Powered By Blogger

پیر, جولائی 10, 2023

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کا انتقال علمی دنیا کا بڑا خسارہ__ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
Urudduinyanews72
پٹنہ 10 جولائ (عبدالرحیم برہولیاوی/پریس ریلیز)
مناظر اسلام، فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کے ترجمان معروف علمی شخصیت حضرت مولانا سید طاہرگیاوی صاحب کے انتقال پر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب نے ان کے انتقال کو علمی دنیا کا بڑا خسارہ قرار دیا ہے.آپ نے کہا کہ حضرت مولانا طاہر گیاوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک پوری دنیا میں فقہ حنفی اور مسلک دیوبند کی ترجمانی کی اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کر دیا. اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حوالے سے بڑی مقبولیت اور محبوبیت عطا کی تھی.
آپ کا خطاب بڑا پر اثر اور دلائل و براھین سے پر ہوتا،علمی اور فقہی نکات سے بھر پور اور مسکت جواب سے وہ مخالفین کو لا جواب کر دیا کرتے تھے، اللہ نے آپ کو زبان و قلم کا یکساں ملکہ دیا تھااور ایک لمبی مدت تک آپ نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ فقہ حنفی خاص کر مسلک دیوبند کا مضبوط دفاع کیا.
ان کے انتقال سے علمی دنیا میں ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جس کی تلافی میں بڑا وقت لگے گا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کرے، پسماندگان کو صبر جمیل اور ملت کو نعم البدل عطا فرمائے آمین

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی حفظہ للہ
اردودنیانیوز۷۲
 ✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ___

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نو منتخب سکریٹری، امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے آٹھویں امیر شریعت،خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں،جامعہ رحمانی،رحمانی تھرٹی،رحمانی فاؤنڈیشن اور درجنوں مدارس اسلامیہ کے سر پرست،امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے آنکھوں کا تارہ،امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کے خلف اکبر،وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر،خانقاہ،جامعہ،امارت شرعیہ کے ہزاروں معتقدین،متوسلین اور محبین کے مرجع اور مربی،مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کی ولادت 12/مئی1975ءکو خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی،خانقاہ اور جامعہ رحمانی کے روحانی اور علمی ماحول میں پلے،بڑھے،کچھ بڑے ہوئے تو جامعہ رحمانی کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،اور ان کے فیوض وبرکات کو اپنے ذہن ودماغ میں سمیٹا،اجازت حدیث سند عالی کے ساتھ حضرت مولانامحمد یحیٰ ندوی(م 2023)سے پائی،عربی زبان و ادب میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے لئے جامعہ ازہر مصر کے بڑے اساتذہ کے زیر درس رہے،اور عربی بولنے لکھنے پر قدرت حاصل کی،عصری علوم کے لیے امریکہ کا سفر کیا اور وہاں سے انجینئرنگ کی اعلی تعلیم پائی، انہیں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل ہے،ان زبانوں میں جب حضرت بولنے لگتے ہیں تو ان کی مادری زبان کی طرح معلوم ہوتی ہے، علوم و فنون سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی خدمات امریکہ کی مختلف کمپنیوں کو دیں،2001ءسے خدمات کا سلسلہ شروع ہوا، بہت ساری کمپنیوں میں مختلف مناصب اور عہدے پر آپ نے کام کیا، امریکہ کی مشہور یونیورسٹی کیلی فورنیانے بھی آپ کی خدمات حاصل کیں اور آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا، اکتوبر2015ءمیں حضرت امیر شریعت صاحب رحمة اللہ علیہ نے فاتحہ کی مجلس کے موقع سے اگلے سجادہ نشیں کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا، حضرت کے وصال کے بعد 9/ اپریل 2021 کو حضرت کے خلفاءکی موجودگی میں آپ کے سر پر دستار باندھی گئی اور روایتی خرقہ زیب تن کرایا گیا،9/ اکتوبر2021 ءکو ارباب حل و عقد امارت شرعیہ نے کثرت آراءسے آپ کوامیر شریعت منتخب کیا اور 3/ جون 2023 کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے 28ویں اجلاس اندور مدھیہ پردیش میں آپ سکریٹری منتخب ہوئے، اس طرح آپ کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا چلا گیا، ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کی صحت و عافیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کو درازیءعمر عطا فرمائے تاکہ آپ ملت کی بیش بہا خدمات انجام دے سکیں، 
 حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کا اپنا ایک نظریہ اور کام کے تئیں ان کا ایک وژن ہے، انہوں نے امارت شرعیہ کے تمام شعبوں کو فعال، متحرک اور مزید بااثر بنانے کے لیے کئی اقدام کئے، کئی شعبوں کا اضافہ کیا،دارالقضاءاور شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور نئے نصاب تعلیم کی ترتیب کے لئے کمیٹی بنائی،اسی طرح دارالقضاءکی تعداد آپ کے وقت میں کافی بڑھی، خود کفیل مکاتب کامنصوبہ 1965 میں ترتیب پایا تھا،اشتہارات اور کیلنڈر کے ذریعہ اسکی تشہیربھی کی گئی تھی؛ لیکن زمین پر کام حضرت کے وقت میں ہی اتارا جا سکا، امارت شرعیہ کی غیر منقولہ جائیداد کے تحفظ کے لئے اصلاحات اراضی اور اوقاف کی جائیداد کی صورت حال سے واقفیت کے لئے بھی حضرت نے شعبے قائم کئے۔
  حضرت اپنے والد محترم کی طرح ہی تھکنا نہیں جانتے مسلسل دورے اور کاموں میں انہماک آپ کی خصوصیت ہے، آپ کی سادگی تواضع، انکساری،کسی بھی بھول چوک پر معذرت پیش کرنا، اپنا سامان خود اٹھانا اور مشکل حالات میں بھی انفعالی کیفیت سے دوچار نہ ہونا، آپ کی زندگی کا لازمہ ہے،بات غور سے سنتے ہیں اور اپنی بات دو ٹوک رکھنے کے عادی ہیں،حق واضح ہونے کے بعدلیت ولعل کا مزاج نہیں ہے،سیدھے سیدھے قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، جہانگیر نے مظلوموں تک پہنچنے کے لئے ایک رسی باندھ رکھی تھی جس کو کھینچنے سے جہانگیر تک گھنٹی کی آواز پہنچ جاتی تھی اور مظلوم انصاف پالیتاتھا، اسی طرح حضرت نے ایک لیٹر بکس اپنی آفس کے سامنے لگا رکھا ہے، چابی حضرت کے پاس ہی رہتی ہے آپ اگر اپنی بات نہیں کہہ پا رہے ہیں یا ملاقات نہیں ہوپا رہی ہے تو اپنی عرضی لیٹر بکس میں ڈال دیجئے نام چھپانا چاہتے ہیں تو نام مت لکھئے، حروف سے پہچان لیے جانے کاخدشہ ہو تو کمپوز کرکے ڈال دیجئے،حضرت تک آپ کی معروضات پہنچ جائے گی،یہ امارت کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے، اس قسم کا سسٹم یہاں پہلے کبھی نہیں رہا۔اس لیے اسے حضرت امیر شریعت کے اولیات میں شمار کر نا چاہئے ،حضرت کاہٹو بچو کا بھی مزاج نہیں ہے،اور نہ ہی استقبال کے لئے کارندوں اور کارکنوں کی صف بندی کو پسند کرتے ہیں،کبھی کبھی تو ان کے آنے کے بہت بعدہم لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ حضرت تشریف لائے ہیں،ضرورت محسوس کیا تو کبھی یاد بھی کر لیتے ہیں،ضروری بات مکمل ہوگئی تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کارکنان زیادہ دیر ان کے پاس نہ بیٹھیں، تاکہ دفتر کے کاموں کا حرج نہ ہو،حضرت کو کسی کی بیماری کی خبر مل جائے تو بے چین ہو جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی تیمار داری کریں، نہیں ممکن ہو تو فون پر ہی مزاج پرسی کر لیتے ہیں، ابھی اسی اندور کے سفر میں جس میں حضرت سکریٹری منتخب ہوئے، میری طبیعت بگڑ گئی، میں مفتی ذکاءاللہ شبلی صاحب کے یہاں چلا آیا،حضرت کو بھی وہاں آنا تھا، تشریف لائے،میری خرابی صحت کا علم ہوا تو دیر تک میرے پاس رہے، اپنے ہاتھ سے دوا لکھا اور اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک دواآنہیں گئی اور اپنے سامنے مجھے کھلا نہیں دیا، جانے کے بعد فون سے کئی بار خیریت دریافت کیا صبح کو جب میں نے اپنی طبیعت ٹھیک ہونے کی اطلاع دی تو ان کو اطمینان ہوا،حضرت کی قوت تمیزی اور قوت فیصلہ اس قدر مضبوط ہے کہ وہ رطب و یابس، معاصرانہ اور حاسدانہ چشمک کو بھی خوب سمجھتے ہیں ایسے موقع سے ان کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیریں مزید گہری ہو جاتی ہیں،ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہتی ہے کہ کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کر لی جائے،کم و بیش دو سالوں میں حضرت نے اپنی صلاحیتوں سے اداروں کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے، امید کرنی چاہیے کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ کا کام بھی حضرت کے سکریٹری شپ میں آگے بڑھے گا اور ملت اسلامیہ ہندوستان وستان میں اپنا وقار بلند کرنے میں کامیاب ہوگا

اتوار, جولائی 09, 2023

یہ گھر تمہارا ہے لوٹ آنا : نصر عالم نصر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک شاعر پانچ کلام کا انعقاد

یہ گھر تمہارا ہے لوٹ آنا : نصر عالم نصر 
اردودنیانیوز۷۲
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک شاعر پانچ کلام کا انعقاد 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 9/جولائی 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم) 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے 09/جولائی 2023 بروز اتوار  کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ میں آن لائن پروگرام”ایک شاعر پانچ کلام“ کا انعقاد کیا گیا، جو کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم مثلا یو ٹیوب، فیس بک پر بھی لائیو رہا، جسے دنیا بھر کے لوگوں نے سنا اور سراہا ، یہ پروگرام ضیائے حق فاؤنڈیشن کا یو ٹیوب چینل ”علم کی دنیا “ پر بھی لائیو رہا ۔ اس پروگرام میں مہمان شاعر نصر عالم نصر (پٹنہ) نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ بنیادی طور پر شاعری اور طب سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی  شعری مجموعہ،، غم آبدار،، منظر عام پر آچکی ہے جس کا ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام رسم اجرا عمل میں آیا تھا ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن اردو ہندی زبان و ادب کے فروغ کے لیے خصوصی کام کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ادارہ وقتا فوقتا مختلف ادبی، علمی، لٹریری اور مذہبی پروگرام وسیمینار کا انعقاد کرتا ہے۔ جس میں عمومی طور پر نوجوان اور بزرگ شعراء و ادبا اور خصوصی طور پر نئے قلم کاروں کو  پلیٹ فارم دیا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ادبی خدمات کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے نظریے کے تحت اس فاؤنڈیشن نے اب تک کئی اہم پروگرام خصوصا ”ایک شاعر پانچ کلام“ میں نوجوان قلم کاروں کو ادبی، علمی، شعری وتخلیقی حلقوں میں متعارف کرانے کا کام کیا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ پروگرام رہا جس میں مہمان شاعر نصر عالم نصر کو اس پلیٹ فارم کے ذریعہ متعارف کرایا گیا۔ انہوں نے حمدیہ کلام کے اشعار کے ساتھ اس پروگرام کا آغاز کیا. اس کے بعد انھوں نے اپنی بہت خوب صورت چار غزلیں اور ایک نظم سنائیں ۔ پیش خدمت ہے نصر عالم نصر کے چند اشعار جو انہوں نے اس پروگرام میں سنایا ۔
حمد کے اشعار 
خدا کی قدرت میں کیا نہیں ہے
تو  مانگ کیوں  مانگتا  نہیں ہے
خدا  کی  حمد و ثنا  سے  بہتر
دلوں  کی  کوئی  صدا  نہیں ہے۔

نعت کے چند اشعار 

عرش کا نور حقیقت کا حوالہ کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے، 
ہر بشر کے لئے وہ خیر بشر کیوں نہ ہوں 
مصطفیٰ جیسا کوئی چاہنے والا کیا ہے۔
        غزل کے چند اشعار 
میرے بچو مری دستار گرا مت دینا
جگ ہنسائی مری دنیا میں کرا مت دینا 
میں نے دامن کو ابھی تک ہے بچاۓ رکھا
آپ دامن پہ کوئی داغ لگا مت دینا۔

قیامت بپا کر رہے ہو
بتاؤ یہ کیا کر رہے ہو
نہ جانے تمہیں کیا ہوا ہے
خطا پر خطا کر رہے ہو۔

دل ہوا آدمی کا پتھر کیوں
آدمی ہو گیا ستمگر کیوں
تم بھی رہتے ہو کانچ کے گھر میں
پھینکتے ہو کسی پہ پتھر کیوں۔

نظم کے چند اشعار 
وہ دور مجھ سے نہ جا سکے گی
اکیلے کیسے نبھا سکے گی 
ذرا سا غصہ کا تاب اتنا 
گناہ چھوٹا عذاب اتنا 
ہماری باتوں میں تھی خرابی
ہمیں نہ سمجھو خراب اتنا۔
            
اس پروگرام میں نصر عالم نصر کی ادبی وشعری خدمات پر ان کی حوصلہ افزائی کی گئ، اس موقع پر نصر عالم نصر نے کہا: ”اس طرح کے پروگرام نوجوان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بے حد اہم ہے ، میں اس فاؤنڈیشن کے اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کی اس کاوش کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ کیونکہ اس سے نہ صرف شعر و شاعری کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ شعر و شاعری اور ادب کی طرف نوجوانوں کا رحجان بھی پیدا ہوگا۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے جس کا ہم سب کو استقبال کرنا چاہیے۔ نصر عالم نصر ایک سنجیدہ، فعال اور محنتی  قلم کار کے ساتھ ساتھ طب کے پیشے سے جڑے ہوئے ہیں ۔“ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کی اور تعارف وتشکر محمدضیا ء العظیم (برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ)  نے انجام دی۔
محمد ضیاء العظیم نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آج کے ہمارے مہمان نصر عالم نصر کا ہم تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، نصر عالم نصر ایسے ڈاکٹر ہیں جو جواں دل رکھتے ہیں، موصوف جسم کے ساتھ ساتھ روح وقلب کا بھی علاج ومعالجہ کرتے ہیں، دوا کے ذریعہ جسمانی علاج ، اور شعرو شاعری کے ذریعہ روحانی علاج کرتے ہیں، ان کا تشریف لانا ہم سب کے لئے باعث فخر ومسرت ہے، 
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بھی ان کا پر زور استقبال کرتے ہوئے کہا کہ نصر عالم نصر کی شخصیت نایاب اور انوکھی ہے، طب کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا ذوق یہ ان کے اعلیٰ ذوق کی بہترین مثال ہے ۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

ناقابل تبدیل ___ الٰہی قانون مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ناقابل تبدیل ___ الٰہی قانون 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ورکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (9431003131)
Urudduinyanews72
اللہ رب العزت نے اس کائنات کو پیدا کیا ، انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، اسے عزت وتکریم کا شرف بخشا، ساری دنیا کو اس کے لیے مسخر کیا ، چاند ، تارے، سورج، دریا ، درخت، پہاڑ، نباتات وجمادات سبھی کچھ انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ، اور ان بے شمار نعمتوں کو استعمال کرکے ، کھاپی کر جو جسم پروان چڑھا اور دل میں ایمان کی جو حرارت پیدا ہوئی، اسے جنت کے بدلے میں خرید لیا ، ایسا خریدار کوئی دوسرا اس کائنات میں موجود نہیں ہے۔
ایمان کی جو دولت ہمیں ملی اور جس کی وجہ سے ہم مؤمن کہلائے وہ بھی اسی خدا کے فضل سے ملی، اس نے ہمیں مؤمن گھرانے میں پیدا کر دیا اگر کسی دوسرے مذہب والے کے یہاں پیدا کیا ہوتاتو اللہ جانے ہمارا کیاحشر ہوتا، کیونکہ ہم میں سے بیش تر کا ایمان نسلی ہی ہے، ہم نے اس کے حصول کےلئے محنت نہیں کی اور اس کے بقا کی لئے بھی محنت ہماری نہ کے برابر ہے۔
 لیکن اللہ بڑا کریم ہے، اس نے انسانوں کو جب دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تو روئے زمین کے پہلے انسان کو نبی بنایا؛تاکہ پہلے دن سے اس روئے زمین پر اللہ کے علاوہ کسی کی پوجا نہ ہو ، یہ سر جسے اللہ نے جسم کے سب سے اوپری حصے میں رکھا ہے، یہ پوری مخلوق کے سامنے بلند رہے،جھکے تو صرف اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے ، مانگے تو اسی سے مانگے ، ہاتھ پھیلائے تو اسی کے سامنے پھیلائے، اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے کو ذلیل ورسوا نہ کرے؛لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے کھلے ہوئے دشمن شیطان کو بھی بہکانے بھٹکانے اور راہ راست سے دور کرنے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ، چنانچہ شیطان انسانی افکار وخیالات ، اعمال وکردار پر حاوی ہوتا رہا ، اور اپنی ساری طاقت وتوانائی اس نے انسانوں کو جہنم کی طرف لے جانے کے لئے لگادیا ، اللہ دار السلام کی طرف بلاتا ہے اور شیطان جہنم کی طرف لے کر بھاگنا چاہتا ہے جب جب انسانوں پر شیطانیت کا غلبہ ہوا اور بڑی آبادی نے اپنا رخ کفر وعناد کی طر ف کر لیا تو اللہ نے انبیاءورسل کو بھیجا ، احکام وہدایت پر مبنی کتابیں اور صحیفے دیے ، یہ انبیاءورسل انسانوں میں سے ہی بھیجے گیے ؛تاکہ اس کی اتباع اور پیروی آسان ہو ، اگر جناتوں اور فرشتوں میں سے انبیاءورسل ہوتے تو انسان یہ کہہ سکتا تھا کہ جو نبی ہم میں سے نہیں ہے اور جس کے اندر شر کی صلاحیت نہیں ہے، جو اللہ کی نا فرمانی کی قوت ہی نہیں رکھتا، اس کی اتباع انسانوں سے کیوں کر ممکن ہے، جس کے اندر خیر وشر دونوں کی صلاحیت رکھی گئی ہے؛چنانچہ انبیاءورسل آتے رہے، ایک محدود زمانے کے لیے ،متعینہ علاقوں کے لئے، زمانہ ختم ہوا تو دوسرے نبی آگیے، دوسرے علاقہ میں دو سرے نبی مقرر کیے گیے، اور یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے ہماے آقا ومولیٰ فخر موجودات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچا ، اللہ رب العزت نے آپ کی ذات پر اس سلسلے کو بند کر دیا ،اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا ، اور نہ دوسری کوئی کتاب آئے گی ، آپ اللہ کے آخری رسول اور قرآن کریم اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی آخری کتاب ہے ۔
اسی خاتمیت کی وجہ سے ضروری ہوا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو سب کا رسول بنایا جائے چنانچہ زبان مبارک سے اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی کہ آپ کہہ دیجئے میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں، پھرقرآن کریم آخری کتاب ہے ، اس لیے اس کی حفاظت کا ہر سطح پر انتظام کیا گیا کہ حتی لکھنے کے انداز کو بھی محفوظ کر دیا گیا ، اس میں جو احکام دیے گیے اس کے بارے میں صاف صاف اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کے احکام میں تبدیلی نہیں ہوتی ، اللہ کے طریقے بدلا نہیں کرتے اور ان میں الٹ پھیر نہیں ہوا کرتا۔
 قرآن کریم اور احادیث رسول میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اٹل ہیی، تبدیلی کی گنجائش اس میں نہیں ہے، یہ عقل کے بھی مطابق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانون ایک ایسی ذات پاک کا بنایا ہوا قانون ہے جو اپنی مخلوق کی تمام ضرورتوں اور اس کے فطری اوصاف وکمالات سے پورے طور پر واقف ہے، وہ ایک ہے، اس کا کوئی خاندان نہیں ہے ،کوئی علاقہ نہیں ہے ، کوئی زبان نہیں ، اس کی اپنی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ نہ کھاتا ، نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے وہ بے نیاز ہے، اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہے ، وہ اپنی مخلوق کی ضروتوں سے واقف ہے، پھر اس کا علم پوری کائنات کو محیط ہے ، اس کے علم میں ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی تفریق نہیں ہے،اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں، وہ جس طرح ماضی اور حال کو جانتا ہے ویسے ہی وہ مستقبل کے تمام پیش آنے والے واقعات وحوادثات ، تغیر وتبدل اور بدلتی قدروں سے واقف ہے، اس لیے اس نے جو قانون بنایا وہ اس کے لا محدود علمی سمندر کا مظہر اتم ہے جس کے مقابلے میں انسان کا علم چڑیا کی چونچ میں اٹھے ہوئے پانی کے قطروں سے زیادہ نہیں ہے۔
 انسان کا علم انتہائی محدود ،اور اس کی ضرورتیں لا محدود ہیں، اس کے مفادات نیز قبائلی نسلی اور لسانی تعصب کی وجہ سے ہر دور میں اسے قانون بنانے پر آمادہ کرتا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اس کی ذات برادری اوراس کے علاقے وغیرہ کو پہونچے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کا قانون الگ ہوتا ہے، بلکہ ایک ملک کی بعض ریاستوں میں ریاستی قانون بھی الگ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ سب کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے۔
 محدود علم اور مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے نا واقف اور مفاد کے تحفظ کی نیت کی وجہ سے انسانوں کے ذریعہ بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرور ت ہوتی ہے اور Amendmenetہوتے رہتے ہیں، خود ہمارے ہندوستانی قانون کی کتنی دفعات چھیاسٹھ سالوں میں بدل چکی ہیں اور کتنے دفعات کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔
 اس کے بر عکس اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت کسی مرحلے میں پیش نہیں آتی اور وہ ہر دور کی ضرورتوں کی تکمیل کی صلاحیت رکھتا ہے ،جن ممالک میں الٰہی قانون پر پورے طور پر نہیں ، تھوڑا بہت بھی عمل ہے تو وہ بڑی حد تک مطمئن ہیں اور مال ودولت کی فراوانی اللہ نے ان کو دے رکھی ہے۔
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان اللہ کے قانون کا پابند ہے، اور اس کی بقا کے لیے اسے جد وجہد کرنی چاہیے، اس معاملہ میں اگر کسی مسلم ملک نے اللہ کے قانون کا پاس ولحاظ نہیں رکھا اور اس نے اپنے طور پر کچھ تبدیلیاں کر ڈالیں تو اس نے بہت غلط کیا، اس کو دلیل اور ثبوت بنا کر کسی بھی مسلمان کو اس کی تقلید کرنے یاکسی ملک کو اس جیسی تبدیلی کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ کسی مسلمان یا کسی مسلم ملک کا اللہ کے قانون کے خلاف کرنا دوسر ے مسلمان کے لیے نہ حجت ہے نہ دلیل ، مؤمن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند ۔
 ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت میں اللہ کے قانون کا احترام ملحوظ تھا ، پورے طور پر تو نہیں ، لیکن بڑی حد تک اسلامی قانون کا پاس ولحاظ رکھنے کی روایت قائم تھی ، اور کم از کم الحاد وکفر کی دعوت دینے کی ہمت کسی میں نہیں تھی، لیکن مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد انگریزوں کے دور حکومت میں اسلامی قانون کی پامالی کے واقعات کثرت سے ہوئے اور اس کو ختم کرنے کے منصوبے نہ صرف بنائے گیے، بلکہ پورے ہندوستان میں کوشش کی گئی کہ مسلمان اپنے دین ومذہب پر قائم نہ رہیں، اور ان میں ایک ایسی نسل پروان چڑھائی جائے جو جسمانی طور پر ہندوستانی اور دل ودماغ کے اعتبار سے انگریزی تہذیب وثقافت کا نمونہ ہوں، یہی وہ دور ہے جس میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دار العلوم قائم کرکے اس سیلاب بلا خیز کو روکنے کی عملی جد وجد کا آغاز کیا ، اورجب پورے قانون الٰہی پر عمل در آمد کی شکل باقی نہیں رہی ، تو ایسے قوانین جن کا تعلق مسلمانوں کے آپسی معاملات سے تھا ، مثلا نکاح، طلاق ، خلع ، وراثت ،ہبہ ، پرورش ، وصیت وغیرہ جس میں ہمیں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے سے سابقہ نہیں پڑتا اور جس میں دونوں فریق مسلمان ہوتے ہیں، ان پر عمل کرنے کی اجازت باقی رہی ، اسے باقی رکھنے کےلئے علماءنے جو قربانیاں دی ہیں، اسکی داستان بڑی طویل ہے، ان قربانیوں کے نتیجے میں مسلم پرسنل لا یعنی شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937ءپر آزادی سے پہلے بھی عمل ہوتا رہا اور آزادی کے بعد بھی دفعہ 25 کے تحت اس آزادی کو باقی رکھا گیا اور واضح کیا گیا کہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے معتقدات اور رسم ورواج کے مطابق زندگی گذارنے کی مکمل آزادی ہوگی اور ان کے پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا۔
ہم ہندوستانی مسلمان اسلامی افکار وعقائد اور احکام وہدایات کے پابند ہونے کے ساتھ ہندوستانی آئین کی بھی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، اسی لیے جب جب دفعہ 25کے بنیادی حق پر حکومت حملہ کرتی ہے توہم دستورکے تحفظ کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں اور حکومت کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کے پرسنل لا کو ختم کرنے کی کوشش در اصل دستور ہند کی خلاف ورزی ہے، اور ہم جیتے جی ایسا نہیں ہونے دیں گے ، اس کے لیے ہی لے پالک بل کی ہم نے مخالفت کی،نفقہ مطلقہ کے مسئلے پر شاہ بانو کیس میں ہم سڑکوں پر آئے اور دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعات کو بچانے کام کیا ، جس کے نتیجے میں متبنی بل اور طلاق کے بعد منٹی ننس کے قانون سے مسلمانوں کو الگ رکھا گیا۔
حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی، ہر دور میں مسلم پرسنل لا پر شب خوں ما رکر یکساں سول کوڈ لانے کی بات کی جاتی رہی اور اس کے لیے دستور کے رہنما اصول میں سے دفعہ 44کا سہارالیا جاتا رہا ہے، جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حکومت تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون بنانے کی کوشش کرے گی، اس دفعہ کا سہارا لے کر مختلف موقعوں پر عدالت نے بھی حکومت کو ایسا قانون بنانے کی تجویز رکھی، حالاں کہ جب دستور ساز کمیٹی میں اس دفعہ پر بحث ہوئی تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے یہ کہا تھا کہ کوئی پاگل اور نادان حکومت ہی مختلف مذاہب، قبائل اور نسلوں کے امتیازات کو نظر انداز کرکے اس قسم کا فیصلہ لے گی۔
 ہندوستان کے لا کمیشن نے مختلف موقعوں پر یکساں شہری قانون کے حوالہ سے عوام کی رائے مانگی تھی اور ہر بار مختلف مذاہب قبائل اور طبقات نے اس کی مخالفت کی اور لا کمیشن نے حکومت کو باور کرادیا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ 2024کا الیکشن آنے والا ہے، بھاجپا حکومت کے پاس انتخاب کے لیے کوئی ”مُدّا“ نہیں ہے، چنانچہ اس نے ہندو ووٹ کو متحد کرنے کی غرض سے پھر سے لا کمیشن کو عوامی رائے عامہ طلب کرنے کو کہا ہے، لا کمیشن نے صرف ایک ماہ14 جون سے14 جولائی تک کا وقت دیا ہے، اسی درمیان عوام اور مذہبی تنظیموں کو اپنی رائے کمیشن کو دینی ہے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ہدایت پر بڑے پیمانے پر رائے عامہ یکساں شہری قانون کے خلاف تیار کرنے کی مہم چل رہی ہے، سماج کے ہر طبقہ کو اس کام کے لیے جوڑا جا رہا ہے، ضلع وار دوروں کی ترتیب بن گئی ہے، ادھر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی اور اس کے ذمہ داران بھی اس کام میں لگ گیے ہیں، نتیجہ چاہے جو ہو، ہم اپنی حد تک کوشش کے پابند ہیں، اس سے ہمیں بھر پور جد وجہد کرنی چاہیے، زیادہ سے زیادہ میل لا کمیشن کو اس کی مخالفت میں جانے چاہیے، جس کا ایک نمونہ لوگوں تک پہونچانے کا کام کیا جا رہا ہے، آپ بھی ساتھ آئیے، اپنے احباب ورفقاءکو اس پر آمادہ کیجئے، یہ اس وقت کا بڑا کام ہے، قائدین کے اگلے قدم کا انتظار کیجئے،مگر ابھی میل بھیجنے سے زیادہ کچھ اور نہ کیجئے۔
مسائل آتے ہیں اور آتے رہیں گے، ہمارے قائدین کی مومنانہ فراست اور حکمت وبصیرت کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملتی رہی ہے، اب پھر وقت آگیا ہے، کیونکہ حکومت یونی فارم سول کوڈ کی راہ پر چل پڑی ہے، اس نے عدالت اور لا کمیشن دونوں کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ مسلم پرسنل لا پر سوالات کھڑے کئے جائیں ان سوالات واعتراضات کا سہارا لے کرمسلم پرسنل لا کو دفن کر دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلم پرسنل لا ہمارے دین وایمان کا لازمی حصہ ہے اورہم اس سے کسی بھی قیمت پر دست بردار نہیں ہو سکتے، اس معاملے میں سارے مسلک اور مکتب فکر کی ایک رائے ہے، مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت بھی انتہائی مضبوط اور عزم محکم کی پیکر ہے،ہمیں امید ہے کہ لے پالک بل او رنفقہ مطلقہ کی طرح اس معاملہ میں بھی فتح، حق کی ہوگی جوہمارے ساتھ ہے

ہفتہ, جولائی 08, 2023

صلاحیت کا غلط استعمال ٭ انس مسرورانصاری


صلاحیت کا غلط استعمال
Urudduinyanews72
      ٭ انس مسرورانصاری 
 
قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیامیں بے شمارقومیں پیداہوئیں۔عروج وارتقاء کی منزلوں سے ہم کنارہوئیں،رفعت وسربلندی نے اُن کے قدم چومے، لیکن طاقت واقتدارکانشہ طاری ہواتو غرور ونخوت میں مبتلاہوئیں،خودپرستی اور خدافراموشی کواپناشعاربنالیا،خداکی قائم کرد ہ حدوں سے اجتناب کیا۔ہراُس برائی کواختیارکیا، رواج دیاجوقو مو ں کے زوال کاسبب ہوتی ہیں۔آرام طلبی و عیش کوشی اور غفلت وبے خبر ی میں ایسے کھوگئیں کہ اُنھیں اپنی ذات اوراپنی طاقت کے سِواکچھ بھی نظرنہ آتاتھا۔اُن کے علماء اوردانشوربھول گئے کہ انسان کامقصودِ حیات کیاہے۔ انھوں نے اپنے فرائض ِمنصبی سے غفلت کا گناہ کیا۔دربارگیری ،حاشیہ برداری اورجاہ طلبی اُن کی زندگی کامقصدومشن بن گئے۔وہ بھو ل گئے کہ خدانے اُنھیں دینی ودنیاوی منفعت بخش علوم سے سرفرازکیا ہے۔ دینی و دنیاوی سعادتیں عطا فرمائیں توقوم کی صحیح رہنمائی کاذمّہ دار بھی ٹھہرایا۔ مگروہ اپنی رہنمایانہ حیثیت کوفراموش کربیٹھے۔ طرح طرح کی لغویات اورخرافات کے اسیرہوگئے۔اس کے بعدبھی خدانے اُنھیں سنبھلنے اورپھرسے راہِ راست پرچلنے کے مواقع باربارعطاکیے۔لیکن جب اُن کی نادانیاں اورنافرمانیاں قدرت کے آئین سے متصادم ومتجاوزہونے لگیں ،ٹکرانے لگیں تو زوال کواُن کامقدرکردیاگیا۔پھروہ تباہ وبرباد ہوگئیں۔اُن کانام ونشان تک مٹ گیا۔بعض قومو ں کوتاریخ کے صفحات میں بھی پناہ نہ مل سکی اور نیست ونابود ہوگئیں۔ 
مصرکی فاطمی خلافت،بغدادکی خلافتِ عباسیہ ،خلفائے اسپین اورخلافتِ عثما نیہ کے جاہ وجلال اور سربلند ی و سرفرازی کی مثال نہ تھی۔اُن کے خلفاء یورپ کے بڑے حصے پرقابض ہوگئے تھے۔دنیاکے نصف سے زیادہ حصوں پراُن کاتسلّط تھا۔ وہ دینی ودنیاوی سعادتوں کے امام تھے۔یورپ کے کسی حکمراں کواُن سے آنکھیں چارکرنے کی مجال نہ تھی۔اُن میں ہمت تھی،بہادری اورشجاعت تھی،اُن کے بازوتواناتھے، نہ وہ خود چین سے بیٹھتے اورنہ اپنے عسکریوں کوآرام کا موقع دیتے،وہ خودبھی متحرک رہتے اوراپنی عسکری طاقت کوبھی متحرک رکھتے۔ خشکی پربھی وہ مقتدر تھے اورسمندروں پربھی حکمراں۔ عدل وانصاف،امن ومساوات،خداترسی،اتحادواتفاق اوراسلامی تہذیب وتمدّن کے وہ نگراں و محافظ تھے۔ انھوں نے علوم وفنون کوبہت فروغ دیا۔زندگی کے ہرشعبہ میں کارہائے نمایاں کیے۔پھراُن کے بعداُن کے جانشین آئے اورمحل سراؤں میں اسیرہوکرعیش پرستی میں مبتلاہوگئے۔اُن کے بازوکمزور ہوگئے۔اُن کی طاقت گھٹتی گئی۔وہ مخلوقِ خداسے غافل ہوکر شراب وشباب کے ہوش ربا طلسم میں کھوگئے۔یہ اُن کاآخری گناہ تھا۔پھراُنھیں قدرت نے معاف نہیں کیا۔صلاح الدین ایوبی نے اُس نام نہاد خلافت کوختم کردیااورایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ملّتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوکنارامل گیا۔قوموں کے زوال کے اسباب مختلف ہیں لیکن عیش پرستی اورمخلوقِ خداسے بے نیازی مشترک ہے ۔ بلاشبہ عہدِ عباسیہ میں علوم وفنون کوبڑی ترقی ملی۔بہت بڑے بڑے فلاسفراورسائنس داں پیدا ہوئے جن کے کارنامے تاریخ میں محفوظ ہیں۔خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں علمِ کلام کوعروج حاصل ہوااورخلقِ قرآن کافتنہ کھڑاہوا۔بہت سے حق پسندوحق پرست علماء وصالحین شہیدکردیے گئے۔مامون رشیدنے اُنھیں حق بیانی کے جرم میں سزائیں دیں۔امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کے ہمنواؤں کوقیدوبندکی صعوبتیں جھیلنی پڑیں،یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہوگئے۔مامون رشیدکے بعدبھی یہ فتنہ پُرجوش طریقے سے جاری رہا۔یہ خلفاء قرآن کومخلوق مانتے تھے ۔اُن کے حامی مصلحت پسند علماء کی تعدادکثیرتھی۔پھر ایک انقلاب پسند اورحق بیان پیداہوا۔اس نے کہا۔‘‘جس بات میں رسولِ خداخاموش رہے۔ان کے اصحاب چپ رہے۔تابعین کی جماعت خاموش رہی’اس بات پرتم لوگ بحث کررہے ہو‘جراح وتعدیل اورتاویلات سے کام لے رہے ہو‘یہ بڑی جسارت کی بات ہے۔’’ اس کے بعد یہ فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔ جس علم الکلام کی بنیادپریہ فتنہ کھڑاہوتھا،وہ علم مسلمانوں کوبہت مرغوب ومحبوب تھا۔خلافتِ عباسیہ کے آخری عہد میں علم کلام نے ایک نئی کروٹ بدلی۔اُس کی بنیادپرمناظروں کی گرم بازار ی شروع ہوئی۔مسجدوں میں مناظرے۔شاہراہوں اوربازاروں میں مناظرے۔مسلکی مناظرے۔ نسلی مناظرے۔ارضی وسماوی مناظرے۔ قسم قسم کے مناظرے ومباحثے ۔ طرح طرح کے موضوعات پر اِن مناظروں نے دیگرعلوم کی اہمیت کوکم کردیا۔پوری قوم مناظرہ بازی کے مرض میں مبتلاہوگئی۔ لیکن علم الکلام ہویا کوئی دوسراعلم، اپنے آپ میں اچھایابرانہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کم ظرف آدمی کوعلم حاصل ہوجائے تووہ اُس کواپنے مزاج ومذاق کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگرمزاج صالح نہ ہوتوعالم کاعلم بھی شیطانی خرافات کاسرچشمہ ہو جاتاہے۔شہرت اورمعیشت کی طلب علمی سچائی کوکھاجاتی ہے۔علم کاغلط استعمال بہت برے نتائج سامنے لاتاہے۔چنانچہ اُس دور کے شہرت طلب علمائے سُؤ نے اپنے اصل کام دعوت وتبلیغ اورفروغِ دین وملّت کوپسِ پشت ڈال دیا۔ اپنی عسکری طاقت سے غافل آخری دَورکے خلفاء اپنی حرم سراؤں میں شراب وکباب کی لذتوں اورحسن وجمال کی رعنائیوں میں ایساگرفتارہوئے کہ پھررہائی نصیب نہ ہوسکی۔اپنے تحفظ اوربقاء کے جس تابوت میں یہ کیلیں ٹھونکتے آئے تھے،چنگیزخاں نے اُس میں آخری کیل ٹھونک دی اورخلافتِ عباسیہ کانام ونشان مٹ گیا۔مسلمان چُن چُن کر قتل کیے گئے۔معصوم بچوں کونیزوں پر اُچھالاگیا۔چنگیزخاں خداکاقہربن کرنازل ہوا۔زمین اپنی تمام تر فراخیوں کے باوجود مسلمانوں پرتنگ ہوگئی۔ 
خلافتِ اسپین کے زوال کے اسباب بھی مذکورہ دونوں خلافتوں سے مختلف نہ تھے۔قریب آٹھ سوسالہ اس خلافت کونااہل اورنا لائق بادشاہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے کفن پہنادیا۔مسلمانوں کاقتلِ عام ہوا۔وہ ذلّت کے ساتھ اسپین سے نکال دیے گئے۔عورتیں باندیاں بنالی گئیں اوراسپین میں بچے کھچے مسلمان غلام ہوگئے۔ عیسائیوں نے اُن کے عبادت خانوں کوگر جا گھروں میں تبدیل کرلیااورباقی مساجد کو گھوڑوں کااصطبل بنادیا۔یہ اُس قوم کاانجام ہے جس کے بزرگوں کی بخشی ہوئی علم کی روشنی سے سارایورپ جگمگارہاہے۔ 
ہندوستان میں مغل سلطنت کاعروج تاریخ کاایک زرّیں باب ہے۔اور نگ زیب عالمگیرتک اس سلطنت کی حدودمیں اضافہ ہوتارہا۔کوئی طاقت مغلوں کاسامناکرنے کی جرأت نہیں رکھتی تھی۔ اورنگ زیب نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے بعد حکمراں طبقہ آپسی اختلافات کاشکارہوگیا۔کشمیرسے کنّیاکماری اور رنگون سے کابل تک پھیلی ہوئی اس عظیم الشان سلطنت کے زوال کے اسباب بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ اورنگ زیب کے بعد کئی بادشاہوں نے تخت وتاج کوسنبھالا مگراُن کابوجھ اُٹھانے کی طاقت کسی میں بھی نہ تھی۔ ہمیشہ کی طرح عیش پرستی،بزدلی،خو ابِ غفلت اورعلمی انحطاط کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت سمٹتے سمٹتے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے عہدمیں صرف دہلی تک محدودہوگئی۔بس لمبے لمبے القاب باقی رہ گئے۔جب کلکتہ سے انگریزی فوج دہلی کی طرف بڑھ رہی تھی اورمنزلوں پرمنزلیں سرکرتی ہوئی دہلی کی طرف چلی آرہی تھی اُس وقت بوڑھااورکمزوربادشاہ اپنی عسکری طاقت کاجائزہ اوراسلحوں کی درستی اورفراہمی کے بجائے شطرنج کھیلنے اورغزلیں کہنے میں مصروف تھا۔اُس کے حاشیہ نشین شعراء ومصاحبین اُس کی شان میں قصیدے کہہ کہہ کراُسے گمراہ کررہے تھے۔اُس مجبوراوربے بس دعاگوبادشاہ کو ظلِّ الٰہی اورسلطانِ عالم کے القاب سے پکارتے تھے۔ دشمن منزل بہ منزل بڑھتاچلاآرہاتھا اوربادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے اورقسم قسم کے جانورپالنے اوران سے دل بہلانے میں مست تھا۔بچی کھچی فوج کوتنخواہیں نہیں مل پاتی تھیں۔اسلحے زنگ آلودہو گئے تھے۔بادشاہ شاعرانہ ومتصوفانہ تخیّلات کی دنیا میں فر ارہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کی حالت اُس شترمرغ جیسی ہوگئی تھی جوخطرہ محسوس کرتے ہی ریت میں گڑھاکھودکر اپنے سر کو چھپالیتاہے اورخیال کرتاہے کہ وہ دشمن کی نگاہوں سے محفوظ ہے۔ 
 مغلیہ سلطنت کے زوال پذ یر عہدکی دہلی میں عوام اورخواص کی خصوصی تفریحات کے دوبڑے ذرائع تھے۔ایک تومشاعرے اوردوسرے طوائفوں کے مجرے۔خاقانیِ ہندذوقؔ دہلوی اپنی بلاغت۔ مرزاغالبؔ اپنی فکری اورفلسفیانہ بصیرت۔مومنؔ اپنی معاملہ بندی ورومان پسندی اورداغؔ اپنی سادگی وفصاحت میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔مشاعروں کی محفلیں بڑے پیمانے پربرپاہوتیں۔طوئفوں سے مجرے سننا،ان کے بالاخانوں پرجانا،رسم وراہ رکھناتہذیب وشرافت میں داخل تھے۔اپنے بچوں کی تہذیبی تربیت کے لیے طوائفوں کی خدمات حاصل کرنااس زمانے کے شرفاء کی خاص امتیازی شان تھی۔اُس زمانہ میں ‘‘اودھ اورشاہانِ اودھ’’ کابھی یہی عالم تھا۔نزاکت ایسی کہ سامنے کھیرایاککڑی کاٹ دو تو زکام ہوجائے۔اپنے اقتدارکے لیے قوم کاسودا کرنے والے ان عیش پرستوں نے قوم کوبیچ دیا
ایسٹ انڈیاکمپنی شہروں پرشہراورقصبوں پرقصبے فتح کرتی ہوئی تیزی سے دہلی کی جانب بڑھ رہی تھی مگردہلی والے طوائفوں سے مجرے سننے اورمشاعروں میں شعرأ کودادوتحسین سے نوازنے میں مصروف تھے۔مشہورہے کہ مرزاداغؔ نے دہلی میں شاعری کاوہ جادوجگارکھاتھاکہ سامعین اُن کی غزلیں سن کر مسحورہوجاتے۔کہتے ہیں کہ جب داغؔ مشاعروں میں اپناکلام سناتے تو دادوتحسین کے شور سے مشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑ جاتیں۔ذوقؔ وغالبؔ،مومنؔ وداغؔ کے علاوہ اردواورفارسی کے بہت سے اہلِ کمال وفن جوذہانت وذکاوت اورلیاقت وصلاحیت کے اعتبارسے اعلاترین معیارپرتھے،زندگی بھر شعرکہتے اوردادوتحسین وصول کرتے رہے۔اسی پروہ خوش تھے،قانع و مطمئن تھے۔جن کے شعروں پرمشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں اورجوبہترین دماغ اوراعلا صلاحیتوں کے مالک تھے۔اپنی قوم کے لیے کوئی ایساعلمی وتعمیری کارنامہ نہ کرسکے جس پر آج ان کی قوم فخرکرسکتی۔ سودوسوغزلوں کے بجائے انسانیت کی ترقی اور تحفظ کے لیے صرف ایک تھیوری اور سائنٹفک نظریہ دے جاتے توآج پوری انسانیت ممنونِ احسان ہوتی۔حدتویہ ہے کہ جولوگ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کوافیون دے کرسُلارہے تھے،جب 1857ء میں قوم پر سامراجی مظالم کی جابرانہ افتادپڑی تو یہی لوگ قوم کوغنودگی کی حالت میں چھوڑکرحصولِ عیش و معاش کے لیے دوسری ریاستوں کی طرٖف بھاگ کھڑے ہوئے۔قدرت نے انھیں اعلادماغ اور بہترین صلاحیتوں سے نو از ا تھا۔زمانہ شناسی کی لیاقت عطاکی تھی۔یہ لوگ چاہتے تو قوم کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگرانھوں نے کچھ نہ کیا۔ زندگی بھراپنی خدادادصلاحیتیں غیرضروری سمتوں میں صرف کرتے رہے۔وہ ایسے محاذ وں پراپنی ذہانت کامظاہرہ کرتے رہے جہاں سے اُن کی زوال پزیرقوم کو کو ئی بھی فائدہ پہنچنے والانہ تھا۔ 
اسی طرح منصورحلّاج کی زندہ کھال کھینچی گئی ۔کیونکہ انھوں نے اپنے اندرخداکوپایاتھا۔باب کو1850ء میں ایران میں اس لیے گولی ماردی گئی کہ وہ اپنے آپ کوامام موعودسمجھتے تھے۔مرزاغلام احمدقادیانی نے انکشاف کیا کہ مسیح وکرشن کی روح اُن کے اندرحلول کرگئی ہے۔مگریہ لوگ جومابعدالطبیعاتی دنیامیں اتنی بلندپروازیاں دکھارہے تھے،اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں پیداہواجوانسانیت کوسائنٹک علوم میں کوئی نیاطریقہ یانئی دریافت دے جاتا۔ 
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیرمیں مسلم قوم کے زوال کی رفتاربڑھتی ہی گئی۔ایسالگتاہے کہ اس قوم کے زوال کی کوئی حدہی نہیں کہ جس پر نشاۃ ثانیہ کی بنیادقائم ہو۔یہ قوم ابھی زوال پزیرہے اورزوال یا فتگی کے آثارتک نظرنہیں آرہے ہیں۔اس قوم نے ایسے علماء اوردانشورنہیں پیداکیے جواس کارخ اس کے اصلی مرکزومحوراورمرجع کی طرف موڑدیتے۔اس کامقدربدل دیتے۔قوم فرقوں،طبقوں اوربرادریوں میں بٹ گئی۔منتشرہوگئی۔اس کی ساری قوت بکھرگئی۔زندگی کے ہرمحاذپرنا کام ونامرادہوگئی۔قانونِ قدرت ہے کہ اس کائنات میں جوچیز اپنی نفع بخشی کھودے،اسے پرے کردیاجائے،ہٹادیاجائے۔مٹادیاجائے۔اس کائنات کوغیرضروری اورغیرمنفعت بخش چیزوں کی ضرورت نہیں۔دوسروں کے لیے نفع بخشی ہمیشہ ایثاروقربانی،بھلائی وخیرخواہی،بھائی چارگی اوراحساسِ ذمّہ داری کی بنیادپرممکن ہے لیکن اس قوم نے اس جذبہ واحساس کوبھی کھودیا اوربھول گئی کہ وہ جن کی محبت کادم بھرتی ہے۔جن کادامن نہ چھوڑنے کی باربار قسمیں کھاتی ہے ،اللہ کے اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے باربارفرمایاہے کہ مسلمان،مسلمان کابھائی ہے،اس کے لیے وہی کچھ پسندکرے جووہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔’’ اس قوم نے اجتماعیت اوروحدت کے اس بنیادی سبق کو فراموش کردیا۔ یہ بھی بھول گئی کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ نافرمان قوموں کو مٹادیتاہے اورایسی قوم کواسلام کی توفیق عطافرماتاہے جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔اپنی انفرادیت کوکھوکرمسلم قوم نے غیرقوموں کے شعارکواپنالیا۔ان کی مماثلت ومتابعت اختیارکی۔ عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن اتوارکومقررکررکھاہے توعام مسلمانانِ برصغیرنے خداکی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن ‘‘جمعہ’’ کومخصوص کرلیاہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی ایک دن خداکی عبادت کرتی ہے۔اس قوم نے یہودیوں سے ‘‘سودخوری ،عیسائیوں سے ‘‘لباس’’اوراہلِ ہنودسے ذات اورشخصیت پرستی کے علاوہ ان کی سماجی برائیوں کوبھی رضاورغبت کے ساتھ قبول کرلیاہے۔اب اس قوم کے پاس اس کااپناکیابچا۔؟یہ سوال خود ہی اپناجواب ہے۔ 
زندگی کی ہرسطح پر قوم کے علماء اوردنشور اس کے نگراں ومحاظ ہوتے ہیں۔ان کی حیثیت رہنمایانہ ہوتی ہے۔وہی قوم کوصحیح راستوں کی طرف لے جاتے ہیں۔صحیح خطوط پرچلاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمّہ داری ہے۔لیکن کیاخیرِ اُمّت کی صورت میں یہ ذ مّہ داری پوری کی جاری ہے۔؟یہ ایک بڑااور اہم سوال ہے۔ 
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ فرقوں،طبقوں،برادریوں اورمزید گروہوں میں بٹی ہوئی منتشر قوم نے اپنے تہذیبی وتمدّنی اورمعاشرتی نظام کے تاروپودبکھیرلیے ہیں۔اپنی ساری اچھائیاں دوسری قوموں کوبخش کراُن کی ساری برائیاں ،خرافات اورمذموم رسوم ورواجات کواپنے معاشرہ میں رائج کر لیا ۔ نصرانیوں،یہودیوں اورہندؤں کے بہت سے طریقے اپنالیے۔اس قوم کااپناکیابچا۔؟ 
قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے
اس کی ایک مثال ‘‘جہیز’’جیسی جابرانہ بدعملی ہے۔اسلام سے جس کاکوئی تعلق نہیں۔یہ خالص ہنودی رسم ہے جوسناتن دھرم سے جڑی ہوئی ہے اورجوکسی بھی معاشرہ کے لیے کینسرجیسی مہلک بیماری ہے ،مسلمانوں نے بڑے فخرکے ساتھ اپنے معاشرتی نظام کالازمی حصّہ بنیالیااوراُن کے علماء ودانشورخاموش ہیں۔ دیمک کی طرح چاٹ جانے والی جہیزکی رسم نے مسلم سماج کوناخواندہ وپسماندہ بنادیا۔ جہیزکی اسی لعنت کی وجہ سے آج مسلم بچیاں غیرمسلموں کواپنی زندگی کاہم سفر بنانے پرمجبورہیں۔ ان کے والدین کے پاس ‘‘جہیز’’کی استطاعت نہیں ہوتی۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت بھی ناگزیر ہے۔یاپوری زندگی تنہائیوں کی نذر ہوجاتی ہے۔سیاہ بالوں میں چاندی کے تارآجاتے ہیں اور آنکھوں میں سارے سہانے خوب مرجاتے ہیں۔جہیزکی اسی لعنت کے سبب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بچیوں کوخداکی رحمت کہاگیاہے۔لیکن جب یہ رحمت نازل ہوتی ہے تو لوگوں کے چہرے فق ہو جاتے ہیں۔ اُترجاتے ہیں۔ ایسانہیں کہ انھیں بچیوں سے پیارنہیں۔کبھی کبھی توبچوں سے زیادہ اپنی بچیوں کوپیار کرتے ہیں۔مگر کیاکریں کہ جہیزکابوجھ ان کی کمروں کودہراکردیتاہے۔اسی بوجھ کوہلکاکرنے کے لیے وہ بچوں کو تعلیم کے بجائے کام پرلگالیتے ہیں تاکہ اپنی بچیوں کے لیے جہیز کی رقم جمع کرسکیں۔زمانۂ جاہلیت میں وحشی عرب اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیاکرتے تھے۔مگرہمارے زمانے میں انھیں پیداہی نہیں ہونے دیاجاتااورماں کے شکم ہی میں دفن کردیاجاتاہے۔کچن میں زندہ جلادیاجاتاہے۔ جہیزکی اس رسم اوردیگرخرافات نے پورے مسلم معاشرہ کی دھجیاں بکھیررکھی ہیں۔ ساراکرپشن اسی سے پھیلاہواہے۔جہیزکابوجھ نہ ہوتوہرباپ چاہے گاکہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں۔آگے بڑھیں،ترقی کریں۔ 
بھارت کی ‘‘سچرکمیٹی’’ کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے۔ وہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔مگران کے مصلحین کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔تباہیوں اوربربادیوں کاایک سیلاب ہے جس میں یہ قوم بہی چلی جارہی ہے۔جولوگ اس بہاؤ کوروک لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ بھی اسی میں بہے چلے جارہے ہیں۔ غیر ضروری محاذوں پر سرگرم ہیں۔اقبالؔنے کہاتھا۔ ‘‘توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر۔’’لیکن اس قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے زوال اورپستیوں کاسلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہاہے۔براہیمی صداقت کوجانتی ہے مگرشعلوں سے ڈرتی ہے۔عصائے موسوی ہاتھوں میں ہے اورسانپوں سے خوفزدہ ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کے لیے نمونے کاا یک مثالی معاشرہ قائم کیاتھاجو کا میابیوں اور کامرانیوں کاضامن تھا۔اس معاشرہ نے بڑے بڑے ریفارمراورہیروزپیداکیے جوپوری دنیاپر اثراندازہوئے۔جس
 میں جہیز اوربارات جیسی خرافات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔کوئی تصور نہ تھا۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالا عنہاکانکاح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایاتوانھیں جہیزنام کی کوئی چیزنہیں دی۔جوکچھ دیاوہ حضرت علی کودیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اُن کے کفیل اورسرپرست تھے۔نکاح کے سارے ا خراجات حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر اداکیے تھے۔ بعدکے زمانے میں اس فلاحی معاشرہ کومسلمانوں نے مستردکردیااوروہی کچھ کیاجویہودیوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیاتھاکہ نبی ورسول کوتومانیں گے لیکن اُن کے فرمودات پرعمل نہیں کریں گے۔اس نافرمانی پر اللہ تعالانے یہودیوں پرلعنت بھیجی۔یہودیت اس کے سواکچھ او ر نہیں کہ اپنے نبی ورسول کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جائیں اور خداکاشریک تک ٹھہرادیاجائے مگر اُن کی ہدایات پرعمل نہ کیاجائے۔کیامسلمان لعنت زدہ یہودی قوم کی راہ پرچل نکلے ہیں۔؟نافرمانی،خود غرضی،خودفریبی ،ناانصافی، بے ایمانی، لالچ،ہوس،ریاکاری،شراب نوشی،قماربازی، عشرت پسندی،سود خوری،وعدہ خلا فی، عدم مساوا ت،عدم صلہ رحمی،دھوکہ،مکر،فریب،تن آسانی،قتل وخون اورغارت گری۔!وہ کون سی برائی ہے جس کی لعنت میں مسلم قوم گرفتارنہیں۔پھربھی محبتِ رسول کادعویٰ ہے اوراس کے لیے جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔نتیجہ یہ کہ اللہ ورسول کے تمام ترواسطوں کے باوجود جب دعائیں نامقبول ہوجاتی ہیں توقوم شکایت پرآمادہ ہے کہ‘‘برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر’’۔اپنی ذات کے خول میں بندناجائزمفادپرستی میں مبتلااس قوم کونہ جانے کب اپنے محاسبے کی توفیق عطاہوگی۔ہوگی بھی یانہیں۔کیاپتا۔ 
ہیں دل محروم ضربِ لاالہ سے
صدف توہے گہر باقی نہیں ہے
نمازیں ہیں مگربے ذوق سجدے
اذاں ہے پر اثر باقی نہیں ہے

انس مسرورانصاری
 قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ،امبیڈکرنگر۲۲۴۱۹۰     
(یوپی)

حاجی محمد اسماعیل ؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

حاجی محمد اسماعیل ؒ  ___
Urudduinyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
17؍ مئی 2023ء بروز بدھ فجر کی معمولات سے فراغت کے بعد معمولا بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی حاجی محمود صاحب کا فون تھا، بتا رہے تھے کہ بھیا کا آج صبح چار بجے انتقال ہو گیا، دل ودماغ پر بجلی گری، تسلی، تعزیت اور دعاء مغفرت کے الفاظ آٓنسوؤں میں بہہ گئے، گلو گیر آواز میں الفاظ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا، چنانچہ میں نے موبائل کاٹ دیا، فکر جنازے میں شرکت کی فکر دامن گیر ہوئی،  مولانا قمر عالم ندوی   نے میرا اور اپنا ٹکٹ انڈی گو سے بک کرایا، اتفاق سے دو ہی سیٹ خالی تھی ، جنازہ میں شرکت مقدر تھی، اس لیے مل گئی، اور اس طرح ہم لوگ دس بجے کے آس پاس کولکاتہ پہونچ گیے، جب میت کی تجہیز وتکفین کا مرحلہ جاری تھا، حاجی صاحب مرحوم کے گھر پر گلشن بلڈنگ رین اسٹریٹ ہم لوگوں کی حاضری ہو گئی، ڈھائی بجے دن میں جنازہ کی نماز گوبرا قبرستان 1؍ نمبر میں ادا کی گئی ، میں نے حاجی محمود صاحب کو کہا کہ وہ جنازہ کی نماز پڑھائیں، حق تو ان کے بڑے صاحب زادہ نوشاد صاحب کا بنتا تھا، وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، حالاں کہ وہ انتہائی متشرع آدمی ہیں، لیکن انہیں ڈھارس کھو دینے کا ڈر تھا، جنازہ میں کم وبیش تین ہزار کا مجمع تھا، جن لوگوں کو میں دیکھ سکا، ان میں مولانا آفتاب عالم ندوی بانی وناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد، مولانا مفتی عبد الحئی صاحب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ برن پور، قاری شفیق احمد صاحب امام نا خدا مسجد کولکاتہ، مولانا عصمت اللہ رحمانی امام خیرو لین مسجد کولکاتہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاوید، میرے شاگرد حافظ شمشاد رحمانی بھی جنازہ کی صف میں نظر آئے، بعد میں ملاقات بھی ہوئی، حاجی صاحب نے پس ماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے، ایک بیٹی دو بھائی اور ناتی، نتنی، پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا گھر چھوڑا ہے، 22؍ مئی کو علاقہ کے لوگوں کی طرف سے خراج عقیدت کا پروگرام ان کے گاؤں چھپرا خرد میں رکھا گیا تھا، احقر کی اس میں بھی شرکت ہوئی، غیر مسلموں نے ان کی
شخصیات اور خدمات پر بھرپورروشنی ڈالی۔
 حاجی محمد اسماعیل بن حاجی رمضان علی بن حسین بخش کی ولادت 30؍ اگست 1946ء کو چھپرہ خرد ،ڈاک خانہ خواجہ چاند چھپرہ موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی، حاجی صاحب کی نانی ہال قریب کے گاؤں ویر بھان جلال پور تھی اور شادی چاند پور فتح ضلع ویشالی کے محمد حدیث صاحب کی دختر نیک اختر سے تھی، والد حاجی رمضان علیؒ کی زردہ کمپنی تھی اور وہ کمپنی صاحب سے ہی مشہور تھے،کولکاتہ میں پھیلا ہوا کاروبار تھا، اس لئے ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی، کچھ دن مدرسہ عالیہ کولکاتہ اور علی گڈھ میںبھی تعلیم کے سلسلے میں گذارا، بالآخر محمد جان ہائی اسکول کولکاتہ سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، کاروبار کا تقاضہ تھا کہ وہ والد کا ہاتھ بٹائیں، بڑے ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ان پر آگئی، اور انہوں نے تعلیم ترک کرکے کاروبار سنبھالنے کا فیصلہ کیا، اور اپنی ذہانت ، معاملہ فہمی ، خوش خلقی سے ممتاز ترین تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں کی اور پھر خاندان کے دوسرے لوگوں کی کامیاب تربیت کی، وہ اردو انتہائی خوش خط لکھتے تھے، حساب وکتاب میں ان کا ذہن خوب چلتا تھا، کاروباری اعتبار سے کہاں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، کس زمین پر رقم لگانی چاہیے اور کس زمین پر توجہ نہیں دینی چاہیے، انہیں خوب آتا تھا، مختلف کاروبار کے ساتھ ایک خاندانی پیشہ زردہ سازی کا ہے، اور زردہ کی خوشبو صارفین کو متوجہ کرتی ہے، اس لیے کس طرح اچھی خوشبو پیدا کی جا سکتی ہے، کن کن اجزاء کے استعمال سے نئی خوشبو پیدا ہوگی اس میں وہ کسی فارماسسٹ سے کم نہیں تھے، مہمان نوازی میں ممتاز تھے اور قسم قسم کی چیزیں دستر خوان پر سجا دینے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا، ہندوستان کا شاید ہی کوئی بڑا عالم بچ گیا ہو، جس کی انہوں نے دعوت نہیں کی ہو۔
 اللہ تعالیٰ نے انہیں نفع رساں بنایا تھا، مدارس ، مساجد، یتیم خانے، غربائ، مساکین سب پر ان کی نظر کرم رہتی ، اداروں کو موٹی موٹی رقم دیتے، اجتماعی شادی میں لاکھوں خرچ کرتے اور ہندومسلم سب کو وہ یکساں سمجھتے، ان کی شادی کے بعد رخصتی کا خاص اہتمام کرتے، زیورات اور ضرورت کے سامان دیتے، ان تمام کاموں میں ان کے گھر کی خواتین اور ان کے بھائی حاجی محمود عالم، حاجی محمد اسرائیل اور ان کے صاحب زادگان ان کا ہاتھ بٹاتے، انہیں معلوم تھا کہ کس سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے، اس لیے بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد کرتے اور پریشان ہونے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔
 اصلاح معاشرہ اور مسلکی خلیج کو دور کرنے کے لیے بھی وہ بہت فکر مند رہتے ، انہوں نے اس کے لیے اپنے والد کی قائم کردہ تنظیم انجمن اصلاح المسلمین کو پھر سے متحرک اور فعال بنایا تھا، شراب، جوا، جہیز سے پاک سماج کی تعمیر کے لیے انہوں نے بڑے چھوٹے کئی پروگرام کرائے، ایک امن کمیٹی بھی انہوں نے بنا رکھی تھی، اس کے ارکان غیر مسلم زیادہ تھے، صدر وہ خود تھے نائب صدر غیر مسلم کو بنایا تھا، جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا وہ کولکاتہ رہ کر وہیں سے اس کمیٹی کو احکام جاری کرتے اور لوگ ماحول کو پر امن بنانے میں لگ جاتے، اس کو مزید موثر بنانے کے لیے انہوں نے ایک بڑا اجتماع مارچ 2018ء میں پورینہ میں کیا تھا، جس میں ہندوستان کے بڑے علماء ، مولانا ارشد مدنی، مولانا اسرار الحق قاسمی کے ساتھ حقیر محمد ثناء الہدیٰ قاسمی بھی شریک ہوا تھا۔
 امارت شرعیہ اور اس کے ذیلی اداروں سے انہیں بڑی محبت تھی، اور مختلف موقعوں سے وہ اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فکر مند رہتے، کولکاتہ کوئی وفد جاتا تو اس کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے۔
 ان کی ذاتی زندگی مذہبی اعتبار سے قابل رشک تھی، جماعت خانہ ان کے گھر کی منزل پر تو زمانہ سے تھا، ابھی انہوں نے نیچے کے حصے میں گراؤنڈ فلور پرخوبصورت دیدہ زیب، نماز سے متعلق ضروریات سے مزین اور اے سی وغیرہ سے آراستہ شاندار جماعت خانہ بنوایا تھا، جس میں امام متعین کے ذریعہ پنج وقتہ نماز اور رمضان میں تراویح کی جماعت کا اہتمام بھی ہوتا رہا ہے، گاؤں میں بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ حسینیہ قائم کیا جو اچھی خدمت انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے اس مدرسہ کی شاندار اور دیدۂ زیب عمارت بنوائی، یوں تو اس خاندان کا تعلق پورے ہندوستان کے علماء سے رہا ہے، لیکن مربی کی حیثیت سے مولانا محمد تسلیم رحمانی نائب ناظم جامعہ رحمانی اور مولانا سید محمد شمس الحق صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر سے بڑا مضبوط اور مستحکم رہا ، اس کی وجہ سے دولت کی ریل پیل کے باوجود یہ خاندان کبر وغرور سے دور اور خاندان کے تمام افراد کے چہرے پر داڑھی اور مذہب کی پابندی کے اثرات نمایاں ہیں، ان دونوں بزرگوں کے بعد یہ خاندان مذہبی معاملات میں مجھ سے رجوع کرتا ہے، میں نے اس خاندان کے کئی لڑکے لڑکیوں کا نکاح مسجد میں پڑھایا ہے ان لوگوں نے پانی اور ایک گلاس شربت بھی لڑکی والوں کی طرف سے قبول نہیں کیا،البتہ ولیمہ میں بڑا اہتمام ہوتا ہے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔
 حاجی صاحب کے بھائی حاجی محمود عالم صاحب کی بہت ساری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اس میں حاجی محمد اسماعیل مرحوم کی حوصلہ افزائی کا بڑا دخل رہاہے ، ایسی با فیض اور نفع رساں شخصیت کا ہم سے جدا ہوجانا انتہائی غم والم کا سبب ہے، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پورے خاندان کو صبر کی دولت سے مالا مال کر دے ۔ آمین یا رب العالمین

*ندائے فلک*📢 *کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

*ندائے فلک*📢 

*کردار کی تاثیر*✒️📚📚📚📚📚
اردودنیانیو۷۲
*بہ🖋️ قلم : محمد* *انواراللہ فلک قاسمی*
 *مؤسس و معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار و رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدر جمعیت علماء ضلع سیتامڑھی بہار*
⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️⚜️
کردار و عمل میں توافق و ہم آہنگی سے شخصیت مؤثر ہوتی ہے اور اس کی تاثیر سے ، بظاہر مشکل ترین کام ، صرف سہل نہیں ، بلکہ آسان ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی تنظیم *آل انڈیا* *مسلم پرسنل لاء بورڈ*
 کی تحریک و ہدایت پر ، *یکساں سول کوڈ*
 کے موضوع سے ، ملک گیر سطح پر بیداری مہم کا سلسلہ جاری ہے اور *لاء کمیشن آف انڈیا*
 کو یکساں سول کوڈ سے متعلق خطرات ، اندیشے اور اس کے مضمرات پر مشتمل رائے بھیجی جارہی ہے اور یہ وقت کا اہم تقاضا ہے ۔
بہار کے مختلف اضلاع میں متعدد پروگراموں کے ذریعے ، *بیداری مہم*
 چلائی گئی ہے اور چلائی جارہی ہے اس میں *ضلع سیتامڑھی* کا بھی نمایا نام ہے ۔ یہاں کا سب سے پہلا پروگرام ، *امن و ہار ہوٹل*
 ، شہر سیتامڑھی میں منعقد ہوا اور اسی دن بعد نمازِ ظہر ، *ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور* کی وسیع و عریض  *"مسجد ایمان"*
 میں ضلع کی بیشتر تنظیموں اور جماعتوں و جمعیتوں کے احباب و ارباب کے ساتھ اچھا اور نمائندہ پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ۔ اس پروگرام کے کامیاب انعقاد پر *مفکر قوم ملت حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نائب ناظم امارت شرعیہ ، رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ وصدر ادارہ خلیفہ و مجاز حضرت مولانااسلام صاحب نوراللہ مرقدہ* 
 نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی کہا کہ صرف دو دن  میں مشترکہ پروگرام ، کامیابی کے ساتھ منعقد کرنا اور علاقے میں کام کرنے کے لیے نوجوانوں کی ٹیم ترتیب دے کر اس کو مشغول کر دینا یہ بڑی بات ہے ، لیکن اس پروگرام کے بعد حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو یہ احساس ہوا کہ جس طرح *ادارہ سبیل الشر یعہ*
 میں پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ہے اگر اسی طرح ضلع کی دوسری بڑی مسلم آبادیوں میں پروگرام منعقد ہوجائے تو بڑی تیزی کے ساتھ کام آگے بڑھے گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے ذاتی اثرات سے تحریک کی اور اس کے لیے ضلع کے فعال ، ذاکر و شاغل ، نوجوان  *حضرت قاری محمدمامون الرشید صاحب استاذ مدرسہ طیب المدارس پریہارخلیفہ ومجاز بیعت رشیدالامت حضرت مولاناعبدالرشید صاحب المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراٸے میر اعظم گڑھ یوپی* 
 کو مکلف کیا کہ نیپال کی سرحد سے متصل مسلمانوں کی بڑی آبادیوں میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر *بیداری مہم*
 کا نظام بنائیں ، اب وقت کم رہ گیا ہے اور کام بہت ہے ۔ بس کیا تھا کہ * قاری محمد مامون الرشید صاحب حفظہ اللہ *
 نے اپنے حلقۂ اثر کو متوجہ کیا اور تین ( 3) جولائی سے لے کر پانچ ( 5) جولائی تک *مسلسل بیداری مہم* کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اسی درمیان *عزیزی حافظ ابراراحمد غازی سلمہ * نے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے گذارش کی کہ حضرت !  پروگرام کے اختتام پر، متصلاً اپنی رائے ، *لاء کمیشن*
 کو بھیجنے کا اہتمام و التزام کرایا جائے تاکہ کام میں تیزی آ سکے  ، تو یقیناً کام بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ جائے گا۔ یہ رائے حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ  کو بہت پسند آئی اور پورے نظام میں اس پر عمل کیا گیا ، ماشاءاللہ اس سے کاموں میں اضافہ  ہونے لگا اور بہار کی کارکردگی نمایا ہونے لگی ۔  ابراراحمد غازی اور دوسرے نوجوان اس کام کے لیے مسلسل مصروف عمل رہے ، اس طرح کاموں میں تیزی آئی اور بہار کی کارکردگی میں اچھا اضافہ ہوا ۔ حضرت مفتی صاحب نے ابراراحمد غازی کی حوصلہ افزائی کی اور پورے سفر میں اس عزیز کی گذارش سے فائدہ اٹھایا گیا ۔ اس طرح دوسرے  سفر کا آغاز * مدرسہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیرت گلی ، راجوپٹی سیتامڑھی*
 سے ہوا اس کے بعد *چکنی ، بھٹھا مور* کی * جامع مسجد *
میں بڑے پیمانے پر منعقد ہوا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ، وہاں *حضرت مولانا و مفتی نذیر احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ*
 نے اپنی پوری جماعت کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کا *والہانہ استقبال 
 کیا اور ایسی بیداری پیدا کی کہ ہر فرد نے اس کام کو اپنا کام سمجھا  ، یہاں تک کہ اپنی اور گرد و پیش کی پوری آبادی کو بیدار کردیا ، اس کے بعد میزبانوں کی ترتیب کے مطابق * مدرسہ طیب المدارس پریہار* میں رات کا قیام ہوا اور صبح ، بعد نمازِ فجر *مجاھدِ ملت اکابرِ* *دیوبند کے عکس جمیل ، حضرت مولانا* *حکیم ظہیر احمد* *صاحب خلیفہ و مجاز مخدوم بہار عارف باللہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق ناظم الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں*
 کی عیادت و زیارت اور ان کی با فیض مجلس سے استفادہ کیا گیا ۔ طے شدہ نظام کے مطابق صبح کی چائے کے بعد حضرت مفتی صاحب ، کنہواں پہنچے ۔ کنہواں ، چونکہ بڑی آبادی پر مشتمل ایک قصبہ ہے اور اس کے کئی محلے ہیں اور ہر محلہ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اس میں ایک محلہ *نام نگر*
 کے نام سے موسوم ہے اس پورے محلے پر *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 کے اچھے اثرات ہیں اور ان کی قریب ترین ، رشتہ داریاں بھی ہیں ، اس لیے وہاں کا نظام بھی بہت وقیع تھا اور میزبانوں کی بیداری کا جیتا جاگتا شاہکار  ثبوت بھی ۔ وہاں بھی پروگرام کے اختتام پر عملی پیش رفت ہوئی اور خوب ہوئی اس کے بعد *ایکڈنڈی پریہار* کی مسجد میں پروگرام کا انعقاد ہوا اور اسی دن شام میں پپراڑھی میں بعد نمازِ مغرب تا عشاء ایک بڑے پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا
جس کےمیزبان *فاضل نوجوان حضرت مولانا خورشید احمد صاحب قاسمی( خلیفہ* *ومجازحضرت مولانا حکیم ظہیر احمد صاحب قاسمی* *(پریہار) تھے*
 جس میں علاقے کے تمام مدارس کے ذمہ داروں کو بطورِ خاص دعوت دی گئی اور ان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا اس طرح وہاں کا نظام بھی مثالی نظام رہا مختصر یہ ہے کہ راجوپٹی، سیتامڑھی سے لے کر چکنی ، پریہار ، ایکڈنڈی ، نام نگر کنہواں ، پپراڑھی ، چمڑا گڈاون بیرگنیا اور پتاہیں کا پروگرام *حضرت مولانا و مفتی محمد ثناء الھدیٰ  صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ 
 کے ذاتی اثرات اور *قاری مامون الرشید صاحب*
 کی فکر و مساعی اور جہدِ مسلسل سے بہت کامیاب رہا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ: *شخصیت کے کردار و عمل کی تاثیر بہت موثر ہوتی ہے*
 صرف بینر ، بوڈ ، عہدہ ، منصب ، نسب شور و غوغا اور تجویز و تجاوز مؤثر نہیں ہوا کرتے ۔
*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک رکن* ہونے کی حیثیت سے میری بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ:
 ہم اس نظام کو تقویت پہنچائیں، چنانچہ تمام پروگراموں میں شرکت رہی اور ہر ممکن تعاون دینے کی سعادت ملی ۔
*میں ذاتی طور پر* مخلص و محترم جناب *قاری محمد مامون الرشید صاحب*
 ، *قاری نیر صاحب*
 اور ان کی پوری ٹیم ، معاونین و محبین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہی نہیں، بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ: جب کبھی *ملک و ملت* کو ہماری ضرورت پڑی ، تو ہم اپنے اسلاف کے نقشِ پا کے *علمبردار*
 اور ان کی شفاف زندگی کو اپنے لیے آئینہ بنائیں گے  ۔ان شاءاللہ 

💚♾️♾️♾️♾️💚

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...