Powered By Blogger

اتوار, مئی 07, 2023

رومان اشرف کی کامیابیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

رومان اشرف کی کامیابی
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
امسال میٹرک کے نتیجہ ٔ امتحان میں اسلامیہ ہائی اسکول شیخ پورہ کے رومان اشرف نے پورے بہار میں ٹاپ کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے ، اس نے پانچ سو نمبر میں سے چار سو نواسی (489) 8ء 98فی صد نمبرات حاصل کرکے سولہ لاکھ تیس ہزار چار سو چودہ شرکاء امتحان کو پیچھے چھوڑ دیا، اور اپنی بر تری اور سر فہرست ہونے کا جھنڈا گاڑ دیا، اس نے لڑکیوں کے سبقت لے جانے کی قدیم روایت کو بھی توڑ کر رکھ دیا اور ثابت کیا کہ لڑکے بھی پڑھنے میں دل لگاتے ہیں ، رومان ایک چھوٹے ضلع شیخ پورہ کے رہنے والے ہیں، لیکن ان کی سخت محنت اور آگے بڑھنے کے پختہ ارادے نے انہیں یہ دن دکھایا، ان کے گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا وہ بھی ان کے جہد مسلسل میں معاون بنا، رومان اشرف کے والد ایک اسکول میں استاذ ہیں اور رومان نے اپنے والد کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کی اور تمام لڑکوں کا وقار بلند کیا۔
 ٹاپ۱۰؍ میں ایک نام نہا پروین کا بھی ہے، اس کے والد شیخ خلیل درزی کا کام کرتے ہیں، نہا پروین نے پانچ سو میں چار سو تراسی (483)نمبر حاصل کیا ، وہ میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہے، وہ ٹی ایل ایم بالیکا انٹر اسکول گوگری کھگڑیا کی طالبہ تھی، اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کرکے ثابت کر دیا ہے کہ غربت آگے بڑھنے میں رکاوٹ نہیں ہے ، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دور میں اگر کوئی نہیں پڑھ رہا ہے ، تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو یہ معاملہ بے کسی ، بے بسی کا نہیں، بے حسی کا ہے ، نہا پروین نے بڑی کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور ان کے والد غریب ضرور ہیں، لیکن بے حس نہیں ہیں، رومان اشرف اور نہا پروین کویہ کامیابی مبارک ہو، امید کی جاتی ہے کہ اس کامیابی سے دوسرے لڑکے لڑکیوں کو بھی حوصلہ ملے گا اور وہ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر بڑا نام کما سکیں گے۔
 امسال بہار بورڈ کے امتحان میں 4ء 81فی صد طلبہ وطالبات نے کامیابی حاصل کی جو گذشتہ سال کی بہ نسبت بہتر ہے، چار لاکھ چوہتر ہزار چھ سو پندرہ فرسٹ ڈویزن، پانچ لاکھ گیارہ ہزار چھ سو تینتیس سکنڈ ڈویزن اور دو لاکھ ننانوے ہزار پانچ سو اٹھارہ نے تھرڈ ڈویزن سے کامیابی حاصل کی ، جموئی ضلع نے اپنا جلوہ حسب سابق بر قرار رکھا ہے ، سر فہرست دس میں بارہ اضلاع کے طلبہ وطالبات نے جگہ بنائی ہے، جس میں تینتیس لڑکیاں ہیں، دوسرے نمبر پر نمرتا اور گیانی انوپما ہیں، ان دونوں نے برا بر 486یعنی ۷ء ۹۷ فی صد نمبرات حاصل کیے۔

ہفتہ, مئی 06, 2023

آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندیںمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندیں
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 نیند سے ہمارے جسم کو راحت ملتی ہے اور تکان دور ہوتی ہے، کام کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور من میں فرحت ومسرت کا نفوذ ہوتا ہے، لیکن ایک سروے کے مطابق ۲ئ۹ کروڑ ہندوستانیوں کو اچھی نیند نہ آنے کا شکوہ ہے، آنکھوں سے غائب ہو رہی نیندوں کے پیچھے اپنا ہی کیا دھرا کام کر رہا ہے ، ذہنی تناؤ ، رات کو دیر تک جاگنا اور سونے سے قبل دیر تک اسمارٹ فون پر آنکھ گڑا کر سوشل میڈیا پر مشغول رہنا اس کا برا سبب ہے، ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان کے ۵۹؍ فی صد لوگ گیارہ بجے رات کے بعد ہی بستر پر جاتے ہیں اور ان میں سے اٹھاسی (۸۸) فی صد لوگ سونے سے قبل موبائل کا استعمال کرتے ہیں، اس سے نیند پر اثر پڑتا ہے اور بہت سارے لوگ کروٹ بدل بدل کر رات گذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے میڈیکل سائنس نے ایک بڑا بازار نیند لانے اور گہری نیند سلانے کے لیے سجا لیا ہے ، اس وقت صرف نیند لانے کے لیے جو سامان بازار میں دستیاب ہے وہ ۲۰۲۱ء میں ۳ء ۷۴ بلین امیریکی ڈالر کا تھا، اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک یہ مار کیٹ تقریبا ۹۷ء ۱۲۴ ملین امریکی ڈالر تک پہونچ جائے گا، اور تب کہنا چاہیے کہ نیند آئے گی نہیں بلکہ خریدی جائے گی ، ہمارے بچوں کو سلانے کے لیے مائیں، دادیاں، وغیرہ لوریاں سناتی تھیں اور بچہ ا ن لوریوں کو سن کر سوجاتا تھا، یہ لوریاں الگ الگ علاقوں میں الگ الگ ہوتی تھیں، ایک لوری بہت مشہور تھی’’ آجورے نینیا، بچے کو سلادے، آدھی روٹی روز دیو ٹکری مہینہ، مسلم گھروں میں حسبی ربی جل اللہ مافی قلبی غیر اللہ پڑھ کر بچوں کو سلایا جاتا تھا، اب دادی ، ماں وغیرہ کے پاس وقت نہیں ہے ، اب میوزک نکال دی گئی ہے ، جسے سن کر نیند کی آغوش میں  انسان چلا جاتا ہے اسے لوفائی سلیپ میوزک کا نام دیا گیا ہے ، دوائیاں، سلپنگ پیڈ، خواب آورپینٹس اور نیکر وغیرہ کی خریداری پر موٹی رقمیں خرچ کی جا رہی ہیں،اس کے باوجود رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ جاتی ہے، اسلام میں سونے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے کہ با وضو سویا جائے، دائیں کروٹ سویا جائے، ایک خاص ہیئت اختیار کیا جائے اور زبان کو ذکر اللہ سے تر رکھا جائے تا آں کہ آنکھوں میں نیند بھر آئے اور آپ سوجائیں، تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آنکھوں کو بند کرکے درود شریف پڑھنا شروع کر دیجئے، آپ کا تناؤ دور ہوگا اور آپ تیزی سے نیند کی آغوش میں چلے جائیں گے ، آزما کر دیکھیے، کسی بھی دوا اور سائنسی آلات سے یہ زیادہ مفید اور کا ر گر ہے ۔

جمعہ, مئی 05, 2023

مغلیہ حکومت کے نقوشمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مغلیہ حکومت کے نقوش
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے مغلیہ عہد حکومت کے اسباق نکال باہر کر دیے گیے ہیں، تاکہ طلبہ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ نہ پڑھ سکیں، گاندھی اور گوڈسے کے متعلق اسباق کو بھی نکال دیا گیا ہے تاکہ نئی نسل گاندھی جی کے کردار سے واقف نہ ہو اور جد وجہد آزادی میں جو ان کا رول رہا ہے اس سے وہ غافل رہ جائیں، گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے کی جو شرمناک حرکت کی تھی وہ بھی نئی نسل تک منتقل نہ ہو سکے ، پھر کچھ دنوں کے بعد ساورکر، گروگوالکر اور گوڈسے کو ملک کا ہرو بنا کر پیش کیا جائے گا، اور بتایا جائے گا کہ اصل یہی لوگ تھے، مؤرخین نے غلط باتیں کتابوں کی زینت بنا رکھی تھی، اسے نصاب سے باہر کر دیا گیا ہے ۔
 در اصل فرقہ پرستوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ مغلیہ دور حکومت کے نقوش نصاب کے علاوہ پورے ہندوستان میں زمین پر بکھرے پڑے ہیں، تاج محل ، لال قلعہ، پرانا قلعہ، گولکنڈہ، آگرہ کا قلعہ دہلی کی جامع مسجد، قطب مینار وغیرہ ہندوستان کی سر زمین پر شاندار جاندار اور تابناک عہد رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں، ان کو نیست ونابود نہیں کیا جا سکتا، حالاں کہ بعض سر پھرے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک تاج محل کو منہدم کرکے اس پر مندر بنانے کی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن سر پھرے تو سر پھرے ہی ہوتے ہیں، جنون اور پاگل پن عروج کو پہونچ جائے تو ایسے ہفوات وبکواس زبان سے نکلنے لگتے ہیں، یہ عمارتیں جب تک روئے زمین پر موجود ہیں اور ان کے اوپر جو کتبات لگے ہوئے ہیں، وہ عہد رفتہ کی تاریخ سیاحوں کو بتاتے رہیں گے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے عہد حکومت کو مٹانا آسان نہیں ہے ،اس لیے کہ مغلوں نے جادہ جادہ اپنے یادوں کے نقوش چھوڑے اور آنے والے قافلوں کے وہ رہنما رہے ہیں ۔

جمعرات, مئی 04, 2023

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت

انس امام دلشاد ہمراہ طیبہ حسن رشتہ ازدواج میں منسلک ،اہم شخصیات کی شرکت
Urduduniyanews72
مدھوبنی 5 /مئی (پریس ریلیز) گزشتہ دنوں ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی جنرل سیکرٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار کے بڑے صاحبزادے انس امام دلشاد کا نکاح ہمراہ طیبہ حسن بنت انظار الحسن ،پرسونی ،بسفی ،مدھو بنی ،مفکر ملت حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی ،قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل نے پڑھا یا، اور 2/مئی کو ولیمہ کی تقریب منعقد ہوئی، اس موقع پر علاقہ اور ریاست کی اہم شخصیات کی شرکت ہوئ،
اس موقع پر شریک ہوکر نو عروس جوڑے کو دعاؤں سے نوازنے والے والے حضرات میں جناب ڈاکٹر فیاض احمد ،ممبر آف پارلیمنٹ راجیہ سبھادہلی ،پروفیسر ڈاکٹر سرور عالم ندوی، صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیورسٹی، جناب حماد قاسم، سیکریٹری رفاہ امت سوسائٹی دریا پور پٹنہ ،جناب ارشد عالم ،سیکریٹری جامع مسجد دریا پور سبزی باغ پٹنہ ،جناب ریاض الدین خوشنود، خازن رفاہ امت سوسائٹی پٹنہ ،الحاج اشرف عالم، کوہ نور جوئیلرس پٹنہ، مولانا عبد الرحیم برہولیاوی حاجی پور، مفتی شکیل احمد قاسمی صدر مدرس بشارت العلوم کھرما پتھرا ،دربھنگہ ،ہیرا مکھیا پتونا، شاکر حسین عرف ابو، سابق مکھیا نورچک ،ڈاکٹر محمد عالم عشورہ، ڈاکٹر سرفراز پٹنہ، افضل حسین پٹنہ، نظام الدین چاند پٹنہ، کانگریسی لیڈر صابر مستان پرسونی ،قاضی اعجاز احمد قاسمی دملہ، مولانا محمد اکرم قاسمی پتونا، مولانا اعجاز احمد اسراہی، مولانا نسیم احمد نعمانی پرسونی، ماسٹر عزیز احمد پرسونی، مولانا شعیب سلفی سمیلا، اظہر امام اشکی، پیغمبر پور، اور حافظ عبد الرحمن دہلی وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں معززین شریک ہوئے، اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے دعائیں دیں.

مسائل میں گھری امت مسلمہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مسائل میں گھری امت مسلمہ
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ملت اسلامیہ کو اس وقت بے پناہ مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی،بہت سارے مسائل کا حل خود ہمارے پاس موجود ہے اور ہم ا ن سے نمٹ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے عزم راسخ اوراولوالعزمی کی ضرورت ہے، جومسائل سرفہرست ہیں؛ ان میں دین بیزاری ہماری بے عملی اوربدعملی سب سے بڑا مسئلہ ہے،نئی نسل جس تیزی سے دوسری تحریکوں اورافکار سے متاثر ہورہی ہے یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اوراس کی وجہ سے ہمارے بچے بڑی تعداد میں اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں، اور ہماری بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادی رچا کر اپنے دین وایمان اور زندگی کا سودا کر رہی ہیں گھروں میں نماز، قرآن کاچرچا باقی نہیں رہا، جمعہ کی نماز بھی دورکعت تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔سنتوں کا اہتمام نہیں،اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گارجین حضرات خود بھی اسلام پر عمل کریں اوراپنے بچوں میں بھی ذوق پیدا کریں، علماء وصلحاء کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اس کے مفید اورمثبت اثرات دل ودماغ پرپڑیں، اورشیطانی حربے ناکام ہوجائیں، اس ضمن میں اسلامی تہذیب وثقافت سے دوری کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتاہے، کتنے گھروں کی آرائش وزیبائش اورسجاوٹ میں اسلامی انداز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ہماری وضع قطع کس قدر اسلامی تہذیب وثقافت سے میل کھاتی ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔ہماری شادیات تلک جہیز اور گھوڑے جوڑے کے نام پر کس قدر دشوار ہوتی جارہی ہیں اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ پانی سر سے اونچاہو رہا ہے اور کسی کے کہنے سننے اور تحریک کا کوئی اثر سامنے نہیں آرہا ہے۔اور نالی وہیں کی وہیں گر رہی ہے ۔
دوسرا مسئلہ ہماری جہالت کا ہے، وہ امت جو تعلیم وتعلم کے نام پر اٹھائی گئی اورجس مذہب میں تعلیم کو فرض قراردیا گیا، اس امت کے بچے تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو کتنے افسو س کی بات ہے ،وہ امت جس کے نبی نے انما بعثت معلما کہہ کر اپنا تعارف کرایااس کے نونہال زری کے کارخانوں میں مزدوری، ہوٹلوں میں بیڑے کا اورکچڑے کے ڈھیر سے کچڑے چننے کاکام کریں، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔یقینا دیہاتوں سے لے کر شہروں تک بیداری آئی ہے اورتیزی سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن اب بھی یہ ہماری تعداد کے اعتبار سے کم ہیں،جوادارے معیار ی ہیں ان کی فیس اتنی موٹی ہے کہ عام مسلمانوں کی پہنچ ہی وہاں تک نہیں ہوسکتی،لے دے کر تھوڑا بہت مدارس والے بچائے ہوئے ہیں تو وہاں کی تعلیم کو معاشی سرگرمی کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا ہے اور ساری محنت مدارس کے بچے کو عصری تعلیم سے جوڑ نے کی چل رہی ہے حالانکہ مسلمانوں کیپڑھنے والے بچوں میں سے صرف چار فی صد ہی مدارس کا رخ کرپاتے ہیں، اگر ملی تنظیمیں ان چار فی صد کے علاوہ چھیانوے فی صد بچوں پر توجہ اور سر مایہ لگا یا جاتا تو انقلاب عظیم آسکتا ہیلیکن اس طرف توجہ ذرا کم ہے ساری شاباشی اور واہ واہی ان اداروں کے حصے میں ہے جو مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد بچوں پر محنت کر کے عصری علوم کی طرف لے آویں یہ بھی ایک کام ہے لیکن عصری علوم پڑھنے والے طلبہ پر محنت کر کے انہیں آئی ایس آئی پی ایس بنا نا اس سے بڑا کام ہیضرورت ہے کہ جگہ جگہ مکاتب سے لے کراعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے جائیں اورفیس وغیرہ ایسی رکھی جائے کہ اسکول کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے باقی رہے اور گارجین پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔
تیسرا مسئلہ ہماری معاشی واقتصادی کمزوری کا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں اوریہ دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں، اس کے لیے سرکاری سطح پرنوکری کی تلاش کے ساتھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے اپنی معاشی پسماندگی کودورکرسکیں ، دوسری صورت تجارت سے جڑنے کی ہے خواہ وہ چھوٹی گھریلو صنعت ہی کیوں نہ ہو۔ پونجی کے لیے بہت ساری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج بنانا ہوگا، کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے تیار ہونا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکیموں کی اطلاع عوام تک پہنچانے کاکام کریں، اور لوگوں کی مددکے لیے آگے آئیں۔
چوتھا بڑا مسئلہ جمہوری اداروں میں نمائندگی کا ہے، آزادی کے بعد سے مسلسل پارلیمنٹ ، اسمبلی اورمقامی جمہوری اداروں میں ہماری نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے ، اس کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کارویہ ہے۔ وہ مسلمانوں کوووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اوربعد میں وہ اس مظلوم اقلیت کو بھول جاتے ہیں ،پارٹیوں میں جو ہمارے لیڈران ہیں وہ بھی پارٹی کے وفادار زیادہ اورملت کے وفادار کم ہوتے ہیں ،انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انھیں کوئی کومنل (Communal)نہ کہہ دے، اس ڈرسے وہ بہت سارے جائز کام بھی مسلمانوں کاکرنے سے گریز کرتے ہیں، ہمیں اس صورت حال کو بدلناہوگا، پارٹی نظریات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔مسلم رائے عامہ کواس کے لیے بیدار کرنا ہوگا تاکہ مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکے،اس کے لیے ملّی تنظیمیں جولائحہ عمل بنائیں اور جن بنیادوں پروو ٹ دینے کی تجویز رکھیں ان پراعتماد کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اکابر کی نگاہیں دوررس ہیں اور یقینا ان کی جانب سے جو تجویز آئے اس پرسنجیدگی سے غور کیاجائے تاکہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
پانچواں مسئلہ زبان کی حفاظت کا ہے،یقینا زبان کسی مذہب کی خاص نہیں ہوتی ،اردو بھی یقینی طورپر مشترکہ زبان ہے؛ لیکن مسلمانوں کابڑا علمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے، اس معاملہ میں سرکاری سطح پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور داخلی سطح پر بھی ہمیں اس بات کویقینی بنانا ہوگاکہ ہمارے بچے اردوپڑھیں ،ہمارے گھروں میں دوسری زبانوں کے اخبارات ورسائل کے ساتھ اردو کے اخبارات ورسائل بھی خرید کر پڑھے جائیں، ہمار ی خط وکتابت کی زبان اردو ہو، میں نے کہیں پہلے بھی لکھا ہے کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھروں میں ہارگئے ہیں،ہمیں اس طرف خصوصیت سے توجہ دینی ہوگی۔
ایک بڑا مسئلہ بلکہ داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آپسی اختلافات کا ہے، چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل میں مسلمان شدید اختلافات کا شکارہیں، نمازنہیں پڑھتا لیکن آمین بالجہر والسر پر لڑے گا، درود شریف کا ورد نہیں کرے گا؛ لیکن کھڑے ہوکر اوربیٹھ کرپڑھنے پر لاٹھیاں نکل آئیں گی، ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا،کلمہ کی بنیاد پراتحاد پیداکرنا ہوگا، اسی طرح ذات پات کی لعنت سے بھی ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا، نہ انفرادیت اورنہ فرقہ بندی، ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گزارنا، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ، ہماری طاقت کامحور ومرکز ہے۔ ہمیں ہرحال میں اس ہدف کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہئے اورہرقیمت پر کرناچاہئے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں سے ہونے والے فسادات، محکمہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش، بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں میں ڈالا جانا، عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں باربار مداخلت ،سرکاری ملازمتوں سے انھیں دور رکھنے کی منظم کوششیں، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل یہ ملت کو درپیش چند مسائل ہیں،جنہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔

بدھ, مئی 03, 2023

خوشی وخوش حالی رپورٹ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

خوشی وخوش حالی رپورٹ 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 عالمی خوشی خوش حالی رپورٹ ۲۰۲۳ء ء ابھی حال میں شائع ہوئی ہے ، اس رپورٹ کے مطابق خوش حال ملکوں میں ہندوستان 126نمبر پر ہے ۔ گذشتہ سال کی بہ نسبت تین پائیدان یہ اوپر ضرور ہوا ہے ، لیکن یہ اپنے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت خوش حالی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے، اس رپورٹ میں پاکستان کو 108، بنگلہ دیش کو 118، شری لنکا کو 112، نیپال کو 78میانمار کو 72اور چین کو 66ویں نمبر پر جگہ دی گئی ہے، خوش حالی سے متعلق یہ رپورٹ اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ تیار کرتا ہے او رتیار کرتے وقت جی ڈی پی، سماجی تعاون، بد عنوانی کے واقعات اور ان کی سطح ، سماجی آزادی، سماجی تحفظ اور معیار زندگی کو سامنے رکھا جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے ہندوستان میں خوشی اور خوش حالی کم ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں، بظاہر تو ہمارے پڑوسی ممالک ہم سے زیادہ خستہ حال ہیں، لیکن اس رپورٹ میں انہیں کو بہتر بتایا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خوش حالی کا احساس اسباب ووسائل سے زیادہ ذہنی مسرت وخوشی کے تابع ہوتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آرام وآسائش کی ساری سہولتوں کے ہوتے ہوئے آدمی ذہنی تناؤ ،عدم تحفظ کے احساس اور سماج کے تفرقے اور انتشار کی وجہ سے پریشان رہتا ہے، جسمانی ضرورتوں کی تکمیل تو جیسے تیسے ہوجاتی ہے ، لیکن ملک کے جو حالات ہیں اس میں مسرت وخوشی کی لہریں دماغ میں نہیں دوڑ پاتی ہیں، غالباً اسی وجہ سے اس رپورٹ میں ہم دوسروں سے پچھڑ گیے ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کا مقصد ہی ہندوستا ن کو نیچا دکھانا ہو ایسے میں ہمیں اس رپورٹ کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر اپنی مخالفت درج کرانی چاہیے۔
 یہ شبہہ اس لیے بھی پید اہوتا ہے کہ اس رپورٹ سے قبل اس حوالہ سے دو رپورٹ شائع ہو چکی ہے ، ایک رپورٹ کنسلٹنگ فورم ہیپی پلس کی’’ دی اسٹیٹ آف ہیپی نیس 2023‘‘ کے نام سے آئی، جس کے مطابق 65فی صد لوگ ہندوستان میں خوش ہیں، ایک دوسری رپورٹ ’’ایپ سوس گلوبل ہیپی نیس‘‘کی ہے جس نے کہا ہے کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں73فی صد لوگ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں ۔ ان دونوں رپورٹوں کو سامنے رکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ کے ذریعہ جاری رپورٹ میں کہیں نہ کہیں کچھ خامی ہے ، کیوں کہ کورونا کے بعد حکومتی سطح پر وقتا فوقتا جو اعداد وشمار جاری کیے جاتے رہے ہیں، اس کے مطابق گذشتہ نو سالوں میں ملک میں غریبی کا تناسب 22فی صد سے گھٹ کر آٹھ فی صد تک آگیا ہے ، غیر ملکی زر مبادلہ بھی پہلے سے دو گنی مقدار میں موجود ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ، غذائی اجناس کی پیدا وار بھی بڑھی ہے ، ان سب کے باوجود اگر ہم خوش نہیں ہیں، اور ہمارے اندر خوش حالی نہیں ہے تو اس کا صرف ایک مطلب ہے کہ ملکی حالت کی وجہ سے ہم ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہیں، اطمینان بھی خوش حالی کے لیے ضروری ہے ، اس لیے ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں ہیں، اس ایک وجہ کے علاوہ خوش حالی میں ہمارے پیچھے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ حکومت اگر اس ایک وجہ کو دور کر دے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے پیچھے کر رہ جائیں۔

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ

ایم اے ظفر مردم سازی کے فن سے بخوبی واقف تھے : مفتی ثناء الہدیٰ
اردودنیانیوز۷۲ 
موجودہ حالات میں اخبارات نکالانا بہت مشکل امر ہے : اشرف فرید
 ارد و میڈیا فورم کے زیر اہتمام اردو گوریمنٹ لائبریری میں تعزیتی نشست کا انعقاد ‘ دانشوران ادب و صحافت کی شمولیت

پٹنہ : (اسٹاف رپورٹر)ایم اے ظفر مردم سازی کا فن جانتے تھے مسائل کے وقت حالات سےنبرد آزما ہونا جانتے تھے وہ ایک انتظامی صحافی تھے یہ باتیں اردو میڈیا فورم کے زیر اہتمام منعقد تعزیتی نشست سےمفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم اے ظفر نے صحافیوں کے قلم کو کبھی پکڑا نہیں بلکہ انہیں آزادی کے ساتھ لکھنے اور پڑھنے کا موقع دیا‘ وہ کارکن صحافیوں کی عزت نفس کا بہت خیال کرتے تھے ان کے اندر انکساری تواضع کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں یہ اونچا مقام عطا کیا۔ ایم اے ظفر جھکنے کا فن جانتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے ۔ وہیں نشست خطاب کرتے ہوئے فورم کے سرپرست و قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید نے کہا کہ ظفر کا جلدی چلاجانا صحافت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ انہوں نے اخبارات کے ذریعے اردو کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اس وقت اخبارات نکالنا بہت مشکل کام ہے ۔اردو اخبارات کا مستقبل تابناک نہیں ہے ہم سب کو احساس کمتری سے نکل کر اردو کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔
مشہور و معروف کالم نگار و ناقد صفد ر امام قادری نے کہا کہ ایم اے ظفر کی شخصیت میں توازن تھا جس کی بنیاد پر انہوں سخت مزاج صحافیوں کو اپنے اخبار میں جگہ دی اور ان کے کالم کو بھی شائع کیا۔ اجمل فرید کے ساتھ وہ نظر آتے تھے انہوں نے بڑی مشقت کے ساتھ اخبار کو کھڑا کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اخبارات کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھایا جائے جہاں سے ایم اے ظفر نے چھوڑا ہے اسے آگے بڑھانے کی ذمہ داری ان کے فرزند پر ہے اسے بہتر طریقے سے آگے بڑھائیں اور ایم اے ظفر کی خدمات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لائیں۔
مشہور فکشن نگار مشتاق احمدنوری نے کہا کہ ظفر فاروقی کے چہرے پر مالکانہ سرور نہیں تھا وہ عام آدمی کی طرح سب کے ساتھ مل کر چلنا پسند کرتے تھے ۔ آج صحافیوں کے قلم کو روکا جاتا ہے لیکن ایم اے ظفر نے ہمیشہ صحافیوں کو لکھنے کی پوری آزادی دی تھی۔ انہوں نے خورشید پرویز جیسے دھار دار صحافی کو موقع دیا جو ہمیشہ اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔
صحافی سید شہباز نے کہا کہ ایک بڑے صحافی نے دنیا ئے فانی سے رحلت کی ہے جو صحافت کیلئے خسارہ ہے وہ بہت ہی ملنسار اور اخلاق کے بلند پایے پر تھے ۔اسحاق اثر نے کہا کہ ایم اے ظفر جیسے صحافی بہت کم ہی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے کارکن کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔ امتیاز احمد کریم نے کہا کہ ایم اے ظفر نے اردو صحافت کو بام عروج عطا کیا ہے انہوں نے جھارکھنڈ میں ایسے وقت میں اخبار نکلا جب اردو کا جنازہ نکل رہا تھا اور آج تک وہ اخبار جھارکھنڈ سے نکل رہا ہے۔ ہمارا نعرہ کے مدیر اعلیٰ انوار الہدیٰ نے کہاکہ ظفر مرحوم نے تین اخبار نکالے پہلا اخبار ہمالہ نکالا جبکہ دوسرا اخبار فاروقی تنظیم اور تیسرا اخبار نوید نکالا ۔ آغاز انجام کے ذریعے صحافت میں قدم رکھا۔ وہ کم عمری میں ہی اخبار کے مدیر ہوگئے کیونکہ والد کا سایہ جلد اٹھ گیا۔انہوں نے دھیرے دھیرے مضبوط قدم کے ساتھ آگے بڑھتے رہے بالاخر انہیں بڑی کامیابی ملی اور آج ہم سب کے سامنے فاروقی تنظیم ایک تناور درخت کی طرح کھڑا ہے۔ وہیں اسلم جاویداں نے کہا کہ ایم اے ظفر خوبصورتی کے ساتھ خوب سیرت بھی تھے منکسرالمزاج تھے۔ کم عمری میں اخبار سنبھالا اور کارکن صحافیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے انہوں نے لوگوں کے دلوں میں تاج محل بنایا ہے ظفر فاروقی پر ایک دستاویز نکالاجانا چاہیے۔ایم اے ظفر مرحوم کے صاحبزادے اقبال ظفر نے کہا کہ والد محترم کے نقش قدم پر چل کر اردو صحافت کی خدمت کرتا رہوں گا آپ سب کے مشورے کی ضرورت آج بھی فاروقی تنظیم کو ہے ۔ فاروقی تنظیم نے ہمیشہ صحافیوں کا خاص خیال رکھا ہے ۔ مرحوم صحافی کی خدمات کو دستاویز ی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔فاروقی تنظیم کے نمائندہ ہارون رشید نے کہا کہ ایم اے ظفر کی رحلت ہم سب کیلئے بڑا صدمہ ہے اردو صحافت کو تکنیک کے ذریعے آگے بڑھانے میں ایم اے ظفر کا کوئی ثانی نہیں ان کے طریقہ کار سے دوست تو دوست دشمن بھی گرویدہ ہو جاتا تھا ۔
بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے کہا کہ میری ملاقات تو نہیں رہی ہے لیکن ہماری غزلیں فاروقی تنظیم میں ہمیشہ شائع ہوتی رہی ہیں یہ ان کی محبت کا ثمرہ تھا۔ مشہور شاعر اثر فریدی نے کہا کہ وہ مخلص انسان تھے خورشید پرویز جیسے صحافی کے ساتھ اخبار کو بہتر کرنے کی کوشش کی انہوں نے منظوم خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
اس موقع پر عبد الواحد انصاری ‘ سیف اللہ شمسی ‘ سید اقبال امام ‘ آصف عطا ‘ عظیم الدین انصاری ‘ امتیاز انصاری ‘ فیروز منصوری ‘ وثیق الزماں ‘ مبین الہدیٰ‘ اظہر الحق ‘عبید اللہ ‘ منوج کمار نے بھی خطاب کیا ۔ نشست کا آغاز عبد الدیان شمسی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ نظامت کے فرائض عزیز تنظیم کے مدیر انوار اللہ نے بحسن و خوبی انجام دیے۔اس موقع پر ‘ توقیر عالم ‘ نثر عالم ‘ عارف انصاری ‘ رضیہ سلطانہ ‘ فضل احمد خان ‘ محمد حسنین ‘ آفتاب خان ‘ معین گریڈیوی ‘ عزیز الحسن‘ شبیر احمد و دیگر معززین علم واو ادب بھی موجودتھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...