Powered By Blogger

بدھ, جون 28, 2023

ہمیں جذبۂ بندگی و ایثار سکھاتی ہے عید قرباںشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

ہمیں جذبۂ بندگی و ایثار سکھاتی ہے عید قرباں
اردودنیانیوز۷۲ 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب تو یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں ۔
مذہب اسلام نے دنیا میں امن وامان قائم کردیا اور وہ مساوات پیدا کر دی جو اقوامِ عالم کو ترقی کی معراج پر پہنچا دینے کے لئے کافی ہے اس مساوات کو اور مذاہب میں ٹٹولنا اپنا وقت فضول ضائع کرنا ہے کون نہیں جانتا کہ عیسائیوں میں کالے گورے کا قبرستان تک الگ ہے کسے خبر نہیں کہ پروٹسٹ اور رومن کیتھولک ، عیسائی و غیر مذاہب والوں کی طرح آپس میں امتیاز رکھتے ہیں ہندوؤں کے چار ورن کس سے مخفی ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کسی عرب کو غیر عرب پر کسی عجمی کو غیر عجمی پر کوئی بزرگی اور برتری فضیلت و عزت نہیں تم سب حضرت آدم کی اولاد ہو اس حیثیت سے آپس میں سب برابر ہو ذاتی اور قومی فخر کوئی چیز نہیں اور چونکہ خود حضرت آدم مٹی سے پیدا شدہ ہیں اس لئے اور بھی تمہیں فخر و غرور سے یکسو رہنا چاہیے پھر مذہب تم سب کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیتا ہے ہر ایک مسلمان خواہ وہ کسی قوم کا ہو مسلمان ہو کر تمہارا بھائی ہو جاتا ہے خواہ تم کسی  برادری کے کیوں نہ ہو بلکہ اسلام تو تمہیں مساوات کا سبق اس طرح بھی سکھاتا ہے کہ اپنے غلاموں پر بھی حقارت کی نگاہ سے ان پر اپنی برتری سمجھ کر انہیں گرانہ دینا ان کا پورا خیال رکھو ان کا ہر دم پاس و لحاظ رہے جو تم کھاؤ انہیں بھی اس میں سے کھلاؤ اور جو تم پہنو انہیں بھی اس میں سے پہناؤ ۔
جہاں تک نظر ڈالی جاتی ہے اسلام کے کل احکام اسلام کے جملہ اصول حکمت اور اتفاق و اتحاد کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آتے ہیں عید اور بقرہ عید کے دن کو ہی دیکھو حکم ہوا کہ اس دن نہا دھو کر اچھے کپڑے پہن کر صبح ہی صبح شہر سے باہر جنگل میں ایک جگہ جمع ہو جاؤ تاکہ تمہاری جاہ و حشمت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھے پھر ایک کو آگے کر کے سب اس کی اقتدا میں خدا کے سامنے جھکو تاکہ تمہارا اتحاد واتفاق ظاہر ہو ۔جاؤ تو تکبیریں کہتے ہوئے نماز پڑھو تو تکبیریں کہتے ہوئے واپس آؤ تو تکبیریں کہتے ہوئے تاکہ تمہاری خدا پرستی کا اظہار ہو۔اللہ اللہ  یہ جمعیت، یہ جماعت، یہ یکجائی،  یہ یکجہتی، یہ ہم آہنگی، یہ اتحاد مقصد،  یہ اتفاق روحانی و جسمانی،  کیا وہ چیزیں نہیں؟ جو تمہارے دشمنوں پر سانپ بن کر لوٹیں اور ان کا کلیجہ پھٹ نہ جائے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے عید الفطر کی نماز ادا کرنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر دو، اور عید الاضحی کی نماز کے بعد قربانی کے گوشت کا ایک حصہ غرباء ومساکین میں تقسیم کردو تاکہ تمہاری غمخواری اور ہمدردی ظاہر ہو جہاں تم اپنی ضروریات پر سیکڑوں خرچ کرتے ہو وہاں غرباء کی بھی خبر لو جو تم جیسے ہاتھ پاؤں رکھتے ہیں مگر قدرت نے انہیں تمہارا دست نگر بنا رکھا ہے۔ اپنی رانڈوں یتیموں بیکسوں کی بھی خبر لیا کرو تم نے اپنے بچوں کی ہٹ اور ضد پوری کردی ان کے لیے نئے اور عمدہ کپڑے بنوائے لیکن ایک یتیم بچہ آہ کر کے رہ گیا یہ کس کے سامنے ہٹ کرے کون اس کی ضد پوری کرے گا اس کا باپ ہوتا تو وہ بھی اپنے نور نظر لختِ جگر کے نہ جانے کیا کیا ارمان پورے کرتا تم نے اپنی بیویوں کے کپڑے لتے جوتی زیور وغیرہ کا انتظام کر لیا انہوں نے تم سے لڑ جھگڑ کر،  کہہ سن کر،  بن بگڑ کر،  اپنی اپنی چاہت کے مطابق اپنی فرمائش پوری کرائی لیکن ان غریب رانڈ عورتوں کی ناز برداری کرنے ان کی امنگوں کو پورا کرنے والا کون ہے وہ کس پر دباؤ ڈالیں گی وہ کس کا پلہ تھامیں گی وہ کہاں سے اچھے اچھے کپڑے وغیرہ لائیں گی جنہیں پیٹ پالنے کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ امیرو تم اپنے مال سے گلچھرے اڑاؤ کیا خدا کے مسکین بندوں کا حق بھول جاؤ اپنے نبی ﷺ  کی سخاوت اور غرباء نوازی کیا تم فراموش کرگئے جن کی زبان مبارک سے کبھی کسی سائل نے انکار کا لفظ تک نہیں سنا۔
غرض اس فرمان نے گلزار اتفاق میں بادِ بہاری کا کام کیا پھر حکم ہوتا ہے نماز کے بعد سب مل کر ذکر اللہ یعنی خطبہ سنو جس میں اسلام کی اگلی شان و شوکت کا نقشہ تمہارے اسلام کے بہترین جوش و خروش کے نمونے ان کی سچی جاں نثاریاں تمہاری ترقیوں کی گزشتہ داستانیں تمہارے کانوں میں پڑیں اور تمہارے برف سے زیادہ منجمد اور سرد دلوں میں پھر ایک مرتبہ گرمی پہنچے کچھ خیال بند ھے اور پھر ولولہ پیدا ہو حکم ہوا اب واپس آؤ تو راستہ بدل کر دوسری راہ سے آؤ تاکہ اس طرف بھی تکبیر کا غلغلہ بلند ہو ادھر بھی شان  اسلام نمایاں ہو ادھر بھی توحید کا چرچا ہو ۔
بقرہ عید کا دن ہے رسولِ اکرم ﷺ  ڈیرھ لاکھ مسلمانوں کے ساتھ ارکانِ حج ادا کر رہے ہیں اونٹنی پر سوار ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کی نکیل تھامے ہوئے ہیں دفعتاً حضور ﷺ سوال کرتے ہیں بتلاؤ یہ کونسا دن ہے لیکن ادب داں مزاج شناس صحابہ یہ جانتے ہوئے کہ آج عید کا دن ہے پھر بھی خاموش رہتے ہیں کہ شاید حضور اس کا کوئی نیا نام رکھیں کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سرور انبیاء  رسول خدا محمد مصطفیٰ ﷺ  فرماتے ہیں  کیا یہ قربانی کی عید کا دن نہیں ہے ہم نے کہا بے شک یہی دن ہے آپ نے فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ہم پھر خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس نام کے علاوہ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے کہا بیشک ہے آپ نے فرمایا بتلاؤ یہ کون سا شہر ہے ہم نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ عالم ہیں آپ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کچھ اور ہی نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ بلدہ ( یعنی مکہ) نہیں ہے ہم نے کہا بے شک  آپ نے فرمایا اب سنو تمہارے خون تمہارے مال عزت تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں بتلاؤ کیا میں تمہیں خدا کا یہ حکم پہنچا چکا سب نے کہا ہاں بے شک آپ نے کہا الہی تو گواہ رہ پھر فرمایا جو موجود ہیں ان پر فرض ہے کہ جو موجود نہیں انہیں پہنچا دیں بہت سے جو پہنچائے جائیں گے سننے والوں سے بھی زیادہ  یاد رکھنے والے اور محفوظ رکھنے والے ہوں گے ۔
یاد رکھو کبھی وہ قوم پنپ  نہیں سکتی جس میں مظلوم کو ظالم سے بدلہ نہ دلوایا جائے جس کے بڑے چھوٹوں کو نگل جائیں اور دوسرے کھڑے تماشا دیکھا کریں ۔وہ جماعت جماعت کہلانے کی اور زندہ رہنے کی حقدار نہیں جس میں دو لڑنے والوں کے درمیان تیسرا کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ہو دو مسلمانوں کے درمیان ناچاقی دیکھو فوراً اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور حسنِ تدبیر سے انہیں گلے ملا دو یہ نہ کہو کہ ہمیں کیا؟ آج اس کی باری ہے کل تمہاری ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اگر خدانخواستہ یہ بھنور میں آئی تو نہ ان کی خیر ہے نہ ہم پر مہر۔  سب سے بڑی نیکی آپس کی اصلاح ہے اور سب سے بڑی بدی آپس کا فساد ہے نفس کو مارنا مل جل کر رہنا آپ دکھ سہہ لینا لیکن دوسروں کو رنج نہ پہنچانا اصل اسلام یہی ہے ۔
الہی تو ہمیں آپس میں اتفاق دے، محبت دے ، بغض،  عداوت،  غرور، کبر،  خودی اور خود پسندی،  کو ہم سے دور فرما دے،  ہمارے دل ملا دے ، ہمیں ترقیاں دے،تنزل  سے بچالے،  بری عادتیں ہم سے  دور کر دے اور ہم پر اپنا فضل و کرم لطف و رحم نازل فرمادے آمین

اتوار, جون 25, 2023

اظہار رائےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اظہار رائے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں، اظہار کے یہ وسیلے اتنے اہم ہیں کہ اسی کے ذریعہ ہمیں سامنے والے کے عیب وہنر کا ادراک ہوتا ہے۔ اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا، ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں، کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول  ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔ کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستی کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔ 
 پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے، ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا ، مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔
 اس لئے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنے ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے۔

جمعہ, جون 23, 2023

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد -اسباب وعلاجمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد -اسباب وعلاج
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلا م میں بیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھرکوپرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔اسلام میں شادی کے وقت لڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے  لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری ہے، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی لڑکے کو ہی کرنی پڑتی ہے، جونکاح کے بنیادی لوازمات میںسے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا عمل حمل کی حالت میںنسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں،مختلف شہروں اور علاقوں میں بڑی تعدادمیںلڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل ’’کفو‘‘ کے نام پر غیر ضروری میچنگ Maching دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو’’ ناک‘‘ کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبریں آ رہی ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، اس مہم میں کامیاب نوجوانوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، ساتھ گھومانے پھرانے کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف دے کر انہیں خود سے قریب کرتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے سات پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے اور حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ۔ملک کے مختلف حصوں اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک، المناک اور پریشان کن خبریں ہر دن موصول ہو رہی ہیں، اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
 ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھا وا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آئینہ خانہ بن گئی ہیں، یہ اختلاط اور ارتباط آگے بڑھتا ہے تو ہوسناکی تک نوبت پہونچتی ہے، جسے محبت کے حسین خول میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے، والدین اور گارجین یا تو اتنے سیدھے ہیں کہ انہیں لڑکے لڑکیوں کے بے راہ روی کا ادراک ہی نہیں، یا اتنے بزدل ہیں کہ وہ اس بے راہ روی پر اپنی زبانیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، یا تلک جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت، شادی کے کثیر اخراجات کے خوف سے اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں اپنا شوہر خود تلاش لیں، کورٹ میریج کرلیں؛ تاکہ یہ درد سر ان سے دور ہوجائے، ان خیالات کے پیچھے ان کی غربت اور دینی تعلیم وتربیت سے دوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت والدین اور لڑکے لڑکیوں کے پاس  ہو تو انہیں اس کا ہرپل احساس ہوگا کہ غربت اور شادی کے حوالے سے پریشانیاں وقتی ہیں اور ایمان چلے جانے کی صورت میں آخرت کا عذاب حتمی اور لازمی ہے تو شاید ان کے لیے ان وقتی پریشانیوں کو جھیل جانا آسان ہوجائے۔
 اس بُرائی سے گذرنے والی لڑکیوں کے اندر ایک طرف تو خوف خدا نہیں ہوتا دوسری طرف عدالت کے مختلف فیصلے کے ذریعہ جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پربے لگام جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا اور طوائفوں کی طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو قانونی حیثیت حاصل ہو نے کی وجہ سے وہ جری ہو گئی ہیں، اب وہ ایک مرد کی بیوی رہتے ہوئے دوسرے کے بستر گرم کرنے کے لیے آزاد ہیں، شوہر اس بے راہ روی پر طلاق کی عرضی عدالت میں دے سکتا ہے؛ لیکن اس پر کوئی دارو گیر نہیں کر سکتا، اس قسم کے فیصلے نے ان کے دل سے سماجی خوف کو نکال دیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں، انہیں نہ اللہ رسول کا خوف ہے اور نہ سماج کا، رہ گیا قانون تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہوا ہے، ایسے میں بے راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے۔
 یہ بے راہ روی کنواری لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کی وجہ سے بھی آتی ہے اور عورتوں میں شوہر کے بسلسلہء ملازمت ان سے دور رہنے کی وجہ سے بھی، یہ دوری ملکی ملازمت میں بھی ہوتی ہے؛ لیکن غیر ملکی ملازمت کے حدود وقیود کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے شوہروں کے یہاں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ مجبوریاں اپنی جگہ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دوری کی وجہ سے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں،ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ظاہر ہے اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ گاؤں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچتا ہے، اس کے علاوہ وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں ان میں جوان لڑکیوں کو خصوصیت سے بلایا جائے، آر اس اس کی ترغیبی مہم سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو تفصیل سے بیان کیا جائے، اس کام کے لیے تمام ملی تحریکیں اور تنظیمیں آگے آئیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس فتنہ کے تدارک کی کوشش ترجیحی بنیادوں پر کریں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مقامی سطح سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے، غیر مسلم لڑکوں کے مسلم محلہ میں ٹیوشن پڑھانے اور دوسرے مقاصد سے آنے پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کرنے کے لیے اداروں کے ذمہ داروں سے باتیں کی جائیں، مدارس والے بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیم کا نظم کریں، تلک وجہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے، انڈرائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات وسکنات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی اس کا سد باب ہوسکے، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی مہم چلائی جائے اور مورث کو ان کی حق تلفی سے روکا جائے۔
جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو، اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا اف آئی آر درج کرایا جائے، وکلاء سے قانونی مدد لی جائے، تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم اس سلسلے میں کافی فکر مند ہیں، اور ممکن ہے کہ جلد ہی بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں اصلاح معاشرہ کے عنوان سے کوئی تحریک شروع کی جائے، تحریک اسی وقت کامیابی سے ہم کنار ہوگی جب سماج کے ہر طبقہ کا تعاون اسے ملے گا۔

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے

عورت دنیا کی خوبصورت نعمت ہے ۔بقول اقبال: وجود زن سے ہے
Urduduniyanews72 
 تصویر کائنات میں رنگ ،اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ،اللہ عزوجل نے اس کو مرد کا رفیق سفر اور دمساز  و ہم راز بنایا ہے ۔دنیا کی  حسن و رعنائی میں اس کا اہم کردار ہے ۔اسی کے نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو سے رزم و بزم کی رونق قائم ودائم ہے ۔اس کے ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ پر انسان ہزار جان سے فداہوتا ہے ۔وہ نہ ہو تو دنیا کی ساری رنگینی ورعنائی اورزیبایش ماندپڑجاے ۔اسی لیے قرآن نے اس کی تخلیق کوخاص نشانی قرار دیا ہے ۔اور اسے باعث سکون گردانا ہے ۔تخلیق انسانی کا ذریعہ اور نسل انسانی کے فروغ کا واحد وسیلہ بتایا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: دنیا سامان ہے اور دنیا کا سب سے بہترین سامان نیک بیوی ہے ۔(صحیح مسلم:3716) اور ایک روایت میں نیک بیوی کی علامت یہ بتایا ہے کہ:جب تم اسے دیکھو تو وہ خوش کردے،تمہارے غایبانہ میں اپنی عصمت کی حفاظت کرے،تمہارے بستر پر اسے نہ بیٹھنے دے جسے تم ناپسند کرتے ہو،تمہاری دی گئی امانت کی وہ حفاظت کرے۔(مستدرک حاکم,2682/سنن ابی داؤد ،1664/صحیح مسلم ،1218)ان صفات کی حامل عورتوں کی وجہ سے  ہی گھر جنت نظیر ہوجاتا ہے ۔نصف ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے ۔پاک دامنی اور عفت مآبی کی ضمانت ہے جس کی وجہ سے مرد شرعی اصطلاح میں محصن باور کیا جاتا ہے ۔ایسی ہی فرماں بردار  عورت خاتون جنت کے طغرہ امتیاز سے نوازی جاتی ہے ۔پردہ اس کی زینت حیا اس کا زیور اور پاک دامنی اس کی پہچان ہے ۔عریانیت اور بے پردگی اس کے لیے باعث فتنہ اور موت کا پیغام ہے۔
درحقیقت عورت سراپا عورت ہوتی ہے جسے شیطان خوش نما بناکر پیش کرنا چاہتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت پوری کی پوری پردے میں رہنے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا وخوبصورت کرکے دکھاتا ہے".(صحیح سنن الترمذی للالبانی ج 1/936) اسی لیے قرآن نے اسے خاتون خانہ بن کر رہنے کی تلقین کی ہے اور شمع انجمن بننے سے روکااور منع کیا ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے "اور اپنے گھروں میں سکون سے ٹکی رہو اور پہلے کی جاہلیت کی طرح سج دھج کر نہ دکھاتی پھرو".(الاحزاب:23)آیت مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے اور سر جھاڑ منہ پھاڑ کرمٹر گشثی سے منع کیا ہے ۔چونکہ مقصود ان کی عزت وعصمت کی حفاظت ہے ۔اسی لیے بغیر ضرورت کے محض شوقیہ بازار گردی سے ممانعت کی ہے۔البتہ ضروریات اصلیہ اس حکم سے باجماع امت مستثنی ہے۔جیسا کہ اگلی ہی آیت میں بدرجہ مجبوری برقع وجلباب میں جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ارشادربانی ہے:اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کی گھونگھٹ ڈال لیا کریں ۔(الاحزاب:33) ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں ".(تفسیر ابن جریر ج 22,ص:29) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ۔ایک موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم عورتوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جا سکتی ہو".(صحیح بخاری ،237/صحیح مسلم ،217) حدیث مذکور کے لفظ حوایج میں عمومیت پایی جاتی ہے ۔اس میں دنیوی ضروریات بھی شامل ہیں اور دینی ضروریات بھی ۔چنانچہ اس کے تحت ڈاکٹر،عدالت،ملازمت اور تعلیم گاہ کے لیے جانے کی بشرط ضرورت اجازت ہوگی۔عورت کو بازار سے ضروری سودا سلف لانے والا نہ ملے تو یہ بھی ایک طرح کی حاجت وضرورت میں شامل ہے اور وہ اس کے لیے بازار جاسکتی ہے مگر شرعی پردہ کے حدود و قیود میں رہ کر۔چنانچہ مفتی شفیع صاحب احکام القرآن میں آیت"وقرن فی بیوتکن" کے تحت لکھتے ہیں کہ: معلوم ہوا کہ عورتیں گھر میں رہیں سواے دینی ضرورتوں کے جیسے حج وعمرہ کے لیےنص کی وجہ سے یادنیوی ضرورت کے لیے جیسے اپنے قرابت داروں کی زیارت اور عیادت کے لیے یا نفقہ کے واسطے نکل سکتی ہیں؛لیکن ضرورت کے وقت بھی دورجاہلیت کے دستور کے مطابق زیب وزینت کی نمائش کرتے ہوئے نہیں نکلے گی،بلکہ معمولی سادہ کپڑے میں نقاب وجلباب میں پردہ کیے ہوئے نکلے گی،بشرطیکہ اس میں خوشبو وغیرہ نہ ہو".(احکام القرآن ج3,ص:317و319) علامہ ابن عابدین شامی بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اور جب ہم اس کے لیے نکلنا مباح کرتے ہیں تو بغیر زینت کی شرط کے ساتھ ہی ہرجگہ کہتے ہیں،اورحالت و ہییت کو اس طرح بدل کر کہ وہ لوگوں کی نظر کومایل کرنے والی اور دعوت دینے والی نہ ہو".(ردالمحتار علی الدرالمختار ج3ص:146) حضرت عبداللہ بن عمر کی مرفوعاً روایت ہے کہ: عورت کے لیے نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں سوائے مجبوری کے".(کنزالعمال ج 16,ص:391) افسوس اب تو عورتیں حج و عمرہ کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنے لگیں ہیں ۔جب کہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز کویی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے".(سنن دارقطنی ،244)ابن عباس ہی کی ایک دوسری روایت ہے کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے،توایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ! میں فلاں لشکر کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں جب کہ میری بیوی کا حج کا ارادہ ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ".(صحیح بخاری ،1862)
خیرمرد کی موجودگی میں عورتوں کا بازار کرنے کا شوق وچسکا بھی ناپسندیدہ ہے ۔جیسا کہ آج کے زمانہ میں یہ فعل بدمسلم معاشرہ میں ایک ابتلا عام کی طرح پھیلتا جا رہا ہے،مرد تو گھر میں سکون سے آرام فرما ہوتا ہے اورعورت دکان در دکان خاک چھانتی پھرتی ہے اور بد چلن ،آوارہ نوجوانوں کے نظر بد کا نشانہ بنتی ہے ۔اوراس میں وہ اتناطاق ہے کہ اللہ کی پناہ ۔وہ بازار کی اس قدر رسیا اور دلدادہ ہے کہ اس کے بغیر اس کو کسی دن چین و قرار نہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر عورتوں کو مردوں کی خریدی ہویی چیزیں پسند نہیں آتیں ،لہذاوہ مردوں سے بار بار کہہ کر چیزیں بدلواتی رہتی ہیں ،یامرد کی خریدی ہوئی چیزوں میں نقص نکالتی ہیں ۔مثلامہنگی خرید لاے،رنگ صحیح نہیں آیا ،ڈیزایین پرانا ہے ،یہ نقش و نگار تو بوڑھی عورتوں والے ہیں۔غرض ایک دھاگے کی نلکی بھی خریدنا ہو تو بعض اوقات مرد بے چارہ دکان پر بارہا جا جا کر تنگ آجاتا ہے اور بالآخر قوت ضبط جواب دے جاتی ہے اور وہ بادل ناخواستہ کہہ دیتا ہے کہ جاؤ حسب پسند خود خرید لاؤ۔اورعورتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ اچھی اور سستی خریداری کرتی ہیں ۔حالانکہ یہ ان کا اپنا دعویٰ ہے،لیکن کوئی دوسرا ان کے دعوے کی تکذیب کی جرات نہیں کرسکتا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ قیمتیں ادا کرتی ہیں اور گھاٹے کا سودا کرتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق :دنیا کی تراسی کروڑ خواتین کا شاپنگ شیڈول ناشتے کی طرح ہے۔صرف دس فیصد خواتین شاپنگ نہیں کرتیں۔سروے کے مطابق خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں اتنا بے وقوف نہیں بنتیں جتنا دکان دار کے ہاتھوں۔دکان دارانھیں بہن،بیٹی،میڈم،بےبی کہہ کر اپنا مال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔مغرب میں اگر چہ فکس پرایز سسٹم موجود ہے لیکن یہاں بھی دکان دار عورتوں کے ساتھ دغا وفریب کرجاتے ہیں۔جب کہ تمام ممالک جہاں بارگیننگ کے ذریعے خرید وفروخت ہوتی ہے وہاں دکان دار کے لیے شرح منافع بہت زیادہ ہے۔پٹرول پمپ پر بھی عورتوں کے ساتھ ہیرا پھیری کی جاتی ہےملبوسات،جیولری،کاسمیٹکس اور تحائف کی خریداری میں دکان دار سب سے زیادہ نفع حاصل کرتے ہیں".(عورتیں اور بازار ص:16/بحوالہ روزنامہ نواے وقت 15/مءی،1997) روزنامہ اخبار جنگ کی رپورٹ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہےملاحظہ فرمائیں کہ: نیویارک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق خواتین ا/ملین سے 4/ملین ڈالر ڈرائی کلیننگ کے اضافی چارجز دیتی ہیں ۔آٹوکار کے ڈیلروں سے کیے گئے سروے کے مطابق 21%ڈیلروں نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں سے زیادہ قیمتیں مانگیں ۔80/ہیر ڈریسرز سے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ دوتہائی ہیرڈریسرز عورتوں سے 25%چارجز زیادہ لیتے ہیں۔عورتیں اوسطاً 20/امریکی ڈالر زیادہ دیتی ہیں جب کہ مرد16/امریکی ڈالرز ۔ڈرایی کلیننگ کی دکان پر ایک شرٹ کا عورتوں سے 309/ڈالر اور مردوں سے 291/ڈالر لیے جاتے ہیں ".(جنگ 30/اپریل 1993بحوالہ عورت اور بازار ،ص:17) ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ۔یہ رپورٹ ان مہذب اور ترقی یافتہ نام نہاد مغربی ممالک کے ہیں جو عورتوں کے حقوق اور اس کی مساوات کے بزعم خود سب سے بڑے علمبردار ہیں ۔تو بھلاترقی پذیر ممالک اس صف میں کہاں کھڑے ہونگے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔گویا مرد وعورت کے مابین مساوات اور آزادی نسواں کی یہ تحریک ایک خوش نما پرفریب نعرہ ہے ،جومحض چھلاوا یا دل کے بہلانے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے کے مترادف ہے ۔ع/جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔

بازار جانا حرام نہیں بلکہ ضروریات زندگی کی خرید وفروخت کے لیے ناگزیر ہے ۔حتی کہ اللہ کے افضل ترین خاصان خدا انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام  بھی دعوت وتبلیغ اور امربالمعروف و نہی عن المنکراوردیگر مقاصد کے لیے جاتے تھے ۔ارشاد باری ہے:ہم نے آپ سے قبل بھی رسول بھیجے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازار میں چلتے تھے ".(الفرقان:20) لیکن یہ ضرورت کے طور پر تھا نہ کہ افضلیت کے واسطے ۔کیونکہ بازار شور و شغب،جھوٹ و فریب اور دھوکہ دھری کی جگہ ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہیں مسجد یں ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند یدہ جگہیں بازار ہیں".(صحیح مسلم:1528) اور اس کی مزید قباحت کی وضاحت  صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے،ارشاد نبوی ہے: تو بازار میں سب سے پہلے داخل ہونے والا نہ ہو اور نہ ہی اس سے سب سے آخر میں نکلنے والا،اس لیے کہ اس میں شیطان انڈے بچے دیتا ہے ".(صحیح مسلم ،2451) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بازار سے فراغت اور خریداری کے بعد وہاں ٹھہرانہ جائے؛ بلکہ منزل پر لوٹ آیا جائے۔ خاص طور پر عورتوں کو بھی یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے  کہ گھر سے باہر محرم کے ساتھ پردہ شرعی میں نکلیں، اس طرح کہ زیب وزینت ،حسن وجمال اور جسم وبدن کی نمائش کا اظہار نہ ہو۔کیونکہ مسجد میں عورتوں کو زیب وزینت اور خوشبو میں معطرہوکر آنے کی ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہیں تو بازار میں تو یہ بدرجہ اولیٰ سخت ممنوع ہوں گی ۔امام ابو زکریا یحیی شرف نووی رقم طراز ہیں کہ: مختلف احادیث کی بنا پر علما نے کہا ہے کہ عورت کو مسجد جانے کی اجازت اس وقت دی جائے گی جب کہ وہ خوشبو لگاے ہوئے نہ ہو،زیب وزینت سے آراستہ نہ ہو ،ایسی پازیب نہ پہنی ہو جس کی آواز سنائی دے ،بھڑکیلے لباس میں ملبوس نہ ہو ،نہ وہ فتنہ کا باعث بنے اور نہ راستہ میں کسی فساد کا خدشہ ہو".(شرح النواوی ،کتاب المساجد) ان شرائط کی اگرپابندی ہو تو وہ بازار جاسکتی ہے ورنہ نہیں ۔کیونکہ
مردوزن کا اختلاط عموماً فتنہ کا باعث ہوتا ہے ۔اسی لیے شریعت نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے ۔جوعام طور پر بازاروں ،بھیڑبھاڑ والی جگہوں اور نمایشگاہوں میں ابتلاے عام کے طور پر نظر آتا ہے ۔ہندو، مسلم ،سکھ اور عیسائی کی اس میں کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔یہیں سے مسلم لڑکیاں ہندوؤں کے رابطے میں آتی ہیں ،دونوں کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے ،پھر یہ بھگوا لوو ٹرپ پر آکر ختم ہوتی ہے ۔ارتداد کا یہ سب سے سہل راستہ ہے جو ملک گیر سطح پر روانہ مشاہدہ میں آرہا ہے ۔اگرجلدہی اس کاتدارک نہ کیا گیا تویہ ہماری نسلوں کو تباہ وبرباد کردیگا۔اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس اختلاط پر مردوں کی سرزنش و فہمائش کی تھی اور ان کی غیرت کو للکارتے ہوئے فرمایا تھا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں آتی جاتی ہیں اور وہاں ان کی کافروں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے،یہ حقیقت ہے کہ جس میں غیرت نہیں اس میں حیانہیں ".(مسند احمد ،1118)اس کی وجہ سے  معاشرہ میں مختلف طرح کی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔جس پر قدغن لگانے کے لیے علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے زمانے کے امیروں اور اور خلفا کویہ صلاح ومشورہ دیا تھا۔جو آج بھی ہمارے لیے اس دور پرفتن میں چراغ راہ کا کام کرسکتا ہیے،جہاں ہر چہار سوارتدادکا طوفان آیا ہوا ہے؛ بشرطیکہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔وہ فرماتے ہیں کہ: حاکم کا فرض ہے کہ وہ بازاروں،کھلے مقاموں اور مردوں کے مجمعوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو اختلاط سے باز رکھے۔اس لیے کہ امام اس سلسلے میں اللہ کے یہاں جواب دہ ہے،کیونکہ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔امام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کو آراستہ پیراستہ ہوکر نکلنے سے بھی منع کرے،اورایسے کپڑوں میں ملبوس ہوکر نکلنے کی اجازت نہ دے جس کے پہننے کے بعد بھی وہ عریاں معلوم ہوتی ہیں۔مثلا ضرورت سے زیادہ چوڑے یا تنگ اور باریک کپڑے پربھی پابندی لگانے۔بعض فقہا کی یہ رائے بھی درست ہے کہ جب عورت بن سنور کر نکلے تو امام کو یہ حق حاصل ہے کہ روشنائی وغیرہ سے اس کے کپڑے خراب کردے۔یہ بہت ہلکی سزا ہے۔اگر عورت بار بار بلا ضرورت گھر سے باہر گھومنے نکلے خصوصاً بھڑکیلے لباس میں تو امیر کواسے  قید کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔کیونکہ عورتوں کو اس حالت میں چھوڑ دینا ان کے ساتھ معصیت میں تعاون کرنے کے مترادف ہے".(عورت اسلامی معاشرے میں،ص:383) یہ تعاون تو صرف بر و تقویٰ کے کاموں میں ہے اور برایی وغلط کاموں میں تو یہ  نصرت تعاون ہرگز نہیں۔ارشاد ربانی ہے:تم لوگ ایک دوسرے کا تعاون نیکی اور تقویٰ میں کرو اور گناہ اور برے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو".(المایدہ؛2) اس طرح کی اور خرابیوں کو روکنے کے لیے مزید آگے ارشاد فرمایا:وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھا ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے".(النور:31) امام ابو بکر جصاص رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: لفظ کے معنی سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ زینت کو ظاہر کرنے سے روکا گیا ہے کیونکہ زینت کی آواز سنانے کی نہی کے سلسلے میں نص وارد ہوا ہے۔بقول ابوالاحوص اور مجاہد اس سے مراد پازیب کی جھنکار کی آواز ہے".(احکام القرآن،ج6,ص:169) ساتھ ہی عورت کو اتنی اونچی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی ممانعت ہے جس سے اس کی آواز غیر مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے ۔کیونکہ عورت کی آواز اس کی پازیب کی جھنکار کی بہ نسبت زیادہ فتنہ انگیز اور فتنہ پرور ہے ۔مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: امام جصاص نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کام دار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا".(معارف القرآن ج6 ص:406)آج کل کے مروج برقعوں کے پہننے کے بعد اگر چہ عام گھریلو لباس کی زینت تو کچھ حد تک چھپ جاتی ہے لیکن خود اس برقعے کی زینت اور اس کی بناوٹ غارت گر ایمان اور فتنہ سماں ہوتی ہے ۔اورخواہ مخواہ نگاہ کو مایل اور دعوت نظارہ دینے والی ہوتی ہے ۔اسی لیے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کو تبرج جاہلیت میں شامل کیا ہے ،وہ رقمطراز ہیں:ہر وہ زینت اور ہر وہ آرایش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذت نظر بننا ہو،تبرج جاہلیت کی تعریف میں آجاتی ہے ۔اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے".(پردہ ،ص:213) خلاصہ کلام یہ کہ عورت کا دائرہ کار گھر ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور باہر جانے سے حتی الامکان پرہیز کرے ۔الا یہ کہ ضرورت اس کا متقاضی ہو تو پردہ شرعی میں جاے تاکہ فتنہ وفساد سے محفوظ رہ سکے۔
.mdsalman3544@gmail.com۔8709898974

" تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی" ( سیدارشاد آرزو) دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

  * سیدارشادآرزو (کولکتہ) 
اردودنیانیوز۷۲ 

   ، بچپن سےسنتا آ رہا ہوں کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے.اور یہ قول صد فی صد درست بھی ہے. 
لیکن موجودہ زمانےمیں وہ تہذیب کہاں گم ہوگئی ہے؟اس تہذیب کا گلا کون گھونٹ رہا ہے.؟
   میرا جواب ہے:
    میں ، 
     آپ ، 
     ہم سب !
  معاف کیجیے گا:
ہم آج بھی کسی اردو محافظ تحریک کے منتظر ہیں،سرکاری مراعات کی آس لگائے بیٹھے ہیں، لیکن...... 
خود اپنےگھروں سے اس زبان اور تہذیب کو کب کے رخصت کر چکے ہیں. 
    آج ہمارے یہاں شادیوں کے کارڈ انگریزی میں چھپتے ہیں.مسجدوں، خانقاہوں. مدرسوں، قبرستانوں کے بورڈز ہندی میں ہوتے ہیں( الا ماشاءاللہ کہیں کہیں اردو میں لکھے بورڈ آج بھی اپنی آخری سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.) اب تو سر پیٹنے کے دن آ گئے ہیں کہ اردو مشاعروں، سیمیناروں اور دیگر تقریبات کے بینرز ہندی اور انگریزی رسم الخط میں بنائے اور لگائے جا رہے ہیں. 
میہی نہیں، آج ہم ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ مشاعروں میں  وہ شعرا و شاعرات بلائے جا رہے ہیں جو اردو سے قطعی نا بلد ہیں. وہ ہندی اور رومن انگریزی میں لکھ کر( در حقیقت نقل کر کے) لاتے ہیں.اب ایسے ناظم مشاعرہ اور نقیب محفل بنائے جا رہے ہیں جو غیر ضروری گفتگو، لطیفے اور غیر معیاری جملے سناسناکر سامعین کو گونگا بنارہے ہیں اور تالیاں بجانے کی غلط روایت کو فروغ دے رہے ہیں. جس کی وجہ سے زبان و ادب کا معیار و تہذیب رو بہ زوال ہے. حد تو یہ ہے کہ اب اردو کی تنظیمیں ان کے ہاتھوں میں ہیں جو ایسے ہی شعراءکو بلا رہے ہیں جن کااردوزبان وادب سے کوئی واسطہ نہیں۔ حتی کہ اکثر اردو اکاڈمیاں اور سرکاری ونیم  سرکاری اردوادارے بھی اسی ڈگر پہ چل پڑے ہیں. اب ذرا سوچیں کہ یہ اردو کی خدمت کر رہے ہیں یا گلا گھونٹ رہے ہیں؟ 
    میں نے ایک مشاعرے میں تالیاں بجائے پر اعتراض کیا تو ناظم نے کہا کہ اب قدریں بدل رہی ہیں.سوال یہ ہے کہ  زبان و ادب کی قدیم روایات واقدارکو تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی؟اساتذہ فن نے؟  زبان و ادب کے ماہرین نے؟یا خود ساختہ شعرا و ادباء نے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم ایسے خودساختہ شاعروں اورادیبوں کو اردوکا محافظ سمجھ بیٹھےہیں.
      ظاہر ہے جو اردو زبان سے ناواقف ہوگا وہ اس کی تہذیب سےکیوں کر آشنا ہوگا.؟ 
  آج ہم اپنےبچوں کوانگریزی اوردیگرعلاقائی زبانوں کےحوالے سےتعلیم دلوارہے ہیں.اردو میں نہیں. 
     ہاں،جب انگریزی میڈیم کےڈونیشن اور دیگرفیس ادا کرنےکی استطاعت نہیں ہوتی یا ان کی اوقات سے باہر ہو جاتی ہے تب ان کو اردو میڈیم اسکول نظر آتے ہیں۔ 
نتیجہ یہ کہ بچہ نہ انگریزی کاہوپاتا ہے نہ اردوکا. 
     شروع سے کوئی اردو میڈیم میں بچے کو ڈالتا ہے تو ہمارا معاشرہ اسے احساس کمتری میں مبتلاکرنےمیں کوئی کسرنہیں اٹھارکھتا۔ . 
نتیجہ یہ کہ معتدبہ تعداد میں اسکولوں اور کالجوں سے اردو کا شعبہ اس لئےختم کردیا جاتاہے کہ بچے موجود نہیں. اب ذرا سوچئیے  کہ شعبہ بند ہونے سے کتنا اور کس کا نقصان ہوا؟ہم ایک طرف اردوکوروزگار سےجوڑنے کی باتیں  کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے ہاتھوں سےاردو گلا بھی گھونٹ رہے ہیں.غور طلب یہ ہےکہ شعبہ کے بند ہونےسےاردو اساتذہ کی بحالی اورتقرری پر روک لگادی جاتی ہے.جب اردوپڑھنےوالےبچےہی نہیں ہیں تواردوشعبہ کی ضرورت ہی کیاہے۔اس کی صدہا مثالیں موجود ہیں کہ کالجوں میں پہلے اردوشعبےتھےلیکن طلباء کی عدم موجودگی کےسبب انھیں بندکرناپڑا۔اردوکے تعلق سے بار بار کہاجاتا ہےکہ روزگارسےجوڑےبغیراس کی بقاء اور تحفظ ممکن نہیں۔اردو والوں کا حال یہ ہےکہ جہاں وہ روزگار سےجڑی ہوئی ہے وہاں بھی وہ اس رشتہ کوتوڑرہےہیں۔ 
    ہمیں یہ بھی تسلیم کہ اس زبان کوسرکاری  سطح پر جوحق ملناچاہئےوہ نہیں مل پارہا ہے.وجہ یہ کہ ہے صوبوں کی سرکاروں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ خود اردو والے اپنی زبان کے وفادار نہیں۔ایسے میں آسانی سے اردو کاکام تمام کیاجا سکتا ہے.
     صورت حال یہ ہے کہ اب ہمارے اندر قوت احتجاج باقی ہے نہ قوت مدافعت۔ خودغرضی اور ذاتی منفعت بخشی کی اس سےبدتر مثال کیاہوگی۔انھیں الزام دیتےتھےقصوراپنانکل آیا۔ 
   اردو کے سلسلے میں کتنا کچھ ہوا اور ہو رہا ہےلیکن آپ اور ہم ذرا غور کریں کہ کس حد تک ہم احتجاج کر پا رہے ہیں. ایک بار پھر معذرت کے ساتھ عرض کرتےچلیں کہ احتجاج وہی کرے گا جو اپنی زبان سے عشق کرے گا. کیوں کہ عشق میں ہی کھونے کا خدشہ اور ملال رہتا ہے. جب عشق ہی نہیں تو نہ کھونے کا ڈراورنہ آبائی وراثت کی پامالی کا دکھ۔! 
        "عشق جس نے کبھی کیا ہی نہیں
         ہجر کا  درد  کیسے  سمجھے  گا" 

      ہم نے اردو سے عشق کرنا کب کا ترک کر دیا ہے. 
یہ تو خیرِ منائیے اردو کے جینوین شاعروں اورادیبوں کا کہ آج بھی اردو کے کاز میں، ترقی و ترویج میں ہمہ تن مصروف ہیں. جن کے دم سے اردو کے کچھ رسالے اور اخبارات زندہ ہیں.اور کہیں نہ کہیں ان کے گھروں میں زبان و تہذیب سانس لے رہی ہے.لیکن ہمارا وہ معاشرہ جواردوسےنابلد ہے،ہم شاعروں اور ادیبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ تو صرف مشاعرہ اور سیمینارہی جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں.(یہ گانے بجانےوالے لوگ ہیں) 
     ایسا کیوں؟؟؟ 
    ایسا اس لئے ہے کہ جو اردو سے ناواقف ہوں گے بھلا وہ اس کی تہذیب سے کیسے جڑیں گے.؟ 
   سوالات اور بھی ہیں، لیکن مختصر طور یہ سمجھ لیجیے کہ تمام سوالوں کا حل صرف ایک ہی ہے:اور وہ یہ کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں اردو کو زندگی بخشیں. بچوں کو کسی بھی میڈیم سے پڑھائیں، ہمیں کوئی شکایت نہیں، لیکن اردو کو ایک اختیاری سبجکٹ کے طورپرضرورپڑھائیں،اسے فراموش نہ کریں۔ یادرکھئیےکہ اردو زبان ہماری قومی وراثت ہے۔ اس کا تحفظ اوربقا ہماری ذمہ داری ہے۔جہاں اسکولوں میں اردوتعلیم کی گنجائش نہیں ہے وہاں گھروں میں اردو پڑھائیں. 
   یقین جانیے جب ہمارے بچے اردو پڑھیں گے تو اردو سے عشق بھی کریی گے.جب عشق کریں تواس کےحقوق کے لیے احتجاج بھی کریں گے.بازیافت بھی کریں گے۔احتجاج انقلاب کی خشت اول ہے.انقلاب آئے گا تو حل بھی نکلیں گے۔۔۔ذرانم ہوتویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔۔۔یاد رکھیں:
      " تاریخ مٹا دیتی ہے اس قوم کی پہچان
    جواپنی زباں کی بھی حفاظت نہیں کرتی"
                     ( سیدارشاد آرزو) 
  دار التحریر/قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
 سکرا ول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی)

جمعرات, جون 22, 2023

قربانی ___ سنت ابراہیمی✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

قربانی ___  سنت ابراہیمی
Urduduniyanews72
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی(9431003131)
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اسلامی شریعت وتاریخ میں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ جو بعض کو بعض پر فضیلت دینے کا ہے، اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار اور خاتم النبین ہیں، ان کے مقام ومرتبہ کو تمام انبیاء اپنی عظمت کے باوجود نہیں پہونچ سکتے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نبی کو فضیلت دی گئی وہ حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی ہے، یہ اہمیت وفضیلت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک درود شریف ہی درود ابراہیمی کے نام سے منسوب ہے اور اس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور برکت کی دعا میں حضرت ابراہیم کا ذکر خاص طور پر مذکور ہے، اس کے علاوہ کسی انبیاء کے عمل کو امت محمدیہ کے لیے سنت نہیں قرار دیا گیا ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کو ہی نہیں ان کی زوجہ مطہرہ کے عمل کو بھی اسوۃ اور نمونہ بنادیا گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دین کی خاطر اپنا علاقہ، گھر ، در ، والدین کو چھوڑا اور دوسرے علاقہ میں پناہ لیا تو ’’ہجرت‘‘ دین کی حفاظت کے لیے امت محمدیہ کے لیے بھی مشروع قرار دی گئی ، حضرت ابراہیم نے وادیء غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا، تو دین کی خاطر اس کی بھی اہمیت بیان کی گئی، حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفاء مروہ کے چکر لگائے تو عمرہ اور حج کی سعی اس کی یاد گار قرار پائی، بچے کے نظر سے اوجھل ہونے پر حضرت ہاجرہ کی بے قراری اور دوڑ کر اس راستے کو عبور کرنااور اس وقت تک دوڑتے رہنا جب تک بچہ پھر سے نظر نہ آنے لگے، میلین اخضرین کی دوڑ اسی کی تو یاد گار ہے، یہ دوڑ حضرت ہاجرہ کی قیامت تک تمام عورتوں کے لیے کافی ہو گئی ، اس لیے اب انہیں اس جگہ دوڑ نہیں لگانی ہے، مردوں کو لگانی ہے، تاکہ وہ بھی محسوس کریں کہ بچے کی جدائی کا کرب کیسا ہوتا ہے، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے قربانی کے لیے لے جاتے وقت شیطان کا بھٹکانے کی کوشش کرنا اور اس کو بھگانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کنکریاں مارنا تاریخ میں مذکور ہے، رمی جمار حج کے موقع سے اسی کی یاد گار ہے، تمام تر شفقت ومحبت کے باوجود اللہ کے حکم پر سِن شعور کو پہونچ رہے بچے کو قربانی کے لیے لٹا کر گردن پر چھری چلا دینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی دل گردے کا کام ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس امت پر یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے ہی اس امت کا نام مسلمان رکھا، اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے اس استفسار پر کہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے، انہوں نے ہی تمہارا نام مسلمان رکھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی سے عبارت ہے، حضرت اسماعیل کی قربانی پیش کرنا تواس قربانی کا نقطۂ عروج ہے، ہم صرف جانور کی قربانی پیش کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں، ایسانہیں ہے ، قربانی ہر طرح کی پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح حضرت ابراہیم کو اس کے ذریعہ آزمایا گیا، اسی طرح امت مسلمہ آج بھی آزمائش میں مبتلا ہے، یہ آزمائشیں جان ومال ، فصل وتجارت ، پھل وباغات کے ضیاع اور خوف کے ذریعہ ہم پر مسلط ہے، احوال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کی طرح ہیں تو اعمال اور قربانی بھی اسی انداز کی پیش کرنی ہوگی، ورنہ ہندوستان میں خصوصا دین وشریعت کے حوالہ سے مسلمانوں کو اور بھی ظلم وجور کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔
 جانوروں کی قربانی ہمارے اندر ہر طرح کی قربانی کا مزاج پیدا کرتا ہے ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے ایام میں جانوروں کی قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کچھ بھی محبوب نہیں ہے، حالاں کہ یہ بھی یقینی ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک جانوروں کے گوشت ، پوست کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اس کے پاس پہونچتا بھی نہیں ہے، اصل چیز نیتوں کا خلوص اور دل کے احوال ہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کی ہو، نمود ونمائش کی کوئی بات نہ ہو تو یہ قربانی دیگر چیزوں کی قربانی پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور تقویٰ کی کیفیت سے انسان سرشار ہوجاتا ہے، تقویٰ کی یہ کیفیت انسانی زندگی کو بیلنس ، معتدل اور متوازن کرتی ہے، یہ قربانی کا فلسلفہ اور حکمت ہے۔
 اخروی اعتبار سے دیکھیں تو قربانی کے جانور کے ہر بال پر ایک نیکی ملتی ہے، جانور کے بالوں کو جس طرح گننا ممکن نہیں ، اسی طرح قربانی کے اجر وثواب کو کلکولیٹر سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو ہماری سمجھ کے لیے کہا گیا ہے، لیکن مراد یہی ہے کہ بے شمار اجر وثواب اس قربانی کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے، دوسرا اخروی فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ پل صراط پر ہماری سواری کے کام آئیں گے، اسی لیے حکم دیا گیا کہ صحت مند اور توانا جانور کی قربانی کی جائے، ایسے لاغر ، بیمار اور عیب دار جانورکی قربانی نہ دی جائے جو مذبح تک چل کر نہ جا سکتا ہو اور جسے عرف میں عیب دار سمجھا جاتا ہو، اسکا مطلب یہ ہے کہ قربانی میں جانور کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے اور غیر مسلموں کی طرح ’’سڑل گائے بابھن کودان ‘‘ کے فارمولے پر عمل نہ کیا جائے، اللہ رب العزت نے محبوب اور پسندیدہ چیزوں کے خرچ پر بھلائی تک پہونچنے کی بات کہی ہے ، ظاہر ہے لاغر، کمزور، عیب دار چیز تو انسان کی پسند ہی نہیں ہوتی اس لیے ایسے جانور کی قربانی کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
 جانور سے محبت ہوجائے ، اس لیے اس کے پوسنے پالنے اور اس کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہے، اس محبت کی قربانی کے لیے ہی اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ ہر ممکن اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کیا جائے، تاکہ ان احساسات کی بھی قربانی ہو جائے جو جانور کی محبت کے نتیجے میں گذشتہ چند دنوں میں پیدا ہوئے تھے صرف اللہ کی محبت قلب وجگر میں جاگزیں رہے، اگر خود سے ذبح نہیں کر سکتا ہوتو کم سے کم وہاں پر موجود رہے، تاکہ جانور کو قربان ہوتے ہوئے دیکھے۔
 جانور کی یہ قربانی اللہ کے نام سے اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے، ہمارے یہاں یہ جو مشہور ہے کہ قربانی کس کے نام سے ہوگی، صحیح نہیں ہے، قربانی تو سب اللہ کے لیے اللہ کے نام سے ہوگی، اسی لیے جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں اس شخص کی طرف سے قبولیت کی دعا کی جاتی ہے۔ اللھم تقبل ھذہ الاضحیۃ ۔ قربانی سے پہلے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جاتی ہے، جس میں بندہ یہ اعلان کرتا ہے ، میری نمازیں، قربانیاں، حیات وموت سب اللہ کے لیے ہی ہیں۔
 جانور ذبح کر دیا ، قربانی ہو گئی، حکم ہوا کہ گوشت کے تین حصے کرلو، ایک حصہ غرباء کو دو، ایک حصہ عزیز واقرباء کو اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھ لو، تاکہ سب تمہاری قربانی سے فائدہ اٹھا سکیں، غربا ومساکین جو صاحب استطاعت نہیں ہیں، قربانی کے جانور نہیں خرید سکتے ان کو اپنی قربانی سے حصہ دو تاکہ وہ ایام تشریق میں اللہ کی میزبانی سے فائدہ اٹھا سکیں، اس معاملہ میں ہمارے یہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے، بڑے جانور کی قربانی میں تو گوشت غرباء تک پہونچ جاتا ہے ؛لیکن خصی کے گوشت میں ایمانداری سے تقسیم کا عمل نہیں ہوتا اور جب سے فِرج ہمارے گھروں میں آگیا ، بیش ترگوشت اسی میں ڈال دیا جاتا ہے؛ تاکہ دیر تک گھر والے کھائیں، کسی کا خاندان بہت بڑا ہو تو فتویٰ کی زبان میں اس کی گنجائش ہے، لیکن ایساکرنے سے یہ معلوم تو ہوہی جاتا ہے کہ جانور کی قربانی کے باوجود گوشت کی قربانی دینے کا مزاج نہیں بنا ورنہ  گوشت کی تقسیم میں انصاف سے کام لیا جاتا ۔
 گوشت کے بعد چمڑہ بچ جاتا ہے، یہ چمڑہ اگر بیچا گیا تو قیمت صدقہ کرنا ہے، غرباء ومساکین کا حق ہے، لیکن اگر آپ اسے خود استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ اس کو دفن کر دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی کیوں کہ یہ مال کا ضیاع ہے، جب سے چمڑے کی قیمت کم ہو گئی ہے تب سے کئی گاؤں سے یہ خبر آ رہی ہے کہ قربانی کا چمڑہ دفن کیا جا رہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، جس قیمت پر بھی ہو اسے فروخت کرکے رقم مدارس کے غریب ونادار طلبہ یا سماج کے ضرورت مندوں تک پہونچا دینا چاہیے، جو صاحب استطاعت نہ ہوں، اگر یہ ممکن نہ ہو تواسے اپنے استعمال میں لے آئیں، دباغت کے بعد جائے نماز اور دوسری چیزیں اس سے بنا کر استعمال کی جاسکتی ہیں۔
قربانی کے جانور کے جو فضلات وباقیات ہیں اس کو راستوں کے کنارے ادھر ادھر نہ پھینکیں، اس سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے ، جو انسانوں کی صحت کے لیے مضر ہے، اس سے آپ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ راستوں کے بھی حقوق ہیں، ادھر اُدھر پھینکنے سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ان فضلات کو گڈھا کھود کر گاڑ دینا چاہیے تاکہ کتے اور دوسرے جانور اٹھا کر اِدھر ُادھر نہ لے جائیں، اور جو سرانڈ ہے، اس سے صحت متاثر نہ ہو۔ اس طرح آپ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کہنے کو یہ ایک جانور کی قربانی ہے، لیکن اس ایک قربانی کو قربانی بنانے کے لیے کتنے اصول وہدایت کی پابندی ضروری ہے۔
ہمارے یہاں قربانی کے جانوروں کا گاؤں اور محلوں میں مقابلہ اور موازنہ شروع ہوتا ہے، اس سے نمود ونمائش اور ریا کاری کا کا جذبہ فروغ پاتا ہے، اس کی وجہ سے دل ودماغ کبر کی غلاظت سے آلودہ ہوتا ہے، اس آلودگی سے بچنے کے لیے عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک تکبیر تشریق ہر نماز کے بعد کم از کم ایک بار پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مرد زور سے پڑھیں اور عورتیں دھیمی آواز میں، اس کے علاوہ عیدگاہ جاتے وقت تکبیر تشریق پڑھنا اور عید الاضحیٰ کی نماز میں چھ تکبیروں کے ذریعہ اللہ کی بڑائی کا اعلان کرنا ، اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے، آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تکبیر تشریق میں اللہ کی بڑائی کے علاوہ دوسرا کچھ نہیں ہے، اللہ کی بڑائی کا یہ خیال بندوں کو اپنی بڑائی کے خیال سے آزاد کر دیتا ہے، اور یہ اس شخص کے لیے ذاتی طور پر فائدہ مندتو ہے ہی سماج کے لیے ضروری ہے۔
عید الاضحی کے جو دس ایام ہیں ان کے فضائل بھی احادیث میں ہیں، ان کا خیال رکھیے، نو ذی الحجہ کا روزہ ہمارے دیار میں عرفہ کے روزہ کے نام سے منسوب ہے، یہ عوامی اصطلاح ہے، اسے حاجیوں کے یوم عرفہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے کہ حاجیوں کا عرفہ تو ایک دن قبل گذر چکا ہوتا ہے، اس دن کے روزہ کے فضائل بہت ہیں، البتہ یہ فرض واجب نہیں ہے، نفل اور مستحسن ہے، اس کو اسی درجہ میں رکھنا چاہیے اور جو لوگ نہیں رکھ رہے ہیں، ان کو ترغیب تو دے سکتے ہیں، لیکن نہ رکھنے پر انہیں بُرا بھلا نہیں کہنا چاہیے، شریعت میں عبادتوں کے بھی مدارج ہیں اور مدارج کی تعیین میں شریعت سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے۔
 عید الاضحی کے دس دن میں چاند دیکھے جانے کے بعد ان لوگوں کے لیے جن کی طرف سے قربانی ہونی ہے، بال، ناخن وغیرہ کا نہ تراشنا بہتر ہے، یہ حکم عام لوگوں کے لیے نہیں ہے، اسی طرح قربانی کے جانور کے گوشت سے اس دن کھانا شروع کرنا اچھی بات ہے، لیکن جو لوگ مریض ہیں ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے، سماج میں جو بقرعید کے دن نماز کے پہلے روزہ کی بات عرف میں کہی جاتی ہے وہ اسی پس منظر میں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اس دن روزہ کا لفظ نماز سے پہلے کچھ نہ کھانے کے معنی میں ہے، اس کا اصطلاحی روزہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

رشوت خوری ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

رشوت خوری ___
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
سرکاری ”نیم سرکاری“ بلکہ بعض پرائیوٹ کمپنیوں میں بھی مواقع کا فائدہ اٹھانے اور مفاد کے حصول کے لیے رشوت دینا ہوتا ہے، سرکار جتنے اعلانات بد عنوانی کو ختم کرنے کے لیے کرتی، رشوت کا بازار اسی قدر گرم ہوتا ہے، سرکار کا اعلان رشوت اور بد عنوانی کے معاملہ میں عدم بر داشت کا ہے، لیکن اس اعلان کے باوجود سرکاری ملازم رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جارہے ہیں، یہ ہندوستانی سماج کا المیہ ہے کہ جن کے اوپر قانون کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، وہی قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔
 بہت دن پہلے کی بات ہے ایک سرکاری دفتر میں ایک کام سے جانا ہوا، اتفاق سے وہاں ایک افسر میرے جان کار بھی تھے، میں نے ان سے اپنی پریشانی بتائی، انہوں نے از راہ ہمدردی متعلقہ کلرک کو بلا کر کام کر دینے کو کہہ دیا ، میں بہت خوش ہوا کہ اب کام ہوجائے گا ، کل ہو کرپھر دفتر پہونچا تو فائل وہیں کی وہیں تھی میں نے اپنے متعارف افسر کے پاس جاکر یہ صورت حال بتائی ، کہنے لگے، شِیَر نہیں ملا ہوگا، میں نے کہا: آپ کی سفارش کے بعد بھی اس کی ضرورت ہے، کہنے لگے، ہاں!میری سفارش کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کا کام یقینی ہوگا، کوئی دھوکہ نہیں دے گا، رہ گئی ”دستوری“ تو وہ تو دینا ہی ہوگا، چنانچہ میں ناکام ونامراد وہاں سے واپس آگیا۔یہ معاملہ کسی ایک دفتر کا نہیں ، یہاں تو ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے۔
 بہت لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پکڑ دھکڑ اور رنگے ہاتھوں بد عنوان افسروں کی گرفتای عوام کے بیدار ہونے کا نتیجہ ہے، مجھے یہ صحیح نہیں لگتا ، عوام جب کسی دفتر میں کام کرانے جاتی ہے اور اسے کل آنے کو کہا جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دوبارہ آنے جانے ، رہنے، کھانے پینے میں اس سے زیادہ خرچ آجائے گا، چلو کچھ ”دستوری“ دے کر آج کے آج کام کرالوں، چنانچہ لینے والا تو انتظارہی میں رہتا ہے، دینے والے لوگوں کی بھی لائن کمزور نہیں ہوتی، یعنی دینے والا اور لینے والا دونوں بد عنوانی کے شریک ہوتے ہیں، گو ہندوستانی قوانین میں دینے والوں کو مجبور محض سمجھ کر سزا کے دائرہ میں کم ہی لایا جاتا ہے، لینے والا پکڑا گیا تو اس کی زندگی بھی تباہ نہیں ہوتی اور رشوت یہاں بھی کام کر تی ہے، اور مجرم آسانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔
 اس کا مطلب یہ ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں گنہگار ہے، اگر دینے والا اپنی حرکت سے باز آئے اور ایسا ماحول بنائے کہ رشوت خور بچ نہ پائے تو رشوت کی گرم بازاری پر قابو پایا جاسکتا ہے؛ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں کو جہنم کی ”خوش خبری“ سنائی ہے، الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار 
بد قسمتی کی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں رشوت کی بُرائی کا احساس باقی نہیں ہے ، اب تو اسے دفاتر میں ”سُوِیدھا شلک“ یعنی آسانی بہم پہونچانے کی فیس سے تعبیر کیا جاتا ہے، رشوت ایک سماجی لعنت ہے،نام چاہے اسے جو دے لیں، عام لوگوں کا کام اس کی وجہ سے دشوار تر ہوجاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرکاری افسران جن لوگوں سے خار کھائے بیٹھے رہتے ہیں، اگر رشوت نہ ملے تو جائز کام بھی نہیں کرکے دیتے ہیں۔
 یقینا ایمان دار اور اچھے لوگوں سے دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ ایمان دار افسر اور کلرک کام کرنے کے سلسلے میں بڑے سست واقع ہوتے ہیں، بد عنوان افسروں کے ٹیبل پر رشوت فائلوں کو  دوڑادیتی ہے، لیکن ایمان دار افسر کے ٹٰیبل پر فائل کو رینگنے میں کبھی کبھی مہینوں لگ جاتے ہیں، رشوت نہ لینا ایک اچھی عادت ہے، لیکن کام میں تاخیر کرنا بُری عادت ہے، اس سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...