Powered By Blogger

جمعرات, جون 15, 2023

ناول : نوحہ گر ناول نگار: نسترن احسن فتیحیمبصر : غضنفر

ناول : نوحہ گر
اردودنیانیوز۷۲ 
 ناول نگار:  نسترن احسن فتیحی
مبصر  :  غضنفر 
خامۂ خواتین اردو شاعری کے قابلے میں صفحۂ فکشن پر ہمیشہ ہی کچھ زیادہ رواں رہا ہے۔اور اس کی روانی  کی موجیں طرح طرح کی ترنگیں اٹھاتی رہی ہیں ۔آج بھی اس نسائی قلم کی روانی اور تیز گامی برقرار ہے۔ موجیں آج بھی ترنگیں اٹھا رہی ہیں اور دریاۓ فسانہ میں ہلچل مچا رہی ہیں مگر یہاں اس کے اسباب سے بحث  نہیں بلکہ اس افسانوی گرداب کی طرف اشارہ کرنا  مقصود ہے جو ایک نسائی خامے کی جنبش‌ سے اردو فکشن  کے آب میں"نوحہ گر " کے عنوان سے  اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
   " نوحہ گر " سے پہلے نسترن نے' لفٹ ' لکھا
جو اردو کے کیمپس ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی گھناؤنی سیاسی چالبازیوں مکروہ بد عنوانیوں اور درس وتدریس و انتظامیہ سے وابستہ افراد کی نفسیاتی الجھنوں کو دلچسپ افسانوی رنگ و آہنگ کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے مگر اہل نظر نے اس ناول پر وہ توجہ نہیں فرمائی جس کا وہ متقاضی تھا ۔
      ' نوحہ گر' نسترن احسن فتیحی کی نوکِ قلم سے نکلا ہوا ان کا دوسرا ناول ہے جو ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا نوحہ ہے جو اپنے سینے میں ان لوگوں کا سوز رکھتا ہے جو ایک بھرے پورے ملک کی ہری بھری وادی میں بھی ایک طبقے کو اندر باہر دونوں طرف سے جھلساتا رہتا ہے۔ ان کے دلوں کو زرد اور جسم کو  سیاہ کرتا جاتا ہے۔ان کی سانسوں میں دھواں اور رگ و ریشے میں زہر بھرتا جاتا ہے ۔ اس صدی میں بھی انھیں آدی باسی بنائے رکھتا ہے مگر ان کی حالت زار کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ ان کی گھٹن کسی کو دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کی چبھن  کسی کے احساس میں نہیں چبھتی ۔ ان کی اینٹھن کسی کےادراک  میں بل نہیں ڈالتی۔بلکہ الٹے ان کی تڑپ اور چھٹپٹاہٹ پر انھیں معتوب، مغلوب اور مصلوب بھی کیا جاتا ہے۔
    نسترن فتیحی لائق, تعظیم اور قابل,داد ہیں کہ انھوں نے اس طبقے کی حالت, زار اور ان کے سینے کے سوز کو محسوس کیا۔ یہ بیڑا اٹھایا کہ ایک پیڑا جو سینے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے اسے  سماعتوں تک پہنچائیں ۔ایک کراہ جو چیخ رہی ہے اسے چپ کرائیں۔ اس انسان کو جسے آج بھی جنگلی سمجھا جاتا ہے اسے انسان کا درجہ دلائیں۔ ساتھ ہی اس نوحہ گر نے ایک اور مظلوم کے سینے میں دہکنے والی آگ  کی لپٹوں کو بھی اپنے بیان میں لپیٹ کر ہماری بصارتوں اور سماعتوں تک لانے کی کوشش کی ہے ‌۔ نیز نسترن نے اپنی اس تخلیق میں اس  قوت کو بھی دکھانے کی سعی کی ہے کہ اگر ادھر توجہ نہیں دی گئی تو ایک آگ جو ابھی سلگ رہی ہے کہیں بھڑک گئی  سب کو جلا کر خاک نہ کر دے ۔
     نسترن فتیحی ان خواتین قلم کاروں میں سے  ایک ہیں جن کا قلم ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں اپنی جنگ لڑتا رہتا ہے ۔ لفٹ کے
بعد انھوں نے معاشرے کے ایک اور اہم مسئلے کو نہایت ہی پر زور آواز  میں اٹھایا ہے اور ایسا پر سوز لہجہ اختیار کیا ہے کہ پڑھتے وقت ناول ایک نوحے میں بدل جاتا ہے اور قاری پر رقت طاری کر دیتا ہے۔اس کیفیت کو پیدا کرنے میں نسترن کے حساس اور درد مند دل کا ہاتھ تو ہے ہی ان کی قوت, بیان نے بھی اہم کردارنبھایا ہے ۔
  نسترن فتیحی کی اس افسانوی تخلیق میں
موجزن اثریت کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس ناول کو ڈرائنگ روم میں یا اسٹڈی ٹیبل پر  بیٹھ کر نہیں لکھا ہے بلکہ اس کے لیے وہ اپنے آرام دہ خواب گاہ سے نکل کر  پرخار راستوں پر چلی ہیں ۔ بدبو دار گلیوں میں گھومی ہیں ۔تنگ و تاریک علاقوں میں پہنچی ہیں ۔ طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں ہیں۔ مصیبتیں جھیلی ہیں ۔
    مجھے امید ہے کہ نوحہ گر کا نوحہ ضرور  اپنا اثر دکھاۓگا اور معاشرے کے جمود کو پگھلاۓ‌ گا۔ پتھر دلوں کو موم کرے گا اور نگاہوں کو اس جانب بھی مرکوز کر ے گا
جدھر آہیں اور کراہیں کب سے راہ دکھ رہی ہیں ۔
  اس اچھے،بامعنی اور اثر دار ناول کی تخلیق کے لیے نسترن فتیحی کو ڈھیروں مبارکباد ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضنفر

منگل, جون 13, 2023

ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہوجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

تعلیم گاہ میں جہالت کاداخلہ
اردودنیانیوز۷۲ 
بالاسور اڈیشہ کے اس اسکول کو گرادیا جائے گا جسمیں عارضی طور پر ٹرین حادثہ  کے مہلوکین کو رکھا گیا تھا، یہ ضلع کلکٹردتاتریہ بھاؤصاحب شندے کا کہنا ہے،دراصل یہ مطالبہ اسکول کے اساتذہ وطلبہ اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مشترکہ طور پر کیا گیا تھا ،جو مان لیا گیا ہے، اس کی وجہ طلبہ اور اساتذہ میں ڈر کا ماحول ہے، خوف کے مارے وہ لوگ اسکول نہیں جانا چاہتے ہیں،حادثہ کے معا بعد عارضی طور پر اسکول کی عمارت میں مرحومین کی لاشوں کو رکھنےسے وہ سبھی ناراض ہیں اور دہشت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
سینکڑوں لوگ اس حادثہ میں اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، ان کے وارثین ہنوزصدمہ میں ہیں،مزیداسکول منہدم کرنے والی خبر سے انہیں بھی تکلیف پہونچی ہے،بلکہ یہ ان کے زخم میں نمک چھڑکنے جیسا ہے،گویا ان مرحومین کو اچھوت سمجھا جارہا ہے،جو اب اسکول کی پوری عمارت ہی گرائی جارہی ہے۔اس میں مرحومین کاکیا قصور ہے؟ آخر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ یہ ڈر کا ماحول کیوں پیدا ہوگیا ہے؟ ڈھیر سارے سوالات ہیں جو اس وقت پیدا ہوگئے ہیں،  بروقت اس کا جواب دینا ضروری ہے ۔
خاص طور پر ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور تعلیمی اداروں کے لئے تویہ شرم کی بھی بات ہے،اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے، توہم پرستی یہ خالص جاہلانہ عمل ہے،تعلیمی اداروں میں اسکی گنجائش نہیں ہے، مذکورہ واقعہ سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب تعلیم گاہ میں بھی اندھ وشواش کا داخلہ ہوگیا ہے۔بچوں کے ساتھ بالاسور کے اس ہائی اسکول کےگرو جی کو بھی یہ خوف ستا رہا ہے،اس کا  مطلب صاف ہے، یہ فاسد خیال ذہن میں راسخ ہوگیا ہے کہ، مرنے والوں نے موت کے بعد اسکول کوہی اپنا مسکن بنالیا ہے، یہ ٹرین حادثہ مورخہ ۲/جون ۲۰۲۳ء کو پیش آیا ہے، آج دس دن ہوگئے ہیں، مرحومین کی آخری رسومات بھی ادا کردی گئی ہیں، اس وقت اسکول میں کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ دہشت دل میں ہے کہ مہلوکین کی آتمائیں اسی عمارت میں موجود ہیں،  یہی نہیں بلکہ اسکول کی نئی عمارت بننے کے بعد بھی اسکول  انتظامیہ نے روحانی پروگرام اور پوجا پاٹ کرنے کا منصوبہ بھی بنا یاہے، یہ اندھ وشواش کی بدترین مثال ہے۔

جب ایک انسان مرتا ہے توجسم سے اس کی روح نکل جاتی بے، اسی لئے اسے مردہ کہتے ہیں، یہ روح کہاں چلی جاتی ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے جو ہر مذہب کا ماننے والا دیتا ہے کہ جہاں سے روح آتی ہے، وہیں موت کے بعد واپس چلی جاتی ہے،یہ خدا کے حکم سے ایک جسم میں داخل ہوتی ہے،اور خدا ہی کے حکم سے باہر نکل کر اس کے پاس چلی جاتی ہے،کسی  کے انتقال کی خبر جب ایک مسلمان سنتا ہے تو پہلی فرصت میں یہی کہتا ہے کہ؛ہم سب خدا کے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے،( سورہ بقرہ)
 قرآن میں دوسری جگہ یہ واضح طور پرلکھا ہوا ہے کہ؛وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو اس سے ملنا ہی ہے، پھر تم اس خدا کے پاس لوٹ جاؤگے جو حاضر وغائب کا جاننے والا ہے،وہ تم کو تمہارے کرتوت بتائے گا،(سورہ الجمعہ)
ماحصل یہ کہ مرنے کے بعد انسانی روح خدا کے پاس چلی جاتی ہے، ایک نیک انسان کی روح علیین میں ہوتی ہے، اس کے برعکس بدروح کی جگہ سجین ہے،ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا کہ؛علیین اور سجین کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛علیین آسمان کی بلندی پر ایک پرفضا مقام ہے،جہاں نیک ارواح رہتی ہیں، یہ آپس میں ایک دوسرے سے مانوس بھی ہوتی ہیں،اور محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں، اور سجین زمین کی سب سے نچلی سطح میں ایک خوفناک قید خانہ ہے،یہاں برے لوگوں کی ارواح قید کی جاتی ہیں، یہ آپس میں ایک دوسرے کو لعن وطعن کرتی رہتی ہیں،
(تفسیر ابن کثیر )
 ہندو دھرم کے مطابق بھی جو لوگ مرچکے ہیں، ان کی روحیں جہاں سے آئی تھیں، وہاں پہونچ چکی ہیں،لاشوں کو نذر آتش کرنے کے پیچھے دراصل یہی فلسفہ کار فرماہے،وہ کہتے ہیں کہ انسان کی اصل پانچ چیزیں ہیں، مٹی، پانی، آگ، ہوا اور آکاش، مرنے کے بعد جلانے سے ایک انسان جب آگ کے حوالہ ہوتا ہے تو وہ اپنی اصل کی طرف چلاجاتا ہے،دھواں کے ذریعہ ہوا اور آکاش میں، راکھ کا کچھ حصہ مٹی میں مل جاتا ہے، پھر بعد میں جلی ہوئی ہڈیوں کو پانی میں بہادیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ جاتا ہے،اس سے مرنے والے کو مکتی پراپت ہوجاتی ہے،اور اس کی آتما کو شانتی مل جاتی ہے، اس کے بعد اس کی آتما کہیں بھٹکتی نہیں ہے۔لیکن یہ سب کے باوجود ڈر اور خوف کا ماحول یہ کہتا ہے کہ اب تعلیمی ادارے بھی ملک میں محفوظ نہیں ہے، اس کی وجہ پڑھے لکھے لوگ بھی جادو، ٹونا اور ٹوٹکے کے قائل ہوگئے ہیں، دراصل حالیہ چند سالوں سے ایسی فضا ملک میں بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور اس میں بہت حد کامیابی بھی ملی ہے، کچھ سادھو سنتوں کو اس مشن پر لگایا گیا ہے جو چھوت، بھوت، پلیت اور توہم پرستی کا بازار مسلسل گرم کررہے ہیں، 
آج ایک بابا تختی پر لکیر کھینچ کرجو کچھ کہ دیتا ہے اس پر آنکھ بند کرکے لوگ یقین کرلیتے ہیں، پڑھے لکھے لوگ بھی اس کے فالوور ہیں، حدیث شریف میں اسے شیطانی کام قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، خط کھینچ کر حال بتانا شیطانی کام ہے،(ابوداؤد)
درحقیقت یہ باتیں ایک انسان کی ترقی اور پھر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، آج بالاسور کے ہائی اسکول میں پڑھنے والے ۶۵۰/طلبہ اسی توہم پرستی کی بناپر تعلیم سے دور ہوئے ہیں، اسکول جانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اس خوف کو یقین میں بدلنے کا کام ان کے اساتذہ اور رشتہ داروں نے کیا ہے، یہ توہم پرستی کی بدترین مثال ہے، اور جہالت کی بات ہے، اس سے تعلیمی اداروں کو ان چیزوں سے پاک وصاف کرنے کی ضرورت ہے۔
آج سےساڑھے چودہ سوسال پہلے کی بات ہے، مکہ کے لوگ یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ مرنے والے کی روح بھٹکتی رہتی ہے، کبھی کسی شکل میں تو کبھی پرندے کی شکل میں گھومتی رہتی ہے، اسے وہ لوگ ہامہ کہتے تھے،اس کے علاوہ اور بہت سے اوہام وخرافات کے وہ قائل تھے، سانپ کو اہل عرب بھی نہیں مارتے، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ سانپ کو مارا جائے تواس کا جوڑا آکر بدلہ لیتا ہے، جو کام کرنا چاہتے پہلے شگون لے لیتے تھے، مثلا کوئی پرندہ داہنی جانب سے اڑا تو مبارک، بائیں جانب اڑا تو باز رہتے تھے، اس قسم کے سینکڑوں اوہام پھیلے تھے، (سیرت النبی جلد چہارم)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بناکر پہلے انہیں کے درمیان بھیجے گئے، آپ صلی علیہ وسلم نے انہیں خدا کی طاقت کا قائل کردیا، اور جن چیزوں کو وہ طاقتور سمجھتے تھے، ان کی یہ حیثیت بتلائی کہ ؛نہ چھوا چھوت کی کوئی اصل ہے،نہ بدفالی کی کوئی حیثیت ہے،نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ رہتا ہے،نہ مرنے والے کی کھوپڑی سے کوئی پرندہ نکلتا ہے، (ابوداؤد)
اسلام کی اس سچی تعلیم سے اندھ وشواش کا طلسم ٹوٹا ہے،خدا کا شکر ہے کہ اس وقت مکہ سے اس کا خاتمہ ہوچکا ہے، موجودہ وقت میں ملک کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے،ان اوہام کے خاتمے کے لئے اپنی قربانی پیش کریں، ابھی دو سال پہلے کورونا وائرس کی وبا میں مسلمانوں نے ان لاشوں کی بھی آخری رسومات ادا کی ہے جنکو لیجانے سے ان کے وارثین نے انکار کر دیا تھا، اس سے زبردست پیغام گیا تھا، اور آج بالاسور اڈیشہ کے اسکول اور ان جیسے تعلیمی اداروں میں پھیلی توہم پرستی کے خاتمے کے لئے کیا ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ اس پر سنجیدگی سے غور کرنےاور مضبوط لائحہ عمل لینےکی ضرورت ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

پیر, جون 12, 2023

امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کل ہند مقالہ نویسی مقابلہخادمین امت کے ذریعے پہلی مرتبہ ملک گیر مسابقے کا انعقاد۔پورے


خادمین امت کے ذریعے پہلی مرتبہ ملک گیر مسابقے کا انعقاد۔پورے ملک سے داخلوں کا آغاز جاری۔
اردودنیانیوز۷۲ 
اول انعام 33,3,33، دوم انعام 22,2,22، سوم انعام 11,1,11

ناندیڑ:(پریس ریلیز)12جون:خادمین امت خدمت دین اور امت کے نونہالوں کی شعور آبیاری کے لئے مسلسل سترہ سالوں سے سرگرم عمل ہے۔ خادمین امت کی منفرد سرگرمیوں سے مہاراشٹر اور اطراف اضلاع کے طلباء، اساتذہ، معلمین و معلمات اور اولیائے طلباء واقف ہی ہیں۔
اس بار حضرت مولانا مفتی غازی سید عمیر احمد ندوی صاحب، شیخ الحدیث کی ایما پر خادمین امت کے زیر انصرام ملک گیر سطح پر '' امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کل ہند مقالہ نویسی مقابلہ '' کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ جس کی تفصیلات اس طرح ہیں۔
ڈاکٹر محمد عبدالصمد عمری (حیدرآباد) اور مفتی غازی سیدعمیر احمدنوی (ناندیڑ) کی زیر سرپرستی میں منعقدہ یہ مقالہ نویسی مقابلہ ڈاکٹر مفتی احمد نورعینی (حیدرآباد) و مفتی صدام حسین لدھیانوی کی زیرنگرانی میں منعقد ہوگا۔ اس کے عناوین (1) فلسطین:ماضی، حال اور مستقبل (2) فتنوں کے باب میں رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئیاں (3) خلافت علی منہاج النبوۃ اور اس کے تقاضے رہیں گے۔
شرائط: مذکورہ بالا کسی ایک عنوان پر مقابلہ تحریر کریں۔ کم ازکم 50 صفحات اے فور سائز،زیادہ کی کوئی قید نہیں۔ عمر،جنس اور تعلیمی اہلیت کی کوئی قید نہیں۔ خود تحریر کریں، صاف ستھرالکھیں ڈی ٹی پی کرتے ہیں توبہتر ہے۔
مدت:12جون 2023 سے تحریر کا آغاز کریں۔ 11 نومبر 2023 کو ذیل کے پتہ پر پہنچ جائے اس طرح روانہ کریں۔ یا ای میل آئی ڈی پرروانہ کریں۔abidamish.in@gmail.com
داخلہ فیس: صرف 100روپئے ہے جوفون پے یا گوگل پے نمبر  8793304448پر جمع کریں۔
پتہ: افسری فارما میڈیکل اسٹور، قدوای نگرچوراستہ روڈ،ٹائر بورڈ، دیگلورناکہ ناندیڑ۔431604 مہاراشٹر
رجسٹریشن:7385503946،  9028555897کسی بھی ایک نمبر پر مکمل نام وپتہ اور فیس جمع کا اسکرین شاٹ روانہ کریں۔
انعامات:اول انعام  33,3,33۔دوم انعام 22,2,22۔سوم انعام11,1,11۔ تین ترغیبی انعام 7,7,77 اس کے علاوہ سبھی کو میڈل اور سند دی جائے گی۔ انعام یافتگان کو جلسہ تقسیم انعامات کیلئے صرف ایک فرد سفر خرچ(ریل ٹکٹ) دیاجائیگا۔ ٹاپ 30 مقالہ جات کو کتابی شکل میں شائع کیاجائے گا، جس کارسم اجراء جلسہ تقسیم انعامات میں کیاجائیگا۔
رابطہ نمبرات:9021639489, 7385503946
مرکزی جلسہ  سیرت النبیؐ وتفویض اعزازت وتقسیم انعامات مورخہ 21جنوری 2024 بروز اتوار صبح 11بجے ناندیڑ مہاراشٹر میں ہوگا۔
2 جون سے ہی داخلوں کا آغاز ہو چکا۔ تاحال 70 شرکاء شامل ہوچکے ہیں جن میں 10 خاتون قلم کار بھی شامل ہیں۔ ان شرکاء میں ملک کے چوٹی کے علماء بھی شامل ہیں۔
اس مسابقہ کے سرپرست و نگراں حضرات نے باذوق قلم کاروں کو  زیادہ سے زیادہ شرکت کی دعوت دی ہے۔
اس طرح سے ایک عظیم علمی سرگرمی کے انعقاد کا شرف خادمین امت کو حاصل ہوا ہے اس بات کا اظہار امیر خادمین امت جناب عابد خان حمید خان صاحب نے اپنے بیان میں کیا۔

قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ-مہاراشٹر کی ریاست مجلس عاملہ کا اعلان

 عاملہ کا اعلان
قومی نائب صدر جناب سید مہتاب ابراہیم کی صدارت میں ارکان مجلس عاملہ کو تقرر نامے تفویض۔ناندیڑ ضلع مجلس عاملہ کے چند اراکین نامزد

اردودنیانیوز۷۲ 
ناندیڑ: (راست)12جون:ہندوستان میں اساتذہ کی پہلی قومی سطح پر رجسٹرڈ ''قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ '' جو پچھلے سالوں سے سرگرم عمل ہے اور ملک کی بیس سے زائد ریاستوں میں صوبائی ذمہ داران کو منتخب کیا گیا تھا اور اب مسلسل اساتذہ کو جوڑتے ہوئے ہر صوبہ میں مجلس عاملہ کی تشکیل کا عمل جاری ہے۔اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر مورخہ 11جون2023 کو ناندیڑ میں قومی صدر جناب چودھری واصل علی گرجر صاحب کی ہدایت پر اور قومی نائب صدر جناب سید مہتاب ابراہیم صاحب کی صدارت میں ریاستی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں مختلف منتخب عہدیداران کا اعلان کیا گیا۔
ریاستی صدر: عابد خان حمید خان، ناندیڑ ،ریاستی کارگزار صدر: غازی ظہروش عبدالبشیر، امراوتی،ریاستی جنرل سیکرٹری: محمد زین العابدین اسحاق، ممبئی ،خاتون ریاستی صدر: سید کنیز فاطمہ، تھانہ،ریاستی خازن: ممتاز ہاشمی،بیڑ۔ریاستی نائب صدور:انصاری امتیاز رفیق( ناسک)،شہزاد احمد قریشی(ناگپور)،جاوید اطہر خان(آکولہ)۔ریاستی سیکریٹریز:ڈاکٹر منیب حنفی (پربھنی)،شیخ خلیل طاہر(ممبئی) ۔ریاستی جوائنٹ سیکریٹریز:شیخ فیروز قریشی( واشم)،نقیب اختر( ناگپور )۔ریاستی تنظیم کار:انس احمد( ایوت محل )،منور حسین( احمد نگر)۔میڈیا انچارج:سہیل احمد( بلڈھانہ)۔سوشل میڈیا انچارج:محمد داؤد عبدالغنی( ناندیڑ )۔ خاتون نمائندہ:آفرین منان شیخ( شولاپور )،نوید بیگم( ناندیڑ )۔قانونی مشیر:ایڈووکیٹ شہزان صدیقی
ان سبھی کے تقرر نامے جاری کئے گئے۔ نیز تعلیمی محکمہ جات میں اور حکومتی سطح پر نمائندگی کے لئے لیٹر پیاڈ کا اجراء عمل میں آیا۔
ریاستی صدر عابد خان حمید خان نے قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ-بھارت اور نو تشکیل شدہ ارکان مجلس عاملہ مہاراشٹر کا تعارف پیش کیا۔ صحافتی نمائندوں سے  بات چیت کرتے ہوئے قومی نائب صدر جناب سید مہتاب ابراہیم اور ریاستی نائب صدر انصاری امتیاز رفیق نے قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات پیش کی۔اسی اجلاس میں قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ-مہاراشٹر کے ریاستی صدر نے ناندیڑ ضلع مجلس عاملہ کے چند منتخب ارکان کا اعلان کیا۔
ضلع کارگزار صدر:عبدالحسیب سر، ناندیڑ ۔ضلع جنرل سیکرٹری:محمد مقیت، ناندیڑ ۔ضلع خازن: شیخ معین سر۔مراٹھواڑہ ڈویژن صدر:محمد مختار سر
ریاستی صدر عابد خان حمید خان نے بتایا کہ ریاستی سطح پر بہت جلد خاتون اساتذہ کی مکمل مجلس عاملہ اور مزید ریاستی ارکان، ناندیڑ ضلعی ارکان اور دیگر اضلاع کی مجالس عاملہ کا اعلان کیا جائے گا۔ وہ تمام اساتذہ،  معلمین و معلمات جو سنگھ سے جڑ کر اردو زبان، اسکول، اساتذہ و طلباء کے مسائل کی یکسوئی،  ترقی و ترویج کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں وہ قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ-مہاراشٹر کے ذمہ داران سے رابطہ کریں۔9527 818118، 9226752687،9927237437،9421291815، ان نمبرات پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

عمرہ کی ادائیگی : لمحہ بلمحہ دم بدممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

عمرہ کی ادائیگی : لمحہ بلمحہ دم بدم
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی(9431003131)
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
(عازمین حج کے سوئے حرم روانہ ہونے کے موقع سے خصوصی تحریر)
اس روئے زمین پر سب سے پہلا گھر لوگوں کے لئے مکہ میں تعمیر کیا گیا ، جس کے ارد گرد اللہ تعالیٰ نے بے پناہ برکتیں رکھیں ، اس کو عالم کے لئے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا اور اسے امن و شانتی کی جگہ بنا دیا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کے قلوب کو اس کی طرف کھینچنے کی دعا مانگی اور اللہ تعالی نے قبول کرلی ، اب تمام وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں، دیوانہ وار اس کی طرف جانا چاہتے ہیں تاکہ اللہ اس کے پاک گھر کا طواف کرسکیں ، تڑپ سب کو دی گئی ، لیکن حج سب پر فرض نہیں کیا گیا ، سب جا بھی نہیں سکتے ، جا تو وہی سکتے ہیں جن کے پاس مال ودولت ہے ، اسی لئے اس سفر کی فرضیت کے لئے استطاعت کی شرط لگا دی گئی ، غرباء جو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لئے محتاج ہیں ،ان کو فرضیت سے الگ رکھا ۔
اب جو عمرہ کے لئے جارہا ہے یا حج کے ساتھ عمرہ بھی کرنا چاہتا ہے اس کو حکم دیا گیا کہ بدن کے زائد بال جو کاٹے جاتے ہیں، اسے کاٹ لے ، ممکن ہوتو غسل کرلے ، ہر طرح سے پاک و صاف ہولے اور اگر وہ مرد ہے تو اپنے سارے سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور دو چادر جسم پر لپیٹ لے ، دونوں کا رنگ سفید ہو اور دونوں بے سلے ہوئے ہوں اور اگر وہ عورت ہے تو اپنے روزمرہ کے کپڑے میں جائے ، بال نہ ٹوٹیں اس کے لئے سر پر اسکارف باندھ لے، وضوکے وقت اسے کھول کر سرکا مسح کرے ، احرام کے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے ،مردہے تو اپنا سر کھول دے اور نیت کرے الَلّٰھُمَّ ِانی اُریدُ العُمْرَۃ فَیَسّرہالی وَ تَقَبّلْ مِنی: کہ اے اللہ میں عمرہ کی نیت کرتا ہوں اسے آسان کردے اور قبول کرلے ،پھر یہ بھی حکم دیا گیا کہ یہ محبت وشیفتگی کی راہ ہے اس لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب کرو ، میل نہ چھڑائو، ناخن نہ کاٹو ، خوشبو نہ لگائو ، شکار نہ کرو ، سر کو نہ چھپائو ، جھگڑے لڑائی پہلے بھی ممنوع تھے اب اور احتیاط کرو ، لباس اور وضع قطع میں یکسانیت آگئی اب حج کا ترانہ گائو ، اللہ کے یہاں حاضری درج کرائو ۔لَبَّیْکَ الّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَوَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیکْ لَکَ۔ میں حاضرہوں ، تیرے حضور حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، بیشک حمد اور شکر کا مستحق تو ہی ہے، انعام واحسان تیرا ہی کام ہے، بادشاہی صرف تیرے لئے ہے ،اور تیرا کوئی شریک نہیں ۔
زبان پر لبیک کا ترانہ ہو اور دل اللہ کی محبت سے معمور ومخمور اور اخلاص کی دولت سے مالا مال ہو ، پڑھتے جائو ، دیکھو کعبہ نظر آگیا ، نگاہیں ادب سے جھکالو ،آگے بڑھو ، دھیرے دھیرے نظر اٹھائو ، مانگ لو ،جو پہلی نظر میں مانگ سکتے ہو ، دنیا بھی مانگو ، عقبی بھی مانگو ، اپنا اپنا ظرف ہے، کوئی دنیا مانگتے مانگتے پلک جھپکادیتا ہے ، کوئی آخرت مانگ کر جنت کا مستحق ہوتا ہے اور کوئی دونوں جہاں کی فلاح مانگتا ہے 
دائیں جانب دیکھومطاف کے ایک کونے پر،ہری بتی جل رہی ہے ، رک جائو، حجر اسود تمہاری بائیں جانب ہے ، طواف کی نیت کرلو ، تکبیر تحریمہ کی طرح حجر اسود کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھائو ، بسم اللہ سے شروع کرو ، اللہ اکبر کہو ، اور اللہ کی تعریف نہ بھولو ، بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد کہہ لو ، دونوں ہاتھوں کو حجر اسود پر رکھ لو، ورنہ دور سے ہی رکھنے کی صورت بنا کر بوسہ لے لو ، طواف عمرہ کا احرام کے ساتھ کررہے ہو یا حج کا تو اپناداہنا کاندھاکھولد و یہ جو کعبہ کے دروازے کے بعد والا کونا ہے، وہاں سے دوسرے کونے تک چہار دیواری سی بنی ہے، اسے حطیم کہتے ہیں ، طواف میں اس کے باہر سے چکر لگائو ، یہ دیکھو ، یہ حجر اسود سے پہلے والا کونہ ہے ، اسے رکن یمانی کہتے ہیں،آسانی سے چھو سکو تو چھولو اور یہاں سے رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّار وَاَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَارِ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ پڑھناشروع کرو ، اس کے علاوہ پورے طواف میں جو دعا یاد ہو ، پڑھو ، نہ یادو ہو تو کلمہ ہی پڑھو ، دعا جو مانگنی ہو اور جس زبان میں مانگنی ہو ، مانگ لو ، اللہ سب زبانیں جانتا ہے اور سب کچھ سنتا ہے ، حج کی تیاری میں دعا عربی میں نہیں یاد ہوئی، فکر نہ کرو ، شروع کے تین چکر میں تھوڑا اکڑ کر چلو ، ہر بار حجر اسود پر پہنچو تو پہلے ہی کی طرح بوسہ لو ، سات چکر پورے ہوگئے ، کاندھا ڈھک لو ، جگہ مل جائے تو حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیانی دیوار سے چمٹ جائو ، سرور خسار کو دیوار سے لگا دو اور دنیا وآخرت کی دولت مانگو ، دیکھو !یہ جو پنجرہ جیسا نظر آتا ہے ، اس میں مقام ابراہیم ہے ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ، ا ن کے پائوں کے نشان پتھر پر ثبت ہیں ، اس کے قریب کھڑے ہوجائو ، اور اللہ نے طواف کرنے کی توفیق دیدی، اس کے شکر کے طور پر واجب دو رکعت نماز پڑھ لو ، قریب نہ جگہ ملے تو دور ہٹ کر پڑھ لو ، نماز واجب ادا ہوگئی ، اب سیر ہوکر آب زمزم پیو ، تمام بیماریوں سے شفا مانگو، زمزم جس نیت سے پیو ، پوری ہوتی ہے جو دعا چاہو مانگ لو ، زمزم کا کنواں اب بند کردیا گیا ہے ، زائرین اسے دیکھ نہیں سکتے ، یہ بھی ایک چیز وہاں دیکھنے کی تھی ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ۔
چلو اب صفا پر چلتے ہیں، حجر اسود کے مقابل جوہری پتی ہے اس سے اوپر بڑھتے چلو اور چڑھتے جائو یہ صفا ہے اور سامنے وہ جو اونچا نظر آرہا ہے ،راستہ کے اختتام پر وہ مروہ ہے ، اللہ نے اسے اپنے شعائر میں شمار کیا ہے ، حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پانی کی تلاش میں اس جگہ کا چکر لگایا تھا ، اسی راستے سے دوڑی تھیں ، صفا پر چڑھ گئے ، اب کعبہ کی طرف رخ کر لو ، اللہ تعالی کی کبریائی بیان کرو ، دعائیں مانگو، مانگ چُکے تو صفا سے مروہ کی طرف بڑھو ، دیکھو جو سبز رنگ کے پائے اور بتیاں دیکھ رہے ہو ، یہاں سے تیز چلو ، اب یہ دوسرا سبز رنگ کا پایہ آگیا ، اب تیز چلنا بند کردو اور مروہ کی طرف بڑھو ، مروہ پہنچ گئے ، ایک چکر پورا ہوا ، یہاں بھی جو کچھ مانگ سکتے ہو،مانگ لو اور پھر صفا کی طرف چلو ، راستہ میں جو دعا یاد ہو پڑھو ، تیسرے کلمہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اسی کو پڑھتے رہو اور اس طرح سات بار کرو ، مروہ پر پہنچ کر یہ سلسلہ ختم ہوگیا ، پھر دعا مانگو ، اب یہاں سے نکل چلو ، بہت لوگ قینچی لے کر یہاں بال کاٹ رہے ہیں ، عورتیں پردہ کی رعایت کے ساتھ تھوڑا بال خود کاٹ لیں ، یا محرم مرد یا عورت سے کٹوالیں ، مرد ایسا نہ کریں ، انہیں تو پورا بال چھوٹا کروانا ہے، یا مونڈوانا ہے مروہ سے نکل کر بہت دکانیں ہیں ، کسی کا رخ کریں، معاملہ طے کرلیں کہ کتنی اجرت لے گا ، چلو بال بھی صاف ہوگیا ، اس کے ساتھ ہی عمرہ مکمل ہوگیا ، اللہ کا شکر اداکیجئے ، غسل وغیرہ کیجئے ، روز مرہ کے لباس پہن لیجئے ، مکہ میں رہئے ، حرم شریف میں پنچ وقتہ نماز باجماعت تکبیر اولی کے اہتمام کے ساتھ پڑھیے نماز باہر سڑکوں پر بھی ہوجاتی ہے ، پوری زندگی تو کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھتے ہی رہے ہو ، یہاں پہونچ گئے تو کم سے کم کعبہ نماز میں سامنے رہے ، کیسی محرومی کی بات ہے کہ یہاں بھی یہ سعادت نہ ملے ، اس لئے کوشش کیجئے اور پنج وقتہ نمازیں مسجد کے اندر پڑھیے نفلی طواف جس قدر کرسکتے ہوں کرلیجئے کہ یہ عبادت دوسری جگہ میسر نہیں ، انتظار کیجئے ایام حج کے آغاز کا ، جب پھر آپ کو حج کا احرام باندھنا ہوگا ۔

جمعہ, جون 09, 2023

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

"وفاق المدارس الاسلامیہ "قدم بہ قدم 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ(9431003131)

 وفاق المدارس کا قیام قاضی القضاة حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تحریک پر مدارس دینیہ کانفرنس منعقدہ24/ تا 26/ مئی 1996ءکو مدرسہ ضیاءالعلوم رام پور رہوا ضلع سمستی پور میں عمل میں آیا تھا،مدارس کے صورت حال پر حضرت قاضی صاحب ؒ نے فرمایا تھا: یہ بھی حقیقت ہے کہ تعلیم وتربیت کے میدان میں جو عمومی انحطاط پیدا ہوا اور عصری تعلیم گاہوں کے معیار میں جو بگاڑ اور تنزل ہوا اس سے ہمارے دینی مدارس بھی متاثر ہوئے ہیں، مدارس کے درمیان باہم ربط وہم آہنگی کا فقدان، کسی مرکزیت سے ان کا وابستہ نہ ہونا، نصاب تعلیم کا اختلاف، امتحانات میں بے ضابطگی وغیرہ۔امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ نے وفاق کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: مدارس کے موجودہ نظام تعلیم وتربیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ مدارس کو باہم مربوط کرنے، نظام تعلیم وتربیت میں یکسانیت لانے اور نصاب تعلیم کو موثر بنانے کے لئے وفاق المدارس الاسلامیہ کا قیام ضروری ہے، چنانچہ امارت شرعیہ کی سر پرستی میں وفاق قائم کیا گیا، اس وقت سے وفاق سر گرم عمل ہے، اور الحمد للہ اس وقت دو سو چھہتر مدارس اس سے ملحق ہوچکے ہیں، جن کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہو رہا ہے، او ر وقتا فوقتا مدارس کا تعلیمی جائزہ بھی لیا جاتاہے، جس کی وجہ سے روز بروز مدارس منسلکہ کی تعلیمی وتربیتی حالت بہتر سے بہتر ہو رہی ہے، خوشی کی بات ہے کہ وفاق کی طرف سے ایک جامع نصاب تعلیم بھی مرتب کر دیا گیا ہے، جس میں جدید حالات اور وقت کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ 
امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب نے لکھا ہے:امارت شرعیہ بہار واڈیشہ کی نگرانی اور سرپرستی میں وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کا نظام کامیابی کے ساتھ چل رہاہے۔ جس کے ذریعہ آزاد مدارس اسلا میہ کو منظم کرنے، ان کے درمیان ربط وہم آہنگی پیدا کرنے اور مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بند کو ششیں کی جا رہی ہیں، جس کے اچھے نتائج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔اس سے منسلک مدارس کا سالانہ امتحان وفاق کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
 اس کے پہلے صدر حضرت قاضی مجاہداسلام رح ا ور پہلے ناظم حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری رح تھے، قاضی صاحب کے انتقال کے بعد حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر مولانا عبد الحنان صاحب بانی جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ سیتامڑھی اور مولانا انیس الرحمن قاسمی یکے بعد دیگرے صدر منتخب ہوئے، تیسرے میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری صدر اور مفتی نسیم احمدقاسمی ؒ ناظم مقرر ہوئے،مفتی نسیم احمد قاسمیؒ کے بعد مفتی سہیل احمد قاسمی سابق صدر مفتی ناظم بنائے گیے،راقم الحروف (محمد ثناءالہدیٰ قاسمی) کو دوسرے میقاتی اجلاس منعقدہ7/ اکتوبر 2000ءکو حضرت قاضی صاحب کی تحریک پر مجلس عاملہ میں شامل کیا گیا، میں ان دنوں بورڈ کے ایک مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، پہلی میقات میں ہی نصاب تعلیم کا خاکہ اور وفاق المدارس کا دستور مرتب ہوا، مدارس کے لیے ضابطہ اخلاق اور اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا۔میں ان مٹنگوں میں شریک کار رہا۔ 
پانچویں میقات کے لیے انتخاب کی کاروائی 21/ فروری 2008ءکو مکمل ہوئی، جس میں مولانا انیس الرحمن صاحب سابق ناظم امارت شرعیہ صدر اور ناظم راقم الحروف کو منتخب کیا گیا، چھٹے اور ساتویں میقات میں حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ صدر اور ناظم احقر ہی منتخب ہوا، اس طرح 2008 سے 2023تک مسلسل وفاق کی خدمت انجام دیتا رہا، میری پوری مدت کار میں مفتی سعید الرحمن صاحب قاسمی معاون ناظم اور نائب ناظم امتحان کی حیثیت سے وفاق کے کاموں میں معاونت کرتے رہے، مفتی سہیل احمد قاسمی کے آخری دور میں انہوں نے کار گذار ناظم کی حیثیت سے بھی کام کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ معاونت کا حق ادا کیا، اس طرح الحمد للہ وفاق کے ناظم کی حیثیت سے میری کار کردگی کم وبیش سولہ سال کو محیط ہے، اس پوری مدت میں معمول کے کام، امتحانات، نتائج کی ترسیل،جائزے،انعامات کی تقسیم، اساتذہ کے لیے تربیتی کیمپ کے علاوہ زونل میٹنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو مدارس الگ ہو گیے تھے، ان میں سے کئی کو جوڑا گیا، ملحق مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا، دو آل بہار مسابقة القرآن کریم کا کامیاب انعقاد ہوا، مدارس ملحقہ کی ڈائرکٹری مرتب ہوئی اور اس کی طباعت کا انتظام وفاق المدارس کی طرف سے کیا گیا، رحمانی قاعدہ اور مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس کی طباعت ہوئی، آخر الذکر کتاب ان محاضرات پر مشتمل ہے جو ملک کے نامور مدارس کے اساتذہ نے مختلف علوم وفنون کی تدریس پر دیے تھے، کتاب میں حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی ؒ کی ”آداب المعلمین“ اور مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب ”درس نظامی کیسے پڑھائیں“ کو من وعن شامل کر لیا گیا تاکہ کتاب کی جامعیت اور افادیت میں اضافہ ہو، مولانا آزاد اور ہمدرد یونی ورسٹی سے وفاق کے اسناد کو منظور کروایا گیا، ہمدرد ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ علی گڈھ میں عصری علوم کے اساتذہ کی تربیت کا نظم کیا گیا، جس سے کثیر تعداد میں مدارس نے فائدہ اٹھایا، وفاق کا سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرایا گیا، مختلف مواقع سے مدارس کے نام رہنما خطوط جاری کیے گیے، لاک ڈاؤن میں مدارس کے علاوہ گھروں پر تعلیم کا نظام بنایا گیا، کیوں کہ تعلیمی ادارے بند کیے گیے تھے، گھروں کے دروازے انہیں، ان کا موں کی وجہ سے وفاق المدارس کے کام میں بہتری اور مضبوطی آئی۔
ان تمام کاموں میں تنفیذی اقدام علی الترتیب جناب ضمان اللہ ندیم، مولانا واعظ الدین، مولانا مرغوب عالم، مولانا راشد العزیری ندوی، مولانا امداد اللہ ندوی، مولانا سعید کریمی وغیرہ کرتے رہے،ان کی توجہ سے وفاق کے کاموں کو وسعت نصیب ہوئی۔ 
 اب نیا انتخاب ہوگیا ہے حضرت امیرشریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب صدر اور نائب امیرشریعت مولانا شمشاد رحمانی صاحب خازن راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم چن لے گیے ہیں،اور اس موقع پر وفاق المدارس الاسلامیہ کے نائب صدور، نائب سیکریٹریز، ارکان عاملہ کا بھی انتخاب عمل میں آیا ، اللہ کرے یہ انتخاب وفاق کے کاموں کو آگے بڑھانے، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہو۔ اور وفاق المدارس نے نصاب تعلیم، نظام امتحان اور معیاری تعلیم کے لیے جو منصوبے بنائے ہیں، وہ زمین پر اتر سکیں، موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ذہن ودماغ میں بھی وفاق کو فعال بنانے کے لیے بعض منصوبے ہیں، نئے ذمہ داران اس کو زمین پر اتارنے کی کوشش کریں گے تو وفاق مضبوط ہوگا اور مستحکم بھی۔
اس اجلاس کے موقع سے مدارس اسلامیہ کو داخلی اور خارجی محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے، اس پر بھی غور وفکر کیا گیا اہم تجاویز بھی سامنے آئے، داخلی طور پر ہم ہی میں سے کچھ دانشور حضرات مدارس اسلامیہ کی تعلیم پر سوالات کھڑے کرتے رہتے ہیں، مدرسہ کے مزاج کو بدل کر عصری علوم کی شمولیت پر زور دیتے ہیں اور اس کی افادیت کو مشکوک بنانے کی جدو و جہد میں لگے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے ان کی نیتیں درست ہوں، لیکن اس کے اثرات سماج پر اچھے نہیں پڑ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کی طرف طلبہ کا رجوع کم ہو تا جا رہا ہے، اور اچھے اساتذہ بھی مدارس کو نہیں مل پا رہے ہیں۔ ہمیں مدارس کی تعلیم کو پر کشش بنانے اور اسے دینی ضرورت سمجھ کر فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلہ کا ایک دوسرا پہلو وہ ہے جو ان دنوں بڑے علماءکی سر پرستی میں حفظ پلس کے نام سے چلایا جا رہا ہے، مدارس اسلامیہ والے جن بچوں کو نورانی قاعدہ سے پڑھاکر آگے بڑھاتے ہیں، اور حفظ کے بعد اعدادیہ میں داخلہ لے کر انہیں عالم فاضل بنانے کا کام کرتے رہے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مدارس میں مسلمانوں کے پڑھنے والے بچوں کی تعداد چار فی صد سے زائد نہیں ہے۔ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ مسلمانوں کے ان چھیانوے فی صد بچوں کی فکر میں دُبلا نہیں ہو رہا ہے، جو عصری علوم بہترین ملازمت اور آءیی ایس، آئی پی ایس بننے کے لیے ہی پڑھتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ مدارس کو کمزور کرنے اور اس کے پوسے پالے بچوں کے اغوا کی تحریک ہو؟ آج کے دور میں کچھ بھی ممکن ہے، اس لیے اس پر بھی ہم سب کو غور کرنا چاہیے، بعض اہل قلم کی مدلل تحریریں بھی اس موضوع پر آچکی ہیں، افادیت، نا فعیت اور ضرورت کو بھی غور وفکر میں سامنے رکھا جائے اور کسی نتیجہ پر پہونچنے کی کوشش کی جائے، یہ بھی ایک بڑا کام بایں معنی ہے کہ دینی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر مدارس میں پڑھنے والے چار فی صد طلبہ ہماری دینی ضرورت کے کاموں میں لگے ہوتے ہیں، اگر طلبہ دوسرے کاموں کی طرف راغب ہوئے تو دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہمارے پاس افراد دستیاب نہیں ہوں گے، کسی ڈاکٹر، انجینئر، آئی ایس، آئی پی اس کو پنج وقتہ نماز با جماعت کی با قاعدہ امامت کرتے ہوئے آج تک میں نے نہیں دیکھا، یہ مدارس کے فضلاءہی ہیں جو ہماری ان ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، ان کی معاشی پس ماندگی دور کرنے کا یہ حل نہیں ہے کہ انہیں آئی ایس، آئی پی اس بنا دیا جائے، حل یہ ہے کہ ملت ان کی کفالت کے لیے کلاس ون گریڈ کے افسران کی تنخواہ اور سہولتیں انہیں دی جائیں۔
دوسرا محاذ خارجی ہے، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دینے کی روایت پرانی ہے، جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئیی ہے، اس مسئلہ نے زور پکڑ لیا ہے، مدارس کو بدنام کرنے کے نت نئے منصوبے اختیار کیے جا رہے ہیں، اور اس میں پڑھنے والے بچوں کو ہراساں کرنے، زدو کوب کرنے، اور پڑھانے کے لیے لے جانے والے اساتذہ کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں،ابھی حال ہی میں دانا پور میں سینتیس طلبہ کو بہبودیءاطفال کے محکمہ نے اتار لیا تھا، امارت شرعیہ کی مسلسل محنت سے ان بچوں کو پولیس تحویل سے آزاد کرایا گیا، اس موقع سے جب بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے علمائ، دانشور اور ارباب بصیرت جمع ہوں گے تو ہمیں ان مسئلوں کے حل کے لئے مضبوط، موثر اور قابل عمل، لائحہ عمل بنانا چاہئے، تاکہ ان کا تدارک ہو سکے۔
 اس وقت ملک کو جن حالات کا سامنا ہے اور تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی جو تحریک مرکزی حکومت کے تحت چلائی جا رہی ہے جس میں سوریہ نمسکار، یوگا، اور وندے ماترم کہنے پر زور دیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ امور سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کا جز نہیں ہیں، مگر آر، ایس، ایس اور ان کی حلیف تنظیموں کے ذریعے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ عصری اسکولوں میں پڑھنے والے ہمارے بچے یا تو اسکول کے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائیں یا انہیں مجبورا اس مشرکانہ عمل میں شریک ہو نا پڑے۔ یہ معاملہ وفاق سے بلا واستہ جڑا ہوا نہیں ہے، لیکن مسلم سماج کو ان حالات کی وجہ سے پریشانوں کا سامنا ہے، وفاق المدارس سے منسلک مدارس اور ان کے اساتذہ سماج کو ان حالات سے نکالنے کے لئے کیا جد وجہد کر سکتے ہیں؟ ان پربھی غور کرنا چاہیے۔ 
 اس سلسلے کی ایک اور کڑی ایسے مواد کی شمولیت ہے جو ہندو دیو مالا ئی کہانیوں پر مشتمل ہے اور جن کے ذریعہ ہند توا کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے،مسلم عہد حکومت کے واقعات کو نصاب سے نکالا جا چکا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کے عہدزریں کا کوئی تصور بچوں کے ذہن میں نہ جائے،کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ مسلم دور حکومت کو ظالمانہ اور عدل وانصاف سے خالی قرار دیا جائے۔ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا ابو الکلام آزاد کی جگہ بھی نصاب میں باقی نہیں ہے۔
یہ معاملہ صرف تاریخ کا نہیں؛ بلکہ ہندوستان کے سیکڑوں سالہ تہذیب وثقافت اور ورثہ کے تحفظ کا ہے، اس کا تعلق ہماری اپنی حمیت وغیرت اور تاریخی تسلسل سے ہے جس کے بغیر ہندوستان کی سیکڑوں سال کی تاریخ اندھیروں میں چلی جائے گی اس پورے معاملہ پر بھی وسیع تناظر میں غور وفکر کرنا چاہیے۔

چھین کر کو ن لےگیاچہرہ میر ا ا پنا نہیں مرا چہرہ تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ * انس مسرورانصاری

بک رہا ہوں جنوں میں۔۔۔۔۔(2) 
                      ( چندمعروضات) 
          اردودنیانیوز۷۲ 
         *انس مسرورانصاری
    
        بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
        کچھ نہ سمجھے خد ا کر ے کو ئی
                                         (غالب) 
      اگر لوگوں میں کچھ بھی سمجھ ہوتی تو شاید اس طرح کی تحریروں کی ضرورت نھیں پیش آتی۔ ہمارا کام سمجھاناہے،سو ہم سمجھاتےآئےہیں اورسمجھاتےرہیں گے۔لوگ سمجھ سمجھ کر بھی نہ سمجھیں تو ان کی سمجھ کوہم اپنی سمجھ سےخداکےحوالے کرتےہیں۔ 
       عرض یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اردو شعروادب کا سب سےبڑا المیہ یہ ہے کہ جس شخص کو ذراسی بھی اردو آجاتی ہے وہ شاعری کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔کیا دیہات اورکیاشہر،ہرجگہ شاعر مخلوق کاایک جم غفیرموجودہےجواپنی   محبوباؤں کی زلف گرہ گیرکا  شکار,اوررگ گل سےبلبل کےپرباندھنے میں مصروف ہے۔ایسی حالت میں جب قوم خطرناک اور تباہ کن مسائل میں گھری ہوئی بےدست وپاہے،قوم کادانشورطبقہ شاعری اور تخیلاتی دنیاؤں میں فرارہوگیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ۔۔۔ 
        دنیا پڑی ہوئی ہے ترقی کی راہ میں
        شاعرپڑےہوئے ہیں مگر واہ واہ میں
    ضروری معلوم ہوتاہے کہ برصغیرمیں اردو شاعروں اورمتاشاعروں کی مردم شماری کرائی جائےتاکہ ان کی صحیح اور اصل تعداد کا کچھ تو پتا چلے۔گمان غالب ہےکہ بھارت میں ان کی آبادی لاکھوں میں ہے۔طرفہ تماشہ یہ کہ مشاعرہ گاہ سے سوشل میڈیا اورکتابی دنیا تک۔ہرشاعرعظیم ہے اور ہر تخلیق شاہ کار۔۔۔۔! واٹس ایپ، فیس بک، ٹیوٹر، انسٹا گرام وغیرہ کوئی بھی ایپ کھولئے،اوردیکھئیےکہ سڑےسےسڑے شعر پر بھی لوگ اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کردادوتحسین کےنعرےبلندکرتےہیں کہ غالب واقبال کی روحیں کانپ کانپ جاتی ہوں گی۔ یہاں تک کہ سڑےاوربدبودارشعروں 
 اور غزلوں کو شاہکار کے درجہ تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ حالانکہ انھیں شاہ کار کے معنی تک نہیں معلوم۔اس طرح شاعروں کو۔۔عظیم الشان۔۔بتاکر انھیں گمراہ کرنے کی مہم بھی عام ہے۔ہرشاعرعظیم اوراس کی شاعری عظیم الشان ہوگئی ہے۔ہرشعرپرواہ۔۔واہ۔۔بہت خوب۔۔بہت عمدہ۔۔لاجواب۔۔۔بے مثال۔۔جیسے تبصرے سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر شاعرکےدماغ کا خراب ہوجانا بعیدازقیاس نہیں۔ جب کہ حقیقت  حال یہ ہےکہ گزشتہ بیس سالوں میں اردو زبان  میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی گئی جوعالمی ادب کو متاثر کرسکتی اوردوسری زبانوں میں ترجمہ کےلیے ناگزیر ہو جاتی۔ 
      المیہ یہ بھی ہے کہ اردو مشاعرے اب کوی سمیلن کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔۔سبحان الله۔۔ ماشاءاللہ۔۔ جزاک اللّہ کے بجائے اب دادو تحسین کے لیےتالیایاں بجائی اوربجوائی جاتی ہیں۔یہ اردو مشاعرہ کی تہذیب نہیں۔ یہ بدعت ہندی کوی سمیلن سے آئی ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ ادب سازوں اور ادب نوازوں کو تالیوں جیسےغیراردو تہذیبی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔۔ مشاعرہ کی اپنی ایک روایت اور تہذیب ہےجس کی بنا ہمارے بزرگوں نے ڈالی تھی اورصدیوں سے اس تہذیب کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ لیکن موجودہ زمانہ کےشاعراورسامعین،دونوں نے مل کراس اردو تہذیب کوموت کےگھاٹ اتاردیا۔ مشاعروں کے اسٹیج پر اردوشاعری کو طوائفوں کی طرح نچایا جاتاہے۔شعراءمضحکہ خیزاداکاریاں اور حرکتیں کرتے ہیں اور سامنے بیٹھے ہوئے تماشائی تالیاں بجاتے ہیں۔ 
            ،، اک تماشاہواگلہ نہ ہوا۔۔ 
     اس سچائی سے کون انکارکرسکتاہے۔پھر اس قبیح عمل کو اردو کی ترقی اورفروغ سےجوڑدیاجاتاہے۔کہاجاتا ہےکہ مشاعروں سے اردوزبان کو فروغ حاصل ہورہاہے۔۔کوئی بتائے کہ مشاعروں کو سن کر کتنےلوگوں نےاردو زبان کولکھناپڑھناسیکھا۔؟تماشا یہ بھی ہےکہ آج مشاعرےمحض ذہنی عیاشی کاایک ذریعہ بن گئے ہیں۔اردوکےنام پر محض تجارت۔صرف کاروبار۔! مشاعروں اور جلسوں کےشعراء اورنعت خوانوں کی کثیر تعداد ان لوگوں کی ہےجو اردولکھناپڑھنانہیں جانتے اورکلام ہندی میں لکھ کرلاتےہیں۔اردو کو اپنی رسوائی کا یہ تماشا بھی دیکھناتھا۔اردو زندہ بادکےنعرے لگانےوالوں میں اکثریت ان لوگوں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا میں اپنا نام اردو زبان میں لکھنا تک پسند نہیں کرتے۔شاید اردومیں لکھنا اپنی توہین سمجھتےہیں۔اجدادکی بخشی ہوئی عظیم الشان وراثت نا خلف وارثوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔انھیں شاید یہ تاریخی مقولہ یادنھیں کہ جس قوم کو اپنا غلام بنانا ہو اس سےاس کی زبان چھین لو۔قوم اپنی موت آپ مرجائےگی۔یوں تواردو کومارنےاور مٹانے کاسلسلہ ہمارے ملک میں آزادی کے فوری بعدسے شروع ہوگیاتھا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ آج بھی مرکزی و صوبائی حکومتں اردو کی ترویج و ترقی کے نام پرسرکای ونیم سرکاری اداروں کوہرسال  کروڑوں روپئے کا بجٹ دیتی ہیں۔لیکن ان اداروں کاحال اوران کی کارکردگی کیاہے،،سب جانتے ہیں۔ 
     اردو اکادمیاں مشاعروں کے منتظمین سے کمیشن لےکر بڑی بڑی امدادی رقم منظور کرتی ہیں۔یعنی خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔منتظمین اپنا کمیشن کاٹ کر شاعروں کو نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ یہ بھی خوش وہ بھی خوش۔ کس قدر نفع بخش دھندہ ہے۔      دوسری طرف امداد نہ ملنے کے سبب مسودات دھول چاٹتے رہتے ہیں۔ ایک سال۔ دوسال۔ تین سال۔ پھر دیمکوں میں جشن مسرت برپاہوتا ہے۔ طباعت کے منتظر مسودات کی تعداد بھی توکافی ہوتی ہے جن میں شعری مجموعات کو اکثریت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح دیمکوں کو وافر مقدار میں طعام کے لیے غذائی سامان فراہم ہوجاتاہے۔۔ہمارے ایک دوست کےمضامین  کا مسودہ۔۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی۔لکھنؤ،،، میں مالی امدادکی درخواست کےساتھ جمع ہوئے تین سال ہوگئے۔ جب بھی خط لکھئےتوجواب نہیں آتا۔ فون کیجئے توجواب ملتا ہے کہ ابھی ۔۔پروسیس،، میں ہے۔اس پروسس کا سلسلہ کتنادرازہوگا۔ یہ تو خدا ہی جانےالبتہ مزے کی بات یہ ہےکہ مذکورہ مسودہ کے بہت بعد میں جمع ہونے والے مسودات زیور طباعت سےآراستہ ہوکر کب کے منظرعام پرآچکےہیں۔خطاہمارےدوست کی ہے۔ مسودہ کےساتھ کسی سفارشی کو کیوں نہ بھجا۔بیچارے تین سال سے اسی دکھ میں گھلےجارہےہیں کہ جیتے جی ان کی کتاب چھپ جاتی تو اچھا ہوتا۔۔ہم سمجھاتے ہیں کہ اناللہ و انا الیہ راجعون،، پڑھئےاورصبرکیجئے  مگران کا منھ نہیں کھلتا۔ ایسےکتنےہی ادیب اورشاعر ہوں گے۔۔۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان۔دہلی،، کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔   مشاعروں اور سیمیناروں کےلیے بجٹ موجود ہیں مگر مالی امداد کی درخواست کےساتھ جمع شدہ مسودات کی عمریں دو، تین، اور شاید چار سالوں تک پہنچ گئی ہیں۔۔۔
         کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔ 
    اردو سیمیناروں کے حالات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔۔ اس میں بھی کمیشن خوری کاطویل سلسلہ ہے۔۔اردوکےنام پرتجارت  خوب پھل پھول رہی ہے۔ فروغ پارہی ہے۔ سیاسی سفارش ہو تو اردو اکادمیاں ایک لاکھ سے پانچ اورچھ لاکھ روپئے تک کے ایوارڈبھی دیتی ہیں مگر کمیشن کی شرط لازم ہے۔ خواہ ادیب اورشاعر مستحق ہویانہ ہو۔۔چاہیں تو آپ بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوکر منفعت بخش کاروبارکرسکتے ہیں۔ 
       صلائےعام ہےیاران نکتہ  داں کےلیے ۔
      المیہ یہ بھی ہےکہ موجودہ زمانہ میں اردوتنقید اپنےمعنوی معیارسےمنحرف ہوکر محض تعریفی و توصیفی تبصرہ نگاری تک آگئی ہے۔اردو شعروادب کی ترقی کےلیے یہ ایک منفی اور نقصان رساں رجحان اورعمل ہے۔ اردو مشاعروں کےپوسٹراور تشہیری تحریروں کاہندی میں رواج تیزی سے عام ہورہاہے۔اردو والوں کا حال اس ریوڑی والے جیسا ہوگیا ہےجس کاخوانچہ شریر بچے زمین پر گراکراس کی ریوڑیاں لوٹنے لگتےہیں۔ریوڑی والاحیران و پریشان کہ وہ کیا کرے۔ جب کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو وہ شریربچوں کے ساتھ خود اپنی ہی ریوڑیاں لوٹنےلگتاہے۔ 
       یاد رکھیے۔۔۔اردوزبان کا رسم الخط ہی اس کی جان ہے۔اب اس کی جان کی جان نکالنے کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اردو کاصرف نام رہ جائےگااورکچھ عرصہ بعدنام بھی جاتا رہے گا۔یہ زبان ہندی کے ساگر میں ڈوب َجائے گی۔۔۔۔ کھوجائے گی۔۔۔ایک حصہ انگریزی اپنےاندرہضم کر لے گی اور باقی سارے حصے ہندی زبان نگل جائے گی۔۔۔پھر اردوکی موت پر انالللہ واناالیہ راجعون۔۔ پڑھنا بھی لوگ بھول جائیں گے۔۔اور ایک عظیم الشان اسلامی لٹریچر مدفون ہوجائےگا۔لوگ قرآن تو پڑھیں گے لیکن تلفظ ہندی ہوگا۔آیات کےمعنی و مفہوم بدل جائیں گے۔لوگ ثواب اور برکت کےلیے قرآن پڑھیں گے اور عذاب کو دعوت دیں گے۔۔زبانیں اسی طرح بتدریج ختم ہوتی ہیں۔کیااردوزباں بھی ختم ہوجائے گی۔؟بلاشبہ یہی ہوگا۔۔۔ 
اگراب بھی نہ جاگےہم توصرف صوراسرافیل     ہی ہمیں جگاسکے گا۔۔ 
  یاد رکھئے کہ اردوزبان اپنے اصل رسم الخط کےساتھ ہی زندہ رہ پائےگی۔اردو کی زندگی اس لیے ضروری ہے کہ اس سےاسلامی کلچر اورشاندارلٹریچرکا وافرذخیرہ وابستہ ہے۔ہم ایک عظیم الشان وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔اس لیےاردو میں لکھنا پڑھنااب ثواب کے زمرے میں داخل ہوگیاہے۔اس زبان کا تحفظ اب صرف زبان کا تحفظ نہیں۔ اردوزبان کا مسئلہ اب صرف ایک معدوم ہوتی ہوئی زبان کامسئلہ نہیں۔بلکہ یہ مسئلہ قومی وملی تحفظات کےساتھ منسلک ہے۔اس لیے اردوزبان کی بقاء و تحفظ کےلیے نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔مشاعرےاورسیمیناراردوکےمسائل کا حل نہیں ہیں۔اپنوں کی خودغرضیوں کی شکار اردوزبان کوگہرےجذباتی تعلقات مطلوب ہیں۔ وہ محبت کا تقاضہ کرتی ہے۔بے چاری اردو۔!مسلمانوں کو اب تسلیم کرلینا چاہئے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔مردم شمارے کے وقت ز بان کے خانہ میں کوئی غیرمسلم کبھی۔۔ اردو۔۔ نہیں لکھتا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اردوہمای جان ہے۔۔ ہماری شان ہے۔۔۔ ہماری شناخت اورپہچان ہے۔۔۔۔ اردو زندہ باد۔۔ اردوپائیندہ باد۔۔۔۔۔۔ 

                چھین  کر  کو ن لےگیاچہرہ 
                 میر ا ا پنا  نہیں  مرا چہرہ
               
                تہ بہ تہ گر د ہے عذ ا بوں کی
            میں بھی رکھتاتھاخوشنماچہرہ 
 
        * انس مسرورانصاری

      َ قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                رابطہ/9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...