Powered By Blogger

پیر, جون 12, 2023

عمرہ کی ادائیگی : لمحہ بلمحہ دم بدممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عمرہ کی ادائیگی : لمحہ بلمحہ دم بدم
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی(9431003131)
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
(عازمین حج کے سوئے حرم روانہ ہونے کے موقع سے خصوصی تحریر)
اس روئے زمین پر سب سے پہلا گھر لوگوں کے لئے مکہ میں تعمیر کیا گیا ، جس کے ارد گرد اللہ تعالیٰ نے بے پناہ برکتیں رکھیں ، اس کو عالم کے لئے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا اور اسے امن و شانتی کی جگہ بنا دیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کے قلوب کو اس کی طرف کھینچنے کی دعا مانگی اور اللہ تعالی نے قبول کرلی ، اب تمام وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں، دیوانہ وار اس کی طرف جانا چاہتے ہیں تاکہ اللہ اس کے پاک گھر کا طواف کرسکیں ، تڑپ سب کو دی گئی ، لیکن حج سب پر فرض نہیں کیا گیا ، سب جا بھی نہیں سکتے ، جا تو وہی سکتے ہیں جن کے پاس مال ودولت ہے ، اسی لئے اس سفر کی فرضیت کے لئے استطاعت کی شرط لگا دی گئی ، غرباء جو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لئے محتاج ہیں ،ان کو فرضیت سے الگ رکھا ۔
اب جو عمرہ کے لئے جارہا ہے یا حج کے ساتھ عمرہ بھی کرنا چاہتا ہے اس کو حکم دیا گیا کہ بدن کے زائد بال جو کاٹے جاتے ہیں، اسے کاٹ لے ، ممکن ہوتو غسل کرلے ، ہر طرح سے پاک و صاف ہولے اور اگر وہ مرد ہے تو اپنے سارے سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور دو چادر جسم پر لپیٹ لے ، دونوں کا رنگ سفید ہو اور دونوں بے سلے ہوئے ہوں اور اگر وہ عورت ہے تو اپنے روزمرہ کے کپڑے میں جائے ، بال نہ ٹوٹیں اس کے لئے سر پر اسکارف باندھ لے، وضوکے وقت اسے کھول کر سرکا مسح کرے ، احرام کے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے ،مردہے تو اپنا سر کھول دے اور نیت کرے الَلّٰھُمَّ ِانی اُریدُ العُمْرَۃ فَیَسّرہالی وَ تَقَبّلْ مِنی: کہ اے اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں اسے آسان کردے اور قبول کرلے ،پھر یہ بھی حکم دیا گیا کہ یہ محبت وشیفتگی کی راہ ہے اس لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب کرو ، میل نہ چھڑائو، ناخن نہ کاٹو ، خوشبو نہ لگائو ، شکار نہ کرو ، سر کو نہ چھپائو ، جھگڑے لڑائی پہلے بھی ممنوع تھے اب اور احتیاط کرو ، لباس اور وضع قطع میں یکسانیت آگئی اب حج کا ترانہ گائو ، اللہ کے یہاں حاضری درج کرائو ۔لَبَّیْکَ الّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَوَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیکْ لَکَ۔ میں حاضرہوں ، تیرے حضور حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، بیشک حمد اور شکر کا مستحق تو ہی ہے، انعام واحسان تیرا ہی کام ہے، بادشاہی صرف تیرے لئے ہے ،اور تیرا کوئی شریک نہیں ۔
زبان پر لبیک کا ترانہ ہو اور دل اللہ کی محبت سے معمور ومخمور اور اخلاص کی دولت سے مالا مال ہو ، پڑھتے جائو ، دیکھو کعبہ نظر آگیا ، نگاہیں ادب سے جھکالو ،آگے بڑھو ، دھیرے دھیرے نظر اٹھائو ، مانگ لو ،جو پہلی نظر میں مانگ سکتے ہو ، دنیا بھی مانگو ، عقبی بھی مانگو ، اپنا اپنا ظرف ہے، کوئی دنیا مانگتے مانگتے پلک جھپکادیتا ہے ، کوئی آخرت مانگ کر جنت کا مستحق ہوتا ہے اور کوئی دونوں جہاں کی فلاح مانگتا ہے 
دائیں جانب دیکھومطاف کے ایک کونے پر،ہری بتی جل رہی ہے ، رک جائو، حجر اسود تمہاری بائیں جانب ہے ، طواف کی نیت کرلو ، تکبیر تحریمہ کی طرح حجر اسود کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھائو ، بسم اللہ سے شروع کرو ، اللہ اکبر کہو ، اور اللہ کی تعریف نہ بھولو ، بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد کہہ لو ، دونوں ہاتھوں کو حجر اسود پر رکھ لو، ورنہ دور سے ہی رکھنے کی صورت بنا کر بوسہ لے لو ، طواف عمرہ کا احرام کے ساتھ کررہے ہو یا حج کا تو اپناداہنا کاندھاکھولد و یہ جو کعبہ کے دروازے کے بعد والا کونا ہے، وہاں سے دوسرے کونے تک چہار دیواری سی بنی ہے، اسے حطیم کہتے ہیں ، طواف میں اس کے باہر سے چکر لگائو ، یہ دیکھو ، یہ حجر اسود سے پہلے والا کونہ ہے ، اسے رکن یمانی کہتے ہیں،آسانی سے چھو سکو تو چھولو اور یہاں سے رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّار وَاَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَارِ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ پڑھناشروع کرو ، اس کے علاوہ پورے طواف میں جو دعا یاد ہو ، پڑھو ، نہ یادو ہو تو کلمہ ہی پڑھو ، دعا جو مانگنی ہو اور جس زبان میں مانگنی ہو ، مانگ لو ، اللہ سب زبانیں جانتا ہے اور سب کچھ سنتا ہے ، حج کی تیاری میں دعا عربی میں نہیں یاد ہوئی، فکر نہ کرو ، شروع کے تین چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلو ، ہر بار حجر اسود پر پہنچو تو پہلے ہی کی طرح بوسہ لو ، سات چکر پورے ہوگئے ، کاندھا ڈھک لو ، جگہ مل جائے تو حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیانی دیوار سے چمٹ جائو ، سرور خسار کو دیوار سے لگا دو اور دنیا وآخرت کی دولت مانگو ، دیکھو !یہ جو پنجرہ جیسا نظر آتا ہے ، اس میں مقام ابراہیم ہے ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ، ا ن کے پائوں کے نشان پتھر پر ثبت ہیں ، اس کے قریب کھڑے ہوجائو ، اور اللہ نے طواف کرنے کی توفیق دیدی، اس کے شکر کے طور پر واجب دو رکعت نماز پڑھ لو ، قریب نہ جگہ ملے تو دور ہٹ کر پڑھ لو ، نماز واجب ادا ہوگئی ، اب سیر ہوکر آب زمزم پیو ، تمام بیماریوں سے شفا مانگو، زمزم جس نیت سے پیو ، پوری ہوتی ہے جو دعا چاہو مانگ لو ، زمزم کا کنواں اب بند کردیا گیا ہے ، زائرین اسے دیکھ نہیں سکتے ، یہ بھی ایک چیز وہاں دیکھنے کی تھی ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ۔
چلو اب صفا پر چلتے ہیں، حجر اسود کے مقابل جوہری پتی ہے اس سے اوپر بڑھتے چلو اور چڑھتے جائو یہ صفا ہے اور سامنے وہ جو اونچا نظر آرہا ہے ،راستہ کے اختتام پر وہ مروہ ہے ، اللہ نے اسے اپنے شعائر میں شمار کیا ہے ، حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پانی کی تلاش میں اس جگہ کا چکر لگایا تھا ، اسی راستے سے دوڑی تھیں ، صفا پر چڑھ گئے ، اب کعبہ کی طرف رخ کر لو ، اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرو ، دعائیں مانگو، مانگ چُکے تو صفا سے مروہ کی طرف بڑھو ، دیکھو جو سبز رنگ کے پائے اور بتیاں دیکھ رہے ہو ، یہاں سے تیز چلو ، اب یہ دوسرا سبز رنگ کا پایہ آگیا ، اب تیز چلنا بند کردو اور مروہ کی طرف بڑھو ، مروہ پہنچ گئے ، ایک چکر پورا ہوا ، یہاں بھی جو کچھ مانگ سکتے ہو،مانگ لو اور پھر صفا کی طرف چلو ، راستہ میں جو دعا یاد ہو پڑھو ، تیسرے کلمہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اسی کو پڑھتے رہو اور اس طرح سات بار کرو ، مروہ پر پہنچ کر یہ سلسلہ ختم ہوگیا ، پھر دعا مانگو ، اب یہاں سے نکل چلو ، بہت لوگ قینچی لے کر یہاں بال کاٹ رہے ہیں ، عورتیں پردہ کی رعایت کے ساتھ تھوڑا بال خود کاٹ لیں ، یا محرم مرد یا عورت سے کٹوالیں ، مرد ایسا نہ کریں ، انہیں تو پورا بال چھوٹا کروانا ہے، یا مونڈوانا ہے مروہ سے نکل کر بہت دکانیں ہیں ، کسی کا رخ کریں، معاملہ طے کرلیں کہ کتنی اجرت لے گا ، چلو بال بھی صاف ہوگیا ، اس کے ساتھ ہی عمرہ مکمل ہوگیا ، اللہ کا شکر اداکیجئے ، غسل وغیرہ کیجئے ، روز مرہ کے لباس پہن لیجئے ، مکہ میں رہئے ، حرم شریف میں پنچ وقتہ نماز باجماعت تکبیر اولی کے اہتمام کے ساتھ پڑھیے نماز باہر سڑکوں پر بھی ہوجاتی ہے ، پوری زندگی تو کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھتے ہی رہے ہو ، یہاں پہونچ گئے تو کم سے کم کعبہ نماز میں سامنے رہے ، کیسی محرومی کی بات ہے کہ یہاں بھی یہ سعادت نہ ملے ، اس لئے کوشش کیجئے اور پنج وقتہ نمازیں مسجد کے اندر پڑھیے نفلی طواف جس قدر کرسکتے ہوں کرلیجئے کہ یہ عبادت دوسری جگہ میسر نہیں ، انتظار کیجئے ایام حج کے آغاز کا ، جب پھر آپ کو حج کا احرام باندھنا ہوگا ۔

جمعہ, جون 09, 2023

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)

 وفاق المدارس کا قیام قاضی القضاة حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تحریک پر مدارس دینیہ کانفرنس منعقدہ24/ تا 26/ مئی 1996ءکو مدرسہ ضیاءالعلوم رام پور رہوا ضلع سمستی پور میں عمل میں آیا تھا،مدارس کے صورت حال پر حضرت قاضی صاحب ؒ نے فرمایا تھا: یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم وتربیت کے میدان میں جو عمومی انحطاط پیدا ہوا اور عصری تعلیم گاہوں کے معیار میں جو بگاڑ اور تنزل ہوا اس سے ہمارے دینی مدارس بھی متاثر ہوئے ہیں، مدارس کے درمیان باہم ربط وہم آہنگی کا فقدان، کسی مرکزیت سے ان کا وابستہ نہ ہونا، نصاب تعلیم کا اختلاف، امتحانات میں بے ضابطگی وغیرہ۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ نے وفاق کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: مدارس کے موجودہ نظام تعلیم وتربیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ مدارس کو باہم مربوط کرنے، نظام تعلیم وتربیت میں یکسانیت لانے اور نصاب تعلیم کو موثر بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ کا قیام ضروری ہے، چنانچہ امارت شرعیہ کی سر پرستی میں وفاق قائم کیا گیا، اس وقت سے وفاق سر گرم عمل ہے، اور الحمد للہ اس وقت دو سو چھہتر مدارس اس سے ملحق ہوچکے ہیں، جن کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہو رہا ہے، او ر وقتا فوقتا مدارس کا تعلیمی جائزہ بھی لیا جاتاہے، جس کی وجہ سے روز بروز مدارس منسلکہ کی تعلیمی وتربیتی حالت بہتر سے بہتر ہو رہی ہے، خوشی کی بات ہے کہ وفاق کی طرف سے ایک جامع نصاب تعلیم بھی مرتب کر دیا گیا ہے، جس میں جدید حالات اور وقت کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ 
امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب نے لکھا ہے:امارت شرعیہ بہار واڈیشہ کی نگرانی اور سرپرستی میں وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کا نظام کامیابی کے ساتھ چل رہاہے۔ جس کے ذریعہ آزاد مدارس اسلا میہ کو منظم کرنے، ان کے درمیان ربط وہم آہنگی پیدا کرنے اور مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بند کو ششیں کی جا رہی ہیں، جس کے اچھے نتائج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔اس سے منسلک مدارس کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
 اس کے پہلے صدر حضرت قاضی مجاہداسلام رح ا ور پہلے ناظم حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری رح تھے، قاضی صاحب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر مولانا عبد الحنان صاحب بانی جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی اور مولانا انیس الرحمن قاسمی یکے بعد دیگرے صدر منتخب ہوئے، تیسرے میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری صدر اور مفتی نسیم احمدقاسمی ؒ ناظم مقرر ہوئے،مفتی نسیم احمد قاسمیؒ کے بعد مفتی سہیل احمد قاسمی سابق صدر مفتی ناظم بنائے گیے،راقم الحروف (محمد ثناءالہدیٰ قاسمی) کو دوسرے میقاتی اجلاس منعقدہ7/ اکتوبر 2000ءکو حضرت قاضی صاحب کی تحریک پر مجلس عاملہ میں شامل کیا گیا، میں ان دنوں بورڈ کے ایک مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، پہلی میقات میں ہی نصاب تعلیم کا خاکہ اور وفاق المدارس کا دستور مرتب ہوا، مدارس کے لیے ضابطہ اخلاق اور اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا۔میں ان مٹنگوں میں شریک کار رہا۔ 
پانچویں میقات کے لیے انتخاب کی کاروائی 21/ فروری 2008ءکو مکمل ہوئی، جس میں مولانا انیس الرحمن صاحب سابق ناظم امارت شرعیہ صدر اور ناظم راقم الحروف کو منتخب کیا گیا، چھٹے اور ساتویں میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ صدر اور ناظم احقر ہی منتخب ہوا، اس طرح 2008 سے 2023تک مسلسل وفاق کی خدمت انجام دیتا رہا، میری پوری مدت کار میں مفتی سعید الرحمن صاحب قاسمی معاون ناظم اور نائب ناظم امتحان کی حیثیت سے وفاق کے کاموں میں معاونت کرتے رہے، مفتی سہیل احمد قاسمی کے آخری دور میں انہوں نے کار گذار ناظم کی حیثیت سے بھی کام کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ معاونت کا حق ادا کیا، اس طرح الحمد للہ وفاق کے ناظم کی حیثیت سے میری کار کردگی کم وبیش سولہ سال کو محیط ہے، اس پوری مدت میں معمول کے کام، امتحانات، نتائج کی ترسیل،جائزے،انعامات کی تقسیم، اساتذہ کے لیے تربیتی کیمپ کے علاوہ زونل میٹنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو مدارس الگ ہو گیے تھے، ان میں سے کئی کو جوڑا گیا، ملحق مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا، دو آل بہار مسابقة القرآن کریم کا کامیاب انعقاد ہوا، مدارس ملحقہ کی ڈائرکٹری مرتب ہوئی اور اس کی طباعت کا انتظام وفاق المدارس کی طرف سے کیا گیا، رحمانی قاعدہ اور مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس کی طباعت ہوئی، آخر الذکر کتاب ان محاضرات پر مشتمل ہے جو ملک کے نامور مدارس کے اساتذہ نے مختلف علوم وفنون کی تدریس پر دیے تھے، کتاب میں حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کی ”آداب المعلمین“ اور مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب ”درس نظامی کیسے پڑھائیں“ کو من وعن شامل کر لیا گیا تاکہ کتاب کی جامعیت اور افادیت میں اضافہ ہو، مولانا آزاد اور ہمدرد یونی ورسٹی سے وفاق کے اسناد کو منظور کروایا گیا، ہمدرد ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ علی گڈھ میں عصری علوم کے اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا، جس سے کثیر تعداد میں مدارس نے فائدہ اٹھایا، وفاق کا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرایا گیا، مختلف مواقع سے مدارس کے نام رہنما خطوط جاری کیے گیے، لاک ڈاؤن میں مدارس کے علاوہ گھروں پر تعلیم کا نظام بنایا گیا، کیوں کہ تعلیمی ادارے بند کیے گیے تھے، گھروں کے دروازے انہیں، ان کا موں کی وجہ سے وفاق المدارس کے کام میں بہتری اور مضبوطی آئی۔
ان تمام کاموں میں تنفیذی اقدام علی الترتیب جناب ضمان اللہ ندیم، مولانا واعظ الدین، مولانا مرغوب عالم، مولانا راشد العزیری ندوی، مولانا امداد اللہ ندوی، مولانا سعید کریمی وغیرہ کرتے رہے،ان کی توجہ سے وفاق کے کاموں کو وسعت نصیب ہوئی۔ 
 اب نیا انتخاب ہوگیا ہے حضرت امیرشریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب صدر اور نائب امیرشریعت مولانا شمشاد رحمانی صاحب خازن راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم چن لے گیے ہیں،اور اس موقع پر وفاق المدارس الاسلامیہ کے نائب صدور، نائب سیکریٹریز، ارکان عاملہ کا بھی انتخاب عمل میں آیا ، اللہ کرے یہ انتخاب وفاق کے کاموں کو آگے بڑھانے، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہو۔ اور وفاق المدارس نے نصاب تعلیم، نظام امتحان اور معیاری تعلیم کے لیے جو منصوبے بنائے ہیں، وہ زمین پر اتر سکیں، موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ذہن ودماغ میں بھی وفاق کو فعال بنانے کے لیے بعض منصوبے ہیں، نئے ذمہ داران اس کو زمین پر اتارنے کی کوشش کریں گے تو وفاق مضبوط ہوگا اور مستحکم بھی۔
اس اجلاس کے موقع سے مدارس اسلامیہ کو داخلی اور خارجی محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے، اس پر بھی غور وفکر کیا گیا اہم تجاویز بھی سامنے آئے، داخلی طور پر ہم ہی میں سے کچھ دانشور حضرات مدارس اسلامیہ کی تعلیم پر سوالات کھڑے کرتے رہتے ہیں، مدرسہ کے مزاج کو بدل کر عصری علوم کی شمولیت پر زور دیتے ہیں اور اس کی افادیت کو مشکوک بنانے کی جدو و جہد میں لگے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے ان کی نیتیں درست ہوں، لیکن اس کے اثرات سماج پر اچھے نہیں پڑ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کی طرف طلبہ کا رجوع کم ہو تا جا رہا ہے، اور اچھے اساتذہ بھی مدارس کو نہیں مل پا رہے ہیں۔ ہمیں مدارس کی تعلیم کو پر کشش بنانے اور اسے دینی ضرورت سمجھ کر فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ کا ایک دوسرا پہلو وہ ہے جو ان دنوں بڑے علماءکی سر پرستی میں حفظ پلس کے نام سے چلایا جا رہا ہے، مدارس اسلامیہ والے جن بچوں کو نورانی قاعدہ سے پڑھاکر آگے بڑھاتے ہیں، اور حفظ کے بعد اعدادیہ میں داخلہ لے کر انہیں عالم فاضل بنانے کا کام کرتے رہے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مدارس میں مسلمانوں کے پڑھنے والے بچوں کی تعداد چار فی صد سے زائد نہیں ہے۔ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ مسلمانوں کے ان چھیانوے فی صد بچوں کی فکر میں دُبلا نہیں ہو رہا ہے، جو عصری علوم بہترین ملازمت اور آءیی ایس، آئی پی ایس بننے کے لیے ہی پڑھتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ مدارس کو کمزور کرنے اور اس کے پوسے پالے بچوں کے اغوا کی تحریک ہو؟ آج کے دور میں کچھ بھی ممکن ہے، اس لیے اس پر بھی ہم سب کو غور کرنا چاہیے، بعض اہل قلم کی مدلل تحریریں بھی اس موضوع پر آچکی ہیں، افادیت، نا فعیت اور ضرورت کو بھی غور وفکر میں سامنے رکھا جائے اور کسی نتیجہ پر پہونچنے کی کوشش کی جائے، یہ بھی ایک بڑا کام بایں معنی ہے کہ دینی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد طلبہ ہماری دینی ضرورت کے کاموں میں لگے ہوتے ہیں، اگر طلبہ دوسرے کاموں کی طرف راغب ہوئے تو دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہمارے پاس افراد دستیاب نہیں ہوں گے، کسی ڈاکٹر، انجینئر، آئی ایس، آئی پی اس کو پنج وقتہ نماز با جماعت کی با قاعدہ امامت کرتے ہوئے آج تک میں نے نہیں دیکھا، یہ مدارس کے فضلاءہی ہیں جو ہماری ان ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، ان کی معاشی پس ماندگی دور کرنے کا یہ حل نہیں ہے کہ انہیں آئی ایس، آئی پی اس بنا دیا جائے، حل یہ ہے کہ ملت ان کی کفالت کے لیے کلاس ون گریڈ کے افسران کی تنخواہ اور سہولتیں انہیں دی جائیں۔
دوسرا محاذ خارجی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینے کی روایت پرانی ہے، جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئیی ہے، اس مسئلہ نے زور پکڑ لیا ہے، مدارس کو بدنام کرنے کے نت نئے منصوبے اختیار کیے جا رہے ہیں، اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو ہراساں کرنے، زدو کوب کرنے، اور پڑھانے کے لیے لے جانے والے اساتذہ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں،ابھی حال ہی میں دانا پور میں سینتیس طلبہ کو بہبودیءاطفال کے محکمہ نے اتار لیا تھا، امارت شرعیہ کی مسلسل محنت سے ان بچوں کو پولیس تحویل سے آزاد کرایا گیا، اس موقع سے جب بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے علمائ، دانشور اور ارباب بصیرت جمع ہوں گے تو ہمیں ان مسئلوں کے حل کے لئے مضبوط، موثر اور قابل عمل، لائحہ عمل بنانا چاہئے، تاکہ ان کا تدارک ہو سکے۔
 اس وقت ملک کو جن حالات کا سامنا ہے اور تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی جو تحریک مرکزی حکومت کے تحت چلائی جا رہی ہے جس میں سوریہ نمسکار، یوگا، اور وندے ماترم کہنے پر زور دیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ امور سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کا جز نہیں ہیں، مگر آر، ایس، ایس اور ان کی حلیف تنظیموں کے ذریعے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ عصری اسکولوں میں پڑھنے والے ہمارے بچے یا تو اسکول کے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائیں یا انہیں مجبورا اس مشرکانہ عمل میں شریک ہو نا پڑے۔ یہ معاملہ وفاق سے بلا واستہ جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن مسلم سماج کو ان حالات کی وجہ سے پریشانوں کا سامنا ہے، وفاق المدارس سے منسلک مدارس اور ان کے اساتذہ سماج کو ان حالات سے نکالنے کے لئے کیا جد وجہد کر سکتے ہیں؟ ان پربھی غور کرنا چاہیے۔ 
 اس سلسلے کی ایک اور کڑی ایسے مواد کی شمولیت ہے جو ہندو دیو مالا ئی کہانیوں پر مشتمل ہے اور جن کے ذریعہ ہند توا کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے،مسلم عہد حکومت کے واقعات کو نصاب سے نکالا جا چکا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے عہدزریں کا کوئی تصور بچوں کے ذہن میں نہ جائے،کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ مسلم دور حکومت کو ظالمانہ اور عدل وانصاف سے خالی قرار دیا جائے۔ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا ابو الکلام آزاد کی جگہ بھی نصاب میں باقی نہیں ہے۔
یہ معاملہ صرف تاریخ کا نہیں؛ بلکہ ہندوستان کے سیکڑوں سالہ تہذیب وثقافت اور ورثہ کے تحفظ کا ہے، اس کا تعلق ہماری اپنی حمیت وغیرت اور تاریخی تسلسل سے ہے جس کے بغیر ہندوستان کی سیکڑوں سال کی تاریخ اندھیروں میں چلی جائے گی اس پورے معاملہ پر بھی وسیع تناظر میں غور وفکر کرنا چاہیے۔

چھین کر کو ن لےگیاچہرہ میر ا ا پنا نہیں مرا چہرہ تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ * انس مسرورانصاری

بک رہا ہوں جنوں میں۔۔۔۔۔(2) 
                      ( چندمعروضات) 
          اردودنیانیوز۷۲ 
         *انس مسرورانصاری
    
        بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
        کچھ نہ سمجھے خد ا کر ے کو ئی
                                         (غالب) 
      اگر لوگوں میں کچھ بھی سمجھ ہوتی تو شاید اس طرح کی تحریروں کی ضرورت نھیں پیش آتی۔ ہمارا کام سمجھاناہے،سو ہم سمجھاتےآئےہیں اورسمجھاتےرہیں گے۔لوگ سمجھ سمجھ کر بھی نہ سمجھیں تو ان کی سمجھ کوہم اپنی سمجھ سےخداکےحوالے کرتےہیں۔ 
       عرض یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اردو شعروادب کا سب سےبڑا المیہ یہ ہے کہ جس شخص کو ذراسی بھی اردو آجاتی ہے وہ شاعری کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔کیا دیہات اورکیاشہر،ہرجگہ شاعر مخلوق کاایک جم غفیرموجودہےجواپنی   محبوباؤں کی زلف گرہ گیرکا  شکار,اوررگ گل سےبلبل کےپرباندھنے میں مصروف ہے۔ایسی حالت میں جب قوم خطرناک اور تباہ کن مسائل میں گھری ہوئی بےدست وپاہے،قوم کادانشورطبقہ شاعری اور تخیلاتی دنیاؤں میں فرارہوگیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔ 
        دنیا پڑی ہوئی ہے ترقی کی راہ میں
        شاعرپڑےہوئے ہیں مگر واہ واہ میں
    ضروری معلوم ہوتاہے کہ برصغیرمیں اردو شاعروں اورمتاشاعروں کی مردم شماری کرائی جائےتاکہ ان کی صحیح اور اصل تعداد کا کچھ تو پتا چلے۔گمان غالب ہےکہ بھارت میں ان کی آبادی لاکھوں میں ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ مشاعرہ گاہ سے سوشل میڈیا اورکتابی دنیا تک۔ہرشاعرعظیم ہے اور ہر تخلیق شاہ کار۔۔۔۔! واٹس ایپ، فیس بک، ٹیوٹر، انسٹا گرام وغیرہ کوئی بھی ایپ کھولئے،اوردیکھئیےکہ سڑےسےسڑے شعر پر بھی لوگ اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کردادوتحسین کےنعرےبلندکرتےہیں کہ غالب واقبال کی روحیں کانپ کانپ جاتی ہوں گی۔ یہاں تک کہ سڑےاوربدبودارشعروں 
 اور غزلوں کو شاہکار کے درجہ تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ حالانکہ انھیں شاہ کار کے معنی تک نہیں معلوم۔اس طرح شاعروں کو۔۔عظیم الشان۔۔بتاکر انھیں گمراہ کرنے کی مہم بھی عام ہے۔ہرشاعرعظیم اوراس کی شاعری عظیم الشان ہوگئی ہے۔ہرشعرپرواہ۔۔واہ۔۔بہت خوب۔۔بہت عمدہ۔۔لاجواب۔۔۔بے مثال۔۔جیسے تبصرے سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر شاعرکےدماغ کا خراب ہوجانا بعیدازقیاس نہیں۔ جب کہ حقیقت  حال یہ ہےکہ گزشتہ بیس سالوں میں اردو زبان  میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی گئی جوعالمی ادب کو متاثر کرسکتی اوردوسری زبانوں میں ترجمہ کےلیے ناگزیر ہو جاتی۔ 
      المیہ یہ بھی ہے کہ اردو مشاعرے اب کوی سمیلن کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔۔سبحان الله۔۔ ماشاءاللہ۔۔ جزاک اللّہ کے بجائے اب دادو تحسین کے لیےتالیایاں بجائی اوربجوائی جاتی ہیں۔یہ اردو مشاعرہ کی تہذیب نہیں۔ یہ بدعت ہندی کوی سمیلن سے آئی ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ ادب سازوں اور ادب نوازوں کو تالیوں جیسےغیراردو تہذیبی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔۔ مشاعرہ کی اپنی ایک روایت اور تہذیب ہےجس کی بنا ہمارے بزرگوں نے ڈالی تھی اورصدیوں سے اس تہذیب کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن موجودہ زمانہ کےشاعراورسامعین،دونوں نے مل کراس اردو تہذیب کوموت کےگھاٹ اتاردیا۔ مشاعروں کے اسٹیج پر اردوشاعری کو طوائفوں کی طرح نچایا جاتاہے۔شعراءمضحکہ خیزاداکاریاں اور حرکتیں کرتے ہیں اور سامنے بیٹھے ہوئے تماشائی تالیاں بجاتے ہیں۔ 
            ،، اک تماشاہواگلہ نہ ہوا۔۔ 
     اس سچائی سے کون انکارکرسکتاہے۔پھر اس قبیح عمل کو اردو کی ترقی اورفروغ سےجوڑدیاجاتاہے۔کہاجاتا ہےکہ مشاعروں سے اردوزبان کو فروغ حاصل ہورہاہے۔۔کوئی بتائے کہ مشاعروں کو سن کر کتنےلوگوں نےاردو زبان کولکھناپڑھناسیکھا۔؟تماشا یہ بھی ہےکہ آج مشاعرےمحض ذہنی عیاشی کاایک ذریعہ بن گئے ہیں۔اردوکےنام پر محض تجارت۔صرف کاروبار۔! مشاعروں اور جلسوں کےشعراء اورنعت خوانوں کی کثیر تعداد ان لوگوں کی ہےجو اردولکھناپڑھنانہیں جانتے اورکلام ہندی میں لکھ کرلاتےہیں۔اردو کو اپنی رسوائی کا یہ تماشا بھی دیکھناتھا۔اردو زندہ بادکےنعرے لگانےوالوں میں اکثریت ان لوگوں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا میں اپنا نام اردو زبان میں لکھنا تک پسند نہیں کرتے۔شاید اردومیں لکھنا اپنی توہین سمجھتےہیں۔اجدادکی بخشی ہوئی عظیم الشان وراثت نا خلف وارثوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔انھیں شاید یہ تاریخی مقولہ یادنھیں کہ جس قوم کو اپنا غلام بنانا ہو اس سےاس کی زبان چھین لو۔قوم اپنی موت آپ مرجائےگی۔یوں تواردو کومارنےاور مٹانے کاسلسلہ ہمارے ملک میں آزادی کے فوری بعدسے شروع ہوگیاتھا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ آج بھی مرکزی و صوبائی حکومتں اردو کی ترویج و ترقی کے نام پرسرکای ونیم سرکاری اداروں کوہرسال  کروڑوں روپئے کا بجٹ دیتی ہیں۔لیکن ان اداروں کاحال اوران کی کارکردگی کیاہے،،سب جانتے ہیں۔ 
     اردو اکادمیاں مشاعروں کے منتظمین سے کمیشن لےکر بڑی بڑی امدادی رقم منظور کرتی ہیں۔یعنی خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔منتظمین اپنا کمیشن کاٹ کر شاعروں کو نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ یہ بھی خوش وہ بھی خوش۔ کس قدر نفع بخش دھندہ ہے۔      دوسری طرف امداد نہ ملنے کے سبب مسودات دھول چاٹتے رہتے ہیں۔ ایک سال۔ دوسال۔ تین سال۔ پھر دیمکوں میں جشن مسرت برپاہوتا ہے۔ طباعت کے منتظر مسودات کی تعداد بھی توکافی ہوتی ہے جن میں شعری مجموعات کو اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح دیمکوں کو وافر مقدار میں طعام کے لیے غذائی سامان فراہم ہوجاتاہے۔۔ہمارے ایک دوست کےمضامین  کا مسودہ۔۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی۔لکھنؤ،،، میں مالی امدادکی درخواست کےساتھ جمع ہوئے تین سال ہوگئے۔ جب بھی خط لکھئےتوجواب نہیں آتا۔ فون کیجئے توجواب ملتا ہے کہ ابھی ۔۔پروسیس،، میں ہے۔اس پروسس کا سلسلہ کتنادرازہوگا۔ یہ تو خدا ہی جانےالبتہ مزے کی بات یہ ہےکہ مذکورہ مسودہ کے بہت بعد میں جمع ہونے والے مسودات زیور طباعت سےآراستہ ہوکر کب کے منظرعام پرآچکےہیں۔خطاہمارےدوست کی ہے۔ مسودہ کےساتھ کسی سفارشی کو کیوں نہ بھجا۔بیچارے تین سال سے اسی دکھ میں گھلےجارہےہیں کہ جیتے جی ان کی کتاب چھپ جاتی تو اچھا ہوتا۔۔ہم سمجھاتے ہیں کہ اناللہ و انا الیہ راجعون،، پڑھئےاورصبرکیجئے  مگران کا منھ نہیں کھلتا۔ ایسےکتنےہی ادیب اورشاعر ہوں گے۔۔۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان۔دہلی،، کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔   مشاعروں اور سیمیناروں کےلیے بجٹ موجود ہیں مگر مالی امداد کی درخواست کےساتھ جمع شدہ مسودات کی عمریں دو، تین، اور شاید چار سالوں تک پہنچ گئی ہیں۔۔۔
         کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔ 
    اردو سیمیناروں کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔۔ اس میں بھی کمیشن خوری کاطویل سلسلہ ہے۔۔اردوکےنام پرتجارت  خوب پھل پھول رہی ہے۔ فروغ پارہی ہے۔ سیاسی سفارش ہو تو اردو اکادمیاں ایک لاکھ سے پانچ اورچھ لاکھ روپئے تک کے ایوارڈبھی دیتی ہیں مگر کمیشن کی شرط لازم ہے۔ خواہ ادیب اورشاعر مستحق ہویانہ ہو۔۔چاہیں تو آپ بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوکر منفعت بخش کاروبارکرسکتے ہیں۔ 
       صلائےعام ہےیاران نکتہ  داں کےلیے ۔
      المیہ یہ بھی ہےکہ موجودہ زمانہ میں اردوتنقید اپنےمعنوی معیارسےمنحرف ہوکر محض تعریفی و توصیفی تبصرہ نگاری تک آگئی ہے۔اردو شعروادب کی ترقی کےلیے یہ ایک منفی اور نقصان رساں رجحان اورعمل ہے۔ اردو مشاعروں کےپوسٹراور تشہیری تحریروں کاہندی میں رواج تیزی سے عام ہورہاہے۔اردو والوں کا حال اس ریوڑی والے جیسا ہوگیا ہےجس کاخوانچہ شریر بچے زمین پر گراکراس کی ریوڑیاں لوٹنے لگتےہیں۔ریوڑی والاحیران و پریشان کہ وہ کیا کرے۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو وہ شریربچوں کے ساتھ خود اپنی ہی ریوڑیاں لوٹنےلگتاہے۔ 
       یاد رکھیے۔۔۔اردوزبان کا رسم الخط ہی اس کی جان ہے۔اب اس کی جان کی جان نکالنے کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اردو کاصرف نام رہ جائےگااورکچھ عرصہ بعدنام بھی جاتا رہے گا۔یہ زبان ہندی کے ساگر میں ڈوب َجائے گی۔۔۔۔ کھوجائے گی۔۔۔ایک حصہ انگریزی اپنےاندرہضم کر لے گی اور باقی سارے حصے ہندی زبان نگل جائے گی۔۔۔پھر اردوکی موت پر انالللہ واناالیہ راجعون۔۔ پڑھنا بھی لوگ بھول جائیں گے۔۔اور ایک عظیم الشان اسلامی لٹریچر مدفون ہوجائےگا۔لوگ قرآن تو پڑھیں گے لیکن تلفظ ہندی ہوگا۔آیات کےمعنی و مفہوم بدل جائیں گے۔لوگ ثواب اور برکت کےلیے قرآن پڑھیں گے اور عذاب کو دعوت دیں گے۔۔زبانیں اسی طرح بتدریج ختم ہوتی ہیں۔کیااردوزباں بھی ختم ہوجائے گی۔؟بلاشبہ یہی ہوگا۔۔۔ 
اگراب بھی نہ جاگےہم توصرف صوراسرافیل     ہی ہمیں جگاسکے گا۔۔ 
  یاد رکھئے کہ اردوزبان اپنے اصل رسم الخط کےساتھ ہی زندہ رہ پائےگی۔اردو کی زندگی اس لیے ضروری ہے کہ اس سےاسلامی کلچر اورشاندارلٹریچرکا وافرذخیرہ وابستہ ہے۔ہم ایک عظیم الشان وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔اس لیےاردو میں لکھنا پڑھنااب ثواب کے زمرے میں داخل ہوگیاہے۔اس زبان کا تحفظ اب صرف زبان کا تحفظ نہیں۔ اردوزبان کا مسئلہ اب صرف ایک معدوم ہوتی ہوئی زبان کامسئلہ نہیں۔بلکہ یہ مسئلہ قومی وملی تحفظات کےساتھ منسلک ہے۔اس لیے اردوزبان کی بقاء و تحفظ کےلیے نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔مشاعرےاورسیمیناراردوکےمسائل کا حل نہیں ہیں۔اپنوں کی خودغرضیوں کی شکار اردوزبان کوگہرےجذباتی تعلقات مطلوب ہیں۔ وہ محبت کا تقاضہ کرتی ہے۔بے چاری اردو۔!مسلمانوں کو اب تسلیم کرلینا چاہئے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔مردم شمارے کے وقت ز بان کے خانہ میں کوئی غیرمسلم کبھی۔۔ اردو۔۔ نہیں لکھتا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اردوہمای جان ہے۔۔ ہماری شان ہے۔۔۔ ہماری شناخت اورپہچان ہے۔۔۔۔ اردو زندہ باد۔۔ اردوپائیندہ باد۔۔۔۔۔۔ 

                چھین  کر  کو ن لےگیاچہرہ 
                 میر ا ا پنا  نہیں  مرا چہرہ
               
                تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی
            میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ 
 
        * انس مسرورانصاری

      َ قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                رابطہ/9453347784

جمعرات, جون 08, 2023

حج: اسلام کا اہم رکن __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حج: اسلام کا اہم رکن __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)
اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرہے،ایمان لانا،اورایمان کے بعدنماز پڑھنا، روزہ رکھنا،بعض شرائط وقیودکے ساتھ سب پرفرض ہے، مردہو یا عورت، جوان ہویابوڑھا، فقیرہویامالدار،سب ایک صف میں ہیں،چونکہ یہ کام سب کرسکتے ہیں،بعض مخصوص حالات میں جولوگ نہیں ادا کرسکتے ہیں ان کو چھوٹ دی گئی ہے یااعذارختم ہونے کے بعدادائیگی کاحکم دیاگیاہے۔
زکوٰۃ اورحج سب پرفرض نہیں کیاگیاہے،کیونکہ ان کاتعلق مال سے ہے،اورسب مال والے نہیں ہیں،پھرجن کے پاس مال ہے،ان کے اوپرزکوٰۃفرض کرنے کے لیے نصاب کی شرط لگائی گئی اورحج فرض کرنے کے لیے مالداری کے ساتھ ’’استطاعت‘‘کی قیدلگائی گئی،اس لیے کہ حج میں سفر کرنا بھی ہوتاہے اورمال بھی خرچ کرناہوتاہے،اب اگرآدمی بیمارہے،تندرست نہیں ہے توخودسفرنہیں کرسکتا،قیدمیں ہے توسفرکی اجازت ہی نہیں۔تندرست وتوانااورآزادہے؛ لیکن راستہ پرامن نہیں ہے ۔عورت کے ساتھ کوئی محرم جانے والا نہیں ہے یاعورت عدت میں ہے،توبھی سفرممکن نہیں،اس لیے اس پرحج فرض نہیں،سب کچھ موجودہے، سفرخرچ اورواپسی تک بال بچوں کے نفقہ کی صورت نہیں بنی توبھی حج کرناممکن نہیں اوراللہ رب العزت اپنے فضل سے بندوں پر اسی قدرفرض کرتاہے جس کی ادائیگی پروہ قدرت رکھتاہو۔
اب قدرت وطاقت ،صحت ،مال ودولت اورہرقسم کی مطلوبہ استطاعت ہوتواللہ اپنے گھرکی طرف بلاتاہے،سب کچھ اللہ ہی کادیاہواہے،ایسے میں وہ یوںہی بلالے کچھ نہ دے اورکوئی وعدہ نہ کرے، تب بھی سرکے بل جاناچاہیے،دوڑناچاہیے،لیکن یہ اللہ رب العزت کاکتنابڑافضل اورکرم ہے کہ سب کچھ دے کرکہتاہے کہ آؤمیرے گھر،احرام باندھو،طواف کرو،سعی کرو،حجراسودکااستلام کرو،رکن یمانی کوچھوؤ،زمزم پیو،صفاومروہ کی سعی کرو،عرفہ،مزدلفہ میں وقوف کرو،منیٰ میں رات گذارو،شیطان کوکنکری مارو،قربانی کرو،ہم اس کے بدلے تمہیں جنت دیں گے،وہ جنت جس کے لیے تم پوری زندگی ہماری عبادت کرتے رہتے ہو،اس پوری زندگی کامطلوب صرف ایک حج مقبول میں تمہیں دیں گے،تم نے اس سفرمیں کوئی غلط کام نہیں کیا، جھگڑانہیں کیا، شہوانی خواہشات سے مغلوب نہیں ہوئیں توایسے پاک صاف ہوکرگھرلوٹوگے جیسے آج ہی تم ماں کے پیٹ سے معصوم پیداہوئے ہو،اس کے علاوہ اوربھی انعامات تمہیں ملیں گے،تمہارے اندردنیاسے بے توجہی پیداہوجائے گی،آخرت کی فکراوررغبت تمہاری زندگی کاحصہ بن جائے گی،تم نے جومال خرچ کردیاوہ تمہارے لیے فقروفاقہ کاباعث نہیں بنے گا؛ بلکہ اللہ تعالی اپنے فضل سے تمہیں اوردے  کرغنی بنادے گا،اتنادے گاکہ بے نیازہوجاؤگے،تمہیں ہرقسم کی عصبیت اورامتیازکی بیماری سے پاک کردے گا،ریا،نمودونمائش کاجذبہ ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالی کے اس اعلان فضل ونعمت کے بعدبھی دوسرے ارکان کی ادائیگی کی طرح حج میں جانے میں کوئی کوتاہی کرتاہے تویہ بڑی محرومی اوربدبختی کی بات ہے،یقیناًحج زندگی میں ایک بارفرض ہے،لیکن فرض ہونے کے بعدساقط نہیں ہوتاہے اورکیامعلوم اگلی زندگی کیسی ہوگی؟ابھی اللہ کے انعام کی قدرنہیں کیااوربعدمیں مال ہی جاتارہا یاصحت ہی باقی نہ رہی تویہ فرض باقی رہ جائے گا،اس لیے انتظارکرناکہ ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں تب اللہ کے بلاوے پرلبیک کہیں گے اورسب گناہ سے رک جائیںگے،یہ شیطان کابہلاواہے کہیں اس کے پہلے ہی بلاواآگیااورکون جانتاہے کہ کب بلاواآئے گا؟ مرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی اورکوئی نہیں جانتا کہ کب اورکس وقت ملک الموت اپناکام کرجائیںگے؛ اس لیے جوزندگی دی گئی ہے اورجومال ودولت ،صحت وعافیت فراہم ہے،اس کی قدرکرنی چاہئے اوربلاتاخیراللہ کے اس بلاوے پردوڑجاناچاہیے۔
ہمارے بعض بھائی اس اہم رکن کی ادائیگی کواس لیے ٹالتے ہیںکہ بچی کی شادی کرنی ہے، حج الگ فرض ہے اوربچی کی شادی الگ ذمہ داری ہے، خصوصاًاس شکل میں جب کہ لڑکی ابھی سیانی بھی نہیں ہوئیں ہے ذمہ داری ہی اس کام کی نہیں آئی،ایسے میں کہاں کی عقل مندی ہے کہ ایک فرض کوآئندہ والی ذمہ داری کے نام پرٹالاجائے۔یہی حال مکان کی تعمیر،زمین کی خریدگی،اوردوسرے گھریلومعاملات کاہے،جن کے نام پرشیطان بہکاتارہتاہے،اورحج کی ادائیگی مؤخرہوتی رہتی ہے،اورپھروہ وقت بھی آجاتاہے کہ ادائیگی کی شکل باقی نہیں رہتی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس شخص کے پاس کوئی عذرنہ ہو،استطاعت بھی ہو،سخت حاجت بھی درپیش نہ ہو،ظالم بادشاہ اورمرض نے بھی نہ روکاہواوروہ  بغیر حج کئے مرگیاتویہودی ہوکرمرے یانصرانی ہوکرمرے ،مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اللہ کی پناہ کس قدرسخت وعیدہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
بندہ جب اس بات کو سمجھ لیتا ہے اور حج کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو اسے اللہ پر کامل اعتماد پیدا ہوجاتا ہے ، وہ خدا کے فیصلوں پر بھروسہ کرنے لگتا ہے ، اور دل میں اطمینان قلب کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ، جس سے دنیا میں بھی سکون ملتا ہے اور آخرت کے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں ، اس پہلے تحفہ کے ساتھ عازمین کا سفر حج شروع ہوتا ہے ، مال ودولت کی محبت نکلتی ہے تو بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بھی ہوتی ہے ، جس جس کا حق دبا رکھا ہے ، سب کو ادا کردیتا ہے ، بیٹی کا حق ، بھائی کا حق ، پڑوسیوں کے حقوق یہ اللہ پر توکل کا پہلا اثر ہوتا ہے ، جو حقوق ادا نہیں ہوسکے، جو کوتاہیاں اور غلطیاں رہ گئیں اس کے لئے بندوں سے معافی مانگتا ہے اور سارے علائق دنیوی سے کنارہ کش ہوکر کفن نما دو کپڑے پہن کر اللہ کے راستے پر ہولیتا ہے ۔
احرام باندھا ، آرائش  وزیبائش کا خیال جاتا رہا ، نہ خوشبو ہے ، نہ میل چھڑایا جارہا ہے ، نہ بال ناخن بنائے جارہے ہیں ، دیوانگی ، وارفتگی ، شیفتگی میں مزہ آرہا ہے ۔عشق  حقیقی کے مراحل طے ہورہے ہیں، سفرجاری ہے ، حاجی انہیں سر مستی میں مکہ پہنچ جاتاہے ، وہاں وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ اپنے اپنے انداز میں عبادت کررہے ہیں کوئی ہاتھ باندھے ہوا ہے ، اور کوئی بغیر باندھے ہی اللہ کے دربار میں کھڑا ہے ، کوئی آمین زور سے کہہ رہا ہے ، اور کوئی دھیرے ، کوئی رفع یدین کررہا ہے ، اور کوئی نہیں ، جنازہ میں کوئی سلام ایک ہی طرف پھیرتا ہے تو کوئی دونوں طرف، اتحاد و اجتماعیت کا یہ مظہر ،ہمیں ہرقسم کے تعصب سے پاک ہونے کا تحفہ دیتا ہے ، ذات برادری ، زبان ، علاقائیت ، مسلک ومشرب ، رنگ و نسل کی تفریق سب اس اجتماعیت میں کھو جاتے ہیں ، کالے کوگورے پراور گورے کو کالے پر ، عربی کو عجمی پر، عجمی پرعربی کو فضیلت نہیں رہتی ، معیارِ فضیلت تقویٰ کھلے آنکھوں سے یہاں دکھتا ہے، ایک امت اور ایک جماعت کا صرف تصور نہیں تصدیق کے مراحل طے ہوتے ہیں ، قرآن نے یوں ہی اعلان نہیں کیا کہ یہ امت ایک امت ہے اسے ر ب کی عبادت کرنی چاہیے اور اس سے ہی لولگانا چاہئے ، اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ وَ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْن پڑھتے جایئے اور غور کرتے جایئے کہ علم وحکمت کے کتنے موتی اور عمرانی تمدنی دنیا کے کتنے اسرار ورموز آپ پرکھلتے جائیں گے یہ منظر کتنا حسین ہے ، کوئی اختلاف نہیں ، کوئی جھگڑا نہیں ، الگ الگ انداز سے عبادت کرنے والے کو حیرت کی نگاہ سے بھی کوئی نہیں دیکھتا ، سب ایک لڑی میں پروے ہوئے ہیں ، یہ لڑی کلمہ ٔواحدہ کی لڑی ہے ، سب محمد رسول اللہ کے کلمہ پڑھنے والے ہیں ، حج کا یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ فروعی مسائل میں کسی طرح لڑنے کی گنجائش نہیں ہے ، کسی مسلک کا ماننے والا ہو ، وہ حرمین شریفین کے امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے ، کوئی نہیں دیکھتا کہ ہمارے امام سے ان کا طریقہ الگ ہے ، یا یہ کس امام کو مان رہے ہیں ۔ اجتماعیت کا یہ وہ پیغام ہے جسے حاجی اپنے ساتھ تحفہ کے طور پر لے کرآتا ہے، یہ تحفہ اسے دوسروں تک بھی پہونچانا چاہئے۔
 ایک اور تحفہ صبروتحمل کا حاجی کے ساتھ آتا ہے ،دھکے پردھکے کھا رہا ہے ، اللہ کی بڑائی بیان کررہا ہے ، معافی حاجی ، معافی حاجی کی رٹ لگا رہا ہے ، وہ دھکے کھاکر مرنے مارنے پرآمادہ نہہیی ہوتا؛بلکہ وہ سب سہہ رہا  ہے ، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے، اسے یاد ہے کہ’’ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلاَجِدَالَ فِی الْحَجِّ  ،، وہ اپنے حج کو رفث ، فسوق ، اور جدال سے بچا رہا ہے ، اب وہ حج سے لوٹا ہے تو دوسرے کے لئے بھی اپنے ساتھ برداشت کا تحفہ لا یاہے ، تحمل اور صبر کی سوغات لایا ہے ، یہ سوغات اگر قاعدے سے لوگوں تک پہونچ جائے تو بے شمار سماجی اور تمدنی فائدے لوگوں کو حاصل ہوں گے۔
 ایک تحفہ شرک و بدعات سے اجتناب کا بھی ہے ، صرف اور صرف اللہ کی عبادت کا جو خیال حج میں راسخ ہوتا ہے ، لبیک اللھم لبیک کی صدا انسانوں کو جس طرح غیروں سے بے نیاز کرتی ہے اسے بھی عام کرنے کی ضرورت ہے، روضہ رسول پر صلاۃ و سلام پیش کرکے جو روحانیت حاجی نے حاصل کی ہے ، اسے بھی بانٹنے کی ضرورت ہے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ محبت رسول کیاچیز ہے اوراس کے تقاضے کیا ہیں؟اور اتباع رسول کس طرح بندے کو اللہ کی محبت کا حق دار بنادیتی ہے۔اس  کے علاوہ حسب صلاحیت و استطاعت مختلف ممالک کے لوگوں کے احوال و آثار سے جو واقفیت اس سفر میں ہوئی ، علمی گفتگو سے جو کچھ سمجھنے کوملا ، یقینا یہ سارے تحفے انتہائی قیمتی ہیں ، اور اس کی تقسیم بھی حاجی کی ذمہ داری ہے ، کیوں کہ وہ ضیوف الرحمن بن کر گیا تھا ، اور داعی بن کر واپس ہوا ہے ۔

پروفیسر نسیم احمد ___✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ

پروفیسر نسیم احمد  ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
پروفیسر سید نسیم احمد صاحب موتی ہاری مشرقی چمپارن نے کینسر کے موذ ی مرض سے طویل جنگ کے بعد 5 اپریل 2023ءبروز اتور بوقت ایک بجے دن سی ایم سی ہوسپیٹل ویلور میں اس دنیا کو الوداع کہا، جنازہ بذریعہ ہوائی جہاز پٹنہ اور پھر پٹنہ سے موتی ہاری لے جایا گیا، موتی ہاری روانہ کرنے سے پہلے راشٹریہ جنتا دل کے پارٹی آفس میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، موتی ہاری میں ان کی نماز جنازہ ان کے داماد مولانا اسامہ شمیم ندوی نے 7 اپریل کو بعد نماز جمعہ پڑھائی اور انجمن اسلامیہ کے صدر قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، اس طرح ایک علمی، ملی، سماجی اور سیاسی شخصیت کی حیات وخدمات کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بند ہو گیا، پس ماندگان میں دوسری اہلیہ چھ لڑکا اور دس لڑکی کو چھوڑا۔
 پروفیسر سید نسیم احمد بن محمد یونس (ولادت 1904) بن سید امانت حسین بن سید ریاست حسین کی ولادت 7 جنوری 1938ءکو ان کے آبائی وطن بارو، برونی موجودہ ضلع بیگو سرائے میں ہوئی، مرحوم کی والدہ کا نام بی بی فضل النساء(ولادت1912) تھا، پروفیسرصاحب نوبھائی، بہن تھے، جن میں سے دو بھائی کا انتقال ایام طفلی میں ہو چکا تھا، ابتدا سے ہائی اسکول تک کی تعلیم رادھا کرشنن چمریا اسکول برونی ضلع مونگیر سے پائی، آئی اس سی اوربی اس سی راجندر کالج چھپرہ سے کیا، ایم ایس سی کی ڈگری ال اس کالج مظفر پور سے حاصل کیا۔
 محمد یونس صاحب کی شادی سید جواد حسین رئیس رانی کوٹھی موتی ہاری کی دختر نیک اختر بی بی فضل النساءسے ہوئی تھی، اس لیے پروفیسر صاحب کے والد1944ءمیں رابی کوٹھی لوہر پٹی ، موتی ہاری، بارو سے نقل مکانی کرکے آبسے،1960ءمیں یہ خاندان نشاط منزل بلواٹولہ موتی ہاری منتقل ہو گیا، ان دنوں پروفیسر صاحب کی رہائش یہں تھی۔
پروفیسر نسیم احمد صاحب نے دوشادیاں کیں، پہلی بی بی زینب النساءتھیں، جن سے اللہ رب العزت نے چھ لڑکیاں اور تین لڑکے کل نو اولاد عطا فرمائی، دوسری اہلیہ مہر النساءبیگم سے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں کل آٹھ بچے ہوئے، یعنی دونوں اہلیہ سے سترہ بچے تھے، جن میں ایک لڑکی بچپن میں فو ت ہو گئی، اب دونوں اہلیہ کے تین تین لڑکے اور پانچ پانچ لڑکیاں کل سولہ اولاد حی القائم ہیں، پروفیسر صاحب کی زندگی اس دور میں اہل وعیال کے اعتبار سے بھی نمونہ تھی، کیوں کہ آج کل تو دو یا تین بچے کے اچھے ہونے کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
تدریسی زندگی کا آغاز انہوں نے گوپال شاہ ہائی اسکول موتی ہاری سے سائنس ٹیچر کی حیثیت سے کیا، یہ 1963ءکا سال تھا، صرف تین ماہ کے بعد آپ کی بحالی ایم اس کالج موتیہاری میں فزکس کے لکچرر کے طور پر ہوگئی، ترقی کرتے ہوئے آپ پروفیسر کے عہدہ تک پہونچے اور2001ءمیں یہیں سے سبکدوش ہوئے۔
 آپ ایک اچھے استاذ کے ساتھ اچھے سیاست داں بھی تھے، زندگی کے مختلف ادوار میں وہ سینوکت سوشل پارٹی(SSP)جنتا پارٹی، جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل سے وابستہ رہے، انہوں نے 1968ءمیں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بتیا پارلیمانی حلقہ، اور1985ءمیں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر سوگولی حلقہ اسمبلی اور 1996میں جنتادل کے ٹکٹ پر پارلیامنٹ کی رکنیت کے لیے انتخاب لڑا، لیکن کسی بھی انتخاب میں انہیں کامیابی نہیں ملی، بعض انتخابات میں آپ دوسرے نمبر تک پہونچ سکے۔
 آپ کی شناخت سماجی خدمت گار کے طور پر بھی تھی، وہ بہت سارے تعلیمی اداروں کے قیام میں شریک رہے، انہوں نے ہریندر کشور کالج موتی ہاری کے صدر کے طور پر کام کیا، وہ انجمن اسلامیہ موتی ہاری کے قیام میں بھی شریک وسہیم رہے، انہوں نے انجمن اسلامیہ ، اس کے مدرسہ، یتیم خانہ، لڑکیوں کے اسکول مسجد اور صدر قبرستان موتی ہاری کی خدمات کو وقیع اور ان اداروں کی تعمیر وترقی میں نمایاں رول ادا کیا۔ وہ 1972ءسے 2023ءتک انجمن اسلامیہ کے صدر منتخب ہوتے رہے، وہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا اور مدرسہ منبع العلوم مادھو پور مشرقی چمپارن کے لیے بھی جو کچھ بن پڑتا، کر گذرتے تھے، اس طرح دیکھیں تو ان کی زندگی علمی ، سماجی ، سیاسی اور ملی تھی، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول ومحبوب رہے، ان کے گذر جانے سے موتی ہاری، بلکہ مشرقی چمپارن میں بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ 
 پروفیسر نسیم احمد صاحب امارت شرعیہ اور ان کے اکابر سے بہت قریب رہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے وہ گرویدہ تھے، اور قاضی صاحب نے جب آل انڈیا ملی کونسل قائم کیا تو وہ علاقہ میں اس کے دست وبازو بنے، امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے، اور مٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے، آخری بار امارت شرعیہ وہ امیر شریعت سابع کو انجمن اسلامیہ تشریف لانے کی دعوت دینے کے لیے آئے تھے، ان کے ساتھ قاری جلال صاحب قاسمی امام جامع مسجد موتی ہاری بھی تھے، حضرت کا سفر ایک نکاح پڑھانے کے سلسلے میں موتی ہاری کاہو ا تھا۔
میری ملاقات ان سے امارت شرعیہ میرے آنے سے پہلے سے تھی، ایم، ایس کالج موتی ہاری بعض ضرورتوں کی وجہ سے بھی جانا آنا رہا، ابا بکر پور کے ایک پروفیسر بھی وہاں تھے، ان کی قربت کی وجہ سے بھی پروفیسر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، بعد میں جب کبھی موتی ہاری جانا ہوتا، جامع مسجد میں حاضری ہوتی اور پروفیسر صاحب سے بھی ملاقات ہوجایا کرتی تھی، آل انڈیا ملی کونسل کے اُس علاقہ کے دورہ اور بعض مدارس کے جلسے میں بھی ان کا ساتھ رہا، جانا ایک دن سب کو ہے
پروفیسر صاحب نے الحمد للہ لا نبی عمر پائی، لیکن ان کا فیض اس قدر عام تھا کہ ان کے جانے کے بعد خلا محسوس ہونا فطری ہے، یوں کسی کے جانے سے نہ تو کاروبار زندگی میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی روئے زمین پر اندھیرا چھاتا ہے، وہ جو کسی کے مرنے پر کہتے ہیں کہ ایک چراغ اور بجھا ، تاریکی اور بڑھی، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ آسمان وزمین کا نور ہے، اور اس کو فنا نہیں ہے، اس لیے آسمان وزمین میں تاریکی کیسے پھیلے گی، اللہ سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر صاحب کی خدمات کو قبول کرے اور ان کے سیئات کو در گذر کرکے جنت کے فیصلہ فرمادے ۔ آمین یا رب العالمین

اتوار, جون 04, 2023

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔
Urduduniyanews72 
٣ جون اندور(مدھیہ پردیش)جامعہ اسلامیہ بنجاری کے پر شکوہ ہال میں پانچویں صدر کے انتخاب کے لیے پورے ملک سے بورڈکے ارکان جمع ہویے ۔ملک کی مؤقر تنظیموں اور بڑے مدارس کے ذمہ داروں نے بالاتفاق مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا نام پیش کیا بہار سے حضرت امیر شریعت نے اس نام کی تایید کی۔امارت شرعیہ سے حضرت امیر کے علاوہ مفتی وصی احمد قاسمی اور  محمد ثناءالہدی قاسمی کا نام پکارا گیا ۔ہم لوگوں نے بھی اور مولانا انوار اللّٰہ فلک قاسمی بانی مہتمم ادارہ سبیلش شرعیہ آواپور سیتامرھی نے  مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کے نام کی تایید کی
اس کے بعد عاملہ کی مٹنگ ہوءی جس میں گلبرگہ کے ایک بزرگ اور امیر جماعت اسلامی انجنیر سعادتِ اللہ حسینی کو نایب صدر حضرت امیر شریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی،مولانا بلال حسنی ندوی اور مولانا یسین بدایونی کو سکریٹری منتخب کیا گیا ۔اس طرح ایک معتدل اور مضبوط قیادت ابھر کر سامنے آءی۔جس میں مسلک اور اداروں کا خیال رکھا گیا ہے ۔توقع کی جاتی ہے کہ یہ مضبوط قیادت ملت اسلامیہ کےپرسنل لا کی حفاظت میں اپنی ذمہ داری نبھاءے گی نیک خواہشات ،مبارکبادی اور دعا ءوں کے ساتھ یہ توقع رکھتا ہوں کہ ملک کے بدلتے حالات میں یہ قیادت مسلمانوں کو مایوسی،خدشات کے دلدل سے نکال کر نءے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھانے کا کام کرے گی۔وماذالک علی اللہ بعزیز

ہفتہ, جون 03, 2023

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی__قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی(آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر منتخب ہونے پر خصوصی تحریر)

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی__قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی
اردودنیانیوز۷۲ 
(آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پانچویں صدر منتخب ہونے پر خصوصی تحریر)
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
  نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

 جامعہ رحمانی مونگیر کے نامور فاضل،چوتھے امیر شریعت حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی ؒ نیزساتویں امیرشریعت مفکراسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ کے شاگرد رشید، افتاء وقضاء میں امارت شرعیہ کے تربیت یافتہ، امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ وارباب حل عقد کے رکن، المعھدالعالی امارت شرعیہ کے ٹرسٹی اور رکن اساسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگذار جنرل سکریٹری وترجمان، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری ، امارت ملت اسلامیہ آندھرا پردیش کے قاضی شریعت ، مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ ،مجلس علمی دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ،مجلس منتظمہ و مجلس نظامت ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قطر، رابطہ علماء اہل سنۃ والجماعت بحرین کے رکن، حضرت مولانامحمد سالم صاحبؒ ،مولانا سید رابع حسنی ندوی، مولانامنیر احمد مظاہری اور مولانامحمد یونس پالن پوری ادام اللہ فیوضہم کے خلیفہ و مجاز، درجنوں ملی، تعلیمی، تحقیقی اداروں کے ذمہ دار، دارالعلوم سبیل السلام حید آباد کے سابق شیخ الحدیث ، المعھد العالی الاسلامی حید آباد کے بانی، بڑے مفسر، فقیہ، مقرر، منتظم اور مدبر ،دینی ملی، سماجی مسائل پر گہرائی اور گیرائی کی نظر رکھنے والے، ستر سے زائد قرآن واحادیث، فقہ ،سیرت، تاریخ، تذکرہ، سفرنامہ،تقابل ادیان اور فکری ،اصلاحی ، تذکیری موضوعات پر عربی، اردو اور انگریزی کتابوں کے مصنف ،علمی رسوخ، تفقہ فی الدین اور معتدل فکرونظر کے حامل سب کے کام آنے والے اور سب کے لیے وقت نکالنے والے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی ۔
 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بن حضرت مولانا زین العابدین بن حضرت مولانا عبد الاحد صاحب کی پیدائش ۴/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ مطابق نومبر ۱۹۵۶ء قاضی محلہ جالے دربھنگہ میں ہوئی، تاریخی نام خورشید ہے، ابتدائی تعلیم دادی، والدہ سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا دربھنگہ میں داخل ہوئے، یہاں مولانا کے پھوپھا مولانا وجیہ احمد صاحب مدرس تھے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، وہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر تشریف لے گیے، جہاں عربی سوم سے دورئہ حدیث کی تعلیم پائی اور یہیں سے سند فراغت پانے کے بعد رحمانی کو اپنے نام کے لاحقہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، جو ان کے نام کا جزو لازم بن گیا، مونگیر میں انہوں نے جن نامور اساتذہ سے کسب فیض کیا، ان میں امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ،امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانیؒ مولاناسید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جامعہ رحمانی کے بعد آپ نے دوبارہ دارالعلوم دیوبند سے بھی دورئہ حدیث کی تکمیل کی، یہاں کے نامور اساتذہ میں حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب ، حضرت مولانا مفتی محمودالحسن صاحب، مولانامعراج الحق صاحب، مولانا محمدحسین صاحب بہاری رحمھم اللہ سے مولانا نے علوم و فنون کی تعلیم پائی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز مولانا حمید الدین عاقل حسامیؒ کے مدرسہ دارالعلوم حید آباد سے شوال ۱۳۹۷ھ میں کیا، لیکن صرف ایک سال بعد ۱۳۹۸ھ میں دارالعلوم سبیل السلام حید آباد منتقل ہوگئے، شوال ۱۳۹۹ھ میں آپ صدر مدرس بنائے گئے اور ۱۴۲۰ھ تک کم و بیش بائیس سال اس ادارے سے وابستہ رہے، یہاں رحمت عالم سے بخاری شریف تک کا درس آپ نے دیا، آپ اور مولانا رضوان القاسمیؒ کی جوڑی تعلیم و تربیت کے میدان میں مثالی سمجھی جاتی رہی،مولانا کی توجہ سے یہاں تخصص فی الفقہ ، دعوۃ اور ادب کے بھی شعبے کھلے اور دارالعلوم سبیل السلام کا جنوبی ہند کے ممتاز ترین اداروں میںشمار ہونے لگا۔
 شعبان ۱۴۲۰ھ میں آپ نے یہاں سے مستعفی ہوکر المعھد العالی الاسلامی حید رآبادکی بنیاد ڈالی، یہاں کے اسباق کے ساتھ دارالعلوم حید آباد میں تخصصات کے شعبے میں بھی درس دیتے رہے، ان دنوں یہ سلسلہ موقوف ہوگیا ہے۔آپ کی شہرت اچھے مدرس اور بہترین مربی کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں زبان زد خلائق ہے۔
 ان علمی مشاغل کے ساتھ آپ کی توجہ ملی مسائل پر بھر پور رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وہ زمانہ دراز سے سکریٹری تھے ان دنوں کارگذار جنرل سکریٹری ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ پر شرعی موقف کی تیاری اس کے حوالہ جات کی فراہمی وکیلوں کے لیے مولانا ہی کرتے رہتے ہیں،تفہیم شریعت کے پروگرام کو پورے ہندوستان میں متعارف کرانے اور اس کو عملی شکل دینے میں بھی آپ کی عملی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے، ہندوستان کی کوئی قابل ذکر تنظیم ایسی نہیں ہے، جس سے کسی نہ کسی حیثیت سے آپ کی وابستگی نہ ہو، رہتے حیدرآباد میں ہیں ؛لیکن روح آبائی وطن میں لگی رہتی ہے ،یہاں کی تعلیمی اور اخلاقی حالت کو سدھارنے کی فکر برابر دامن گیر رہتی ہے، اسی فکرمندی کے نتیجہ میں مولانا نے دارالعلوم سبیل الفلاح اور مدرسۃالفالحات جالے میں قائم کیا،جس سے علاقہ کو بڑا فائدہ پہونچ رہا ہے؛ یہاں کے مدارس اور امارت شرعیہ سے ان کی وابستگی قدیم، مضبوط اور مستحکم ہے، جنوبی افریقہ کے بعض حلقوں میں امارت شرعیہ کا تعارف بھی تحریری طور پر انہوں نے کرایا، جس سے میرے سفر میں آسانیاں پیدا ہوئیں، واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی حیات وخدمات مستقل ایک کتاب ؛ بلکہ کئی جلدوں میں لکھی جانے والی کتاب کا موضوع ہے، لکھنے والوں نے لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔اس مضمون میں طوالت کی گنجائش نہیں ہے، اتنے بافیض عالم دین اور ملت پر قربان ہوجانے والی شخصیت کے لیے صحت و عافیت کے ساتھ درازئی عمر کی دعا نہ کرنا خود اپنی حرماں نصیبی ہوگی، اس لیے بس اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
توسلامت رہے ہزار برس
 ہربرس کے ہوں دن ہزار

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...