‘ایک توآپ نے میری زندگی کیاکم اجیرن کررکھی ہے۔دوسرےآپ کےشاعرومتاشاعر  دوستوں اورحریفوں نے مجھے الگ ملامت کانشانہ بنارکھاہے۔اب تومیرے صبرکاپیمانہ بھی لبریز ہوچکا۔جب سے آپ کے گھرمیں آئی ہوں،سکون کاسانس لینا نصیب نہ ہوا۔’’ (گلوگیر آواز) 
     ‘‘آخرہواکیا۔؟ایسی کیااُفتادآن پڑی کہ آپ اپنی جان کی دشمن ہوئی جارہی ہیں۔ہمیں بھی تو کچھ پتا چلے۔’’غالب نے بڑی دل جوئی سے پوچھا۔ 
    ‘‘آپ کی بلاسے ہمیں کوئی کچھ کہتاپھرے۔’’بیگم نے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔‘‘اللہ دشمن کوبھی شاعرکی بیوی نہ بنائے۔اب آرام کیجئے اورصبح نہارمنھ ذرامکان کی باہری دیوارکادیدار کرلیجئے گا۔آپ کے ملاحظہ کے لیے کسی نے دیوارپرکوئلہ سے کچھ لکھ چھوڑاہے۔’’
    اُدھربیگم نے منھ پھیر کر دو سری طرف کروٹ بدلی اورادھر غالب کچھ متفکراورکچھ شر مندہ شرمندہ سے اپنی خواب گاہ میں چلے گئے۔دوستوں کی صحبت میں جوچندجام لنڈھائے تھے ان کانشہ ہرن ہوچکاتھا۔صبح اُٹھے توسب سے پہلے مکان کے باہرکی دیوارکامعائنہ کیا۔ان کی بیگم درازقداورسانولےرنگ کی تھیں۔اسی مناسبت سےکسی منچلےشاعرنےکوئلہ سےدیوارپر ایک مصرعہ لکھ دیاتھا۔۔ 
 ‘‘طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے’’ 
  غالب ساراماجراسمجھ گئے۔دیوارکے آس پاس دیکھاتوکوئلہ کاایک ٹکڑا زمین پرپڑاہواتھا۔اُسے اُٹھاکرمصرعہ کے نیچے ایک برجستہ مصرعہ لکھ دیا۔ 
 ‘‘ وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے ’’ 
  پھروہ اپنی بیگم کاہاتھ پکڑکر دروازہ پرلائے اورکہا۔‘‘دیکھتی ہو بیگم!کسی نے کیاہی عمدہ شعر لکھاہے۔آپ توخواہ مخواہ ناراض ہوئی جارہی ہیں۔’’بیگم نےشعر  پڑھا۔ 
طولِ شبِ دیجورسے دوہاتھ بڑی ہے
 وہ زلفِ سیہ جوترے کاندھے پہ پڑی ہے 
    غالب کی بیگم شرمائیں،،لجائیں اورمکان کے اندرچلی گئیں۔سمجھ گئیں کہ دوسرامصرعہ خودغالب نے لکھاہے۔آپ نے دیکھا۔؟تعریف کاجادوکیساچلا۔آپ بھی اس جادوکوسیکھیں اور اپنی بیگم پر چلائیں اوردیکھیں کہ پھرکیا ہوتاہے۔ناراض دوست ہوں یا نا راض بیوی، کسی کو بھی منانا ہوتویہ تیربہ ہدف نسخہ ضرور آزمائیں۔ کوئی موجود نہ ہوتو خودپرہی آزمائیں۔جیساکہ ہمارے شعراءخودپر آزمانے ہیں۔ 
  تعریف سے بڑاکوئی جادونہیں۔
 ٭٭
 انس مسرورانصاری
 قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
 سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰
 (یو،پی)
 رابطہ:9453347784۰

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...