Powered By Blogger

جمعہ, مئی 05, 2023

مغلیہ حکومت کے نقوشمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مغلیہ حکومت کے نقوش
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے مغلیہ عہد حکومت کے اسباق نکال باہر کر دیے گیے ہیں، تاکہ طلبہ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ نہ پڑھ سکیں، گاندھی اور گوڈسے کے متعلق اسباق کو بھی نکال دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل گاندھی جی کے کردار سے واقف نہ ہو اور جد وجہد آزادی میں جو ان کا رول رہا ہے اس سے وہ غافل رہ جائیں، گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے کی جو شرمناک حرکت کی تھی وہ بھی نئی نسل تک منتقل نہ ہو سکے ، پھر کچھ دنوں کے بعد ساورکر، گروگوالکر اور گوڈسے کو ملک کا ہرو بنا کر پیش کیا جائے گا، اور بتایا جائے گا کہ اصل یہی لوگ تھے، مؤرخین نے غلط باتیں کتابوں کی زینت بنا رکھی تھی، اسے نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے ۔
 در اصل فرقہ پرستوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ مغلیہ دور حکومت کے نقوش نصاب کے علاوہ پورے ہندوستان میں زمین پر بکھرے پڑے ہیں، تاج محل ، لال قلعہ، پرانا قلعہ، گولکنڈہ، آگرہ کا قلعہ دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار وغیرہ ہندوستان کی سر زمین پر شاندار جاندار اور تابناک عہد رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں، ان کو نیست ونابود نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ بعض سر پھرے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو منہدم کرکے اس پر مندر بنانے کی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سر پھرے تو سر پھرے ہی ہوتے ہیں، جنون اور پاگل پن عروج کو پہونچ جائے تو ایسے ہفوات وبکواس زبان سے نکلنے لگتے ہیں، یہ عمارتیں جب تک روئے زمین پر موجود ہیں اور ان کے اوپر جو کتبات لگے ہوئے ہیں، وہ عہد رفتہ کی تاریخ سیاحوں کو بتاتے رہیں گے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے عہد حکومت کو مٹانا آسان نہیں ہے ،اس لیے کہ مغلوں نے جادہ جادہ اپنے یادوں کے نقوش چھوڑے اور آنے والے قافلوں کے وہ رہنما رہے ہیں ۔

جمعرات, مئی 04, 2023

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت
Urduduniyanews72
مدھوبنی 5 /مئی (پریس ریلیز) گزشتہ دنوں ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی جنرل سیکرٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار کے بڑے صاحبزادے انس امام دلشاد کا نکاح ہمراہ طیبہ حسن بنت انظار الحسن ،پرسونی ،بسفی ،مدھو بنی ،مفکر ملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ،قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے پڑھا یا، اور 2/مئی کو ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی، اس موقع پر علاقہ اور ریاست کی اہم شخصیات کی شرکت ہوئ،
اس موقع پر شریک ہوکر نو عروس جوڑے کو دعاؤں سے نوازنے والے والے حضرات میں جناب ڈاکٹر فیاض احمد ،ممبر آف پارلیمنٹ راجیہ سبھادہلی ،پروفیسر ڈاکٹر سرور عالم ندوی، صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی، جناب حماد قاسم، سیکریٹری رفاہ امت سوسائٹی دریا پور پٹنہ ،جناب ارشد عالم ،سیکریٹری جامع مسجد دریا پور سبزی باغ پٹنہ ،جناب ریاض الدین خوشنود، خازن رفاہ امت سوسائٹی پٹنہ ،الحاج اشرف عالم، کوہ نور جوئیلرس پٹنہ، مولانا عبد الرحیم برہولیاوی حاجی پور، مفتی شکیل احمد قاسمی صدر مدرس بشارت العلوم کھرما پتھرا ،دربھنگہ ،ہیرا مکھیا پتونا، شاکر حسین عرف ابو، سابق مکھیا نورچک ،ڈاکٹر محمد عالم عشورہ، ڈاکٹر سرفراز پٹنہ، افضل حسین پٹنہ، نظام الدین چاند پٹنہ، کانگریسی لیڈر صابر مستان پرسونی ،قاضی اعجاز احمد قاسمی دملہ، مولانا محمد اکرم قاسمی پتونا، مولانا اعجاز احمد اسراہی، مولانا نسیم احمد نعمانی پرسونی، ماسٹر عزیز احمد پرسونی، مولانا شعیب سلفی سمیلا، اظہر امام اشکی، پیغمبر پور، اور حافظ عبد الرحمن دہلی وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں معززین شریک ہوئے، اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے دعائیں دیں.

مسائل میں گھری امت مسلمہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مسائل میں گھری امت مسلمہ
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ملت اسلامیہ کو اس وقت بے پناہ مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی،بہت سارے مسائل کا حل خود ہمارے پاس موجود ہے اور ہم ا ن سے نمٹ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے عزم راسخ اوراولوالعزمی کی ضرورت ہے، جومسائل سرفہرست ہیں؛ ان میں دین بیزاری ہماری بے عملی اوربدعملی سب سے بڑا مسئلہ ہے،نئی نسل جس تیزی سے دوسری تحریکوں اورافکار سے متاثر ہورہی ہے یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اوراس کی وجہ سے ہمارے بچے بڑی تعداد میں اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں، اور ہماری بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادی رچا کر اپنے دین وایمان اور زندگی کا سودا کر رہی ہیں گھروں میں نماز، قرآن کاچرچا باقی نہیں رہا، جمعہ کی نماز بھی دورکعت تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔سنتوں کا اہتمام نہیں،اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گارجین حضرات خود بھی اسلام پر عمل کریں اوراپنے بچوں میں بھی ذوق پیدا کریں، علماء وصلحاء کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اس کے مفید اورمثبت اثرات دل ودماغ پرپڑیں، اورشیطانی حربے ناکام ہوجائیں، اس ضمن میں اسلامی تہذیب وثقافت سے دوری کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتاہے، کتنے گھروں کی آرائش وزیبائش اورسجاوٹ میں اسلامی انداز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ہماری وضع قطع کس قدر اسلامی تہذیب وثقافت سے میل کھاتی ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ہماری شادیات تلک جہیز اور گھوڑے جوڑے کے نام پر کس قدر دشوار ہوتی جارہی ہیں اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ پانی سر سے اونچاہو رہا ہے اور کسی کے کہنے سننے اور تحریک کا کوئی اثر سامنے نہیں آرہا ہے۔اور نالی وہیں کی وہیں گر رہی ہے ۔
دوسرا مسئلہ ہماری جہالت کا ہے، وہ امت جو تعلیم وتعلم کے نام پر اٹھائی گئی اورجس مذہب میں تعلیم کو فرض قراردیا گیا، اس امت کے بچے تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو کتنے افسو س کی بات ہے ،وہ امت جس کے نبی نے انما بعثت معلما کہہ کر اپنا تعارف کرایااس کے نونہال زری کے کارخانوں میں مزدوری، ہوٹلوں میں بیڑے کا اورکچڑے کے ڈھیر سے کچڑے چننے کاکام کریں، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔یقینا دیہاتوں سے لے کر شہروں تک بیداری آئی ہے اورتیزی سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن اب بھی یہ ہماری تعداد کے اعتبار سے کم ہیں،جوادارے معیار ی ہیں ان کی فیس اتنی موٹی ہے کہ عام مسلمانوں کی پہنچ ہی وہاں تک نہیں ہوسکتی،لے دے کر تھوڑا بہت مدارس والے بچائے ہوئے ہیں تو وہاں کی تعلیم کو معاشی سرگرمی کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا ہے اور ساری محنت مدارس کے بچے کو عصری تعلیم سے جوڑ نے کی چل رہی ہے حالانکہ مسلمانوں کیپڑھنے والے بچوں میں سے صرف چار فی صد ہی مدارس کا رخ کرپاتے ہیں، اگر ملی تنظیمیں ان چار فی صد کے علاوہ چھیانوے فی صد بچوں پر توجہ اور سر مایہ لگا یا جاتا تو انقلاب عظیم آسکتا ہیلیکن اس طرف توجہ ذرا کم ہے ساری شاباشی اور واہ واہی ان اداروں کے حصے میں ہے جو مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد بچوں پر محنت کر کے عصری علوم کی طرف لے آویں یہ بھی ایک کام ہے لیکن عصری علوم پڑھنے والے طلبہ پر محنت کر کے انہیں آئی ایس آئی پی ایس بنا نا اس سے بڑا کام ہیضرورت ہے کہ جگہ جگہ مکاتب سے لے کراعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے جائیں اورفیس وغیرہ ایسی رکھی جائے کہ اسکول کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے باقی رہے اور گارجین پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔
تیسرا مسئلہ ہماری معاشی واقتصادی کمزوری کا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں اوریہ دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں، اس کے لیے سرکاری سطح پرنوکری کی تلاش کے ساتھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے اپنی معاشی پسماندگی کودورکرسکیں ، دوسری صورت تجارت سے جڑنے کی ہے خواہ وہ چھوٹی گھریلو صنعت ہی کیوں نہ ہو۔ پونجی کے لیے بہت ساری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج بنانا ہوگا، کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے تیار ہونا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکیموں کی اطلاع عوام تک پہنچانے کاکام کریں، اور لوگوں کی مددکے لیے آگے آئیں۔
چوتھا بڑا مسئلہ جمہوری اداروں میں نمائندگی کا ہے، آزادی کے بعد سے مسلسل پارلیمنٹ ، اسمبلی اورمقامی جمہوری اداروں میں ہماری نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے ، اس کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کارویہ ہے۔ وہ مسلمانوں کوووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اوربعد میں وہ اس مظلوم اقلیت کو بھول جاتے ہیں ،پارٹیوں میں جو ہمارے لیڈران ہیں وہ بھی پارٹی کے وفادار زیادہ اورملت کے وفادار کم ہوتے ہیں ،انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انھیں کوئی کومنل (Communal)نہ کہہ دے، اس ڈرسے وہ بہت سارے جائز کام بھی مسلمانوں کاکرنے سے گریز کرتے ہیں، ہمیں اس صورت حال کو بدلناہوگا، پارٹی نظریات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔مسلم رائے عامہ کواس کے لیے بیدار کرنا ہوگا تاکہ مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکے،اس کے لیے ملّی تنظیمیں جولائحہ عمل بنائیں اور جن بنیادوں پروو ٹ دینے کی تجویز رکھیں ان پراعتماد کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اکابر کی نگاہیں دوررس ہیں اور یقینا ان کی جانب سے جو تجویز آئے اس پرسنجیدگی سے غور کیاجائے تاکہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
پانچواں مسئلہ زبان کی حفاظت کا ہے،یقینا زبان کسی مذہب کی خاص نہیں ہوتی ،اردو بھی یقینی طورپر مشترکہ زبان ہے؛ لیکن مسلمانوں کابڑا علمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے، اس معاملہ میں سرکاری سطح پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور داخلی سطح پر بھی ہمیں اس بات کویقینی بنانا ہوگاکہ ہمارے بچے اردوپڑھیں ،ہمارے گھروں میں دوسری زبانوں کے اخبارات ورسائل کے ساتھ اردو کے اخبارات ورسائل بھی خرید کر پڑھے جائیں، ہمار ی خط وکتابت کی زبان اردو ہو، میں نے کہیں پہلے بھی لکھا ہے کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھروں میں ہارگئے ہیں،ہمیں اس طرف خصوصیت سے توجہ دینی ہوگی۔
ایک بڑا مسئلہ بلکہ داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آپسی اختلافات کا ہے، چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل میں مسلمان شدید اختلافات کا شکارہیں، نمازنہیں پڑھتا لیکن آمین بالجہر والسر پر لڑے گا، درود شریف کا ورد نہیں کرے گا؛ لیکن کھڑے ہوکر اوربیٹھ کرپڑھنے پر لاٹھیاں نکل آئیں گی، ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا،کلمہ کی بنیاد پراتحاد پیداکرنا ہوگا، اسی طرح ذات پات کی لعنت سے بھی ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا، نہ انفرادیت اورنہ فرقہ بندی، ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گزارنا، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ، ہماری طاقت کامحور ومرکز ہے۔ ہمیں ہرحال میں اس ہدف کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہئے اورہرقیمت پر کرناچاہئے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں سے ہونے والے فسادات، محکمہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش، بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں میں ڈالا جانا، عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں باربار مداخلت ،سرکاری ملازمتوں سے انھیں دور رکھنے کی منظم کوششیں، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل یہ ملت کو درپیش چند مسائل ہیں،جنہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔

بدھ, مئی 03, 2023

خوشی وخوش حالی رپورٹ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

خوشی وخوش حالی رپورٹ 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عالمی خوشی خوش حالی رپورٹ ۲۰۲۳ء ء ابھی حال میں شائع ہوئی ہے ، اس رپورٹ کے مطابق خوش حال ملکوں میں ہندوستان 126نمبر پر ہے ۔ گذشتہ سال کی بہ نسبت تین پائیدان یہ اوپر ضرور ہوا ہے ، لیکن یہ اپنے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت خوش حالی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے، اس رپورٹ میں پاکستان کو 108، بنگلہ دیش کو 118، شری لنکا کو 112، نیپال کو 78میانمار کو 72اور چین کو 66ویں نمبر پر جگہ دی گئی ہے، خوش حالی سے متعلق یہ رپورٹ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ تیار کرتا ہے او رتیار کرتے وقت جی ڈی پی، سماجی تعاون، بد عنوانی کے واقعات اور ان کی سطح ، سماجی آزادی، سماجی تحفظ اور معیار زندگی کو سامنے رکھا جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں خوشی اور خوش حالی کم ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، بظاہر تو ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے زیادہ خستہ حال ہیں، لیکن اس رپورٹ میں انہیں کو بہتر بتایا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خوش حالی کا احساس اسباب ووسائل سے زیادہ ذہنی مسرت وخوشی کے تابع ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آرام وآسائش کی ساری سہولتوں کے ہوتے ہوئے آدمی ذہنی تناؤ ،عدم تحفظ کے احساس اور سماج کے تفرقے اور انتشار کی وجہ سے پریشان رہتا ہے، جسمانی ضرورتوں کی تکمیل تو جیسے تیسے ہوجاتی ہے ، لیکن ملک کے جو حالات ہیں اس میں مسرت وخوشی کی لہریں دماغ میں نہیں دوڑ پاتی ہیں، غالباً اسی وجہ سے اس رپورٹ میں ہم دوسروں سے پچھڑ گیے ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کا مقصد ہی ہندوستا ن کو نیچا دکھانا ہو ایسے میں ہمیں اس رپورٹ کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر اپنی مخالفت درج کرانی چاہیے۔
 یہ شبہہ اس لیے بھی پید اہوتا ہے کہ اس رپورٹ سے قبل اس حوالہ سے دو رپورٹ شائع ہو چکی ہے ، ایک رپورٹ کنسلٹنگ فورم ہیپی پلس کی’’ دی اسٹیٹ آف ہیپی نیس 2023‘‘ کے نام سے آئی، جس کے مطابق 65فی صد لوگ ہندوستان میں خوش ہیں، ایک دوسری رپورٹ ’’ایپ سوس گلوبل ہیپی نیس‘‘کی ہے جس نے کہا ہے کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں73فی صد لوگ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ۔ ان دونوں رپورٹوں کو سامنے رکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ کے ذریعہ جاری رپورٹ میں کہیں نہ کہیں کچھ خامی ہے ، کیوں کہ کورونا کے بعد حکومتی سطح پر وقتا فوقتا جو اعداد وشمار جاری کیے جاتے رہے ہیں، اس کے مطابق گذشتہ نو سالوں میں ملک میں غریبی کا تناسب 22فی صد سے گھٹ کر آٹھ فی صد تک آگیا ہے ، غیر ملکی زر مبادلہ بھی پہلے سے دو گنی مقدار میں موجود ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ، غذائی اجناس کی پیدا وار بھی بڑھی ہے ، ان سب کے باوجود اگر ہم خوش نہیں ہیں، اور ہمارے اندر خوش حالی نہیں ہے تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ ملکی حالت کی وجہ سے ہم ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہیں، اطمینان بھی خوش حالی کے لیے ضروری ہے ، اس لیے ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں ہیں، اس ایک وجہ کے علاوہ خوش حالی میں ہمارے پیچھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ حکومت اگر اس ایک وجہ کو دور کر دے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے پیچھے کر رہ جائیں۔

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ
اردودنیانیوز۷۲ 
موجودہ حالات میں اخبارات نکالانا بہت مشکل امر ہے : اشرف فرید
 ارد و میڈیا فورم کے زیر اہتمام اردو گوریمنٹ لائبریری میں تعزیتی نشست کا انعقاد ‘ دانشوران ادب و صحافت کی شمولیت

پٹنہ : (اسٹاف رپورٹر)ایم اے ظفر مردم سازی کا فن جانتے تھے مسائل کے وقت حالات سےنبرد آزما ہونا جانتے تھے وہ ایک انتظامی صحافی تھے یہ باتیں اردو میڈیا فورم کے زیر اہتمام منعقد تعزیتی نشست سےمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم اے ظفر نے صحافیوں کے قلم کو کبھی پکڑا نہیں بلکہ انہیں آزادی کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا موقع دیا‘ وہ کارکن صحافیوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ان کے اندر انکساری تواضع کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں یہ اونچا مقام عطا کیا۔ ایم اے ظفر جھکنے کا فن جانتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے ۔ وہیں نشست خطاب کرتے ہوئے فورم کے سرپرست و قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ ظفر کا جلدی چلاجانا صحافت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ انہوں نے اخبارات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس وقت اخبارات نکالنا بہت مشکل کام ہے ۔اردو اخبارات کا مستقبل تابناک نہیں ہے ہم سب کو احساس کمتری سے نکل کر اردو کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
مشہور و معروف کالم نگار و ناقد صفد ر امام قادری نے کہا کہ ایم اے ظفر کی شخصیت میں توازن تھا جس کی بنیاد پر انہوں سخت مزاج صحافیوں کو اپنے اخبار میں جگہ دی اور ان کے کالم کو بھی شائع کیا۔ اجمل فرید کے ساتھ وہ نظر آتے تھے انہوں نے بڑی مشقت کے ساتھ اخبار کو کھڑا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اخبارات کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھایا جائے جہاں سے ایم اے ظفر نے چھوڑا ہے اسے آگے بڑھانے کی ذمہ داری ان کے فرزند پر ہے اسے بہتر طریقے سے آگے بڑھائیں اور ایم اے ظفر کی خدمات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لائیں۔
مشہور فکشن نگار مشتاق احمدنوری نے کہا کہ ظفر فاروقی کے چہرے پر مالکانہ سرور نہیں تھا وہ عام آدمی کی طرح سب کے ساتھ مل کر چلنا پسند کرتے تھے ۔ آج صحافیوں کے قلم کو روکا جاتا ہے لیکن ایم اے ظفر نے ہمیشہ صحافیوں کو لکھنے کی پوری آزادی دی تھی۔ انہوں نے خورشید پرویز جیسے دھار دار صحافی کو موقع دیا جو ہمیشہ اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔
صحافی سید شہباز نے کہا کہ ایک بڑے صحافی نے دنیا ئے فانی سے رحلت کی ہے جو صحافت کیلئے خسارہ ہے وہ بہت ہی ملنسار اور اخلاق کے بلند پایے پر تھے ۔اسحاق اثر نے کہا کہ ایم اے ظفر جیسے صحافی بہت کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کارکن کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔ امتیاز احمد کریم نے کہا کہ ایم اے ظفر نے اردو صحافت کو بام عروج عطا کیا ہے انہوں نے جھارکھنڈ میں ایسے وقت میں اخبار نکلا جب اردو کا جنازہ نکل رہا تھا اور آج تک وہ اخبار جھارکھنڈ سے نکل رہا ہے۔ ہمارا نعرہ کے مدیر اعلیٰ انوار الہدیٰ نے کہاکہ ظفر مرحوم نے تین اخبار نکالے پہلا اخبار ہمالہ نکالا جبکہ دوسرا اخبار فاروقی تنظیم اور تیسرا اخبار نوید نکالا ۔ آغاز انجام کے ذریعے صحافت میں قدم رکھا۔ وہ کم عمری میں ہی اخبار کے مدیر ہوگئے کیونکہ والد کا سایہ جلد اٹھ گیا۔انہوں نے دھیرے دھیرے مضبوط قدم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے بالاخر انہیں بڑی کامیابی ملی اور آج ہم سب کے سامنے فاروقی تنظیم ایک تناور درخت کی طرح کھڑا ہے۔ وہیں اسلم جاویداں نے کہا کہ ایم اے ظفر خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرت بھی تھے منکسرالمزاج تھے۔ کم عمری میں اخبار سنبھالا اور کارکن صحافیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے انہوں نے لوگوں کے دلوں میں تاج محل بنایا ہے ظفر فاروقی پر ایک دستاویز نکالاجانا چاہیے۔ایم اے ظفر مرحوم کے صاحبزادے اقبال ظفر نے کہا کہ والد محترم کے نقش قدم پر چل کر اردو صحافت کی خدمت کرتا رہوں گا آپ سب کے مشورے کی ضرورت آج بھی فاروقی تنظیم کو ہے ۔ فاروقی تنظیم نے ہمیشہ صحافیوں کا خاص خیال رکھا ہے ۔ مرحوم صحافی کی خدمات کو دستاویز ی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔فاروقی تنظیم کے نمائندہ ہارون رشید نے کہا کہ ایم اے ظفر کی رحلت ہم سب کیلئے بڑا صدمہ ہے اردو صحافت کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھانے میں ایم اے ظفر کا کوئی ثانی نہیں ان کے طریقہ کار سے دوست تو دوست دشمن بھی گرویدہ ہو جاتا تھا ۔
بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے کہا کہ میری ملاقات تو نہیں رہی ہے لیکن ہماری غزلیں فاروقی تنظیم میں ہمیشہ شائع ہوتی رہی ہیں یہ ان کی محبت کا ثمرہ تھا۔ مشہور شاعر اثر فریدی نے کہا کہ وہ مخلص انسان تھے خورشید پرویز جیسے صحافی کے ساتھ اخبار کو بہتر کرنے کی کوشش کی انہوں نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
اس موقع پر عبد الواحد انصاری ‘ سیف اللہ شمسی ‘ سید اقبال امام ‘ آصف عطا ‘ عظیم الدین انصاری ‘ امتیاز انصاری ‘ فیروز منصوری ‘ وثیق الزماں ‘ مبین الہدیٰ‘ اظہر الحق ‘عبید اللہ ‘ منوج کمار نے بھی خطاب کیا ۔ نشست کا آغاز عبد الدیان شمسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ نظامت کے فرائض عزیز تنظیم کے مدیر انوار اللہ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔اس موقع پر ‘ توقیر عالم ‘ نثر عالم ‘ عارف انصاری ‘ رضیہ سلطانہ ‘ فضل احمد خان ‘ محمد حسنین ‘ آفتاب خان ‘ معین گریڈیوی ‘ عزیز الحسن‘ شبیر احمد و دیگر معززین علم واو ادب بھی موجودتھے۔

منگل, مئی 02, 2023

سیاسی شعور کی ضرورت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سیاسی شعور کی ضرورت __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
Urduduniyanews72
اس وقت ملک میں مسلمانوں کی آبادی پچیس کروڑ سے کم نہیں ہے ، تعداد سے قطع نظر وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ضرور ہیں ،اور اس اعتبار سے و ہ نظام حکومت میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں ، حکومت خواہ کسی بھی پارٹی کی ہو ،وہ نہ تو ان کی آواز کو دبا سکتی ہے ،او ر نہ ہی اسے سنی ان سنی کر سکتی ہے ،ان کے ملی مفاد کی ان دیکھی کرنا یا انہیں نقصان پہونچانے کی کوشش کرنا بھی ان کے لیے مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ۔ لیکن آج کے ہندوستان میں یہ سب خواب و خیال کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں ، مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں بے وقعت ہیں ، ان کے مفاد کے خلاف فیصلے ہوتے ہیں ، ان کے مفاد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، ملک کے دستور نے انہیں جو ضمانتیں دی ہیں ، ان کی بھی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، مگر ان کے ضبط اور صبر و تحمل کا یہ عالم ہے کہ نا مساعد حالات کا رونا رونے لگ جاتے ہیں ، اس سے آگے بڑھنے کی ہمت کی تو حکومت وقت کا شکوہ کرنے لگ گئے ، اور پھر کچھ اور ہمت جٹائی تو سازشوں کا ذکر کرنے بیٹھ گئے ، مگر اپنا محاسبہ کرنا اور اپنے اندر جھانکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ، کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے ، کیا خامی ہے ، کس چیز کا فقدان ہے اور خود ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہو رہی ہے ، ہندوستان کے مسلمان آج جس حال کو پہونچ گئے ہیں ، ان کا ایک طبقہ وسیع تر ملی مفاد کے حصول و تحفظ پر توجہ دینے کے لیے یا تو تیار نہیں ہے یا ا سکی ضرورت ہی نہیں سمجھتا ، جب کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبہ میں خوا ہ وہ سیاست ہو ، معیشت ہو یا روز مرہ کے معمولات زندگی ہوں ، اجتماعیت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اتحاد عمل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان کسی ایک ہی سیاسی پارٹی میں شامل ہو جائیں ، ایسا ممکن بھی نہیں ہے اور شاید یہ مناسب بھی نہیں ، لیکن جو ملی معاملات ہیں، ان کے لیے اتحاد عمل کا مظاہرہ یقینا کیا جا سکتا ہے ، مسلمان دوسرے اقلیتی فرقوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ اپنی سیاسی وفاداریوں کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوم کے مسائل کے لیے کس طرح باہم متحد ، مربوط اور ایک جٹ ہو جاتے ہیں ، اور ان کو حل بھی کرا لیتے ہیں ، اور متعلقہ پارٹیاں بھی اس معاملہ میں ان کو اپنا بھر پور تعاون دیتی ہیں ، مگر مسلمانوں کے ساتھ صورتحال بالکل بر عکس ہے ، اول تو مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنی پارٹی کی سطح پر مسلم مسائل اٹھاتے ہی نہیں ہیں او ر اگر کسی نے ہمت سے کام لیا تو خود اسی کے جماعتی رفقاءبجائے اس کے کہ اسکو تعاون دیں اس کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، بالفرض اگر ایسا نہیں ہوا اور ان کی آواز پارٹی کے اندر ون خانہ سے باہر آتی ہے تو دوسری پارٹیوں کے لیڈر اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں ، اس کی دو وجہ ہے ، ایک کا تعلق جماعتی تعصب سے ہے، اور دوسری کا اس خوف سے ہوتا ہے کہ اگر حریف کی آواز میں آواز لگائی تو پارٹی سے نکالے جائیں گے ، نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل یوں ہی پڑے رہ جاتے ہیں ، ہاں جب الیکشن کا زمانہ آتا ہے، تو تمام پارٹیوں یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی مسلمان اور ان کے مسائل ، ان کے دکھ درد اور ان کی پسماندگی کی یاد بے چین کر دیتی ہے ، لیکن جیسے ہی انتخابی نتائج کااعلان ہوا ، وہ مسلمانوں کا پھر سے استحصال شروع کر دیتے ہیں ، جب کہ گذشتہ دس برسوں سے ملک کی بی جے پی حکومت اور ان کے لیڈر ان اکثریتی ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی شعائر اور مذہبی تشخصات کو نشانہ بناتے آرہے ہیں ۔
 یہ صورت حال بہت ہی افسوس ناک ہے اور اس بات کی مظہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری کی کمی ہے، اور وہ اجتماعی مفاد پرتوجہ نہیں دیتے ، جس ملت کا سیاسی شعو ر بیدار ہوتا ہے ،وہ ملت ایسی نہیں جیسی کہ ہندوستان کے مسلمان ، کوئی ملت سیاسی اعتبار سے کس قدر بیدار ہے، اس کا اندازہ انتخابی عمل کے دوران بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس کے کتنے فیصدافراد اس عمل میں سنجیدگی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں ۔

نام:محمد انسقلمی نام:انس مسرور انصاریتاریخ ولادت:02 مئی 1954ء

نام:محمد انس
قلمی نام:انس مسرور انصاری
تاریخ ولادت:02 مئی 1954ء
Urduduniyanews72
وطن:قصبہ ٹانڈہ، ضلع امبیڈکر نگر-224190
والد کا نام:چودھری احمد اللہ المتوفی 1975ء
والدہ کا نام:علیم النساء المتوفی 21 نومبر 2004ء
اہلیہ:اختر جہاں
علمی و ادبی سرپرست:مولانا عبید الرحمٰن شاہ منظری
تربیت و تلمذ:شاد فیض آبادی، والی آسی لکھنوی
             شمیم فیض آبادی، ڈاکٹر احمد مبارکی ردولوی
             مولانا کبیر الدین واصف نگپوری
             ڈاکٹر احمد علی فضا بنارسی
حفظِ قرآن:استاذ الحفاظ حافظ غلام رسول شاہ 
ارادت:شیخ المشائخ حضرت مولانا ابو شحمہ شاہ
تعلیم:ایم اے (اردو)، اودھ یونیورسٹی
       منشی، کامل، مولوی، عالم، عربی فارسی بورڈ (یوپی)
        ادیب کامل، جامعہ اردو، علی گڑھ
مکمل انجیل کورس:مرکزی چرچ (مدراس)
معاش:مزدوری
صحافت:سابق ایڈیٹر پندرہ روزہ ”مبصر“ ٹانڈہ
مشاغل:مطالعۂ کتب، تصنیف و تالیف
تصانیف
۔۔۔۔۔۔
۔   (1)نور و نکہت (نعت)-1974ء
۔   (2)سنہری جالیاں (نعت)-1987ء
۔   (3)سبز گنبد (نعت)-1988ء
۔   (4)دیارِ مدینہ (نعت)-1975ء
۔   (5)تسبیح کے دانے (نعت)-2006ء
۔   (6)مخدوم سمنانی (منقبت)-1982ء
۔   (7)کرب و طرب (نظم و غزل)-1981ء
۔   (8)قطرہ قطرہ خونِ دل-2001ء
۔       (رباعیات)
۔   (9)فجر کا الاؤ (نظم و غزل)-2006ء
۔   (10)اسلام کا سماجی نظریہ-1979ء
۔   (11)ملفوظاتِ جہانگیری (تاریخ)-1980ء
۔   (12)عبدالرحیم خان خاناں-1981ء
۔         (تاریخ)
۔   (13)عرب سے یورپ تک-1987ء
۔         (تاریخ)
۔   (14)اورنگ زیب عالمگیر-1991ء
۔         (تاریخ)
۔   (15)فنِ خطوط نگاری-1992ء
۔         (تاریخ)
۔   (16)سیف اللہ خالد بن ولید
۔         (تاریخ)(تاریخ)-1995ء
۔   (17)رسول اللہ کی تلوار-1995ء
۔         (تاریخ)
۔   (18)کمسن مجاہد (تاریخ)-1995ء
۔   (19)صلاح الدین ایوبی-1996ء
۔         (تاریخ)
۔   (20)اسلام کی تاریخی کہانیاں-1991ء
۔         (تاریخ)
۔   (21)صلوٰۃ التسبیح(فاطمہ کی نماز)
۔         1996ء
۔   (22)خواجہ حسن بصری (سوانح)-1992ء
۔   (23)ہاتھیوں کی لڑائی-1991ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (24)سونے کا باغ-1988ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (25)ایک تھی رانی-1990ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (26)مولا بخش ہاتھی-1990ء
۔         (ادبِ اطفال)
۔   (27)انسانی دماغ ، کمپیوٹر اور تعلیم
۔         (ادبِ اطفال)-2022ء
۔   (28)آدرش بال پوتھی (ہندی)-1995ء
۔   (29)ننھے بچے کے من کے سچے
۔         (نظمیں)-2015ء
۔   (30)دوپہر کی دھوپ (نظمیں)-2015ء
۔   (32)دھوپ اور سائبان (مضامین)-2021ء
۔   (33)عکس اور امکان (مضامین)-2022ء
۔   (34)ادراک اور وجدان-(مضامین)-غیرمطبوعہ
۔   (35)عطر کے داغ-رباعیات و قطعات
۔   (36)دیوان نسیم میسوری-(تحقیق و تدوین)
۔         (غیرمطبوعہ)
۔   (37)اردو تنقید کا معیار-(جائزہ و تجزیہ)
۔         (غیرمطبوعہ)
۔   (38)کربلا کے مسافر (مثنوی)-غیرمطبوعہ
۔   (39)مجروح سلطان پوری-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (40)شکیب جلالی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (41)بشیر بدر-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (42)پروین شاکر-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (43)نازش پرتاب گڈھی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (44)شہر یار-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (45)مجاز لکھنوی-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (46)شاداب احسانی (کراچی)-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (47)انس مسرور انصاری-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (48)علامہ حماقت بیگ-2001ء
۔         (انتخابِ کلام)
۔   (49)تکیہ و رومال کے اشعار-1990ء
۔         (اردو، ہندی)
۔   (50)خط کے اشعار-1990ء
۔         (اردو، ہندی)
۔   (51)ہنسی کا فوراہ-1995ء
۔   (52)ہنستے رہیے-1996ء
۔   (53)قہقے در قہقے-1997ء
۔   (54)مسکراتے رہیے-1999ء
۔   (55)قہقہوں کا طوفان-2000ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...