Powered By Blogger

جمعہ, مارچ 03, 2023

آزادی رائے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آزادی رائے  ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اردودنیانیوز۷۲ 
 ہندوستانی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں ان دنوں اظہار رائے کی آزادی پر کھل کر بحث ہو رہی ہے، عالمی تنظیم آر اف اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ہندوستانی پریس کی آزادی میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے، ایک امریکی صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں رییل جرنلزم (حقیقی صحافت) کا دور ختم ہو چکا ہے، امریکی صحافی کا یہ قول حقیقت سے انتہائی قریب ہے، ہندوستان میں آج میڈیا بکا ہوا ہے، اور بیش تر قابل ذکر صحافی کی ایک قیمت سیاسی پارٹیوں نے لگا رکھی ہے، پرنٹ میڈیا کے مالکان کی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی، نظریات اور رجحانات سے ہے، اس صورت حال میں قلم وہ نہیں لکھتا جو اسے لکھنا چاہیے، بلکہ وہ لکھتا ہے جو اس سے لکھوایا جاتا ہے، ایسے میں اظہار رائے کی آزادی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، ماضی قریب میں جن صحافیوں نے اپنی بولی نہیں لگنے دیا انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے، شجاعت بخاری، گوری لنکیش، نریندر دابھولکر، ڈاکٹر ایم ایک کلبرگی اور ڈاکٹر پنسارے بک نہیں سکے تو انہیں دوسری دنیا کی راہ دکھا دی گئی ہے، پرسون واجپئی، سمن واجپی، اکارپٹیل، ابھیشار اور رویش کمار جیسے چند صحافیوں پر سوشل میڈیا ذاتی حملے اور کردار کشی کرتا رہا ہے، رویش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑ دینا پڑا،اور جس طرح ان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے اس میں کیا بعید ہے کہ کسی دن ”بانگ آید کہ فلاں نہ ماند“
یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ میڈیا یہاں پرغیر ذمہ دارانہ انداز میں کام کرتا رہا ہے، کبھی اس نے اظہار رائے کی آزادی کے نام مذہبی مسلمات اور اقدار پر حملے کیے اور کبھی وہ حکومت کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا رہا، اب صحافت میں غیر جانب دارانہ نظریات اور حقائق کی پیش کش کی بات عنقا ہے، حالاں کہ ہم تو غیر جانب دار ہونے کو بھی صحیح نہیں سمجھتے، ہمارا نعرہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم غیر جانب دار نہیں حق کے طرف دار ہیں، البتہ حق کی تعیین پر وپیگنڈے، نعرے بازی اور جملے اچھالنے سے نہیں، انتہائی گہرائی اور گیرائی، پس وپیش حقائق ومشاہدات کی روشنی میں کرنا چاہیے، ورنہ کوئی بھی صحافی بڑی آسانی سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم فلاں پارٹی کی حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ اسے حق سمجھتے ہیں، اسے حق سمجھنے کی ان بنیادوں پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے، جس کی وجہ سے وہ اسے حق سمجھتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب صرف مودی اوریوگی حکومت میں ہو رہا ہے، بنگال کی ممتا بنرجی بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں، ممتا کی پہلی حکومت میں ایک کارٹون بنا کر پوسٹ کرنے پر شانتی نکیتن کے ایک پروفیسر کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ضمانت پر رہائی کے بعد گھر میں گھس کر ممتا کے چاہنے والوں نے اس کی جم کر پٹائی کی تھی، لوک سبھا چناؤ کے موقع سے ممتا کے ایک کارٹون بنانے والے کوپولس نے گرفتار کر لیا تھا، بڑی مشکل سے ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی، اڈیشہ اور تمل ناڈو کی حکومتیں بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں۔
 ملک سے باہر نکلیں تو برما، پاکستان اور اسرائیل سے صحافیوں پر ظلم وجور کی خبریں آتی رہی ہیں، ان حالات میں صحافیوں کا دم خم کمزور پڑتا جا رہا ہے، اور وہ لوگ جو ظلم وجبر کے خلاف سینہ سپر ہوجایا کرتے تھے اور قلم کی ساری سیاہی استعمال کر لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، پرکھادت، ساگر یکا، گھوش، سوامی ناتھن، جیسے صحافی اور مضمون نگار کے الفاظ، جملے اور تعبیرات میں اب وہ دھار نہیں ہے جس سے باطل کے ایوان میں لرزہ طاری ہوتا تھا، اور آپ خوب جانتے ہیں کہ دھار ایک بار کند ہو گئی تو اس کا صیقل کرناآسان نہیں ہوتا، ایسے میں دو طرفہ محاسبہ کی ضرورت ہے،حکومت اور ان کے کارندوں کو میڈیا کے تئیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون پابند سلاسل سیم وزر ہو گیا تو اس کی اہمیت وافادیت ہی نہیں، قدر وقیمت بھی ختم ہو جائے گی اور جب بھی ان سلاسل سے نکلنے کی کوشش کی جائے گی صحافی حضرات کو سخت آزمائش سے گذرنا ہوگا، کبھی آزمائش کا یہ سلسلہ جسم وجان تک پہونچے گا اور کبھی اس کا اختتام ابدی نیند پر بھی ہو سکتا ہے۔

محمد اشرف علی بن محمد شکیل نے ایک بیٹھک میں مکمل قرآن مجید حفظ سنایا

محمد اشرف علی بن محمد شکیل نے ایک بیٹھک میں مکمل قرآن مجید حفظ سنایا 
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 3/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی) 

جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں ہمارے ایک شاگرد محمد اشرف علی بن محمد شکیل ساکن اروا بچھواڑا ضلع بیگو سرائے بہار نے ایک بیٹھک میں قرآن مجید زبانی سنایا ۔واضح رہے کہ محمد اشرف مورخہ 2 مارچ رات 1/بجے سے قرآن مجید دو اساتذۂ کرام اور دو طالب علم کی نگرانی میں سنانا شروع کیا اور 2/مارچ تقریباً صبح 9/بجے مکمل قرآن مجید سنا ڈالا ، قرآن مجید جن اساتذہ کرام اور طالب علم کی نگرانی میں سنایا ان میں محمد ضیاء العظیم قاسمی ،قاری واجد علی عرفانی، اور طالب علم میں یوسف، مہدی علی، علی شیر کا نام مذکور ہے، اس کارہائے نمایاں پر مدرسہ کے تمام اساتذہ وکارکنان نے محمد اشرف کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے دعائیں دیں، 
یقیناً قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ،یہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اوران میں سےکوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ قرآن مجید بھی تھی، ہے، اور ان شاء اللہ تا قیامت محفوظ رہے گی، ساتھ ساتھ اس کے معانی مفاہیم اور احکامات بھی محفوظ رہیں گے،  قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء، قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔اور اپنے مخصوص بندے کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں، قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔قرآن مجید وہ دریچہ ہے جس سے ہم اپنی ماضی، حال اور مستقبل تینوں بیک وقت دیکھ سکتے ہیں، اس کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔اس نےان کو دنیا کی عظیم ترین طاقت بنا دیا۔قرآن واحادیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ رسالت سے ارشاد فرمایا: «خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ» صحیح بخاری:5027) اور ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کےساتھ مشروط کیا ہے ۔ارشاد نبو ی ہے : «إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ»صحیح مسلم :817)تاریخ گواہ کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھااور اس پر عمل پیرا رہے تو وہ دنیا میں غالب اور سربلند رہے ۔ انہوں نے تین براعظموں پر حکومت کی اور دنیا کو اعلیٰ تہذیب وتمدن اور بہترین نظام ِ زندگی دیا ۔ اور جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(بیاد حاجی شفیع مرحوم منیر کالونی پھلواری شریف پٹنہ) یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جو شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں واقع ہے جہاں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں حفظ وناظرہ کے ساتھ ساتھ بنیادی عصری تعلیم کا بھی نظم ونسق ہے ،اس وقت مدرسہ میں تقریباً تیس طالب علم ہاسٹل میں ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے ۔

کچھ تبسم زیرِ لب * نئی ریسرچ رپورٹ * ٭ انس مسرورؔانصا ری

کچھ تبسم زیرِ لب

               * نئی ریسرچ رپورٹ *
   ٭ انس مسرورؔانصا ری 
اردودنیانیوز۷۲ 
امریکی پروفیسرپوپٹ لولی نے بھارت کاایک ریسرچ ٹورکیا۔وہ کافی دنوں تک یہاں رہے اورمختلف صوبوں اور شہروں کادورہ کرتے رہے۔اُنھوں نے اپنے تجربات ومشاہدات کوقلم بند کیا۔اس ریسرچ ٹورکے بعد جب وہ اپنے وطن امریکہ واپس پہنچے تو ایک پریس کانفرنس میں اخبارنویسوں کوبتایاکہ ‘‘میری انڈین ریسرچ رپورٹ کے مطابق انڈیامیں مذہبی ولسانی،بداخلاقی وخودغرضی،ذات پرستی وذاتی مفاخرت، تنگ نظری و منافرت، روحانی غروروگھمنڈاورفرقہ وارانہ فسادات کی ایک بڑی وجہ وہاں وٹامن اورپروٹین کی عام کمی ہے۔وہاں سیاسی لیڈرسکون و اطمینان،ٹھنڈے د ل ودما غ اورغوروفکرکے بجائےسرسام، بلڈپریشر،مالخیولیااورجنون کےامراض میں مبتلاپائےجاتےہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں عام شرح پیدائش کے مقابلہ میں لیڈروں کی پیداوارحیران کن بلکہ تباہ کن حدتک زیادہ ہے۔ مجھے انڈیاکی عام آبادی بڑھنے سے اتنی تشویش نہیں ہے جتنی تشویش لیڈروں کی کثرتِ پیدائش پرہے۔غورطلب ہے کہ جب ساری پبلک نیتاہوجائے گی تو انڈیابناپبلک کےہوجا ئے گا۔پھراس ملک کاکیاہوگا۔؟وہاں کی حکومت کوچاہئے کہ فیملی پلاننگ منصوبہ بندی سے زیادہ نیتابندمنصوبہ بندی کے متعلق یوجنابنائے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ انڈین پارلیامنٹ میں جلسہ کےدوران ممبر آرام سے سوسکتاہےمگرخرّاٹےنہیں لےسکتا۔یعنی باآواز بلندنہیں سوسکتاتاکہ دوسرے ممبرانِ پارلیامنٹ کی نیندوں میں خلل نہ پڑنے پائے۔اس پارلیمانی اُصول پرسختی کے ساتھ عمل کیاجاتاہے۔دوسرے اُصولوں پرکوئی پابندی نہیں،انہیں باربارتوڑااورجوڑاجاسکتاہے۔انڈیامیں اُصول بناتےوقت بہت کچھ نہیں سوچاجاتا۔طرح طرح کے نئے نئے اُصول بنانا وہاں کے لوگوں کی بڑی ہابی ہے۔اُصولوں پرعمل کرناضروری نہیں ہے،لیکن مذکورہ پارلیمنٹری اُصول پرسختی سے عمل کیاجاتا ہے۔اگر ایسانہ کیاجائے توکئی بار ملکی مسائل پرتبادلۂ خیال کے بجائے جوتے،چپّل ،مہذب گالی گلوج ،مرغی کے کچےانڈوں، ٹماٹروں، کرسیوں اورمیزوں سے مائیک اکھاڑکرآپس میں تبادلے ہونے لگتے ہیں اوریہ سب کچھ جلسہ کےدوران ہوتاہے۔اس لیے بغیرآوازکے سونے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔اس قدرنازک ترین مسائل پروہاں کی حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔میں حیران ہوں کہ وہاں کانظامِ حکومت کس طرح چل رہاہے۔ 
وہاں میری ملاقات ڈاکٹرطوطارام سے بھی ہوئی۔وہ پہلے امریکہ کے ایک ہسپتال میں جانوروں کے ڈاکٹرتھے۔ پھرجب اپنے وطن انڈیاواپس گئے تو اپناایک ذاتی نرسنگ ہوم کھول لیااورجانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کابھی علاج کرنے لگے،اوربہت کامیاب ہیں۔انڈیامیں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی قدرومنزلت ہے۔وہاں جانوروں کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور ان کے لیے سرکاری بجٹ میں ایک بڑی رقم مختص کی جاتی ہے۔پھر اس رقم کا اسی فیصد نیتاؤں کی جیب میں چلاجاتا ہے جس سےانسانوں کوبے رحمی کے ساتھ قتل کرنےمیں بڑی مددملتی ہے۔ایک اور عجیب بات میں نے یہ دیکھی کہ وہاں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں آنے کے فوراََبعدکئی طرح کے ٹیکس اداکرناشروع کردیتاہے۔اس کاسبب یہ بتایاگیاکہ عام لیڈروں اورراج نیتاؤں کی خاطرخواہ پرورش وپرواخت اوران کے آرام وآسائش کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔وہاں کے صنعت کارعوامی ٹیکسوں کی جمع شدہ رقم لے کراکثرملک سے فرارہوجاتے ہیں اورحکومت کوئی نوٹس نہیں لیتی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انھیں بڑی فراخ دلی سے معاف کردیتی ہے۔وہاں کاہرنیتاکروڑ پتی اورعام آدمی غریب پتی ہے۔خوش حالی اوربدحالی دونوں باہم اس طرح دست و گریبان نظرآتے ہیں کہ من توشدم تومن شدی من تن شدم توجاں شدی کاگمان ہوتاہے۔وہاں کی پبلک بڑی بھولی بھالی ہے۔لوگ جان توڑ کرمحنت سےکماتے ہیں اورسرکاری نوکروں اورلیڈروں کوبڑے چاؤ سے کھلادیتے ہیں۔کبھی کبھی خودبھوکے رہ کرکھلاتے ہیں۔یہ عوامی ایثاروقربانی کسی اورملک کے لوگوں میں نظرنہیں آتی۔وہاں کی سب سے قیمتی چیز‘‘جواڑ’’ہے جوکسی دوسرے ملک میں نہیں پایاجاتا۔ہرکام جواڑسے ہوتاہے۔پی، ایم۔سی،ایم۔ڈی،ایم ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی ہروقت ‘‘جواڑ’’میں لگارہتاہے۔جواڑہی سے وہاں کی حکومت اورکرسیاں بدلتی ہیں۔جواڑنہ ہوتوکوئی کام نہیں ہوسکتا۔امریکہ کوچاہئے کہ انڈیاسے جواڑکاایگریمنٹ کرے اوراسے ہرقیمت پریہاں لائےتاکہ امریکہ کی ترقی میں جوکچھ کسرباقی رہ گئی ہووہ پوری ہوجائے۔امریکہ چاہے جتنابڑا ترقی یافتہ ملک ہومگر اس کے پاس جواڑنہیں ہے۔یہاں کی پبلک جواڑسے محروم ہے۔یہ کتنابڑاالمیہ ہے۔ 
بھار ت میں مسلمانوں کوسب سے بڑی اقلیت کادرجہ حاصل ہے مگر پچیس کروڑ کی تعداد والی یہ سب سے بڑی اقلیت سہمی ہوئی بھیڑبکریوں کےڈرے سہمےبھٹکے ہوئےریوڑ سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی ہے نہ اہمیت۔یہ قوم اس قدرانتشاراورذات پرستی کی لعنت میں مبتلاہے کہ اس کاکوئی متفّقہ قائدنہیں ہے اورنہ یہ کسی کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔اس قوم کاہرفردخوداپناقائد ہے۔ یہی سبب ہےکہ آزادی کے پچھتر۷۵/سال بعدبھی کسی صوبہ میں اپناایک چیف منسٹر تک نہیں بنا سکی۔یہ قوم حکمرانی کی تمام حکمتِ عملی بھول چکی ہے۔گداگری کی عادت پڑگئی ہے۔اس کے زوال کی انتہاتک نظرنہیں آتی۔اس قوم کے بہترین دماغ جوقوم کے لیے کچھ کرسکتے ہیں وہ شعروادب کی دنیامیں پناہ گزیں ہیں۔وہاں پہلے مشاعروں اورسیمیناروں میں دادوتحسین کے شورو غل سے مشاعرہ کے پنڈال کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں مگراب سامعین زبانوں کاکام ہاتھوں سے لینے لگے ہیں اورخوب تالیاں بجاتے ہیں۔اُن کی دیکھادیکھی حکومت تھالیاں بجوانےلگی۔جب انڈیامیں کروناکی وباعام ہوئی توحکومت کے حکم سے پبلک نے خوب تھالیاں بجائیں۔تھالیاں بجانے سےکروناویکسین کی کافی بڑی رقم پس انداز کی گئی۔بعدمیں وہ ساری جمع پونجی ایک گجراتی صنعت کارلے کرغیرملک فرار ہوگیا۔ 
بھارت کی سرزمین خانقاہوں اورآشرموں کے لیے بڑی زرخیزہے۔آبادی کا بہت بڑاحصہ ان سے وابستہ ہے جسے اہم ترین قومی وملکی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں۔وہاں میں ایسے لیڈروں سے بھی ملا جواسمبلی اورپارلیامنٹ میں بیٹھتے ہیں لیکن ٹھیک طرح سے اپنی سائن بھی نہیں بناپاتے ۔وہاں مذہب جیسے ذاتی معاملات پرحکومت نے آئین بنارکھاہے۔حکومت کی اجازت کے بغیرکوئی اپنادھرم نہیں بدل سکتا۔البتہ اقلیتی طبقہ کاکوئی فرداپنامذہب بدلناچاہے توکوئی ہرج نہیں۔وہاں ایک ملک،ایک قانون اورایک راج کے بجائے کئی قانون اورکئی راج کارواج ہے۔ اِن دنوں وہاں‘‘بلڈوزرکی بڑی دھوم دھام ہے۔یہ مشین صوبائی حکومتوں کا دل چسپ مشغلہ بن گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ مکین اپنامکان خالی کریں،یہ انھیں زمیں بوس کردیتی ہے۔حکمراں طبقہ میں بلڈوزراتنامقبول ہے کہ ایک صوبہ کے چیف منسٹرکوبلڈوزرباباکہاجانے لگااوروہ اپنے اس نئے نام سے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔بلڈوزروہاں کاایک سیکولرمشن بن گیاہے۔اس سے عالی شان عمارتیں،بڑی بڑی بلڈنگیں،مسجد،مندر،تاریخی عمارتیں کچھ بھی محفوظ نہیں ۔حکومتیں بڑے فخرکے ساتھ بلڈوزرچلواتی ہیں۔اس یوجناسے وہاں کی جنتا ہرچندکہ بہت پریشان ہے مگرحکمراں طبقہ خوش ہے۔چونکہ بلڈوزرباباکاسربالوں سے محروم ہے،اس لیےکسی دادوفریادپران کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگ پاتی۔وہاں کے لیڈروں میں ایک کہاوت بہت مشہور ہےاور بہت مقبول بھی۔!‘‘اپناکام بنتا،بھاڑمیں جائے جنتا۔’’اس کہاوت پربڑی ایمانداری سے عمل کیاجاتاہے۔اسی طرح کے اوربھی کئی اُصول ہیں جن کی پابندی بڑے خلوصِ دل سے کی جاتی ہے۔ وہاں کاپارلیمنٹری سسٹم ایساہے کہ اُن پرزیادہ غوروفکر سے سرسامی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ کبھی بلڈپریشر چڑھ جاتاہے اور کبھی ڈاؤن ہوجاتاہے۔انڈیاکےعجائبات 
 بہت زیادہ ہیں جوایک میٹنگ میں بیان نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے ٹاٹا۔۔۔۔ پھر ملیں گے۔
                                                        ٭٭ 
    انس مسرورؔانصاری 
 
      قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن 
   سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

جمعرات, مارچ 02, 2023

حکمت عملی ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حکمت عملی  ____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ایمانی واسلامی زندگی مسلمانوں کے لیے مطلوب ومقصود، شریعت کے احکام ومسائل منصوص اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے تفصیلی ہدایات اور طریقۂ کار قرآن واحادیث میں مذکور ہیں، ہماری زندگی اسی کے مطابق گذرنی چاہیے، ان معاملات میں مذاہب یا حکومت کی دخل اندازی کسی بھی درجہ میں مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے اور پوری استطاعت کے ساتھ اس دخل اندازی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر تیاری ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔
یہ دخل اندازی کس طرح روکی جا سکتی ہے، اس کا تعلق بڑی حد تک حکمت عملی سے ہے اور حکمت عملی زمان ومکان کے فرق سے الگ الگ ہو سکتی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات بدر، احد، خندق، حنین وغیرہ میں باطل طاقتوں سے مقابلے کے لیے الگ الگ  حکمت عملی اختیار کی، کبھی شہر سے باہرجا کر مقابلہ کیا گیا اور کبھی شہر کے قریب خندق کھود کر دفاعی قوت مضبوط   کی گئی، بعض کے معاملہ میں فدیہ لے کر رہائی کا فیصلہ کیا گیا اور بعض کو تعلیم وتدریس کی خدمت لے کر چھوڑا گیا، اسی طرح اسلام دشمن طاقتوں سے سمجھوتے میں بھی ساری کفریہ طاقت کو مذہب اسلام سے دور ہونے کی وجہ سے ملت واحدۃ نہیں قرار دیا گیا، حالاں کہ حقیقتا الکفر ملۃ واحدۃ ہی کہا گیا ہے، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی یہ اختیار کی کہ ہر قبیلے سے الگ الگ معاہدہ کیا؛ تاکہ ان کو اپنی اکثریت اور کفر کے  ملۃ واحدۃ ہونے کی وجہ سے بر تری کا احساس نہ ہو، اسی طرح خلیفہ کے انتخاب کے معاملہ کو دیکھیں، ہلکے قسم کے اشارہ کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کا اعلان خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے نہیں کیا، جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر ؓ کے نام کا اعلان فرمادیا، حضرت عمر ؓ کا معاملہ اس سے مختلف رہا، انہوں نے چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کرلے، یہ تاریخی واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ احکام منصوص ہیں، عبادت، معاملات وغیرہ کا طریقہ متعین ہے، لیکن حکمت عملی کے اختیار کرنے میں جو شر عی طور پر کسی احکام سے متصادم اور کسی منکراور گناہ میں پڑنے کا سبب نہ بنے یک گونہ حالات وزمانہ کی رعایت کا اس میں دخل ہے۔
 اس وقت پورے ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمانوں پر کشادگی کے باوجود زمین کے تنگ کرنے اور زندگی دشوار کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، جس طرح بے گناہوں کا خون، گائے کے تحفظ، لو جہاد، ہجومی تشدد کے نام پر بہایا جا رہا ہے اور حکومت نے جس طرح عدالت اور پارلیامنٹ کا سہارا لے کر شرعی احکام میں مداخلت کی ٹھان رکھی ہے نیز اسلامی ایمانی زندگی گذارنے سے قانون اور عدالت کے ذریعہ جبراً روکا جا رہا ہے، دستور میں دیئے گیے اقلیتوں کے حقوق و مراعات کی جس طرح اَن دیکھی کی جا رہی ہے اور جس طرح دستور کی آ برو سے کھیلا جا رہا ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مضبوط اور منظم حکمت عملی کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کی جائے او رسرکار کو بتادیا جائے کہ مسلمان اس ملک سے محبت کرتے ہیں، اس ملک کی سا  لمیت بقاء اوریہاں کی جمہوری اور دستوری قدروں کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں، اور آج بھی ملک کے دستور اور جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے آگے ا ٓنے کوتیارہیں اور یہ سب کچھ ہم ہندوستانی دستور وقوانین پر عمل کرتے ہوئے کر سکتے ہیں، ہم قانون کی خلاف ورزی او رفرقہ پرستوں کی طرح لا قانونیت برپا کرکے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔

بدھ, مارچ 01, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 1/مارچ 2023 (پریس ریلیز :ڈاکٹر صالحہ صدیقی)
مولانا محمد عظیم الدین رحمانی مدرس مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ ایک معروف ومشہور ومقبول عالم دین ہیں، جو تقریباً 38/سالوں سے جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں امامت کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں، اور 40/سال طویل مدت سے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ میں تدریسی فریضہ انجام دینے کے بعد مورخہ 28/فروری 2023 کو سبکدوش ہوئے ،اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے زیر صدارت عمل میں آیا، جس میں مولانا کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا ۔  مولانا موصوف کی شخصیت ہر عام خاص کے لئے ایک اہمیت کا حامل ہے ، مولانا موصوف کا آبائی وطن جوگبنی ارریہ بہار ہے، آپ بہار کے مشہور ومعروف ادارہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر سے فارغ عالم دین ہیں، آپ کی تقرری بہار مدرسہ بورڈ پٹنہ کے تحت مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ میں بحیثیت معلم یکم اکتوبر 1983 میں ہوئی تھی، اس کے بعد  آپ  مستقل شہر عظیم آباد میں سکونت اختیار کرتے ہوئے اپنی خدمات انجام دی، آپ کو عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہے ۔آپ کے سبکدوشی کی خبر ملتے ہی ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن واسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ڈاکٹر صالحہ صدیقی ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری تشریف لاکر ان کے اعزاز میں ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا۔
جس میں مدرسہ کے طلبہ سمیت کئ اہم شخصیات موجود رہے ۔
اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہیں کہ مولانا محترم ہمارے لئے ایک والد کی حیثیت رکھتے ہیں، انہوں نے جو محبتیں، شفقتیں مجھے دی ہیں میں تاعمر قرض مند رہوں گی، مولانا موصوف زہد و تقوی کے پیکر ہیں، اور یہ سید مولانا محمد منت اللہ رحمانی سید مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃاللہ علیہما کے شاگردوں میں سے ہیں،یقیناً یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ نے اپنی ملازمت کے سفر کو ایک ذمہ داری سے ادا کی، ملازمین کے لئے دور ملازمت میں بہت سے نشیب فراز آتے ہیں، بہت سی باتیں برداشت کرتے ہوئے نظر انداز کرنی پڑتی ہے،میں اپنی جانب اور فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں مبارکباد پیش کرتی ہوں، موصوف محترم ضیائے حق فاؤنڈیشن کے  رکن ہیں، ہمیشہ فاؤنڈیشن کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں ،مجھے جیسے ہی خبر ملی کہ آج آپ سبکدوش ہو رہے ہیں میری بیچینی اور تڑپ بڑھ گئی، اگر میں آپ سے ملنے پٹنہ نہ آتی تو شاید میں مزید پریشان ہوتی ۔یقیناً محبت پر کسی کا زور نہیں ہے، محبت پر ہی ہمارا وجود ہے ،ہم سب کو اللہ رب العزت نے آداب محبت سکھا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ہے ۔ مجھے یہاں آکر جو محبتیں جو شفقتیں ملی ہیں وہ میں کبھی نہیں بھول سکتی ہوں، 
محمد ضیاء العظیم قاسمی نے بھی تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ مولانا موصوف کی شخصیت اور خدمات ہم سب کے لئے لائحۂ عمل ہے، ہمیں چاہیے کہ نیکوں کے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں،
واجد علی عرفانی نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً آپ کی زندگی ہم سب کے لئے دعوت فکر وعمل ہے، آپ نے کبھی اپنے اصول وضوابط کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے مانند ہے، مدرسہ بورڈ میں رہ کر شفافیت سے کام کرنا یقیناً بڑا مجاہدہ ہے، موصوف محترم نے ہم سب کو بڑا پیغام دیا۔
آخر میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے سبھوں کا شکریہ ادا کیا ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ان کی فہرست اس طرح ہے سجاد ،یوسف، مہدی علی، افضل، اعجاز، عفان، حماد، عفیفہ، فاطمہ خان، عبدالواجد وغیرہ ہیں ۔
 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

منگل, فروری 28, 2023

بِکتا انسان ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بِکتا انسان ___
urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اللہ رب العزت نے انسان وجنات کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا اور واضح طور پر قرآن کریم میں تخلیق انسانی کے اس مقصدکو بیان بھی کر دیا، آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ پوری دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے، اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گیے ہو، مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بندگی، حسن کارکردگی سے اپنی آخرت بنا سکو، او ردنیا جسے آخرت کی کھیتی سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کھیتی میں اعمال حسنہ کی ایسی فصل اُگاؤ کہ جنت کے حسین مکانوں کے مکین بننے کی اہلیت وصلاحیت تم میں پیدا ہوجائے۔
 کچھ دنوں تک یہ دنیا اسی رخ پر چلتی رہی، پھر ہمارے ذہن ودماغ اعمال وکردار پر مادیت کا غلبہ ہو گیا، نفع نقصان کا معیار اخلاق وکردار کے بجائے جائز ونا جائز طور پر مال ودولت کا حصول بن گیا، چنانچہ بیش تر لوگوں کے نزدیک یہ دنیا آخرت کی کھیتی کے بجائے ایک بازار بن گئی، ایسا بازار جس میں سب کچھ بکتا ہے، یہاں احساسات وخیالات مشاہدات وتجربات، جذبات وکمالات سب بک رہے ہیں، حقوق بک جاتے ہیں، پڑوس بک جاتا ہے، پوزیشن بک جاتی ہے، ماں کا رحم اور انسان کا جسم بک جاتا ہے، تلک جہیز کی رسم، کرائے کی کوکھ، طوائفوں کے کوٹھے اور چکلے یہ سب منڈیاں ہی تو ہیں، اور اب دنیا اس قدر گر چُکی ہے کہ اسے انسانوں کی خرید وفروخت میں بھی کوئی عار اور شرم نہیں ہے۔
 آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں اقوام متحدہ کا ایک ذیلی دفتر ہے، جس کا کام منشیات اور جرائم کی روک تھام کے لیے کوشش کرنا ہے، اس کا مختصر نام UNODCہے، اس نے انسانی تجارت کے کئی سالوں کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں، اس کے مطابق 2016ء میں 25/ ہزار افراد انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہ کے ہتھے چڑھ گیے اور ان کی خرید وفروخت مکمل ہو گئی، دنیا کے ایسے پینتالیس ممالک جو اس قسم کے اعداد وشمار جاری کرتے ہیں، ان کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تجارت کے اس کام میں 2011ء سے 2016ء تک 39فی صد کا اضافہ ہوا، جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے ادارہ بی کے اے (BKA)کے سروے کے مطابق صرف جرمنی میں 2017ء میں 671 /افراد کی انسانی تجارت کی گئی جو 2015ء کے مقابلے 25/فی صد زیادہ تھی۔
 انسانوں کی اس تجارت میں مال ومتاع کے طور پر فروخت کی جانے والی 60/ فی صد خواتین یا بچیاں ہوتی ہیں، جن کا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنسی استحصال کیا جاتا ہے، ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے، بقیہ چالیس فیصد نا بالغ لڑکے، مہاجرین اور تارکین وطن یا غربت وافلاس کے مارے لوگ ہوتے ہیں، جن کو مختلف کاموں میں استعمال کیا جا تاہے۔ چھوٹے بچے کو جنسی تلذذ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بڑے لوگوں کے اعضاء فروخت کردیے جاتے ہیں، ان سے غلاموں کے انداز میں کام لیا جاتا ہے، جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو ہاتھ پاؤں سے مفلوج بنا کر گدا گری کے پیشے سے لگا دیا جاتا ہے،اور بِکنے والے انسان کی پوری زندگی عذاب بن جاتی ہے اب وہ چاہ کر بھی راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔
 اسلام کے نزدیک اس قسم کی تجارت کی قطعا گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ اسلام کی نظر میں انسان معظم ومکرم ہے، اللہ رب العزت نے اسے دوسرے تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے، وہ خلقی اعتبار سے بھی حسین صورت، معتدل جسم ومزاج اور متوازن قد وقامت کی وجہ سے دوسری تمام مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، عقل وشعور، نطق وگویائی اس پر مستزاد ہے، اس کی غذا بھی دوسروں سے الگ مرکبات سے تیار ہوتی ہے، جب کہ دوسری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت نہیں دی ہے، وہ بے زبان ہے، اور اپنی غذا خود تیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتا، شہوات وخواہشات تمام حیوانات میں ہیں، لیکن عقل وشعور کے ذریعہ اسے قابو میں رکھنا صرف انسان ہی کے بس کا ہے، اس لیے وہ سامان تجارت نہیں بن سکتا؛ بلکہ اس کے کسی جز، خون، چمڑا، بال، ہڈی، گوشت کی تجارت نہیں کی جا سکتی، چہ جائے کہ پورے انسان کی تجارت کی جائے، یہ حکم زندہ، مردہ سب کے لیے ہے، وہ جس طرح زندگی میں قابل اکرام واحترام ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی محترم ہے، اسی لیے اس کے ساتھ کوئی ایسا کام نہیں کیاجا سکتا جو زندوں کے ساتھ ہم نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ اس تجارت کو روکنا بہت ضروری ہے، تاکہ انسانی اکرام واحترام کو باقی رکھا جا سکے۔

مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ سے سبکدوشی پر تقریب کا انعقاد

مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ سے سبکدوشی پر تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
سمن پورہ پٹنہ مورخہ 28/فروری 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ کے سینئر استاذ وامام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی تقریباً 40/سالہ طویل مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد آج سبکدوش ہوئے۔
واضح رہے کہ یکم اکتوبر 1983 میں مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ میں آپ کی تقرری ہوئی تھی اور 28/فروری 2023 میں آپ سبکدوش ہوئے ۔
اس موقع پر مدرسہ اسلامیہ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت سابق استاذ مدرسہ اسلامیہ ماسٹر جمال صاحب نے کی، نظامت کا فریضہ مولانا مشتاق عالم سلفی سابق صدر مدرس مدرسہ اسلامیہ نے انجام دی،
تقریب کا آغاز مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی نے قرآن مجید کی تلاوت سے کی، نعت شریف حافظ شارق خان صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد مدرسہ کے دیگر اساتذہ وکارکنان نے اپنے تاثرات سے نوازا، مولانا مشتاق عالم سلفی نے مدرسہ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ کی تاریخ ایک عظیم تاریخ ہے، یہاں سے علم وادب کا چشمہ پھوٹتا ہے، اس ادارہ کی بنیاد اخلاص پر ہے یہی وجہ رہی کہ یہاں سے طلبہ وطالبات نکل کر ملک بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں، میری اور مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کی تقرری ایک ساتھ ہوئی تھی، مولانا محترم نے دوران ملازمت بہت خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی تدریسی فریضہ کو انجام دیا،سماجی کارکن ممبر مدرسہ اسلامیہ وصی احمد خان  نے اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ مدرسہ اسلامیہ کو مولانا محترم نے بہت کچھ دیا، یہاں تعلیمی معیار بہت عروج پر پہنچی، مولانا موصوف نے ہمیشہ تعلیم وتربیت پر دیگر چیز کو ترجیح نہیں دی ، تعلیمی ترقی کے لئے ہر محاذ پر آپ نے بھر پور تعاون پیش کیا ۔مدرسہ اسلامیہ کے صدر نیاز خان نے بڑے رنج وغم اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، مولانا نے مدرسہ کے تئیں جو جذبہ، محبت، ایثار پیش کی ہے اس کی نذیر نہیں ہے،ہم سب اہل مدرسہ انہیں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں عافیت والی زندگی عطا فرمائے ۔ماسٹر جمال سابق مدرس نے بھی اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ 
اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔مولانا موصوف نے اپنی تدریسی فریضہ بڑے جوش وخروش اور ایمانداری کے ساتھ انجام دی ہے، 
اہم رکن مدرسہ مانو خان نے بھی تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں، مولانا بظاہر تو سبکدوش ہو رہے ہیں لیکن وہ ہم سب کے دلوں میں ہمیشہ موجود محفوظ رہیں گے، سامو خان سکریٹری مدرسہ اسلامیہ اس قدر جذباتی ہو گئے کہ زبان سے کچھ نہ کہ سکے، گویا زبان حال سے کہ رہے ہوں کہ مولانا محترم کا یہاں سے جانا یہ صدمہ ناقابل برداشت ہے، آخر میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے سبھوں کا شکریہ ادا کیا، ماسٹر خالد مدرس انچارج مدرسہ ہذا، ومولانا نصر الدين قاسمی نے مہمانوں کی بھر پور ضیافت کی، بہترین نظم ونسق کے ساتھ ناشتہ کا انتظام وانصرام کیا ۔ نگار شمس معلمہ مدرسہ ہذا نے بھی بڑے دکھ رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محترم ہمارے سرپرست کی مانند ہیں، ان کا یہاں سے سبکدوش ہونا یقیناً ہم سب کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے ۔
یقیناً تعلیم ایک ذریعہ ہے،اس کا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِمۚ…. ﴾ (سورة البقرة: ١٢٩)اور نبی ﷺ ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں‘‘۔اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں لوگ شامل تھے سبھوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کو مبارکبادی دی،
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں کا اہم رول رہا ہے ان کی فہرست اس طرح ہے، ماسٹر خالد خان، مولانا نصیرالدین قاسمی، حافظ شارق خان، حافظ عمران، وغیرہ کا نام مذکور ہے،
آخر میں صدر محترم کی دعا پر تقریب کا اختتام کیا گیا،

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...