Powered By Blogger

پیر, مئی 29, 2023

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __
#Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
ریزو بینک آف انڈیا (RBI)نے اپنے ایک حکم نامہ میں دو ہزار روپے کے نوٹ کو ستمبر تک بینک میں جمع کرادینے کو کہا ہے،اس  نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ چار ماہ گذرنے کے بعد بھی اگر کسی کے پاس یہ نوٹ ہوگا تو اسے نا قابل قبول نہیں قرار دیا جائے گا ، البتہ ایک بار میں دو ہزار کے بیس نوٹ ہی بدلے جا سکیں گے، بینک اس سے یہ دریافت نہیں کرے گا کہ اس کے پاس اتنے نوٹ کس طرح آئے،2016کی نوٹ بندی کے مقابل یہ نوٹ بندی نہیں جمع بندی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کے لیے ہمارے وزیر اعظم کو سامنے نہیں آنا پڑا ہے۔
 مرکزی حکومت نے 8نومبر2016 کو جب نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا، پانچ سو اور ایک ہزار کے پرانے نوٹ کو چلن سے خارج کیا تھا تو اسے کا لا دھن پر روک لگانے کی سمت میں اہم قدم قرار دیا تھا، کچھ دن کے بعد جب ایک ہزار کے بدلے دو ہزار کے نوٹ مارکیٹ میں آئے تو عوام نے جان لیا کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے، کیوں کہ کالا دھن جمع کرنے والے کو چھوٹا نوٹ لے کر اس سے بڑا نوٹ فراہم کر دیا گیا ہے، تاکہ وہ دو ہزار کے نوٹ کے ذریعہ زیادہ آسانی سے کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں، دیر سے ہی صحیح، سرکار کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ قدم اس کا غلط تھا، چنانچہ دو ہزار کے نوٹوں کی چھپائی کا کام 2018-19کے مالی سال میں بند کر دیا گیا، اب یہ نوٹ عام طور سے چلن میں نظر نہیں آرہے تھے، کیوں کہ کالے دھن والوں نے اسے جمع کر لیا تھا، آر بی آئی کے اس اعلان سے کا لے دھن کو سفید کرنے کا انہیںقیمتی موقع ہاتھ آیا اور وہ اس کا استعمال تیزی سے کر رہے ہیں، عوام کے پاس یہ نوٹ تو ہے ہی نہیں، اس لیے عوام پر اس حکم کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، رہ گیے کالے دھن والے تو ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ مختلف اوقات میں جتنے نوٹ چاہیں بدلیں، انہیں کسی شناختی کارڈ ، فارم یا کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمارا یہ ماننا ہے کہ نہ پہلے کی نوٹ بندی سے کالے دھن میںکوئی کمی آئی تھی اور نہ اب کہ دو ہزار کے نوٹ جمع کرنے سے کوئی فرق پڑے گا۔ دو ہزار روپے کا نوٹ نومبر 2016میں آر بی آئی ایکٹ 1934کے سیکشن 24(1)کے تحت سامنے لایا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کے خارج کرنے کے بعد صارفین کی ضرورت کو پورا کرنا تھا، آر بی آئی نے اسے جمع کرانے کی وجہ’’ کلین نوٹ پالیسی‘‘ پر عمل کرانا ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو دس، بیس ، پچاس اور سو روپے کے نوٹ اس کام کے لیے بڑی تعداد میں دستیاب ہیں، جنہیں صارفین نے لکھ لکھ کر گندہ کر رکھا ہے اسے جمع کرایا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ کلین ہو سکیں۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایک ہے عوامی سطح پر اس کرنسی کا چلن نہ ہونا اور دوسرا ہے قانونی سطح پر اس کو چلن سے خارج کرنا، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، عوامی سطح پر کسی سکے او رروپے کا استعمال نہ کیا جانا عوام کے حق پر چوٹ نہیں ہے، مثلا ایک پیسہ، دو پیسہ، تین پیسہ، پانچ پیسہ، دس پیسہ ، بیس پیسہ، چونی، اٹھنی، ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ عوامی سطح پر استعمال میں نہیں دکھتے ، کیوں کہ اب وہ ان کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ، اٹھنی تک کی تو اب کوئی چیز بھی نہیں ملتی، ایک روپے میں دستیاب ہونے والی اشیاء کو بھی اب انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، ان سکوں اور رروپیوں کو چلن سے باہر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا، لیکن یہ خود بخود ختم ہو گیے، اس کے بر عکس جب سرکار کسی نوٹ پر پابندی لگاتی ہے تو یہ عوام کی محنت کی کمائی کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور انہیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ 8نومبر 2016کی نوٹ بندی کے موقع سے دیکھا گیا۔

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج __
#@Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
 یونین پبلک سروس کمیشن(UPSC)نے تحریری وتقریری امتحان کے بعد نو سو تینتیس(933)امیدواروں کوکامیاب قرار دیا ہے، بیٹیوں نے اس بار پھر اچھی کار کر دگی کا مظاہرہ کیا اور اول ، دوم پوزیشن پر قبضہ کرنے کے ساتھ سر فہرست پچیس (25)کامیاب امیدواروں میں چودہ لڑکیوں نے اپنی جگہ بنائی، سرفہرست دس کامیاب امیدواروں میں ساتواں رینک وسیم احمد بھٹ نے حاصل کیا، پہلی، دوسری پوزیشن پر بہار کی لڑکیوں نے ریاست کا نام روشن کیا، اتفاق سے دونوں کے والد پہلے ہی مر چکے تھے اور ان دونوں نے ماں کی نگرانی میں وسائل سے محروم ہونے کے باوجود تیاری کی اور ہدف کو پالیا، ان میں سے ایک ایشی تاکشور، پٹنہ اور دوسری گریما لوہیا بکسر کی رہنے والی ہے، پتہ چلا کہ محنت اور مسلسل محنت ہی ہدف تک پہونچنے کا اصل ذریعہ ہے، ارادے پختہ ہوں تو راستہ کی رکاوٹوں کا دور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ بہار کی لڑکیوں نے ٹوپ کیا ہے بلکہ لگاتار تین سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔چھ سو تیرہ (613)لڑکے اور تین سو بیس (320)لڑکیوں اس بارکامیابی کا مزدہ سنایا گیا۔ 
اس امتحان میں شریک مسلم امیدواروں کی بات کریں تو بتیس (32)مسلم امید واروں نے کامیابی حاصل کی جن میں (9)لڑکیاں ہیں، سر فہرست کامیاب امیدواروں میں وسیم احمد بھٹ ساتویں، نوید احسان بھٹ84اور اسد زبیر رینک کے اعتبار سے 86نمبر پر ہیں، یہ نتائج بہت تشفی بخش تو نہیں، لیکن بہترہیں۔
 درجہ بندی کے اعتبار سے دیکھیں تو جنرل کوٹے سے 345ای ڈبلو ایس 99اوبی سی 263درج فہرست ذات اور قبائل سے 72امید وار منتخب ہو کر آئے، ان تمام کامیاب امیدواروں میں 38امور خارجہ 180آئی اے ایس، 200آئی پی ایس، 473مرکزی حکومت کے گروپ اے اور 31گروپ بی کی خدمات پر لگائے جائیں گے۔
 امسال کے نتائج امتحان کا جائزہ لیں تو مسلم امیدواروں کے حق میں یہ زیادہ بہتر نہیں ہیں، بلکہ مفت کوچنگ کے نام پر ملت کا جس قدر سرمایہ اس کام پر لگ رہا ہے، ہمیں اس تناسب سے کامیابی نہیں مل رہی ہے، تمام تر محنت کے باوجود ہمارے طلبہ اصل تحریری امتحان (مینس) میں نہیں لکھ پا رہے ہیں، اس لیے ان کے کٹ آف مارکس کم آ رہے ہیں۔2020میں ہمارے بچوں کا کٹ آف مارکس صرف پچاس فی صد تک جا سکا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ کس قدر پیچھے ہیں، جو تنظیمیں طلبہ کو یو پی ایس سی کے لیے تیار کرتی ہیں، انہیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری محنت میں کہاں کمی ہے، جو نتائج خاطر کواہ سامنے نہیں آ رہے ہیں، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم ان بچوں پر اپنی محنت اور سرمایہتو نہیں لگا رہے جو اپنی قابلیت اور ذہانت کے اعتبار سے اس امتحان کی تیاری کے لیے ہی موزوںنہیں ہیں۔

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

آزادی -انسان کا بنیادی حق ____
#Urduduniyanews72 #
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 محترم جناب مولانا محمد عبد الحفیظ اسلامی (1997)بن محمد قاسم صاحب مرحوم 1957میں غیر منقسم آندھرا پردیش اور موجودہ حیدر آباد دکن تلنگانہ کے ایک با شعور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، جامعہ نظامیہ حیدر آبادسے 1969میں فراغت حاصل کی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی تصنیفات وتالیفات سے استفادہ کرکے فہم قرآن اور فہم دین کی صلاحیت پائی ، رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کو زندگی کا نصب العین اور ایک خدا کی بندگی، تفرقہ سے اجتناب اور بنی آدم کے تصور انسانیت کی ترویج واشاعت کو زندگی کا مشن بنایا، اس فکر کو عام کرنے کے لیے ۲۵؍ نومبر 1996سے سینئر کالم نگار اور آزاد صحافی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور کثرت سے مضامین لکھنے، ہندوستان کا شاید ہی کوئی قابل ذکر اخبار ہوگا، جس میں مولانا کی تحریریں روز بروز نہ چھپتی ہوں، زود نویس ہیں، اس کے باوجود ان کے مضامین قرآن وحادیث سے مزین اور منطقی اسلوب سے آراستہ ہوتے ہیں، اس لیے قارئین پسند کرتے ہیں، موصوف کی کم وبیش سات کتابیں اے ایمان والو، رب کائنات کا فرمان، واقعہ معراج، تعارف قرآن ، تذکیرات، آداب بندگی اور آئینہ شہر وغیرہ طباعت کے مراحل سے گذر کر نذر قارئین ہو چکی ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں تلنگانہ اسٹیٹ اور مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں اعزازات وایوارڈ سے نوازا ہے۔
 انہیں مولانا عبد الحفیظ اسلامی کی کتاب آزادی- انسان کا بنیاد ی حق- دستور آسمانی اور منشور سلطانی کا تقابلی جائزہ ہے ۔ ایک سو چھپن صفحات کی یہ کتاب اس موضوع پر مختصر مگر دریا بکوزہ کے مصداق ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ اس کتاب کی قیمت دو سو روپے اردو کتاب کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، دار الاشاعت تعلیمات (فطرت انسانی) حیدر آباد اس کتاب کا ناشر ہے، ملنے کے پتے حیدر آباد کے ہی نصف درجن ہیں، سہولت مرکزی مکتبہ اسلامی چھتہ بازار حیدر آباد سے لینے اور منگوانے میں ہے، آپ چاہیں تو مصنف کے پتہ مکان نمبر  18-13- 8/J33/1 یونیک ریسیڈنسی، بنڈلہ گولہ، مین روڈ، جہانگیر آباد ، حیدر آباد 500005سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب کا پیش لفظ مفتی محمد ظہیر صادق حسامی ندوی نے لکھاہے ، آغازآغاز خود مصنف کتاب کا ہے، انتساب والدین مرحومین کے نام مولانا کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔
 کتاب کا آغاز اقوام متحدہ کا منشور ۔ ایک حسین دستاویز کے عنوان سے ہوتا ہے ، اس کے ذیل میں منشور کی حقیقت ، رکن ممالک ، حقوق کی پامالی، انسانی المیوں کو روکنے میں ناکامی اور اس جیسے کئی موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، مسئلہ فلسطین، بوسینیا میں مسلمانوں کے قتل عام، عراق پر حملہ، روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا بھی ذکر ہے، منشور سلطانی کے در وبست کا جائزہ لینے کے بعد مولانا دستور آسمانی پر آتے ہیں، اور ’’قوانین باری تعالیٰ میں انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت‘‘ قرار دیا ہے، اس ضمن میں آسمانی دستور کا دائزہ اطلاق، تصور حاکمیت ، فرائض کی اولیت، فطری اور پیدائشی حقوق، احترام آدمیت ، مشاورت کی اہمیت اور خلافت پر تفصیل سے مولانا نے روشنی ڈالی ہے، مولانا نے آسمانی حکمرانی کے لیے خلفاء راشدین کو مستقل نمونۂ تقلید قرار دیا ہے اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓکے دورخلافت کو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے۔ البتہ حضرت ابو بکر صدیق ؒ کے دور خلافت کا تذکرہ ذرا ہلکا ہے، حضرت عثمانؓ کا دور، ابتلاء وآزمائش کا ضرور تھا، لیکن اس موضوع سے متعلق ا ن کے دور کے کارہائے نمایاں کا ذکر بھی تفصیل سے آنا چاہیے تھا، کیوں کہ یہ نئی نسل کی ذہنی تطہیر کے لیے ضروری تھا، جو اس دور کے واقعات کو پڑھ کر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور صحابہ کرام کی طرف بھی ان کی نظر ترچھی ہوجاتی ہے، اور وہ اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کے حدیث ہونے کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ اس دور کے بڑے محقق محدث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد ؒ پالن پوری اسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیتے ہیں۔
 ان موضوعات سے فراغت کے بعد مولانا نے آداب معاشرت ، شخصی آزادی کے تحفظ ، اظہار رائے کی آزادی، مذہب ودھرم کے لیے زور زبر دستی نہیں اور بھارت دیش ایک عظیم جمہوریت کو بھی اپنی تحریر کا موضوع قرار دیا ہے۔
 مولانا کی تحریر کا اپنا رنگ وآہنگ ، فکر کی راستگی اور مطالعہ کی گہرائی ہے، قرآن واحادیث اور نصوص پر ان کی نظر اچھی ہے، اس لیے جو بھی لکھتے ہیں، مدلل لکھتے ہیں، البتہ حوالہ جات کے ذکر کا اہتمام کم کرتے ہیں، مضامین میں اس کی گنجائش بھی ذرا کم ہی ہوتی ہے، قاری حوالوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے اور مطالعہ کا تسلسل متاثر ہوجاتا ہے، مضمون کو پڑھتے وقت جو فکری ارتکاز اور یک سوئی ہونی چاہیے، وہ باقی نہیں رہتی ، اس لیے رسائل کے لیے جو مقالات لکھے جاتے ہیں، ان میں اس کا اہتمام کیاجاتا ہے، مضامین میں نہیں ، لیکن یہ مضامین ایک خاص ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں اکائی کے طور پر قارئین کے سامنے لائے گئے ہیں، اس لیے ان میں حوالوں کا اہتمام ہونا چاہیے تھا۔
 مولانا کی یہ کتاب اس خاص موضوع پر اہم ہے،اس موضوع پر مولانا اختر امام عادل کی کتاب ’’حقوق انسانی کا عالمی منشور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور مقبول ہے۔ کتاب خوبصورت چھپی ہے، دیدہ زیب ہے، سر ورق پر دو ہاتھوں کی تصویر ہے، جس نے زنجیروں کو توڑ دیا ہے، اس سے مصنف کی رجائیت کا پتہ چلتا ہے کہ ظلم وجور ، حق تلفی ، ستم شعاری کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور دستور آسمانی سے منشور سلطانی مغلوب ہو کر رہ جائے گا، بے اختیار فیض یاد آگیے، کہتے ہیں۔
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں 
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

دکھا دے یا الہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے ، جہاں پر رات دن مولیٰ تیری رحمت برستی ہے۔

دکھادے یا الٰہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے
Urduduniyanews72 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

اللہ رب العزت کا عظیم فضل و احسان ہے کہ آپ حضرات کچھ دنوں کے بعد سرزمین حجاز پر قدم رکھنے والے ہیں آپ بڑے خوش نصیب اور قابلِ مبارکباد ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے گھر کی زیارت اور اپنی خصوصی مہمان نوازی کا شرف بخشا ہے اور دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے آپ کا انتخاب کیا ہے اس پر اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ کچھ دنوں کے بعد آپ اس سر زمینِ مقدس پر چلتے ہوں گے  جس سرزمین کی عظمت و تقدس پر فرشتوں کو رشک ہے اس متبرک زمین کے ادب و احترام کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہاں سر کے بل چلا جائے ۔ عازمین حج کی فہرست میں آپ کا نام سرزمین حرمین شریفین کے متوقع قیام اور عنقریب حاجی کے معزز لقب سے سرفراز ہونے والوں میں شامل ہونے پر ہم آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سبھی حضرات کو حج مبرور سے سرخرو فرمائے آمِین ۔
یثرب کو جانے والے میرا سلام لے جا میرا پیام لے جا ،
تیری مراد مندی تجھ کو پکارتی ہے آ باریاب ہو جا ۔
بیت اللہ شریف میں دائمی کشش : چھوٹا ہو یا بڑا ہر بندے کے دل میں بیت اللہ شریف کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے آپ امیر غریب پڑھے لکھے یا ان پڑھ جس مسلمان سے بھی پوچھیں گے اس کے دل میں بیت اللہ کو دیکھنے کا ایک شوق ہوگا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کو دیکھنا چاہتا ہوں ایسے بھی لوگ ہیں جو گھر کی چیزیں بیچ کر اس گھر کو دیکھنے کے لئے سفر کرتے ہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے بیت اللہ شریف میں بنیادی طور پر ایک کشش رکھ دی ہے ۔جس سے بھی پوچھ لیں اس کے پاس جانے کی گنجائش ہو یا نہ ہو اس کے دل میں تڑپ ضرور ہوگی وہ تنہائیوں میں رو رو کر اللہ رب العزت کے حضور دعائیں مانگے گا کہ مولا کبھی مجھے بھی توفیق عطا فرما کہ میں بھی تیرے گھر کا طواف کر وں وہ کتنے خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو احرام باندھ کر نکلتے ہیں لبیک اللہم لبیک پڑھتے ہیں کوئی تیرے گھر کا طواف کرتا ہے کوئی مقام ابراہیم پر سجدے کرتا ہے کوئی غلافِ کعبہ کو پکڑ کر دعائیں مانگتا ہے اور کوئی ملتزم سے جاکر لپٹ جاتا ہے اے اللہ تو میرے لیے بھی اسباب پیدا فرما تاکہ میں بھی اپنی اس دیرینہ خواہش کو پورا کر سکوں ۔
مکہ افضل ہے یا مدینہ :
اگر چھوٹی شئ کو بڑی شئ سے نسبت ہوجائے تو وہ بھی بڑی سمجھی جاتی ہے خدا کے بعد مدینہ والے سرکار سب میں افضل ہیں لہذا جس کو رسولِ اکرم ﷺ  سے نسبت ہوتی گئی وہ زمانہ میں افضل و اعلیٰ ہوتا گیا رسول اللہ ﷺ کا  ملک عرب عجم سے افضل ہے اور عرب میں رسول اللہ ﷺ  کا حجاز افضل ہے حجاز میں مکہ مکرمہ افضل ہے مکہ مکرمہ میں کعبہ افضل ہے بلکہ کعبہ بیت المقدس سے افضل ہے وجہ یہ ہے کہ بیت المقدس یہودیوں اور عیسائیوں کا قبلہ ہے اور کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے حج کعبہ کا ہوتا ہے بیت المقدس کا نہیں ہوتا اس لیے کہ بیت المقدس کے بنوانے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور بنانے والے جنات ہیں مگر کعبہ کا بنانے والا رب العالمین ہے نشان بنانے والے جبریلِ امیں ہیں تعمیر کرنے والے خلیل اللہ ہیں امداد پہنچانے والے ذبیح اللہ ہیں اور آباد کرنے والے محمد الرسول اللہ ہیں تمام انبیاء کی اولادوں میں اولاد ابراہیم افضل ہے اولاد ابراہیم میں قریش افضل ہے اور قریشیوں میں  بنو ہاشم افضل ہیں اور بنو ہاشموں میں سب سے افضل محمد الرسول اللہ ہیں ۔ تمام زبانوں میں عربی زبان سب سے افضل ہے محض اس لیے کہ عربی قرآن کی زبان ہے عربی جنتی زبان ہے عربی محبوب خدا کی زبان ہے عربی بولتے ہوئے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور عربی بولتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گئے ۔اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ جب تک سرکار دوعالم ﷺ  مکہ میں جلوہ گر رہے مکہ افضل تھا اور جب مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو مدینہ افضل ہوگیا  مکہ میں ہر نیکی کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے تو ہر بدی کا گناہ بھی ایک لاکھ کے برابر ہے مگر مدینہ منورہ میں ایک نیکی کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے اور ایک بدی کا صرف ایک ہی گناہ ہے کعبہ کی ہر چیز سیاہ ہے اور مدینہ میں ہر چیز سبز ہے کعبہ کو دولہا کا فراق ہے اور مدینہ کو دولہا کا وصال ہے مکہ میں خدا کا جلال ہے مدینہ میں مصطفٰی کا جمال ہے مکہ میں آب  زم زم ہے مدینہ میں آب کوثر ہے مکہ میں عرفات ہے اور مدینہ میں رحمت کی برسات ہے مکہ میں غار حرا ہے مدینہ میں گنبد خضرا ہے مکہ کی خاک بھی دونوں جہان سے افضل ہے رسولِ اکرم ﷺ  کے جلوہ افروز ہونے سے قبل مدینہ مدینہ نہیں تھا یثرب تھا بیماریوں کا گھر تھا رسول اللہ ﷺ  جلوہ گر ہوئے اور یثرب سے مدینہ بن گیا ۔
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ میں فدا ہوتا تا ، جو بس چلتا تو مر کر بھی نہ میں تجھ سے جدا ہوتا ۔
مدینہ کی ہوا اور کھجوریں : 
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں ایک حاجی صاحب نے مدینہ منورہ کا رومال پیش کیا آپ نے کمال عقیدت سے اسے چوما آنکھوں پر رکھا اور سینے سے لگایا حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا حضرت یہ رومال تو یورپ سے بن کر جاتے ہیں عرب کے بنے ہوئے تھوڑے ہیں حضرت نے فرمایا میں بھی جانتا ہوں وہاں کے بنے ہوئے نہیں ہیں لیکن ان کو مدینہ کی ہوا تو لگی ہوئی ہے ۔
ایک دوسرے صاحب نے مدینہ منورہ کی کھجوریں پیش کیں آپ نے کھجوریں تناول فرمانے کے بعد ان کی گٹھلیاں کھانے کے بجائے پیس کر پھانک لیں اور انہیں کچرے میں پھینکنا گوارہ نہ کیا ۔
مسجدِ نبوی کے چند ستون ! 
مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں جنت کی کیاری کے اندر چند ستونوں پر آج بھی کتبے لکھے ہوئے ہیں ان میں کا ہر ستون اپنے دامن میں بڑے بڑے عبرت آموز اور ایمان افروز تاریخی واقعات کا دفتر لیے ہوئے ہے ۔ ایک ستون کا نام  ( اسطوانۃ الوفود ) ہے یہ وہ ستون ہے کہ رسول اکرم ﷺ  اس ستون سے ٹیک لگا کر دور دور سے آنے والے قبائل کے نمائندوں کو اپنی زیارت کا شرف عطا فرمایا کرتے تھے ۔ ایک ستون پر ( اسطوانۃ الحنانۃ ) تحریر کیا ہوا ہے یہ وہی ستون ہے جو رسول اللہ صلی اللّٰہ ﷺ  کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ انہی ستونوں میں سے ایک ستون کا نام  (  اسطوانۃ التوبہ ) ہے ۔
دکھا دے یا الہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے ، جہاں پر رات دن مولیٰ تیری رحمت برستی ہے۔

اتوار, مئی 28, 2023

بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھکچھ نہ سمجھےخداکرےکوئی

بک رہا ہوں جنوں میں۔۔۔۔۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲
          انس مسرورانصاری

بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھ
کچھ نہ سمجھےخداکرےکوئی 
                              (غالب) 
    جب حیدرآبادوالےکہتے ہیں کہ لکھنؤ والوں نے اردو کی قبر پر تلسی کے پودے لگادئیےہیں تو اچھا نہیں لگتا۔ہر اچھی اورسچی بات کہاں اچھی لگتی ہے۔۔ مگر لکھنؤ والوں کے پاس      اس حقیقت کا کوئی جواب بھی تو نہیں ہے۔ ا       اسی خطہءلکھنؤمیں بہت بڑے بڑےعلاقے ہیں جولکھنؤدبستان ادب سےمنسلک مانےجاتےہیں 
      ۔اردو سے محبت کا دعویٰ کرنے والے جس عجلت میں اردو رسم الخط کو مٹا دینے کے مشن پر کام کررہےہیں،اس کی مثال دنیابھر کے لسانی ادب میں کہیں  نہیں ملتی۔ 
    کتنابڑاالمیہ ہے۔افسوس صد افسوس۔۔۔ آہ اردو بے چاری۔۔۔۔۔!کتنا فریب کارانہ دعویٰ ہےمحبت کا۔۔۔ محض زبانی جمع خرچ۔۔۔۔۔! 
      کوئی زبان صرف ایک زبان نہیں ہوتی۔ اس کے پس منظر میں پوری ایک تہذیب اور صدیوں کا تمدن ہوتاہے۔یہ تہذیب اور تمدن قومی شناخت اورعلامت ہوتےہیں لیکن کیاکیجئے۔زوال آمدہ قوم اسی طرح اپنی لسانی تہذیب کو مٹاتی رہتی ہے۔غیرمحسوس اورغیرشعوری طورپراورکبھی خودغرضی کے تحت ذاتی مفادکےلیےبھی۔پھر وہ زمانہ بھی آتاہے جب اس کے پاس اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔اس کی ہر چیز غیروں سےمستعارلی ہوئی ہوتی ہے۔کہتے ہیں نا۔۔۔ جس قوم کو مٹا نا ہو،غلام بناناہو، سب سے پہلے اس قوم کی زبان چھین لو،وہ قوم اپنی تہذیب اور تمدن سمیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔اس کی تاریخ،اس کا کلچر،اس کی تہذیب و تمدن سب کچھ تاریخ عالم کے اہرام میں سجی ہوئی ممیوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔پھر تاریخ کروٹ لیتی ہے تو ان ممیوں کوکوڑےکباڑمیں پھینک جاتی ہے۔
       زبان چھین لینےکامطلب ہے کہ اس کے رسم الخط کی اہمیت سے اس کو غافل اور بے گانہ وبے نیاز کردیا جائے۔ ہم اردو والے بڑے خلوص اور محنت سے آج یہی کام کررہےہیں۔اردو زبان کومٹانےکےلیےہمیں کسی اردو دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے۔ہم تو خود ہی اردوکو مٹانےَکےدرپےہیں سوایک دن اپنی نادانیوں اور خودغرضیوں کےپہاڑسےدبادیں گے،مٹا دیں گے۔ہم اپنی لسانی وراثت کے مجرم ہیں۔اپنے اسلاف کی ںاخلف اولاد ہیں ہم۔۔۔ناردو زبان کو نہ ہم خودپڑھیں گے نہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے۔اردو کی روٹیاں توڑیں گے لیکن گھر میں اردو کے بجائے ہندی کے اخبارات منگوایں گے۔بہت ہواتوانگریزی کااخبارمنگالیں گےمگراردو اخبار۔؟ توبہ۔۔۔توبہ۔۔۔استغفراللہ۔                                                پچاس ہزار اورایک لاکھ تک اوراس سے بھی زائد اردوکےنام پر تنخواہیں لیں گے مگر پانچ روپئے کاایک اردو اخبار نہیں خریدیں گے۔اردو کےنام پر اپنی ایک کپ چائے نہیں کم کریں گے۔ اردو زبان کے طفیل میں حاصل شدہ روپیوں سے اپنی ہر ضرورت پوری کریں گے۔ سارے کنبہ کی پرورش کریں گےاور اپنے بچوں کواردوسےدوررکھیں گےکہ اردوپڑھتا  ہی کون ہے۔اس کےپڑھنےکافائدہ ہی کیا ہے۔ہماری غلامانہ ذہنیت کو اردو زبان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ہم حسین کے مقابلے میں یزیداوراس کے جانشین ہیں۔اردو اکادمیوں سے اردو مشاعروں اور سیمیناروں کےنام پر لاکھوں روپیوں کا فنڈ لیں گے لیکن پوسٹر اورتشہیری کام ہندی میں کریں گے۔ہمیں اپنی جیبیں بھرنے اوراپنی  شہرت سے مطلب ہے۔۔اردو سے ہمیں کیا لینا دینا۔۔۔ کتاب اردو میں چھپوائیں گےاورپبلیسٹی ہندی میں کریں گے۔

 ہندی میں بات کیجئے،انگلش میں جھاڑئیے
  اردو کی قبر کھو د کے جلد ی سے  گاڑئیے

   اردو کا نام ضرور لیں گے لیکن جب تک اسے
 مٹا نہیں دیں گے،دم بھی نہیں لیں گے۔ ہم اردو والےہیں۔اردو کاکھائیں گے۔۔ اردو کی دہائی دیں گے مگر اردو رسم الخط کو ہندی کا روپ دے کر اس کی جان بھی لے لیں گے۔۔ ہم اردو والےہیں۔کہتے ہیں کہ زبان ماں کی ہم رتبہ ہوتی ہے۔ماں کی طرح یا ماں جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے مادری زبان کہلاتی ہے۔ہم نے جب بولنا سیکھا تھاتو سب سے پہلے اماں۔۔۔ اماں۔۔۔کہا تھا۔ابا۔۔۔ ابو۔۔۔ بابا۔۔۔ دادا۔۔۔ دادی۔۔۔۔نانا۔۔۔۔ نانی۔۔۔۔کھانا پانی ،کہاتھا۔۔۔ہمارے منھ میں زبان تھی مگراردو نے ہمیں بولناسکھایا۔ایک ماں کی طرح ہماری ضرورتوں کا خیال رکھا۔۔۔ 
بچپن میں اسی اردو زبان کے وسیلوں سے ہم نے اپنی ہر ضرورت کااظہارکیاتھا۔ہماری ہر ضرورت کو اسی اردو نے پورا کیا تھا۔لیکن جب ہم بڑے ہوئے تواسےاپنےگھرکےباہرنکال دیا۔ہم  ماں کے پوت ہیں نہ ماں کےسپوت۔ہم تو ماں کےکپوت ہیں۔اب اگر کچھ لوگ ہمیں بے وفائی،بےرحمی اورستم گری کےطعنے دیتے ہیں تو دیتے رہیں۔ کیا فرق پڑتاہے۔ہم توچکنے گھڑے ہیں جن پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹکتی۔چونکہ ہندی والے ہمیں گھاس تک نہیں ڈالتے اس لیے مجبوراً ہمیں اردو میں کتابیں چھپوانی پڑتی ہیں۔ اردو اکادمیوں سے ہمیں آسانی سے روپئیےمل جاتے ہیں۔۔ کتاب پر آسانی سے انعام بھی مل جاتے ہیں۔اور کیوں نہ ملیں گے۔۔ ہمیں سیاسی لیڈروں کی حمایت جو حاصل ہے۔اسی طرح ہم بڑے بڑے ایوارڈز بھی چھین لیتے ہیں۔۔ ہم نام اردوکاضرورلیتے ہیں لیکن کام ہندی کاکرتےہیں۔
     ہم  اس کےزبانی طرف دارہیں۔ہم میر جعفر اور میر صادق کےبھتیجےہیں۔اوریہ سچ ہےکہ ہم نے اردو کی قبربناکراس پرتلسی کےپودے لگادیےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
     پیوند لگے، پھٹے،پرانے،چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی اس لڑکی کو آپ دیکھ رہےہیں۔؟اپنوں ہی کے ہاتھوں سربازار ذلیل ورسوااور خوار، وہ اردوہے۔غیروں کی ٹھکرائی ہوئی۔اپنوں کی ستائی ہوئی۔!بخداہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں۔اردو کے دوست بھی نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے اردو کو ہندی کی بیساکھی پکڑا دی ہے۔حالانکہ اردولنگڑی ہےاورنہ اپاہج مگر ہم اسے اپاہج بنا دیں گے۔ ہم چاہیں تو اس کے رسم الخط کےذریعےسوشل میڈیامیں اس کی دھوم مچا دیں اور موجودہ زمانہ میں داغ کے شعر کو صادق القول کردیں۔
    اردو ہےجس کا نا م ہمیں جا نتے ہیں داغ
   سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 لیکن ہم ایسا کریں گےنہیں۔کیونکہ ہم احساس کمتری کے شکار لوگ ہیں۔اپنی عام بول چال کی زبان میں بھی ہم اردو کے الفاظ 
 کم سے کم کرتےجارہےہیں۔ان کی جگہ ہندی اورانگریزی کے لفظوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ اس لیےکررہےہیں تاکہ ہماری جہالت کا بھرم قائم رہےاورہم پڑھےلکھےنظرآئیں۔

 سر برہنہ سی وہ لڑکی جو سراسیمہ ہے
میر ی اردو ہےجو رسوا سر با ز ا ر ہے،اف 

       دوستو!آؤ! اب صف بستہ ہوجائیں اور زبان اردو کے لیے نمازجنازہ پڑھ لیں۔۔ آہ ائے اردو۔۔۔ ہائے اردو۔۔۔ وائے اردو۔۔۔۔!!تیرے لوگوں نے تیرا نام لےکرتجھےبےموت مارڈالا۔۔۔۔۔ 

                انس مسرورانصاری
     
   قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۔یو،پی
  رابطہ/وہاٹس ایپ نمبر۔ 9453347784/

جمعرات, مئی 25, 2023

علم کے ساتھ حلم بھی حاصل کریں : حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن پٹنہ ۔

علم کے ساتھ حلم بھی حاصل کریں : حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن پٹنہ ۔
Urduduniyanews72
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ کے زیر اہتمام استقبالیہ تقریب بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا ۔

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ25/مئی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ میں نئے طلبہ وطالبات کے اعزاز میں  ایک اعزازیہ واستقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
جس میں جامعہ ہذا کے تمام طلبہ وطالبات سمیت علاقے کے کئ اہم شخصیات نے شرکت کی ۔
اس پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ نے فرمائی۔
نظامت کا فریضہ مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی استاذ جامعہ ہذا نے انجام دی ۔
مہمان خصوصی کے طور پر آصف سہیل، آفتاب عالم سمستی پور موجود تھے۔
مہمان اعزازی کے طور پر حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن پٹنہ نے شرکت کی ۔
پروگرام کا آغاز حافظ اعجاز کے قرآن مجید کی تلاوت سے ہوئی ، بعدہ قاری واجد علی عرفانی استاذ جامعہ ہذا ،اور شہزاد عالم نے نعت پاک پیش کیا ۔
اس کے بعد ناظم پروگرام محمد ضیاء العظیم نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے حصول علم اور اس کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے نئے طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی فرمائی ۔
پھر مہمان خصوصی وماہر نفسیات حافظ شارق خان نے بچوں کے درمیان نصیحت آموز خطاب کرتے ہوئے قرآن و احادیث کی روشنی میں علم کی اہمیت و افادیت پر بہترین کلام کیا،مزید طلبہ وطالبات سے حصول علم کے ساتھ ساتھ حلم بھی حاصل کرنے کی تلقین کی ۔
مولانا ومفتی نورالعظیم مظاہری مہتمم جامعہ ہذا نے بھی طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں جہد مسلسل کے ساتھ حصول تعلیم میں لگے رہنے کی تلقین کی، ساتھ ہی ساتھ مدرسہ میں جو دشواریاں درپیش آتی ہیں ان پر صبر کرتے ہوئے حصول علم میں لگے رہنے کا مشورہ دیا۔
آخر میں صدر محترم نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انھیں بہترمستقبل کی دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہم سب کو دینی تعلیم حاصل کرنے کی سعادت بخشی ہے۔یقیناً علم حاصل کرنا ایک کا اہم فریضہ ہے، خصوصاً دینی تعلیم ۔اسی کے ساتھ صدر محترم کی اجازت سے قاری واجد علی عرفانی کے اظہار تشکر کے ساتھ دعا پر مجلس کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔
واضح رہے کہ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ جو کہ امارت شرعیہ سے تقریباً ڈیڑھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے،جس کی بنیاد محض اخلاص وللہت پر ہے، اس ادارہ نے بہت کم وقتوں میں اپنی خدمات کی بنا پر ایک انفرادی شناخت قائم کرچکا ہے، اسی سال شعبان المعظم کے ماہ میں 16/حفاظ کرام جنہوں نے اس ادارہ سے تکمیل حفظ قرآن کیا ان کے سروں پر دستارِ فضیلت باندھی گئی۔
اس وقت ادارہ میں پانچ ماہر وباہر اور محنتی اساتذۂ کرام، ایک باورچی اور تقریباً تیس طلبہ ہاسٹل میں مقیم ہیں جن کی مکمل کفالت مدرسہ ھذا کے ذمہ ہے ،نیز بیس مقامی طلبہ وطالبات اپنے مقرر وقتوں میں آکر علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،یہ ادارہ محض فی سبیل اللہ اور اہل خیر خواتین وحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے ۔

بدھ, مئی 24, 2023

سیاہ خضاب احکام اور شبہات کا تحقیقی جائزہ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سیاہ خضاب احکام اور شبہات کا تحقیقی جائزہ
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
      مفتی رضوان اللہ بن مولانا محی الدین لدھیانوی جواں سال عالم دین ہیں ، گذشتہ سال ہی وہ دار العلوم دیو بند کے شعبۂ تکمیل افتاء سے فارغ ہوئے ہیں اور اب امارت شرعیہ کے دار القضاء سے تربیت لینے کے لیے ان کا پھلواری شریف  یہ کتاب ا نہیں مفتی رضوان اللہ صاحب کی تالیف لطیف ہے، جس کے لیے انہوں نے جامع ومرتب کا لفظ استعمال کیا ہے ، دعویٰ مصنف ہونے کا نہیں جمع وترتیب کا ہے، مجھے یہ کتاب انہوں نے دعا لینے کی غرض سے دی ، لیکن میری سوچ اور طریقۂ عمل یہی رہا ہے کہ ایسے نو جوان اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے؛ تاکہ وہ مستقبل میں بڑے کام کر سکیں، اس لیے میں اس بات پر ہمیشہ زور دیتا ہوں کہ نئے لکھنے والوں کی تحریر وتحقیق کا مقابلہ پرانے اور مشاق محققین اور مصنفین سے کرنا زیادتی ہوگی، کوئی بھی مرتب ، مؤلف اور مصنف بیک وقت بڑا نہیں ہوجاتا، مستقل محنت اور لگن سے اس کی تحریر پُرکشش اور اس کی تحقیق قابل داد ہوجاتی ہے، یقینا بعض مصنفین کی ایک ہی کتاب یا ایک ہی مضمون نے انہیں اہل علم میں درجۂ اسناد کو پہونچا دیا ، لیکن یہ شاذ ہے۔ اور الشاذ کالمعدوم انتہائی مشہور مقولہ ہے، آپ اسے مستثنیات کے خانہ میں بھی ڈال سکتے ہیں۔
 ’’سیاہ خضاب احکام وشبہات کا تحقیقی جائزہ‘‘ اس موضوع پر عمدہ اور جامع کتاب ہے، جو مؤلف کے روشن مستقبل کی غماز ہیں، وہ جو مثل مشہور ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں، وہ مفتی رضوان اللہ صاحب پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے، میں نے ملاقات میں بھی پایا کہ ان کے اندر مختلف مسائل کے سلسلے میں تجسس ہے، وہ سوال کرکے مطمئن ہونا بھی چاہتے ہیں، ذہن میں سوال کاپیدا ہونا ، جواب تلاشنے کی فکر کرنا ان کے اخاذ ذہن کی علامت ہے، ذہن اخاذ ہو تو کتابوں سے معلومات کا حصول کچھ دشوار نہیں، مولانا کو مرتب کرکے چیزوں کو پیش کرنا بھی آتا ہے، جس کا ثبوت زیر تبصرہ کتاب ہے، اس کا مطلب ہے کہ ان کے اندر قوت اخذ بھی ہے، اور طاقت عطا بھی ۔
 یہ کتاب چھیانوے صفحات پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب والدین، بھائی اور دومادر علمی کے نام ہے، جن کی عنایتوں اور توجہات سے مؤلف اس مقام تک پہونچ سکے، فہرست میں باب اول کو عرض مرتب کے بعد ہونا چاہیے تھا جیسا کہ کتاب کے اندرونی صفحات میں ہے، لیکن یہ سب سے اوپر درج ہو گیا ہے ، دعائیہ کلمات مولانا مفتی محمد سلمان منصور پوری ، کلمات تبریک مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب مہتمم دار العلوم دیو بند ، رائے عالی مولانا مفتی افروز عالم قاسمی  مہتمم مدرسہ سراج العلوم محمدیہ بانگڑیاں، پنجاب کا ہے اور عرض مرتب خود مؤلف کا ، اس میں ایک غلطی تو یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا گیا ہے ، مہتمم دار العلوم دیو بند سے قبل مفتی محمد سلمان منصور پوری کی عظمت تسلیم کرنے کے باوجود دعائیہ کلمات کا رکھنا سمجھ میں نہیں آیا، دوسری غلطی یہ ہوئی ہے کہ فہرست میں جو صفحہ نمبر درج ہے، وہ ایک نمبر آگے ہے، مثلا انتساب صفحہ ۹؍ پر ہے، لیکن فہرست میں صفحہ ۱۰؍ درج ہے ، یہ غلطی بعد کے صفحات میں بھی ہوتی چلی گئی ہے ۔ اسی طرح کتاب میں پروف کی بہت ساری غلطیاں ہیں، یقینا غلطیاں نظر سے اوجھل رہ جاتی ہیں اور کمپیوٹر کے زمانہ میں اس میں کچھ اضافہ ہی ہوا ہے، پھر بھی اس معاملہ میں حساس ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ قارئین پریشان نہ ہوں۔
 کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں خضاب کی لغوی تحقیق کے بعد  خضاب کے اقسام کا ذکر کیا گیا ہے، جو مؤلف کتاب کے نزدیک بشمول سیاہ خضاب چھ ہے، اس کے بعد خضاب کے احکام پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اور خضاب بالزعفران پر خصوصی تحقیق مؤلف نے پیش کیا ہے ، دوسرا باب سیاہ خضاب لگانے کی ممانعت پر ہے، اس میں مؤلف نے مختلف صورتوں کو آثار واقوال سلف ، ائمہ ومحدثین ، قدیم وجدید فقہاء اور فقہ کی مشہور کتابوں کے حوالہ سے سیاہ خضاب لگانے کی حرمت ثابت کی ہے، ہندوستان کے بڑے مفتیان کرام کے فتووں سے استشہاد کیا ہے اور بتایا ہے کہ فوجیوں کے علاوہ کسی کو بھی خضاب لگانے کی اجازت نہیں ہے ، حتی کہ بیوی کو خوش کرنے کے لیے شوہر سیاہ خضاب نہیں لگا سکتا ، تیسرے باب میں سیاہ خضاب لگانے کے جو از پر جن لوگوں کی تحریریں ہیں، اس کا تحقیقی جائزہ لے کر سارے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے، چوتھے باب میں اس مسئلہ سے متعلق مختلف احکام ومسائل کو جمع کر دیا گیا ہے،حضرت مہتمم صاحب دار العلوم دیو بند نے بجا فرمایا ہے کہ ’’مرتب کتاب نے خاصی محنت کی ہے اور مسئلہ کے ہر پہلو کو واضح کر دیا ہے۔ مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری کی یہ رائے بھی سوفی صد صحیح ہے کہ ’’موضوع سے متعلق حتی الامکان ضروری معلومات جمع کر دی ہے، ‘‘ موصوف کی یہ محنت بہت قابل قدر ہے۔
اس مسئلے پر احقر کی رائے بھی یہی ہے کہ سیاہ خضاب لگانا ممنوع ہے۔ تاکہ دوسرے لوگ دھوکہ نہ کھائیں، فوجیوں کو اس کے لگانے کی اجازت اس لیے ہے کہ ’’الحرب خدعۃ‘‘ کہا گیا ہے ، جن لوگوں نے بیوی کے لیے شوہر کو کالے خضاب لگانے کی بات کی ہے ان کے پیش نظر یہ ہے کہ بیوی سیاہ خضاب لگانے سے دھوکہ نہیں کھائے گی، اس لیے کہ وہ شوہر کے تمام احوال سے واقف ہے اور خوب جانتی ہے کہ کالا خضاب لگا کر جوان بننے کی بہ تکلف کوشش کی جارہی ہے ۔ 
کتاب اپنے موضوع پر انتہائی جامع اور مدلل ہے، لیکن بعض غلطیاں ایسی داخل ہو گئی ہیں، جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، مثلا صفحہ ۵۰؍ پر فتاویٰ دار العلوم دیوبند سے ایک فتویٰ نقل کیا گیا ہے، مستفتی نے بیوی کے اصرار کا ذکر کیا ہے کہ وہ ڈاڑھی میں خضاب سیاہ لگانے کو کہتی ہے، ایسے میں سیاہ خضاب لگانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب میں لکھا گیا ہے کہ عورتوں کے لیے سیاہ خضاب کرنا مکروہ ہے، اس کو کہتے ہیں، سوال دیگر اور جواب دیگر ، اگر واقعۃً فتاویٰ دارالعلوم میں اس سوال کا یہی جواب مذکور ہے تو ہم جیسے لوگ تعجب کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں، لیکن اگر یہ الٹ پلٹ مؤلف کی وجہ سے ہوا ہے تو یہ تحقیق کا اتنا بڑا نقص ہے کہ ساری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔
 کتاب مکتبہ عبد الرحمن ہنو کندن پوری سول لائن لدھیانہ ، پنجاب سے حاصل کی جا سکتی ہے، قیمت کہیں درج نہیں ہے ، اس لیے مفت حاصل ہونے کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...