Powered By Blogger

جمعرات, جون 01, 2023

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظرمفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لیے آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ واحدہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک امت اور ایک جماعت بنایااور مسلمانوں کو متحد رہنے اور اجتماعی نظام کو برپا اور بر قرار رکھنے کی تعلیم دی، اس سے جو الگ ہوا، اسے جہنم کی وعید سنائی، اللہ رب العزت نے اعتصام بحبل اللہ یعنی دین کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا، اور تفرقہ سے دور رہنے کی تلقین کی۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے خلافت کو علی منہاج النبوة باقی رکھا اور امیر المومنین کے لقب سے یاد کیے گیے، بعد میں ”المومنین“ کا لفظ ہٹ کر صرف ”امیر“ رہ گیا، چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ امیر ہی سے مشہور ہوئے ،پھر دھیرے دھیرے یہ امیری، ملوکیت اور شہنشاہیت میں بدل گئی، پورے دور بنو امیہ اور بنو عباسیہ میں یہی کیفیت رہی، اسلام کے بعض اصول وضوابط پر عمل ہوتا رہا اور بیش تر امور بادشاہوں کے چشم وابرو کے اشارے پر انجام پذیر ہوتے رہے، ایسے میں دھیرے دھیرے خلافت ختم ہو گئی اور عربوں میں ملوکیت کا غلبہ ہو گیا، مرکزِ خلافت عربوں سے نکل کر ترکی منتقل ہوا، یہاں بھی سلطانی جمہور کا ایک طویل دور گذرا، پھر خلافت عثمانیہ قائم ہوئی، دور دراز کے ممالک اس کے زیر نگیں تھے، ہندوستان میں گو انگریزوں کی حکومت تھی؛ لیکن مسلمان خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے، مغلیہ حکومت کے ز وال کے بعد وہ خلافت عثمانیہ کو علامتی طور پر گم گشتہ سرمایہ سمجھتے تھے،28/ جولائی 1914سے 11/ نومبر1918ءتک پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے حلیف ممالک کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا، مغربی ممالک نے معاہدہ لوزان کرکے ترکی کو بے دست وپا کر دیا، اور ترکی کا ”مرد بیمار“ اس کا مقابلہ نہیں کر سکا، اور بالآخر یکم نومبر 1922ءکو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، ہندوستان میں زبر دست خلافت تحریک چلی؛ لیکن حاصل کچھ نہیں نکلا۔کچھ سالوں قبل ترکوں کا ”مرد بیمار“ تندرست وتوانا و دانا ہو کر ہمارے سامنے آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی_
 مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کو اللہ رب العزت نے دور اندیشی اور فکر وفہم کی دولت سے مالامال کیا تھا، اپنی دور اندیشی سے انہوں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے، وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں بھی سلطانی جمہور کا زمانہ آنے والا ہے، ایسے میں خلافت علی منہاج النبوة کا قیام ہندوستان میں ممکن نہیں ہوگا، انہوں نے ایک نیا تصور پہلی بار ”تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة“ کا دیا، یعنی نبوی طریقہ کار کو سامنے رکھ کر اپنے اوپر شریعت کو نافذکیا جائے، ان کی اس نئی سوچ اور فکر کی ہندوستانی علماءنے تائید کی، مولانا نے تین مرحلوں میں الگ الگ پلیٹ فارم سے اس فکر کو عام کرنے کے لیے تحریک چلائی، پہلے انجمن علماءبہار بنایا، پھر جمعیت علماءکی داغ بیل اکابر علماءکے ساتھ مل کر ڈالی اور بالآخر اسلام کے اجتماعی نظام کی بقاءاوراس کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے 26جون 1921ءمطابق 19شوال 1339ھ کوغیر منقسم بہار میں ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ کی جدوجہد سے امارت شرعیہ کاقیام عمل میں آیا، یہ دراصل خلافت راشدہ کی عدم موجودگی میں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی ایک شکل اور ملت کی شیرازہ بندی کے لئے ایک شرعی تنظیم ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی ؒ نے امارت شرعیہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ”کسی ایک لائق شخص کی سربراہی میں افراد امت کی ایسی شیرازہ بندی کہ اس پر جماعت کا اطلاق ہو سکے، احکام شرعی کا نفاذ واجراءبقدر امکان انتظام پا سکے اور جمعہ وجماعت، نکاح وطلاق ومیراث وغیرہ کے احکام کی تنفیذ ہو سکے اور اگر اس سے زیادہ قوت ہو تو استخلاف وتمکین فی الارض کا وہ فرض بھی ادا ہو سکے جس کی بشارت قرآن پاک نے دی ہے“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ:9)
مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے امارت کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ”اس قسم کے نظم ملت سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کی وحدت نمایاں ہو، ان کے تمام مذہبی وملی کام منظم ہوں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں، ان کے مصارف مداخل ملی میں ایک نظم پیدا ہو اور اصلی جماعتی روح ان میں نمایاں ہو، دار القضائ، دار الافتاءاور بیت المال کا قیام ہو، ان کے غریبوں اور محتاجوں کی با قاعدہ امداد ہو، ان کی معاشرتی خرابیوں کی اصلاح ہو، تبلیغ واشاعت کا سلسلہ قائم ہو، ان کے مکاتب ومدارس مالی نزاع سے نجات پائیں“(ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ 96)
اس تنظیم میں کلیدی حیثیت امیر شریعت کو حاصل ہے، سارے امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے ان کی سمع وطاعت معروف میں واجب ہے، زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں انجام پائیں، اس کی کوشش کی جاتی ہے؛ البتہ ان کی حیثیت امیر کی ہوتی ہے، امیر المومنین کی نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ایک کارکن نے اپنی ترقی سے متعلق درخواست پر بمد خوش کرنی مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس کو امیر المومنین لکھ دیا تھا تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہاں امیرشریعت ہوتا ہے، امیر المومنین نہیں۔
 ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی لکھنؤ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: ”امیر شریعت امام اعظم نہیں ہے، جس کی ولایت عامہ تمام ممالک اسلامیہ کو محیط ہوتی ہے ؛بلکہ وہ والی ہے اور اس کی ولایت عامہ ان بلاد وقریہ کو محیط ہوتی ہے کہ جس کی ولایت اس کے سپردکی گئی ہو“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت۔ صفحہ 10)
 امارت شرعیہ کے شعبہء جات میں تنوع ہے، یہاں مذہبی رہنمائی اور عائلی امور میں ظلم اور ناانصافی کو دور کرنے کے لئے دارالقضاءودارالافتاءقائم ہے،تعلیم کے میدان میں دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی اور بڑی تعداد میں مکاتب قائم ہیں، عصری علوم کے لئے امارت پبلک اسکول، مولانا منت اللہ رحمانی اردوہائی اسکول،قاضی نورالحسن اسکول اور پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ مستحکم اور منظم انداز میں کام کررہے ہیں، مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مزید معیاری بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ قائم ہے، خدمت خلق کے لئے اسپتال اور غریب ومسکین،بیواوءں کے وظیفے،غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد،امداد علاج اور زمینی وآسمانی مصیبت کے وقت ریلیف کا مضبوط نظام ہے، جس کی کوئی نظیر دوسری نہیں ملتی، یہ سارے کام بیت المال سے انجام پاتے ہیں، اس نظام کومضبوط اور مستحکم انداز میں زمینی طورپر نافذ کرنے کے لئے اب تک مختلف ادوار میں آٹھ امراءشریعت بشمول موجودہ امیر شریعت مفکرملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ پوری تن دہی اور لگن سے کام کرتے رہے ہیں، ان کی معاونت کے لئے ہردور میں نائب امراءشریعت کا بھی سلسلہ رہاہے،موجودہ نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی ہیں،اورایک بڑا عملہ امرائے شریعت کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے خدمت کے جذبہ سے نظامت کی نگرانی میں کام کرتارہاہے،اور اجتماعی طریقہء کار کو روبعمل لاکر امارت شرعیہ کے کام، کاز اور نصب العین کو آگے بڑھانے میں اپنی توانائی لگائی ہے،یہاں مسلمانوں کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد کرنے اور تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة پر زندگی گذارنے کے لیے محنت ہوتی ہے، اس کام کو کرنے کے لئے نظامت کی نگرانی میں شعبہء تنظیم مسلسل سرگرم عمل ہے اور گاؤں گاؤں میں تنظیم بنانے کا عمل جاری ہے۔ 
امارت شرعیہ اپنے قیام کے زمانہ سے ہی فعال اور متحرک رہی ہے اور لوگوں کی حمایت ہردور میں اسے حاصل رہی اور یہاں کے امرائے شریعت نے جراءت اور اولوالعزمی کی تاریخ رقم کی، حکمران وقت سے آنکھوں سے آنکھیں سے ملاکر بات کیا اور ہردور میں ملت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے،معاملہ طلاق ثلاثہ کا ہو یا سی اے اے کا،مسلم پرسنل لا پر آنچ آرہی ہو یا فساد کی آگ میں برباد مسلمانوں کا معاملہ، تمام موقع سے امارت شرعیہ نے ملت کو بیدار کرنے کا کام کیااور کئی معاملوں میں اس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ امارت شرعیہ نے اس طریقہ کار سے ملت میں نفع رسانی کا کام کیا اور قدرت کا اصول یہ ہے کہ نفع بخش چیز باقی رہتی ہے، اور غیر نفع بخش چیزیں فنا ہوجاتی ہیں، امارت شرعیہ کا سو سال سے زائد سے مسلسل اور متواتر خدمت انجام دینا اور باقی رہنا اس کی نفع بخشی کی دلیل ہے۔
احکام خداوندی واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا پر عمل اور امت کو ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گذارنے کے لئے اس ادارہ سے وابستگی ضروری ہے،اسلام کا حکم یہی ہے کہ تم جہاں کہیں رہو ایک امیر کے ماتحت زندگی گذارو، اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت بھی کرو، اگر کوئی اجتماعی نظام سے نہیں جڑا توان احکام پر عمل کی دوسری کوئی شکل موجود نہیں ہے،اس لئے امارت شرعیہ سے وابستگی ہماے لیے دینی، ایمانی اور شرعی تقاضہ ہے، اسی لئے بڑوں نے کہاہے کہ امارت شرعیہ ہمارے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے اور خدمات کے اعتبار سے یہ ہمارے ملی وجود کی روشن علامت ہے۔
اس شرعی تقاضہ کی تکمیل سے دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کلمہ کی بنیادپر اتحاد کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے ملت کے مفاد میں یکسو اور یک جٹ ہوکر کام کرنے کا مزاج پیدا ہوتاہے، اتحاد کی قوت کی وجہ سے بہت سارے مسائل حکومتی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اور سماجی ،سیاسی میدان میں اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے، جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، جس قدر امارت شرعیہ سے لوگ جڑیں گے اسی قدر اس کی افادیت ملکی سطح پر بھی بڑھتی جائے گی اور ہرمیدان میں کامیابی قدم چومے گی، عصر حاضر میں انفرادی کاموں سے زیادہ ٹیم ورک کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کاموں کے پھیلاﺅ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی ہرمحاذ پر کام کرے ،ایسے میں مختلف قسم کی صلاحیتوں کے لوگ جب امارت شرعیہ سے جڑیں گے اور ان کا تعاون ملے گا تو کام تیزی سے نمٹے گا اور ٹیم ورک کے ذریعہ یہ ممکن ہوسکے گاکہ ہم مختلف میدانوں میں تیزی سے معیاری انداز میں کام کو آگے بڑھائیں۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ٹیم ورک ہے اور یہاں ہر ایک کی اپنے اعتبار سے بڑی اہمیت ہے، ہمیں اس اہمیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

منگل, مئی 30, 2023

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد 
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 29/مئی 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم قاسمی ) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے  قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں چار طلبہ وطالبات نے آغاز قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن کا آغاز کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
علقمہ بن عرشی
حذیفہ بن عرشی
ارقم حیات بن فضل ربی
نایاب حسین بنت ساجد علی۔
اس موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم کے أستاذ قاری ابوالحسن نے سورہ فاتحہ کی تلاوت سے باضابطہ آغاز کرایا ،  مدرسہ ضیاء العلوم کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔

پیر, مئی 29, 2023

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

دو ہزار روپے کے نوٹوں کی جمع بندی __
#Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
ریزو بینک آف انڈیا (RBI)نے اپنے ایک حکم نامہ میں دو ہزار روپے کے نوٹ کو ستمبر تک بینک میں جمع کرادینے کو کہا ہے،اس  نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ چار ماہ گذرنے کے بعد بھی اگر کسی کے پاس یہ نوٹ ہوگا تو اسے نا قابل قبول نہیں قرار دیا جائے گا ، البتہ ایک بار میں دو ہزار کے بیس نوٹ ہی بدلے جا سکیں گے، بینک اس سے یہ دریافت نہیں کرے گا کہ اس کے پاس اتنے نوٹ کس طرح آئے،2016کی نوٹ بندی کے مقابل یہ نوٹ بندی نہیں جمع بندی ہے، اچھی بات یہ ہے کہ اس کام کے لیے ہمارے وزیر اعظم کو سامنے نہیں آنا پڑا ہے۔
 مرکزی حکومت نے 8نومبر2016 کو جب نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا، پانچ سو اور ایک ہزار کے پرانے نوٹ کو چلن سے خارج کیا تھا تو اسے کا لا دھن پر روک لگانے کی سمت میں اہم قدم قرار دیا تھا، کچھ دن کے بعد جب ایک ہزار کے بدلے دو ہزار کے نوٹ مارکیٹ میں آئے تو عوام نے جان لیا کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے، کیوں کہ کالا دھن جمع کرنے والے کو چھوٹا نوٹ لے کر اس سے بڑا نوٹ فراہم کر دیا گیا ہے، تاکہ وہ دو ہزار کے نوٹ کے ذریعہ زیادہ آسانی سے کالے دھن کی ذخیرہ اندوزی کر سکیں، دیر سے ہی صحیح، سرکار کو بھی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ یہ قدم اس کا غلط تھا، چنانچہ دو ہزار کے نوٹوں کی چھپائی کا کام 2018-19کے مالی سال میں بند کر دیا گیا، اب یہ نوٹ عام طور سے چلن میں نظر نہیں آرہے تھے، کیوں کہ کالے دھن والوں نے اسے جمع کر لیا تھا، آر بی آئی کے اس اعلان سے کا لے دھن کو سفید کرنے کا انہیںقیمتی موقع ہاتھ آیا اور وہ اس کا استعمال تیزی سے کر رہے ہیں، عوام کے پاس یہ نوٹ تو ہے ہی نہیں، اس لیے عوام پر اس حکم کا کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، رہ گیے کالے دھن والے تو ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ مختلف اوقات میں جتنے نوٹ چاہیں بدلیں، انہیں کسی شناختی کارڈ ، فارم یا کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمارا یہ ماننا ہے کہ نہ پہلے کی نوٹ بندی سے کالے دھن میںکوئی کمی آئی تھی اور نہ اب کہ دو ہزار کے نوٹ جمع کرنے سے کوئی فرق پڑے گا۔ دو ہزار روپے کا نوٹ نومبر 2016میں آر بی آئی ایکٹ 1934کے سیکشن 24(1)کے تحت سامنے لایا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کے خارج کرنے کے بعد صارفین کی ضرورت کو پورا کرنا تھا، آر بی آئی نے اسے جمع کرانے کی وجہ’’ کلین نوٹ پالیسی‘‘ پر عمل کرانا ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو دس، بیس ، پچاس اور سو روپے کے نوٹ اس کام کے لیے بڑی تعداد میں دستیاب ہیں، جنہیں صارفین نے لکھ لکھ کر گندہ کر رکھا ہے اسے جمع کرایا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ کلین ہو سکیں۔
 یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ایک ہے عوامی سطح پر اس کرنسی کا چلن نہ ہونا اور دوسرا ہے قانونی سطح پر اس کو چلن سے خارج کرنا، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، عوامی سطح پر کسی سکے او رروپے کا استعمال نہ کیا جانا عوام کے حق پر چوٹ نہیں ہے، مثلا ایک پیسہ، دو پیسہ، تین پیسہ، پانچ پیسہ، دس پیسہ ، بیس پیسہ، چونی، اٹھنی، ایک روپے دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ عوامی سطح پر استعمال میں نہیں دکھتے ، کیوں کہ اب وہ ان کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ، اٹھنی تک کی تو اب کوئی چیز بھی نہیں ملتی، ایک روپے میں دستیاب ہونے والی اشیاء کو بھی اب انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، ان سکوں اور رروپیوں کو چلن سے باہر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا، لیکن یہ خود بخود ختم ہو گیے، اس کے بر عکس جب سرکار کسی نوٹ پر پابندی لگاتی ہے تو یہ عوام کی محنت کی کمائی کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے اور انہیں سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسا کہ 8نومبر 2016کی نوٹ بندی کے موقع سے دیکھا گیا۔

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یو پی ایس سی امتحان کے نتائج __
#@Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
 یونین پبلک سروس کمیشن(UPSC)نے تحریری وتقریری امتحان کے بعد نو سو تینتیس(933)امیدواروں کوکامیاب قرار دیا ہے، بیٹیوں نے اس بار پھر اچھی کار کر دگی کا مظاہرہ کیا اور اول ، دوم پوزیشن پر قبضہ کرنے کے ساتھ سر فہرست پچیس (25)کامیاب امیدواروں میں چودہ لڑکیوں نے اپنی جگہ بنائی، سرفہرست دس کامیاب امیدواروں میں ساتواں رینک وسیم احمد بھٹ نے حاصل کیا، پہلی، دوسری پوزیشن پر بہار کی لڑکیوں نے ریاست کا نام روشن کیا، اتفاق سے دونوں کے والد پہلے ہی مر چکے تھے اور ان دونوں نے ماں کی نگرانی میں وسائل سے محروم ہونے کے باوجود تیاری کی اور ہدف کو پالیا، ان میں سے ایک ایشی تاکشور، پٹنہ اور دوسری گریما لوہیا بکسر کی رہنے والی ہے، پتہ چلا کہ محنت اور مسلسل محنت ہی ہدف تک پہونچنے کا اصل ذریعہ ہے، ارادے پختہ ہوں تو راستہ کی رکاوٹوں کا دور کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ بہار کی لڑکیوں نے ٹوپ کیا ہے بلکہ لگاتار تین سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔چھ سو تیرہ (613)لڑکے اور تین سو بیس (320)لڑکیوں اس بارکامیابی کا مزدہ سنایا گیا۔ 
اس امتحان میں شریک مسلم امیدواروں کی بات کریں تو بتیس (32)مسلم امید واروں نے کامیابی حاصل کی جن میں (9)لڑکیاں ہیں، سر فہرست کامیاب امیدواروں میں وسیم احمد بھٹ ساتویں، نوید احسان بھٹ84اور اسد زبیر رینک کے اعتبار سے 86نمبر پر ہیں، یہ نتائج بہت تشفی بخش تو نہیں، لیکن بہترہیں۔
 درجہ بندی کے اعتبار سے دیکھیں تو جنرل کوٹے سے 345ای ڈبلو ایس 99اوبی سی 263درج فہرست ذات اور قبائل سے 72امید وار منتخب ہو کر آئے، ان تمام کامیاب امیدواروں میں 38امور خارجہ 180آئی اے ایس، 200آئی پی ایس، 473مرکزی حکومت کے گروپ اے اور 31گروپ بی کی خدمات پر لگائے جائیں گے۔
 امسال کے نتائج امتحان کا جائزہ لیں تو مسلم امیدواروں کے حق میں یہ زیادہ بہتر نہیں ہیں، بلکہ مفت کوچنگ کے نام پر ملت کا جس قدر سرمایہ اس کام پر لگ رہا ہے، ہمیں اس تناسب سے کامیابی نہیں مل رہی ہے، تمام تر محنت کے باوجود ہمارے طلبہ اصل تحریری امتحان (مینس) میں نہیں لکھ پا رہے ہیں، اس لیے ان کے کٹ آف مارکس کم آ رہے ہیں۔2020میں ہمارے بچوں کا کٹ آف مارکس صرف پچاس فی صد تک جا سکا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ کس قدر پیچھے ہیں، جو تنظیمیں طلبہ کو یو پی ایس سی کے لیے تیار کرتی ہیں، انہیں اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہماری محنت میں کہاں کمی ہے، جو نتائج خاطر کواہ سامنے نہیں آ رہے ہیں، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم ان بچوں پر اپنی محنت اور سرمایہتو نہیں لگا رہے جو اپنی قابلیت اور ذہانت کے اعتبار سے اس امتحان کی تیاری کے لیے ہی موزوںنہیں ہیں۔

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

آزادی -انسان کا بنیادی حق ____
#Urduduniyanews72 #
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 محترم جناب مولانا محمد عبد الحفیظ اسلامی (1997)بن محمد قاسم صاحب مرحوم 1957میں غیر منقسم آندھرا پردیش اور موجودہ حیدر آباد دکن تلنگانہ کے ایک با شعور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، جامعہ نظامیہ حیدر آبادسے 1969میں فراغت حاصل کی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی تصنیفات وتالیفات سے استفادہ کرکے فہم قرآن اور فہم دین کی صلاحیت پائی ، رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کو زندگی کا نصب العین اور ایک خدا کی بندگی، تفرقہ سے اجتناب اور بنی آدم کے تصور انسانیت کی ترویج واشاعت کو زندگی کا مشن بنایا، اس فکر کو عام کرنے کے لیے ۲۵؍ نومبر 1996سے سینئر کالم نگار اور آزاد صحافی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا اور کثرت سے مضامین لکھنے، ہندوستان کا شاید ہی کوئی قابل ذکر اخبار ہوگا، جس میں مولانا کی تحریریں روز بروز نہ چھپتی ہوں، زود نویس ہیں، اس کے باوجود ان کے مضامین قرآن وحادیث سے مزین اور منطقی اسلوب سے آراستہ ہوتے ہیں، اس لیے قارئین پسند کرتے ہیں، موصوف کی کم وبیش سات کتابیں اے ایمان والو، رب کائنات کا فرمان، واقعہ معراج، تعارف قرآن ، تذکیرات، آداب بندگی اور آئینہ شہر وغیرہ طباعت کے مراحل سے گذر کر نذر قارئین ہو چکی ہیں، ان کی خدمات کے اعتراف میں تلنگانہ اسٹیٹ اور مختلف ادبی تنظیموں نے انہیں اعزازات وایوارڈ سے نوازا ہے۔
 انہیں مولانا عبد الحفیظ اسلامی کی کتاب آزادی- انسان کا بنیاد ی حق- دستور آسمانی اور منشور سلطانی کا تقابلی جائزہ ہے ۔ ایک سو چھپن صفحات کی یہ کتاب اس موضوع پر مختصر مگر دریا بکوزہ کے مصداق ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ اس کتاب کی قیمت دو سو روپے اردو کتاب کے قارئین کے لیے گراں بار ہے، دار الاشاعت تعلیمات (فطرت انسانی) حیدر آباد اس کتاب کا ناشر ہے، ملنے کے پتے حیدر آباد کے ہی نصف درجن ہیں، سہولت مرکزی مکتبہ اسلامی چھتہ بازار حیدر آباد سے لینے اور منگوانے میں ہے، آپ چاہیں تو مصنف کے پتہ مکان نمبر  18-13- 8/J33/1 یونیک ریسیڈنسی، بنڈلہ گولہ، مین روڈ، جہانگیر آباد ، حیدر آباد 500005سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب کا پیش لفظ مفتی محمد ظہیر صادق حسامی ندوی نے لکھاہے ، آغازآغاز خود مصنف کتاب کا ہے، انتساب والدین مرحومین کے نام مولانا کی سعادت مندی کی دلیل ہے۔
 کتاب کا آغاز اقوام متحدہ کا منشور ۔ ایک حسین دستاویز کے عنوان سے ہوتا ہے ، اس کے ذیل میں منشور کی حقیقت ، رکن ممالک ، حقوق کی پامالی، انسانی المیوں کو روکنے میں ناکامی اور اس جیسے کئی موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، مسئلہ فلسطین، بوسینیا میں مسلمانوں کے قتل عام، عراق پر حملہ، روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا بھی ذکر ہے، منشور سلطانی کے در وبست کا جائزہ لینے کے بعد مولانا دستور آسمانی پر آتے ہیں، اور ’’قوانین باری تعالیٰ میں انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت‘‘ قرار دیا ہے، اس ضمن میں آسمانی دستور کا دائزہ اطلاق، تصور حاکمیت ، فرائض کی اولیت، فطری اور پیدائشی حقوق، احترام آدمیت ، مشاورت کی اہمیت اور خلافت پر تفصیل سے مولانا نے روشنی ڈالی ہے، مولانا نے آسمانی حکمرانی کے لیے خلفاء راشدین کو مستقل نمونۂ تقلید قرار دیا ہے اور اس ضمن میں حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓکے دورخلافت کو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے۔ البتہ حضرت ابو بکر صدیق ؒ کے دور خلافت کا تذکرہ ذرا ہلکا ہے، حضرت عثمانؓ کا دور، ابتلاء وآزمائش کا ضرور تھا، لیکن اس موضوع سے متعلق ا ن کے دور کے کارہائے نمایاں کا ذکر بھی تفصیل سے آنا چاہیے تھا، کیوں کہ یہ نئی نسل کی ذہنی تطہیر کے لیے ضروری تھا، جو اس دور کے واقعات کو پڑھ کر شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور صحابہ کرام کی طرف بھی ان کی نظر ترچھی ہوجاتی ہے، اور وہ اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کے حدیث ہونے کا ہی انکار کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ اس دور کے بڑے محقق محدث حضرت مولانا مفتی سعیداحمد ؒ پالن پوری اسے حسن درجہ کی حدیث قرار دیتے ہیں۔
 ان موضوعات سے فراغت کے بعد مولانا نے آداب معاشرت ، شخصی آزادی کے تحفظ ، اظہار رائے کی آزادی، مذہب ودھرم کے لیے زور زبر دستی نہیں اور بھارت دیش ایک عظیم جمہوریت کو بھی اپنی تحریر کا موضوع قرار دیا ہے۔
 مولانا کی تحریر کا اپنا رنگ وآہنگ ، فکر کی راستگی اور مطالعہ کی گہرائی ہے، قرآن واحادیث اور نصوص پر ان کی نظر اچھی ہے، اس لیے جو بھی لکھتے ہیں، مدلل لکھتے ہیں، البتہ حوالہ جات کے ذکر کا اہتمام کم کرتے ہیں، مضامین میں اس کی گنجائش بھی ذرا کم ہی ہوتی ہے، قاری حوالوں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے اور مطالعہ کا تسلسل متاثر ہوجاتا ہے، مضمون کو پڑھتے وقت جو فکری ارتکاز اور یک سوئی ہونی چاہیے، وہ باقی نہیں رہتی ، اس لیے رسائل کے لیے جو مقالات لکھے جاتے ہیں، ان میں اس کا اہتمام کیاجاتا ہے، مضامین میں نہیں ، لیکن یہ مضامین ایک خاص ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں اکائی کے طور پر قارئین کے سامنے لائے گئے ہیں، اس لیے ان میں حوالوں کا اہتمام ہونا چاہیے تھا۔
 مولانا کی یہ کتاب اس خاص موضوع پر اہم ہے،اس موضوع پر مولانا اختر امام عادل کی کتاب ’’حقوق انسانی کا عالمی منشور‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور مقبول ہے۔ کتاب خوبصورت چھپی ہے، دیدہ زیب ہے، سر ورق پر دو ہاتھوں کی تصویر ہے، جس نے زنجیروں کو توڑ دیا ہے، اس سے مصنف کی رجائیت کا پتہ چلتا ہے کہ ظلم وجور ، حق تلفی ، ستم شعاری کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور دستور آسمانی سے منشور سلطانی مغلوب ہو کر رہ جائے گا، بے اختیار فیض یاد آگیے، کہتے ہیں۔
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں 
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

دکھا دے یا الہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے ، جہاں پر رات دن مولیٰ تیری رحمت برستی ہے۔

دکھادے یا الٰہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے
Urduduniyanews72 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

اللہ رب العزت کا عظیم فضل و احسان ہے کہ آپ حضرات کچھ دنوں کے بعد سرزمین حجاز پر قدم رکھنے والے ہیں آپ بڑے خوش نصیب اور قابلِ مبارکباد ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے گھر کی زیارت اور اپنی خصوصی مہمان نوازی کا شرف بخشا ہے اور دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے آپ کا انتخاب کیا ہے اس پر اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ کچھ دنوں کے بعد آپ اس سر زمینِ مقدس پر چلتے ہوں گے  جس سرزمین کی عظمت و تقدس پر فرشتوں کو رشک ہے اس متبرک زمین کے ادب و احترام کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہاں سر کے بل چلا جائے ۔ عازمین حج کی فہرست میں آپ کا نام سرزمین حرمین شریفین کے متوقع قیام اور عنقریب حاجی کے معزز لقب سے سرفراز ہونے والوں میں شامل ہونے پر ہم آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سبھی حضرات کو حج مبرور سے سرخرو فرمائے آمِین ۔
یثرب کو جانے والے میرا سلام لے جا میرا پیام لے جا ،
تیری مراد مندی تجھ کو پکارتی ہے آ باریاب ہو جا ۔
بیت اللہ شریف میں دائمی کشش : چھوٹا ہو یا بڑا ہر بندے کے دل میں بیت اللہ شریف کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے آپ امیر غریب پڑھے لکھے یا ان پڑھ جس مسلمان سے بھی پوچھیں گے اس کے دل میں بیت اللہ کو دیکھنے کا ایک شوق ہوگا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کو دیکھنا چاہتا ہوں ایسے بھی لوگ ہیں جو گھر کی چیزیں بیچ کر اس گھر کو دیکھنے کے لئے سفر کرتے ہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے بیت اللہ شریف میں بنیادی طور پر ایک کشش رکھ دی ہے ۔جس سے بھی پوچھ لیں اس کے پاس جانے کی گنجائش ہو یا نہ ہو اس کے دل میں تڑپ ضرور ہوگی وہ تنہائیوں میں رو رو کر اللہ رب العزت کے حضور دعائیں مانگے گا کہ مولا کبھی مجھے بھی توفیق عطا فرما کہ میں بھی تیرے گھر کا طواف کر وں وہ کتنے خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو احرام باندھ کر نکلتے ہیں لبیک اللہم لبیک پڑھتے ہیں کوئی تیرے گھر کا طواف کرتا ہے کوئی مقام ابراہیم پر سجدے کرتا ہے کوئی غلافِ کعبہ کو پکڑ کر دعائیں مانگتا ہے اور کوئی ملتزم سے جاکر لپٹ جاتا ہے اے اللہ تو میرے لیے بھی اسباب پیدا فرما تاکہ میں بھی اپنی اس دیرینہ خواہش کو پورا کر سکوں ۔
مکہ افضل ہے یا مدینہ :
اگر چھوٹی شئ کو بڑی شئ سے نسبت ہوجائے تو وہ بھی بڑی سمجھی جاتی ہے خدا کے بعد مدینہ والے سرکار سب میں افضل ہیں لہذا جس کو رسولِ اکرم ﷺ  سے نسبت ہوتی گئی وہ زمانہ میں افضل و اعلیٰ ہوتا گیا رسول اللہ ﷺ کا  ملک عرب عجم سے افضل ہے اور عرب میں رسول اللہ ﷺ  کا حجاز افضل ہے حجاز میں مکہ مکرمہ افضل ہے مکہ مکرمہ میں کعبہ افضل ہے بلکہ کعبہ بیت المقدس سے افضل ہے وجہ یہ ہے کہ بیت المقدس یہودیوں اور عیسائیوں کا قبلہ ہے اور کعبہ مسلمانوں کا قبلہ ہے حج کعبہ کا ہوتا ہے بیت المقدس کا نہیں ہوتا اس لیے کہ بیت المقدس کے بنوانے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور بنانے والے جنات ہیں مگر کعبہ کا بنانے والا رب العالمین ہے نشان بنانے والے جبریلِ امیں ہیں تعمیر کرنے والے خلیل اللہ ہیں امداد پہنچانے والے ذبیح اللہ ہیں اور آباد کرنے والے محمد الرسول اللہ ہیں تمام انبیاء کی اولادوں میں اولاد ابراہیم افضل ہے اولاد ابراہیم میں قریش افضل ہے اور قریشیوں میں  بنو ہاشم افضل ہیں اور بنو ہاشموں میں سب سے افضل محمد الرسول اللہ ہیں ۔ تمام زبانوں میں عربی زبان سب سے افضل ہے محض اس لیے کہ عربی قرآن کی زبان ہے عربی جنتی زبان ہے عربی محبوب خدا کی زبان ہے عربی بولتے ہوئے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور عربی بولتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گئے ۔اسے اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ جب تک سرکار دوعالم ﷺ  مکہ میں جلوہ گر رہے مکہ افضل تھا اور جب مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو مدینہ افضل ہوگیا  مکہ میں ہر نیکی کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے تو ہر بدی کا گناہ بھی ایک لاکھ کے برابر ہے مگر مدینہ منورہ میں ایک نیکی کا ثواب پچاس ہزار کے برابر ہے اور ایک بدی کا صرف ایک ہی گناہ ہے کعبہ کی ہر چیز سیاہ ہے اور مدینہ میں ہر چیز سبز ہے کعبہ کو دولہا کا فراق ہے اور مدینہ کو دولہا کا وصال ہے مکہ میں خدا کا جلال ہے مدینہ میں مصطفٰی کا جمال ہے مکہ میں آب  زم زم ہے مدینہ میں آب کوثر ہے مکہ میں عرفات ہے اور مدینہ میں رحمت کی برسات ہے مکہ میں غار حرا ہے مدینہ میں گنبد خضرا ہے مکہ کی خاک بھی دونوں جہان سے افضل ہے رسولِ اکرم ﷺ  کے جلوہ افروز ہونے سے قبل مدینہ مدینہ نہیں تھا یثرب تھا بیماریوں کا گھر تھا رسول اللہ ﷺ  جلوہ گر ہوئے اور یثرب سے مدینہ بن گیا ۔
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ میں فدا ہوتا تا ، جو بس چلتا تو مر کر بھی نہ میں تجھ سے جدا ہوتا ۔
مدینہ کی ہوا اور کھجوریں : 
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں ایک حاجی صاحب نے مدینہ منورہ کا رومال پیش کیا آپ نے کمال عقیدت سے اسے چوما آنکھوں پر رکھا اور سینے سے لگایا حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا حضرت یہ رومال تو یورپ سے بن کر جاتے ہیں عرب کے بنے ہوئے تھوڑے ہیں حضرت نے فرمایا میں بھی جانتا ہوں وہاں کے بنے ہوئے نہیں ہیں لیکن ان کو مدینہ کی ہوا تو لگی ہوئی ہے ۔
ایک دوسرے صاحب نے مدینہ منورہ کی کھجوریں پیش کیں آپ نے کھجوریں تناول فرمانے کے بعد ان کی گٹھلیاں کھانے کے بجائے پیس کر پھانک لیں اور انہیں کچرے میں پھینکنا گوارہ نہ کیا ۔
مسجدِ نبوی کے چند ستون ! 
مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں جنت کی کیاری کے اندر چند ستونوں پر آج بھی کتبے لکھے ہوئے ہیں ان میں کا ہر ستون اپنے دامن میں بڑے بڑے عبرت آموز اور ایمان افروز تاریخی واقعات کا دفتر لیے ہوئے ہے ۔ ایک ستون کا نام  ( اسطوانۃ الوفود ) ہے یہ وہ ستون ہے کہ رسول اکرم ﷺ  اس ستون سے ٹیک لگا کر دور دور سے آنے والے قبائل کے نمائندوں کو اپنی زیارت کا شرف عطا فرمایا کرتے تھے ۔ ایک ستون پر ( اسطوانۃ الحنانۃ ) تحریر کیا ہوا ہے یہ وہی ستون ہے جو رسول اللہ صلی اللّٰہ ﷺ  کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ انہی ستونوں میں سے ایک ستون کا نام  (  اسطوانۃ التوبہ ) ہے ۔
دکھا دے یا الہی وہ مدینہ کیسی بستی ہے ، جہاں پر رات دن مولیٰ تیری رحمت برستی ہے۔

اتوار, مئی 28, 2023

بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھکچھ نہ سمجھےخداکرےکوئی

بک رہا ہوں جنوں میں۔۔۔۔۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲
          انس مسرورانصاری

بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھ
کچھ نہ سمجھےخداکرےکوئی 
                              (غالب) 
    جب حیدرآبادوالےکہتے ہیں کہ لکھنؤ والوں نے اردو کی قبر پر تلسی کے پودے لگادئیےہیں تو اچھا نہیں لگتا۔ہر اچھی اورسچی بات کہاں اچھی لگتی ہے۔۔ مگر لکھنؤ والوں کے پاس      اس حقیقت کا کوئی جواب بھی تو نہیں ہے۔ ا       اسی خطہءلکھنؤمیں بہت بڑے بڑےعلاقے ہیں جولکھنؤدبستان ادب سےمنسلک مانےجاتےہیں 
      ۔اردو سے محبت کا دعویٰ کرنے والے جس عجلت میں اردو رسم الخط کو مٹا دینے کے مشن پر کام کررہےہیں،اس کی مثال دنیابھر کے لسانی ادب میں کہیں  نہیں ملتی۔ 
    کتنابڑاالمیہ ہے۔افسوس صد افسوس۔۔۔ آہ اردو بے چاری۔۔۔۔۔!کتنا فریب کارانہ دعویٰ ہےمحبت کا۔۔۔ محض زبانی جمع خرچ۔۔۔۔۔! 
      کوئی زبان صرف ایک زبان نہیں ہوتی۔ اس کے پس منظر میں پوری ایک تہذیب اور صدیوں کا تمدن ہوتاہے۔یہ تہذیب اور تمدن قومی شناخت اورعلامت ہوتےہیں لیکن کیاکیجئے۔زوال آمدہ قوم اسی طرح اپنی لسانی تہذیب کو مٹاتی رہتی ہے۔غیرمحسوس اورغیرشعوری طورپراورکبھی خودغرضی کے تحت ذاتی مفادکےلیےبھی۔پھر وہ زمانہ بھی آتاہے جب اس کے پاس اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔اس کی ہر چیز غیروں سےمستعارلی ہوئی ہوتی ہے۔کہتے ہیں نا۔۔۔ جس قوم کو مٹا نا ہو،غلام بناناہو، سب سے پہلے اس قوم کی زبان چھین لو،وہ قوم اپنی تہذیب اور تمدن سمیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔اس کی تاریخ،اس کا کلچر،اس کی تہذیب و تمدن سب کچھ تاریخ عالم کے اہرام میں سجی ہوئی ممیوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔پھر تاریخ کروٹ لیتی ہے تو ان ممیوں کوکوڑےکباڑمیں پھینک جاتی ہے۔
       زبان چھین لینےکامطلب ہے کہ اس کے رسم الخط کی اہمیت سے اس کو غافل اور بے گانہ وبے نیاز کردیا جائے۔ ہم اردو والے بڑے خلوص اور محنت سے آج یہی کام کررہےہیں۔اردو زبان کومٹانےکےلیےہمیں کسی اردو دشمن کی ضرورت ہی کیا ہے۔ہم تو خود ہی اردوکو مٹانےَکےدرپےہیں سوایک دن اپنی نادانیوں اور خودغرضیوں کےپہاڑسےدبادیں گے،مٹا دیں گے۔ہم اپنی لسانی وراثت کے مجرم ہیں۔اپنے اسلاف کی ںاخلف اولاد ہیں ہم۔۔۔ناردو زبان کو نہ ہم خودپڑھیں گے نہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے۔اردو کی روٹیاں توڑیں گے لیکن گھر میں اردو کے بجائے ہندی کے اخبارات منگوایں گے۔بہت ہواتوانگریزی کااخبارمنگالیں گےمگراردو اخبار۔؟ توبہ۔۔۔توبہ۔۔۔استغفراللہ۔                                                پچاس ہزار اورایک لاکھ تک اوراس سے بھی زائد اردوکےنام پر تنخواہیں لیں گے مگر پانچ روپئے کاایک اردو اخبار نہیں خریدیں گے۔اردو کےنام پر اپنی ایک کپ چائے نہیں کم کریں گے۔ اردو زبان کے طفیل میں حاصل شدہ روپیوں سے اپنی ہر ضرورت پوری کریں گے۔ سارے کنبہ کی پرورش کریں گےاور اپنے بچوں کواردوسےدوررکھیں گےکہ اردوپڑھتا  ہی کون ہے۔اس کےپڑھنےکافائدہ ہی کیا ہے۔ہماری غلامانہ ذہنیت کو اردو زبان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ہم حسین کے مقابلے میں یزیداوراس کے جانشین ہیں۔اردو اکادمیوں سے اردو مشاعروں اور سیمیناروں کےنام پر لاکھوں روپیوں کا فنڈ لیں گے لیکن پوسٹر اورتشہیری کام ہندی میں کریں گے۔ہمیں اپنی جیبیں بھرنے اوراپنی  شہرت سے مطلب ہے۔۔اردو سے ہمیں کیا لینا دینا۔۔۔ کتاب اردو میں چھپوائیں گےاورپبلیسٹی ہندی میں کریں گے۔

 ہندی میں بات کیجئے،انگلش میں جھاڑئیے
  اردو کی قبر کھو د کے جلد ی سے  گاڑئیے

   اردو کا نام ضرور لیں گے لیکن جب تک اسے
 مٹا نہیں دیں گے،دم بھی نہیں لیں گے۔ ہم اردو والےہیں۔اردو کاکھائیں گے۔۔ اردو کی دہائی دیں گے مگر اردو رسم الخط کو ہندی کا روپ دے کر اس کی جان بھی لے لیں گے۔۔ ہم اردو والےہیں۔کہتے ہیں کہ زبان ماں کی ہم رتبہ ہوتی ہے۔ماں کی طرح یا ماں جیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے مادری زبان کہلاتی ہے۔ہم نے جب بولنا سیکھا تھاتو سب سے پہلے اماں۔۔۔ اماں۔۔۔کہا تھا۔ابا۔۔۔ ابو۔۔۔ بابا۔۔۔ دادا۔۔۔ دادی۔۔۔۔نانا۔۔۔۔ نانی۔۔۔۔کھانا پانی ،کہاتھا۔۔۔ہمارے منھ میں زبان تھی مگراردو نے ہمیں بولناسکھایا۔ایک ماں کی طرح ہماری ضرورتوں کا خیال رکھا۔۔۔ 
بچپن میں اسی اردو زبان کے وسیلوں سے ہم نے اپنی ہر ضرورت کااظہارکیاتھا۔ہماری ہر ضرورت کو اسی اردو نے پورا کیا تھا۔لیکن جب ہم بڑے ہوئے تواسےاپنےگھرکےباہرنکال دیا۔ہم  ماں کے پوت ہیں نہ ماں کےسپوت۔ہم تو ماں کےکپوت ہیں۔اب اگر کچھ لوگ ہمیں بے وفائی،بےرحمی اورستم گری کےطعنے دیتے ہیں تو دیتے رہیں۔ کیا فرق پڑتاہے۔ہم توچکنے گھڑے ہیں جن پر پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹکتی۔چونکہ ہندی والے ہمیں گھاس تک نہیں ڈالتے اس لیے مجبوراً ہمیں اردو میں کتابیں چھپوانی پڑتی ہیں۔ اردو اکادمیوں سے ہمیں آسانی سے روپئیےمل جاتے ہیں۔۔ کتاب پر آسانی سے انعام بھی مل جاتے ہیں۔اور کیوں نہ ملیں گے۔۔ ہمیں سیاسی لیڈروں کی حمایت جو حاصل ہے۔اسی طرح ہم بڑے بڑے ایوارڈز بھی چھین لیتے ہیں۔۔ ہم نام اردوکاضرورلیتے ہیں لیکن کام ہندی کاکرتےہیں۔
     ہم  اس کےزبانی طرف دارہیں۔ہم میر جعفر اور میر صادق کےبھتیجےہیں۔اوریہ سچ ہےکہ ہم نے اردو کی قبربناکراس پرتلسی کےپودے لگادیےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
     پیوند لگے، پھٹے،پرانے،چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی اس لڑکی کو آپ دیکھ رہےہیں۔؟اپنوں ہی کے ہاتھوں سربازار ذلیل ورسوااور خوار، وہ اردوہے۔غیروں کی ٹھکرائی ہوئی۔اپنوں کی ستائی ہوئی۔!بخداہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں۔اردو کے دوست بھی نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے اردو کو ہندی کی بیساکھی پکڑا دی ہے۔حالانکہ اردولنگڑی ہےاورنہ اپاہج مگر ہم اسے اپاہج بنا دیں گے۔ ہم چاہیں تو اس کے رسم الخط کےذریعےسوشل میڈیامیں اس کی دھوم مچا دیں اور موجودہ زمانہ میں داغ کے شعر کو صادق القول کردیں۔
    اردو ہےجس کا نا م ہمیں جا نتے ہیں داغ
   سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
 لیکن ہم ایسا کریں گےنہیں۔کیونکہ ہم احساس کمتری کے شکار لوگ ہیں۔اپنی عام بول چال کی زبان میں بھی ہم اردو کے الفاظ 
 کم سے کم کرتےجارہےہیں۔ان کی جگہ ہندی اورانگریزی کے لفظوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ اس لیےکررہےہیں تاکہ ہماری جہالت کا بھرم قائم رہےاورہم پڑھےلکھےنظرآئیں۔

 سر برہنہ سی وہ لڑکی جو سراسیمہ ہے
میر ی اردو ہےجو رسوا سر با ز ا ر ہے،اف 

       دوستو!آؤ! اب صف بستہ ہوجائیں اور زبان اردو کے لیے نمازجنازہ پڑھ لیں۔۔ آہ ائے اردو۔۔۔ ہائے اردو۔۔۔ وائے اردو۔۔۔۔!!تیرے لوگوں نے تیرا نام لےکرتجھےبےموت مارڈالا۔۔۔۔۔ 

                انس مسرورانصاری
     
   قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر۔یو،پی
  رابطہ/وہاٹس ایپ نمبر۔ 9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...