Powered By Blogger

اتوار, فروری 26, 2023

امجد اسلام امجد ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امجد اسلام امجد ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

مشہور شاعر‘ ڈرامہ اور کالم نگار امجد اسلم امجد کا گذشتہ دنوں 10/فروری 2023 ء بروز جمعہ لاہور میں انتقال ہوگیا‘انہیں سونے کی حالت میں دل کا دورہ پڑا اور صبح وہ اپنے بستر پر اس حالت میں پائے گئے کہ ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی تھی‘ انہوں نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی ذیشان اور دو لڑکیوں کو چھوڑا۔وہ ستارہ امتیازسے1968 ء میں، حسن کارکردگی ایوارڈ سے 1987ء  اورنگار ایوارڈ سے دو بار نوازے جا چکے تھے‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایوارڈ’اعزاز و انعامات ان کی جھولی میں آ گرے تھے۔ان میں 23 /دسمبر 2019 ء کو ترکی کا اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹر نیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
امجد اسلام امجد کی پیدائش 4/ اگست 1944ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر لاہور  میں ہوئی‘1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا‘ 1968ء سے ۱1975ء تک ایم اے  او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں‘ 1975ئمیں وہ پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر بنائے گئے‘ لیکن 1990ء میں پھر سے ایم اے او کالج واپسی ہوئی اورشعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔وہ پاکستان ٹیلی ویزن سے منسلک ہوتے ہوئے چلڈرن کمپلکس کے پروجیکٹ ڈائرکٹربھی تھے‘ ان تمام مشغولیات کے باوجود انہوں نے پچا س سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
امجد اسلام امجد نے ادبی دنیا میں شاعر‘ ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے خوب نام کمایا ’وارث ’دن اور فشار ان کے مشہور ڈرامے ہیں‘ ان کا شعری مجموعہ برزخ‘ ذرا پھر سے کہنا‘ساحلوں کی ہوا‘ زندگی کے میلے میں اور جدیدعربی نظموں کے تراجم عکس اور افریقی شعرا ء کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے منظر عام پر آیا۔امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں  اپنی مہارت کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ برسوں دیکھنے والے کے ذہن سے محو نہیں ہوں گے۔
امجد نے جمالیاتی شاعری  کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی اور یہی ان کی شاعری کے میدان میں شہرت کا سبب بنی‘ان کی نظموں میں جو صوتی ہم  آہنگ‘ تازہ کاری‘ توانائی اور فکری تنوع ہے‘ اس کی مثال نایاب تو نہیں کم یاب  ضرورہے۔ان کی شاعری کے قدرداں عوام اور خواص دونوں تھے‘ کیوں کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات سے شاعری کا مواد حاصل کرتے تھے  اور اسے فلسفہ بنائے بغیر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ان کی شاعری نے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔
پاکستانی ٹیلی ویزن کے لیے ش انہوں نے  کئی کامیاب سیریز لکھے‘ جن میں دہلیز‘ سمندر‘ رات‘ وقت‘ اور اپنے لوگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔امجد اسلام امجد در اصل اس وقت پاکستانی ادب کا چہرہ تھے‘ ایک ایسا چہرہ جس کو پاکستان سے باہر مختلف اصناف ادب میں خدمت کی وجہ سے وقار و اعتماد حاصل تھا‘ وہ معروف بھی تھیاور مقبول بھی‘ انہوں نے ادب کی دنیا میں بہت لوگوں کو آگے بڑھایا‘ وہ باصلاحیت لوگوں کی قدر  کرتے اور ان کے بس میں جس قدر ہوتا آگے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں جتن بھی کیا کرتے تھے۔آج کے اس دور میں جب بیش تر بڑے برگد کا پیڑ بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے زیر سایہ کوئی تناور درخت نہیں اگ نہیں سکتا‘ وہ اپنی ہی سونڈزمین میں گاڑنے پر یقین رکھتا ہے ایسے میں امجد اسلام امجد کا یہ طریقہ کار قابل ستائش بھی تھااور لائق تقلید بھی۔
امجد اسلام امجد مجلسی آدمی تھے‘ ان کی گفتگو برجستہ اور بذلہ سنج ہوا کرتی تھی‘ انہیں مجلس کو قہقہہ زار بنانا بھی خوب آتا تھا‘ انہیں اپنے فن اور مقبولیت پر غرور بھی نہیں تھا‘ وہ ہر اہل قلم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی عزت کرتے تھے’یہ عزت اور پذیرائی کا سلسلہ خورد نواز ی کے آخری مرحلہ تک جا پہونچتا تھا۔
ہندوستان،پاکستان کے درمیان سرحدی خلیج کی وجہ سے میرا ان سے ملنا کبھی نہیں ہوا،ہندوستان مختلف موقعوں سے ان کا آنا ہوا؛لیکن ان مواقع کا استعمال ملاقات کے لئے میں نہیں کر سکا،البتہ ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا،اس سے ان سے ایک ذہنی قربت سی ہو گئی تھی‘ ان کے بعض اشعار نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں، ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ سب نہاں خانوں سے باہر آنے کے لئے بے چین ہیں،کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے؛کیونکہ شاعر پر کوئی تحریر نمونہ کلام کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے،امجد اسلام امجد کے یہ اشعار ان کی ذہنی رو اور عصری حسیت کے عکاس ہیں۔
میرے کاسہ شب و روز میں کوئی شب ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہراکرے سبھی خوف دل سے نکال دے
امجد کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے اس شعر کو بھی پڑھئے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آجائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا کو چھوڑ جانا شعرو ادب‘ ڈرامے اور کالم نگاری کا بڑا نقصان ہے‘ اللہ جب کسی کو اٹھاتا ہے تو اس کی تلافی کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔ علم و ادب تنقید کے میدان میں آج کل جو ادباء اور اہل قلم سرگرم ہیں وہ اس کی تلافی بھی کریں گے۔ اللہ رب العزت امجد اسلام امجد کی مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے‘ اب یہی دعا ان کے لئے مفید اور کارگر ہے۔ ہم نے دعا کردیا آپ بھی کردیجئے۔

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال 
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 26/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
حقانی القاسمی صاحب کا پٹنہ آنا ہم سب کے لئے عید کی طرح رہا۔ اُن کی آمد سے سارے شہر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ محترم حقانی القاسمی اردو زبان وادب کے درخشندہ ستارہ کے مانند ہیں، آپ مشہور ومعروف وبیباک ادیب ناقد کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل، ملنسار، بلند سوچ، مخلص، مربی، ہمدرد،وفا شعار، وفا شناس ہیں ۔آپ نے اپنے مخلصانہ عمل وخدمات اور علوم وفنون سے جو مقام ومرتبہ پیدا کیا ہے وہ خود میں ایک مثال ہے، آپ کی ظاہری شکل شباہت بھی سراپا محبت والفت کا سرچشمہ ہے، آپ کے سینے میں قوم وملت کے لئے دھڑکنے اور تڑپنے والا دل ہے، اور یہ بات آپ کے عمل وکردار سے ظاہر باہر ہے، آپ کئی اہم کتابوں کے مصنف و مؤلف ٹھہرے،آپ کی تحریر تقریر اساتذہ طلبہ کے لئے لائحۂ عمل ہے،آپ کئ تنظیموں سے وابستہ ہیں، آپ سے ہر خاص وعام مشورہ طلب کر کے مثبت نتائج پاتے ہیں۔واضح رہے کہ حقانی القاسمی صاحب کی آمد پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے استقبال میں فاؤنڈیشن کے ترجمان محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ان سے خاص ملاقات کرکے دعائیں لیں، انہیں اعزاز کے طور پر سند سے نوازا گیا، ساتھ ساتھ کئ اہم ادبی شخصیات ملاقات کی ، اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے محمد ضیاء العظیم قاسمی سے بات چیت کے درمیان حقانی القاسمی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حقانی القاسمی جیسی شخصیت کی توجہ ہماری جانب مرکوز ہے، یقیناً ان کی شخصیت اس وقت اردو زبان وادب کے لئے غنیمت ہے، صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، حقانی القاسمی بے لوث بے غرض محبت کرنے والے ہیں، ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے لئے موقع نہ مل سکا کہ پٹنہ کا سفر کرکے سر سے ملاقات کرتی، میں دل کی گہرائیوں سے محمد ضیاء العظیم قاسمی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میری نمائندگی کی، حقانی القاسمی صاحب ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن ہیں، اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں انہوں نے بہت مدد کی ہے، وہ ہمیشہ نیک مشورے سے ہمیں نوازتے رہتے ہیں، اس فاؤنڈیشن کو بام عروج پر پہنچانے میں حقانی القاسمی صاحب کا نام سر فہرست ہے،محمد ضیاء العظیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے، تحریر وتقرر پڑھنے سننے کا موقع تو کئ دفعہ ملا مگر زندگی کی پہلی ملاقات تھی اور ایسا محسوس ہوا کہ برسوں کی شناسائی ہے،
چند منٹ کی ملاقات نے مجھ پر جو اثر ہوا گویا میری طبیعت معطر ہو گئ، طبیعت نہیں چاہی کہ چھوڑ کر واپس جاؤں لیکن تھکاوٹ آپ کے چہرے سے نمایاں تھیں اسی وجہ سے چند منٹ ملاقات کے بعد واپس ہونا پڑا، یقیناً آپ کی شخصیت خود میں ایک دنیا ہے ،آپ سے مل کر طمانیت قلب حاصل ہوا ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بڑی خوبیوں سے نوازتے ہوئے اسے اس روئے زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا ہے، اور زمین آسمان کا اسے وارث بنایا ہے، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرماتے ہوئے اسے کئ اہم وصف عطا کئے ہیں، جن سے دیگر مخلوق محروم ہیں،انسان اپنی محنت رب العزت کے فضل اور جہد مسلسل سے اپنا مرتبہ اپنی اہمیت اور اپنی شناخت قائم کرتا ہے، پھر زمانہ اسے مبلغ، محدث، مؤرخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی و محسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی خالص علم و عمل، سراپا مجاہدہ اور عالم انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہےاور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جانے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہو جاتا ہے۔ مستقبل کے محرر و مؤرخ اسے اوراقِ تاریخ میں یاد گار زمانہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے یقینا خالق بھی اس سے محبت کرتا ہے، ایسی شخصیت سراپا رحمت برکت اور محبت کی علامات ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

ہفتہ, فروری 25, 2023

ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 

 بہار کے ضلع ارریہ میں "گرگدی" نام کا ایک گاؤں ہے، ضلع ہیڈ کوارٹرسے یہ محض گیارہ کلو میٹر فاصلے پرواقع ہے، یہاں کی کل آبادی ۳۵۰۰/سونفوس پر مشتمل ہے،اس بستی میں ۹۰۰/سو برادران وطن بھی بستےہیں، بقیہ سبھی مسلمان ہیں۔

ابھی چند دنوں قبل گاؤں والوں نے ملکر اصلاح معاشرہ کے عنوان پر ایک جلسہ کیا ہےجوآج ہمارا موضوع سخن ہے،خطاب کرنے والے علماء کرام اور شریک ہونے والے سامعین حضرات نے بھی اس پروگرام کوایک تاریخ ساز ویادگار اجلاس قرار دیا ہے۔

خاص بات یہ رہی کہ اسٹیج سےناظم اجلاس جناب مفتی راغب صاحب قاسمی نے کچھ لوگوں کے نام لیکر اظہار تشکر کیا ہےانمیں بطور خاص جناب منصور عالم صاحب، الحاج منظور عالم، الحاج مسرت کریم،ماسٹر وثیق الرحمن، محمد اشتیاق، فخرالدین وغیرہ تووہیں غیر مسلم بھائیوں کی بھی ایک فہرست پیش کی ہے،انمیں جناب دیوپرکاش منڈل جی،سنتوش بھگت،ڈاکٹر رامانند نرالا، لکھی چند شرما،سبودھ منڈل،لال چند رشی دیو،پریم لال منڈل کے نام مجمع عام میں بحیثیت منتظمین اجلاس کےپیش کیا ہے،ساتھ ہی بھاری بھرکھم الفاظ میں ان تمام حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

ایک رضاکار جناب بھائی اشتیاق سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آپ لوگوں کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہے،ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہےکہ خالص اصلاح کے موضوع پرجلسہ ہو، اسمیں برادران وطن کی بڑی تعداد شریک  ہو،اس کی وجہ کیا ہے؟ موصوف نے وجہ بتائی کہ؛ مولوی صاحب! ہم کسان آدمی ہیں، تعلیم کی ہمارے یہاں بڑی کمی ہے،گاؤں کی تعلیمی حالت کا اندازہ آپ کو اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ صرف چار آدمی گرگدی گاؤں کےسروس میں ہیں، بقیہ ہم سبھی کاشتکاری کرتے ہیں،ابھی کچھ سالوں سے ہمارے نوجوان طبقہ میں  بڑی بے راہ روی آگئی ہے،نشہ کی بیماری  عام ہوگئی ہے، یہ چیز سیلاب کی طرح ہر مکان میں داخل ہورہی ہے۔ہم سماج سے اس بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئندہ نسل کو بچانا چاہتے ہیں،آج یہ جلسہ بھی اسی مقصد سے منعقد ہوا ہے، ہم آپس میں ملکر اس کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو پھر سماج سے نشہ کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے، غیر مسلم بھائی ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں، اسی سماج کا حصہ ہیں، ہم ان کو لیکر نہیں چلیں گے تو پھر مکمل کامیاب نہیں ہوسکیں گے، ہم نے ان کو کہا تو خوشی خوشی ہمارے ساتھ آئے ہیں، بلکہ ہم سے زیادہ محنت انہیں لوگوں نے کی ہے،اوراب بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑےہیں ،یہ توآپ بھی دیکھ  ہی رہے ہیں۔

واقعی گرگدی گاؤں کے لوگوں نے نشہ کے سد باب کے لئے ایک نیا طریقہ تعلیم کیا ہے،ایک کسان اپنی فصل کی حفاظت کے لئے کھیت کے چاروں طرف باڑ اور رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے تاکہ اسمیں کوئی جانور گھسنے نہ پائے اور کھیتی کو خراب نہ کردے،اسی طرح اپنی نسل کی حفاظت کے لئے پورے گاوں کو جمع کرکے گویا اس کی حصار بندی کردی ہے،واقعی یہ مثالی کام ہے، ابتک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ کچھ لوگ کسی برائی کے خلاف متحد ہوتے ہیں، وہ صرف ایک ہی مذہب کے ہوتے ہیں، پورےسماج کے لوگوں کا ساتھ نہیں لیتے ہیں، نشہ کے جراثیم اسی راستے سے در آتے ہیں،روک تھام بیکار چلی جاتی ہےاورکامیابی صد فیصد نہیں مل پاتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے سلسلہ میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی یے، شراب بنانے والے پر، بنوانے والے پر،پینے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھائی گئی ہے اس پر، پلانے والے پر،بیچنے والے پر، قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدی گئی اس پر،(جامع ترمذی )

مذکورہ بالا حدیث میں گویا ان دس لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شراب کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں، نہیں تو یہ سبھی لعنت کے سزاوار اور اس کے فروغ کے ذمہ دار ہیں۔

گویا نشہ کےخاتمے کےلئےپورے سماج کا متحد ہونا ضروری ہے۔اس پر گرگدی گاؤں کے مسلمان بھائئ واقعی قابل تعریف ہیں، بہت پڑے لکھے نہیں ہیں باوجود اس کے انہوں نے ہندو مسلم سب کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ہمارے تمہارے غم برابر ہیں، موجودہ وقت میں  یہ عمل لائق ستائش ہے اور قابل تقلید بھی ہے،بلکہ ملک سے نفرت کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
             
ہمارے غم   تمہارے غم  برابر   ہیں 
سواس نسبت سےتم اورہم برابر ہیں

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __
urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
14 فروری کو محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پرایک ساتھ چھاپا مارااور یہ کارروائی تین دنوں تک جاری رہی، محکمہ نے اسے سروے کا نام دیا ہے، خدا معلوم یہ کیسا سروے ہے جو چھاپے کی شکل میں ہو رہا ہے،بی بی سی کے ملازمین کے فون، لیپ ٹاپ اور دوسری اشیاء جمع کرالیے گئے ہیں، اس اہم واقعہ پر امریکہ اور خود برطانیہ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، البتہ بی بی سی نے اپنے ملازمین کو جانچ میں تعاون کرنے کو کہا ہے اور جو لوگ جانچ کے دائرے میں نہیں ہیں ان کو گھر سے کام کرنے کا حکم دیا گیا گیا ہے۔
بی بی سی پر یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گجرات فساد پر اس کی دستاویزی فلم کو دکھانے پر مرکزی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے، پابندی کے بعد بھی بعض تعلیمی اداروں میں اسے دکھانے کی کوشش کی گئی اور نوجوانوں نے اسے دیکھنے پر زور دیا، تو حکومت نے طاقت کے بل پر انہیں روکا، اس کارروائی کو عام لوگ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور عام لوگوں کے نزدیک یہ میڈیا کے ساتھ حکو مت کا غیر جمہوری اور آمرانہ سلوک ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والا گروہ گجرات فساد پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے، اپنے پر پڑتی ہے تو اظہار رائے کی آزادی کا مفہوم بدل جاتا ہے، محکمہ انکم ٹیکس کے نزدیک یہ سروے بین الاقوامی ٹیکس چوری سے متعلق ہے، یہ جانچ اسی سلسلہ میں کی جارہی ہے۔
ہندوستان میں بی بی سی پر اندرا گاندھی کے دور حکومت میں پابندی لگی تھی؛ لیکن اس پر چھاپہ ماری کا عمل اس بار کی طرح نہیں ہوا تھا، اس واقعہ پر حکومت اور حزب مخالف آمنے سامنے ہے، حکومت اس چھاپے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے اپنی ساری طاقت صرف کر رہی ہے اور گودی میڈیا حسب سابق حکومت کے اس موقف کے ساتھ ہے، جب کہ حزب مخالف اسے جمہوری اقدار کے خلاف میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
اس چھاپے سے اتنی بات تو صاف ہوگئی ہے کہ جس طرح مرکزی حکومت اپنے مخالف سیاست داں اور بیوروکریٹ کو آئی بی، سی آئی ڈی،سی بی آئی کے ذریعہ ہراساں کرتی رہتی ہے اسی طرح اب وہ غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی ہراساں کر رہی ہے، تاکہ وہ حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف اپنی تحقیقات پیش کرنے سے گریز کریں،اور حقائق لوگوں کے سامنے نہ آسکیں۔ یہ کارروائی اگر حق بجانب ہوتو بھی جس وقت میں یہ چھاپہ ماری ہوئی ہے، اس کا پیغام عام لوگوں تک یہی گیا ہے۔

جمعہ, فروری 24, 2023

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں ہندوستان جیسے ملک میں اضافہ ہو رہا ہے، ”لیو ان رلیشن شپ“کے قانونی جواز کی وجہ سے بھی یہ تعداد بڑھ رہی ہے، ناجائز حمل ہمارے سماج میں اس گئے گزرے دور میں بھی لائق ملامت ہے، اس لیے ایسے بچوں کو اپنی حرام کاری کو چھپانے کے لیے پیدا ہو تے ہی جنگل جھاڑی یا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے، قسمت نے یاوری کی تو بچہ کسی انسان کے ہاتھ لگ کر زندہ رہتا ہے، ورنہ جانور اسے اپنی خوراک بنا لیتے ہیں اور بچہ کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے، پھینکے جانے والے بچوں میں ایک بڑی تعداد ان چاہے بچوں اور بچیوں کی بھی ہوتی ہے، مسلسل  بچیوں کی پیدائش سے تنگ آکر پھینکے جانے والی بچیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کوڑے دان میں ملے بچوں کی تعداد 240212، مدھیہ پردیش میں 224277، گجرات میں 149146، اتر پردیش میں 127163، کرناٹک میں 113171 ہے، ان میں ستر فیصد معصوم بچیاں ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ان بچیوں کی ہے جن کو ان کے والدین نے ہی کوڑے خانے کی نذرکر دیا۔
ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کم و بیش اس قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ماؤں میں بھی پہلے سی ممتانہیں رہی، پہلے بچوں کو ماؤں کے آنچل کا سایہ ملتا تھا، اب مائیں جینز پینٹ اور اسکرٹ میں آگئی ہیں دوپٹہ سروں سے غائب ہونے کی وجہ سے یہ سایہ بھی بچوں سے چھنتا جا رہاہے۔
جس بے دردی سے ان بچوں کو جنگل اور کوڑے دان میں پھینکا جا تا ہے، اس کی وجہ سے ننانوے فیصد بچوں کو چاہ کر بھی بچانا ممکن نہیں ہو تا؛ کیوں کہ وہ کھلے میں پڑے ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے انفیکشن اور جراثیم کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد ہندوستان میں تین کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے،یورپ اور مغربی ممالک میں یہ تناسب ہندوستان سے کہیں زیادہ ہے اور قدیم بھی، اس لیے وہاں اٹھارہویں صدی عیسوی سے ہی پھینکے گئے بچوں کو بچانے کی مہم شروع کی گئی اور اسے بے بی ہیچز(  hatches Baby) کا نام دیا گیاتھا، یہ ایک پالنا ہوتاہے جس کا ایک سرا ہاسپیٹل سے مربوط ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی بچہ اس پر رکھا گیا، الارم کی گھنٹی ہاسپیٹل میں بجتی ہے  اور ڈاکٹروں کی ٹیم اس کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہو جاتی ہے، 1991ء میں اس کی شروعات تمل ناڈو میں جے للیتا نے کی تھی اور اب اسے کریڈل بے بی اسکیم (Cradle Baby Scheme)کے تحت کیا جا رہا ہے،یہ تجربہ وہاں انتہائی کامیاب رہا اور گذشتہ پچیس سالوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس مہم کے تحت پانچ ہزار بچوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس کام کے لیے وزارت برائے وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے تحت ہر ضلع میں کریڈل بے بی رسیپشن سنٹر(Cradle Baby Reception Centre) موجود ہے اور سرکاری و غیر سرکاری اڈاپشن ایجنسیز( Adoption agencies)کے ذریعہ ایسے بچوں کے تحفظ کا نظم کیا جاتا ہے۔اگرکسی بچے کو کسی نے گود نہیں لیا  توایسے بچوں کی فوسٹر ہوم( Foster Home) چھ سال کی عمر تک پرورش و پرداخت کرتا ہے اور اس کے بعد انہیں بچوں کے گھر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اٹھارہ سال تک سرکاری صرفہ پر زندگی گزارتے ہیں، وہاں ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جاتی ہے اور اٹھارہ سال کے بعد وہ اپنا معاش خود حاصل کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔
معاشی کساد بازاری اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے عمومی مزاج کی وجہ سے ہندوستان میں بچوں کو گود لینے کا رجحان کم ہو تا جا رہا ہے،سنٹرل اڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA)کے مطابق 2021-22 میں 2991 بچوں کو ہی گود لیا جا سکا، جن میں 1293 لڑکے اور 1698 لڑکیاں تھیں،414 بچوں کو گود لینے والے غیر ملکی تھے، یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان میں کم و بیش پندرہ فیصد شادی شدہ جوڑے لاولد ہیں، جن کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق تیس ملین ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے واقعات نسبتاً کم ہیں، کیوں کہ اسلام کے نزدیک نو مولود کو کوڑے دان اور جنگلوں میں پھینکنا گناہ عظیم ہے، اورایسے بے سہارا بچوں کی کفالت اور پرورش و پرداخت ثواب کا کام ہے۔ اڈیشہ کے بسرا سندر گڑھ میں دشا نام سے ایک ایسا ادارہ آزاد بھائی نے قائم کیا ہے، جس میں پھینکے ہوئے نو مولود بچوں کی پرورش و پرداخت اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا نظم کیا جاتا ہے، ان نومولود بچوں کی خدمت کے لیے عورتوں کو ملازمت پر رکھا گیاہے،جو ان کی ضرورتوں کا دھیان رکھتی ہیں، وقت پر انہیں دودھ پلاتی ہیں اور ماؤں کی طرح ان کی غلاظتیں صاف کرتی ہیں، پڑھ لکھ کر جب یہ بچے، بچیاں شادی کے لائق ہوجاتی ہیں تو ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، اس ادارہ کاتذکرہ اس لیے کیا گیا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے، اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم بہت سارے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالامال کر سکیں گے، ان کی پرورش و پرداخت اسلامی انداز میں کر کے انہیں اچھا مسلمان اور بہتر شہری بنا سکیں گے، یہ مسئلہ کا حل بھی ہے اور ثواب کا ثواب بھی،

وفاق المدارس سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحان کا آغاز آج سے ٢٥/فروری : پھلواری شریف(پریس ریلیز)

وفاق المدارس سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحان کا آغاز آج سے
اردودنیانیوز۷۲ 
 ٢٥/فروری : پھلواری شریف(پریس ریلیز) وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ سے ملحق مدارس کے سالانہ امتحانات آج ٢٥فروری سے شروع ہو رہے ہیں تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، مراکز امتحانات پر کاپیاں اور سوالات کے پہونچانے کا کام مکمل ہوگیا ہے، ممتحن اور نگراں حضرات متعلقہ مراکز پہونچ گیے ہیں، طلبہ میں ایک جوش اور ولولہ ہے کہ وہ پورے بہار کے ملحق مدارس کے ساتھ اجتماعی نظام امتحان میں شریک ہورہے ہیں، اس سے ان کی صلاحیت کا مقابلہ دوسرے مدارس کے طلبہ سے بھی ہوگا اور وہ اپنے مدارس کے طریقۂ تعلیم کے موءثر اور مفید ہونے کا عملی مظاہرہ سوالات حل کرکے کر سکیں گے - ان خیالات کا اظہار ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ نے آج ایک اخباری اعلانیہ میں کیا، انہوں نے ذمہ داران مدارس سے اپیل کی ہے کہ وہ وفاق المدارس کے صاف وشفاف امتحان کی روایت باقی رکھنے میں ہر سال کی طرح امسال بھی تعاون کریں - اگر کوئی ممتحن یا محافظ ضرورت بشری کی وجہ سے حاضر نہ ہوں تو مرکزی دفتر وفاق کے مشورہ سے متبادل طے کرلیا جائے - امتحانات کے انعقاد کے بعد کاپیوں کی ترسیل مرکزی دفتر وفاق کو فوری طور پر کریں تاکہ بروقت کاپیوں کی جانچ اور نتائج امتحانات متعلقہ مدارس کو روانہ کیا جاسکے - دوران امتحان کسی قسم کی پریشانی امتحان سے متعلق سامنے آئے تو اس کی اطلاع فوری طور پر مرکزی دفتر وفاق کو دیں تاکہ بروقت اس کا تدارک کیا جاسکے - یہ اطلاع مفتی محمد سعید کریمی رفیق وفاق المدارس الاسلامیہ نے دی ہے -

جمعرات, فروری 23, 2023

سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سفر نامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفر نامے __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ڈاکٹر محمد اشتیاق احمد اپنے قلمی نام اشتیاق احمد شاکر سے مشہور ہیں، 15 اپریل 1985 کو محمد غیاث الدین صاحب کے گھر آنکھ کھولنے والے اس مصنف کا آبائی گاو ¿ں لچھمن پور بوجگاو وایا قصبہ ضلع پورنیہ ہے، تعلیمی لیاقت بی ایڈ، ایم اے، پی ایچ ڈی ہے، مطلب تعلیمی لیاقت اور اسناد مضبوط ہے، پڑھنا اور پڑھانا یہی مشغلہ رہا ہے ، حیدر آباد، بہار اور جھارکھنڈ کے کئی اسکولوں سے مختلف اوقات میں وابستگی رہی ہے ، سفرنامہ کا فن اور شمالی ہند کے سفرنامے، آزادی کے بعد ان کا پی اچ ڈی کا مقالہ ہے، جو تین ابواب پر مشتمل ہے اور جس میں سفرنامہ نگاری کا فن، سفرنامے کی روایت اور اردو سفرنامہ نگاری اور (آزادی کے بعد) اردو کے اہم سفر ناموں کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس کتاب کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے خود لکھا ہے کہ
”ادب کے موجودہ عصری منظرنامہ میں یہ کتاب طرز احساس کے اعتبار سے اور نئے ادبی رجحان کو معرض وجود لانے کے سلسلے میں ایک پہل ہے، جس میں سفرنامہ کا نظریہ بہت واضح طور پر موجود ہے، دیکھنے پرکھنے اور پیش کرنے کی جامعیت کی پذیرائی ہوگی، اسکا یقین ہے۔“ (صفحہ:6)
کتاب کا آغاز والدین ماجدین اور مشفق اساتذہ کرام کی محبتوں اور شفقتوں کے نام ہے، جن کی رہنمائی، حوصلہ افزائی اور شفقتیں مصنف کے ساتھ رہیں اور جو زندگی کے لیے مشعل راہ ثائب ہوئیں، انتساب کے معا بعد مصنف کا پیش لفظ ہے ، جس کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے ، اس کے بعد مصنف اپنا رخ موضوع کی طرف کیا ہے اور بات شروع ہوگئی ہے ، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصنف نے کسی بھی اہل علم وقلم سے اس کتاب پر مقدمہ ، پیش لفظ، حرف چند اور تا ثرات لکھوانے سے قصدا گریز کیا ہے ، یہ گریز مصنف کی خود اعتمادی کو بتاتا ہے ، انہوں نے اس فارمولے پر عمل کیا ہے کہ مشک کی خوشبو مشام جاں کو خود ہی معطر کر دیتی ہے ، اسے کسی اور کو بتانے اور کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، انہوں نے اس کتاب کی اہمیت بیان کرنے اور کروانے کے لیے کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیا ہے ، جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے قارئین کی خدمت میں بلا واسطہ پیش کر دیا ہے۔
 زندگی مستقل ایک سفر ہے، اس سفر کی روداد، آپ بیتی کی شکل میں لکھنے کا رواج قدیم ہے، ہماری زندگی کا بیش تر حصہ مختلف جگہ اور مختلف قسم کے اسفار میں گذرتا ہے، ان اسفار کی تفصیلات اگر سفرنامے کی شکل میں آجائیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان کاموضوع اور مواد جو بھی ہو ان کا پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا، سفر کے مقاصد الگ الگ ہوتے ہیں، لیکن سب میں ”سیرو فی الارض“ کے خدائی احکام کی تعمیل ہوتی ہے ، کوئی سفر سے معاش حاصل کرتا ہے کوئی عبرت پکڑتا ہے، اور تاریخ کے دفینوں کو مشاہدے کے ذریعہ اپنے دماغ کو منور کرنے کے بعد اسے دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کرتا ہے ، اسی کو سفر نامہ نگاری کے فن سے مصنف نے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب اسی عنوان سے ہے ، جس میں مصنف نے سفرنامہ کا تعارف، سفر نامہ کے محرکات، موضوع، اسلوب، ہیئت، سفرنامے کی اہمیت وافادیت پر اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔
 یہ سفر نامے ایک طرح کے نہیں ہوتے، کیوں کہ لکھنے والوں کی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، بعض کا مشاہدہ قوی ہوتا ہے اور بعض کا کمزور ، بعض کو جزئیات نگاری میں کمال ہوتا اور بعض کو منظر نگاری میں ، کوئی سرسری سا اس جہاں سے گذر جاتا ہے، اور کوئی اس طرح دنیا کو دیکھتا ہے کہ وہ سفرنامے ”جہاں دیدہ“ کے ”جہانِ دیدہ“ بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد شاکر نے ہر قسم کے سفرناموں پرروشنی ڈالی ہے، ان کے قلم میں تعلیمی وعلمی سفرنامے، سیاسی سفر نامے، مذہبی سفرنامے، داستانوی یا فرضی سفر نامے سبھی آگیے ہیں، انہوں نے سفر ناموں کے ابتدائی نقوش کا جائزہ بھی لیاہے اور سفر نامہ نگاری کے آغاز وارتقاءپر سیر حاصل گفتگو کے بعد آزادی کے قبل کے بیس سفرناموں پراپنی تفصیلی تحقیق پیش کی ہے۔
 اس باب سے نمٹنے کے بعد انہوں نے آزادی کے بعد اردو کے اہم سفر ناموں کا اجمالی تعارف کرایا ہے ، جس میں اٹھارہ سفرنامے شامل ہیں، اس سلسلے کا اختتام ڈاکٹر ارشد جمیل کے سفرنامہ غبار سفر پر ہوتا ہے۔ اس فہرست میں رضا علی عابدی کا مشہور سفرنامہ جرنیلی سڑک بھی موجود ہے۔دیگر سفرناموں میںرہ نور شوق -سید عابد حسین، جرمنی میں دس روز -علی احمد فاطمی، سیر کردنیا کی غافل - صغریٰ مہدی، ساحل اور سمندر- سید احتشام حسین، ازبکستان انقلاب سے انقلاب تک-پروفیسر قمر رئیس، سفر آشنا- گوپی چند نارنگ، خوابوں کا جزیرہ مورشیش- دردانہ قاسمی، دیکھا ہم نے استنبول- ڈاکٹر صبیحہ انور، یوروپ کا سفر نامہ - س اعجاز، استنبول سے استنبول تک - ادریس صدیقی، سیاحت ماجدی- مولانا عبد الماجد دریاآبادی،دو ہفتے امریکہ میں - بدر الحسن قاسمی، لندن یاترا - ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، چراغ راہ گذر - ظہیر انور ، یہ جو ہے پاکستان- شویندر کمار اور دنیا کو خوب دیکھا - پروفیسر محسن عثمانی ندوی خاص طور سے قبل ذکر ہیں۔
 دو سو سینتالیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت تین سو پچاس روپے ہے، طباعت روشان پرنٹرس دہلی 6 کی ہے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاو ¿س ناشرہے، طباعت عمدہ اور ٹائٹل دیدہ زیب ہے، ڈیڑھ درجن سے زائد مکتبوں کے پتے درج ہیں، جہاں سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے ، آپ چاہیں تو 9182165095پر فون کرکے بلا واسطہ مصنف سے طلب کر سکتے ہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...