Powered By Blogger

اتوار, مارچ 19, 2023

رمضان المبارک کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں۔محمد ضیاء العظیم قاسمی ،پھلواری شریف پٹنہ

رمضان المبارک کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں۔
Urduduniyanews72
محمد ضیاء العظیم قاسمی ،پھلواری شریف پٹنہ 
موبائل نمبر 7909098319 

اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزہ فرض کیا ہے ۔اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں ۔کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئ اہم تاریخ رکھتا ہے اور سب سے بڑی تاریخ وفضیلت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ
ترجمہ : رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
ترجمہ:
اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی (پرہیز گار) بن جاؤ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا اور دنیا کی تمام چیزیں اس کے تابع کیا ہے ،انسان اگر اپنا تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرے تو اسے اس بات کا اندازہ ہوگا کہ خداوند قدوس نے اس کی تخلیق کیوں فرمائ ہے تو اسے واضح طور پر یہ معلوم ہوگا کہ اللہ رب العزت نےانسانوں سے بندگی کا تقاضہ فرماتے ہیں تاکہ انسان کو بڑے انعامات واکرامات سے نواز کر اسے اعزازات بخشے، یقیناً اللہ کی ذات انسانوں پر بے پناہ احسانات فرمائے ہیں، انسانوں کے تابع دنیا کے دیگر خلائق کو بنایا، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرمائ، اس کی بناوٹ اور تخلیقی اعتبار سے دنیا کو پیدا فرمایا، انسانوں کے جذبات واحساسات کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے اسے آداب زندگی بندگی سکھائی ۔انسانوں کے اوپر کوئی ایسے احکامات پابندیاں عائد نہیں فرمائی جس کا انسان متحمل نہ ہو، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,,, لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعها،،، کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ احکامات نازل نہیں کئے گئے ہیں ۔
اللہ رب العزت کا شکر واحسان ہے کہ اس نے انسانوں پر نعمتوں کے انبار لگا دیئے ہیں جس کا شمار انسان کرہی نہیں سکتا،،، وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا،،، اگر اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار کر ہی نہیں سکتے، 
,, فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ،، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، 
انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت رمضان المبارک بھی ہے، 
یہ ماہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے  لحاظ سے  دیگر مہینوں سے   ممتاز  ہے ۔
ماہ رمضان المبارک کے روزے سے انسان کے اندر تقوی اور خوف الہی پیدا ہو، تقوی اور خوف خدا نام ہی ہے اللہ کے بنائے ہوئے قوانین واحکامات کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا، اور قوانین الہی یہ فطری قوانین ہے، اسی میں انسانی فلاح وترقی ہے، اور یہی تقاضۂ بندگی اور مقاصد زندگی ہے ۔
ماہ رمضان میں  اللہ تعالی  جنت  کے دروازے کھول  دیتا ہے  او رجہنم   کے دروازے  بند کردیتا ہے  اور شیطان  کوجکڑ دیتا ہے تاکہ  وہ  اللہ کے بندے کو اس طرح گمراہ  نہ کرسکے  جس  طرح عام دنوں میں کرتا  ہے، اور یہ ایک ایسا  مہینہ ہے  جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے  بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور  سب  سے زیاد ہ  اپنے بندوں کو  جہنم  سے آزادی کا انعام  عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے  روزے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے  نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی  جانے والی عبادات  ( روزہ ،قیام  ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت  لیلۃ القدر وغیرہ )کی  بڑی فضیلت بیان کی   ہے ۔روزہ کی دوسرے فرائض سے  یک گونہ فضیلت کا ندازہ اللہ تعالٰی کےاس فرمان ہوتا ہے’’ الصیام لی وانا اجزء بہ‘‘ یعنی روزہ خالص میرے  لیے  ہےاور میں خود ہی اس بدلہ دوں گا۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں کو کبھی پریشانیوں دشواریوں میں نہیں ڈالتے، بلکہ اس کے لئے سہولیات فراہم کرتے ہیں,, یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سہولت آسانی چاہتے ہیں تمہیں دشواریوں میں نہیں ڈالتے ہیں، رمضان المبارک کے روزے بظاہر تو دشوار نظر آتے ہیں کیوں کہ انسان بھوکے پیاسے رہ کر ایک ماہ گزارتا ہے مگر اس کے نتائج ہر محاذ پر بہتر ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے"صوموا تصحوا" روزہ رکھو صحت مند رہو گے، انسان پورے سال کھاتا پیتا ہے لیکن ایک ماہ بھوکے رہنے سے جسمانی توانائی گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے، شرعی لحاظ سے ہو یا طبی لحاذ سے نتائج مثبت ہی ہیں اس کے۔
روزہ کے ذریعہ تحمل برداشت، صبر، شکر خداوندی ،تقاضۂ بندگی ،سلیقۂ زندگی، یہ تمام اوصاف پیدا ہوتے ہیں، روزہ داروں کے لئے بہت سی خوشخبریاں نص قرآنی وأحاديث میں وارد ہو چکے ہیں، اسی طرح اس کا اکرام احترام نہ کرنے والوں کے سلسلے میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں،
رمضان المبارک ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ ہم احکامات خداوندی کو ہرگز نہ توڑیں ،اس کے پیغامات اس کے احکامات، اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ سمجھیں، رمضان المبارک کا مہینہ اللہ رب العزت کو راضی کرنے کا بڑا باوثوق ذریعہ ہے،
رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب میں آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ
القدر، 97 : 3
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، 

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.

بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3 : 1194، رقم : 3103
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.

 بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہیں کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس ماہ کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
الحاصل رمضان المبارک کا یہی پیغام اور تقاضہ ہے کہ ہم صرف رمضان میں ہی اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے نہ کریں بلکہ جب تک ہماری زندگی کی ایک ایک سانس ہے وہ سب بندگی کے ساتھ چلے، کیوں کہ یہی باتیں اللہ نے انسانوں سے تقاضے کرتے ہوئے اس کی تخلیق فرمائ اور اسے ہر طرح کی نعمتوں سے آسودہ کیا ۔

اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفرمحمد ضیا ء العظیم (پھلواری شریف ،پٹنہ

اردو صحافت کا فن و ارتقائی سفر
Urduduniyanews72
محمد ضیا ء العظیم (پھلواری شریف ،پٹنہ)
موبائل نمبر 7909098319 

صحافت عربی زبان کا لفظ ہے ۔ جو لفظ صحیفہ سے مشتق ہے ۔ صحافت کا مترادف لفظ Journalism ہے ۔ جس کا ماخذ لاطینی لفظ Diumal ہے ۔ صحافت کو ابتداء ہی سے اطلاع رسانی کے ساتھ ساتھ معاشرتی بیداری کا سب سے موَثر وسیلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اردو صحافت کا جنم اردو شاعری کی طرح فارسی صحافت کی کوکھ سے ہوا ۔ ہندوستان میں فارسی زبان کے اخبارات مغل حکومت کے سنہری دور میں جاری ہوئے ۔ لیکن یہ فارسی اخبارات بھی فارسی شاعری کی طرح عام ہندوستانی معاشرے سے لاتعلق تھے فارسی اخبار تک صرف طبقہ اشرافیہ کی دسترس تھی ۔ علامہ عتیق صدیقی کی مشہور کتاب ’’فوزی‘‘کے حوالے سے گروبچن چندن نے اپنے ایک مضمون میں مغلیہ اخبار کے متعلق گفتگو کی ہے:

’’اورنگ زیب عالمگیر ر ح کے زمانے میں شاہی محل کے لیے روزانہ ایک اخبار شاءع کیا جاتا تھا ۔ یہ اخبار آج کی طرح چاندنی چوک میں آواز لگا کر بیچا نہیں جاتا تھا ۔ مزید ان کے پیش رومغل بادشاہوں کے وقت میں بھی ایک اخبار شاہی محل کے لیے جاری ہوتا تھا ۔ اور اسکی نقلیں دور دراز کے علاقوں کے امرا وغیرہ کو بھیجی جاتی تھیں ۔ مغل عہد کے کئی سو اخبارات لندن کے رائل ایشیا ٹک سوساءٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں ۔ ‘‘(اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد محمودو سرور الہدی ص ۱۶۴ ۔ )

صحافت کو سماجی تبدیلی کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اس کے رول کو اساسی سمجھا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آزادی وطن سے قبل کے متعدد سماجی مصلحتوں ،سیاسی لیڈروں ،مفکروں ،دانشوروں نے فرسودہ معاشرتی رسوم کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرنے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے اخبار و جرائدکو ہی وسیلہ بنایا اور اخبارات نکالے اور اسی کے ذریعہ صدائے حق بلند کیں ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں صحافت کا کردار تاریخی رہا ہے،یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صحافت نے آزادی دلانے میں بنیادی رول ادا کیا ۔ صحافت کی آزادی میں کی گئی خدمات کو دیکھتے ہوئے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہیں کہ اردو صحافت نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کی آزادی کا کو سورج دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ آزادی اور انقلاب کے جذبے کو بیدا ر کرنے میں اردو صحافت کا اہم رول رہا ہے ۔ ساتھ ہی اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں جوخدمات صحافت نے انجام دی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ آج کے عہد میں اردو زبان بہ ذریعہ صحافت عوام تک پہنچ رہی ہے او رسیع پیمانے پر خدمات انجام دے رہی ہے ۔

دنیا کے تمام فنون کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ،صحافت کا فن بھی ایسا ہی ہے ۔ انسان جب سے دنیا میں سماجی زندگی بسر کررہا ہے ۔ خبروں کی ترسیل بھی اسی عہد سے جاری ہے ۔ ابتدا میں انسانی معلومات کی ترسیل کا کیا معیار تھا یہ اس عہد کے مذہبی صحیفوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے ۔ جیسے جیسے انسان متمدن اور مہذب طرز معاشرت کی طرف بڑھتا رہا خبروں کی ترسیل کا مرحلہ بھی فنی لحاظ سے مستحکم بننے لگا ۔ اور دیگر علوم کی طرح اس کے بھی اپنے کچھ اصول و ضوابط تیار کیے گئے ۔ عہد جدید میں صحافت کو باقاعدہ ایک علمی فن تسلیم کیا گیا ہے ۔ آج زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ہے جس میں اس کا عمل دخل نہ ہو ۔ ماہرین صحافت نے اس فن کو جدید خطوط پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ہندوستان میں اس فن کو انگریزوں نے ترقی دی اور اسے کچھ قوانین کا پابند بھی بنایا ۔ حالانکہ آگے چل کر انگریزوں نے فن صحافت پر قدغن بھی لگائی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ بحیثیت فن صحافت اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا رہا ۔ اس ضمن میں محترم محمد شکیل و نادر علی خان ہندوستانی پریس کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جہاں لامتناہی نقصانات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ وہیں فنون طباعت و صحافت میں مفید اضافے بھی ہوئے چناچہ موجودہ صحافت کا سنگ بنیاد بھی اسی کا رہین منت ہے ۔ ‘‘ (اردو دنیا دسمبر ۲۰۱۵ ۔ ص ۔ ۲۱ ۔ )

اسی طرح صحافت کے سلسلے میں ذیل میں چند تعریفیں ملاحظہ فرمائیں ، جس سے صحافت کے ساتھ ساتھ اس کے فن کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ عبدالسلام خورشیدلکھتے ہیں :

’’صحیفے سے مراد مطبوعہ مواد ہے جو مقررہ وقفے کے بعد شاءع ہوتا ہے چنانچہ تمام اخبارات و رسائل صحیفے ہیں اور جولوگ اس کی ترتیب وتحسین اور تحریرسے وابستہ ہیں انھیں صحافی کہا جاتاہے اور ان کے پیشے کو صحافت کا نام دیا گیا ہے ۔ ‘‘(عبدالسلام خورشید ۔ فنِ صحافت، مکتبہ کاروان، لاہور)

اسی طرح ولیم ایل راءکرس لکھتا ہیں ’’عوام یا عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے ہر واقعہ کو خبر بنایا جا سکتاہے ۔ ‘‘

ویلم بروکس کے مطابق :’’جو واقعہ معمول سے ہٹ کر ہو وہ خبر ہے ۔ ‘‘جب کہ فریڈ مورس کے لفظوں میں ’’جو چیز ہماری زندگی کو فوراً متاثر کرنے والی یا اثر انداز ہونے والی ہو خبر ہے ۔ ‘‘

اسی طرح مشرقی مفکر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید صحافت کے ضمن میں لکھتے ہیں :

’’صحافت ایک عظیم مشن ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے ۔ عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو ۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے ۔ اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فراءض بھی سر انجام دیتی ہے ۔ عوام کی خدمت اس کا مقصد فرض ہے ۔ اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ‘‘(بحوالہ : ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ص ۴۴ )

ان تعریفوں میں بیان کردہ موضوعات کے علاوہ بھی جنسیات،تشدداور معاشیات سے جڑی بد عنوانیاں ،علمی،ادبی شخصیات،کھیل اور فلم کے فنکاروں سے متعلق معلومات اور بیداری مہم سے متعلق موادبھی خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ اس طرح خبر کی کوئی ایک جامع تعریف کرنی مشکل ہے ۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:

صحافت یا خبر وہ ہے جو عوام کی زندگی سے جڑی ہوئی حقیقتوں سے عوام کو روشناس کرائے، کسی بھی واقعے، حادثے،سانحے، تشدد، ارضی و سماوی آفات یا اس سے متعلق پیشین گوئیاں ، اقتصادی سرگرمیاں ،سیاسی نشیب وفرازاور تفریحی مشاغل وغیرہ خبر کے دائرے میں آتے ہیں ۔ فن صحافت کی تفہیم کے لیے چند رسومیات فن صحافت درج ہیں ۔ (۱)خبروں کی حصولیابی کے تمام طریقہء کار سے با خبری(۲) ذراءع ابلاغ سے رشتہ (۳)خبروں کی تفہیم پر دسترس (۴) الیکٹرانیک میڈیا کا شعور(۵) زبان و بیان پر گرفت(۶) صحافتی کو حق گو ہونا چاہیے،(۷) بے باک بھی ہونا چاہیے(۸)، صحافی کا شعور انتہائی مستحکم اور پائدار ہونا چاہیے،(۹)صحافتی فرقہ پرستی سے پاک ہو(۰۱) کسی بھی گروہ بندی کا شکار نہ ہو ۔ وغیرہ یہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی صحافی کو صحافت کے میدان میں سرفراز اور کامیاب بناتے ہیں ۔

ہندوستان میں اردو صحافت کا باضابطہ آغاز سن ۱۸۲۲ سے ہوا ۔ جام جہاں نما‘‘ اردو کا اولین مطبوعہ اخبار ہے ۔ جو ۲۷ مارچ ۱۸۲۲ کو کلکتہ سے جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی سداسکھ لعل اور مالک ہری ہر دت تھے ۔ یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا ۔ یہ اخبار فارسی ٹاءپ میں چھپتا تھا ۔ چوں کہ اْس وقت فارسی ٹاءپ کا ہی رواج تھا اس اخبار کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا اور اسکے ایڈیٹر اور مالک غیر مسلم تھے ۔ جدو جہد آزادی ۱۸۵۷ سے قبل ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد اردواخبارات جاری ہوچکے تھے ۔

اردو کے مشہور و معروف ادیب مولانامحمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے ۱۸۳۶ میں جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار اپنے عہد کی عکاسی کرتا تھا ۔ جدوجہد آزادی میں مولوی محمد باقر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو کے پہلے شہید صحافی کے طورپر آپک کوموسوم کیا جاتا ہے ۔ مولوی محمدباقر کا اپنا ایک چھاپا خانہ اور ایک بڑی لائبریری بھی تھی ۔ جو ۱۸۵۷ کی لڑائی میں تباہ ہوگئی ۔ لیکن ’’دلی اردو اخبار‘‘ نے ایک تاریخ ضرور ثبت کردی ۔ ہندستان کی تاریخ میں یہ عہد اردو اخبارات کا سنہرا دور بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس عہد میں ہندستان کے کونے کونے سے کئی اہم اخبارات و رسائل جاری ہوئے ،کئی اہم پریس کھلے جس کے سبب اردو زبان و ادب کو بھی فروغ ہوا،مثلا ۱۸۴۲ میں چنئی سے ’’جامع الاخبار‘‘ جاری ہوا ۔ اسے جنوبی ہند کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سید رحمت اللہ اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔ یہ اخبار اپنے عہد کا دلچسپ مرقع اور دل کش ترجمان تھا ۔ اسی طرح ایک اور اہم خبار ۱۸۴۵ میں دہلی کالج سے ہفت روزہ ’’قرآن السعدین‘‘ جاری ہوا ۔ اس کے پہلے ایڈیٹر پنڈت دھرم نارائن بھاسکر تھے جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے ۔ اس اخبار میں سائنسی،ادبی اور سیاسی مضامین شاءع ہوتے ۔ علمی افادیت اور اردو مضامین کے تنوع کے اعتبار سے ہندوستان کے ممتاز اخبارات میں شمار ہوتا تھا ۔ اسی طرح اتر پردیش لکھنوَ کا پہلا اخبار’’لکھنوَاخبار‘‘ کے نام سے۱۸۴۷ میں جاری ہوا،جس کے ایڈیٹر لال جی تھے ۔ ۱۸۵۶ میں لکھنءو سے کئی اخبار ات جاری ہوئے ۔ رجب علی بیگ سرور کے دوست مولوی محمد یعقوب انصاری نے ’’اخبار طلسم لکھنو‘‘ جاری کیا ۔ اس کے علاوہ امیر مینائی اور رگھوویر پرشاد نے’’سحر سامری‘‘ اور عبد اللہ نے’’مخزن الاخبار‘‘جاری کیا ۔ میرٹھ سے ’’جام جمشیدی‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر بابو شیو چندر ناتھ تھے ۔ اس سے قبل آگرہ سے ۱۸۴۶ میں ’’صدرالاخبار‘‘ جاری ہوا جسے آگرہ کا پہلا اردو اخبار تسلیم کیا جاتا ہے ۔ سن ۱۸۴۹ میں چنئی سے ایک اور اخبار ’’آفتاب عالم تاب‘‘ جاری ہوا ۔ اس کی خبروں کا حوالہ مشہور ریاضی داں ماسٹر رام چند ر کے اخبار ’’فوائد الناظرین‘‘ میں پایا جاتا ہے ۔ ۱۸۵۰ میں لاہور سے ’’کوہ نور‘‘ جاری ہوا ۔ اس اخبار کے ایڈیٹر منشی ہری سکھ رائے تھے ۔ ۱۸۶۶ میں ’’سائنٹفک سوساءٹی‘‘ کا اجرا عمل میں آیا ۔ جس کے روح رواں اور مرکز اور محور سرسید احمد خان تھے ۔ سن ۱۸۷۷ میں لکھنو سے ایک بڑا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ منظر عام پر آیا ۔ اسے منشی سجاد حسین نے ’’لندن پنچ‘‘ کے طرز پر جاری کیا تھا ۔ یہ اخبار ۳۵ برس تک جاری رہا ۔ اردو عربی اور فارسی کی کتابوں کی طباعت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے منشی نول کشور نے ۱۸۵۸ میں لکھنو سے ’’اودھ اخبار‘‘شروع کیا ۔ یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا پھر یہ سہ روزہ ہوا اور ۱۸۷۷ میں یہ اخبار روزنامہ ہوگیا ۔ اپنے دور کا اردو کا یہ بہت بڑا اخبار تھا ۔ یہ پہلا اردو اخبار تھا جس کے رپورٹرمختلف صوبوں کی راجدھانیوں میں نمائندے رہے ۔ اردو کے نامور ادیب و شاعر اس اخبار سے وابستہ تھے ۔ آج بھی اس اخبار کی تحریریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ یہ اخبار کئی معنوں میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے ،آج بھی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس اخبار کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

اردو صحافت کی تاریخ مولانا ابوالکلام آزاد کے ان اخبارات کے ذکر کے بنا ادھوری تسلیم کی جاتی ہے ۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ یہ تاریخ ساز اخبارات تھے ۔ سن ۱۹۰۱ میں شیخ عبدالقادر نے لاہور سے ’’مخزن‘‘ جاری کیا ۔ اردو کے مشہور و معروف شاعر حسرت موہانی نے سن ۱۹۰۳ میں ’’اردوئے معلی‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ ایک ادبی رسالہ تھا ۔ لیکن سیاسی موضوعات پر بھی اس میں مضامین شاءع ہوتے تھے ۔ سن ۱۹۰۸ میں خواتین کا رسالہ ’’عصمت‘‘دہلی سے جاری ہوا ۔ اس کے ایڈیٹر شیخ محمد اکرام اور پھر علامہ راشد الخیری رہے ۔ اردو کے ایک عظیم صحافی مولانا محمد علی جوہر نے ۱۹۱۲ میں دہلی سے ’’ہمدرد‘‘ اخبار جاری کیا ۔ یہ اخبار حکومت کا نکتہ چیں تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۱۵ میں یہ اخبار بند ہوگیا ۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد جاری ہوا ۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اخبارات جاری ہوئے ۔ لیکن ان کی اشاعت،مالی وسائل اور قارئین کی کمی کے باعث بند ہوگئے ۔ لیکن بعض اخبارات مختلف مسائل کے باوجود آج بھی جاری ہیں اور قابل تحسین خدمات انجا م دے رہے ہیں ۔ اردو اخبارات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے ۔ اردو صحافت نے معاشرے کو ایک خاص ڈگر پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج بھی کررہے ہیں ۔ جس کا اعتراف ہ میں کھلے دل سے کرنا چاہیے ۔ اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ حالانکہ آج کے عہد میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں ،پہلے جیسا ماحول نہیں رہا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اردو اخبارات بڑی تعداد میں آج بھی نکل رہے ہیں ،جن میں سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی موضوعات کے ساتھ ساتھ علمی وادبی ،مذہبی اور سنجیدہ موضوعات ہر بھی مضامین لکھے جارہے ہیں ۔ اردو صحافت کی تابناک تاریخ اور اس کے فن کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں ممکن نہیں لیکن اس چھوٹی سی کوشش میں تمام اہم پہلووَں کو سمونے کی ان کا حاطہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ امید ہے میری کاوش آپ سب کو پسند آئے گی ۔

استفادہ کتب

(1)ابلاغیات ڈاکٹر شاہد حسین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(2)الیکٹرانک میڈیا میں ابھرتے رجحانات ڈاکٹر طارق اقبال صدیقی ۔

(3)عوامی ذراءع ترسیل ڈاکٹر اشفاق محمد خاں ۔

(4)میڈیا روپ او ربہروپ سہیل انجم ۔

(5)آئینہ خانے میں ، مطبوعہ، افکار، کراچی، دسمبر، 1963 ۔

(6)اردو صحافت نگاری ،اودھ نامہ ڈاٹ کام ۔

(7) ابلاغیات ۔ ۔ از ڈاکٹر محمد شاہد حسین ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(8)فن صحافت ۔ از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(9)اردو صحافت ماضی اور حال ۔ از خالد بجمحمودو سرور الہدی ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوَس ،دہلی ۔

(10)اردو صحافت مسائل اور امکانات ۔ از ڈاکٹر ہمایوں اشرف ۔

(11)اردو دنیا شمارا دسمبر۵۱۰۲ ۔

ہفتہ, مارچ 18, 2023

زاویہ نظر پر میری نظر ✍️فرید بلگرامی خیرآباد سیتاپور

زاویہ نظر پر میری نظر 
Urduduniyanews72
 ✍️فرید  بلگرامی خیرآباد سیتاپور 
آج ہمارے پیش  نظر جناب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی کتاب زاویہ نظر ہے ، کتاب سے پہلے صاحب کتاب کی بات ہوجائے، محترم مفتی صاحب  مشہورعالم دین، نائب ناظم امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور آل انڈیا ملی کونسل کے ممبر، مدرسہ ابا بکر پور کے سابق استاذ اور صاحب طرز قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ نقیب کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
53 سے زائد کتابوں کا مصنف ہونا کوئی معمولی بات نہیں، بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ مفتی صاحب کا میدان عمل بہت وسیع ہے، وہ بہت نرم دل اور وسیع النظر مصنف ہیں، آپ کی تحریروں سے صاف عیاں ہے کہ مدرسہ ومسجد کی چہار دیواری آپ کے لیے  موضوعات کے انتخاب  میں  رکاوٹ نہیں بن سکی،  مسجد کے گنبد ومینار کی بلندی سے آپ بہت دور دیکھتے ہیں۔ عین الحق قاسمی نے آپ کے بارے میں ایک بہتر بات لکھی ہے، وہ یہ کہ
”میرے علم کے مطابق یہ پہلے خوش نصیب صاحب قلم مولوی ہیں، جس کی دانشوری کو مروج حلقہ ادب ودانشوری میں قبولیت حاصل ہے۔“
حلقہ دانشوران میں آپ کو قبولیت حاصل ہونا ہی چاہیے کیوں کہ آپ اعلیٰ ترین کی دینی درسگاہوں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد عصری علوم  یونیورسیٹی سے  حاصل کیا۔خود پی ایچ ڈی نہیں ہیں لیکن مفتی صاحب کی ادبی خدمات  پرتحقیقی کام کرکے راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔خود مفتی صاحب کا کام اس قدر وقیع ہے کہ کسی یونیورسٹی کو ان کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ضرور دینی چاہیے۔
 میں نے مفتی صاحب کی کتاب زاویہ نظر پر تفصیل سے نظر ڈالی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ صرف دین ومذہب کے معاملات اور شرعی مسائل بیان کرنے تک محدود نہیں رہے ہیں، آپ نے اپنی کھلی آنکھوں، بلند خیال اور وسعت قلب سے سماج کے ہر پہلو پر خامہ فرسائی کی ہے، آپ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں، صحافی بالخصوص ایک مدیر کا فرض ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنی عقابی نگاہ رکھے، ایک ایڈیٹر کے سامنے خبروں کا خوان سجایا جاتا ہے اس میں ہر طرح کی خبریں ہوتی ہیں، کچھ اچھی جن کو پڑھ کر ایک گونہ مسرت حاصل ہوتی ہے، اور کچھ بہت بڑی جن کو پڑھ کر دل اداس ہوجاتا ہے، کچھ سے معاشرہ کی اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے اور کچھ مخرب اخلاق ہوتے ہیں، ان میں سے انتخاب کرنا ایک دشوار گزار کام ہوتا ہے، اس کام میں اپنی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سماج کی خواہشات اور قاری کی امیدوں کابھی احترام کرنا ہوتا ہے۔
”زاویہ نظر“ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب ہر بات پر عمیق نظر رکھتے ہیں، ان کے مضامین میں اقتصادی شرح نمو، ان کاؤنٹر۔ جی اس ٹی، داخلی سلامتی، منا بجرنگی، دلت کی بارات، پولی تھین، سول کوڈ، بائی کاٹ، برہمن وادی سوچ، قومی آبادی رجسٹر، تعلیمی نصاب کا بھگوا کرن۔ نیٹ کا نتیجہ، جیسے عنوان کا فی تعداد میں موجود ہیں، جن کو پڑھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ قاسمی صاحب کتنے باہوش مدیر اور کتنا وسیع علم رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔
اگر میں قاسمی صاحب کے انداز بیان اور عبارت کے مضمرات کا جائزہ لوں تو اس میں ایک درد مند مسلمان کا دل دھڑکتا نظر آئے گا، مثال کے طور پر مفتی صاحب اپنے مضمون بعنوان انتہائی خطرناک میں جو کیرالہ کے سبری مالا مندر میں دس سال سے پچاس سال کی عمرکی لڑکیوں اور خاتون کا داخلہ ممنوع  ہونے سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے ہر عمر کی خواتین کے لیے مندر کے دروازے کھولنے کا حکم دیا تھا، مگر اس کے بر عکس مندر کے کارکنوں نے کسی کو داخل ہونے نہیں دیا۔
 اس ضمن میں ایک درد مند مسلمان کا دل یوں ذوفشاں ہوا۔ ”یہ مسلمان اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہے جو عدالت کے ہر فیصلہ کو قبول کرنے کو تیار ہے، لیکن دوسرا فریق نہ تو آئین کے احترام کا جذبہ رکھتا ہے اور نہ عدالت کے ہر قسم کے فیصلے اس کے لیے حجت اور دلیل ہیں، جب سے حکومت کا شکنجہ عدلیہ پرکسا ہے، فیصلے کی منطق،استدلال کے طریقے اور فیصلوں کی معقولیت میں بڑی تبدیلی آئی ہے، یہ تبدیلی ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ایسے بے باک اور بہادرانہ جملے ایک نڈر صحافی ہی کہہ سکتا ہے۔
 ایک مولوی کا me tooجیسے نازک موضوع پر قلم اٹھانا معمولی بات نہیں ہے۔ me too  کے معنی ہوتے ہیں ”میرے ساتھ بھی“ اس عنوان کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسانی کے مسئلے بیان کرتی ہیں، اس الزام کی وجہ سے بہت سی سیاسی شہادتیں بھی ہوئی ہیں، اس مسئلہ کے تمام کوائف بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
 ان ساری تفصیلات کے بعد ہمیں اسلامی موقف بھی سمجھنا چاہیے، اسلام کے نزدیک اس قسم کا اعلان قذف اور تہمت ہے، اس میں دو طرفہ سزاؤں کا اہتمام ہے، ثبوت اور شواہد سے الزام ثابت ہو گیا تو مرد سزا کا مستحق ہوگا اور اگر ثبوت اور شواہد سے الزام کا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا تو تہمت لگانے والی عورت کو سزا دی جائیگی۔  خود کشی جیسے حساس اور نازک مسئلہ پر آپ قلم اٹھاتے ہوئے صفحہ قرطاس پر اپنا اشہب قلم یوں دوڑاتے ہیں۔
”خود کشی ایک انتہائی قدم ہے، جو انسان مختلف احوال میں مایوسی کا شکار ہو کر اٹھاتا ہے، کسی کو نوکری ملنے میں مایوسی ہاتھ آئی، کسی کو قرض کی ادائیگی کے لیے رقم کی حصول میں مایوسی کا سامنا پڑا، کبھی امتحانات میں ناکامی سے طلبہ مایوس ہوجاتے ہیں اور کبھی عشق اور محبت میں ناکامی اس کا سبب بنتی ہے۔
 قاسمی صاحب اپنے قلم کی جولانئی طبع سے اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسے مایوس اور محروم افراد کو راہ دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
 اسلام نا امیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں امید وتوقعات کے چراغ روشن کرنے کی تلقین کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے نا امید ہونے کو کفر کے برابر قرار دیتا ہے، اسلام کا عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔ اور حالات کو بدلنے کی قدرت وطاقت اسی کے قبضہ میں ہے۔
626 صفحات کی اس کتاب میں 273 موضوعات پر منتخب مضامین شامل ہیں، صفحہ قرطاس پر  یہ مضامین اس طرح کا جمالیاتی نقشہ پیش کرتے ہیں جیسے کہکشاں میں ستارے جڑے ہوں۔
 اس کتاب کی بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں املے کی ایک بھی غلطی ٹائپنگ میں نظر نہیں آئی ہے، مطلب یہ ہے کہ اس کی پروف ریڈنگ بہت عرق ریزی سے کی گئی ہے، آجکل اردو کتابوں میں یہ عیب بہت نظر آتا ہے، اس کا ذمہ دار کچھ تو انگریزی کی بورڈ ہے اور کچھ اردو کے وہ لفظ جن کے صوتی اثرات ایک ہوتے ہیں، جیسے ث، س، اور ص سے شروع ہونے والے الفاظ  غلط ٹائپ ہوجاتے ہیں، حالانکہ جدید انگریزی جسے امریکن انگلش کہا جاتا ہے وہاں k اور c میں امتیاز باقی نہیں رہا، کافی آپ چاہے k سے لکھیں یا c سے دونوں قابل قبول، مگر اردو میں ص کی جگہ ث استعمال کردیا اور ”ع“ کی جگہ الف لکھ دیا تو اچھا خاصہ معصوم مکمل طور پر گنہ گار ہوجاتا ہے اور اگر امارت الف کی جگہ ”ع“ سے لکھدیں تو  پوری حکومت ایک چھوٹی سی بلڈنگ میں محدود ہوجائے گی۔
میرے خیال میں یہ کتاب اپنی گوناگوں صفات، ہمہ جہت وسیع النظری اور قابل قدر عنوانات اور اسلام کی چاشنی میں لپٹی ہوئی معلومات کی وجہ سے اہل نظر کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔

کاروان علم کا ایک روشن ستارہ جناب نوشاد اعظم صاحب نینی تال پبلک اسکول تھاوے گوپال گنج ایک ادارہ نہیں ایک مشن ہےامداداللہ قاسمی استاد نینی تال پبلک اسکول

کاروان علم کا ایک روشن ستارہ جناب نوشاد اعظم صاحب 
Urduduniyanews72
نینی تال پبلک اسکول  تھاوے گوپال گنج  ایک ادارہ نہیں ایک مشن ہے

امداداللہ قاسمی استاد نینی تال پبلک اسکول


پھونک کر اپنے آشیانے کو 
روشنی بخش دی زمانے کو 

عام طور سے اس طرح کے اشعار کو مبالغہ آرائی پر محمول کیا جاتا ہے، لیکن جہاں معاملہ شنید اور دید سے بڑھ کر  چشم دید کا ہو بلکہ ہر لحظہ اور ہر آن کا ہو نیز  دل کی نگاہوں اور دماغ کی بصارتوں سے دیکھنے کا ہو مزید یہ کہ قوم کے قیمتی سرمائے کے مستقبل کا ہو تو چند اچھے بول حوصلہ افزائی کے چند الفاظ اخلاقی طور پر ہی نہیں قومی فریضہ سمجھ کر کرنا چاہیئے 
امت مسلمہ جب مجموعی طور پر زوال اور انحطاط کا شکار ہوئی تو بجائے اس کے اچھے لوگوں کے حوصلوں کو سہارا دیا جائے  یا جنونیت میں مہمیز لگائی جائے ٹانگوں کے کھینچنے اور کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہوگئ 

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے 


آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی اہمیت سے ہر کس و ناکس  واقف ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو حقیقت بر مبنی ہو گا کہ وہ قومیں جو زوال و انحطاط کا شکار تھی  اس نے تعلیم کو اپنے سینے سے لگایا اور ترقی کی وہ منازل طے کی کہ آج دنیا انگشت بدنداں ہے  اقبال نے یورپ میں جب مسلم سائنسدانوں کی کتابیں  اور ان کتا بوں کا احترام دیکھا تو آہ بھرتے ہوئے کہا 

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

ہم نے اسلاف کے طور طریقوں سے ہٹ کر کتابوں کی ناقدری کی اور کتابوں کے بجائے الماریوں میں جوتیوں کو سجانے لگے تو جوتیاں ہماری مقدر بنی اور تاج ان کے سر سجا 

ایسے دور میں جب کہ تعلیم اور اعلی تعلیم کا رجحان مسلم معاشرے میں نہ کے برابر ہےتو چند مخلص اور قوم کے ہمدرد لوگ پرانی روایت،  سر سید اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے لوگوں کے خواب اور کام کو آگے بڑھانے میں لگے ہیں تو دل اور دماغ دونوں ہاتھوں سے اسے قبول کرنے کی ضرورت ہے 

خوش قسمتی سے مجھے چند اچھے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا  لیکن جو جنونیت جو دلی وابستگی انتظامیہ کا اس ادارے کے ساتھ دیکھا دوسری جگہ میں نے نہیں دیکھا  پورا گھرانہ اگر کسی چیز کے لئیے سوچتا ہے یا گھر کے تمام افراد کے ذہن ودماغ میں ہر وقت کچھ سوار رہتا ہے تو وہ اسکول کی ترقی اور اس کا معیار ہے  اور یہ کسی بھی چیز سے بے انتہا محبت اور دلی وابستگی کی واضح دلیل ہے اور اس ادارے کی کامیابی کی ضمانت ہے 

گھر کے تقریباً آٹھ سے دس افراد روزانہ کی بنیاد پر پڑھانے اور انتظامات کے سنبھالنے میں مصروف ہیں لیکن معاوضہ کے نام پر ایک پیسہ نہیں 
سینکڑوں ایسے بچے اور بچیاں ہیں جو فیس ادا نہیں کرسکتے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا علم ایک دو کو چھوڑ دیں تو دیگر اساتذہ کو بھی نہیں

 خود اسکول کے ڈائریکٹر جناب نوشاد اعظم صاحب کا معمول ہے کہ درسگاہوں سے فراغت کے بعد روزانہ کی بنیاد پر آن لائن کئی جماعتوں کو پڑھا تے ہیں گویا کہ صبح سے رات تک کا وقت پڑھنے پڑھانے میں مصروف
 بڑی مدت میں بھیجتا ہے ساقی ایسامستانہ 

بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ 

ان کا پرانا خواب تھا کہ اپنے علاقے میں ایک ایسا معیاری ادارہ ہو جس سے قوم کا قیمتی سرمایہ تیار ہو جہاں کے فارغین  اچھی صلاحیت کے ساتھ ساتھ تقریر اورتحریر  کے میدان کا بھی ماہر کھلاڑی ہو جو دنیا کو سمجھتے ہوں قوموں کے ترقی و تنزلی کے راز سے واقف ہوں جن کا مشن قوم اور ملک کی خدمت ہو جو ستاروں پر کمندیں ڈالنا جانتے ہوں جن کے حوصلوں کے سامنے بڑا سے بڑا چٹان بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہو  اسی جذبے کے تحت انہوں نے  سن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نینی تال پبلک اسکول کا قیام عمل میں لایا  جس نے تقریباً دو سال کی قلیل مدت میں پورے گوپال گنج میں اپنی ایک شناخت اور پہچان بنا لی ہے جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں بچے ایڈمیشن کے لئے نہ آتے ہوں 

ارشاد اعظم صاحب جو انتظامیہ کے اہم رکن ہیں اور پرنسپل بھی  انڈین ایمبیسی کے اسکول کی اچھی تنخواہ اور پرکشش مراعات کو چھوڑ کر   اپنے قوم اور ملک کی خدمت کے لئیے وطن لوٹ آئے  جو اس شعر کے بجاطور پر مصداق ہیں 

میں یہ صاف ہی نہ کہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں 
تیرا درد دردِ تنہا  میرا غم غمِ زمانہ 

ذمہ داروں میں سے ایک اہم نام گوپال گنج اور اطراف کی معروف شخصیت انتہائی متواضع ملنسار اور گوپال گنج سول کورٹ کے سینئر وکیل جناب مشتاق اعظم صاحب کا ہےجن کی اپنی گوں ناگوں مصروفیات ہیں لیکن روزانہ صبح اسکول تشریف لاتے ہیں اور معاینہ کے بعداپنی قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں 
شمشاد اعظم صاحب اسکول کے ایک اور اہم ذمہ دار جو انڈین ایمبیسی کے ایک اہم اسکول میں درس و تدریس کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں 
ہمیشہ اسکول کے لئیے فکر مند رہتے ہیں 
اساتذہ کا شاندار انتخاب با صلاحیت اور فنون کے ماہر  اساتذہ کا ایسا سنگم  انتہائی محنت و مشقت اور معیاری تنخواہ کی بنیاد پر ہی جمع کیا سکتا ہے  بچوں کے صلاحیتوں کو نکھارنا ان کو ضروری اور اہم کاموں کی طرف توجہ دلانا جس سے ان کا مستقبل تابناک اور روشن ہو  انتظامیہ اور اساتذہ کی اولین ترجیح میں شامل ہے جس کی ایک واضح مثال ہیڈ ماسٹر جناب عطاء اللہ صاحب ہیں بچوں کے نفسیات پر مکمل عبور،                                 کاہے کو کوئی موٹیویشنل اسپیکر اتنے اچھے انداز میں سمجھا ئیگا ان کے حوصلہ افزائی کے الفاظ اور سمجھانے کے بعد ایک ناکارہ بھی اپنی اہمیت کو پہچان کر کسی کام کا بن جائے  
انگریزی کے قابل استاد پڑھانے کا نرالا انداز بچوں میں انتہائی مقبول جن کے ساتھ کام کرنے میں بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے  معیاری اور پرکشش تنخواہ کو چھوڑ کر جدہ سعودی عربیہ کے مستند ادارے کو چھوڑ کرچلے آئے اور اپنے آپ کو اپنےقوم اور ملک کی خدمت کے لئے  وقف کر رکھا ہے

ضرورت اس بات کی ہے آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں جب لوگ اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسری چیز کے سلسلے میں سوچتے بھی نہیں اور انویسٹ سے زیادہ منافع کا سوچتے ہیں چند دیوانے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں لگے ہیں کہ 

ہاں دکھا دے ائے تصور پھر وہ صبح وشام تو 

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو 

اور جن کی زندگیوں کا نصب العین صرف یہ رہ گیا ہو 

اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ 

راستے میں خواہ دوست کے دشمن کا گھر ملے 

یا یہ کہ 

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے 
جہاں روشنی کی کم ملی وہیں ایک چراغ جلا دیا 

جو لوگ بھی  اور جہاں بھی اس طرح کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بالخصوص جناب نوشاد اعظم صاحب جو کہ اپنا سب کچھ قربان کر کے قوم کی بہتری کے لئے  قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں لگے ہیں ضروری ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے کارہائے نمایاں کو سراہا جائے یہ ہمارا اخلاقی اور قومی  دونوں فریضہ ہے

ایسے لوگ اور ایسی شخصیات بار بار نہیں آتی 

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

مبارک اے مسلمانو ماہ رمضان کا جلوہ ۔شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

مبارک اے مسلمانو ماہ رمضان کا جلوہ ۔
Urduduniyanews72
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آقائے دو جہاں کا فرمان ہے اے لوگو تمہارے پاس ماہ رمضان آ پہنچا لوگو برکتی مہینہ آگیا لوگو رب کی رحمت نے تمہیں ڈھانک لیا دیکھو خدا کی رحمتیں اتر رہی ہیں گناہ بخشے جا رہے ہیں دعائیں قبول ہو رہی ہیں لوگو تمہارا اس ماہ میں ایک دوسرے سے عبادتوں اور نیکیوں میں بڑھ جانے کی کوشش کرنا خدا دیکھ رہا ہے بلکہ اس کا فخر وہ اپنے فرشتوں میں کر رہا ہے بس تم بھی خدا کو اپنا جوش و خروش دکھاؤ حقیقی بد نصیب وہ ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی خدا کی رحمت سے محروم رہ جائے  (طبرانی)
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اسلام نام ہے پانچ چیزوں کا جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دے وہ پانچوں کا چھوڑنے والا ہے اور اس کا اسلام اللہ  کے نزدیک مقبول نہیں (1)  خدائے تعالی کے ایک ہونے اور محمد ﷺ  کے سچے رسول ہونے کی گواہی دینا  (2) پانچوں وقت کی نماز پڑھنا  (3)  رمضان کے روزے رکھنا  (4)  اگر مال ہو تو زکوۃ دینا  (5) اگر مال ہو تو حج کرنا آپ فرماتے ہیں رمضان کا روزہ بلا عذر شرعی چھوڑ نے والا کافر اور قابل گردن زدنی ہے جو شخص اس ماہ کا ایک روزہ بھی بلا اجازت شرع ترک کرے اگر ساری عمر روزے رکھے پھر بھی اس گناہ کی تلافی نہ ہوگی جو شخص اس مبارک مہینے میں بھی خدا کو راضی نہ کرے  وہ بڑا ہی بد نصیب ہے جو شخص وقت سے پہلے جان بوجھ کر روزہ کھول دے اس کو جہنم میں معلق لٹکا دیا جائے گا اور بار بار اس کی باچھیں چیری  جائیں گی جن سے خون بہتا رہے گا اور کتے کی طرح چیخے گا ۔  
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اس مہینہ میں نازل ہوا اس ماہ مبارک میں سرکش شیاطین قید کر لیۓ جاتے ہیں رمضان کی اول  رات ہی سے تمام آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ آخر رمضان تک بند نہیں ہوتے اس مہینے میں مومن کی روزی میں برکت دی جاتی ہے اس مہینے کے اول دس دن رحمت کے اور درمیانی دس دن مغفرت کے اور تیسرے دس دن جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے ہیں اس مہینے میں جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور آخر تک ایک بھی بند نہیں ہوتا اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ایک بھی نہیں کھلتا  اس مہینے میں اللہ تعالی کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں گناہوں کی معافی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے رمضان المبارک کے لئے جنت سال بھر سنواری جاتی ہے اور رمضان کی اول رات ایک لطیف ہوا عرش سے چلتی ہے جو جنتی درختوں کے پتوں وغیرہ کو لگتی ہوئی گزر جاتی ہے جن سے ایک نہایت سریلی آواز پیدا ہوتی ہے اس وقت حوریں ندا کرتی ہیں کہ کوئی ہے جو اللہ تعالی سے ہماری خواہشتگاری کرے رمضان کی ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ کوئی سائل ہے جس کو خدا دے کوئی تائب ہے جس کی توبہ قبول کرے کوئی استغفار کرنے والا ہے جس کے گناہوں سے درگزر فرمائے کوئی ہے جو ایسے خدا کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ کم دینے والا ہے بلکہ پورا دینے والا اور ظلم نہ کرنے والا ہے اے بھلائی کرنے والو آگے بڑھو اور اے برائی کرنے والو  پیچھے ہٹو اور رک جاؤ رمضان کی اول رات اللہ تعالی اپنے مسلمان بندوں کی طرف نظر رحمت سے دیکھتا ہے اور پھر انہیں عذابوں سے نجات دیتا ہے  یہ مہینہ غمخواری اور صبر کرنے کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے مسلمانوں کے لئے اس سے بہتر اور منافقوں کے لئے اس سے برا کوئی مہینہ نہیں ہے اللہ تعالی اس مہینے میں دس لاکھ مسلمانوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو جہنم کے لائق ہوتے ہیں اور آخری رات پورے مہینے کی گنتی کے برابر اگر مسلمان رمضان کی بزرگیاں بخوبی  معلوم کرلیں تو سارا سال رمضان ہونے کی تمنا کریں ۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں رمضان المبارک کے روزے خلوص اور پابندی شرع کے ساتھ رکھنے والے کے تمام اگلے گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کو مشک و عنبر سے زیادہ پسند ہے دن بھر فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت کی نعمتیں بڑھتی رہتی ہیں روزہ دار کو اللہ تعالی باب الریان سے جنت میں داخل کرے گا اور اس کو ان گنت نعمتیں عطا فرمائے گا اور اس سے خوش ہو کر ملے گا روزہ جہنم کے عذابوں کی ڈھال ہے روزہ دار کو ایک خوشی افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خدائے تعالی کی ملاقات کے وقت ہر ہر روزہ کے عوض اللہ تعالی روزہ دار کو حور و قصور اور غلمان اور درجات جنت وغیرہ وغیرہ طرح طرح کی نعمتیں عطا فرماتا ہے  روزہ تندرستی کا سبب اور جسم کی زکوٰۃ اور آدھا صبر ہے روزے دار اور جہنم کے درمیان اللہ تعالی آسمان و زمین سے بھی زیادہ دوری ڈال دیتا ہے روزہ قیامت کے روز اور قبر میں روزہ دار کی شفاعت کرتا ہے افطار کے وقت کی دعا بہت جلد مقبول ہوتی ہے اور اس وقت اللہ تعالی ہر روز ساٹھ (  60)  ہزار آدمیوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے افسوس ایسے مبارک وقت کو غموما بعض نا واقف مسلمان بیکار کھو دیتے ہیں وہ اس وقت یا تو افطاری کے سامان کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتے ہیں یا حقہ تازہ کرنے اور فضول بکواس میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں اس وقت کی قدر کرو اور اسے یونہی نہ کھو دو بلکہ دعا اور ذکر اللہ میں اس وقت رہا کرو افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی صحابہ کرام سے مروی ہے (  اللہم انی اسٔلک برحمتک التی وسعت کل شیٔ ان تغفرلی ذنوبی ) اے اللہ میں تجھ سے بوسیلہ تیری رحمت کے جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے اپنے کل گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں ۔ گرمیوں میں روزہ کی پیاس برداشت کرنے والے کو اللہ تعالی قیامت کے دن کی پیاس سے بچا لے گا صائم کے ہونٹوں کی خشکی کے بدلے اللہ تعالی اس کی پیشانی کو قیامت کے دن منور کر دے گا روزہ اور قرآن دونوں روزہ دار اور تلاوت قرآن کرنے والے کی سفارش اور شفاعت اللہ تعالی سے کریں گے یہاں تک کہ ان کی شفاعت قبول کی جائے گی 
اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے فضائل و برکات اور اس کی رحمتوں برکتوں سے مسلمانو کو مالا مال فرمائے اور سنت کے مطابق رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

جمعہ, مارچ 17, 2023

موبائل کی دنیا __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

موبائل کی دنیا __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
موبائل کی وجہ سے معلومات کی بر وقت فراہمی بہت آسان ہو گئی ہے اور ہم سب کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ دنیا بھر کی معلومات آن واحد میں جمع کر لیں، نیٹ کی سہولت دستیاب ہو تو سکنڈوں میں گوگل آپ کو بتادے گا کہ وقت کے کس حصہ میں دنیا پر کیا آفت آئی اور کس طرح اس پر قابو پایا گیا، اب انسائکلو پیڈیا کی موٹی موٹی کتابیں کھنگالنے کے بجائے واکی پیڈیا ہی مطلوبہ معلومات مالہ وما علیہ کے ساتھ بتا دیتا ہے ، تلاش بسیار کی جھک ماری سے اب کسی کو نہیں گذرنا پڑتا ، ایک دور وہ تھا جب مجھے قرآن کریم میں اللہ کے محبوب بندے کی تلاش کرنی تھی ، تو پورے قرآن کریم کی تلاوت حرفا حرفا کرنی پڑی تھی ، تب ایک فہرست محبوب بندے کی بن پائی تھی، آج ”ان اللہ یحب“ ڈال دیجئے اور پوری فہرست سکنڈوں میں آپ کے پاس موجود ، اس اعتبار سے دیکھیں تو موبائل اور نیٹ کی سہولیات اللہ رب العزت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اس پر بندے کو شکر گذار ہونا چاہیے ۔
دوسری طرف یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ایک آلہ ہے اور آلہ کا صحیح استعمال صحیح ہے اور غلط استعمال غلط ہے ،چاقو سے پھل کاٹیے، اچھا ہے، لیکن کسی کے پیٹ میں گھونپ دیجیے تو غلط ہے ، بندوق سے اپنی حفاظت کیجیے ، خوب ہے، لیکن کسی بے گناہ پر گولی چلا دیا تو غلط ہے، یہی حال موبائل کا ہے، اس غلط استعمال کی وجہ سے ہی اس کا نام بعض حضرات نے” آلہ شیطانی“ رکھا ہے ، شیطان کیا غلط کرائے گا ، جتنا اس آلہ شیطانی سے انسان خود ہی کر رہا ہے ، شیطان خوش ہے کہ انسان نے اپنی مرضی سے ہی ہمارے کام کو سنبھال لیا ہے ، اورلوگ خود ہی بے راہ رو اور گناہوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے ہی پہلے کیرالہ نے تعلیمی اداروں میں دوران تعلیم اس کے استعمال پر روک لگا دی تھی اور اب کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی تدریسی اوقات میں اس کو ساتھ رکھنے سے منع کر دیا ہے ، مدارس اسلامیہ خصوصا دار العلوم دیو بند میں اسمارٹ فون رکھنے پر پابندی ہے اور پکڑے جانے پر اخراج کی بھی نوبت آ سکتی ہے ، بیرون ملک میں ملیشیا کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے ، جس میں طلبہ کے پاس پائے گئے موبائل کو ہتھوروں سے توڑا جا رہا ہے ، یہ نوبت صرف اس کے غلط استعمال کی وجہ سے آئی ہے ، نوجوان نسلوں میں موبائل پر گندی فلمیں اور فحش سائٹوں کے کھنگالنے کی بیماری آگئی ہے، موبائل پر گیم کھیلنا عام سی بات ہے ، یہ گیم کہنے کو تو کھیل ہیں، لیکن زیادہ تر کھیل یا تو جنسیات پر مبنی ہیں یا مار دھاڑ پر ، جنسیات پر مبنی کھیل سے انسانی جسم کھوکھلا ہو رہا ہے ، اور اس کی وجہ سے مختلف قسم کے امراض پیدا ہو رہے ہیں، بینائی متاثر ہو رہی ہے ، ہاضمہ خراب ہو رہا ہے ، مار دھاڑ پر مبنی کھیلوں سے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا مزاج بنتا ہے اور بچے جو کھیل میں دیکھتے ہیں، اسے زمین پر حقیقت میں دیکھنے کے تجربے کرتے ہیں، ایسے بچے جو موبائل پر کھیلتے ہیں، انہیں جب شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان پرجھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے اور چونکہ سامنے حریف موجود نہیں ہوتا، اس لیے سارا غصہ اپنے اعصاب پر ہی اترتا ہے ،جو اعصابی بیماریوں کا بڑا سبب ہے، ان میں بعض کھیل ایسے بھی ہیں جو جیت کا ہدف پانے کے لیے خود کشی پر ابھارتے ہیں اور اونچی بلڈنگ سے کود پڑنے کا مشورہ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچے کی موت ہوجاتی ہے ،ایسا اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے ، اور اب بھی ہوتا رہتا ہے ، اس لیے بچے بچیاں ، طلبہ وطالبات کا موبائل سے دور رہنا ،اور انہیں دور رکھنا انتہائی ضروری ہے ، اس سے پڑھنے کے لیے انہیں وقت ملے گا اور موبائل کے مضر اثرات جو جسم و جاں پر پڑتے ہیں اس سے بھی بچے بچیاں محفوظ رہ سکیں گی ؛لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں بچوں کی ذرا بھی فکر نہیں ہوتی وہ موبائل پر رات رات بھر کیا دیکھ رہے ہیں، کس سائٹ سے ان کی دلچسپی ہے، ہمیں دیکھنے اور نگرانی کی فرصت ہی نہیں ملتی، رات بھر بچیاں چھت پر کس سے بات کر رہی ہیں، ہم کبھی بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے ، ایک شخص نے بڑی پکی بات کہی کہ ہمیں اپنے بچے بچیوں کی اتنی بھی فکر نہیں ہے ، جتنا دیہات میں مرغیوں کی فکر کی جاتی ہے ۔ سرشام اگر وہ گھر نہ آئیں تو تلاش شروع ہوجاتی ہے ، جب کہ لڑکے بارہ بجے رات اور اس سے زیادہ گھر سے باہر رہتے ہیں اور ہمیں پوچھنے تک کی توفیق نہیں ہوتی، ببیں تفاوت رہ از کجا است تا بکجا۔
آج کے دور میں موبائلز بچے بچیوں کے ہاتھ سے لے لینا ذرا مشکل کام ہے؛لیکن صحیح استعمال کی طرف راغب کرنا چنداں دشوار نہیں۔

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 17/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)

پھل درخت سے پہچانا جاتا ہے مفتی ثناء الہدی قاسمی
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ کا سالانہ اجلاس دستار بندی بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 17/مارچ 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
قرآن اللہ کی وہ کتاب ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی وپیغمبر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، یقیناً یہ ایک آفاقی والہامی کتاب ہے یہ کتاب دنیا کے تمام علوم و فنون کا مجموعہ ہے، اس کتاب کو دیکھنا، چھونا، پڑھنا، سننا، سیکھنا، اس پر عمل کرنا کرانا اور اس کی تعلیمات عام کرنا یہ سب باعث اجراوثواب ورحمت اور خوشنودئ الہی کا بڑا  اہم ذریعہ ہے ۔
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں مورخہ 16 /مارچ بروز جمعرات بعد نماز مغرب جلسۂ دستار بندی حفاظ کرام بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ،اس اجلاس کی صدارت مولانا ومفتی ثناء الہدی قاسمی نظامت مولانا حذیفہ شکیل قاسمی اور حافظ عمران سمستی پوری نے کی، سرپرستی مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے فرمائی ،
پروگرام کا آغاز قاری واجد علی عرفانی اور مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی کی تلاوت سے ہوا، حافظ عمران قاری شعیب حافظ ظفر اقبال رحمانی اور مشرف عالم نے نعت کے ذریعہ جلسہ کے ماحول کو بیحد خوشگوار بنایا،
مقرر کی حیثیت سے مفتی شکیل احمد قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم اسلامیہ پھلواری شریف پٹنہ ،مفتی سہیل قاسمی صدر مفتی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،مفتی عبد الرحمن قاسمی صدر مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ،مولانا نظر الھدی قاسمی، مولانا عبدالواحد ندوی ڈائریکٹر جامعۃ الصالحات فیڈرل کالونی پھلواری شریف پٹنہ تھے ۔
جلسہ چونکہ حفاظ کرام کی دستار بندی پر تھا اسی نسبت سے تمام مقررین نے قرآن عظمت قرآن تعلیمات قرآن اور حقوق قرآن پر گفتگو کی، 
مفتی شکیل احمد قاسمی نے حقوق قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے اکثر وبیشتر لوگ قرآن مجید کی صحیح تلاوت نہیں کرتے نہ اس کے حرف کی ادائیگی پر کوئی توجہ دیتے ہیں حالانکہ حرف کی ادائیگی اگر نہ ہو تو معانی مفاہیم بدل جاتے ہیں، جبکہ اس کے سیکھنے کے وسائل وذرائع ہمارے پاس موجود ہیں  ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔ مفتی سہیلی احمد قاسمی نے اپنے بیان میں قرآن مجید میں بیان کردہ حق و باطل کی تعریف و حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قران مجید کی یہ تعلیم ہے کہ ہمیشہ حق کو حق اور باطل کو باطل ہی کہا جائے ۔ 
مفتی عبد الرحمن قاسمی نے عظمت قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قران سراپا معجزہ ہے اور تکمیل حفظ قرآن اس کی ایک عظیم دلیل ہے لہٰذا ہر ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ قران کی صحیح تلاوت کرے اور اس کے احکامات اپنے اندر بسانے عمل کرنے کی فکر کرے ۔
مولانا نظر الھدی قاسمی نے اصلاح معاشرہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرآنی تعلیمات قرآنی پیغامات یہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم صحیح معاشرے کی تشکیل دے سکتے ہیں لامحالہ ہمیں اس کی تعلیمات وپیغامات عام کرنا ہوگا۔
مولانا عبد الواحد ندوی نے اپنی تقریر میں قرآن عظمت قرآن، اور حفاظ قرآن پر بڑی دلچسپ اور جامع گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں قرآن اور حافظ قرآن کی عظمت کرنی چاہئے ان کا احترام واکرام یہ بھی ایک دینی فریضہ ہے،
مولانا محمد عظیم الدین رحمانی سرپرست مدرسہ ہذا نے بھی مدرسہ کی تاریخ اور خدمات کا جائزہ دائرہ پیش کیا ۔
اس کے بعد سولہ حفاظ کرام کے سروں پر علماء کرام اور مدرسہ کے اہم ذمہ دار محمد فاروق منیر کالونی پھلواری شریف پٹنہ نے دستار فضیلت باندھی جبکہ ایک حافظہ حنا حسن کے والد کے سر پر دستار اور حنا حسن کو حجاب دیا گیا ، تمام حفاظ کو سند بیگ اور قرآن مجید مع رحل بطور اعزاز نوازا گیا، جن حفاظ کے سر پر دستارِ فضیلت باندھی گئ ان کی فہرست اس طرح ہے
۱ محمد سجاد ابن محمد افروز بیگوسراۓ
۲ محمد اشرف ابن محمد شکیل بیگوسراۓ
۳ محمد علی شیر ابن مرحوم محمد شمشیر جہان آباد
۴ محمد غلام سرور ابن محمد شمیم سمستی پور
۵ محمد یوسف ابن محمد ابراہیم بیگوسراۓ
۶ محمد عیان ابن محمد علی اشرف پٹنہ
۷ محمد وسیم ابن محمد ناصر سمستی پور
۸ محمد آفتاب عالم ابن محمد سہیل احمد سمستی پور
۹ محمد اظہر الدین ابن محمد شکیل بیگوسراۓ
١٠ محمد طارق ابن نبی اختر سمستی پور
١١ محمد ظفر عالم ابن محمد تمریز مدھے پورہ 
١٢ محمد افتخار ابن محمد جمیل بیگوسراۓ
١٣ محمد معصوم ابن محمد محسن سمستی پور 
۱۴ محمد طالب ابن محمد زاہد حسین پٹنہ 
۱۵ محمد آزاد ابن محمد تاج الدین مدھے پورہ
۱۶ حنا حسن بنت عبدالحسن پٹنہ
اس کے بعد  صدر محترم مفتی ثناء الہدی قاسمی نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے، دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ کا یہ کارہائے نمایاں اور بہترین کارکردگی رہی ہے کہ کم مدتوں میں حفاظ قرآن کی ایک جماعت وجود میں آئی، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ زمینی سطح پر اس ادارہ نے بھر پور محنت کی ہے ہم مولانا محمد ضیاءالعظیم قاسمی ،مولانا نورالعظیم مظاہری اور مدرسہ کے تمام اراکین کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ساتھ ساتھ تمام حضرات سے اس بات کی اپیل امید کرتے ہیں کہ دینی اداروں پر آپ کی خاص توجہ رہے تاکہ ادارہ پھولے پھلے اور قرآن وأحاديث کی تعلیمات عام کرسکے۔
اس کے بعد مہتمم جامعہ ھذا مفتی محمد نورالعظیم نے جامعہ کی جانب سے تمام مہمانوں میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کی محبتیں ہمارے لئے سرمایہ حیات ہے، اگر آپ کی محبتیں ہمارے ساتھ نہ ہوتیں تو یہ تحریک میرے لئے ناممکن تھی، ہم اس پاک پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہم سب کو اپنی کتاب کی تلاوت سماعت کے لئے، اسے سیکھنے سکھانے کے لئے منتخب فرمایا ہے، 
مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی نے بھی تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا،
آخر میں صدر محترم حضرت مولانا ومفتی ثناء الہدی قاسمی کی دعا کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا،
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ ایک خالص دینی ادارہ ہے ،جس کی بنیاد محض خلوص وللہت پر ہے، یہاں مقامی وبیرونی طلباء اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،اس وقت جامعہ ہذا میں تیس طلباء ہاسٹل میں مقیم ہیں، مقامی تیس طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں پانچ اساتذۂ کرام ان کی تعلیم وتربیت پر معمور ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے اور مدرسہ اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...