Powered By Blogger

ہفتہ, جون 03, 2023

مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ

مظہر الحق۔ تحریک آزادی کا فراموش کردہ کردار ۔۔۔۔۔ایک جائزہ
Urduduniyanews72 

جب کوئی  مصنف پہلی بار کوئی کتاب لکھتا ہے تو چا ہتا ہے کہ اس کتاب کو ایک ایک صاحب ذوق انسان نہ صرف یہ کہ پڑھ لے بلکہ ایک ایک کی طرف سے اسے داد بھی مل جائے اور اگر وہ صاحب تصنیف کوئی نوجوان ہے یا نئی نسل سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی یہ خواہش اور بھی شدید ہو جاتی ہے۔وہ بے دریغ اپنی کتاب کی کاپیاں تقسیم کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کی ادبی یا علمی کوش پہنچ جائے اور اسے پتا چل سکے کہ اہل, علم اور صاحب, ذوق کی نظر میں وہ کتاب کیسی ہے؟ اس میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا کمیاں ہیں ؟ آس نے کتنی محنت کی ہے ؟ اور کیسے کیسے نکات دریافت کیے ہیں؟ اس کی تسلی اس طرح کے ریمارکس سے نہیں ہوتی کہ واہ واہ ! کر دی جائے یا کیا کہنے! ماشاءاللہ! خوب ، تعجب خیز ،قابل, داد وغیرہ جیسے الفاظ فیس بک پر لکھ دیے جائیں! یا فون پر بول دیے جائیں 
   مگر اس کی تسلی اور تشفی والے جملے تو تب  پڑھنے کو ملیں گے جب کتاب پڑھی گئ ہو اور وہ بھی خلوص اور سنجیدگی سے کتاب کی ورق گردانی کی گئی ہو۔ کتب بینی کی صورت حال تو یہ ہے کہ اول تو بہت دنوں تک کتابوں والی ڈاک کھلتی ہی نہیں ہے اور اگر کھلتی بھی ہے تو وہ کتاب تو کسی حد تک توجہ پا لیتی ہے جس کے سر ورق پر کسی دوست یا شناسا یا کسی بہت بڑے ادیب کا نام درج ہوتا ہے اور اگر نام کوئی اجنبی ہوتا ہے تو اس کے شروع کے اوراق بھی نہیں کھلتے ۔ مگر اسی صورت حال میں کچھ ایسے بک لور  بھی ہیں جو کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ضرور ہیں اور اگر کتاب کی تحریر معنی خیز اور موثر ہوتی ہے تو اسے وہ سنجیدگی اور دلچسپی سے آخر تک پڑھ جاتے ہیں اور اپنی رائے بھی لکھ دیتے ہیں۔ میں دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوں مگر یہ بات سچ ہے کہ نہاں رباب کی کتاب ڈاکیہ کے ہاتھ سے میرے ہاتھوں میں آتے ہی کھلی۔ ورق الٹے پلٹے گئے اور کتاب کے موضوع اور اسلوب نے مجھے پڑھنے پر بھی مجبور کیا اور کتاب کے خاتمے تک آتے آتے دل نے اس پر کچھ لکھنے کے لیے بھی مجھے تیار کر لیا۔ میں اس لیے بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی مصنفہ رسرچ اسکالر ہیں اور پہلی بار انھوں نے کوئی کتاب لکھی ہے ۔تاکہ اس کتاب کی مصنفہ محترمہ نہاں رباب کو پتا چلے کہ میری نگاہ میں یہ کتاب کیسی ہے اور اس کے مواد و موضوع اور پیش کش کی کیا قدر وقیمت ہے؟ اور انھوں نے اس کتاب کی تیاری میں کتنی محنت کی ہے ۔
  اس کتاب کے چھ ابواب قائم کیے گئے ہیں:
1- مظہرالحق
2-, مظہرالحق کی شخصیت کے اوصاف و امتیازات
3- مظہر الحق کی علمی و سیاسی خدمات
4- تحریک, آزادی ہند اور مظہرالحق
5- تحریک, آزادی ہند میں مظہرالحق کے ہم عصر قائدین
6- مظہرالحق کی سیاسی سرگرمیوں سے سبکدوشی:  اسباب و عوامل
    کتاب کے یہ ابواب بتاتے ہیں کہ اس کتاب میں مجاہد, آزادی مولانا مظہر الحق کی کے سوانحی کوائف، شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان پر دلائل کے ساتھ منطقی بحث  بھی کی گئی ہے ۔ مولانا کی شخصیت والے باب میں جو ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور ان کی روشنی میں مولانا کی شخصیت کے جو نمایاں پہلو ابھارے گئے ہیں اور جس طرح ان پہلوؤں سے مولانا کے کارناموں کو منطقی انداز میں جوڑا گیا ہے وہ واقعی قابل,داد ہے اور اس تجزیے سے قلم کارہ نہاں رباب کی ذہنی بالیدگی اور ان کی ناقدانہ استعداد کا پتا چلتا ہے ۔اوراس بات کا اشارہ بھی کہ جب کسی کام میں جی لگایا جاتا ہے اور خون, جگر صرف کیا جاتا ہے تو اس کام کے ثمر کا رنگ چوکھا ضرور ہوتا ہے ۔
     پانچویں باب میں جنگ آزادی کے تمام اہم قائدین اور خصوصاً ان سیاست دانوں اور آزادی کے متوالوں جن کا تعلق بہار سے تھا کی بنیادی کارگزاریوں کو سمیٹا گیا ہے ۔
  کتاب کا آخری باب بہت دل دوز اور پرسوز ہے کہ اس میں ان واقعات و حالات کا ذکر ہے جن کے باعث مولانا مظہر الحق کو ملک کی سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہونا پڑا ۔اور وہ شخص جو ہمیشہ میدان کارزارِ میں رہا اور وہ بھی اگلی صف میں اسے تنہائی کی زندگی گزارنی پڑی ۔
    اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ مصنفہ نے نہایت اختصار کے ساتھ مولانا مظہر الحق کی تمام جہتوں کو سمیٹ لیا ہے اور ان کے کارناموں اور قربانیوں کی روشنی میں ان کے قد کو اس طرح پیش کیا ہے کہ
مولانا کی وہ حیثیت جو وقت کی گرد میں دب کر رہ گئی تھی روشن ہو کر سامنے آ گئی ہے ۔ پوری کتاب پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہم  اپنے ملک کے ایک سچے ہیرو سے مل کر آ رہے ہیں اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں آزادی کا سکھ دینے کے لیے ہمارے بزرگوں نے کتنی اور کیسی کیسی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔
  یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم اور کارآمد ہے کہ یہ نئی نسل کو ہندوستان کے ایک سچے دیش بھکت اور جاں نثار, قوم مولانا مظہر الحق کی ہمہ جہت اور ڈائنمک شخصیت سے متعارف کرائے گی اور ان کے دلوں میں بھی جذبہء حُب الوطنی بیدار کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔
   نہاں رباب نے زبان بھی صاف ستھری ، سادہ اور رواں دواں استعمال کی ہے ۔پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے کتاب کے نہاں خانے میں رباب کے تار چھیڑ دیے ہوں۔
  نہاں رباب اس لیے بھی قابل, قدر اور لائق, تحسین ہیں کہ
ان کی یہ کتاب پی۔ایم  ہوا میںٹورشپ اسکیم کے تحت سیکڑوں مسودوں میں سے منتخب ہونے والے ان چار مسودوں میں سے ایک ہے جنھیں ہندوستانی کتابوں کے سب سے بڑے ادارے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے شائع کی
اور اس کتاب پر مصنفہ کو حکومت,ہند کی طرف سے
تین لاکھ روپے بھی عطا کیے گئے ۔
   ایک عمدہ کارآمد اور اہم کتاب کے لیے نوجوان ادیبہ محترمہ نہاں رباب کو ڈھیروں  دلی داد و مبارک باد۔
    امید ہے یہ کتاب قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور نوجوان مصنفہ کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔
                            پروفیسر غضنفر
                   سابق ڈائریکٹر ،اردو اکادمی ،برائے اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
7678436704

مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری حیات وخدمات:تعارف و تبصرہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی

مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری حیات وخدمات:تعارف و تبصرہ 
ڈاکٹر نورالسلام ندوی
Urduduniyanews72 
 بہار کے خانوادہ صادق پور، پٹنہ کے گل سرسبد حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری متنوع خوبیوں اور کمالات کے حامل تھے۔بلند پایہ عالم دین،بہترین مربی، مشفق استاذ، بے باک خطیب اور داعی تھے، اخلاص وللہیت اور جرأت و جسارت خاندانی وراثت میں ملی تھی، سادگی و تواضع کے پیکر تھے، اخلاق و شرافت کے مجسم اورانسانیت ومحبت کے نقیب تھے، ہمدردی وغمگساری کے نمونہ اور صبر و ایثار کی تصویر تھے۔حق گوئی اور حق شناسی ان کی فطرت تھی، انسانیت کو نفع پہنچانا ان کی طبیعت تھی، اکابر علماء کی یادگار تھے، انہوں نے مثالی زندگی گزاری، ان کی زندگی نسل نوکے لئے سبق آموز اور چراغ راہ ہے۔

 ضرورت متقاضی تھی کہ ایسی باکمال شخصیت کی سوانح حیات مرتب کی جائے اور نسل نو کو ان کےکارنامے سے متعارف کرایا جائے،اللہ تعالی نے یہ سعادت جواں سال صاحب قلم عالم دین اور مصنف مولانا انظار احمد صادق کے حصے میں مقدر کر تھی، موصوف برسوں مولانا کی تربیت میں رہ چکے ہیں اور سفر وحضر کے ساتھی ورفیق رہے ہیں، انہوں نے مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی صادق پوری کی حیات وخدمات پر بہترین سوانح حیات مرتب کی ہے۔

 زیر تبصرہ کتاب’’ مولانا عبد السمیع جعفری صادق پوری :حیات وخدمات ‘‘چار حصوں میں منقسم ہے، پہلا حصہ خاندان صادق پور کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے، اس میں مختصر طور پر خاندان صادق پور کا تعارف کراتے ہوئے جنگ آزادی میں اس کی قربانیاں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کے کارنامے کو قلم بند کیا گیا ہے، دوسرا حصہ جو دراصل کتاب کا بنیادی موضوع ہے مولانا کی حیات وخدمات پر محیط ہے، اس میں صاحب سوانح کی ابتدائی زندگی (جو نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کے مطالعہ سے عزم حوصلہ کو تازگی اور نئ اڑان ملتی ہے) سے لے کر موت تک کے احوال تحریر کیے گئے ہیں، سلسلہ نسب، تاریخ ولادت،ایام رضاعت میں ماں کی ممتا اور دودھ سے محرومی، پرورش و پرداخت، تعلیم وتربیت، شادی بیاہ، ملازمت،خدمت، کارنامے، اوصاف حمیدہ، خصوصیات، کمالات، عہدے، مناصب، سفر وحضر کے معمولات، تقریر و تحریر کا انداز، دعوت و تبلیغ کا اسلوب، دینی و ملی اداروں سے وابستگی، رفاہی فلاحی کاموں سے دلچسپی غرض ایک ایک پہلو  پر روشنی ڈالی گئی ہے،مولانا کی زندگی کا ایک اہم باب جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی سنٹرل لائبریری کی نوکری چھوڑ کر وطن واپسی اور امارت اہل حدیث اور مدرسہ اصلاح المسلمین، پٹنہ کی سرپرستی اور اس کے لیے جدوجہد پر مشتمل ہے، اس حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، تیسرا حصہ مختلف تنظیموں اور مکاتب فکر کے ذمہ داروں کے تعزیتی بیانات اور چوتھا حصہ ان تحریروں پر مبنی ہے جو مولانا کی وفات کے بعد متعدد اہل علم و قلم نے تحریر کئے ہیں، یہ مضامین بھی قیمتی اور معلوماتی ہیں، ان کے مطالعہ سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ مختلف مسالک کے اہل علم ودانش مولانا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

کتاب 358 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے مطالعے سے صاحب سوانح کی شخصیت کا عکس نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے، بعض ایسے واقعات اور حقائق زیر قلم لائے گئے ہیں جو مخفی تھے، ان واقعات کے پڑھنے سے انسانیت نوازی، صلہ رحمی، ہمدردی اورخدمت خلق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، کتاب مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے، مولانا عبد السمیع جعفری ندوی پر آنے والی یہ پہلی کتاب ہے، اس سے وہ لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے جن کی مولانا سے دیدوشنید رہی ہے اور وہ لوگ بھی جن کی مولانا سے دید وشنید نہیں رہی ہے،نیز اگر آئندہ کوئی مولانا کی سوانح حیات پر کام کرنا چاہے تو اس کو بنیادی مواد فراہم ہو جائے گا۔

 انظاراحمد صادق جواں سال قلم کار ہیں، خالق قدرت نے ان کو قلم کی دولت سے نوازا ہے، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کے وصف سے متصف ہیں، ان کے مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، بچوں کے لئے بطور خاص ان کی کہانیاں بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہوتی ہیں، ان کی کہانیوں کےدو مجموعے ’’باغ سلمی کے مہکتےپھول‘‘ اور ’’گلہائے جنت‘‘ شائع ہو کر دادتحسین وصول کر چکے ہیں، زیرنظر کتاب کی ترتیب و تالیف میں انہوں نے کافی محنت کی ہے اور سلیقے سےسوانح حیات مرتب کی ہے۔

مذکورہ کتاب کی ایک اہم خوبی اسلوب تحریر اور انداز پیشکش ہے، زبان سادہ، سہل اوررواں ہے، اسلوب بیان شگفتہ اور دل آویزہے، منطقی ترتیب کتاب میں شان پیدا کرتی ہے، مبالغہ اور غلو سے بچتے ہوئے متوازن راہ اختیار کی گئی ہے، افراط و تفریط اور مبالغہ آمیز اسلوب سوانح حیات کو محض تعریف و توصیف کا پلندہ بنا دیتا ہے، حالانکہ سوانح نگار نے بشری کمزوریوں اور خامیوں کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے،چونکہ احادیث میں گزرے ہوئے لوگوں کی خوبیوں کو بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے،سوانح نگار نے صاحب سوانح کے اوراق زندگی کا معروضی مطالعہ کرتے ہوئے شخصیت کے ارتقا اور نقوش کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر دی ہے،سوانح حیات میں فن سوانح نگاری کے اصول، موضوع، مواد تحقیق اور  اسلوب کی بڑی حد تک رعایت برتی گئی ہے۔

عنوانات متعدد جگہوں پر طویل اور لمبے ہیں،جبکہ عنوان مختصر اور جامع ہونا چاہیے، مثال کے طور پر’’ والد صاحب اور اجلہ اساتذہ کی موجودگی میں اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم اور اس کی بجا آوری‘‘،’’جامعہ میں آخری سال کی پریشانیاں اور ثبات قدمی کا مظاہرہ، ’’مفوضہ فرائض کے علاوہ غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘، اس کوبالترتیب مختصر کرکے اس طرح لکھا جا سکتا تھا،’’ اچانک خطبہ جمعہ دینے کا حکم‘‘، ’’جامعہ کا آخری سال‘‘، ’’غریب ممالک کے مزدوروں کے ساتھ ہمدردی‘‘،جہاں جہاں تاریخ اور سنین درج کی گئی ہے شمسی تاریخ اور سنین کے ساتھ قمری تاریخ بھی رقم کی گئی ہے،یہ قابل تحسین ہے، آج کل عموماً قمری تاریخوں کا التزام نہیں ملتا ہے۔ اسی طرح حوالوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے، جس سے کتاب کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔یہ کتاب سوانح عمری کے باب میں ایک اضافہ ہے،اس کی طباعت معیاری، کاغذ نفیس اور سرورق خوبصورت ہے، امید ہے کہ ارباب علم ودانش اس کاوش کی بھرپور پذیرائی کریں گے۔گرانی کے دور میں کتاب کی قیمت250روپے زیادہ نہیں ہے، اسے الحرا پبلک اسکول،شریف کالونی، پٹنہ اور بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
E-mail:nsnadvi@gmail.com
Mob NO. 9504275151 
****

جمعہ, جون 02, 2023

مسلم خواتین کی زیڈ پلس سیکیورٹی ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

مسلم خواتین کی زیڈ پلس سیکیورٹی 
Urduduniyanews72 
حج کے مقدس سفر پر پہلی بار سو سے زائد خواتین دہلی سے بغیر محرم کے روانہ ہوئی ہیں، وزیر مملکت برائے خارجہ میناکشی لیکھی نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، اورروانگی سے قبل اپنے خطاب میں یہ کہا ہے؛
"بغیر محرم کے سفر حج پر بھیجنا وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کا حج سے متعلق قابل ستائش فیصلہ ہے،یہ حج اور معاشرے میں خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے جاری کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔"
 پچھلے تین دنوں سے اس خبر کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، حکومت اسے اپنی بڑی حصولیابی  سمجھ رہی ہے،جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے،   یہ درحقیقت خواتین کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے،انہیں بااختیار نہیں بنایا گیا ہے بلکہ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، خدا انہیں سلامت رکھے، ہر مصیبت سے ان کی حفاظت فرمائے، آمین 
یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن خواتین کو بااختیار بنانے کے نام پر ان کے اختیارات سے بھی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔اور خواتین پہلوانوں جیسا حشر تمام خواتین کا کیا جانے والا ہے۔پہلے ایک حد تک خوب واہ واہی کی جاتی ہے،انہیں دیش کی قابل فخر بیٹیاں کہ کر میدان میں تنہا اتار دیا جاتا ہے،  جب ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، ان کی عصمت وعزت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،تو پھرحکومت منھ موڑ لیتی ہے، ان کا درد اور ان کی چینخ تک انہیں سنائی نہیں دیتی ہے، مزے کی بات تو یہ ہےکہ کہ ادھر خواتین دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈہ سے بغیر محرم کے حج پر جارہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف دہلی ہی کے جنتر منتر پر خواتین جو درد سے کراہ رہی ہیں، ان کی فکر نہیں ہے، یہ قول وفعل میں کھلا ہوا تضاد ہے۔
آج مرکزی حکومت کی موجودہ پالیسی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے خواتین کو بااختیار بنانے کے عنوان پر آگے کردیتی ہے، پھر ان کے تمام اختیارات کو سلب کرلیتی ہے، حتی کہ جمہوری ملک میں انہیں احتجاج کا بھی اختیار نہیں ہے۔

آج مسلم خواتین بھی دین کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ کر اس کو نہیں سمجھ رہی ہیں کہ انہیں بااختیار نہیں بے اختیار بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔مذہب اسلام میں ایک خاتون کی کیا قیمت وحیثیت ہے، اس موٹی بات سے بھی ہماری بہن بیٹیاں لا علم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہوا کہ رخ پر سفر کررہی ہیں،اور رطب ویابس میں فرق نہیں کرپاتی ہیں۔
ایک معمولی آدمی جو اسمبلی یا لوک سبھا الیکشن میں منتخب ہوجاتا ہےتواس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اس کے دائیں بائیں پولس کے نوجوان ہوتے ہیں، یہ ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اگر وہی شخص وزیر بن بنتا ہے تو مزید قیمتی ہوجاتا ہے، زیڈ پلس سیکیورٹی انہیں فراہم کی جاتی ہے،  یہی حال اسلام میں خواتین کا ہے،خدا نے انہیں مقام خاص سے نوازا ہے،ان کے قدموں میں جنت ہے، یہ خود جنت کی چیز ہیں،ان کی ولادت کو قرآن نے بشارت سےتعبیر کیا ہے،ان کی تعلیم وتربیت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، پھرمرحلہ وار اور بتدریج ان کا مقام بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ خواتین ملکہ ہیں، مذہب اسلام نےمحرم کی شکل میں خواتین کو زیڈ پلس سیکیورٹی دی ہے،یہ بہت ہی قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جو محرم کہلاتے ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن سے اس خاتون کی شادی بھی نہیں ہوسکتی ہے، ان کی عزت وعصمت کی حفاظت پر خدا کی طرف سے مامور کئے گئے ہیں،خاص بات یہ ہے کہ جب ایک خاتون میکے رہتی ہے، وہاں بھی شریعت اسلامیہ نے ان کی سیکیورٹی کا خیال کیا ہے، ان کے نسبی رشتہ داروں کو اس پر مامور کیا ہے،بطور مثال باپ، دادا اور ان کا آبائی سلسلہ، چچا، ماموں وغیرہ،
اور جب سسرال آتی ہے تو سسرالی رشتہ داروں کو بھی اس کی ذمہ داری دی گئی ہے، انمیں بھی کچھ لوگ محرم ہوتے ہیں، بطور مثال خسر اور ان کا آبائی سلسلہ، شوہر کی اولاد، بیٹا، بیٹے اور بیٹی کی اولاد،اسی طرح داماد وغیرہ۔
محرم میں کچھ  لوگ ایسے بھی ہیں جو دودھ کے رشتہ سے حرام ہوتے ہیں، یعنی رضاعی باپ، چچا، ماموں، دادا وغیرہ،یہ محرم رشتہ دار ہیں، جو ان کی حفاظت میں اپنی جان کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔یہ خدائی انتخاب ہے،یہی وجہ ہے کہ پوری عمر یہ سیکیورٹی ایک مسلم عورت کو حاصل رہتی ہے،اورکوئی ان سے چھین نہیں سکتا ہے۔
ایک آدمی جو لوگوں کے ذریعہ منتخب ہوا ہے، اگر اس کی سیکیورٹی چھین لی جائے تویہ اس کے حق میں توہین ہے، تو یہاں بھی خواتین جو خدائی قانون کے ذریعہ منتخب کی گئی ہیں، حج کے سفر پر بغیر محرم کے جارہی ہیں، یہ ان کےلئے صدمہ کی بات ہے،کہ  حفاظتی انتظام نہیں ہے، یہ گھر دروازہ پر نہیں جارہی ہیں ،بلکہ ایک طویل مسافت پر گئی ہیں، ایک خاتون تین دن یا اس سے زائد کا سفر بغیر سیکیورٹی کےاسلام میں نہیں کرسکتی ہے،چہ جائے کہ یہاں حج کے اس لمبے سفر میں مکمل چلہ لگ رہا ہے، یہاں انہیں سیکیورٹی سے محروم کیا گیا ہے، یہ ان کی حق تلفی ہے۔ یہ خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ ایک معزز مسلم خاتون کے لئے تکلیف کا سامان ہے۔محرم کا ہونا ضروری ہے،اس کے بغیر عورت کے لئے حج نہیں ہے، ایک عورت پر حج فرض ہونے کے لئے محرم رشتہ دار کا ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔
استاد گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے ہیں؛خواتین کو محرم کے بغیر سفر حج سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ عبادتوں کا اصل مقصود اللہ تعالٰی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے، اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہو تو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی کا اندیشہ ہے، 
شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے ہٹ کر عملی طور پر بھی سفر حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یا محرم کا ہونا نہایت ضروری محسوس ہوتا ہے، آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بار بار طبیعت خراب ہوتی ہے، مقام کی اجنبیت، ازدحام اور زبان کی عدم واقفیت کی وجہ سے خواتین کو بار بار مدد کی ضرورت پیش آتی ہے، بہت سی جگہ طویل قیام کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی دشوار قانونی کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان مواقع پر محرم رشتہ دار یا شوہر کا قدم قدم پر تعاون مطلوب ہوتا ہے، (کتاب الفتاوی جلد ۴)


ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر  جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
یکم جون ۲۰۲۳ء

جمعرات, جون 01, 2023

حج کی سماجی معنویت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حج کی سماجی معنویت ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
 حج اسلام کے ان پانچ ارکان میں سے ایک ہے ، جس پر اسلام کی پر شکوہ، بلند وبالا، اخلاق وکردار سے مزین عمارت کھڑی ہوتی ہے، اگر حج مقبول نصیب ہوجائے تو انسان اس سفر سے ایسا پاک وصاف ہو کر لوٹتا ہے، جیسے وہ ماں کے بطن سے آج ہی نمودار ہوا ہے، دنیاوی کثافت، گناہوں کی غلاظت سے پاک وصاف، نو مولود بچے کی طرح معصوم ۔ ہر آدمی کے لیے یہ سفر ممکن نہیں، کبھی مال ودولت کی کمی رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی جسمانی اعذار سفر کی اجازت نہیں دیتے؛ اس لیے حج کی فرضیت کے لیے استطاعت کی قید لگائی گئی، کیوں کہ حج میں سفر بھی کرنا ہوتا ہے، اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، اب اگر آدمی بیمار ہے ، تندرست نہیں ہے تو خود سفر نہیں کر سکتا ، قید میں ہے تو اس سے نکل نہیں سکتا، تندرست وتوانا ہے اور مالدار بھی، لیکن راستہ پُرا من نہیں ہے، یا ویزا میں کوئی رکاوٹ آگئی، ان تمام صورتوں میں انسان ’’غیرمستطیع‘‘ ہے، اس لیے حج فرض ہی نہیں ہوگا، تا آں کہ یہ اعذار ختم ہوجائیں۔
 حج کی فرضیت شرعی مصلحتوں کے علاوہ اپنے کو دوسرے سے ممتاز سمجھنے والی بیماری کو دور کرنے کے لیے ہے، یہ بیماری انسان ہیں ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جہاں کوئی نہیں، وہاں ہوا، کا ٹھکانہ  ہوتا ہے، جو آدمی غریب ہے، پلاسٹ اور چھپر کے مکان  میں زندگی گذارتا ہے، خانہ بدوش ہے اس کے اندرخود کو ممتاز اور نما یاں کرنے کی بیماری پیدا ہی نہیں ہوتی، اس لیے غرباء پر حج فرض نہیں کیا گیا، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ بلند وبالا نقشوں کی عمارتیں، قسم قسم کے ڈیزائن کے کپڑوں کا استعمال یہ خود کو الگ تھلگ اور ممتاز دِکھنے کے لیے ہی کئے جاتے ہیں، جینس پینٹ میں کئی کئی جگہ پھٹا ہونا خواتین کے کپڑوں میں آگے پیچھے لٹکتے ہوئے چتھرے ، یہ سب امتیازہی کے لیے لیے تو ہیں، غریب تواپنا تن ڈھک لے یہی بڑی بات ہے، وہ قسم قسم کے ڈیزائن والے کپڑے کہاں سے لائے گا، اس لیے غریبوں کو اس سے الگ رکھا گیا اور امراء پرعموما اس بیماری کا غلبہ ہوتا ہے؛ اس لیے اس پر حج فرض کیا گیا ۔
 حج صرف محبت وعبادت کا سفر نہیں ہے؛ بلکہ اس کی بڑی سماجی معنویت ہے، اس سفر کا آغاز احرام کے کپڑوں سے ہوتا ہے، یہ کپڑے سلے ہوئے نہیں ہوتے، اور عموما رنگین بھی نہیں ہوتے ؛ کیوں کہ ان سے امتیاز پیدا ہوتا ہے، ٹوپی کے مختلف ڈیزائن ہوتے ہیں اور یہ بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہم کس طرف کے ہیں، کس پیر کے مرید اور کس مسلک کے ترجمان ہیں؛ اس لیے ٹوپی سرے سے اتار دی جاتی ہے، تاکہ اللہ کے مہمان کی صرف ایک شناخت ’’ضیوف الرحمن‘‘ کی رہ جائے۔ احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد کفن کی یاد آتی ہے، اور آدمی محسوس کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں اسی طرح کپڑوں میں لپیٹ کر لوگ قبر میں رکھ دیں گے، موت کی یہ یاد لوگوں کو اچھے کام کی طرف راغب کرتی ہے، اور گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ احرام کی دورکعت نماز اللہ کی بندگی اور اس کی بڑائی کے استحضار کے لیے ہوتا ہے۔
 احرام کے کپڑے لپیٹنے کے بعد لبیک اللہم لبیک پڑھ تا ہے، اور بندہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریفیں اور نعمتیں سب تیری ہیں اور تیری حکومت میں کوئی شریک نہیں، یہ اعلان انسانی ذہن کو ایک خاص رخ پر لگا تا ہے، بندہ اللہ کی قدرت کا اعتراف کرتا ہے، اللہ کی بڑائی تسلیم کرتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ تو ہی بڑا ہے، سماج کے سارے جھگڑے اپنے کو بڑا سمجھنے کی  وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، ’’میں‘‘ نے اس دنیا کو تشدد کی آماجگاہ بنا دیا ہے، جب حاجی یہ ترانہ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن سے اپنی بڑائی کا خیال جاتا رہتا ہے ۔
 وہ مکہ پہونچ کر اللہ کے گھر کا طواف کرتا ہے اور اللہ کی رحمتوں ، برکتوں ، نعمتوں سے بڑا حصہ پالیتا ہے، وہ حجر اسود کا بوسہ لیتا ہے، نہیں پہونچ پاتے تو دور سے ہی ہاتھوں کو حجر اسود کی طرف کرکے چوم لیتا ہے، حجر اسود کبھی سفید تھا، اب تو کالا ہی ہے، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہم گورے ضرور ہیں ، لیکن کا لے کو اپنے سے قریب کرنے بلکہ چومنے تک کے لیے تیار ہیں۔
 طواف میں پوری دنیا کے مختلف رنگ ونسل کے لوگ ہوتے ہیں، جو صرف اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے گھر کا طواف لگا رہے ہوتے ہیں، اس میں سماجی طور پر یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ رنگ ونسل ، ذات وبرادری اور بود وباش کی اہمیت نہیں ہے ، نہ کالے کو گورے پر اور نہ گورے پر کالے کوکو ئی فوقیت حاصل ہے، سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے۔
 طواف کرتے وقت داہنا کاندھا کھولا جاتاہے اور شروع کے چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلا جاتا ہے، تاکہ دیکھنے والے جسم کی لاغری کو کمزوری نہ سمجھیں، اس کے اندر کی طاقت وتوانائی کو محسوس کریں اور کسی کو جسمانی اعتبار سے حقیر سمجھنے کا مزاج ختم ہوجائے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر آدمی اپنی عاجزی، کم مائیگی اور فروتنی کا اقرار کرتا ہے، اٹھتے بیٹھتے اللہ اکبر کہہ کر اور سجدے میں سر رکھ کر تلبیہ میں جو اعلان کیا تھا اس کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے، اور کبر و انانیت سے پاک وصاف دل لے کر وہاں سے اٹھتا ہے، پھر شکم سیر ہو کر زمزم پیتا ہے، زمزم کا یہ پانی جسمانی وروحانی امراض کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ چشمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیر رگڑنے سے پھوٹا تھا، یہ اللہ کی ذات پاک ہے جس نے پتھر یلی زمین سے میٹھے پانی کا چشمہ نکال دیا، یہ اللہ کی قوت کاملہ کی روشن دلیل ہے۔
 صفا ومروہ کا چکر لگاتے وقت اسے حضرت ہاجرہ کی وہ بے کلی اور بے چینی یاد آتی ہے جو وہ بچے کے لیے پانی کی تلاش میں برداشت کر رہی تھیں، جب بچہ نظر وں سے اوجھل ہوجاتا تو وہ کس طرح دوڑتی تھیں،’’ میلین اخضرین‘‘ اسی کی یا دہے، حضرت ہاجرہؑ کے اس عمل کی معنویت کو محسوس کرنے کی غرض سے عورتوں کو نہیں، مردوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ماں کی بے تابی اور بے چینی کو مرد بھی محسوس کریں ۔
 یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حج کا سفر بیت اللہ کے نام پر ہی ہوتا ہے، لیکن سوائے طواف کے حج کا کوئی عمل بیت اللہ میں نہیں ہوتا، حج کے لیے انسان پہلے منیٰ جاتا ہے ، جہاں خیموں کا شہر آباد ہے، بلند وبالا عمارت میں رہنے سے جو فخر اور امتیاز کی بیماری پیدا ہو گئی تھی ، وہ ان خیموں میں رہ کر دور ہوجاتی ہے، پھر عرفہ جاتا ہے، وہاں بھی خیموں کا شہر ، بندہ روتا ہے، گڑ گڑا تا ہے اور لمبی لمبی دعائیں مانگتا ہے، اس سے بندہ کا یقین اللہ پر مزید پختہ ہوجاتا ہے او راس کے ذہن ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے، اللہ ہی بے نیاز ہے، بقیہ سب محتاج ہیں، محتاجوں سے کیا مانگنا ، جو خود محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے۔
عرفہ سے روانگی مزدلفہ کو ہوتی ہے، یہاں خیمہ بھی نہیں ہے، کھلے آسمان کے نیچے رات گذاریے، یہاں سماج کے وہ لوگ کثرت سے یاد آتے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، ان کی پریشانی ، بے خوابی اور رات بھر کروٹ بدلنے کے کرب کاتھوڑا بہت احساس ہر ایک کو ہوتا ہے، یہاں کنکری چنتے ہونے خیال ان غریبوں کا بھی آتا ہے جو کھیت کھلیان میں کرے دانے دُنکے چُن کر اپنی زندگی گذارتے ہیں مزدلفہ سے لوٹ کر یہ کنکریاں جمرات پر ماری جاتی ہیں، یہ جمرات شیطان کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ماری گئی کنکریوں کی یاد دلاتے ہیں، لیکن اب تو شیطان نہیں ہے، یہ کنکریاں در اصل اپنے نفس امارہ کو ماری جاتی ہے اور اگرپہلے دن جمرہ عقبیٰ اور بقیہ دو دن تینوں جمرات کی رمی کے بعد نفس امارہ کی موت نہیں ہوئی اور انسان نفس مطمئنہ کے مرحلہ تک نہیں پہونچا تو سمجھنا چاہیے کہ کہیں کوئی کمی رہ گئی ۔ اس کے بعد قربانی دی جاتی ہے، قربانی کے جانور کو ذبح کے بعد وہاں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ، لیکن اگر آپ دیکھ سکیں تو پائیں گے کہ جانوروں کی آنکھیں عموما کھلی رہتی ہیں، اور زبان حال سے یہ سوال کرتی ہیں کہ میں نے تو اللہ کے نام پر جان قربان کر دیا، لیکن کیا تم نے بھی اپنے دل میں چھپے کینہ ،کدورت ، فسق وفجور اور خواہشات کی قربانی دی ، اگر آپ نے ایسا کر لیا تو میری قربانی رائیگاں نہیں گئی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میری قربانی رائیگاں چلی گئی، قربانی سے فارغ ہو کر وہ اپنے بال منڈواتا ہے تاکہ سابقہ زندگی کی کثافتوں کو اتار پھینکے اب وہ ایسا ہو گیا ، جیسے وہ معصوم ساآج ہی پیدا ہوا ہے، ساری پاکی حاصل ہو گئی تو وہ احرام کے کپڑے اتار کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر پھر کعبۃ اللہ آتا ہے، اور اللہ کی عظمت کے گن گان کرتا ہے، مدینہ طیبہ کی زیارت پہلے اگر نہیں کیا ہے تو وہ زیارت کے لیے جاتا ہے اور اس رحمۃ للعالمین پر درود وسلام پیش کرتا ہے ، جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں انقلاب آیا؛ بلکہ یہ پوری کائنات ان کے صدقے اور طفیل میں بنی، مدینہ کے مقررہ ایام گذار کر حاجی اپنے گھر لوٹتا ہے، وہ وہاں سے کھجور اور زلزم کے ساتھ اللہ پر توکل ، تحمل ، برداشت اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونے اور رہنے کا تحفہ لے کر اپنے گھر لوٹنا ہے، جس کی وسماجی اہمیت ومعنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

کرن رجیجو کی رخصتی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

کرن رجیجو کی رخصتی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
 وزارت قانون وانصاف سے کرن رجیجو کو رخصتی مل گئی ہے اور ان کو ارضیاتی سائنس کی وزارت دی گئی ہے ، جب کہ وزارت قانون وانصاف کا کام اب ارجن رام میگھوال آزادانہ طور پر وزارت ثقافت کے ساتھ دیکھیں گے ، نریندر مودی کے دوسرے دور حکومت میں وزیر قانون روی شنکر پرساد بنے تھے، دو سال کے اندر ہی ان سے یہ وزارت لے کر رجیجوکو سپرد کی گئی اور ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ انہیں ہٹا کر میگھوال کو وزیر قانون وانصاف بنا دیا گیا، اس طرح کرن رجیجو سے وزارت قانون لے کر جو وزارت دی گئی ہے وہ انہیں زمین پر پٹک دینے کے مترادف ہے، ارضیاتی سائنس زمین کے بارے میں جاننے سمجھنے، برتنے کا ہی دوسرا نام ہے، کرن رجیجو کو قانون سے تھوڑی بہت واقفیت تھی گو وہ روی شنکر کے پائے کے قانون داں نہیں تھے، ارضیاتی سائنس ہے تو زمینی کام؛ لیکن ان کے سر کے اوپر سے گذرجانے والا محکمہ ہے، اگر ان کی وزارت کے عملہ نے ایمانداری سے ان کا ساتھ نہیں دیا تو اس محکمہ سے بھی ناکامی ان کے حصے میں آئے گی۔
یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وزارت قانون سے کرن رجیجو کی چھٹی کیوں ہوئی، اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ وہ عدلیہ سے ٹکرانے لگے تھے، ان کے بیانات نے عدلیہ کے وقار کو مجروح کیا اور بہت سارے ریٹائرڈ جج ان کے خلاف میدان میں اتر آئے، انہوں نے ججوں کی تقرری کے موجودہ کالجیم سسٹم پر سخت بیانات دیے اور اس کے اختیارات ختم کرنے کی مہم چلائی، سبکدوش ججوں پر انہوں نے ہندوستان مخالف گروہ کا حصہ بننے تک کے سنگین الزامات لگائے، اس پر تین سو سے زائد وکلا نے ان کے خلاف بیان دیا کہ وزیر قانون دھمکیاں اور بے بنیاد الزامات لگا کر عوام میں یہ احساس اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت پر تنقید نا قابل برداشت ہے۔ان کے اس رویہ سے عوام میں حکومت کی شبیہ مسلسل بگڑتی چلی گئی تھی۔
 اس درمیان عدلیہ نے بعض ایسے فیصلے دیے جو بھاجپا حکومت کے منصوبوں کے خلاف تھے، عدالت نے الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفافیت لانے کے لیے تقرری کے نظام میں بڑی تبدیلی کا حکم صادر فرمایا، کرناٹک میں چار فی صد مسلم رزرویشن کو ختم کرکے اسے لنگایت اور کلینگا برادریوں کو دیے جانے کے حکم پر روک لگا دی، مرکزی حکومت کے خلاف دہلی کے لفٹنٹ گورنر کے اختیارات محدو کر دیے، اور وزیر اعلیٰ کو اختیارات سونپ دیے، مہاراشٹر میں ادھو حکومت گرانے میں گورنر کے کردار کو غیر قانونی قرار دے کرحکومت کے منہہ پر ایسا طمانچہ رسید کیا کہ مرکزی حکومت بلبلا اٹھی اور اس نے عدالت کے اس رخ کو کرن رجیجو کی کارستانی سمجھا اسے محسوس ہوا کہ عدلیہ کے ساتھ تصادم کا یہ طریقہ غیر مناسب ہے اور اب صرف ایک سال کا عرصہ انتخاب میں رہ گیا ہے، ایسے میں اگر منظر بدلنا ہے تو سامنے سے کرن رجیجو کوہٹا نا ہی پڑے گا، چنانچہ ان کی چھٹی کردی گئی، وہ یقینا اسی لائق تھے، کیوں کہ جمہوریت کے تین ستون کے منہدم ہونے کے بعد عدالت ہی ایسی جگہ ہے جس پر عوام کا اعتماد کسی درجہ میں قائم ہے اگر اس کے کردار کو مشکوک کردیا جائے گا تو جمہوریت سے رہی سہی توقعات بھی ختم ہو جائے گی ۔

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظرمفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

خلافت سے امارت تک _ منظر پس منظر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لیے آئیڈیل اور نمونہ عمل ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ واحدہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو ایک امت اور ایک جماعت بنایااور مسلمانوں کو متحد رہنے اور اجتماعی نظام کو برپا اور بر قرار رکھنے کی تعلیم دی، اس سے جو الگ ہوا، اسے جہنم کی وعید سنائی، اللہ رب العزت نے اعتصام بحبل اللہ یعنی دین کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا، اور تفرقہ سے دور رہنے کی تلقین کی۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے خلافت کو علی منہاج النبوة باقی رکھا اور امیر المومنین کے لقب سے یاد کیے گیے، بعد میں ”المومنین“ کا لفظ ہٹ کر صرف ”امیر“ رہ گیا، چنانچہ حضرت امیر معاویہؓ امیر ہی سے مشہور ہوئے ،پھر دھیرے دھیرے یہ امیری، ملوکیت اور شہنشاہیت میں بدل گئی، پورے دور بنو امیہ اور بنو عباسیہ میں یہی کیفیت رہی، اسلام کے بعض اصول وضوابط پر عمل ہوتا رہا اور بیش تر امور بادشاہوں کے چشم وابرو کے اشارے پر انجام پذیر ہوتے رہے، ایسے میں دھیرے دھیرے خلافت ختم ہو گئی اور عربوں میں ملوکیت کا غلبہ ہو گیا، مرکزِ خلافت عربوں سے نکل کر ترکی منتقل ہوا، یہاں بھی سلطانی جمہور کا ایک طویل دور گذرا، پھر خلافت عثمانیہ قائم ہوئی، دور دراز کے ممالک اس کے زیر نگیں تھے، ہندوستان میں گو انگریزوں کی حکومت تھی؛ لیکن مسلمان خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے، مغلیہ حکومت کے ز وال کے بعد وہ خلافت عثمانیہ کو علامتی طور پر گم گشتہ سرمایہ سمجھتے تھے،28/ جولائی 1914سے 11/ نومبر1918ءتک پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے حلیف ممالک کو ہار کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح خلافت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا، مغربی ممالک نے معاہدہ لوزان کرکے ترکی کو بے دست وپا کر دیا، اور ترکی کا ”مرد بیمار“ اس کا مقابلہ نہیں کر سکا، اور بالآخر یکم نومبر 1922ءکو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، ہندوستان میں زبر دست خلافت تحریک چلی؛ لیکن حاصل کچھ نہیں نکلا۔کچھ سالوں قبل ترکوں کا ”مرد بیمار“ تندرست وتوانا و دانا ہو کر ہمارے سامنے آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی_
 مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ کو اللہ رب العزت نے دور اندیشی اور فکر وفہم کی دولت سے مالامال کیا تھا، اپنی دور اندیشی سے انہوں نے بھانپ لیا کہ ہندوستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے، وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ یہاں بھی سلطانی جمہور کا زمانہ آنے والا ہے، ایسے میں خلافت علی منہاج النبوة کا قیام ہندوستان میں ممکن نہیں ہوگا، انہوں نے ایک نیا تصور پہلی بار ”تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة“ کا دیا، یعنی نبوی طریقہ کار کو سامنے رکھ کر اپنے اوپر شریعت کو نافذکیا جائے، ان کی اس نئی سوچ اور فکر کی ہندوستانی علماءنے تائید کی، مولانا نے تین مرحلوں میں الگ الگ پلیٹ فارم سے اس فکر کو عام کرنے کے لیے تحریک چلائی، پہلے انجمن علماءبہار بنایا، پھر جمعیت علماءکی داغ بیل اکابر علماءکے ساتھ مل کر ڈالی اور بالآخر اسلام کے اجتماعی نظام کی بقاءاوراس کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے 26جون 1921ءمطابق 19شوال 1339ھ کوغیر منقسم بہار میں ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد ؒ کی جدوجہد سے امارت شرعیہ کاقیام عمل میں آیا، یہ دراصل خلافت راشدہ کی عدم موجودگی میں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی ایک شکل اور ملت کی شیرازہ بندی کے لئے ایک شرعی تنظیم ہے۔
مولانا سید سلیمان ندوی ؒ نے امارت شرعیہ کی تعریف یہ کی ہے کہ ”کسی ایک لائق شخص کی سربراہی میں افراد امت کی ایسی شیرازہ بندی کہ اس پر جماعت کا اطلاق ہو سکے، احکام شرعی کا نفاذ واجراءبقدر امکان انتظام پا سکے اور جمعہ وجماعت، نکاح وطلاق ومیراث وغیرہ کے احکام کی تنفیذ ہو سکے اور اگر اس سے زیادہ قوت ہو تو استخلاف وتمکین فی الارض کا وہ فرض بھی ادا ہو سکے جس کی بشارت قرآن پاک نے دی ہے“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ:9)
مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے امارت کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ”اس قسم کے نظم ملت سے مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کی وحدت نمایاں ہو، ان کے تمام مذہبی وملی کام منظم ہوں، ان کی ضرورتیں پوری ہوں، ان کے مصارف مداخل ملی میں ایک نظم پیدا ہو اور اصلی جماعتی روح ان میں نمایاں ہو، دار القضائ، دار الافتاءاور بیت المال کا قیام ہو، ان کے غریبوں اور محتاجوں کی با قاعدہ امداد ہو، ان کی معاشرتی خرابیوں کی اصلاح ہو، تبلیغ واشاعت کا سلسلہ قائم ہو، ان کے مکاتب ومدارس مالی نزاع سے نجات پائیں“(ہندوستان اور مسئلہ امارت صفحہ 96)
اس تنظیم میں کلیدی حیثیت امیر شریعت کو حاصل ہے، سارے امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے ان کی سمع وطاعت معروف میں واجب ہے، زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں انجام پائیں، اس کی کوشش کی جاتی ہے؛ البتہ ان کی حیثیت امیر کی ہوتی ہے، امیر المومنین کی نہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ایک کارکن نے اپنی ترقی سے متعلق درخواست پر بمد خوش کرنی مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس کو امیر المومنین لکھ دیا تھا تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ یہاں امیرشریعت ہوتا ہے، امیر المومنین نہیں۔
 ابو المحاسن مولانا محمد سجاد ؒ نے مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی لکھنؤ کے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے: ”امیر شریعت امام اعظم نہیں ہے، جس کی ولایت عامہ تمام ممالک اسلامیہ کو محیط ہوتی ہے ؛بلکہ وہ والی ہے اور اس کی ولایت عامہ ان بلاد وقریہ کو محیط ہوتی ہے کہ جس کی ولایت اس کے سپردکی گئی ہو“ (ہندوستان اور مسئلہ امارت۔ صفحہ 10)
 امارت شرعیہ کے شعبہء جات میں تنوع ہے، یہاں مذہبی رہنمائی اور عائلی امور میں ظلم اور ناانصافی کو دور کرنے کے لئے دارالقضاءودارالافتاءقائم ہے،تعلیم کے میدان میں دارالعلوم الاسلامیہ،المعہدالعالی اور بڑی تعداد میں مکاتب قائم ہیں، عصری علوم کے لئے امارت پبلک اسکول، مولانا منت اللہ رحمانی اردوہائی اسکول،قاضی نورالحسن اسکول اور پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ مستحکم اور منظم انداز میں کام کررہے ہیں، مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مزید معیاری بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ قائم ہے، خدمت خلق کے لئے اسپتال اور غریب ومسکین،بیواوءں کے وظیفے،غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد،امداد علاج اور زمینی وآسمانی مصیبت کے وقت ریلیف کا مضبوط نظام ہے، جس کی کوئی نظیر دوسری نہیں ملتی، یہ سارے کام بیت المال سے انجام پاتے ہیں، اس نظام کومضبوط اور مستحکم انداز میں زمینی طورپر نافذ کرنے کے لئے اب تک مختلف ادوار میں آٹھ امراءشریعت بشمول موجودہ امیر شریعت مفکرملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ اللہ پوری تن دہی اور لگن سے کام کرتے رہے ہیں، ان کی معاونت کے لئے ہردور میں نائب امراءشریعت کا بھی سلسلہ رہاہے،موجودہ نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی ہیں،اورایک بڑا عملہ امرائے شریعت کے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے خدمت کے جذبہ سے نظامت کی نگرانی میں کام کرتارہاہے،اور اجتماعی طریقہء کار کو روبعمل لاکر امارت شرعیہ کے کام، کاز اور نصب العین کو آگے بڑھانے میں اپنی توانائی لگائی ہے،یہاں مسلمانوں کو کلمہ واحدہ کی بنیاد پر متحد کرنے اور تنفیذ شریعت علی منہاج النبوة پر زندگی گذارنے کے لیے محنت ہوتی ہے، اس کام کو کرنے کے لئے نظامت کی نگرانی میں شعبہء تنظیم مسلسل سرگرم عمل ہے اور گاؤں گاؤں میں تنظیم بنانے کا عمل جاری ہے۔ 
امارت شرعیہ اپنے قیام کے زمانہ سے ہی فعال اور متحرک رہی ہے اور لوگوں کی حمایت ہردور میں اسے حاصل رہی اور یہاں کے امرائے شریعت نے جراءت اور اولوالعزمی کی تاریخ رقم کی، حکمران وقت سے آنکھوں سے آنکھیں سے ملاکر بات کیا اور ہردور میں ملت کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے،معاملہ طلاق ثلاثہ کا ہو یا سی اے اے کا،مسلم پرسنل لا پر آنچ آرہی ہو یا فساد کی آگ میں برباد مسلمانوں کا معاملہ، تمام موقع سے امارت شرعیہ نے ملت کو بیدار کرنے کا کام کیااور کئی معاملوں میں اس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ امارت شرعیہ نے اس طریقہ کار سے ملت میں نفع رسانی کا کام کیا اور قدرت کا اصول یہ ہے کہ نفع بخش چیز باقی رہتی ہے، اور غیر نفع بخش چیزیں فنا ہوجاتی ہیں، امارت شرعیہ کا سو سال سے زائد سے مسلسل اور متواتر خدمت انجام دینا اور باقی رہنا اس کی نفع بخشی کی دلیل ہے۔
احکام خداوندی واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا پر عمل اور امت کو ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گذارنے کے لئے اس ادارہ سے وابستگی ضروری ہے،اسلام کا حکم یہی ہے کہ تم جہاں کہیں رہو ایک امیر کے ماتحت زندگی گذارو، اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت بھی کرو، اگر کوئی اجتماعی نظام سے نہیں جڑا توان احکام پر عمل کی دوسری کوئی شکل موجود نہیں ہے،اس لئے امارت شرعیہ سے وابستگی ہماے لیے دینی، ایمانی اور شرعی تقاضہ ہے، اسی لئے بڑوں نے کہاہے کہ امارت شرعیہ ہمارے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے اور خدمات کے اعتبار سے یہ ہمارے ملی وجود کی روشن علامت ہے۔
اس شرعی تقاضہ کی تکمیل سے دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اندر کلمہ کی بنیادپر اتحاد کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے ملت کے مفاد میں یکسو اور یک جٹ ہوکر کام کرنے کا مزاج پیدا ہوتاہے، اتحاد کی قوت کی وجہ سے بہت سارے مسائل حکومتی سطح پر حل ہوجاتے ہیں، اور سماجی ،سیاسی میدان میں اس کی اہمیت محسوس کی جاتی ہے، جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، جس قدر امارت شرعیہ سے لوگ جڑیں گے اسی قدر اس کی افادیت ملکی سطح پر بھی بڑھتی جائے گی اور ہرمیدان میں کامیابی قدم چومے گی، عصر حاضر میں انفرادی کاموں سے زیادہ ٹیم ورک کی اہمیت بڑھ گئی ہے، کاموں کے پھیلاﺅ کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی ہرمحاذ پر کام کرے ،ایسے میں مختلف قسم کی صلاحیتوں کے لوگ جب امارت شرعیہ سے جڑیں گے اور ان کا تعاون ملے گا تو کام تیزی سے نمٹے گا اور ٹیم ورک کے ذریعہ یہ ممکن ہوسکے گاکہ ہم مختلف میدانوں میں تیزی سے معیاری انداز میں کام کو آگے بڑھائیں۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ٹیم ورک ہے اور یہاں ہر ایک کی اپنے اعتبار سے بڑی اہمیت ہے، ہمیں اس اہمیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

منگل, مئی 30, 2023

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد

مدرسہ ضیاء العلوم پٹنہ میں آغاز قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد 
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 29/مئی 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم قاسمی ) 
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جسے سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔اور یہ نزول سے لے کر قیامت تک کے لئے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا ۔قرآن کریم وہ دریچہ اور سرمایۂ حیات ہے جس میں ہم بیک وقت ماضی حال اور مستقبل تینوں دیکھتے ہیں ۔قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیرہ کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لی ہے ۔فرمان الٰہی ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
ترجمہ:
بیشک ہم نے  قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-اللہ رب العزت اپنے بندوں کے ذریعہ اس کتاب کی حفاظت فرماتے ہیں، اور چھوٹے معصوم بچوں کے سینے میں اسے محفوظ فرماتے ہیں ۔واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم میں چار طلبہ وطالبات نے آغاز قرآن کریم کی، جن کے اعزازات میں ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس قرآن، اہمیت قرآن، احکامات قرآن کے حوالے سے بچوں کو خطاب کیا گیا، جن بچے بچیوں نے ناظرہ قرآن کا آغاز کیا ان کی فہرست اس طرح ہے ۔
علقمہ بن عرشی
حذیفہ بن عرشی
ارقم حیات بن فضل ربی
نایاب حسین بنت ساجد علی۔
اس موقع پر مدرسہ ضیاء العلوم کے أستاذ قاری ابوالحسن نے سورہ فاتحہ کی تلاوت سے باضابطہ آغاز کرایا ،  مدرسہ ضیاء العلوم کے ڈائریکٹر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے دعا کے ساتھ اس پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...