Powered By Blogger

جمعہ, جون 23, 2023

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے
Urduduniyanews72 
 تصویر کائنات میں رنگ ،اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ،اللہ عزوجل نے اس کو مرد کا رفیق سفر اور دمساز  و ہم راز بنایا ہے ۔دنیا کی  حسن و رعنائی میں اس کا اہم کردار ہے ۔اسی کے نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو سے رزم و بزم کی رونق قائم ودائم ہے ۔اس کے ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ پر انسان ہزار جان سے فداہوتا ہے ۔وہ نہ ہو تو دنیا کی ساری رنگینی ورعنائی اورزیبایش ماندپڑجاے ۔اسی لیے قرآن نے اس کی تخلیق کوخاص نشانی قرار دیا ہے ۔اور اسے باعث سکون گردانا ہے ۔تخلیق انسانی کا ذریعہ اور نسل انسانی کے فروغ کا واحد وسیلہ بتایا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: دنیا سامان ہے اور دنیا کا سب سے بہترین سامان نیک بیوی ہے ۔(صحیح مسلم:3716) اور ایک روایت میں نیک بیوی کی علامت یہ بتایا ہے کہ:جب تم اسے دیکھو تو وہ خوش کردے،تمہارے غایبانہ میں اپنی عصمت کی حفاظت کرے،تمہارے بستر پر اسے نہ بیٹھنے دے جسے تم ناپسند کرتے ہو،تمہاری دی گئی امانت کی وہ حفاظت کرے۔(مستدرک حاکم,2682/سنن ابی داؤد ،1664/صحیح مسلم ،1218)ان صفات کی حامل عورتوں کی وجہ سے  ہی گھر جنت نظیر ہوجاتا ہے ۔نصف ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے ۔پاک دامنی اور عفت مآبی کی ضمانت ہے جس کی وجہ سے مرد شرعی اصطلاح میں محصن باور کیا جاتا ہے ۔ایسی ہی فرماں بردار  عورت خاتون جنت کے طغرہ امتیاز سے نوازی جاتی ہے ۔پردہ اس کی زینت حیا اس کا زیور اور پاک دامنی اس کی پہچان ہے ۔عریانیت اور بے پردگی اس کے لیے باعث فتنہ اور موت کا پیغام ہے۔
درحقیقت عورت سراپا عورت ہوتی ہے جسے شیطان خوش نما بناکر پیش کرنا چاہتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت پوری کی پوری پردے میں رہنے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا وخوبصورت کرکے دکھاتا ہے".(صحیح سنن الترمذی للالبانی ج 1/936) اسی لیے قرآن نے اسے خاتون خانہ بن کر رہنے کی تلقین کی ہے اور شمع انجمن بننے سے روکااور منع کیا ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے "اور اپنے گھروں میں سکون سے ٹکی رہو اور پہلے کی جاہلیت کی طرح سج دھج کر نہ دکھاتی پھرو".(الاحزاب:23)آیت مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے اور سر جھاڑ منہ پھاڑ کرمٹر گشثی سے منع کیا ہے ۔چونکہ مقصود ان کی عزت وعصمت کی حفاظت ہے ۔اسی لیے بغیر ضرورت کے محض شوقیہ بازار گردی سے ممانعت کی ہے۔البتہ ضروریات اصلیہ اس حکم سے باجماع امت مستثنی ہے۔جیسا کہ اگلی ہی آیت میں بدرجہ مجبوری برقع وجلباب میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ارشادربانی ہے:اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کی گھونگھٹ ڈال لیا کریں ۔(الاحزاب:33) ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں ".(تفسیر ابن جریر ج 22,ص:29) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ۔ایک موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم عورتوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو".(صحیح بخاری ،237/صحیح مسلم ،217) حدیث مذکور کے لفظ حوایج میں عمومیت پایی جاتی ہے ۔اس میں دنیوی ضروریات بھی شامل ہیں اور دینی ضروریات بھی ۔چنانچہ اس کے تحت ڈاکٹر،عدالت،ملازمت اور تعلیم گاہ کے لیے جانے کی بشرط ضرورت اجازت ہوگی۔عورت کو بازار سے ضروری سودا سلف لانے والا نہ ملے تو یہ بھی ایک طرح کی حاجت وضرورت میں شامل ہے اور وہ اس کے لیے بازار جاسکتی ہے مگر شرعی پردہ کے حدود و قیود میں رہ کر۔چنانچہ مفتی شفیع صاحب احکام القرآن میں آیت"وقرن فی بیوتکن" کے تحت لکھتے ہیں کہ: معلوم ہوا کہ عورتیں گھر میں رہیں سواے دینی ضرورتوں کے جیسے حج وعمرہ کے لیےنص کی وجہ سے یادنیوی ضرورت کے لیے جیسے اپنے قرابت داروں کی زیارت اور عیادت کے لیے یا نفقہ کے واسطے نکل سکتی ہیں؛لیکن ضرورت کے وقت بھی دورجاہلیت کے دستور کے مطابق زیب وزینت کی نمائش کرتے ہوئے نہیں نکلے گی،بلکہ معمولی سادہ کپڑے میں نقاب وجلباب میں پردہ کیے ہوئے نکلے گی،بشرطیکہ اس میں خوشبو وغیرہ نہ ہو".(احکام القرآن ج3,ص:317و319) علامہ ابن عابدین شامی بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور جب ہم اس کے لیے نکلنا مباح کرتے ہیں تو بغیر زینت کی شرط کے ساتھ ہی ہرجگہ کہتے ہیں،اورحالت و ہییت کو اس طرح بدل کر کہ وہ لوگوں کی نظر کومایل کرنے والی اور دعوت دینے والی نہ ہو".(ردالمحتار علی الدرالمختار ج3ص:146) حضرت عبداللہ بن عمر کی مرفوعاً روایت ہے کہ: عورت کے لیے نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں سوائے مجبوری کے".(کنزالعمال ج 16,ص:391) افسوس اب تو عورتیں حج و عمرہ کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنے لگیں ہیں ۔جب کہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز کویی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے".(سنن دارقطنی ،244)ابن عباس ہی کی ایک دوسری روایت ہے کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے،توایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ! میں فلاں لشکر کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں جب کہ میری بیوی کا حج کا ارادہ ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ".(صحیح بخاری ،1862)
خیرمرد کی موجودگی میں عورتوں کا بازار کرنے کا شوق وچسکا بھی ناپسندیدہ ہے ۔جیسا کہ آج کے زمانہ میں یہ فعل بدمسلم معاشرہ میں ایک ابتلا عام کی طرح پھیلتا جا رہا ہے،مرد تو گھر میں سکون سے آرام فرما ہوتا ہے اورعورت دکان در دکان خاک چھانتی پھرتی ہے اور بد چلن ،آوارہ نوجوانوں کے نظر بد کا نشانہ بنتی ہے ۔اوراس میں وہ اتناطاق ہے کہ اللہ کی پناہ ۔وہ بازار کی اس قدر رسیا اور دلدادہ ہے کہ اس کے بغیر اس کو کسی دن چین و قرار نہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر عورتوں کو مردوں کی خریدی ہویی چیزیں پسند نہیں آتیں ،لہذاوہ مردوں سے بار بار کہہ کر چیزیں بدلواتی رہتی ہیں ،یامرد کی خریدی ہوئی چیزوں میں نقص نکالتی ہیں ۔مثلامہنگی خرید لاے،رنگ صحیح نہیں آیا ،ڈیزایین پرانا ہے ،یہ نقش و نگار تو بوڑھی عورتوں والے ہیں۔غرض ایک دھاگے کی نلکی بھی خریدنا ہو تو بعض اوقات مرد بے چارہ دکان پر بارہا جا جا کر تنگ آجاتا ہے اور بالآخر قوت ضبط جواب دے جاتی ہے اور وہ بادل ناخواستہ کہہ دیتا ہے کہ جاؤ حسب پسند خود خرید لاؤ۔اورعورتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ اچھی اور سستی خریداری کرتی ہیں ۔حالانکہ یہ ان کا اپنا دعویٰ ہے،لیکن کوئی دوسرا ان کے دعوے کی تکذیب کی جرات نہیں کرسکتا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ قیمتیں ادا کرتی ہیں اور گھاٹے کا سودا کرتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق :دنیا کی تراسی کروڑ خواتین کا شاپنگ شیڈول ناشتے کی طرح ہے۔صرف دس فیصد خواتین شاپنگ نہیں کرتیں۔سروے کے مطابق خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں اتنا بے وقوف نہیں بنتیں جتنا دکان دار کے ہاتھوں۔دکان دارانھیں بہن،بیٹی،میڈم،بےبی کہہ کر اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔مغرب میں اگر چہ فکس پرایز سسٹم موجود ہے لیکن یہاں بھی دکان دار عورتوں کے ساتھ دغا وفریب کرجاتے ہیں۔جب کہ تمام ممالک جہاں بارگیننگ کے ذریعے خرید وفروخت ہوتی ہے وہاں دکان دار کے لیے شرح منافع بہت زیادہ ہے۔پٹرول پمپ پر بھی عورتوں کے ساتھ ہیرا پھیری کی جاتی ہےملبوسات،جیولری،کاسمیٹکس اور تحائف کی خریداری میں دکان دار سب سے زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں".(عورتیں اور بازار ص:16/بحوالہ روزنامہ نواے وقت 15/مءی،1997) روزنامہ اخبار جنگ کی رپورٹ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہےملاحظہ فرمائیں کہ: نیویارک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین ا/ملین سے 4/ملین ڈالر ڈرائی کلیننگ کے اضافی چارجز دیتی ہیں ۔آٹوکار کے ڈیلروں سے کیے گئے سروے کے مطابق 21%ڈیلروں نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں سے زیادہ قیمتیں مانگیں ۔80/ہیر ڈریسرز سے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دوتہائی ہیرڈریسرز عورتوں سے 25%چارجز زیادہ لیتے ہیں۔عورتیں اوسطاً 20/امریکی ڈالر زیادہ دیتی ہیں جب کہ مرد16/امریکی ڈالرز ۔ڈرایی کلیننگ کی دکان پر ایک شرٹ کا عورتوں سے 309/ڈالر اور مردوں سے 291/ڈالر لیے جاتے ہیں ".(جنگ 30/اپریل 1993بحوالہ عورت اور بازار ،ص:17) ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ۔یہ رپورٹ ان مہذب اور ترقی یافتہ نام نہاد مغربی ممالک کے ہیں جو عورتوں کے حقوق اور اس کی مساوات کے بزعم خود سب سے بڑے علمبردار ہیں ۔تو بھلاترقی پذیر ممالک اس صف میں کہاں کھڑے ہونگے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔گویا مرد وعورت کے مابین مساوات اور آزادی نسواں کی یہ تحریک ایک خوش نما پرفریب نعرہ ہے ،جومحض چھلاوا یا دل کے بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے کے مترادف ہے ۔ع/جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔

بازار جانا حرام نہیں بلکہ ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ناگزیر ہے ۔حتی کہ اللہ کے افضل ترین خاصان خدا انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام  بھی دعوت وتبلیغ اور امربالمعروف و نہی عن المنکراوردیگر مقاصد کے لیے جاتے تھے ۔ارشاد باری ہے:ہم نے آپ سے قبل بھی رسول بھیجے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازار میں چلتے تھے ".(الفرقان:20) لیکن یہ ضرورت کے طور پر تھا نہ کہ افضلیت کے واسطے ۔کیونکہ بازار شور و شغب،جھوٹ و فریب اور دھوکہ دھری کی جگہ ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہیں مسجد یں ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند یدہ جگہیں بازار ہیں".(صحیح مسلم:1528) اور اس کی مزید قباحت کی وضاحت  صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے،ارشاد نبوی ہے: تو بازار میں سب سے پہلے داخل ہونے والا نہ ہو اور نہ ہی اس سے سب سے آخر میں نکلنے والا،اس لیے کہ اس میں شیطان انڈے بچے دیتا ہے ".(صحیح مسلم ،2451) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بازار سے فراغت اور خریداری کے بعد وہاں ٹھہرانہ جائے؛ بلکہ منزل پر لوٹ آیا جائے۔ خاص طور پر عورتوں کو بھی یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے  کہ گھر سے باہر محرم کے ساتھ پردہ شرعی میں نکلیں، اس طرح کہ زیب وزینت ،حسن وجمال اور جسم وبدن کی نمائش کا اظہار نہ ہو۔کیونکہ مسجد میں عورتوں کو زیب وزینت اور خوشبو میں معطرہوکر آنے کی ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہیں تو بازار میں تو یہ بدرجہ اولیٰ سخت ممنوع ہوں گی ۔امام ابو زکریا یحیی شرف نووی رقم طراز ہیں کہ: مختلف احادیث کی بنا پر علما نے کہا ہے کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت اس وقت دی جائے گی جب کہ وہ خوشبو لگاے ہوئے نہ ہو،زیب وزینت سے آراستہ نہ ہو ،ایسی پازیب نہ پہنی ہو جس کی آواز سنائی دے ،بھڑکیلے لباس میں ملبوس نہ ہو ،نہ وہ فتنہ کا باعث بنے اور نہ راستہ میں کسی فساد کا خدشہ ہو".(شرح النواوی ،کتاب المساجد) ان شرائط کی اگرپابندی ہو تو وہ بازار جاسکتی ہے ورنہ نہیں ۔کیونکہ
مردوزن کا اختلاط عموماً فتنہ کا باعث ہوتا ہے ۔اسی لیے شریعت نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے ۔جوعام طور پر بازاروں ،بھیڑبھاڑ والی جگہوں اور نمایشگاہوں میں ابتلاے عام کے طور پر نظر آتا ہے ۔ہندو، مسلم ،سکھ اور عیسائی کی اس میں کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔یہیں سے مسلم لڑکیاں ہندوؤں کے رابطے میں آتی ہیں ،دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے ،پھر یہ بھگوا لوو ٹرپ پر آکر ختم ہوتی ہے ۔ارتداد کا یہ سب سے سہل راستہ ہے جو ملک گیر سطح پر روانہ مشاہدہ میں آرہا ہے ۔اگرجلدہی اس کاتدارک نہ کیا گیا تویہ ہماری نسلوں کو تباہ وبرباد کردیگا۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس اختلاط پر مردوں کی سرزنش و فہمائش کی تھی اور ان کی غیرت کو للکارتے ہوئے فرمایا تھا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں آتی جاتی ہیں اور وہاں ان کی کافروں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے،یہ حقیقت ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس میں حیانہیں ".(مسند احمد ،1118)اس کی وجہ سے  معاشرہ میں مختلف طرح کی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔جس پر قدغن لگانے کے لیے علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے زمانے کے امیروں اور اور خلفا کویہ صلاح ومشورہ دیا تھا۔جو آج بھی ہمارے لیے اس دور پرفتن میں چراغ راہ کا کام کرسکتا ہیے،جہاں ہر چہار سوارتدادکا طوفان آیا ہوا ہے؛ بشرطیکہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔وہ فرماتے ہیں کہ: حاکم کا فرض ہے کہ وہ بازاروں،کھلے مقاموں اور مردوں کے مجمعوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو اختلاط سے باز رکھے۔اس لیے کہ امام اس سلسلے میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہے،کیونکہ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔امام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کو آراستہ پیراستہ ہوکر نکلنے سے بھی منع کرے،اورایسے کپڑوں میں ملبوس ہوکر نکلنے کی اجازت نہ دے جس کے پہننے کے بعد بھی وہ عریاں معلوم ہوتی ہیں۔مثلا ضرورت سے زیادہ چوڑے یا تنگ اور باریک کپڑے پربھی پابندی لگانے۔بعض فقہا کی یہ رائے بھی درست ہے کہ جب عورت بن سنور کر نکلے تو امام کو یہ حق حاصل ہے کہ روشنائی وغیرہ سے اس کے کپڑے خراب کردے۔یہ بہت ہلکی سزا ہے۔اگر عورت بار بار بلا ضرورت گھر سے باہر گھومنے نکلے خصوصاً بھڑکیلے لباس میں تو امیر کواسے  قید کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔کیونکہ عورتوں کو اس حالت میں چھوڑ دینا ان کے ساتھ معصیت میں تعاون کرنے کے مترادف ہے".(عورت اسلامی معاشرے میں،ص:383) یہ تعاون تو صرف بر و تقویٰ کے کاموں میں ہے اور برایی وغلط کاموں میں تو یہ  نصرت تعاون ہرگز نہیں۔ارشاد ربانی ہے:تم لوگ ایک دوسرے کا تعاون نیکی اور تقویٰ میں کرو اور گناہ اور برے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو".(المایدہ؛2) اس طرح کی اور خرابیوں کو روکنے کے لیے مزید آگے ارشاد فرمایا:وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھا ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے".(النور:31) امام ابو بکر جصاص رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: لفظ کے معنی سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ زینت کی آواز سنانے کی نہی کے سلسلے میں نص وارد ہوا ہے۔بقول ابوالاحوص اور مجاہد اس سے مراد پازیب کی جھنکار کی آواز ہے".(احکام القرآن،ج6,ص:169) ساتھ ہی عورت کو اتنی اونچی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی ممانعت ہے جس سے اس کی آواز غیر مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے ۔کیونکہ عورت کی آواز اس کی پازیب کی جھنکار کی بہ نسبت زیادہ فتنہ انگیز اور فتنہ پرور ہے ۔مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: امام جصاص نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کام دار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا".(معارف القرآن ج6 ص:406)آج کل کے مروج برقعوں کے پہننے کے بعد اگر چہ عام گھریلو لباس کی زینت تو کچھ حد تک چھپ جاتی ہے لیکن خود اس برقعے کی زینت اور اس کی بناوٹ غارت گر ایمان اور فتنہ سماں ہوتی ہے ۔اورخواہ مخواہ نگاہ کو مایل اور دعوت نظارہ دینے والی ہوتی ہے ۔اسی لیے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کو تبرج جاہلیت میں شامل کیا ہے ،وہ رقمطراز ہیں:ہر وہ زینت اور ہر وہ آرایش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذت نظر بننا ہو،تبرج جاہلیت کی تعریف میں آجاتی ہے ۔اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے".(پردہ ،ص:213) خلاصہ کلام یہ کہ عورت کا دائرہ کار گھر ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور باہر جانے سے حتی الامکان پرہیز کرے ۔الا یہ کہ ضرورت اس کا متقاضی ہو تو پردہ شرعی میں جاے تاکہ فتنہ وفساد سے محفوظ رہ سکے۔
.mdsalman3544@gmail.com۔8709898974

" تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی" ( سیدارشاد آرزو) دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

  * سیدارشادآرزو (کولکتہ) 
اردودنیانیوز۷۲ 

   ، بچپن سےسنتا آ رہا ہوں کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے.اور یہ قول صد فی صد درست بھی ہے. 
لیکن موجودہ زمانےمیں وہ تہذیب کہاں گم ہوگئی ہے؟اس تہذیب کا گلا کون گھونٹ رہا ہے.؟
   میرا جواب ہے:
    میں ، 
     آپ ، 
     ہم سب !
  معاف کیجیے گا:
ہم آج بھی کسی اردو محافظ تحریک کے منتظر ہیں،سرکاری مراعات کی آس لگائے بیٹھے ہیں، لیکن...... 
خود اپنےگھروں سے اس زبان اور تہذیب کو کب کے رخصت کر چکے ہیں. 
    آج ہمارے یہاں شادیوں کے کارڈ انگریزی میں چھپتے ہیں.مسجدوں، خانقاہوں. مدرسوں، قبرستانوں کے بورڈز ہندی میں ہوتے ہیں( الا ماشاءاللہ کہیں کہیں اردو میں لکھے بورڈ آج بھی اپنی آخری سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.) اب تو سر پیٹنے کے دن آ گئے ہیں کہ اردو مشاعروں، سیمیناروں اور دیگر تقریبات کے بینرز ہندی اور انگریزی رسم الخط میں بنائے اور لگائے جا رہے ہیں. 
میہی نہیں، آج ہم ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ مشاعروں میں  وہ شعرا و شاعرات بلائے جا رہے ہیں جو اردو سے قطعی نا بلد ہیں. وہ ہندی اور رومن انگریزی میں لکھ کر( در حقیقت نقل کر کے) لاتے ہیں.اب ایسے ناظم مشاعرہ اور نقیب محفل بنائے جا رہے ہیں جو غیر ضروری گفتگو، لطیفے اور غیر معیاری جملے سناسناکر سامعین کو گونگا بنارہے ہیں اور تالیاں بجانے کی غلط روایت کو فروغ دے رہے ہیں. جس کی وجہ سے زبان و ادب کا معیار و تہذیب رو بہ زوال ہے. حد تو یہ ہے کہ اب اردو کی تنظیمیں ان کے ہاتھوں میں ہیں جو ایسے ہی شعراءکو بلا رہے ہیں جن کااردوزبان وادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ حتی کہ اکثر اردو اکاڈمیاں اور سرکاری ونیم  سرکاری اردوادارے بھی اسی ڈگر پہ چل پڑے ہیں. اب ذرا سوچیں کہ یہ اردو کی خدمت کر رہے ہیں یا گلا گھونٹ رہے ہیں؟ 
    میں نے ایک مشاعرے میں تالیاں بجائے پر اعتراض کیا تو ناظم نے کہا کہ اب قدریں بدل رہی ہیں.سوال یہ ہے کہ  زبان و ادب کی قدیم روایات واقدارکو تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی؟اساتذہ فن نے؟  زبان و ادب کے ماہرین نے؟یا خود ساختہ شعرا و ادباء نے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم ایسے خودساختہ شاعروں اورادیبوں کو اردوکا محافظ سمجھ بیٹھےہیں.
      ظاہر ہے جو اردو زبان سے ناواقف ہوگا وہ اس کی تہذیب سےکیوں کر آشنا ہوگا.؟ 
  آج ہم اپنےبچوں کوانگریزی اوردیگرعلاقائی زبانوں کےحوالے سےتعلیم دلوارہے ہیں.اردو میں نہیں. 
     ہاں،جب انگریزی میڈیم کےڈونیشن اور دیگرفیس ادا کرنےکی استطاعت نہیں ہوتی یا ان کی اوقات سے باہر ہو جاتی ہے تب ان کو اردو میڈیم اسکول نظر آتے ہیں۔ 
نتیجہ یہ کہ بچہ نہ انگریزی کاہوپاتا ہے نہ اردوکا. 
     شروع سے کوئی اردو میڈیم میں بچے کو ڈالتا ہے تو ہمارا معاشرہ اسے احساس کمتری میں مبتلاکرنےمیں کوئی کسرنہیں اٹھارکھتا۔ . 
نتیجہ یہ کہ معتدبہ تعداد میں اسکولوں اور کالجوں سے اردو کا شعبہ اس لئےختم کردیا جاتاہے کہ بچے موجود نہیں. اب ذرا سوچئیے  کہ شعبہ بند ہونے سے کتنا اور کس کا نقصان ہوا؟ہم ایک طرف اردوکوروزگار سےجوڑنے کی باتیں  کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے ہاتھوں سےاردو گلا بھی گھونٹ رہے ہیں.غور طلب یہ ہےکہ شعبہ کے بند ہونےسےاردو اساتذہ کی بحالی اورتقرری پر روک لگادی جاتی ہے.جب اردوپڑھنےوالےبچےہی نہیں ہیں تواردوشعبہ کی ضرورت ہی کیاہے۔اس کی صدہا مثالیں موجود ہیں کہ کالجوں میں پہلے اردوشعبےتھےلیکن طلباء کی عدم موجودگی کےسبب انھیں بندکرناپڑا۔اردوکے تعلق سے بار بار کہاجاتا ہےکہ روزگارسےجوڑےبغیراس کی بقاء اور تحفظ ممکن نہیں۔اردو والوں کا حال یہ ہےکہ جہاں وہ روزگار سےجڑی ہوئی ہے وہاں بھی وہ اس رشتہ کوتوڑرہےہیں۔ 
    ہمیں یہ بھی تسلیم کہ اس زبان کوسرکاری  سطح پر جوحق ملناچاہئےوہ نہیں مل پارہا ہے.وجہ یہ کہ ہے صوبوں کی سرکاروں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ خود اردو والے اپنی زبان کے وفادار نہیں۔ایسے میں آسانی سے اردو کاکام تمام کیاجا سکتا ہے.
     صورت حال یہ ہے کہ اب ہمارے اندر قوت احتجاج باقی ہے نہ قوت مدافعت۔ خودغرضی اور ذاتی منفعت بخشی کی اس سےبدتر مثال کیاہوگی۔انھیں الزام دیتےتھےقصوراپنانکل آیا۔ 
   اردو کے سلسلے میں کتنا کچھ ہوا اور ہو رہا ہےلیکن آپ اور ہم ذرا غور کریں کہ کس حد تک ہم احتجاج کر پا رہے ہیں. ایک بار پھر معذرت کے ساتھ عرض کرتےچلیں کہ احتجاج وہی کرے گا جو اپنی زبان سے عشق کرے گا. کیوں کہ عشق میں ہی کھونے کا خدشہ اور ملال رہتا ہے. جب عشق ہی نہیں تو نہ کھونے کا ڈراورنہ آبائی وراثت کی پامالی کا دکھ۔! 
        "عشق جس نے کبھی کیا ہی نہیں
         ہجر کا  درد  کیسے  سمجھے  گا" 

      ہم نے اردو سے عشق کرنا کب کا ترک کر دیا ہے. 
یہ تو خیرِ منائیے اردو کے جینوین شاعروں اورادیبوں کا کہ آج بھی اردو کے کاز میں، ترقی و ترویج میں ہمہ تن مصروف ہیں. جن کے دم سے اردو کے کچھ رسالے اور اخبارات زندہ ہیں.اور کہیں نہ کہیں ان کے گھروں میں زبان و تہذیب سانس لے رہی ہے.لیکن ہمارا وہ معاشرہ جواردوسےنابلد ہے،ہم شاعروں اور ادیبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ تو صرف مشاعرہ اور سیمینارہی جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں.(یہ گانے بجانےوالے لوگ ہیں) 
     ایسا کیوں؟؟؟ 
    ایسا اس لئے ہے کہ جو اردو سے ناواقف ہوں گے بھلا وہ اس کی تہذیب سے کیسے جڑیں گے.؟ 
   سوالات اور بھی ہیں، لیکن مختصر طور یہ سمجھ لیجیے کہ تمام سوالوں کا حل صرف ایک ہی ہے:اور وہ یہ کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں اردو کو زندگی بخشیں. بچوں کو کسی بھی میڈیم سے پڑھائیں، ہمیں کوئی شکایت نہیں، لیکن اردو کو ایک اختیاری سبجکٹ کے طورپرضرورپڑھائیں،اسے فراموش نہ کریں۔ یادرکھئیےکہ اردو زبان ہماری قومی وراثت ہے۔ اس کا تحفظ اوربقا ہماری ذمہ داری ہے۔جہاں اسکولوں میں اردوتعلیم کی گنجائش نہیں ہے وہاں گھروں میں اردو پڑھائیں. 
   یقین جانیے جب ہمارے بچے اردو پڑھیں گے تو اردو سے عشق بھی کریی گے.جب عشق کریں تواس کےحقوق کے لیے احتجاج بھی کریں گے.بازیافت بھی کریں گے۔احتجاج انقلاب کی خشت اول ہے.انقلاب آئے گا تو حل بھی نکلیں گے۔۔۔ذرانم ہوتویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔۔۔یاد رکھیں:
      " تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان
    جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی"
                     ( سیدارشاد آرزو) 
  دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
 سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

جمعرات, جون 22, 2023

قربانی ___ سنت ابراہیمی✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قربانی ___  سنت ابراہیمی
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی(9431003131)
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلامی شریعت وتاریخ میں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ جو بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا ہے، اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار اور خاتم النبین ہیں، ان کے مقام ومرتبہ کو تمام انبیاء اپنی عظمت کے باوجود نہیں پہونچ سکتے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نبی کو فضیلت دی گئی وہ حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی ہے، یہ اہمیت وفضیلت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک درود شریف ہی درود ابراہیمی کے نام سے منسوب ہے اور اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور برکت کی دعا میں حضرت ابراہیم کا ذکر خاص طور پر مذکور ہے، اس کے علاوہ کسی انبیاء کے عمل کو امت محمدیہ کے لیے سنت نہیں قرار دیا گیا ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کو ہی نہیں ان کی زوجہ مطہرہ کے عمل کو بھی اسوۃ اور نمونہ بنادیا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین کی خاطر اپنا علاقہ، گھر ، در ، والدین کو چھوڑا اور دوسرے علاقہ میں پناہ لیا تو ’’ہجرت‘‘ دین کی حفاظت کے لیے امت محمدیہ کے لیے بھی مشروع قرار دی گئی ، حضرت ابراہیم نے وادیء غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا، تو دین کی خاطر اس کی بھی اہمیت بیان کی گئی، حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفاء مروہ کے چکر لگائے تو عمرہ اور حج کی سعی اس کی یاد گار قرار پائی، بچے کے نظر سے اوجھل ہونے پر حضرت ہاجرہ کی بے قراری اور دوڑ کر اس راستے کو عبور کرنااور اس وقت تک دوڑتے رہنا جب تک بچہ پھر سے نظر نہ آنے لگے، میلین اخضرین کی دوڑ اسی کی تو یاد گار ہے، یہ دوڑ حضرت ہاجرہ کی قیامت تک تمام عورتوں کے لیے کافی ہو گئی ، اس لیے اب انہیں اس جگہ دوڑ نہیں لگانی ہے، مردوں کو لگانی ہے، تاکہ وہ بھی محسوس کریں کہ بچے کی جدائی کا کرب کیسا ہوتا ہے، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے قربانی کے لیے لے جاتے وقت شیطان کا بھٹکانے کی کوشش کرنا اور اس کو بھگانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کنکریاں مارنا تاریخ میں مذکور ہے، رمی جمار حج کے موقع سے اسی کی یاد گار ہے، تمام تر شفقت ومحبت کے باوجود اللہ کے حکم پر سِن شعور کو پہونچ رہے بچے کو قربانی کے لیے لٹا کر گردن پر چھری چلا دینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی دل گردے کا کام ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس امت پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے ہی اس امت کا نام مسلمان رکھا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اس استفسار پر کہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے، انہوں نے ہی تمہارا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے، حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنا تواس قربانی کا نقطۂ عروج ہے، ہم صرف جانور کی قربانی پیش کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں، ایسانہیں ہے ، قربانی ہر طرح کی پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح حضرت ابراہیم کو اس کے ذریعہ آزمایا گیا، اسی طرح امت مسلمہ آج بھی آزمائش میں مبتلا ہے، یہ آزمائشیں جان ومال ، فصل وتجارت ، پھل وباغات کے ضیاع اور خوف کے ذریعہ ہم پر مسلط ہے، احوال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کی طرح ہیں تو اعمال اور قربانی بھی اسی انداز کی پیش کرنی ہوگی، ورنہ ہندوستان میں خصوصا دین وشریعت کے حوالہ سے مسلمانوں کو اور بھی ظلم وجور کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
 جانوروں کی قربانی ہمارے اندر ہر طرح کی قربانی کا مزاج پیدا کرتا ہے ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کی قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کچھ بھی محبوب نہیں ہے، حالاں کہ یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک جانوروں کے گوشت ، پوست کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اس کے پاس پہونچتا بھی نہیں ہے، اصل چیز نیتوں کا خلوص اور دل کے احوال ہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کی ہو، نمود ونمائش کی کوئی بات نہ ہو تو یہ قربانی دیگر چیزوں کی قربانی پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور تقویٰ کی کیفیت سے انسان سرشار ہوجاتا ہے، تقویٰ کی یہ کیفیت انسانی زندگی کو بیلنس ، معتدل اور متوازن کرتی ہے، یہ قربانی کا فلسلفہ اور حکمت ہے۔
 اخروی اعتبار سے دیکھیں تو قربانی کے جانور کے ہر بال پر ایک نیکی ملتی ہے، جانور کے بالوں کو جس طرح گننا ممکن نہیں ، اسی طرح قربانی کے اجر وثواب کو کلکولیٹر سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو ہماری سمجھ کے لیے کہا گیا ہے، لیکن مراد یہی ہے کہ بے شمار اجر وثواب اس قربانی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا اخروی فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ پل صراط پر ہماری سواری کے کام آئیں گے، اسی لیے حکم دیا گیا کہ صحت مند اور توانا جانور کی قربانی کی جائے، ایسے لاغر ، بیمار اور عیب دار جانورکی قربانی نہ دی جائے جو مذبح تک چل کر نہ جا سکتا ہو اور جسے عرف میں عیب دار سمجھا جاتا ہو، اسکا مطلب یہ ہے کہ قربانی میں جانور کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور غیر مسلموں کی طرح ’’سڑل گائے بابھن کودان ‘‘ کے فارمولے پر عمل نہ کیا جائے، اللہ رب العزت نے محبوب اور پسندیدہ چیزوں کے خرچ پر بھلائی تک پہونچنے کی بات کہی ہے ، ظاہر ہے لاغر، کمزور، عیب دار چیز تو انسان کی پسند ہی نہیں ہوتی اس لیے ایسے جانور کی قربانی کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
 جانور سے محبت ہوجائے ، اس لیے اس کے پوسنے پالنے اور اس کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس محبت کی قربانی کے لیے ہی اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ ہر ممکن اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کیا جائے، تاکہ ان احساسات کی بھی قربانی ہو جائے جو جانور کی محبت کے نتیجے میں گذشتہ چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے صرف اللہ کی محبت قلب وجگر میں جاگزیں رہے، اگر خود سے ذبح نہیں کر سکتا ہوتو کم سے کم وہاں پر موجود رہے، تاکہ جانور کو قربان ہوتے ہوئے دیکھے۔
 جانور کی یہ قربانی اللہ کے نام سے اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے، ہمارے یہاں یہ جو مشہور ہے کہ قربانی کس کے نام سے ہوگی، صحیح نہیں ہے، قربانی تو سب اللہ کے لیے اللہ کے نام سے ہوگی، اسی لیے جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں اس شخص کی طرف سے قبولیت کی دعا کی جاتی ہے۔ اللھم تقبل ھذہ الاضحیۃ ۔ قربانی سے پہلے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جاتی ہے، جس میں بندہ یہ اعلان کرتا ہے ، میری نمازیں، قربانیاں، حیات وموت سب اللہ کے لیے ہی ہیں۔
 جانور ذبح کر دیا ، قربانی ہو گئی، حکم ہوا کہ گوشت کے تین حصے کرلو، ایک حصہ غرباء کو دو، ایک حصہ عزیز واقرباء کو اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھ لو، تاکہ سب تمہاری قربانی سے فائدہ اٹھا سکیں، غربا ومساکین جو صاحب استطاعت نہیں ہیں، قربانی کے جانور نہیں خرید سکتے ان کو اپنی قربانی سے حصہ دو تاکہ وہ ایام تشریق میں اللہ کی میزبانی سے فائدہ اٹھا سکیں، اس معاملہ میں ہمارے یہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے، بڑے جانور کی قربانی میں تو گوشت غرباء تک پہونچ جاتا ہے ؛لیکن خصی کے گوشت میں ایمانداری سے تقسیم کا عمل نہیں ہوتا اور جب سے فِرج ہمارے گھروں میں آگیا ، بیش ترگوشت اسی میں ڈال دیا جاتا ہے؛ تاکہ دیر تک گھر والے کھائیں، کسی کا خاندان بہت بڑا ہو تو فتویٰ کی زبان میں اس کی گنجائش ہے، لیکن ایساکرنے سے یہ معلوم تو ہوہی جاتا ہے کہ جانور کی قربانی کے باوجود گوشت کی قربانی دینے کا مزاج نہیں بنا ورنہ  گوشت کی تقسیم میں انصاف سے کام لیا جاتا ۔
 گوشت کے بعد چمڑہ بچ جاتا ہے، یہ چمڑہ اگر بیچا گیا تو قیمت صدقہ کرنا ہے، غرباء ومساکین کا حق ہے، لیکن اگر آپ اسے خود استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس کو دفن کر دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی کیوں کہ یہ مال کا ضیاع ہے، جب سے چمڑے کی قیمت کم ہو گئی ہے تب سے کئی گاؤں سے یہ خبر آ رہی ہے کہ قربانی کا چمڑہ دفن کیا جا رہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، جس قیمت پر بھی ہو اسے فروخت کرکے رقم مدارس کے غریب ونادار طلبہ یا سماج کے ضرورت مندوں تک پہونچا دینا چاہیے، جو صاحب استطاعت نہ ہوں، اگر یہ ممکن نہ ہو تواسے اپنے استعمال میں لے آئیں، دباغت کے بعد جائے نماز اور دوسری چیزیں اس سے بنا کر استعمال کی جاسکتی ہیں۔
قربانی کے جانور کے جو فضلات وباقیات ہیں اس کو راستوں کے کنارے ادھر ادھر نہ پھینکیں، اس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے ، جو انسانوں کی صحت کے لیے مضر ہے، اس سے آپ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ راستوں کے بھی حقوق ہیں، ادھر اُدھر پھینکنے سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان فضلات کو گڈھا کھود کر گاڑ دینا چاہیے تاکہ کتے اور دوسرے جانور اٹھا کر اِدھر ُادھر نہ لے جائیں، اور جو سرانڈ ہے، اس سے صحت متاثر نہ ہو۔ اس طرح آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کہنے کو یہ ایک جانور کی قربانی ہے، لیکن اس ایک قربانی کو قربانی بنانے کے لیے کتنے اصول وہدایت کی پابندی ضروری ہے۔
ہمارے یہاں قربانی کے جانوروں کا گاؤں اور محلوں میں مقابلہ اور موازنہ شروع ہوتا ہے، اس سے نمود ونمائش اور ریا کاری کا کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اس کی وجہ سے دل ودماغ کبر کی غلاظت سے آلودہ ہوتا ہے، اس آلودگی سے بچنے کے لیے عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق ہر نماز کے بعد کم از کم ایک بار پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مرد زور سے پڑھیں اور عورتیں دھیمی آواز میں، اس کے علاوہ عیدگاہ جاتے وقت تکبیر تشریق پڑھنا اور عید الاضحیٰ کی نماز میں چھ تکبیروں کے ذریعہ اللہ کی بڑائی کا اعلان کرنا ، اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے، آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تکبیر تشریق میں اللہ کی بڑائی کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں ہے، اللہ کی بڑائی کا یہ خیال بندوں کو اپنی بڑائی کے خیال سے آزاد کر دیتا ہے، اور یہ اس شخص کے لیے ذاتی طور پر فائدہ مندتو ہے ہی سماج کے لیے ضروری ہے۔
عید الاضحی کے جو دس ایام ہیں ان کے فضائل بھی احادیث میں ہیں، ان کا خیال رکھیے، نو ذی الحجہ کا روزہ ہمارے دیار میں عرفہ کے روزہ کے نام سے منسوب ہے، یہ عوامی اصطلاح ہے، اسے حاجیوں کے یوم عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ حاجیوں کا عرفہ تو ایک دن قبل گذر چکا ہوتا ہے، اس دن کے روزہ کے فضائل بہت ہیں، البتہ یہ فرض واجب نہیں ہے، نفل اور مستحسن ہے، اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے اور جو لوگ نہیں رکھ رہے ہیں، ان کو ترغیب تو دے سکتے ہیں، لیکن نہ رکھنے پر انہیں بُرا بھلا نہیں کہنا چاہیے، شریعت میں عبادتوں کے بھی مدارج ہیں اور مدارج کی تعیین میں شریعت سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔
 عید الاضحی کے دس دن میں چاند دیکھے جانے کے بعد ان لوگوں کے لیے جن کی طرف سے قربانی ہونی ہے، بال، ناخن وغیرہ کا نہ تراشنا بہتر ہے، یہ حکم عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، اسی طرح قربانی کے جانور کے گوشت سے اس دن کھانا شروع کرنا اچھی بات ہے، لیکن جو لوگ مریض ہیں ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے، سماج میں جو بقرعید کے دن نماز کے پہلے روزہ کی بات عرف میں کہی جاتی ہے وہ اسی پس منظر میں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اس دن روزہ کا لفظ نماز سے پہلے کچھ نہ کھانے کے معنی میں ہے، اس کا اصطلاحی روزہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

رشوت خوری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

رشوت خوری ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری ”نیم سرکاری“ بلکہ بعض پرائیوٹ کمپنیوں میں بھی مواقع کا فائدہ اٹھانے اور مفاد کے حصول کے لیے رشوت دینا ہوتا ہے، سرکار جتنے اعلانات بد عنوانی کو ختم کرنے کے لیے کرتی، رشوت کا بازار اسی قدر گرم ہوتا ہے، سرکار کا اعلان رشوت اور بد عنوانی کے معاملہ میں عدم بر داشت کا ہے، لیکن اس اعلان کے باوجود سرکاری ملازم رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جارہے ہیں، یہ ہندوستانی سماج کا المیہ ہے کہ جن کے اوپر قانون کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، وہی قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔
 بہت دن پہلے کی بات ہے ایک سرکاری دفتر میں ایک کام سے جانا ہوا، اتفاق سے وہاں ایک افسر میرے جان کار بھی تھے، میں نے ان سے اپنی پریشانی بتائی، انہوں نے از راہ ہمدردی متعلقہ کلرک کو بلا کر کام کر دینے کو کہہ دیا ، میں بہت خوش ہوا کہ اب کام ہوجائے گا ، کل ہو کرپھر دفتر پہونچا تو فائل وہیں کی وہیں تھی میں نے اپنے متعارف افسر کے پاس جاکر یہ صورت حال بتائی ، کہنے لگے، شِیَر نہیں ملا ہوگا، میں نے کہا: آپ کی سفارش کے بعد بھی اس کی ضرورت ہے، کہنے لگے، ہاں!میری سفارش کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کا کام یقینی ہوگا، کوئی دھوکہ نہیں دے گا، رہ گئی ”دستوری“ تو وہ تو دینا ہی ہوگا، چنانچہ میں ناکام ونامراد وہاں سے واپس آگیا۔یہ معاملہ کسی ایک دفتر کا نہیں ، یہاں تو ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے۔
 بہت لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پکڑ دھکڑ اور رنگے ہاتھوں بد عنوان افسروں کی گرفتای عوام کے بیدار ہونے کا نتیجہ ہے، مجھے یہ صحیح نہیں لگتا ، عوام جب کسی دفتر میں کام کرانے جاتی ہے اور اسے کل آنے کو کہا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دوبارہ آنے جانے ، رہنے، کھانے پینے میں اس سے زیادہ خرچ آجائے گا، چلو کچھ ”دستوری“ دے کر آج کے آج کام کرالوں، چنانچہ لینے والا تو انتظارہی میں رہتا ہے، دینے والے لوگوں کی بھی لائن کمزور نہیں ہوتی، یعنی دینے والا اور لینے والا دونوں بد عنوانی کے شریک ہوتے ہیں، گو ہندوستانی قوانین میں دینے والوں کو مجبور محض سمجھ کر سزا کے دائرہ میں کم ہی لایا جاتا ہے، لینے والا پکڑا گیا تو اس کی زندگی بھی تباہ نہیں ہوتی اور رشوت یہاں بھی کام کر تی ہے، اور مجرم آسانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں گنہگار ہے، اگر دینے والا اپنی حرکت سے باز آئے اور ایسا ماحول بنائے کہ رشوت خور بچ نہ پائے تو رشوت کی گرم بازاری پر قابو پایا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنم کی ”خوش خبری“ سنائی ہے، الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار 
بد قسمتی کی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں رشوت کی بُرائی کا احساس باقی نہیں ہے ، اب تو اسے دفاتر میں ”سُوِیدھا شلک“ یعنی آسانی بہم پہونچانے کی فیس سے تعبیر کیا جاتا ہے، رشوت ایک سماجی لعنت ہے،نام چاہے اسے جو دے لیں، عام لوگوں کا کام اس کی وجہ سے دشوار تر ہوجاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری افسران جن لوگوں سے خار کھائے بیٹھے رہتے ہیں، اگر رشوت نہ ملے تو جائز کام بھی نہیں کرکے دیتے ہیں۔
 یقینا ایمان دار اور اچھے لوگوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ ایمان دار افسر اور کلرک کام کرنے کے سلسلے میں بڑے سست واقع ہوتے ہیں، بد عنوان افسروں کے ٹیبل پر رشوت فائلوں کو  دوڑادیتی ہے، لیکن ایمان دار افسر کے ٹٰیبل پر فائل کو رینگنے میں کبھی کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں، رشوت نہ لینا ایک اچھی عادت ہے، لیکن کام میں تاخیر کرنا بُری عادت ہے، اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

منگل, جون 20, 2023

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟  
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

قربانی ہر اس مسلمان عاقل، بالغ مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سے زائد موجود ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں، یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان، یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان، پلاٹ وغیرہ (فتاویٰ شامی )
قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں ( بدائع الصنائع ) 
بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو بھی تو اس پر یا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں ( بدائع الصنائع ) 
اسی طرح جو شخص شرعی قائد کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں ( فتاویٰ شامی) 
جس شخص پر قربانی لازم نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس پر قربانی واجب ہوگی (عالمگیری)
وجوب قربانی کا نصاب 
سونا چاندی اور دیگر گھریلو سامان خواہ استعمال ہونے والا ہو یا نہ ہو ان سب کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے ( حاشیہ ردالمختار )
قربانی اور زکوٰۃ کے درمیان کیا فرق ہے ؟
زکوٰۃ بھی صاحب نصاب پر واجب ہوتی ہے اور قربانی بھی صاحب نصاب ہی پر واجب ہے مگر دونوں کے درمیان دو وجہ سے فرق ہے ایک یہ کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لئے شرط ہے کہ نصاب پر سال گزر گیا ہو جب تک سال پورا نہیں ہوگا زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ( در مختار)
قربانی کے واجب ہونے کے لئے سال کا گزرنا کوئی شرط نہیں بلکہ اگر کوئی شخص عین قربانی کے دن صاحب نصاب ہو گیا تو اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری) 
 جبکہ زکوۃ سال کے بعد واجب ہوگی ۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ نصاب" نامی" ( بڑھنے والا) ہو شریعت کی اصطلاح میں سونا چاندی نقد روپیہ مال تجارت اور چرنے والے جانور مال نامی کہلاتے ہیں ( تنویر الابصار)
اگر کسی کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ مگر قربانی کے لیے مال کا نامی ہونا بھی شرط نہیں ۔مثال کے طور پر کسی کے پاس اپنی زمین کا غلہ اس کی ضروریات سے زائد ہے اور زائد ضرورت کی قیمت 
2625 روپے کے برابر ہے چونکہ یہ غلہ مال نامی نہیں اس لئے اس پر زکوۃ واجب نہیں چاہے سال بھر پڑا رہے لیکن اس پر قربانی واجب ہے ( فتاویٰ عالمگیری) 
میاں بیوی میں سے کس پر قربانی واجب ہے ؟
اگر میاں بیوی دونوں صاحب نصاب ہوں تو دونوں پر الگ الگ قربانی واجب ہے (حاشیہ ردالمختار)
گھر کا سر براہ جس کی طرف سے قربانی کرے گا ثواب اسی کو ملے گا
گھر کا سربراہ اگر قربانی کرتا ہے تو قربانی کا ثواب صرف اسی کو ملے گا دوسرے لوگوں کو نہیں اگرچہ وہ اس کی کفالت میں ہی کیوں نہ ہو۔
گھر کا سربراہ اگر اپنی طرف سے قربانی کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں میں سے کسی کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو جس کی طرف سے قربانی کر رہا ہے اس کی طرف سے تو قربانی صحیح ہو جائے گی اور ثواب بھی اسی کو ملے گا چاہے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے اس پر قربانی واجب ہو یا نہیں۔ لیکن گھر کے سربراہ کے سلسلے میں دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ ہے کہ اگر سربراہ پر بھی قربانی واجب ہے تو اب سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی طرف سے مستقل قربانی کرے اور نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار ہو گا کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرنے سے اپنا ذمہ ساقط نہیں ہوتا ( بدائع الصنائع)
دوسری صورت یہ ہے کہ سربراہ پر شرعی طور پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن وہ کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرتا ہے تو اس صورت میں جس کی طرف سے قربانی کی ہے اس کی طرف سے قربانی صحیح ہو گی اور گھر کے سربراہ پر چونکہ قربانی واجب نہیں تھی اس لیے اس کو مستقل قربانی کی ضرورت نہیں ( الفقہ الاسلامی)
قربانی کے بدلے میں صدقہ و خیرات کرنا ۔
اگر قربانی کے دن گزر گئے ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہ کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے ( بدائع الصنائع)
لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کردینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا ہمیشہ گناہ گار رہے گا کیوں کہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی زکوٰۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی رسول کریم ﷺ کے ارشادات اور تعامل اور پھر اجماع صحابہ اس پر شاہد ہیں ( بدائع الصنائع)
اور جس کے ذمہ قربانی واجب نہیں اس کو اختیار ہے خواہ قربانی کرے یا غریبوں کو پیسے دے دے لیکن دوسری صورت میں قربانی کا ثواب نہیں ہوگا صدقے کا ثواب ہوگا ۔
قربانی کا جانور اگر فروخت کردیا تو رقم کو کیا کرے ؟
 رقم صدقہ کر دے اور استغفار کرے اور اگر اس پر قربانی واجب تھی تو پھر دوسرا جانور خرید کر قربانی کے دنوں میں قربانی کرے (ردالمختار)
قربانی کا جانور گم ہو جائے تو کیا کرے ؟
جس شخص پر قربانی واجب تھی اگر اس نے قربانی کا جانور خرید لیا پھر وہ گم ہوگیا یا چوری ہو گیا یا مر گیا تو واحب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اگر دوسری قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر یہ ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس کی قربانی اس پر واجب نہیں اگر یہ غریب ہے جس پر پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی نفلی طور پر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر وہ مر گیا یا گم ہو گیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں۔ ہاں اگر گم شدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے اور ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور کا یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے بدائع الصنائع)
گابھن جانور کی قربانی کرنا ۔
گابھن گائے وغیرہ کی قربانی جائز ہے دوبارہ قربانی کرنے کی ضرورت نہیں بچہ اگر زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کر لیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کا کھانا درست نہیں اس کو پھینک دیا جائے بہرحال حاملہ جانور کی قربانی میں کوئی کراہت نہیں (در مختار)
اگر قربانی کے جانور کا سینگ ٹوٹ جائے ؟
سینگ اگر جڑ سے اکھڑ جائے تو قربانی درست نہیں (فتاویٰ عالمگیری)
اور اگر اوپر کا خول اتر جائے یا ٹوٹ جائے مگر اندر سے گودا سالم ہو تو قربانی درست ہے (رد المحتار)
کیا مقروض پر قربانی واجب ہے ؟
اگر قرض ادا کرنے کے بعد اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو تو قربانی واجب ہے ورنہ نہیں (فتاویٰ شامی)
نابالغ بچے کی قربانی اس کے مال سے جائز نہیں ۔
نابالغ بچے کے مال پر نہ زکوۃ فرض ہے ( ھدایۃ)
نہ قربانی واجب ہے اس لیے ولی کو ان کے مال سے زکوۃ اور قربانی کی اجازت نہیں (بدائع الصنائع)
البتہ ان کے مال سے ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے اور ان کی دیگر ضروریات پر خرچ کرے (الدر المختار مع الرد المختار)
قربانی کا گوشت ۔
قربانی کا گوشت اگر کئی آدمیوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کو اٹکل سے تقسیم کرنا جائز نہیں بلکہ خوب ا حتیاط سے تول کر برابر حصہ کرنا درست ہے ہاں اگر کسی کے حصے میں سر اور پاؤں لگا دیئے جائیں تو اس کے وزن کے حصے میں کمی جائز ہے (حاشیہ ردالمختار)
قربانی کا گوشت خود کھا ۓ دوست احباب میں تقسیم کرے غریبوں مسکینوں کو دے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے ایک اپنے لئے ایک دوست احباب اور عزیز و اقارب کو ہدیہ دینے کے لیے اور ایک ضرورت مند ناداروں میں تقسیم کرنے کے لئے الغرض کم از کم تہائی حصہ خیرات کر دے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا باقی سب کھا لیا یا عزیز و اقارب کو دے دیا تب بھی گناہ نہیں (حاشیہ رد المحتار)
قربانی کے خون میں پاؤں ڈبونا ۔
یہ خون نجس ہوتا ہے اور نجاست سے بدن کو آلودہ کرنا دین و مذہب کی رو سے عبادت نہیں ہو سکتا اس لیے یہ اعتقاد گناہ اور یہ فعل نا جائز ہے (حلبی کبیر)

پیر, جون 19, 2023

ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“ ✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

ناشاد اورنگ آبادی اور ان کا مجموعہ کلام ”رخت سفر“
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جناب عین الحق خان متخلص نا شاد اورنگ آبادی (ولادت 15 جنوری 1935ئ۔وفات 18جون 2023ئ) بن محمد ہدایت اللہ خان مرحوم کی جائے پیدائش شمشیر نگر ضلع اورنگ آباد ہے، وہ ریلوے کے سبکدوش افسرتھے، ان کی شاعری کے کئی مجموعے پرواز سخن (1990) میل کا سفر (ہندی1991) ، لمحے لمحے کا سفر (2009)ہم سفر غزلیں (ہندی 2009) اور رخت سفر کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں، ”غزل کیسے لکھیں“ کی ترتیب کا کام بھی انہوں نے کیا تھا۔جس میں غزل کے حوالہ سے قیمتی مضامین اور ہندی کے سیکڑوں شعراءکی غزلوں کو جمع کیا گیا ہے، اردو ادب اور شعر گوئی میں امتیاز کی وجہ سے انجمن محمدیہ پٹنہ سیٹی، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، ابھویکتی دلسنگ سرائے، بہار اردو اکیڈمی پٹنہ، اردو سرکل حیدر آباد، پریاس فرید آباد، ہریانہ، عالمی ہندی کانفرنس دہلی، سولبھ انٹرنیشنل ساہتیہ اکیڈمی دہلی کُسم پانڈے سنستھان سمستی پور، جیمنی اکیڈمی پانی پت ہریانہ، نہرو یوا کیندر بھونیشور، شاداسٹڈی سرکل پٹنہ، اردو دوست فرید آباد ہریانہ، مدرٹریسا سوسائٹی پٹنہ، ماہنامہ خاتون مشرق، ساہتیہ کار سنسد سمستی پور، اکبر رضا جمشید اکیڈمی پٹنہ، اعتماد نیشنل فاؤنڈیشن نئی دہلی کے ذریعہ مختلف انعامات ، اعزازات اور ایوارڈ سے نوازے گئے تھے۔
 ناشاد اورنگ آبادی نے پہلا شعر تیرہ سال کی عمر میں کہا اور 1965سے باضابطہ شعر گوئی کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہونے لگے، اوران کی عمر اٹھاسی(88) سال کی ہو گئی تھی ؛لیکن ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے تھے، ادب وشاعری کے حوالہ سے پٹنہ اور اس کے نواح میں کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی، جہاں ان کی با وقار حاضری نہیں ہوتی رہی ہو، کبھی خالی ہاتھ شریک نہیں ہوتے تھے، تازہ کلام اور قطعات سے سامعین کی ضیافت ضرورت کرتے تھے، عمر کی اس منزل میں بھی وہ چاق وچوبند نظر آتے تھے، ان کے ہونٹوں پر تبسم کی زیریں لہریں، دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا تھاکہ اس شخص نے اپنا تخلص ”ناشاد“ کیوں رکھ لیا ، ہو سکتا ہے جوانی میں کسی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہوں اور فریق ثانی کی طرف سے انہیں بے وفائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ جد وجہد آزادی میں وہ انگریزوں کے ظلم وستم سے متاثر ہو کر ناشاد ہو گیے ہوں، ہو سکتا ہے کہ بدلتے اقدار اور احوال نے انہیں ناشاد ی کے مرحلہ تک پہونچا دیا ہو، کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاد عظیم آبادی کے وطن میں ایک اورنگ آبادی ”ناشاد“ ہو کر ہی اپنی شناخت بنا سکتا تھا، ان کا یہ شعر دیکھیے
اب تو نا شاد بھی اے شاد عظیم آبادی  آپ کے شہر میں اشعار سنا دیتا ہے
یہ سب قیاسیات اور امکانات کی باتیں ہیں، یقین کے ساتھ کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
 ”رخت سفر“ ناشاد اورنگ آبادی کا مجموعۂ کلام ہے۔ 128صفحات کی قیمت 200روپے اردو کے قارئین کے لیے قابل قبول نہیں ہے، حالاں کہ مجھے یقینی طور پر علم ہے کہ یہ قیمتیں صرف درج کی جاتی ہیں، کتابیں اہل علم وادب تک مفت ہی پہونچانی پڑتی ہیں، کچھ نسخے بک گیے تو کتب خانہ والا نصف سے زیادہ کمیشن کاٹ لیتا ہے، بے چارہ شاعر اور ادیب قیمت لکھنے میں ”نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز “ پر عمل کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی لکھ دیتا ہے، کتاب کی کمپوزنگ فرید اختر نے کی ہے، ملنے کے پتے پانچ درج ہیں، لینا ہو تو ادھر اُدھر چکر لگانے کے بجائے بک امپوریم سبزی باغ چلے جائیے، اور اپنی ادب نوازی کا ثبوت دیجئے، دو سو روپے نکالیے اور خرید لیجئے۔
 کتاب کا انتساب طویل ہے، جس میں والدہ کے ساتھ احباب ورشتہ دار ، اہل علم وفن ، قارئین، نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازنے والوں کے ساتھ مخلص دوست صوفی شرف الدین اور مرحومہ اہلیہ شہناز آرا کے نام ہیں، جتنے لوگوں کے نام یہ انتساب ہے، مجموعہ کا ایک ایک صفحہ بھی ان کو دیا جائے تو کم پڑجائے گا، اور صفحہ پھاڑ کر بانٹنے کی تجویزتو کوئی نہیں دے سکتا۔
 حرفِ آغاز مشہور شاعر فرد الحسن فرد کا ہے، جو ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور پٹنہ کے مالک ہیں، کتاب ان کے یہاں ہی چھپی ہے، انہوں نے حرف آغاز میں طول بیانی سے کم کام لیا ہے، لیکن منتخب اشعار کی کثرت سے صفحات بڑھانے کا کام کیا ہے، اپنا تعارف خود ناشاد اورنگ آبادی نے کرایا ہے جو بڑا نازک کام ہے، کچھ لکھیے تو احباب ”در مدح خود می گویم“ کی بھپتی کسنے لگتے ہیں اور نہ لکھیے تو کتِمان کا شکوہ ہوتا ہے، ناشاد اورنگ آبادی نے اس تعارف میں دراز نفسی سے کام نہیں لیا ہے، اور جو ضروری تھا وہ لکھ دیا ہے، ایوارڈ دینے والے اداروں کی جو تفصیل میں نے اوپر درج کی ہے وہ ان کے تعارف سے ہی اصلا ماخوذ ہے، اس کتاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ فہرست کتاب میں موجود نہیں ہے، اس سے قاری کا تجسس بنا رہتا ہے کہ آگے کیا ہے اس طرح قاری آخری صفحہ تک پڑھنے اورورق گردانی کرنے کے لیے وقت نکال لیتا ہے۔
 رخت سفر میں ایک حمدیہ دو ہے، ایک نعتیہ دو ہے، دو نعت شریف، انٹھاون غزلیں، اور متفرقات کے ذیل میں کئی نظم اور قطعات ہیں، غزلوں میں دو تاریخی ہےں، اس میں غزل کی آن بان شان تو نہیں ہے، لیکن ادباءوشعراءکے ناموں کے اندراج نے اسے خاصا دلچسپ بنا دیا ہے، ناموں کی کھتونی میں غزل کی چاشنی کی تلاش تو فضول ہے، لیکن ناشاد نے اسے تاریخی غزل کا نام دیا ہے، اور بڑی حد تک کوشش کی ہے کہ غزل کا لب ولہجہ باقی رہے، ناموں کی کھتونی کے باوجودکم ہی سہی ان میں تغزل ہے سلاست ہے ، روانی ہے اس لئے مطالعہ شاق نہیں گذرتا۔وفیات عطا کاکوی اور شریک حیات مرحومہ شہناز آرا کے نام ہیں، متفرقات میں ”نذر“ کچھ زیادہ ہی ہے، مہاتما گاندھی ، مظہر امام، اہل گورکھپور، منشی پریم چند، سجاد ظہیر، شاد عظیم آبادی، سہیل عظیم آبادی، حفیظ جالندھری، شاداں فاروقی، رام دھاری سنگھ دنکر میں سے ہر ایک کے نام چار چار مصرعے نذر کیے گیے، بعض شعراءکے سانحہِ ارتحال پر بھی چار مصرعے رخت سفر میں شامل ہیں، علامہ جمیل مظہری ، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، ہیرا نند سوز ان افراد میں ہیں جن کی وفات پر قطعات کہے گیے ہیں،البتہ جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری کو دو دو مصرعے دے کر نمٹا دیا گیا ہے، حالاں کہ دونوں اس سے زیادہ کے مستحق تھے، خصوصا اس لیے بھی کہ دونوں کا رنگ وآہنگ الگ الگ ہے، اشعار ، قومی گیت، قومی یک جہتی ، قومی ترانہ، قومی دوہے، کرفیو، دیوالی کے دیپ اور اردو پر دوہے، گیت اور نظم کی شکل میں موجود ہےں، کہنا چاہیے کہ ”رخت سفر“ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ڈھونڈھنے سے ہرقاری کو اپنے اپنے ذوق کی چیز مل جائے گی ۔
 جہاں تک ناشاد اورنگ آبادی کی شاعری کا تعلق ہے،ان کے یہاں شعری روایات کی پاسداری بدرجہ ¿ اتم موجود ہے، قافیہ، ردیف اور بحور پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ خود انہوںنے بیان کیا ہے۔
فعلن فعلن خوب پڑھا ہے تب جا کر لکھ پایا ہوں ورنہ کچھ آسان نہیں تھا کہہ لینا دشوار غزل
ناشاد اورنگ آبادی کی غزلوں میں ان کا ” میں“ بولتا ہے، یہ میں کبر وغرور اور تعلی کا نہیں، بلکہ جو دل پر گذرتی ہے، رقم کرنے سے عبارت ہے، علیم اللہ حالی کے لفظوں میں اسے ”حدیث ذات“ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ شاعری میں آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے کے قائل نہیں ہیں اور ان کی غزلوں میں ”حدیث دیگراں“ کا تصور نہیں پایا جاتا، اسی لیے ان کی غزلوں میں ”عصری حسیت“ سے بھرپور اشعار کی کمی محسوس ہوتی ہے، انہوں نے اپنے اشعار کو ترقی پسند وں کی طرح غم روزگار اور غم کائنات تک نہیں پھیلایا ہے، اور نہ جدیدیوں کی طرح رمز وعلامات کے سہارے بات کہی ہے، ان کی شاعری ان حدودمیں قید نہیں ہے ،غزلیہ روایات کی پاسداری ان کے فن کا امتیازہے ، ہمارے بہت سارے شعراء، نثری شاعری پر اتر آتے ہیں، اور اس میں طبع آزمائی کو اپنی شان سمجھتے ہیں، ناشاد اورنگ آبادی کے اس مجموعہ میں ہمیں نثری شاعری کا نمونہ نہیں ملتا، یہ ایک اچھی بات ہے۔
 ناشاد اورنگ آبادی نے بھر پور زندگی گذاری تھی،وہ گرمی کی تمازت اور لوُ کی چپیٹ میں آگئے اور رختِ سفر کے خالق نے جلد ہی رختِ سفر باندھ لیا،بیش تر زندگی سمستی پور اور پٹنہ میں گذارنے والے نے اپنی آخری آرام گاہ کے لئے اپنے وطن کا انتخاب کیااور وہیں مدفون ہوئے،انہوں نے کہا تھاکہ

ناشاد ڈھلنے والی ہے اب زندگی کی شام اب تو سمیٹ لیجیے خاشاکِ آرزو
خاشاکِ آرزو اس قدر وہ جلد سمیٹ لیں گے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

آٹھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے

آٹھواں نعتیہ مشاعرہ واصلاح معاشرہ زوم ایپ پر تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ کے بینر تلے 
اردودنیانیوز۷۲ 
تحفظ شریعت وویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ ارریہ بہار کے بینر تلے گزشتہ (18/062023 ) شب ایک نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا, جس کی صدارت ادارہ کے روح رواں
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری(سکریٹری تحفظ شریعت) اور قاری عظمت اللہ نور فیضی 
زیر سرپرستی حضرت مولانامشتاقاحمدصاحب قاسمی گنگولی/
قاری مطیع اللہ صاحب جبکہ 
نظامت کی اہم ترین ذمہ داری حضرت مولانا شمشیر صاحب مظاہری گڈاوی جناب شاہد سنگاپوری نے بحسن وخوبی انجام دیا, مجلس کا آغاز حافظ وقاری شہزاد صاحب رحمانی استاد دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا چوک مینا 
قاری شہزاد صاحب رحمانی استاذ دارالعلوم صدیق نگر ڈینگا کے تلاوت کلام اللہ شریف سے ہوا, جبکہ ابتدائ
نعت پاک شاعر اسلام محمد اعظم حسن صاحب ارریہ صاحب کے مسحور کن آواز نے سامعین کے دل میں جگہ بنالی--
خطیب عصر حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی ارریہ
حضرت مولانا ومفتی عادل امام صاحب کھگڑیا
جناب قاری جمشید انجم صاحب کھگڑیا حضرت مولانا گلشادصاحب صاحب قاسمی گنگولی 
شعراء کرام 
شاعر سیمانچل مولانا فیاض راہی صاحب ارریہ'قاری کوثر آفاق صدیقی صاحب مقیم حال حیدرآباد'قاری انور غفاری صاحب حیدرآباد'شاعر اسلام محمد علی جوہر پورنوی'
 شہاب صاحب دربھنگہوی مولانا اظہر راہی صاحب پورنوی'شاعر جھارکھنڈ دانش خوشحال صاحب گڈاوی 
جناب افروز انجم صاحب اڑیسہ'حافظ سرور صاحب لکھنوی' مولانا اخلاق صاحب ندوی'حافظ عابد حسین صاحب دہلوی'حافظ ریحان صاحب کٹیہاروی' قاری اعجاز ضیاء صاحب سیتا مڑھی' قاری انوار الحق صاحب مقیم حال بنگلور 
 اورقاری خورشید قمر صاحب
حسن آواز صاحب ارریہ 
قاری مجاہد صاحب فیضی نرپتگنج 
حیات اللہ صاحب کے نام قابل ذکر ہے-- ہم جملہ شرکائے پروگرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت دے کر اراکین تحفظ شریعت وویلفیئر کی ہمت افزائ فرمائ اور آئندہ بھی کسی طرح کے پروگرام میں شرکت کرکے حوصلہ افزائ فرمائیں گے یہی امید ہے -- ساتھ ہی ہماری آواز جہاں تک پہنچے لبیک کہیں گے-- 
واضح ہو کہ 9 بجکر ۲۰منٹ شب سے شروع ہونے والا یہ پروگرام دیر رات 11 :۴۵بجے صدر مجلس کی دعاء پر اور شکریہ کے ساتھ اختتام ہوا
اس پروگرام کے انتظام قاری محبوب عالم رحمانی تھے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...